ذرائع ابلاغ  کا اردو زبان  کی ترقی  میں کردار

 ڈاکٹر محمد سیف اللہ خان ،انعم ناز،    ناصر محمود

ریسرچ اسکالرز،شعبہ ابلاغ عامہ،وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی

Abstract

“Urdu journalism has played a leading role in the Indian independence movement. It is an honor for Urdu journalism that it has raised its voice against English tyranny and colonialism. The history of India’s independence movement is impossible without Urdu journalism. The hardships of prisons that the editors and journalists of Urdu newspapers endured the most were not borne by the staff of any other language. Let’s look at the history of Urdu journalism. So it is estimated that this art has made significant strides in the promotion of language and literature. The status and popularity of Urdu among the popular languages ​​of India and due to which it has the potential to become a common national language is the medium of journalism. That is why, like all other arts and crafts, it has been given attention in the universities Even the art of journalism has been included in Urdu literature. It is a separate argument that the style of journalism is considered flawed in literature. Urdu literature and journalism have had a deep relationship with each other from the very beginning and of course the media has played an important role in the development and promotion of the Urdu language. Urdu language was reaching the stage of puberty from the time of Kim Sunni. Urdu journalism had started. This was in the early nineteenth century. But now the media is not doing its duty for the development and promotion of Urdu language like the newspapers of the past. The institution of editors has become weak. The media now has not only spelling mistakes but also people who are ignorant of their pronunciation. Have appeared in the media. In spite of the existence of words in Urdu language, they are not being used but English words are being used which are causing the deterioration of Urdu language. In this context, the past efforts for Urdu language are past. The review is presented in the light of current newspapers and domestic and foreign electronic media. “

برصغیر  میں اردواخبارات

ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو صحافت نے قائدانہ  کردار ادا کیا  یہ اردو صحافت کا اعزاز   حاصل ہے کہ اس نے اب سے پہلے انگریزی  استبداد و استعماریت  کے خلاف آواز بلند کی ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ  اردو صحافت کے بغیر ناممکن ہے ، جیل و قیدو بند کی صعوبتیں جو  اردو اخبارات  کے ایڈیٹروں  و صحافیوں  نے سب سے زیادہ  برداشت کیں  وہ کسی  دوسری زبان کے عملے نے نہیں کیں ۔اردو صحافت کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس فن نے زبان وادب کے فروغ میں کارہا کے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ہندوستان کے مروجہ زبانوں میں اردو کو جوحیثیت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور جس کی وجہ سے اس میں مشترکہ قومی زبان بننے کی صلاحیت پیدا ہوئی وہ ذریعہ صحافت ہی ہے۔

ہندوستان میں انگریزی صحافت کی ابتداکے کوئی بیالیس برس بعد اردو صحافت کی ابتداءہوئی۔ انگریزی اخبار’ہکیز گز8017ءکو کلکتہ سے جاری ہوا۔1)(یہ چار ورقی اخبار تھا ، اس کا مالک ، طابع وناشر اور ایڈیٹر جیمس آگٹس ہکی تھااور یہ ایک ہفتہ وار اخبار تھا۔ جبکہ27مارچ 1822ءکو اردو زبان کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ منظر عام پر آیا۔ (2)ابتدا میں اس کے صرف چھ شمارے ہی اردو میں نکل سکے ، اس کے بعد اس کو فارسی زبان میں منتقل کردیا گیا اور پھر ایک سال بعد فارسی اخبار کے ساتھ چارورقی اردو ضمیمہ منسلک کیا گیاجو اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا تھا وہ فارسی کے اخبارکے ساتھ بھی بکتاتھا اور انفرادی طور پر بھی اس کی مانگ تھی۔یہ اخبار کم وبیش پانچ سال جاری رہا ۔اس کے بعد لیکن ” جام جہاں نما ‘ ‘میں اردو کے ساتھ فارسی کے صفحات بھی ہوتے تھے گویا یہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو پہلا خالص اردو اخبار ” اخبار دہلی “ تھا جسے مولوی باقر نے جاری کیا تھا ۔ (3)یہ ہندوستانی قوم پرستی کا زبردست حامی تھا اور جنگ آزادی میں اس کا بڑا اہم کردار تھا اور اُس زمانے میں اِس اخبار نے سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا ۔ انگریزی سرکار کے ہاں معتوب ٹھہرا لیکن کبھی بھی اپنی آزاد پالیسی پر آنچ نہ آنے دی اور یہی وجہ تھی مولوی باقر کو گولیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس طرح آزادی کی جدوجہد میں، اُردو صحافت کے پہلے قوم پرست اور محب الوطن شہید کا درجہ پایا ۔(4) اور اکبر آباد سے منشی سدا سکھ لال کی سرپرستی میں اخبار نورالبصار نکلا۔(5) اس وقت تک انگریزی صحافت اپنی جڑیں کافی مضبوط کرچکی تھی،ملک کے تین بڑے شہرکلکتہ،ممبئی اور مدراس میں انگریزی کے بیسیوں اخبار ورسائل نکل رہے تھے۔ جبکہ  بعض محققین کا خیال ہے کہ اردو کا پہلا اخبار’ جام جہاں نما‘ نہیں بلکہاردو کا پہلا اخبار سلطان ٹیپو شہید نے جاری کیا تھا۔ یہ’’ٹیپو سلطان شہید کا فوجی اخبار تھا، اور یہ ہفت روزہ تھا۔یہ اخبار خاص طور پر فوجیوں کے لیے تھااور اس میں جہاد کے متعلق مضامین اور وطن کے دفاع سے متعلق مختلف لوگوں کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔یہ اخبار سلطان کی شہادت تک مسلسل شائع ہوتا رہا۔ سقوط سری رنگا پٹنم کے بعد انگریزوں نے اس اخبار کی تمام فائلوں اور ساز وسامان کو نذر آتش کردیا تھا“جو سلطان ٹیپو نے اپنی شہادت سے پانچ سال اور’جام جہاں نما‘ سے کم وبیش اٹھائیس سال قبل 1749  میں جاری کیا تھا۔ ‘‘ 6)(

