میرزا ادیب کے طویل افسانے __فکریات ورجحانات

میرزا ادیب کی افسانہ نگاری کا ابتدائی غالب رجحان طویل رومانی افسانے ہیں جن کی فضا اور اسلوب داستانی ہے۔ اُن کے طویل افسانوں پر مبنی تین مجموعے اور ایک طویل افسانہ شائع ہوئے۔ ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘، آٹھ طویل افسانوں، ’’صحرا نورد کے رومان‘‘، پانچ، ’’دنیائے آرزو/خوابوں کا مسافر[۱]‘‘، تین اور ’’صحرا نورد کا نیا خط‘‘، ایک طویل افسانے پر مشتمل ہے۔

میرزا ادیب کے افسانوی مجموعوں ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرانورد کے رومان‘‘ میں شامل افسانوں کا بہ لحاظ صنف تعین کے مباحث اہمیت کے حامل ہیں۔میرزا ادیب نے ان کتب کے حوالے سے انھیں افسانہ، قصہ یا داستان قرار دینے کا اختیار قاری اور ناقدین کو سونپا ہے۔ اس لیے ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کے دیباچے میں مذکورہ اصناف میں سے اِن خطوط کے لیے کوئی واضح صنف کا نام نہیں دیا گیا۔اِن خطوط اور رومان کے صنفی تعین کے حوالے سے عرش صدیقی نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ وہ انھیں داستان قرار دیتے ہیں۔اپنی مرتبہ کتاب ’’میرزا ادیب کے بہترین افسانے‘‘ کے حرفِ آغاز میں وہ ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کو داستان کی فضا کے تمام تر لوازمات کی موجودگی کی وجہ سے داستانوی مجموعہ کہتے ہیں۔بعدازاں اُن کا مطبوعہ مقالہ ’’میرزا ادیب کی داستانیں’‘ منظرِعام پر آیا تو اس میں داستان کی فضا کے لوازمات کی روشنی میں ان خطوط کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا۔ عرش صدیقی کے نزدیک داستان کی خصوصیت تحیر زا فضا اور پراسرار کیفیت ہے جو مافوق الفطرت عناصر کی مدد سے تیار کی جاتی ہے جب کہ میرزا ادیب نے یہ فضا، مافوق الفطرت عناصر کے بغیر ہی پیدا کر لی ہے۔ ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کی تمام داستانوں کا شاہی ماحول بھی داستانوں کی یاد دلاتا ہے۔ بُعدِ زمانی و مکانی کے ذریعے اجنبیت پیدا کی گئی ہے حتیٰ کہ کرداروں کے نام بھی اجنبی اور فرضی ہیں۔ان خطوط میں خیر و شر کی جنگ بھی داستانوں کا موضوع ہے۔ البتہ روایتی داستانوں کے برعکس معاشرتی اصلاح پر بھی زور نظر آتا ہے[۲]۔ عطیہ سید بھی ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کو داستان ہی قرار دیتی ہیں۔اُن کا نقطۂ نظر دیکھیے:

’’ان خطوط کا روحانی رشتہ اردو افسانے کے بجائے اردو کی نثری داستانوں کی عظیم روایت سے وابستہ ہے۔ ہر داستان کا کوئی نہ کوئی راوی ہوتا ہے۔ ان داستانوں کا راوی ’’صحرانورد‘‘ ہے۔ ہر کہانی اس کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہے۔ اس طرح آٹھوں داستانوں  میں ایک صوری(FORMAL) وحدت جنم لیتی ہے۔‘‘ [۳]

عطیہ سید نے داستانوں میں تصور پلاٹ کے نقطۂ نظر سے ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ داستانوں میں قصہ در قصہ واقعات کے ذریعے پلاٹ کی تشکیل کی جاتی ہے اور آغاز میں بنیادی کہانی کی وحدت سے جوڑنے کا عمل ہوتا ہے جو داستان کو وحدت عطا کرتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’صحرانورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرانورد کے رومان‘‘ کے لیے نئی صنفِ ادب کا تعین کیا ہے۔ وہ میرزا ادیب کو ’’داستانی افسانے‘‘ کا بانی قرار دیتے ہیں۔اُن کے نزدیک میرزا ادیب نے داستانوں کی روح کو اپنے فن میں سمو کر اور اس کی خامیوں سے اپنے قلم کو بچا کر ’’داستانی افسانے‘‘ تحریر کیے ہیں [۴]۔ منشایاد بھی ان خطوط کو داستان اور افسانے کا سنگم سمجھتے ہیں۔وہ اِن خطوط میں مافوق الفطرت عناصر کی عدم موجودگی میں طلسماتی ماحول کی تشکیل اور فرضی کرداروں کو بھی حقیقت اور فطرت کے قریب تر دکھانے کو داستان اور افسانے کا درمیانی پل اور حسین سنگم قرار دیتے ہیں [۵]۔ ڈاکٹر نوازش علی ان خطوط اور رومان کی کہانیوں کو داستان کے قریب سمجھتے ہیں چوں کہ ان کہانیوں کی بنیاد مشاہدے و فکر کے بجائے تخیل اور تصور ہے۔ ماضی بعید سے متعلق ہونے کی وجہ سے بہت سے داستانی عناصر مثلاً داستانی فضا کی تشکیل کی شعوری کوشش سے مدد لی گئی ہے[۶]۔ تمام ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خطوط داستان نہ ہونے کے باوجود داستانوں کا مزہ دیتے ہیں۔میرزا ادیب کا کمالِ فن یہی ہے کہ اُنھوں نے اس دور میں ایسی داستانی فضا تخلیق کی جب داستانوں کی پذیرائی اور مقبولیت دَم توڑ چکی تھی داستان کی جگہ ناول اور افسانہ لے چکے تھے۔ میرزا ادیب نے اردو افسانے کی ابتدا میں ایک ایسا رجحان بھی متعارف کروایا جس میں داستان اور افسانے کا تال میل نظر آتا ہے اور قارئین کی دلچسپی ملحوظ رہی لیکن اِس دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے داستان کے حربے، مافوق الفطرت عناصر کے بغیر داستانی فضا کو تشکیل کیا جو یقینا ایسی خصوصیت ہے جس نے میرزا ادیب کو افسانہ نگاری کی ابتدا ہی میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

میرزا ادیب نے اِن طویل افسانوں میں صحرا نورد بن کر مختلف موضوعات کو ایک مرکز میں پرونے کی کوشش کی ہے۔اُنھوں نے اِن افسانوں کی رومانویت کے درپردہ جس ترقی پسندانہ نقطۂ نظر کو پیش کیا ہے اس میں وطن پرستی، آزادیٔ فکر، ظلم کی صورتیں اور اُن کے خلاف بغاوت اورغیرملکی تسلط سے آزادی شامل ہے۔ دیگر جہات میں ؛تاریخ و تہذیب کے جلو میں محبت اور فرض کی کشمکش، ظلم کی تصویروں کی پیش کش، معاشرتی منافقت، امیر وغریب کا فرق، شہری زندگی کا تصور، خانہ بدوش اور بڑھاپے کا منفرد تصور، جذبۂ حسد، رقابت، عورت کا تصور اور مرد کی بدگمانی کے نتائج کو موضوع بنایا ہے۔

صحرا نورد کے کردار کی تشکیل میں جن نفسیاتی محرکات نے پس منظر کا کام کیا، اُن کا ذکر، میرزا ادیب نے ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ کے دیباچے میں کیا ہے اس میں افسانہ نگار نے اپنا نفسیاتی تجزیہ بھی پیش کیا ہے کہ انھوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ تنگ اور تاریک تھا۔ والد کی سخت گیری اورگھر سے باہر نہ نکلنے کی سختی سے جنم لینے والی تنہائی؛اُنھیں تخلیقی سطح پر صحرا نورد بننے پر مجبور کرتی ہے۔ اُن کی یہ تنہائی، صحرائی وسعتوں میں ردعمل ڈھونڈتی ہے۔ تنگ و تاریک ماحول کا ردعمل ؛روشنی کی تکرار، دروازے، کھڑکیوں، صحن اور روشن دانوں کے بے محابا تذکرے میں پوشیدہ ہے۔ بچپن میں قریبی دوستوں کی دنیا سے رخصتی نے تنہائی میں مزید اضافہ کیا تو باغوں کے درخت، آسمان، سورج کی روشنی، ہوا کی سرسراہٹ، خوشبو کی پراسراریت، مہندی کے پتوں کی جنوں خیز رنگت، اُن کی دوست بنی اور ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ میں یہی کیفیت اُن کی ساتھی بن گئی۔

