غلام ربانی تاباں ؔ اور مجروحؔ سلطان پوریـ: ایک تقابلی مطالعہ
ارون دھتی رائے کے مطابق جس ہندوستان کی اچھی خاصی آبادی ا ن پڑھ ہے، اس میں پڑھا لکھا کہلانا اور اس سے زیادہ ادیب ہونا ایک مشکوک قسم کا اعزاز ہے۔ غلام ربانی تاباں ؔ اور مجروح سلطان پوری کے تعلق سے میراخیال بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ انہوں نے جس طرح سے اپنے عہد میں غزل کی آبیاری کی، وہ بھی ترقی پسندوں کی نظرمیں مشکوک سے کچھ کم نہ تھے۔ یاد کیجئے وہ زمانہ جب غزل کے خلاف منشور جاری کیا جارہا تھا۔ یہی نہیں باقاعدہ جلسہ منعقد کرکے قرارداد پاس کی گیٔ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھیمڑی کی آل انڈیاترقی پسندمصنفین کانفرنس جو ۱۹۴۹ میں منعقد ہوئی تھی، جس میں باقاعدہ ڈاکٹرعبدالعلیم نے غزل کے خلاف تجویزرکھی تھی اورپاس بھی ہوئی۔مجروح سلطان پوری نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اس کے ردعمل میں یہ شعر کہا تھا۔
ستم !کہ تیغِ قلم دیں اُسے جو اے مجروحؔ
غزل کو قتل کرے نغمے کو شکار کرے
ٹھیک اسی دورمیں غلام ربانی تاباں ؔ نے غزل کی آبیاری کاجوکھم اٹھایا۔ تاباں ؔ کا پہلا شعری مجموعہ ’سازلرزاں ‘ جوکہ تین غزلوں اور بقیہ نظموں پر مشتمل تھا،۱۹۵۰ میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ’حدیثِ دل‘ کے نام سے۱۹۶۰میں شائع ہوا۔ یہ تمام تر غزلوں کا مجموعہ تھا۔ یعنی کہ تاباں ؔ ’سازلرزاں ‘ کے بعد نظمیں کہنا چھوڑ کر غزلوں کی طرف رجوع کرچکے تھے۔ یا یوں کہیے کہ وہ ـــــــ’ساز لرزاں ‘کے بعد غزل کے ہوکر رہ گئے۔ فیضؔ کے خیال میں :
وہ توجب آتے ہیں مائل بہ کرم آتے ہیں
غلام ربانی تاباں ؔ کاتیسرا شعری مجموعہ’ذوق سفر‘ تھا، جو ۱۹۷۰ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’نوائے آوارہ‘ ۱۹۷۶ اورــ ـ’ــغبارمنزل‘ ۱۹۹۰ منظرعام پہ آئے۔ یہ سبھی غزلوں کے ہی مجموعے ہیں ۔ ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ تاباں ؔ نے اپنے اوپر آل انڈیا ترقی پسندتحریک مصنفین کے حکم نامے کو حاوی نہ ہونے دیا۔
غلام ربانی تاباں ؔ کے ہم عصر شعرا کی فہرست دادی اماں کی دعائوں کی طرح طویل ہے۔ ظاہرہے سب پہ بات کرنا ممکن نہیں ۔ میں نے ان کے ہم عصروں میں مجروحؔ سلطانپوری کا انتخاب کیا ہے۔ مجروحؔ اور تاباں ؔ کے درمیان کیٗ معاملوں میں مماثلت ہیں ۔ پہلی یہ کہ دونوں ترقی پسند شعرا کی حیثیت سے اردو شاعری میں بلندمقام رکھتے ہیں ۔ دوسری جو ان میں خاص مماثلت ہے وہ یہ کہ دونوں ایک ایسے نازک دورمیں غزل کی آبیاری کررہے تھے جس میں غزل کو جاگیردارانہ نظام کی پروردہ کہہ کرشعری اصناف سے باہر کا راستہ دکھایا جارہا تھا۔ تیسری یہ کہ دونوں نے ترقی پسندنظریہ کواپنی شاعری میں استعمال کیا اور تحریک میں بھی عملاََشامل رہے جس کی پاداش میں انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ چوتھی دونوں کا شعری رویہ کم وبیش یہ تھا کہ اپنے ہوں یا پرائے، کسی نے بھی غزل مخالف راگ چھیڑا تو اس کا مقابلہ کیاجائے گا۔اور پانچوی یہ کہ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی مسائل کے بارے میں دونوں کافی حساس تھے۔
اگر دونوں میں غیرمماثل پہلوئوں پرغورکریں تو اندازہ ہوگا کہ مجروح ؔکے بارے میں یہ عام تاثرہے کہ انہوں نے اپنی شعری رویّوں میں نرمی کی جگہ تندخوی ٔکو اپنائے رکھا۔ وہیں تاباں ؔ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ تمام حالات میں غزل کے نرم لہجے کی پرورش کرتے رہے۔ اسی لیے نیاز فتح پوری نے انہیں مومنؔ اسکول کا شاعر کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’تاباں ؔ صاحب بڑے اچھے ذوق کے غزل گو شاعرہیں اور حسرت موہانی کا وہ رنگ جو ’مومن اسکول‘ کی یادگار ہے، ان کے یہاں بڑی نفاست اورپاکیزگی کے ساتھ پایا جاتا ہے۔‘‘