 وہ زمانہ تھا جب بر صغیر میں اردو نثر کی ترقی کے لیے شعوری اقدامات کیے جارہے تھے اور اردو کتابوں کے لیے چھاپے خانے قائم ہورہے تھے۔ اردو طباعت کے شعبہ میں یہ انقلاب اردو صحافت کی ترقی کا نقیب ثابت ہوا اوریہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت نے اپنے اوائل ہی سے اردو ادب اور اردو ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب صحافت ہی کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوااور پروان چڑھا۔اردو شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ہوا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں‘ نوابوں کے ڈیروں اور مشاعروں کی پرانی روایت کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالصتاً صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔ اردو صحافت سے قبل ہندوستانی زبانوں میں صرف بنگالی زبان کے اخبارات ہی نکل رہے تھے۔کلکتہ شہر ان بنگالی اخبارات کا گویا مرکز تھا۔بنگلہ زبان میں شائع ہونے والا سب سے پہلا اخبار’بنگال گزٹ‘ تھا جو1618ءکو جاری ہو۔(7(اس کے بعد فارسی زبان میں راجہ رام موہن رائے کا اخبار 2اپریل 1822ءکو’مراة الاخبار‘ کے نام سےمنظر عام پر آیا۔۔ (8)

ہندوستان میں اردو کادوسرا اخبار ’ سید الاخبار‘ تھا جسے سر سید کے بھائی سید محمد نے دہلی سے جاری کیا اور جس کے ذریعے خود سر سید عوام سے متعارف ہوئے۔ 9)( اِس کے بعد اردو صحافت کاجو دور شروع ہوا اُس میں مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد نے جہاں ایک طرف عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا اور ان کی آزادی کی جدوجہد میں مدد کی وہاں اردو نثر کو بھی مالا مال کیا۔ سرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق سر سید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کی ایک کہکشاں سجائی تھی جس میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، ذکاء اللہ خان، محسن الملک اور چراخ علی نمایاں ہیں ۔( 10)سر سید نے مولانا حالی کو مسدس لکھنے کی ترغیب دی تھی اور اس کو مقبول عام کرنے کے لیے انہوں نے اپنے رسالہ تہذیب الاخلاق میں یہ مسدس شائع کی اور ادب کایہ شہہ پارہ عوام تک پہنچا یا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال او ر البلاغ، بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق، کانپور کے زمانہ، حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلیٰ اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ نثر کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے۔) 11 (وہ اردو ادب کی تاریخ کے لیے قابل فخر ہے۔ان جیسے محب وطن، بیباک و نڈر قلم کاروں نے اردو صحافت کو استعماریت سے آزادی کے لیے بطور ہتھیاراستعمال کیا۔ اور لاہور، امرتسر، الہٰ آباد، لکھنو،آگرہ، جے پور، بمبئی، کانپور، حیدرآباد،کلکتہ اور کشمیرغرضیکہ پورے ملک میں اردو اخبارات کا بول بالا ہوا ۔لاہور کے پیسہ اخبار، زمیندار‘ ا پرتاپ اور کوہ نورامرتسر کا وکیل اور اُدھر نور الانوار ، الہلال اورالبلاغ‘ریاست ، آصفہ الاخبار اور دبدبہ سکندری کا طوطی بولنے لگا۔(12)  اور روزناموں اور ہفتہ وار اخبارات و رسائل نے اردو صحافت میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا جس نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی لہر دوڑا دی اور اردو صحافت نے ایک منفرد مقام اور لوگوں کا اعتماد حاصل کر لیا ۔

بیسویں صدی ہندوستان میں انقلاب لے کر آئی ۔ کانگریس کے قیام اور اس دور کی علمی سرگرمیوں  کی وجہ سے لوگوں میں سیاسی شعور  و بیداری پیدا ہونی شروع ہو گئی ۔ تقسیم بنگال ، کانپور کی مسجد ، جلیانوالہ باغ کی خونریزی ، سوراج اور ترک موالات کی تحریکات، پھر عالمی سطح  پر ایشیا و افریقہ  کے ملکوں کا مغربی ملکوں کے ذریعے  تخت وتاراج ، ترکی سلطنت کی تباہی کا  آغاز اور پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے لوگ   زیادہ باخبر  رہنے کی طرف راغب ہوئے اور ان کی ملکی و غیر ملکی ھالات سے واقف رہنے کی تڑپ بڑھی  اور اخبار بینی میں اضافہ ہوا۔ لہذا  بہت سے نئے اخبارات بھی نکلنے لگے اور خاص بات یہ ہوئی کہ انگریز وں کی خوشامدی اخبارات دب کر رہ گئے اور اردو صحافت شمشیر برہنہ ہو کر انگریز کے سامنے آگئی ۔اردو اخبارات کے ساتھ، بیسویں صدی کے اردو رسائل و جرائد نے بھی سیاست و علم و ادب کی خوب آبیاری کی ۔ سر سید کا تہذیب الاخلاق، سید امتیاز علی کا کہکشاں، مولانا آزاد کا لسان الصدق، حکیم محمد یوسف کا نیرنگ خیال، خواجہ حسن نظا می کا نظام المشائخ، راشد الخیری کا عصمت، سر عبدالقادر کا مخزن، ملک محمد الدین اعوان کا صوفی ، شاہد دہلوی کا ساقی اور مولوی عبدالحق کا سہ ماہی جریدہ اردو ادب شامل ہیں یہ سب رسائل و جرائد علم و ادب اور سیاست و ثقافت کی عظیم الشان تاریخ رقم کرتے رہے اور قوم کی راہبری میں پیش پیش رہے ۔ اور قوم کے سیاسی، ثقافتی اور اخلاقی معیار کی تعمیر کے لیے جد وجہد کرتے رہے ۔

اردو میں طنزومزاح کو جو فروغ حاصل ہوا وہ خاص طور پر اردو صحافت کی دین ہے۔ اس صنف کا آغاز سر شار اور سجاد حسین سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مزاحیہ مضامین کی ابتدا اودھ پنچ سے کی۔ خود سجاد حسین اس زمانہ میں اودھ پنچ کے مدیر تھے۔  مرزا مچھو بیگ ستم ظریف ‘ پنڈت ہجر ‘ منشی  احمد علی کسمنڈوی  اور جوالا پرشاد برق اسی زمانہ کے نامور مزاح نگار تھے۔ بعد کے مزاح نگار رشید احمد صدیقی ‘ ملا رموزی ‘ پطرس ‘ فرحت اللہ بیگ‘ عظیم بیگ چغتائی اور کنہیا لال کپور کتابی مزاح نگار ہیں لیکن بعد کی مزاح نگار نسل میں چراخ حسن حسرت‘ مجید لاہوری‘ حاجی لق لق ‘ طفیل احمد جمالی ‘ ابراہیم جلیس ‘ ابن انشاء نصر اللہ خان ‘ فکر تونسوی ‘ شوکت تھانوی مشفق خواجہ اور عطا الحق قاسمی‘ ان سبھوں نے اردو صحافت کے ذریعہ اپنی تخلیقات کو جلا دی اور عوام تک پہنچایا۔)13( اس نسل کے مزاح نگاروں میں ایک بڑا نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے لیکن وہ براہ راست حساب کتاب سے کتاب تک آئے ہیں۔ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد دیش کی طرح ہندوستانی اردو اخبارات بھی بٹوارے کا شکار ہو گئے، اور وہ ہندوستانی و پاکستانی اخبارات بن گئے۔