نفسیاتی عوامل کے ساتھ سیاسی، تاریخی اور سماجی عوامل بھی صحرا نورد بننے میں معاون ہوئے۔ اردو افسانہ ابتدا ہی سے حب الوطنی کے جلو میں پروان چڑھا۔ رومان پسندوں اور حقیقت نگاروں، ہر دو کے تخلیقی پس منظر میں حریت، غیرملکی تسلط سے آزادی اور حب الوطنی کارفرما تھی۔ میرزا ادیب کے اِن طویل افسانوں کا محرک اوّل بھی یہی تاریخی و سماجی پس منظر تھا۔ وہ اس کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’یہ افسانے، داستانیں یا قصے……آپ جو بھی سمجھ لیں۔اس زمانے میں لکھے گئے، جب برصغیر میں آزادی کی طویل جدوجہد ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی تھی۔ سارے ملک میں ایک ہمہ گیر قسم کا ہنگامہ برپا تھا۔ کانگریس براہِ راست انگریزوں سے متصادم تھی۔ مسلم لیگ پرِپرواز تول رہی تھی اور اسلامیانِ ہند کو ایک پرچم تلے جمع کرنے میں شبانہ روز مصروف تھی۔ خود ادب میں ترقی پسند تحریک اہلِ قلم کو وہ راستہ دکھا رہی تھی جسے وہ نظرانداز کرتے چلے آ رہے تھے۔ ہنگاموں کے دن تھے، ہنگاموں کی راتیں تھیں۔ایسے زمانے میں ، میں نے اپنے ملک کی فضا سے نکل کر صحرا نوردی کیوں کی؟‘‘ [۷]

اُنھوں نے بندۂ صحرائی بن کر آزادی کے تصور کو راسخ کرنے کے لیے مختلف علاقوں اور ملکوں کی کہانیوں کے ذریعے آزادی کے تاریخی تصور کو اجاگر کیا۔ تاریخ سے ایسی کہانیوں کو چُنا جو وطن سے محبت، آزادی، ظلم کے خلاف بغاوت ایسے موضوعات کو سمیٹے ہوئے تھیں۔اگر اُن کے دو افسانوی مجموعوں ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرا نورد کے رومان‘‘ کا بہ طورِ خاص مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ تصور غالب نظر آتا ہے۔

میرزا ادیب کے صحرا نورد کے افسانوں میں بھی اُن کا ابتدائی غالب رجحان رومانیت ہی ابتداً نمایاں نظر آتا ہے جس نے بہت تیزی سے واقعیت اور حقیقت کی طرف مراجعت اختیار کی ہے۔ اُن کی رومانیت میں مثالی دنیا کا تصور اُبھرتا ہے جو ظلم و تشدد اور استحصال سے پاک ہے اور اعلیٰ انسانی اقدار معاشرے کی بنیاد ہیں [۸]۔ یہی مثالی دنیا انھیں ماضی کی جانب التفات کا رویہ اپنانے کا گُر سکھاتی ہے کیونکہ رومانوی ذہنیت ہمیشہ ماضی کو پُراسرار اور پُرکشش تصور کرتی ہے۔ دیگر رومانوی لوازمات میں اسلوب کی شیرینی، مناظر قدرت سے دل چسپی، تحیرزائی، پُراسرار فضا، نسوانی حسن کی تصویرکشی اور معاملات حسن و عشق نمایاں ہیں۔رومانویت کے مذکورہ پہلو، میرزا ادیب کے پہلے دو افسانوی مجموعوں ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ اور ’’صحرا نورد کے رومان‘‘ میں غالب اظہاریے کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ذیل میں اُن کے اِن مجموعوں کے مجموعی موضوعات کا تفصیلی مطالعہ پیش ہے۔

اردو افسانے کی ابتدا، جن موضوعات کو معرضِ تحریر میں لانے سے ہوئی، اُن میں غالب موضوع وطن پرستی اور حب الوطنی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جسے اُس وقت کے برصغیر کے سیاسی و سماجی پس منظر کا تقاضا کہہ سکتے ہیں۔یہ تقاضا، روحِ عصر تھا جسے رومانی، اصلاح پسند اور حقیقت نگار، ہر فکر کے نمائندہ افسانہ نگار نے موضوع بنایا۔ البتہ رومانی افسانہ نگاروں کے ہاں یہ موضوع، اسلوب، فضا اور ماحول کی اشاریت سے اُبھرتا ہے۔ میرزا ادیب نے جس وقت افسانہ نگاری کا آغاز کیا، اُس وقت حب الوطنی کی لہر، بیداری کی صورت بڑھ رہی تھی اور رومانی افسانہ نگار اپنے تئیں اس کا اظہار کر چکے تھے اور اب حقیقت نگار یا ترقی پسند افسانہ نگار، اِسے واضح اور دو ٹوک انداز میں برت رہے تھے۔ڈاکٹر محمد حسن، صحرا نورد کے خطوط اور صحرا نورد کے رومان کے پس منظر میں میرزا ادیب کے نوآبادیاتی شعور کی کارفرمائی کا ذکر یوں کرتے ہیں:

’’ان کے افسانوں  میں قبائلی زندگی کے پس منظر  میں برطانوی عہد کا ہندوستان بولتا ہے جو غلامی، جہل اور ظلم  میں گرفتار ہے۔ اس زندگی  میں تبدیلی کی جذباتی خواہش ایسے کردار تراشتی ہے جو مافوق البشری قدرت اور حوصلہ مندی لے کر آتے ہیں۔’‘ [۹]

میرزا ادیب نے ابتدائی افسانہ نگاری میں ، رومانی طرزِ اسلوب اور فضا کی تشکیل سے وطن پرستی کو اپنا موضوع بنایا۔ اُنھوں نے صحرا نورد بن کر آزاد فضائوں سے غلامی کا تقابل کیا اور پہلے مجموعے ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ میں اشاریت و ایمائیت کواپنایا لیکن صحرا نورد کے دوسرے مجموعے ’’صحرا نورد کے رومان‘‘ میں بلند آہنگ اختیار کیا بلکہ بعض جگہوں پر نعرہ لگایا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں:

’’میرزا ادیب کا عمومی رویہ رومانوی ادیب کا ہے اور ایک بڑے رومانوی ادیب کی طرح ان کی ابتدائی کہانیوں  میں جذبۂ حریت کو اُبھارا گیا ہے۔ عہدِ غلامی  میں اِس طرح کے افسانے کوئی اور لکھتا تو ترقی پسندوں  میں نام پاتا مگر حیرت ہوتی ہے کہ عام طور پر میرزا ادیب کے ابتدائی افسانوں کو محض وحشی تخیل کی پیداوار اور فنٹاسی سے مماثل قرار دے دیا گیا ہے۔ آزادی سے پہلے اُنھوں نے ایسے افسانے لکھے جس  میں براہِ راست بدیسی حکمرانوں کے استبداد پر چوٹیں کیں بلکہ بعض مواقع پر تو عملی جدوجہد کی ترغیب دی۔‘‘ [۱۰]

