علوم مشرقیہِ کے فروغ میں منشی نول کشور کی خدمات
منشی نول کشو ر: حیات اور شخصیت
تاریخِ پیدائش: دسمبر ۱۸۳۶ ء تاریخِ وفات: ۱۹ فروری ۱۸۹۵ء
منشی نول کشور ضلع متھرا کے ریٹرھا نامی گائوں میں دسمبر۱۸۳۶ء میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد بابو جمنا داس بھارگوا، موضع سانسی ضلع علی گٹرھ کے رئیس تھے۔ان کے پانچ بیٹے تھے۔ ایک نول کشورسے بٹرے اور باقی چھوٹے تھے۔منشی نول کشور کے دادا منشی بال مکند انگریزی عہد میں آگرہ کے مہتمم محافظ خانہ تھے اور انھوں نے آگرہ اور متھرا میں جائداد بھی خرید لی تھی۔اس لئے ان کے خاندانکے افراد کا قیام اکثر ان اضلاع میں بھی رہتا تھا۔چھ سال تک تو منشی نول کشور بھی متھرا اور آگرہ میں ہی رہے، اس کے بعداپنے آبائی وطن سانسی آ گئے اور وہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اُس زمانے کے رواج کی مطابق ان کی تعلیم مکتب میں ہوئی جہاں انھوں نے فارسی درسیات کی متداول کتابیں پڑھیں، عربی زبان بھی سیکھی۔اپنے دوسرے بھایئوں کے مقابلہ میں وہ زیادہ ذہین اور تحصیلِ علم کے شائق تھے۔دس سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم مکمل کر لی اور ان کو ثانوی تعلیم کے لئے آگرہ بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے آگرہ کالج میں داخلہ لیا اور پانچ سال تک محنت اور لگن سے تحصیلِ علم میں مصروف رہے، کتابوں کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔اسی زمانے میں مضموننگاری کا شوق پیدا ہوا اور لکھنے کی مشق شروع کر دی۔تھوڑے عرصہ میں ان کے مضامینــــــ’’ سفیر آگرہ‘‘ میں شائع ہونے لگے۔جو اس زمانہ میں شمالی ہند وستان کا ایک مشہور اور با اثر اخبار سمجھا جاتا تھا۔ عام طور سے ان کے مضامین پسند کئے گئے، حکومت نے بھی حوصلہ افزائی کی اور وظیفہ بھی مقرر کر دیا۔
منشی نول کشور مذہباََ ہندو تھے۔اپنے مذہبی عقائد و اعمال میں پختہ تھے لیکن دوسرے مذاہب کی عزت کرتے تھے۔بحیثیت انسان بہت بلند نظر اور مذہبی تعصب سے یکسر بے نیاز تھے، وہ ہندوستان کی سب زبانوں سے محبت کرتے تھے۔ان کے پیشِ نظر سب ہی کی خدمت تھی۔وہ ہندوستان میں پھیلے ہوئے تمام مذاہب کی قدرومنزلت پہچانتے تھے۔بحیثیت مضمون نگار منشی نول کشور کو خاصی شہرت حاصل ہوئی۔منشی پرسکھ رائے بھٹناگر اور دیوان چند میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور دونوں اپنے اپنے اخباروں میں ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے تھے۔منشی نول کشور کچھ عرصہ تک سفیرآگرہ کے مہتمم رہے اور انھوں نے حکمت علمی سے س نزاع کو ختم کرایا۔منشی پرسکھ رائے نول کشور کی ذہانت سے متاثر ہو کر ان کو لاہور آنے کی دعوت دی جس کو انھوں نے قبول کر لیا اور لاہور چلے گئے اور مطبع کوہِ نور کا سارا کاروبار ان کی نگرانی میں آگیا۔