مابعد قیام پاکستان اردواخبارات

برصغیر میں اردو صحافت نے بیسویں صدی میں جو زندہ و بیدار قومی شعور پیدا کیا تھا، پاکستان کے قیام کے بعد اردو اخبارات وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہو گئے اور چند ہی سال بعد وہ حکومتی، سیاسی سازشی عناصر کا شکار ہوگئے یہاں تک کہ دہلی ہی سے پاکستان منتقل ہوجانے والا اخبار ’ جنگ‘  جو آج پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ شمار ہوتا ہے وہ بھی خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اور یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام آج تک اُن وعدوں کے پورا ہونے کے منتظر ہیں جو قیام پاکستان کی تحریک کے دوران ان کے قومی رہنماوں ، سیاستدانوں اور علمائے کرام نے اُن سے کیے تھے اور جس خوش بختی کے لیے انہیں سہانے خوب دکھائے گئے تھے ۔ خیر! ۔شکیل چوھدری پاکستان کے بڑے معتبر اور معروف سیاسی تجزیہ کار اور محقق و سیاسی مبصرہیں ان کے تجزیے عالمی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ پاکستان میں اردو صحافت سے متعلقہ اُن کے تجزیے کا ایک اقتباس پیش  کیا جارہا ہے ۔ ان کا یہ تجزیہ معروف انگریزی جریدے “VIEW POINT” میں شائع ہوا ۔ اس میں شکیل چوھدری اپنے اس تجزیے میں اردو صحافت کو درپیش مسائل کا بڑی گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” پاکستان کا اردو میڈیا ، شاید دنیا میں سب سے زیادہ غیر ذمہ دار، لاپرواہ اور ورغلانے والا میڈیا ہے ۔ یہ دن رات سازشی نظریات و تخیلات کوفروغ دیتا ہے ۔ علمِ صحافت کے ماہرین کی بجائے زیادہ تر مقالہ نویس اور کالم نویس خام پروپیگنڈے، جذباتیت اور تعصب اور مفروضات پر انحصار کرتے ہیں اور یہ حقائق ایک غیر جانبدار، بے باک و نڈر صحافت کی راہ میں کنکریٹ کی دیوار ہوتے ہیں ۔ حقائق کی تحقیق و تصدیق تو دور کی بات ہے اِس کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ کچھ پاکستانی اخبارات جن میں قومی سطح پر شائع ہونے والے اخبارات بھی شامل ہیں، لاپرواہ اور خود متضاد رویہ رکھتے ہیں۔‘‘(14)

مبا لغہ آمیزی ، سنسنی خیزی ، افوا ہ سازی ، ہیجا ن انگیزی ، شد ت پسندی ، فحا شی منفی پراپیگنڈہ کو اخلا قی حدودسے تجاوز نہیں کر نا چا ہیے۔یہ رویّے سر ا سر زرد صحافت کے ذیل میں آ تے ہیں۔ کسی میڈیا گروپ کی پالیسی اور ایجنڈ ا اس کامتحمل نہیں ہو سکتا۔جمہوریت ،آزا دذرائع ابلاغ اور انسانی حقو ق جیسے دعوے مہذب ملکوں میں بھی کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔مقام افسوس کہ سماج سدھار کا فریضہ ادا کرنے والا ریاست کا چو تھا ستون اپنے ضمیر اور داخلی شعوری تنقید نگار کو سننے کیلئے تیار نہیں ۔یہ قومی سطح کا مسئلہ ہے جسکا حل ضروری ہے۔پاکستان کے تین بڑے اردو میڈیا گروپ اور بیشتر دوسرے روزانہ اخبارات اور ہفتہ وار نیم سیاسی و ثقافتی رسائل و جرائد خوب بنا سنوار کر جو ’ ہفتہ وار خصوصی ایڈیشن‘ مختلف عنوانات کے تحت مثلاََ اسلامی ایڈیشن، ادبی و سیاسی ایڈیشن وغیرہ شائع کرتے ہیں ان میں بے ضرر سطحی معلومات اورعام طور پرلسانی و مذہبی فرقہ بندی کو ہوا دی جاتی ہے۔اور سیاسی ایڈیشن تو محض اُن سیاسی حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں جن سے اخبارات کے مالکان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے ۔ اور پھر تضاد کی حد ہے کہ ایک طرف تو یہ بڑے بڑے اخبارات ملک میں عریانی و فحاشی بڑھ جانے کے خلاف علمائے کرام کی تقاریرو فتوے شائع کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ایسے ’ فلمی ایڈیشن ‘شائع کرتے اور خواتین فلمی ستاروں کی ایسی ایسی نیم عریاں رنگین تصاویر شائع کرتے ہیں جوان کے متضاد رویے کی گواہی دے رہی ہوتی ہیں ۔ ہندوستان کی طرح پاکستان کے بھی کسی اردو اخبار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہوتا کہ یہ کن عناصر کی سرپرستی میں کن سیاسی پارٹیوں یا مذہبی دھڑوں کا ساتھ دے رہا ہے اور کیوں عوام کی آواز بلند کرنے میں ان کا ساتھ نہیں دیتا ۔ پاکستان کے اردو اخبارات کا یہ رویہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا البتہ نوائے وقت ، کوہستان اور چند ایک دوسرے اخبارات کچھ حد تک صحافیانہ ایمانداری کی روش پر قائم رہے ۔لیکن جب صدر جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لاءلگا کر ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد کی بنیاد رکھی تو ہر کسی کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ اس عہد کی پاکستانی صحافت کی تاریخ بڑی تلخ ہے جب کئی ایک اخبارات کو بحق سرکار ضبط یا بند کردیا گیا اور ایک نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کرکے اخبارات پر حکومتی اجارہ داری ٹھونس دی گئی ۔(15) اور پھر یکے بعد دیگرے مارشل لائی حکومتوں اور خود جمہوری منتخب شدہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر دور حکومت اور اُس کے بعد آمر مطلق جنرل محمد ضیاالحق کے دور میں اخبارات اور صحافیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا، ان پر کوڑے برسائے گئے، کئی ایک اخبارات کو بند کردیا گیا ،یہ ایک بڑی لمبی اور دکھ بھری کہانی ہے۔)(16 جنرل پرویز مشرف کے دور میں صحافت کو آزادی ملی تو ملک میں متعدد ٹیلیویژن اورایف ایم ریڈیو اسٹیشن قائم ہو جانے کے ساتھ ساتھ اردو اخبارات بھی بڑی تعداد شائع ہونے لگے۔ڈیکلریشن  جاری ہوئے لیکن اس دور میں بھی آمرانہ سوچ صحافت پر اپنی گرفت رکھنے میں کسی نہ کسی طرح متحرک رہی اور جیو جیسے ٹی وی کی نشریات بند کر دی گئیں۔