(، شفیق انساء قریشی ،غلام ربانی تاباں حیات اورشاعری، نئی آواز،جامعہ نگر، نئی دہلی،1980،ص:106)
تاباں ؔکے چند اشعارملاحظہ ہوں :
کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیاکرتے ہیں لوگ
خامشی بھی ایک طرزِ گفتگو ہے دوستو
………
اللہ رے یہ حسن کی جادو خرامیاں
جنبش میں جیسے راہ گذر ہے تمہارے ساتھ
اب آپ مجروحؔ کے حوالے سے یہ دیکھیے کہ جب ان کاشعری مجموعہ’ غزل‘ ۱۹۵۳ میں شایعٔ ہوا تو اس کے تعارفی مضمون میں سردارجعفری لکھتے ہیں :
’’مجروحؔ کو بڑا شاعر بننے کے لیے اس آہنگ کو اورزیادہ بلندکرنا ہے۔ اور یہ ہوکے رہے گا۔ ہماری لڑائی جاگیرداری اورسامراجی ذہنیت کے خلاف ہے اوراس لیے ہم کو اپنی نوا اور زیادہ بلند وتیز کرنی پڑتی ہے۔‘‘
(تعارف: سردار جعفری،غزل مصنفہ مجروح سلطان پوری،علی گڑھ،۱۹۵۳،ص۲)
مجروحؔ کے چند اشعارملاحظہ ہوں :
امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا لہرانے نہ پائے
یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا مارلے ساتھی جانے نہ پائے
………
ستونِ دار یہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
………
جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قدو گیسو سے اپنا سلسلہ دار و رسن تک ہے
شاعری کی اپنی کائنات ہے اس کائنات سے تاباں ؔ اور مجروحؔ نے اپنے لیے ایک خاص دنیا آباد کی ہیں جس میں عزم کی پختگی، حوصلے کی بلندی اورمنزل کی تلاش گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتی ہے۔ تاباں ؔ کے چنداشعارملاحظہ ہوں :
کوئی منزل ہے تیری اور نہ تیرا کوئی پڑائو
زندگی خانہ بدوشی کے سوا کوئی نہیں
جستجو ہو تو سفر ختم کہاں ہوتا ہے
یوں تو ہر موڑ پر منزل کا گماں ہوتا ہے
اب چنداشعار مجروحؔ کے ملاحظہ ہوں :
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پائوں کی زنجیر نہ دیکھ
مجرو حؔ کی طرح تاباں ؔ نے بھی روایتی غزلیہ موضوعات کو اپنے منفرد اسلوب میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ تاباں ؔ کی روایتی شاعری میں ان کا عہد نمایاں طور پر نظرآتا ہے۔ اس طرح وہ روایتی لب ولہجہ بھی رکھتے ہیں اوراپنے عہد کی نمائندگی بھی کرتے ہیں ۔ بطور ثبوت تاباں ؔ کے چنداشعارملاحظہ ہوں :
تشنہ کاموں کو خبر دو کہ مرے ساقی نے
میکدہ کھول دیا گلشنِ مژگاں کے قریب
………
لائی ہے تیری یاد گو دل پہ خرابی
گو دل کو خرابی نے سنوارا بھی بہت ہے
تاباں ؔ کی طرح مجروحؔ کی شاعری بھی غزل کی کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتی ہے۔ ان کے اشعارمیں روایت اپنے عہد کا جامہ پہنے ہوئے ہے۔ مگر دونوں میں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ مجروحؔ روایتی شاعری میں جگرؔ کی پیروی کرتے ہیں اور تاباں ، ؔ حسرتؔ کی۔ دونوں کے اشعار بطورثبوت ملاحظہ ہوں ۔
اللہ رے وہ عالم رخصت کہ دیر تک
تکتا رہا ہوں یوں ہی تری رہ گزر کو میں
(تاباں )ؔ
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
(مجروحؔ)
ظاہرہے کہ جب ہم دونوں شعرا کے اشعار پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں نے اپنے ا ستادوں کی پیروی کی ہے اورساتھ ساتھ روایت کے احترام کا خیال بھی رکھا ہے۔
یہ جونکیں یہ انساں کا لہو چوسنے والے
کوئی فرق نہیں ایک ہیں گورے ہوں یا کالے