لاہور میں منشی نول کشور چار سال رہے۔ان کی عمر کا اکیسواں سال شروع ہو چکا تھا اور ۱۸۵۸ء کی تحریک جنگ آزادی کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔منشی نول کشور کے خیالات میں بھی انقلاب ہو رہا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سارے ملک میں جہالت وافلاس کا دور دورہ تھا اخلاقی قدریں دم توڑ رہی تھیں، نئی تہذیب جنم لے رہی تھی جس میں مغربی تہذیب و تمدن کت اثرات نمایاں تھے۔لکھنوء صدیوں سے علوم و فنون کا گہوارہ تھا۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں نے اس تہذیبی مرکز اور علم و ادب کے گہوارہ کو بھی تباہ و برباد کر دیا تھا لیکن پھر بھی اسی شہر کے آغوش میں مشرقی تہذیب و تمدن اور علم و فن کا چراغ ابھی غل نہیں ہوا تھا۔مشرقی علوم و فنون کا یہ عظیم مرکزتباہ و برباد ہونے کے باوجود بھی مرجع خاص و عام تھا۔ منشی نول کشور کی دور رس نگاہوں نے اس شہر کی اہمیت کو بھانپ لیا اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسی کا انتخاب کیا۔اپنی محنت، لگن اور کوشش سے وہ ہینڈ پریس لگانے میں کامیاب ہوئے۔پریس کا سارا کام وہ خود کرتے تھے اور انھوں نے جلد ہی دو اردو اخبار ’’ کارنامہ‘‘ و ’’اودھ‘‘ نکالنا شروع کیا۔ کارنامہ جلد ہی بند ہو گیا لیکن اودھ اخبار نے اردو ادب تاریخ میں ایک الگ اہمیت حاصل کر لی۔اودھ اخبار نے سرشارؔ اور شررؔ کو اردو ادب سے روشناس کرایا۔
مطبع اودھ اخبار
یہ مطبع منشی نول کشور کے ہاتھوں ۱۸۵۸ء میں قائم ہوا تھا۔اوراس میں سیکڑوں لوگ کام کرتے تھے۔اودھ اخبار مطبع ۲۴ مئی ۱۸۷۰ء صفحہ ۵۰۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنوء کے علاوہ اس کی شاخیں کان پور، دریبہ کلاں دہلی اورعظیم آباد، بازار گورٹہ میں بھی تھی۔اگر مطبع اودھ اخبار نہیں ہوتا تو ہم تک میرؔ، سوداؔ، میر دردؔ، مصفحیؔ، انشاء، جرائتؔ، میرحسینؔ، ناسخؔ، آتشؔ، غالبؔ، انیسؔ، دبیرؔ، مونسؔ، ضمیرؔ، دلگیرؔ، فصیحؔ، اویس بلگرامیؔ، اندؔ، وزیرؔ، صباؔ، اسیرؔ، امیرؔ، نساخؔ، شیفتہؔ، نظیرؔ اکبر آبادی، مومنؔ، تفتہؔ وغیرہ کا کلام نہیں پہنچتا۔مطبع نے کم وبیش تمام کلاسکی شعرائے اردو نثر نگاروں کی تخلیقات شائع کرکے وہ کارہاے نمایاں انجام دیے جو تاریخ ِادب میں سنہرے حروف میں لکنے کے قابل ہیں۔ علاوہ اردو کتابوں کے منشی صاحب نے فارسی اور عربی کی سیکڑوں کتابیں شائع کرکے ان دونوں زبانوں کی بے لوث خدمات انجام دیں۔ ان میں فردوسی کا شاہنامہ، نظامی کا خمسہ، جامی کا خمسہ، خسرو کا خمسہ و دیوان کلیات نظیریؔ، کلیات ظہوری، کلیات صائب، کلیات سعدی، کلیات ظہیرفاریابی، کلیات خاقانی، کلیات وحید، کلیات بیدل، دیوان حافظ، دیوان حزیں، دیوان ناصر علی سر ہندی، وغیرہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