ذرائع ابلاغ  و اردوزبان

پاکستانی صحافت کو پابندیوں کے ایک طویل دور کے بعد اب جہاں کچھ آزادی نصیب ہوئی ہے اور وہ اپنے پاو ں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے وہاں میڈیا مالکان، سرمایہ کار اور مشتہرین کے درمیان ’ کاروباری گٹھ جوڑ‘ نے ذرائع ابلاغ کی سچ لکھنے اور غیر جابندارانہ رائے کا اظہار کرنے اور خبریں مرتب کرنے کی صلاحیتوں کو جکڑ رکھا ہے اور انہیں محدود کردیا ہے، کیونکہ تجارتی مفادات و اقدار صحافتی اخلاقیات اور پیشہ وارانہ رپورٹنگ کو برقرار رکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور پاکستانی صحافی ان زنجیروں کو توڑنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور اس میں بہت حد تک کامیابی حاصل کر رہے ہیں ۔ فی الوقت نیوز چینلز، ریڈیو اسٹیشنوں اور قومی و علاقائی اخباروں کی بہت بڑی تعداد میدان میں ہے لیکن اب اس متحرک صحافت میں خبر کی درجہ بندی کو صورت حال کی عکاسی کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایک نیا رجحان در آیا ہے ۔ خبروں میں ذریعہ خبر کا فقدان، سنسی خیزی کی لا محدود ملاوٹ، پاگل پن کی حد تک چلا چلا کر ٹی وی پر خبریں پڑھنے کا اندازمفادات کے لئے دروغ گوئی کی   زرد صحافت کی داغ بیل ڈالی ہے  ۔

جدید دور کے ذرائع ابلاغ  اور شوشل میڈیا میں جس تیزی سے صحافت زوال پذیر ہے اس میں جعلی اور جھوٹ پر مبنی خبروں کا پھیلاو بوجوہ ایڈٹیوریل ضبط کمزور ختم ہوچکا ہے وہاں  مبنی  پر دروغ  یا آمیز شدہ معلومات کا فروغ ہورہا ہے  جس کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل  کی سالانہ رپورٹ  میں مفتی جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر سید شجاعت علی قادری ذرائع ابلاغ عامہ سے جھوٹ بالکل ختم کرنے کے بارے میں سورہ الحج آیت نمبر 23میں  ارشاد باری تعالی  کاحوالہ دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں   :

واجتنبو اقوال الزورO (17)

ذرائع ابلاغ  سے جھوٹ کو بالکل ختم ہونا چاہیے ۔اور کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اصلاح کا کام یہیں سے شروع کرنا چاہیے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج تمام ذرائع ابلاغ   کی اساس کذب اور افترا اور دروغ گوئی پر  ہے جھوٹ پر مبنی  خبریں گھڑتے ہیں اور اس ملمع کاری سے ان  کی اشاعت و تشہر کرتے ہیں  جب تک برقیاتی ذرائع ابلاغ میدان عمل  میں نہیں آئے تھے خبر کی حرمت اور صداقت کو ایڈیٹر ہر پہلو سے جانچنے کو اپنا فرض  سمجھتے تھے اور رپورٹر بھی کئی کئی دنوں بلکہ کبھی کبھی مہینوں خبر کے ثبوت و شواہد جمع کرنے میں  صرف کردیا کرتے تھے تاکہ مبنی  پر سچائی اور معیاری صحافت کو لوگوں کی امانت سمجھ کر پیش کیا جاسکے اس کیلئے قرآن نے جو سنہرا ضابط اخلاق پیش کیا ملاحظ ہو

’’جب  تمہارے پاس کوئی فاسق  کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں ندامت اٹھانی پڑے۔‘‘(18)

سورہ بقرہ آیت نمبر 42 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

’’سچ بات کو جھوٹ کے پردوں میں نہ چھپاو اور اگر تمہیں سچائی کا علم ہوتو اس کو جان بوجھ کر اپنے تک نہ روکے رکھو  ۔‘‘ (19)

ذرائع ابلاغ عامہ کا بنیادی فریضہ یہ  ہے کہ وہ اپنے پرگراموں اور خبروں میں صداقت کو اپنائے۔ ہمارے ملک کے بیشتر ذرائع ابلاغ،اخبارت  ورسائل  بشمول الیکٹرانک میڈیا جو خبریں شائع کرتے ہیں ان جھوٹ ملاوٹ کی وجہ سےان پر عوام ا عتماد نہیں رہا اس لئے لوگ غیر ملکی ذرائع ابلاغ مثلاً بی بی سی ،وائس آف امریکہ ،ڈاوئچے ویلی ،الجزیزا،رائٹر  کی طرف  رجوع کرتے ہیں  کیونکہ وہ آسان فہم اور معیاری زبان اور معروضیت  پر مبنی خبریں پیش کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔ وائس آف امریکہ  تو ہر سال  ابلاغیات کے  ماہرین سے اپنے  ادارے   کی پالیسیوں  کو ریویو کرواتے اور ان کی پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں اصلاح  کرتے ہیں تا کہ معیار اور بہتر ہو سکے۔