اُن کے ہاں جن طویل افسانوں میں وطن سے محبت یا وطن کے لیے محبت کا موضوع واضح ہوتا ہے اُن میں ’’ملکۂ مصر‘‘، ’’سیلِ حوادث‘‘، ’’سما رت کا قیدی‘‘ اور ’’طوفانِ حوادث‘‘ شامل ہیں۔’’ملکۂ مصر‘‘ میں محبت اور فرض کے تصادم کے نتیجے میں اُبھرنے والی وطن پرستی کو پیش کیا گیا ہے۔ واقعے کا زمانہ، فرعون رعمسیس دوم کا دورِ حکومت ہے۔ جب اُس نے یونان پر حملہ کیا اور قتل و غارت گری کے علاوہ بچوں اور عورتوں کو قیدی بھی بنایا گیا۔ یہ کہانی اُس وقت بچ کر چھپنے والی یوروپا کی ہے۔ یوروپا اور اس کی ماں محل کے آخری تہ خانے میں چھپے ہوتے ہیں۔یوروپا کی ماں مصریوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی نسبت زہر کھا کر مرنا قبول کر لیتی ہے۔ آگیطی (مصری غلام عورت) اُسے اپنی بیٹی بنا کر اپنے گھر لے جاتی ہے۔ خدائے رع کے معبد کا کاہن اعظم یوروپا کے بارے میں پیشین گوئی کرتا ہے کہ اس کے سر پر تاج ہو گا۔ اُسی معبد میں ایک بوڑھا یونانی عموس اُسے دیکھ رہا تھا۔ ایک دن اُسے اپنے اور یونانی فوجی افسر میرون کے بارے میں بتاتا ہے اور مصریوں سے بدلہ لینے کا عہد کرتا ہے۔ یوروپا اُن سے مل کر خوف زدہ رہتی ہے۔ ایک دن فرعون منفتا اُسے نیل کے کنارے دیکھتے ہی فریفتہ ہو جاتا ہے اور ملکۂ مصر بنا لیتا ہے۔ ملکۂ مصر بن کر یونانی ہوتے ہوئے مصریوں سے وفاداری کرتے ہوئے یونانیوں کے قتل کا حکم دے دیتی ہے، میرون کو وہ قید میں ڈلوا دیتی ہے۔ اِسی اثنا میں فرعون ایک رقاصہ آتشتی پر عاشق ہو جاتا ہے۔ نفرتتی جو میرون سے محبت کرتی ہے یوروپا سے میرون کی رہائی کے بدلے آتشتی کو مار ڈالنے کا عہد کر لیتی ہے۔ میرون آزاد ہو جاتا ہے۔ مصر کو غربت سے بچانے کے لیے یوروپا کے کہنے پر نفرتتی چھپے ہوئے خزانوں کی تلاش کے لیے اُسے ساتھ لے جاتی ہے۔ نفرتتی سازش کے تحت اُسے چھپے ہوئے یونانیوں عموس اور میرون کی قید میں لے جاتی ہے اور اِس وعدے پر رہائی ملتی ہے کہ یوروپا فرعون کو زہر دے گی۔ یوروپا اپنی محبت فرعون کو زہر نہیں دیتی بلکہ عموس کو قتل کروا دیتی ہے۔ چند دن بعد موقع پا کر میرون، فرعون پر حملہ کر دیتا ہے۔ فرعون کے ساتھ ساتھ میرون اور نفرتتی بھی ماری جاتی ہے۔ اِس غم سے نڈھال ہو کر یوروپا بھی اپنی ماں کی طرح زہر کھا کر اپنا خاتمہ کر لیتی ہے۔ یوں یوروپا کی ماں، مصریوں کے ہاتھوں مرنے کی بجائے زہر کھاتی ہے جب کہ یوروپا، فرعون سے جدائی کے غم میں زہر کھاتی ہے۔ اس افسانے میں مرد اورعورت کی دو محبتیں ہیں لیکن دونوں محبتوں کے وحدانی مراکز کہیں اور ہیں۔فرعون، یوروپا اور میرون، نفرتتی کی محبت میں دونوں عورتیں، مردوں سے محبت کرتی ہیں۔جب کہ مرد خاص طور پر مظلوم یونانی میرون اپنے فرض کے لیے جان دیتا ہے۔ اس افسانے میں بہت سے مقامات پر مصریوں کے ظلم کا نشانہ بننے والے یونانیوں کے دل میں ظلم کے خلاف بغاوت، آزادی اور غیروں کے قبضے کے خلاف انتقام کا جذبہ مناظر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اپنی ہم وطن عورت کے دل میں وطن کی محبت کو بیدار کرنے کی ناکام کوشش بھی کئی جگہوں پر نظر آتی ہے۔ یوروپا اور نفرتتی کی محبت کو، اپنے فرض سے محبت کرنے والا میرون کس تناظر میں دیکھتا ہے، ملاحظہ کیجیے:

’’ایک غدار، پیمان شکن عورت کو سخت سزائیں دے کر مارنا چاہیے۔ اس وقت تم نفرتتی پر لعنتیں بھیج رہی ہو گی کہ اُس نے تم سے دغا کیا مگر یہ سمجھو تم کون ہو، اُس نے مصری عورت ہو کر یونانیوں کی مدد کی اور تم نے یونانی ہو کر اپنے بھائی یونانیوں کو سخت بے رحمی کے ساتھ اپنے سامنے قتل کروا دیا۔ بتائو تم  میں سے زیادہ ذلیل، زیادہ دغاباز کون ہے؟‘‘[ ۱۱]

اِس استفسار میں میرزا ادیب نے حب الوطنی کو سمونے کی کوشش کی ہے۔ ’’سیلِ حوادث‘‘ میں ایران کے سرحدی صوبہ بلخ پر ’’ہن‘‘ کے ناجائز قبضہ اور اس کے خلاف تحریک آزادی کو پیش کر کے وطن پرستی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ہن بلامیر کی سلطنت کا ایک رکن دریاس، سازشیوں اور باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ نادر کی بیوی سائرہ کو قتل کرنے کے بعد اُس کی بیٹی شیریں کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ شمسہ بھی ایک ایسے خاندان کا فرد تھی جس کے بیٹے اور خاوند کو قید کر لیا گیا ہے۔ شمسہ، دریاس کی غلام ہے۔ شیریں کو شمسہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ شمسہ، شیریں کو اُس کے محل سے تین سال بعد فرار کروا دیتی ہے۔ ملاح کے گھر دو سال گزار کر وہاں سے بھاگی تو راستے میں ’’ہن‘‘ بوڑھے نغمہ نگار کو قتل کر دیتے ہیں لیکن دف پر بوڑھے کی انگلیاں جس مرکز کے لیے حرکت کر رہی تھیں وہ کچھ یوں تھا:

’’دف پر خون کے نشان نظر آ رہے تھے۔۔۔

وہ خون کے نشان ایک لفظ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔’’وطن‘‘۔۔۔ کئی لمحے وہ حیرت سے اس لفظ کو دیکھتی رہی اور اس کے لبوں سے آہستہ آہستہ ’’وطن وطن‘‘ کہتی ہوئی آواز نکلتی رہی۔‘‘ [۱۲]

وہ دف اُٹھا لیتی ہے۔شیریں کو ایک ماہی گیر ’’شمرس‘‘ ملا، جہاں دو ہفتے گزرے اور اُس نے وہی دف بجا کر گانا شروع کر دیا۔ وہ بلخ کی معروف مطربہ اور اپنے ملک کی آزادی کی تحریک کی خفیہ رکن بھی بن جاتی ہے۔ ہرمز، اس تحریک کا لیڈر ہے۔شیریں حکمران کے دربار کی جاسوسی کرنے لگی۔ اُسے بلامیر دربار میں مستقل رکھنے پر مُصر رہا لیکن وہ خادمائوں کا لباس پہن کر اپنا فرض ادا کرتی رہی۔ ایک دن وہ ہن کے باغی ’’فریدوں’‘ کی جان بچاتی ہے۔ دونوں کو آپس میں محبت ہو جاتی ہے لیکن دونوں مختلف فرائض کے حامل ہیں۔شیریں بلخ کو، ہن سے آزاد کرانا چاہتی ہے اور فریدوں، ہن سلطنت کو قائم و دائم رکھنا چاہتا ہے۔ اُس کا باپ اُس خوف ناک حسینہ کے بارے میں بتاتا ہے جو بلامیر کے اعصاب پر سوار ہے اور وہ اُس کے خاتمے کے لیے فریدوں کو تیار کرتا ہے۔ شیریں بھی بلامیر کو زہر پلانے کی سازش کر چکی ہوتی ہے۔ فریدوں کو باغی قرار دے کر دربار میں لایا جاتا ہے۔ شیریں، باغیوں کو قتل کرنے کا حکم دیتی ہے۔ فریدوں، بادشاہ کو حسینہ کی چال بازیوں کے بارے میں بتانا شروع کرتا ہے۔ شیریں کے زہر پلانے سے بادشاہ مرنے کے قریب پہنچتا ہے۔ فریدوں، شیریں کو خنجر گھونپ دیتا ہے۔ ہرمز، فریدوں کے خنجر مارتا ہے۔ فریدوں اپنا سر، شیریں کے قدموں پر رکھ دیتا ہے۔ محل کے اندر باہر قتل و خوں جاری ہو جاتا ہے۔اس افسانے میں بھی محبت اور فرض کی کش مکش میں فرض کی جیت دکھائی گئی ہے۔ وطن کی محبت، اس افسانے میں امر ثابت ہوتی ہے۔ میرزا ادیب کے نوآبادیاتی ضمیر سے پھوٹنے والی حب الوطنی کئی مقامات پر آشکار ہوتی ہے۔ بلخ اور ہن، برصغیر اور برطانیہ ہی محسوس ہوتے ہیں۔بلخ، ایشیا کا خطہ اور ہن قوم، یورپ سے ہی آئے تھے۔ یہ اشاریت ملاحظہ کیجیے:

’’ہمارا وطن عزیز اس وقت دُنیا کی ظالم ترین قوم کے وحشیانہ مظالم کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ ادھر ظالم حکومت کی قہرمانی طاقتیں بڑھتی جاتی ہیں اور ادھر مظلوم اہلِ بلخ کی مظلومیت میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ خود سوچو اگر اہلِ وطن کے دل سے وطن پرستی کا جذبہ مفقود ہو جائے تو پھر حکومت کے ظلم و ستم کیا معی رکھتے ہیں۔’‘ [۱۳]

اس افسانے میں ظلم اور منافقت کے خلاف بغاوت بھی نمایاں رویہ ہے۔ اس حوالے سے مثال ملاحظہ ہو:

’’بغاوت سے پہلے تم لوگ قانون ساز اور منصف تھے…مگر تم نے ہمیشہ سرمایہ داری، ظلم اور جعل سازی کو فروغ دیا…یہ عمارت، بغاوت سے پہلے دارالعلوم تھا۔ غلامی کی تعلیم دینے والے اور انسانوں سے انسانیت چھیننے والے علم کو زندہ رکھنا انسانیت پر ظلم کرنا ہے… تم مذہب کے پاسبان تھے تمہارا فرض تھا کہ لوگوں کو نیکیاں سکھاتے مگر تم نے دنیاوی عیش و عشرت کے لیے مذہب کو ایک بہت بڑے دھوکے کا ذریعہ بنا لیا… جاہل انسانوں کے دل و دماغ  میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ آگے جا کر دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے موٹے آدمی بھاری بھاری پتھر اُٹھائے بھاگ رہے ہیں … تم لوگ مہاجن اور سرمایہ دار تھے۔ تم نے غریب مزدوروں کی شبانہ روز محنت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے گھروں  میں دولت کے انبار لگا لیے۔ اب اس بغاوت کے بعد انسانی مساوات قائم ہو گی۔‘‘ [۱۴]

ظلم، ظالم اور مظلوم کا موضوع، اُن کے دیگر طویل افسانوں میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ ظلم کی مختلف شکلیں پیش کرتے ہیں۔ظالموں میں جابر بادشاہ، سرمایہ دار، مصلح، معاشرے کی سخت گیری اور حصول مراتب کی ہوس وغیرہ شامل ہے۔ میرزا ادیب نے ظلم کے خلاف بغاوت کے لیے جو مثالیں پیش کی ہیں اُن کا تعلق تاریخ و تہذیب سے ہے۔ اُن کے نقطۂ نظر کے مطابق ابتدائے آفرینش سے ہی انسان، انسانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلتے رہے ہیں۔افسانہ ’’سیلِ حوادث‘‘ میں وہ تاریخِ انسانی کے اُن ظالم حکمرانوں کے نام گنواتے ہیں۔چنگیز، ہلاکو، سکندر، ہملکار، ہنی بال، بخت نصر، طیطس، سیزر، تیمور اور نادر وہ ظالم ہیں جنھوں نے گردو پیش کی شادابیوں کو صحرائوں اور آبادیوں کو قبرستان میں بدل دیا۔ خانہ بدوش قوم، ۴۲۰ء تا۵۵۷ء تک یورپ اور ایشیا میں ظلم کی داستانیں رقم کرتی رہی۔ یہ قوم بعد میں دو فرقوں میں بٹ گئی۔ ایک فرقہ یورپ میں داخل ہوا اور ’قصر ویلنیز‘ اور ’مہرگلا‘ پر ظلم و ستم کرتارہا۔ دوسرا ایشیا میں داخل ہوا اور ’ترمان‘ پر ظلم کی تاریخ رقم کی۔

میرزا ادیب نے ظلم کے بیان کے لیے تاریخ کو حوالہ بنانے کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبوں اور مذاہب کی رسوم و رواج، عقیدتوں اور اساطیر کو بھی پیش کیا ہے۔ اُنھوں نے اساطیر کے ذخیرے سے اپنے طویل افسانوں کی فضا کی تشکیل میں بھرپور مدد لی ہے۔ اِس حوالے سے اہم افسانے ’’ملکہ مصر‘‘، ’’چاہ بابل‘‘، ’’دیوی‘‘ اور ’’مقدس درخت‘‘ ہیں۔’’ملکہ مصر‘‘ میں وادی نیل کی تہذیب اور مصری ویونانی اساطیر کے حوالے موجود ہیں۔فرعون رعمیس دوم کا عملی حنوط، تابوت میں دولت رکھنا اور مُردوں کے احترام کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ خدائے رع کے معبد ربہ آئی سیز اور خدائے رع کے لیے کاہن اور کائنات کے خوش آئند گیت کو بھی افسانے کے متن میں شامل کیا گیا ہے۔ یونانیوں کے خدائے زیوس کے نام کی قسم کھانے اور وعدہ کرنے کے طریقے کو پیش کیا ہے۔ بازو سے خون کے چند قطرے اور سر کے چند بال نوچ کر، ڈبیا میں ڈال دینے کو وعدے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یونانیوں کے ہاں وعدے کا ایک اور طریقہ، پیشانی پر زخم لگا کر، خون پر ہاتھ رکھ کر، خدائے زیوس کے جلال کی قسم کھانا بھی بیان کیا گیا ہے۔ ’’چاہ بابل‘‘ میں قصہ ہاروت و ماروت کی اساطیر کو پیش کیا گیا ہے اور وادیٔ فرات کی تہذیب اور بابل کی تاریخی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ مثلاً فرات کے کنارے یہودی ولی خدرا ابدی، نمرود کی خدائی کا دعویٰ اور موت، جابر بادشاہ بنوکد نذر اعظم کے اپنی محبوبہ ’’اشارت‘‘ کے لیے معلق باغات لگوانا، عیاش بادشاہ بیلشفرز کا مقدس پیالوں کی توہین اورعیش پرست بادشاہ ہیروڈ کااپنی سوتیلی بیٹی سلومی کے عشق میں مبتلا ہونا وغیرہ شامل ہے۔

ان افسانوں میں اساطیری رنگ نے نہ صرف فضا کی سطح پر ایک حربے کا کام کیا ہے بلکہ موضوع ومواد کی گرفت اور یک جائی نے بھی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ یونان، مصر اور ایران کے قدیم اساطیر کی کہیں ہلکی اور کہیں واضح صورتیں بھی جھلکتی ہیں البتہ یہ اساطیری علامات کی سطح کو نہیں چھوتیں۔ ان کے طویل افسانوں میں اساطیری فضا اور عناصر کی نشان دہی، ڈاکٹر قاضی عابد نے کچھ یوں کی ہے:

’’یہ اساطیری عناصر قدیم اساطیر سے بلاواسطہ متعلق نہیں بلکہ اساطیری مذاہب کے ماننے والوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۔۔ ’’ملکۂ مصر‘‘  میں قدیم مصر کی اساطیری فضا کی بازیافت کی گئی ہے۔۔۔ دوسری کہانیوں  میں مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے جادوئی مذاہب کے کاہن، ساحر، پروہت اور پجاری دکھائی دیتے ہیں جن کی زمین اور زمانے کی دریافت مشکل امر ہے کیوں کہ فینٹسی کی دھند اور ایہام، ان کہانیوں  میں موجود ہے۔‘‘ [۱۵]

