اردو زبان کے فروغ میں مدارس کا کردار
ہندوستان میں اردو زبان کی تدریس اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے کوشش کرنے والے اداروں میں مدارس اسلامیہ اور یونانی طبیہ کالجزدو ایسے تعلیمی مراکز ہیں جن کا بنیادی مقصد اگر چہ اردو کا فروغ نہیں ہے مگر اردو کی خدمت کے لئے وقف اداروں سے ان کی خدمات کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔ یونانی طبیہ کالجز نے آج کے اس دور میں بھی اردو ذریعہ تعلیم کو باقی رکھ کر میڈیکل جیسے پروفیشنل شعبے میں اردو کی جگہ برقرار رکھی ہے۔ دوسری طرف مدارس اسلامیہ نے اردو کو عوام سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مدارس جہاں کہیں بھی ہوں پورے برصغیر میں ان کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اردو میں اسلام پر جس قدر لٹریچر جمع کردیا گیا ہے وہ عربی کے بعد کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ یہ صرف دعوی نہیں بلکہ حقیقت ہے ، یہی وجہ ہے کہ غیر عربی داں کے لئے اگر وہ اردو سے واقف ہے تو اسلامیات کے مطالعہ میں کوئی دقت سامنے نہیں آتی ہے۔
اسلامی مدارس کا بنیادی مقصد دین کی خدمت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مدارس ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ نصاب میں انہی مضامین کو رکھا جاتا ہے جو اس مقصد کو پورا کرسکیں چونکہ کسی بھی علم کے لئے ترسیل ایک لازمی ضرورت ہے اور ترسیل کا عمل بغیر زبان کے بغیر ناممکن ہے ۔ اس وجہ سے مدارس کو بھی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زبان کا یہ عمل دو سطحوں پر ہے ایک معلومات کو اخذ کرنا اور دوسرا معلومات کی ترسیل ہے ۔ جہاں تک معلومات اخذ کرنے کی بات ہے تو اس کے لیے عموما اصل ماخذ عربی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اردو نثر کے ابتدائی نقوش مذہبی ادب کی شکل ہی میں ملتے ہیں۔ خواجہ گیسو دراز کی کتاب ’’دستور عشاق ‘‘ کو اب تک کی معلومات کے مطابق پہلی نثری کتاب تسلیم کی جاتی ہے ۔ چونکہ اس وقت تک اردو کی حریف بن کر ہندی نہیں کھڑی ہوئی تھی اس وجہ سے اردو ہی اس زمانہ میں ذریعہ اظہار تھی۔ اس وجہ سے معلومات کے اخذ کرنے کے معاملے میں بھی عربی کے ساتھ اردوایک معاون زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک معلومات کی ترسیل کا مسئلہ ہے تو ہمارے علمائے کرام نے اس کے لئے ہمیشہ اردو زبان کا سہارا لیا ہے۔ وعظ و نصیحت تقریر اور خطبے عموما اردو زبان میں ہوا کرتے ہیں۔ یہی حال تصانیف کا بھی ہے۔ برصغیر کے علما ء نے معلومات اگرچہ عربی اور دوسری زبانوں سے اخذ کی ہوں مگر تصنیف و تالیف کا کام عموما اردو زبان میں ہی کیا ہے۔ اگر اردو زبان کے ابتدائی نقوش پر گفتگو کی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آسان اور عوامی زبان کو فروغ دینے کا سہرا وہابی تحریک کو جاتا ہے ۔ انہوں نے سیاسی اور اسلامی موضوعات پر چھوٹے چھوٹے کتابچے لکھ کر عوام میں تقسیم کیے اور یہ کافی مقبول بھی ہوئے۔ اس دور کی کئی کتابیں آج بھی اسلامی لائبریری کا بیش بہا زخیرہ ہیں۔شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن ہو یا شاہ اسماعیل شہید کی لکھی ہوئی تقویۃ الایمان ہو۔کون ہے جو آج ان کی افادیت سے انکار کرسکتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کتابوں کو آج بھی پڑھتے ہوئے احساس نہیں ہوتا کہ یہ اردو کے ابتدائی ایام کے نثری نمونے ہیں۔
علمائے کرام نے اسی روش کو برقرار رکھا۔ اور اسلامی علوم پر اردو میں کتابوں کا ایک بیش بہا زخیرہ جمع کردیا۔ آ ج جہاں عوام میں خالص ادبی کتابوں کی پذیرائی نہ کے برابر ہے وہیں اردو میں مذہبی کتابوں کی تجارت آج بھی ایک منفعت بخش پیشہ ہے حالت یہ ہے کہ بعض بعض کتابوں کے ہرسال نئے ایڈیشن شائع کرنے پڑتے ہیں۔ اسلامی لٹریچر کی اسی فراوانی کی وجہ سے مدارس میں عموما ذریعہ تعلیم اردو ہے ۔ اردو ہی کی کتابیں پڑھ کر اور سمجھ کر طلبہ اور اساتذہ اپنی علمی استعداد بڑھاتے ہیں۔ ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں پر اردو نہیں بولی جاتی ہے مثلا آسام اڑیسہ اور بنگال کے علاقے یہاں بھی مدارس کے بچوں کو اردو سکھا کر اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اردو کتابوں کا مطالعہ کرکے ان سے معلومات جمع کرسکیں اور اردو میں لکھ پڑھ سکیں۔