اردو زبان  میں الفاظ کی اصطلاحیں موجود ہونے کے باوجود   استعمال نہیں کی جا رہی ہیں بلکہ انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کیا جاتا ہے   جو کہ  اردو زبان کے بگاڑ کا سبب بن رہی ہیںاردو املا و تلفظ کی غلطیاں، اور سنسنی خیزی کے لیے خبروں کی نشریات میں موسیقی اور بے حس گرافکس کا بے انتہا استعمال ” صحافت کے ڈھانچے کو ایک تھیئٹر میں بدل رہا ہے ۔  اردو زبان کے بگاڑ میں پرنٹ و الیکٹرانک  دونوں میڈیم  برابری کی بنیاد پر اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔پرائیوٹ چینلز کے قیام اور پھر مشروم کی طرح پھیلتے چینلز ایڈیٹوریل فلٹر سے آزاد ہوگئے کیونکہ  برقیاتی ذرائع ابلاغ میں ٹیکنیکل مہارتیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں اور وہ اس میدان میں داخل ہوئے کانونینٹ اسکولز سے فارغ تحصیل تھے اور اردو کو بطور ایک مضمون پڑھا تھا بطور ادب بھی انکا مطالعہ وسیع نہیں تھا اور سب سے پہلے کی دوڑنےاردو زبان کی تلفظ و ادائیگی ، لغوی معنی  جانے بغیر استعمال نے اردو زبان  کی شکل بگاڑ کر رکھ دی وسیع الجہتی اردو زبان کا ورثہ نئی نسل کو منتقل نہ ہوسکا اور اردو زبان کو مذاق اور تماشہ بنادیا  گیا ہے۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ  الیکٹرانک   میڈیا میں ادارت کا مضبوط نظام  موجود نہیں ہے اور اخبارات میں پروف    کے لئےاہل زبان نہیں ہیں مطالعہ کا رحجان بھی دم توڑ رہا ہے ۔ الفاظ کے معنی جانے بغیر ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔  ایڈور ٹائزنگ بریک کے طویل دورانئیے اور اخبارات کے صفحہ اول پر آدھ آدھ صفحے کے رنگین اشتہارات سامعین و قارئین کی سماعت و اخباری بینی پر بھاری بوجھ ہی نہیں نفسیاتی بوجھ بھی ہیں ۔ حکومت اب بھی اخبارات اور دیگرذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے میں پیچھے نہیں اور سرکاری اشتہارات تک دسترس حاصل کرنے والے حکومتی خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتے ۔ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کا ایک نشان ” پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری “ یعنی پیمرا نامی ادارہ بھی ہے ۔ قصہ مختصر بظاہر جوآزادی دکھائی دیتی ہے وہ بھی اُس کارپوریٹ کا حصہ ہے جو فی الوقت پاکستانی صحافت چھائی ہوئی ہے ۔لیکن اس کے برعکس غیر ملکی برقیاتی و ویب سروسز جن میں بی بی سی اردو وائس آف امریکہ ،ڈاوئچے ویلی نے قابل تقلید مثالیں پیش کیں اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ان ذرائع ابلاغ میں خبروں  کے مواد کا دہرے اور کہیں کہیں   فلٹر سے گزار کر پیش کاری ہے کنٹنٹ ایڈیٹر   کے کڑےاحتساب نے ان اداروں کی خبروں کے ساتھ زبان کی درستگی  کوقابل اعتماد و قابل اعتبار بنایا اس کی وجہ سب سے پہلے کی دوڑ کی بجائے درست خبروں کی پیش کاری  کو مقدم جاننا ہے ۔

اب نہ تو ایڈیٹر کا اداہ ان فرائض سے عہدہ برآ ہورہا ہے اور نہ ہی  رپورٹر خبر کی تلاش میں لگن اور محنت سے کام کرتے ہیں بلکہ افواہوں پر مبنی معلومات شئیر کرتے ہیں جس سے  معروضیت  معدوم ہوتی جارہی ہے  ماضی  کی معیاری صحافت  دم توڑ چکی ہے ۔جارج فوکس مونٹ اپنی کتاب “New Survey of Journalism’’ میں لکھتے ہیں کہ

’’معاشرے کی فلاح کے بغیر صحافت   صحافت  نہیں ہے جسے معاشرے میں سکول ،چرچ  فلاح کیلئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں   بالکل اسی طرح معیاری صحافت کو مقصد معاشرتی فلاح ہوتا ہے ۔‘‘  (20)

اردو صحافت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ماضی میں اردو ادب کے ممتاز دانشوروں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد ‘ مولانا ظفر علی خان ‘ حیات اللہ انصاری ‘ غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیں اور آزادی کے بعد فیض احمد فیض ‘ احمد ندیم قاسمی اور چراخ حسن حسرت اور سید سبط حسن ایسے جید صحافی اردو اخبارات کے مدیر رہے اور واقعی یہ اخبار ہر اعتبار سے مثالی اخبار تھا آج کل کے اخبارات سے بالکل مختلف لیکن اسے بدقسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔ اب یہ عہدہ محض اخبارات کے مالکوں کے بیٹوں اور بھتیجوں کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقی ایڈیٹر مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ان ممتاز ادیبوں کی چھاپ اخبار پر نمایاں تھی جنہوں نے اردو زبان پر اپنی دسترس اور مہارت کے ذریعہ اخبار کو معیاری اور شستہ زبان سے مزین کیا ۔ پھر اس زمانہ میں اخبارات میں کالم نگاروں کا اتنا مجمع نہیں تھا جتنا آج کل ہے۔ آج کل توکالم نگاروں کی فوج ظفر موج ہے جن کی نہ تو زبان میں چاشنی اور مزہ ہے اور نہ وہ گہرائی میں جا کر کوئی ٹھوس بات کہتے ہیں ‘نہ پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں اور نہ کوئی ایسی رائے ظاہر کرتے ہیں کہ جس سے نئے ذہنی دریچے کھلیں ۔ پھر عالم یہ ہے کہ کوئی کالم نگار کسی کیلئے زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے تو کوئی کسی کے لئے مردہ باد کہتا ہے۔ ہر کالم نگار اپنی اپنی ڈفلی بجاتا دکھائی دیتا ہے ۔ غرض اخبار کی اول جلول خبریں پڑھنے کے بعد ادارتی صفحہ قارئین کے لئے اور زیادہ ذہنی خلفشار کا سبب بنتا ہے۔