اُن کے طویل افسانوں میں عورت کا بھرپور تصور اُبھرتا ہے۔ اُنھوں نے مختلف افسانوں میں عورت کے بارے میں اپنی آرا بھی پیش کی ہیں۔’’افسانۂ خونیں’‘ میں مرد اور عورت کی عادات بیان کی ہیں کہ مرد ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑ اکر دیتا ہے اور عورت بڑی بات کو بھی معمولی بات سمجھتی ہے۔ مرد، وہم پرست ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عورت کسی اور کا نام زبان پر نہ لائے۔ ’’دختر صحرا‘‘ میں عورت صرف ایک مرد سے محبت کرتی ہے یہاں عورت کے تصورِ محبت کو سامنے لایا گیا ہے اور بوڑھی عورتوں کے بارے میں وہ خیال کرتے ہیں کہ وہمی ہوتی ہیں۔’’ملکۂ مصر‘‘ میں پیش کردہ عورت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اُس کا محب کسی دوسرے کو چاہے۔ ’’طوفانِ حوادث‘‘ میں موجود عورت، مرد کے مقابلے میں زیادہ ہمدرد ہوتی ہے۔ ’’جزیرہ ہامورین‘‘ میں عورت اپنا فیصلہ جلد بدل لیتی ہے۔ ان بیانات سے میرزا ادیب کا تانیثی شعور مترشح ہوتا ہے کہ وہ عورت کے جذبات اور رویوں کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔

میرزا ادیب نے اپنے طویل افسانوں میں مرد و عورت کی محبت کی ناکامی کے اسباب بھی پیش کیے ؛ان وجوہات میں مرد کی بدگمانی، مرد کی بے وفائی اور کہیں عورت کی بدگمانی شامل ہیں۔اس حوالے سے اہم افسانے ’’افسانۂ خونیں’‘، ’’دختر صحرا‘‘ اور ’’حکایۂ جنوں’‘ ہیں۔’’افسانہ خونیں’‘ میں مرد کی بدگمانی سے محبت کے قتلام کا ذکر ہے۔ ریاست شجاع آباد کے امیر کی بیٹی رحیلہ اپنے کزن نعیم سے محبت کرتی ہے۔ اُسی ریاست کا دولت مند بیداربخت، نعیم کے چچا کے قتل کے لیے اپنے بیٹے ناصر عرف ثروت خاں کو بھیجتا ہے۔ ناصر اپنے باپ کی حفاظت پر مامور، بہادر لڑکی رحیلہ کو دل دے بیٹھتا ہے اور بہانے سے چند دن بعد ان کی گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہو جاتا ہے۔ رحیلہ اُس کی تیمارداری کرتی ہے جس کے سبب نعیم کے دل میں بدگمانی پیدا ہوئی ہے اور وہ ہر لمحہ اِسی آگ میں جلنے لگتا ہے۔جب رحیلہ اور نعیم اپنے چچا غیاث کے پاس مصر چلے جاتے ہیں تو ناصر وہاں بھی پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے نعیم کے شکوک میں مزید اضافہ ہوتا گیا جب کہ رحیلہ اپنی محبت کا یقین دلاتے نہ تھکتی تھی۔ وہ ناصر کو اپنا بھائی سمجھتی تھی۔ یہ بات ناصر خفیہ طور پر سنتا ہے تو وہاں سے مصر واپس چلا جاتا ہے۔ جب نعیم، رحیلہ کو اسی بد گمانی اور شک و شبے کے سبب چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف چلا جاتا ہے تو رحیلہ اپنی محبت کی اس بدگمانی پر کڑھتے کڑھتے گھٹنے لگتی ہے۔ نعیم کو ناصر خاں کاخط ملتا ہے تو حقائق سے پردہ چاک ہونے کے بعد وہ واپس رحیلہ کے پاس آتا ہے جو قریب المرگ ہوتی ہے اور نعیم کو بدگمانی کی سزا دینے کے لیے موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ ’’دختر صحرا‘‘ میں عورت کی بدگمانی اور رقابت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ نرگس ایک خانہ بدوش لڑکی ہے جسے ایک مسافر نادر سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ نادر کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ خانہ بدوشوں کی سردار خاتون حشیشو اُسے نادر کے عالی شان گھر سے واپس لے آتی ہے اور کسی امیر آدمی کے پاس بیچ دیتی ہے اور سازش کے تحت امیر آدمی کو نرگس کے ہاتھوں زہر پلا دیتی ہے۔ بعدازاں نرگس کی ماں اُسے پھر نادر کے ساتھ فرار کروا دیتی ہے لیکن حشیشو امیر آدمی کی بیوی کے ساتھ سازش کرتی ہے اور نرگس کے دل میں یہ زہر بھرتی ہے کہ نادر کسی اور عورت سے محبت کرنے لگا ہے۔ نادر اور امیر آدمی کی بیوہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دکھانے کے بعد نادر کو بھی اُس کے ہاتھوں زہر پلا دیتی ہے۔ نادر مرتے ہوئے نرگس پر انکشاف کرتا ہے کہ وہ خاتون مسافر بن کر اُس سے مدد مانگ رہی تھی۔ نرگس اپنی بدگمانی اور رقابت کے تحت اپنے محبوب کا ہی قتل کر چکی ہوتی ہے۔

’’حکایۂ جنوں’‘ میں مرد کی بے وفائی، عورت کی معصوم محبت اور عورت کے جذبۂ رقابت کو پیش کیا گیا ہے۔ شہاب، شہر کی امیرترین سلمیٰ سے محبت کرتا ہے لیکن سلمیٰ اُسے کوئی اہمیت نہیں دیتی۔شہاب، شہر کے ویران قلعے میں اکثر جاتا، اُسے وہاں بربط کی آواز سنائی دیتی اور کبھی کوئی حسین چہرہ چھب دکھا جاتا۔ وہاں اُسے بابا صمدی ایک محبت کی کہانی سناتا ہے کہ حکومت سا  کا بیٹا صولت، مخالف سلطنت کے بادشاہ ہاشم کی بیٹی یاسمین سے محبت کرتا تھا۔ صولت ایک دن دوسری سلطنت میں پکڑا گیا۔ یاسمین کو خبر ملی تو اُس نے شہاب کو رہا کروانے کی تدبیر کی۔ ملازموں کی غداری کے بعد اُسے بھی الگ قیدخانے میں ڈال دیا گیا۔ یاسمین کے وفادار خادم صفدر نے صولت اور یاسمین کے قیدخانوں کے بیچ میں رستہ بنا دیا جہاں وہ دو سال رہے۔ صولت کے باپ جعفر نے ہاشم کی فوج پر حملہ کیا تو صولت اور یاسمین کو قتل کر دیا گیا۔ یہ کہانی سننے کے بعد بھی شہاب ویران قلعے میں جاتا۔ کئی دنوں کی محنت کے نتیجے میں قلعے میں روپوش حسینہ شاہینہ سے ملاقات ہوئی اور جب محبت میں گرفتاری کا علم بابا صمدی کو ہوا تو اُسے شدید غصہ آیا۔ کیوں کہ بابا صمدی نے صولت اور یاسمین کی نشانی شاہینہ کو محبت جیسے جذبے سے بچائے رکھنے کے لیے اس قلعے میں چھپا رکھا تھا۔ بابا صمدی نے شہاب سے شاہینہ کے ساتھ دھوکا نہ کرنے، مستقل قلعے میں رہنے اور باہر نہ نکلنے کا وعدہ لیالیکن شہاب نے شاہینہ سے اُکتا جانے کے بعد سلمیٰ کے دامِ محبت اور اس کے جذبۂ رقابت کے باعث زیادہ وقت شہر میں رہنا شروع کر دیا۔ سلمیٰ نے سازش کے تحت شاہینہ اور بابا صمدی کو شہر چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا۔ جب اِس بات کا علم شہاب کو ہوا تو وہ شاہینہ کو دیوانہ وار ڈھونڈتا پھرا اور سُراغ نہ پا کر ماتم زدہ رہ گیا۔