اب مجروحؔ کے دواشعارملاحظہ ہوں :
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح
………
جو دیکھتے میری نظروں پہ بندشوں کے ستم
تو یہ نظارے مری بے بسی پہ رو دیتے
مذکورہ بالا اشعار کے ذریعہ دونوں شاعروں نے اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی مسائل پر براہ راست حملے کئے ہیں ۔ اصل میں یہ وہی اشعارہیں جن کو بنیاد بناکر غیرترقی پسند نقادوں نے انہیں نعرہ زنی قرار دیا ہے۔ مگر ہم،جب ان کو اس عہد کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو ان کے یہاں ہمیں شاعری کا سماجی پہلو نظرآتا ہے۔
مجروحؔ اور تاباں ؔ کے انقلابی اشعارمیں بھی الگ الگ رنگ نظرآتے ہیں ۔ تاباں ؔ کے انقلابی اشعار رومانیت کے قالب میں مزین ہیں ۔ جس کی بنا پر وہ فیضؔ کے خیمے میں نظرآتے ہیں ۔ جب کہ انقلابی اشعار میں مجروحؔ نے اپنا الگ رنگ پیداکیا ہے۔ مجروحؔ کی انقلابی شاعری مقصدی شاعری بھی ہے مگر اس پر مقصدیت کم شعریت زیادہ ہے۔
پہلے چنداشعار تاباں ؔ کے ملاحظہ ہوں :
ہم آبلہ پایان رہِ شوق کو تاباں ؔ
یہ دوریٔ منزل کاسہارا بھی بہت ہے
………
مقام دار سے گزرو تو زندگی پائو
پیو جو زہر ہلاہل سرور آجائے
اب مجروحؔ کے چنداشعار ملاحظہ کیجئے:
سرپرہوائے ظلم چلے سوجتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
………
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
یہ وہی انقلابی اشعار ہیں جو آج شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاباں ؔ اور مجروح ؔدونوں ہی ترقی پسند شعرا نے اردو کی مقبول صنفِ سخن کے سرمایہ میں بیش قیمت اضافے کیے ہیں ۔
کسی بھی شاعر کی شاعری میں اس کے عہد کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اپنے عہد کے حالات سے صرف دیوانہ بے خبررہ سکتا ہے، شاعر جیسا حساس انسان نہیں ۔ تاباں ؔ اور مجروحؔ اپنے عہد کے سیاسی و سماجی حالات سے بخوبی واقف تھے۔ اور ان پرگہری نگاہ بھی رکھتے تھے۔ جیسے جیسے ان کے عہد میں کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیموں کے ماتحت چلنے والی تحریکیں پروان چڑھی ان کی شاعری میں ترقی پسندچنگاری کی لو تیزرہی۔تلنگانہ تحریک کی شکست کے بعد جیسے جیسے اشتراکی تحریکیں کمزور پڑتی گئیں اورکلچرل فورم اپٹا(I.P.T.A.)کا دبدبہ فلموں پر سے ختم ہونے لگا توتقریباََ سبھی ترقی پسند شعرا نے اپنے اشعارکے انقلابی لہجہ کو مدھم کرلیا ۔پھراس دور میں تاباں ؔنے کہا:
شیشہ نازک تھا ذرا چوٹ لگی ٹوٹ گیا
حادثے ہوتے رہتے ہیں گلہ کیا کرتے
………
شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتّوں کی آخرکیا بساط
جس طرف چاہے گی جنگل کی ہوالے جائے گی
مجروحؔ سلطانپوری کہتے ہیں :
ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اورتم نے بھی دیکھا دورسے لیکن
یہ نہ سمجھا ہم کو ہوا ہے جان کا نقصاں تم سے زیادہ
ظاہر ہے کہ ایک مختصر مضمون میں تاباں ؔ اور مجروحؔ کاتقابل نہیں کیا جا سکتا ۔مگر اتنا تو طے ہے کہ تاباں ؔ اور مجروحؔ دونوں نے اپنی ترقی پسند شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے سیاسی و سماجی مسائل کو قلم بند کرکے آنے والی نسلوں کے لئے ایک چراغ روشن کیا تھا، تاکہ وہ مسلسل اس راہ پر گامزن رہیں اور آنی والی نسلوں کو یہ بتائیں کہ اردو شاعری کی کائنات صرف عشق و محبت تک محدود نہیں ہے بلکہ کافی وسیع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اخترعلی،
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی
Mob. 9899155274
Leave a Reply
Be the First to Comment!