مولانا اشرف علی قریشی صاحب نے اسلامی نظریاتی  کونسل  کی سالانہ رپورٹ  میں ذرائع ابلاغ عامہ میں مایوسی کا اظہار فرمایا

’’مملکت خداداد پاکستان  اسلامی نظریاتی مملکت ہے اسلام کے مقدس نام پر یہ مملکت معرض وجود میں آئی ۔مگر افسوس اس میں ذرائع ابلاغ کا کردار منفی رہا ۔ملکی ذرائع ابلاغ عامہ ایک اسلامی معاشرے کے قیام میں وہ کردار ادا نہ کرسکے جو کہ انہیں ادا کرنا چاہیے تھا جس کی توقع ان سے کی جارہی تھی مقام افسوس ہے کہ اب تک اس سمت پر کوئی مثبت کام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ہمارے معاشرے کا بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے جس کی طرف فی الفور توجہ کی ضرورت ہے ‘‘(21)

سورہ الشعرا میں صحافیوں اور اہل قلم کو حکم ہے کہ ’’وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائے ۔‘‘ سورہ الحجرات کی آیت نمبر 6میں حکم ہے  کہ ’’تحقیقات کے بغیر خبر شائع نہ کریں ۔‘‘ سورہ النبا    میں یہ حکم کہ ’’ صحافی خود احتسابی سے کام لے ۔‘‘ سورہ لقمان  میں یہ حکم  ہے کہ ’’کلام دلفریب سے بچا جائے ۔   ‘‘اخبارات  و جرائد قوم کی امانت ،قومی احساسات کے پاسدار اور نگہباں ہوتے ہیں اور پھر فلاحی ریاست میں ان کی ذمہ داریاں کہیں اور بڑھ جاتی ہیں ۔

عالمی تبدیلیوں کے زیر اثر ذرائع ابلا غ کی آزادی کا چلن ہوا تو یکایک بہت سے اخبارات، جرائد ، ریڈیو اور ٹی وی چینلز میدان میں اتر آئے  انکی تعداد سینکڑ و ں سے تجاوزکر گئی۔ بر قی ابلا غیات کی چکا چوند اور اثر پذیری دیکھتے ہوئے سر مایہ کا ر اس اکھاڑے میں کود پڑ ے۔ اخبارات کو ایک ” کارپوریٹ “ میں بدل دیے جانے  کے بعد  اخبار مالکان ادارتی مواد  کے  معیار  سے زیادہ   اہمیت   مارکیٹنگ  کے شعبہ کو دیتے ہیں  ۔اردو اخبارت میں  زبان وادب  پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی  جس کی وجہ سے اردو کا معیار   خراب ہوا ہے۔ سنجیدہ اور اہل فکر لوگ مایوسی کے عالم میں  اب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پورے معاشرے میں گذشتہ  چالیس پینتالیس برس میں معیار کی پستی کی شکایت ہے اور صحافت بھی اس سے مبرا نہیں کیونکہ یہ بھی تو آخر معاشرہ کا ایک حصہ ہے۔میں اس استدلال سے متفق نہیں۔ صحافت حیات انسانی  منجھدار کی سمت متعین کرتی ہے اور اس کے مختلف پہلوں کی نشاندہی اور ترجمانی کرتی ہے اس لیے اس کے فرایض اور ذمہ داریاں معاشرہ کے دوسرے اداروں سے قطعی مختلف ہیں۔ ایک زمانہ تک پاکستان میں صحافت کو زبان بندی کے مسئلہ کا سامنا رہا تھا ۔ لیکن اب اردو اخبارات کو زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ یکسر مفقود ہوگیا ہے۔ سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی زبردست ترقی کے باوجود اخبارات کے ادارتی معیار اور خاص طور پر زبان میں ایسی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔

تہذیب شا ئستگی اور وضع داری کو سبھی قو موں ، معاشروں اور پیشوں میں یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ذرا ئع ابلا غ میں توازن اور اعتدال میں تبدیلی کو فوری محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ذرا ئع ابلا غ نے زرق بر ق لبا س تراش خراش، پر شکوہ ماحول حسن وجمال ، اور فنی تکنیک پر زور دیا ۔ جتنی توجہ انگر یزی زبان پر دی گئی اس سے آدھی محنت سے اردو سنور سکتی تھی۔عجیب و غریب اردو پڑ ھنے کو ملتی ہے۔ اشعاربے وزن لکھے پڑ ھے جاتے ہیں خدارا اردو زبان کی حر مت کا خیال کیا جائے۔ نئی نسل کو کیا پیغام ملے گا؟۔ اردو مراکز کیا محسوس کر تے ہونگے؟۔سابقہ مسائل و سائل کی کمی اور پابند یوں سے جنم لیتے تھے موجودہ مسائل وسائل کی زیادتی اور آزادی کے غلط استعمال سے پیدا ہورہے ہیں۔کیاپیش کاروں کے لیے خام جدید یت اور مغر بی تقلید سب کچھ ہے؟۔