میرزا ادیب نے مذکورہ بالا افسانوں میں مرد کی بے وفائی، بدگمانی، شکوک و شبہات اور عورت کے جذبۂ رقابت کے تحت محبت کو بھینٹ چڑھتے دکھایا ہے۔ ان طویل افسانوں میں محبت کے لطیف جذبے کو مرکزی موضوع بنا کر انسانی فطرت کاژرف نگاہی سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ڈاکٹر نوازش علی، صحرا نورد کے خطوط میں موجود افسانوں میں حسد و رقابت کی کار فرمائی اور بھیانک نتائج کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’صحرا نورد کے خطوط،  میں ایک نمایاں موضوع، جذبۂ حسد کے ہاتھوں مجبور ہو کر باوفا لوگوں کا موت کی وادی  میں اُتر جانا ہے۔ ’’افسانہ خونیں’‘، ’’دختر صحرا‘‘، ’’چاہ بابل‘‘ اور ’’حکایۂ جنوں’‘ ان داستانوں  میں بعض خبیث قوتیں محبت کرنے والوں یا مظلوم کرداروں کے درمیان حائل ہو جاتی ہیں۔ ۔۔ منفی اور رقیبانہ جذبات کو ابھارنے  میں خبیث قوتیں کامیاب رہتی ہیں۔یہ خبیث قوتیں کرداروں کے اپنے باطن  میں بھی پوشیدہ ہیں اور خارج  میں بھی موجود ہیں۔’‘ [۱۶]

میرزا ادیب نے طویل افسانوں میں شہری زندگی کے تصور اور خانہ بدوشوں کے تصورِ حیات کو بھی پیش کیا ہے۔ شہری زندگی کی پیش کش کے حوالے سے افسانہ ’’تباہی کے بعد‘‘ اہم ہے۔ سہیل اور راحل ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔شہر حمارہ میں آتش فشاں پہاڑ کے پتھر برسانے سے سارا شہر تباہ ہو گیا۔ صرف سہیل اور رحیلہ زندہ بچ پائے۔ سہیل، رحیلہ کو ڈھونڈتا پھرا مگر بے سود۔ راحل، دوبارہ شہر بسانے کی آرزو لیے ہوئے تھا۔ صحرائی لوگوں اور وحشی خانہ بدوشوں کا ایک گروہ اُدھر آ بسا۔ اُس برباد شہر میں ایک تیسرا اپاہج شخص منجو بھی بچ گیا تھا جو منظر میں آ جاتا ہے۔ صحرائی لڑکی، نومی سے سہیل کی محبت کا چرچا ہونے لگا تو اُنھیں بھاگ جانے کا مشورہ دیا گیا۔ منجو، سہیل کو رحیلہ کے زندہ ہونے کی خبر دیتا ہے۔ وہ بتائے گئے پتے پر پہنچتا ہے اور خنجر کھاتا ہے۔ منجو نے سہیل سے سازش کی تھی اور خود امیر آدمی راحل کے قریب ہو گیا تھا۔ چھے ماہ بعد صحت یاب ہو کر سہیل، راحل سے ملتا ہے تو وہ منجو کا ساتھی بن چکا ہوتا ہے۔ راحل، خانہ بدوشوں کو انسانیت سکھانا چاہتا تھا لہٰذا وہ انھیں کھیتی باڑی سیکھانے لگا۔سہیل راحل سے اختلاف کرتا ہے کہ خانہ بدوش چوں کہ آزاد فطرت لوگ ہیں لہٰذا شہری زندگی کی زنجیروں میں انھیں جکڑنا ممکن نہیں۔ سہیل جب منجو کی تلاش میں نکلتا ہے تو وہاں رحیلہ مل جاتی ہے جو منجو کو نیک شخص قرار دیتی ہے۔ راحل مزید چھے ماہ خانہ بدوشوں کو شہری بنانے میں صرف کرتا ہے۔ان کی مطلق العنانیت کو روکنے کے لیے قوانین بھی وضع کرتا ہے کیوں کہ راحل کے نزدیک چوں کہ شہری زندگی ہی حقیقی زندگی ہوتی ہے اس لیے وہ امید کرتا ہے کہ خانہ بدوشوں کو بھی تہذیب اور تمدن سکھایا جا سکتا ہے جب کہ سہیل شہری زندگی کے بارے میں منفی تصور رکھتا ہے۔سہیل کی زبانی شہری زندگی کا تصور کچھ یوں اُبھرتا ہے:

’’تم ان لوگوں  میں تہذیب و تمدن کی روشنی نہیں پھیلا رہے ہو بلکہ ان کی روحوں، ان کے دلوں اور ان کے دماغوں  میں بزدلی، غلامی اور مکاری کا اندھیرا پھیلا رہے ہو۔ جس شہری تمدن پر تم ناز کر رہے ہو وہ انسانوں کو انسانوں ہی کا غلام بنانے کی ذلیل ترین رسم کا ایک خوب صورت نام ہے۔۔۔ جس شہری زندگی کی تعریف کرتے کرتے تمھاری زبان سوکھ رہی ہے وہ مکر و دغابازی اور فریب کاری کا سرچشمہ اور منبع ہے۔ آزادی، ضمیر کی آزادی، روح کی آزادی، دل اور دماغ کی آزادی، یہی ہے انسانیت۔ اور شہری زندگی  میں انسان، انسانیت کی اس خوبی سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘ [۱۷]

سہیل، راحل کے نظریے کا نہ صرف مخالف تھا بلکہ وہ عملی طور پر خانہ بدوشوں کی زندگیوں کو آزاد رکھنا چاہتا تھا۔ نومی کا عاشق سہیل کو قتل کرنے آیا تو منجو نے خنجر کے لیے اپنا سینہ پیش کر دیا اور رحیلہ سے محبت کرنے اور سازش کرنے پر نادم بھی ہوا۔ راحل کو خانہ بدوش جو اب مہذب بن چکے تھے، گھیرے ہوئے تھے، سہیل پہنچا تو دونوں پر حملہ کر دیا گیا۔ خانہ بدوشوں نے منجو کی رحیلہ کے ذریعے بُنی گئی سازش کے تحت راحل کے خلاف بغاوت کی تھی۔ راحل کو اس کا علم تھا کہ وہ اپنے مقصد، انسانیت کی بھلائی میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ شہری زندگی کے تصور سے عبارت اپنے مقصدِ حیات کو یوں بیان کرتا ہے:

’’صحرائی زندگی، جدوجہد کی زندگی نہیں اور جب جدوجہد ہی نہ رہی تو انسانی زندگی برف کی ایک قاش ہے… انسان کے دل و دماغ  میں ہزاروں قسم کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ان صلاحیتوں سے کام لے کر انسان کو موجودہ نسل اور آئندہ نسل کے لیے بہت کچھ کرنا ہے… خانہ بدوش حیوانوں کی سی زندگی بسر کر رہے تھے، ان کے پیشِ نظر زندگی کا یہی مقصد تھا کہ ہر وقت صحرائی وسعتوں  میں گھومتے رہیں۔قافلوں کو لوٹتے رہیں۔کھائیں پئیں اور سو جائیں … مگر اب ان کے کندھوں پر بوجھ ہے۔ طرح طرح کی ذمہ داریوں کا ان کے دلوں  میں احساس ہے۔ ہر وقت آگے بڑھنے کا اور ان کے دلوں  میں تڑپ ہے زندگی کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کی۔‘‘ [۱۸]

سہیل، راحل کی ان باتوں کو تسلیم کرتا ہے اور دونوں زندگی ہار دیتے ہیں۔میرزا ادیب نے اس افسانے میں شہری زندگی کے حوالے سے، ہر دو پہلوئوں سے تقابل کیا ہے۔ سہیل اور راحل کے نقطۂ نظر کا اختلاف میرزا ادیب کے تصور کو اُبھارتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی جن ہنگاموں، ترقی پسندی، جہدِ مسلسل اور ہماہمی سے عبارت ہے؛ وہی زندگی ہے اور اس کی بہتر نمائندگی، شہری زندگی ہی کرتی ہے۔