منشی صاحب نے فارسی سے اردو میں لاتعداد کتابوں کے ترجمہ مطبع سے شائع کرائے۔ان میں مثنوی مولاناے روم، اسیرالمتاخرین، تاریخ فرشتہ، کیمیاے سعادت، تفسیر حسینی، آئین اکبری، اخلاق جلالی، اخلاق محسنی، اخلاق ناصری، وغیرہ مشہور ہیں۔ اسی طرح عربی سے بھی سیکڑوں کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ان میں فتاویٰ عالمگیری(۱۰ جلدیں ) احیارالعلوم الغزالی، مشکوۃٰ شریف(۵ جلدیں )وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح سنسکرت سے رامائن، مہابھارت، بھگوت گیتا، سکھ ساگر، اور دوسری کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا۔انھوں نے سنی اور شیعہ فرقوں کی بے شمار مذہبی کتابیں بھی شائع کیں۔ ان کتابوں کے علاوہ وہ فارسی، اردو اور عربی کے کئی مستند لغات بھی شائع کیے۔ان میں فرہنگ آنند راج، ہفت قلزم، موئد الفضللہ، جامع اللغات(مرتبہ غلام سرور لاہوری) غیاث اللغات، نصیر اللغات، قاموس صراح، فقہ اللسان وغیرہ نہایت ہی اہم ہیں۔
اودھ اخبار
اودھ اخبار ہندوستان کے علاوہ لندن، فرانس، اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی پڑھا جاتا تھا۔ اردو کے مشہور فرنسیسی متشرق گارساں دتاسی کو یہ اخبار لکھنوء سے مسٹر ایڈورڈہینری پامر بھیجا کرتے تھے۔دتاسی دسمبر ۱۸۶۶ء کے خطبے میں کہتے ہیں کہ: ـ ’’ یہ خبار پچھلے سات سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ نکل رہا ہے چنانچہ اس کی اشاعت پچھلی اشاعتوں سے بہتر نظر آتی ہے اس کی تقطیع اور صفحات کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔یہ اخبار ہفتہ وار ہے اور ہر چار شنبہ کے روز شائع ہوتا ہے۔شروع شروع میں اس میں صرف چار صفحے ہوا کرتے تھے اور وہ بھی چھوٹی چھوٹی تقطیع پر، پھر چھ ہوئیاور پھر سولہ اور اب وہ اڑتالس صفحات پر مشتمل ہوتا ہے۔پہلے کے مقابلے میں اس میں اس کی تقطیع بھی بڑی ہو گئی ہے میرے خیال میں اس سے زیادہ ضخیم اخبار ہندوستان بھر میں کوئی نہیں ہے۔‘‘
اودھ اخبار کی فائلوں میں مرزا غالبؔ، میر انیسؔ، مرزادبیرؔ، مرزا حاتم علی خاں میرؔ، مرزا ہر گوپال تفتہؔ، کلب حسین خاں نادرؔ، مردان عتے خاں رعنا، سر سید احمد خاں، محسن المللک وغیرہ جتنے بلند پایہ شاعروں اور نثر نگاروں کے بارے میں مفید اور وسیع معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ مرزا غالبؔ، میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ وغیرہ شعرائے مسلم البثوت کی تاریخہائے وفات بکثرت چھپی ہیں ان کے بارے میں کچھ مفید باتیں بھی پہلی مرتبہ دریافت ہوتی ہیں۔ اودھ اخبار میں دنیا بھر کی خبروں کے علاوہ سرکاری قوانین اور احکامات وغیرہ کے ترجمے بھی عوام کی آگاہی کے لیے شائع ہوتے تھے، عدالتی اور میونسپل کمیٹی کی کارروائیوں اور ریلوے ٹائم ٹیبل کے متعلق وقتاََ فوقتاََ اہم اطلاعات شائع ہوتی تھیں۔ ان کے علاوہ کم و بیش ہر پرچے میں عوام کی سہولت کے غیر معمولی اشتہارات بھی چھپتے تھے۔بعض اشاعتوں میں ضروری اطلاعات ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوتی تھیں۔ اخبار میں انجمنوں، مشاعروں، جلسوں، اور ثقافتی تقریبات کی کارروائیاں بھی چھپتی تھیں۔ اکثر و بیشتر شعراء کا کلام بھی چھپتا تھا۔اگر ان شعراء کے کلام کو یکجا کیا جائے تو ایک اچھا خاصا مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ ان میں بہت سے شعراء ایسے ہیں جن سے اردو دنیا نا واقف ہے مثلاََ: نواب احمد حسین جوشؔ، تسلیم سہسوانی، راجہ درگا پرشاد(پٹنہ) فاخر حسین نادرؔ، جوہر سنگھ جوہرؔ، مرزا یوسف علی خاں تخلص عزیزؔ شاگرد غالبؔ، محمد سلمان اسدؔ، سیاح، گردھاری لال اسدؔ، حضور بلگرامی، جمشید علی جمؔ، محمد مقیم مقیمؔ وغیرہ وغیرہ قابلَ ذکر ہیں
منشی نول کشور بہت ہی مردم شناس آدمی تھے۔ ان کی کوششوں سے بہت سے گمنام اہل علم اردو زبان و ادب کو ترقی دینے کے لئے میدان میں آئے ان میں سے بعض اتنے مشہور و مقبول ہوئے کہ آج علمی و ادبی دنیا کو ان پر فخر ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ منسی نول کشور نے اردو زبان و ادب کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے اردو خود ان کی مادری زبان تھی۔وہ ایک سچّے محب وطن اور علم دوست انسان تھے۔ان کا مسلک مذہب و ملت کے امتیاز سے نا آشنا تھا۔ وہ ایک کامیاب ناشر و تاجر کتب مکی حیثیت سے ہی وہ قابل و قدر نہ تھے بلکہ انھوں نے رفاہ عام کے کاموں میں بھی بڑچڑھ کر حصہ لیا۔ فنِ صحافت کا معیار بلند کیا۔ان کا اودھ نامہ اخبار ہندو مسلم اتحاد کا حامی اور سماجی خدمات کا ترجمان تھا اور سرسید تحریک کا زبردست حامی تھا۔۱۸۸۰ء میں ان کے ہم عصر منشی وجاہت علی خاں اڈیٹر اخبار عالم نے اپنی اشاعت ۱۷ ماہ اپریل میں لکھا تھا۔
’’ منشی نول کشور صاحب ان کے اوصاف اور حالات لکھنے کی ضرورت نہیں عیاں راچہ بیاں۔ ہندوستان اور عرب و عجم اور انگلستاں اور مصر و روم اور فرانس ان سب ملکوں میں ان کا نام روشن ہے۔ اس شخص کو اگر بانئی کتب علوم و فنون کہا جائے تو بجا ہے۔حسن و اخلاق اور محبت اور عالیٰ ہمتی اور دوست پروری میں منشی صاحب موصوف ہزارہا آدمیوں سے افضل و علیٰ ہیں۔’‘
مولانا سید سلمان ندوی نے لکھا ہے۔
’’ سب سے آخر میں لکھنوء کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسّی برس کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد ۱۸۵۷ء میں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم و فنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق میں کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔‘‘
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ایک اعلیٰ درجہ کی شخصیت کے مالک تھے آپ نے اردو ادب کو جو جلا بخشی اور جو سرمایہ عطا کیا اس پر اہلِ علم کو ہمیشہ فخر و ناز رہیگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد سلیم قادری
لیکچرر اردو
داتا رام میموریل انٹر کالج اسراسی بدایوں
موبائل نمبر: ۷۸۹۵۰۶۸۷۹۸
7895068798 8532848867
Leave a Reply
Be the First to Comment!