اردو اخبارات جنہوں نے اب تک اردو ادب اور اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اب یہی  اردو زبان کی ہئیت بگاڑنے اور اسے مسخ کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں۔انگریزی الفاظ کا ایک سیل بے کراں ہے کہ وہ اردوزبان میں اور اس کے راستہ اخبارات میں درآیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی اصطلاحات یعنی کمپیوٹر ‘ سافٹ ویر‘ ڈسک‘ ماؤس ‘ مانیٹر‘ کی بورڈ‘ کنکشن‘ ہارڈ ڈرائیو‘ براڈ بینڈ‘ انٹینا‘ ٹرانسسٹر اور ایسے ہی بے شمار الفاظ اصطلاحات ہیں جن کے ترجمے کے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور یہی مستعمل ہوگئے ہیں لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ اردو اخبارات ‘ اردو کے اچھے اور مقبول الفاظ ترک کر کے ان کی جگہ انگریزی کے الفاظ ٹھونس رہے ہیں۔ مثلاً رو برو یا تخلیہ میں ملاقات کے لیے انگریزی کی اصطلاح، ون ٹو ون استعمال کی جارہی ہے حالانکہ انگریزی کی صحیح اصطلاح ون آن ون ہے۔ اسی طرح ’تعطل‘ اردو کا اتنا اچھا لفظ ہے اس کی جگہ سینہ تان کر ’ڈیڈ لاک‘استعمال کیا جارہا ہے ۔ انتخاب کی جگہ’ الیکشن ‘ عام انتخابات کی جگہ’ جنرل الیکشن ‘ جوہری طاقت کی جگہ’ اٹامک انرجی‘ کاروائی کی جگہ’ آپریشن‘ حزب مخالف کی جگہ ’اپوزیشن‘بدعنوانی کی جگہ ’کرپشن‘ استاد کی جگہ ’ٹیچر ‘  ’مجلس قائمہ‘ کی جگہ ’اسڈینڈنگ کمیٹی‘ ’جلسہ‘کو میٹنگ اور’ پارلیمان کے اجلاس‘ کو ’سیشن‘ لکھاجاتا ہے۔انیس سو چھپن میں  جب پاکستان کے پہلے آئین کے تحت صدر مقرر ہوا تو  امروز میں پریزیڈنٹ ہاؤس کی جگہ ایوان صدر کی اصطلاح رائج کی گئے اور  بعد میں  ایک عرصہ تک سب  یہی اصطلاح استعمال کی لیکن اب  پھر سےبعض اخبارات پریزیڈنٹ ہاوس  لکھنےکو ترجیح دے رہے ہیں نہ جانے کیوں؟ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ’چھاپہ مار جنگ‘ کو اخبارات  ’گوریلا جنگ‘ کیوں لکھتے ہیں ۔’محصول‘ کو ’ڈیوٹی‘ کہتے ہیں ’قرطاس ابیض‘ اتنا اچھا لفظ ہے اب اخبارات اس کی جگہ ’وایٹ پیپر ‘لکھتے ہیں اور’ ہوائی اڈہ‘  کو’ ایرپورٹ‘ ۔ ’ایوان میں طلبی‘ کے حکم کے لیے بے دھڑک ’پروڈکشن آرڈر‘ ، ’پیٹریاٹ‘  کے لئے ’محب وطن یا وفادار  ‘ کے اتنے خوبصورت لفظ کو اخبارات نے کیوں ترک کیا۔ کیا انگریزی کا لفظ استعمال کر کے وہ اپنے آپ کو اعلی و ارفع ثابت کرنے کے کوشش کر رہے ہیں یا  یہ جتن عوام کو بے وقوف بنانے کے ہیں۔ ایک اخبار میں جلی سرخی دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ سرخی یہ تھی کہ ’’فری ہینڈ ملنے کے باوجود حکومت نے کوئی لیجسلیشن نہیں کی‘‘۔ایک اور اخبار میں یہ سرخی تھی کہ ’’یورپی یونین کی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی دھمکی دی ہے‘‘۔ اس خبر کی تفصیل میں یہ لکھا تھا کہ’’ پی وی سی کی ڈمپنگ کی انویسٹی گیشن کے لیے انکوائری ٹیم بھیجی جائے اگر ہماری بیڈ لینن پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی گئی تو ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ ہماری چھپن ہزار بیڈ لینن کی ایکسپورٹ یورپ کی مارکٹ میں جاتی ہیں جو کہ اٹھائیس فی صد شیئر ہے‘‘۔(22)

 کیا یہ اردوصحا فت  ہے؟ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے ۔کیا ہماری زبان اردو  اتنی تہی دامن اور بے بس ہے کہ اس بات کو سیدھی سادی زبان میں نہیں کہا جا سکتا۔بہت سوچا کہ اس رجحان کی وجہ کیا ہے۔ کیا یہ اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی کاہلی ہے کہ وہ انگریزی سے ترجمہ کرنے اور نئی اصطلاحات وضع کرنے کی مشقت نہیں کر نا چاہتے اور یوں انگریزی کے الفاظ ٹھونس دیتے ہیں  یاپھر قابلیت کی کمی ہے۔ کیا وجہ ہے اس کی یہ ہے کہ جس طرح آج کل پاکستان میں ہر شخص اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کے لئے گفتگو میں جا بجا انگریزی کے الفاظ استعمال کرتا ہے ، اخبار میں کام کرنے والے بھی اپنی بقراطیت ظاہر کرنے کے لئے تحریر میں یوں انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ایس لگتا ہے کہ خود اپنے آپ اپنے اوپر مغربی ذہنی غلامی طاری کرلی۔ اس زمانہ میں جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اردو زبان کی ایسی غلامانہ درگت نہیں بنی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد امید تھی کہ اردو پاکستان کی علاقائی زبانوں سے مالامال ہوگی‘ اردو ان کے محاوروں ‘ تشبیہوں اور طرز اظہار سے فیض حاصل کرے گی لیکن انگریزی کی فصیل اردو اور ان علاقائی زبانوں کے درمیان دیوار چین کی طرح حائل ہو گئی ہے۔ہر بات میں سازشوں پر یقین رکھنے والے بہت سے لوگ اسے اردو کے خلاف سازش تصور کرتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اردو نے سامراجی انداز سے جس طرح علاقائی زبانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی یہ اس کا انتقامی ردعمل ہے اور اسی مقصد کے لیے کوشش کی جارہی ہے کہ اردو کی ہئیت اتنی بدل دی جائے کہ کوئی اسے اردو کہہ کر اس پر فخر نہ کر سکے۔ یا پھر خالص اردو کو لاطینی یا سنسکرت کی طرح چند حلقوں میں محدود کردیا جائے اور یوں اس کے ناطے عوام سے کٹ جائیں اور اس کے سوتے خشک ہو جائیں۔

قیام پاکستان سے قبل اور اسی کی دہائی تک شعبہ صحافت سے وابستہ صحافی و مدیران نہ صرف اردو زبان بلکہ علم و ادب سے گہری  وابستگی رکھتے تھے اردو  زبان کے  فروغ کیلئے  کڑے معیار وپیمانوں سے گزار کر زبان کی ترقی میں بھرپورکردار ادا کرتے رہے مگر جونہی ایڈیٹر کا ادارہ کمزور ہوا  تیزی سے   اردو زبان کے بگاڑ  کا سبب بنا جبکہ برقیاتی ذرائع ابلاغ میں تو    ایڈیٹر   کا مواد پر کنٹرول نہ ہونے  کی حد تک ہے  ۔