’’صحرا نورد کا نیا خط‘‘ میں شخصی آزادی، روشنی اور اُمیدپرستی کوموضوع بنایا گیا ہے۔ دریا کے کنارے پر ملاحوں کی بستی آباد تھی۔ ننی، مرحوم باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ سنبل، فن کشتی رانی کا ماہر تھا جو ننی سے اکثر مقابلہ بھی کرتا تھا۔ ایک تاریک رات مقابلے میں دور نکل جانے کے باعث گھر پہنچنا ناممکن ہوا تو ننی کی ماں اُسے ڈھونڈتی ہوئی پہاڑ سے گر کر موت کی آغوش میں چلی گئی۔ ننی کے پاس ندامت کے آنسوئوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچتا۔ ننی نے ماں کی قبر گھر کے صحن میں ہی بنوا لی۔ وہ ہر اندھیریرات میں لالٹین لے کر بھولے بھٹکے مسافروں کو بچانے کا ارادہ کر لیتی ہے۔ ننی، ایک رات اجنبی مسافر ’ہاموں ‘ کو گھر لے آتی ہے جو اُس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن سنبل کی رقابت کے باعث ننی سے شادی کرنے کے لیے، ہاموں اور سنبل کا، کشتی رانی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ہاموں کے مقابلہ جیتنے کے باوجود اُسے قید کر لیا جاتا ہے اورننی کو سنبل کی کشتی میں سوراخ کرنے کے جرم میں قید کر لیا جاتا ہے۔ سنبل، ننی کو بھگانا چاہتا ہے لیکن ننی اُسے جیت کر لے جانے پر اصرار کرتی ہے۔ سنبل اُسے مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے باوجود ننی اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتی۔ اُس پر ہاموں کو ماں کی قبر میں چھپانے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اِس گناہ کی پاداش میں بدروحوں کے بستی کو اُجاڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ننی جو اپنی بستی کو اپنی ماں کی طرح چاہتی ہے یہ برداشت نہیں کر سکتی اور اُس کی ماں کی قبر کو کھود جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ننی بستی سے نکل جاتی ہے اور ایک اجنبی گھر میں مہمان بنتی ہے۔ وہ رخشی کے گھر میں رہ کر طوفانی رات میں بھی لالٹین لے کر پہاڑوں پر چلی جاتی ہے۔ پھر ہاموں مل جاتا ہے جو اُسے رخشی کے گھر لے آتا ہے۔ رخشی، ہاموں کی چچازاد ہے اور ہاموں سے محبت کرتی ہے۔ وہ ننی کو بھی یہ راز بتا دیتی ہے۔ ننی، رخشی اور ہاموں سے دُور جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ننی اپنی بستی پہنچتی ہے جہاں سردار کو سزا مل چکی ہوتی ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ نیا سردار، ننی کی شادی کا فیصلہ کرتا ہے لیکن ننی خود کو تمام روایتوں اور طاقتوں سے آزاد سمجھتی ہے، اُس کے نزدیک وہ کسی کی غلام نہیں۔ہاموں ڈھونڈتا ہوا اُس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ سنبل بھی پہنچ جاتا ہے، سنبل اور ہاموں کی لڑائی میں دونوں مارے جاتے ہیں اور ننی لالٹین لیے پہاڑوں کی طرف چل پڑتی ہے۔ اس افسانے میں ننی، روشنی اور اُمید کی علامت ہے جو اپنے گھر، بستی اور ماں سے شدید محبت رکھتی ہے۔ روشنی اُس کا ہر غم میں سہارا بنتی ہے۔ زندگی کی تاریک راہوں میں ماں کی موت کا غم بھلانے، ہاموں سے ملاقات، بستی سے جلاوطنی کے بعد کی زندگی کا سہارا یہی روشنی بنتی ہے۔ لالٹین کی روشنی سے افسانے کے اختتام پر سحر کی روشنی تک کا سفر، اس کی زندگی کا سفر ہے جو وہ شخصی آزادی کے لیے خوداعتمادی سے طے کرتی ہے۔ وہ تقدیرپرست نہیں۔اس حوالے سے اُس کا تقدیر کا تصور یوں اُبھرتا ہے:

’’پگلی قسمت تو اس کے ساتھ چلتی ہے جس کی آنکھیں کھلی ہوں جو شخص اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ قسمت اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔‘‘ [۱۹]

میرزا ادیب نے اِس طویل افسانے میں تصورِ آزادی خاص طور پر معاشرے میں عورت کے تصور کی بازیافت کے لیے فضا سازی سے کام لیا ہے۔

’’دنیائے آرزو /خوابوں کے مسافر‘‘ کے طویل افسانوں میں ترقی پسندانہ نقطۂ نظر، امیر غریب کا فرق، نوآبادیاتی عہد میں ملازمت کے حصول کی مشکلات اور معاشرتی و مذہبی منافقت کو بھی پیش کیا ہے۔ ترقی پسند نقطۂ نظر، افسانہ ’’سلیم‘‘ اور ’’نالۂ دل‘‘ میں نظر آتا ہے۔ سرمایہ دار کے مزدوروں کے استحصال اور امیر غریب کے رہن سہن اور لباس کے موازنے کو ’’سلیم‘‘میں  جگہ دی گئی ہے۔ یہ افسانہ ایک تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان کی ڈائری ہے جس میں وہ استحصال کی داستان رقم کرتا ہے۔ اُسے معاشرے میں ہر سو دھوکا نظر آتا ہے۔ مزدور دن رات کماتا ہے اور سرمایہ دار کی جیب میں ڈال دیتا ہے اور خود اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ معاشرے کے تمام قوانین سرمایہ دار کو ہی تھپکی دیتے ہیں۔امیر غریب کے موازنے میں ؛ایک طرف دولت کے انبار؛دوسری طرف فاقے اور ایک طرف بلند مکانات؛ دوسری طرف سردی سے ٹھٹھرتے غریب لوگ ہیں۔

افسانہ ’’نالۂ دل‘‘ میں روٹی کو بہ طور موضوع بنا کر نقطۂ نظر واضح کیا گیا ہے۔ میرزا ادیب سمجھتے ہیں کہ مشرق کی رومانیت اور مغرب کی مادیت دونوں روٹی سے بے نیاز نہیں ہو سکتیں۔حیرت انگیز جدوجہد، جنگیں، لڑائیاں، معرکہ آرائیاں صرف روٹی کے لیے بپا ہوتی ہیں۔ایک بھوکا شخص یورپ کی بہترین آرٹ گیلری میں جا کر بھی روٹی کی ہی خواہش کرے گا۔ میرزا ادیب کے نزدیک دنیا میں صرف دو گروہ ہیں، ظالم اور مظلوم۔ ان کے مطابق، جو شخص آگے بڑھنے سے روک دے وہ ظالم ہے اور جو رُک جائے وہ مظلوم ہے۔ سرمایہ دار کا بیٹا، باپ سے بھی بڑا سرمایہ دار اور مزدور کی اولاد ہمیشہ مزدور رہتی ہے۔ مزدوروں کی تعداد میں اس اضافے کے بعد مزدور کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور اُجرت بھی کم ملتی ہے۔اُنھوں نے ظالم کے قوانین کے منابع کا بھی ذکر کیا ہے جس میں نسلی تعصب، ذات پات کے حقوق کی نگہبانی، مذہبی فوقیت اور ملکی نفوق شامل ہیں۔ان کا قانون دولت و ناداری، شرافت و شرارت اور مکاری و راست بازی کی شکست و کامرانی کا فیصلہ کرتا ہے۔

امیر و غریب کے فرق کو افسانہ ’’سلیم‘‘ میں ذرا مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مالک اور ملازم کے بچے، امیر و غریب کے فرق کے بغیر کھیلتے ہیں چوں کہ امیری و غریبی تو نوجوانوں اور بوڑھوں کا سوال ہے۔ اِس موازنے کے لیے دو مناظر دکھائے گئے ہیں۔ایک منظر میں کار میں ایک سہمی ہوئی، ڈرتی ہوئی، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس لڑکی نکلتی ہے جسے دو موٹے جامہ زیب آدمی ہوٹل میں لے جاتے ہیں۔دوسرے منظر میں ایک غریب ملازم دولت مند آدمی کے بوٹ پر ہاتھ رکھ کر آئندہ چھٹی نہ کرنے کی دہائی دے رہا ہے تاکہ اُس کی ملازمت کا سہارا نہ چھن جائے۔ دونوں مناظر میں غریب لڑکی اور غریب ملازم آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھرتے ہیں۔افسانے میں مصنف نے معاشرتی و مذہبی منافقت کو بھی بیان کیا ہے۔ خاں صاحب جنھیں دنیا بڑا عالم، فاضل اور دین دار سمجھتی ہے، صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور حج بھی کر آئے ہیں، ملازم سے شراب کی بوتلیں منگواتے ہیں اور اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مذہبی منافقت کے مزید مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔مثال کے طور پر عالی شان مندر کی سیڑھیوں پر اپاہج عورت کی پیش کش، جس کے ننگے شانے کے زخم سے پیپ بہہ رہی ہے اورنحیف و نزار بچہ اس کی گود میں ہے۔ مندر میں ہر کوئی اُسے حقارت سے دیکھتا ہے اور مندر کا پجاری گالیاں دیتا ہوا اُسے سیڑھیوں سے اُتار دیتا ہے۔ دوسرے منظر میں مسجد کے دروازے پر بوڑھا مسافر آدمی نورانی داڑھی والے مولوی کے سامنے رات مسجد میں گزارنے کی درخواست کرتاہے تو مولوی دروازہ بند کر دیتا ہے اور بے چارہ بوڑھا مسافر سردی میں ٹھٹھرتا ہوا مسجد کی سیڑھیاں اُتر جاتا ہے۔دونوں واقعات میں مذہبی منافقت کی قلعی کھل کر سامنے آتی ہے۔

میرزا ادیب نے اِن طویل افسانوں میں کہانی کے واقعے کی بنت پر زور دینے کی بجائے معاشرتی، معاشی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی صورتِ حال پر تبصرے کرنے پر زیادہ زور دیا ہے۔ اسی وجہ سے اِن افسانوں کی کہانی، یکسانیت کی دُھند میں کہیں کھو جاتی ہے اور تبصرے نمایاں ہو جاتے ہیں۔البتہ اِسی حوالے سے اُن کا نوآبادیاتی شعور بہت بیدار دکھائی دیتا ہے۔ نوآبادیاتی عہد میں غیرملکیوں کے ہتھکنڈوں اور چالوں کی گرہ کشائی وہ یوں کرتے ہیں:

’’ظالم ہر وقت حاکمانہ جبر و تشدد ہی سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ بسا اوقات مظلوم کے ساتھ انتہائی شفقت اور مہربانی کا سلوک بھی روا رکھتا ہے اور یہ اس کا خوف ناک ترین حربہ ہے۔ وہ اسے تہذیب و تمدن کا سبق پڑھانے کی غرض سے اس کی شجاعت و ہمت کو زنجیروں  میں جکڑ لیتا ہے۔ وہ اسے علم و دولت سے مالامال کرنے کے بہانے اس کے دماغ کو غلامانہ خُو سے روشناس کر دیتا ہے اور وہ اس کے لیے آرام دہ وسائل، ترقی مہیا کرنے کا مقصد، ظاہر کر کے اس کی تمام ذہنی دولت کو لوٹ لیتا ہے۔‘‘ [۲۰]

مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں بیان کردہ وسیلے، نوآبادیاتی عہد کو طول دینے کے لیے معاون ہیں۔عصرحاضر کے تنقیدی شعور نے نوآبادیاتی مطالعات کو جو رواج دیا ہے اُس کی رُو سے میرزا ادیب کا نوآبادیاتی شعور داد کا مستحق ہے جنھوں نے افسانوں کی صورت میں ، اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتِ حال کا مکمل ادراک پیش کیا ہے۔ ’’دنیائے آرزو/خوابوں کے مسافر‘‘ کے طویل افسانے، افسانے کی کلیت میں ڈھلنے کے برعکس معاشرے پر کمنٹری یا تبصرے کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

حوالہ جات

۱۔ان کا یہ افسانوی مجموعہ دو مختلف ناموں سے شائع ہوا۔پہلی بار’’دنیائے آرزو‘‘ کے عنوان سے۱۹۴۱ء میں نرائن دت سہگل ایند سنز لاہورسے اور دوسری بار ’’خوابوں کے مسافر‘‘ کے عنوان سے۱۹۵۷ء میں کتب مینار، لاہور سے شائع ہوئے۔

۲۔ڈاکٹر عرش صدیقی، محاکمات، لاہور:سارنگ پبلی کیشنز، س ن، ص۲۰۹

۳۔عطیہ سید، صحرا نورد کے خطوط۔ایک جائزہ، مشمولہ میرزا ادیب شخصیت اور فن، ص۲۶۱

۴۔ڈاکٹر سلیم اختر، افسانہ؛ حقیقت سے علامت تک، لاہور:مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ئ، ص۸۹

۵۔منشا یاد، صحرا نورد افسانہ نگار، مشمولہ میرزا ادیب شخصیت اور فن، ص۳۴۸

۶۔ڈاکٹر نوازش علی، میرزا ادیب کی افسانہ نگاری مشمولہ ماہنامہ ادبِ لطیف، لاہور، جون ۱۹۹۱ئ، ص۵۱

۷۔میرزا ادیب، پیش لفظ، صحرا نورد کے خطوط، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۵ئ، ص۹

۸۔ڈاکٹر عرش صدیقی، میرزا ادیب کی داستانیں، مشمولہ میرزا ادیب شخصیت اور فن، مرتبہ ڈاکٹر رشید امجد، لاہور: مقبول

۱کیڈمی، ۱۹۹۱ئ، ص۲۴۸

۹۔ڈاکٹر محمد حسن، اردو ادب میں رومانی تحریک، ملتان:کاروان ادب، ۱۹۹۳ئ، ص۸۹

۱۰۔ڈاکٹر انوار احمد، اردو افسانہ؛ ایک صدی کا قصہ، فیصل آباد:مثال پبلشرز، ۲۰۱۰ئ، ص۳۴۱

۱۱۔میرزا ادیب، صحرا نورد کے خطوط، ص۱۱۴

۱۲۔ایضاً، ص۲۵۵

۱۳۔ایضاً، ص۲۶۳

۱۴۔میرزا ادیب، خوابوں کے مسافر، کتب مینار، لاہور، ۱۹۵۷ئ، ص۸۹۔۹۰

۱۵۔ڈاکٹر قاضی عابد، اردو افسانہ اور اساطیر، شعبہ اردو، ملتان:بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ۲۰۰۲ئ، ص۱۲۸۔۱۲۹

۱۶۔ڈاکٹر نوازش علی، میرزا ادیب کی افسانہ نگاری مشمولہ ماہنامہ ادبِ لطیف، لاہور، جون ۱۹۹۱ئ، ص۴۷

۱۷۔میرزا ادیب، صحرا نورد کے رومان، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۵ئ، ص۱۸۵

۱۸۔ایضاً، ص ۲۰۲

۱۹۔میرزا ادیب، صحرا نورد کا نیا خط، لاہور:لاہور اکیڈمی، ۱۹۷۶ئ، ص۱۷۱

۲۰۔میرزا ادیب، دنیائے آرزو، لاہور:نرائن دت سہگل اینڈ سنز، ۱۹۴۱ئ، ص۱۷۶

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نسیم عباس احمر،

استاد شعبہ اردو، یو نیورسٹی آف سرگودھا

naseemahmar@hotmail.com

۷۶۱۷۲۰۱ا_ ۰۳۳۱: رابطہ نمبر

Leave a Reply

2 Comments on "میرزا ادیب کے طویل افسانے __فکریات ورجحانات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Ashfaq Ayaz
Guest
بہت اچھا مضمون لکھا گیا ہے۔ اور خالصتاً علمی و ادبی بحت کی گئی ہے۔ مصنف نے حقیقی تحقیق سے کام لیا ہے۔
Dr. Uzair
Editor
شکریہ، ہمیں اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازیں۔
ایڈیٹر
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.