سفارشات

اردو صحافت ہی نہیں بلکہ کسی بھی زبان کی صحافت کی تعمیر وترقی کادارو مدار کانفرنسوں اور اجتماعات پر نہیں ہوا کرتا بلکہ صحافت اپنے قارئین اور ناظرین کے اشتراک وتعاون کے ساتھ ہی ساتھ مالی سرپرستی کرنے والی شخصیتوں اور اداروں کی مددسے ارتقا ئی سفر طے کرتی ہے۔ اردو صحافت کا بنیادی مسئلہ درحقیقت یہ ہے کہ اس زبان کے زیادہ تر اخبارات اہل ثروت کے شرمندۂ احسان نہیں ہوسکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں میڈیا کو ایک بہترین کاروبار کی شکل میں بدل دیا گیا ہے لیکن اردوصحافت یا اردو میڈیا خود کو پوری طرح کاروباری شکل میں تبدیل نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے مسائل کے بحر بے کراں میں اسے غوطہ زن ہونے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔جب سے ٹیکنالوجی کی نئی دنیا آباد ہوئی ہے ، اردو صحافت کی ترقی کا عجیب وغریب سفر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اردو پر انگریزی مسلط کرنے کی کوشش کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی رابطہ اور سائنس تجارت صنعت اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے اور اردو سے چمٹے رہنے سے ان شعبوں میں پسماندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ لیکن اس دلیل کے حامی اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چین ‘ روس ‘ جرمنی اور فرانس ایسے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی آخر ترقی کی ہے اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دےکر اور اپنی زبان کو زندہ رکھ کر۔غرض موجودہ صورت حال بہت مایوس کن نظر آتی ہے ۔ اردو زبان کے ابتدائی دور میں ادب اور صحافت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے کا جو رجحان اور رویہ تھا اور اس میں جو رومانی مقصدیت تھی وہ اب عنقا ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ذرئع ابلاغ کے مدیران  اور صحافیوں کوپیشہ وارانہ آزادی ، خود مختار ی اور ذمہ داری کیساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی    کرنا چاہیئے  ۔ کیونکہ ان پر  یہ ذمہ داری عائد  کہ وہ ثقافت کو اگلی نسل تک منتقل کریں ۔علاقائی زبانوں  کے ساتھ ساتھ  قومی زبان کے فروغ میں  اپنا کردار ادا کریں ۔اردو اخبارات ہی نہیں ہرقسم کے میڈیا سے منسلک صحافیوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ صحافت کی کمرشلانہ کارپوریٹ اور سرکار کے دباوسے محفوظ رکھنے کے لیے کسی فریم ورک کے تحت ایسے اصول و ضوابط بنائے جائیں  جو زبان کی ترقی و ترویج    کے لئے معاون  ثابت ہوں۔ پروف ریڈنگ کا  سیکشن  مضبوط  کرنا چاہیئے  کیونکہ بعض اخبارات میں سرسری  پروف ریڈنگ کا نظام ہے جس کی وجہ   قارئین کو املاٗ کی غلطیوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرچ مصالحہ اور بازاری زبان کے استعمال  سے ہٹ کر خبر کو خبر کے طور پر معروضیت  کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ اخبارات و الیکٹرانک میڈیا سے منسلک صحافیوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کے لیےجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اُن  کے لئے مختلف اردو کورسز اور ادبی و صحافتی سمیناروں کے  ذریعے تربیتی نشستوں  کا انعقاد  کیا جائے۔  ادبی شخصیات کو بھی اخبارات میں بہتر مواقع   دئیےجائیں تا کہ ان کے تجربے و نگرانی میں  نو آموز   صحافیوں کی تربیت ہو سکے ۔ ذرائع ابلاغ عامہ کا بنیادی فریضہ یہ  ہے کہ وہ اپنے پرگراموں اور خبروں میں صداقت کو اپنائے۔انسان کے افکاروخیالات کی ترجمانی اس کی زبان یاقلم کرتی ہے ،اور افکاروخیالات کی صحیح ترجمانی کے لیے فکر میں وسعت اورگہرائی کی ضرورت ہوتی ہے ، اورفکر میں وسعت اورگہرائی مطالعہ کے ذریعہ آتی ہے۔ جس کا مطالعہ جتنا گہرا ہوتا ہے اسی قدر اس کی فکر وسیع ہوتی ہےلہذا  اخبارات کے مدیران کو   وسیع مطالعہ  کا حامل ہونا اردو  کی ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

حوالہ جات

1۔ ڈاکٹر طاہر مسعود، صحا فت انیسویں صدی، فضلی سنز، اردو بازار کراچی، ص 54

2۔ ایضاً، ص 130

3۔محمد شاہد حسین ، اردو صحافت اورتحریک آزادی۔مرتبین پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، اردو صحافت۔ ماضی اور حال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، سنہ 2012، ص 115

4۔ایضاً

5۔ ایضاً

6۔   محمد سعید عبد الخالق” میسورمیں اردو‘‘، مطبوعہ حیدرآباد، 1924، ص 4777

7۔طاہر محولہ بالا، ص97

8۔ ایضاً

9۔کھوکھر محمد افتخار، تاریخ صحافت، مقتدرہ قومی زبان ، ص 79

10۔ ایضاً ، ص 83

11۔ ضمیر نیازی، صحافت پابند سلاسل، جامعہ اسٹڈی سنٹر، کراچی، ص 24

12۔ مہدی حسن ، صحافت، اعتصام پبلشرز ، اردو بازار، لاہور، ص 57،76-77

13۔ کھوکھر محولہ بالا، ص85

14 ۔ ماضی کے آئینے میں اُردو صحافت کاموجودہ عکس

http://www.humsub.com.pk/4979/nasar-malik-2/www

 

15۔    ضمیر نیازی ، صحافت پابند سلاسل، جامعہ اسٹڈی سنٹر، کراچی، ص 263

16۔ ایضاً

-17القرآن ، سورہ الحج ا، ٓیت نمبر 23

-18 القرآن ، سورہ الحجرات،  آیت نمبر 6

-19القرآن ، سورہ بقرہ ، آیت نمبر 42

20-Mount,George Fox, “NewSurvey of Journalism’’, Barnes & Noble, 1958

-21 قریشی، اشرف علی  مولانا ،اسلامی نظریاتی  کونسل  ،سالانہ رپورٹ  1990-91اسلام آباد ،صفحہ 319-23

22۔ روزنامہ جنگ، ایکسپریس، نوائے وقت ، کراچی ایڈیشن فائلز ، یکم جنوری تا 31 مارچ 2017

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.