ہمارے ہندوستانی علما ء نے افریقی ممالک میں بھی اپنے قائم کردہ مدارس میں ذریعہ تعلیم اردو رکھا ہے۔ ان میں سے ایک مدرسہ کے ذمہ دار سے راقم الحروف کی گفتگو ہوئی تو راقم نے ان سے دریافت کیا کہ اسلامیات کا بنیادی مآخذ عربی ہے ، عربی کے بجائے انہیں اردو میں تعلیم دینے کا مقصد کیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اردو میں ہمارے اسلاف اسلامیات کا جو خزانہ چھوڑ کر گئے ہیں ہیں ان سے واقفیت کے لئے اردو کا جاننا ضروری ہے۔ اس وجہ سے ہم ان کو اردو کی تعلیم دیتے ہیں اس کے بعد فضائل اعمال اور دیگر کتابوں کا براہ راست درس ہوتا ہے۔
مدارس نے اپنے یہاں کوئی اردو کا شعبہ نہیں کھولاہے لیکن اس کے باوجود وہ اردو کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں وہ کم نہیں ہے۔ ایک بات اور جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ مدارس میں صرف انٹر تک کی ہی تعلیم دی جاتی ہے ۔ یعنی مدارس میں عالمیت اور فضیلت کرنے کے بعد اس کی ڈگری کو یونی ورسٹیاں بارہویں کے مساوی مانتی ہیں ۔ اس وجہ سے کہ اکثر مدارس میں پانچویں درجہ کے بعد آٹھ سال کا کورس ہوتا ہے۔ چھ سال عالمیت کے لئے، جو دسویں کے مساوی ہوتا ہے۔ اس کے بعد دو سال فضیلت کے لئے جو انٹر (بارہویں ) کے مساوی ہوتا ہے۔ شعبہ جات کھولنے کی بات تو انٹر کے بعد گریجویشن کی سطح پر آتی ہے۔ ایسے میں ان سے یہ مطالبہ کرنا ہی فضول ہے کہ ان کے یہاں شعبہ اردو کیوں نہیں ہے؟
یہیں پر بعض لوگوں کے اس اعتراض کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس سے کوئی ادیب یا نقاد کیوں نہیں پیدا ہوا؟ کیا ہم کسی انٹر میڈیٹ اسکول پر یہ الزام لگاسکتے ہیں؟ نہیں، اس لئے کہ ان کا کام ایک بنیاد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جس پر گریجویشن اور اس کے بعد طالب علم کے شخصیت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جہاں صرف مدارس کی معمولی تعلیم پاکر لوگوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ہیں۔علی میاں ندوی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ان کے انتقال ہوئے ابھی چند سال ہوئے ہیں۔ ان کی تعلیم اگرچہ مدرسہ تک تھی مگر ان کے علمی فتوحات پر کئی یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرائی گئی، یہی نہیں ان کی کتابیں یونی وروسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں۔ وہیں ایس بھی بہت سی مثالیں ہیں جہاں بغیر اسکولی تعلیم حاصل کئے آدمی بہت سارے علمی معرکے سر کر لیتا ہے۔ اس پر ان اداروں کی تعریف تو کرسکتے ہیں مگر ایسا نہ ہونے پر ان کی برائی نہیں کرسکتے اس لئے کہ انہوں نے وہ کیا جو ان کی پہنچ سے باہر تھا۔
دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ مدارس میں اردو ذیعہ تعلیم اگر چہ ہے مگر اردو کی تدریس نہیں ہوتی مطلب یہ کہ بحیثیت سبجکٹ اردو مدارس کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ اس اعتراض میں کلی صداقت نہیں ہے۔ مدرسہ بورڈ سے ملحقہ مدارس کے نصاب میں اردو ادب بحیثیت مضمون کے شامل ہے۔ ملحقہ مدارس کے علاوہ آزادانہ طور پر چلنے والے مدارس میں بھی اردو لٹریچر پڑھایاجاتاہے مگر پرائمری یا آٹھویں جماعت کی سطح تک۔ اس کے بعد ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اردو میں لکھ سکیں بول سکیں۔ لہذا باقی کے سالوں میں اردو میں تقریر اور تحریر کی مشق کرائی جاتی ہے۔ یہ مشق و تمرین جس میں املا اور تلفظ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اردو زبان کی تدریس ہی ہے وہ اردو زبان پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اسی زبان میں مشق وتمرین کرتے ہیں۔
اردو زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اسی وجہ سے اردو زبان کی صحیح فہم کے لئے زبان کے ماہرین فارسی اور عربی زبان کی تھوڑی بہت معرفت ضروری قرار دیتے ہیں۔خصوصی طور پر اردو قوائد کو جاننے کے لئے ان دو زبانوں کے قوائد سے متعارف ہونا چاہئے۔ عربی اور فارسی زبان سے عدم واقفیت کی وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ بچے ان اصطلاحات کا مفہوم و مطلب سمجھنے میں اکثر غلطی کرجاتے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کے لئے اردو زبان میں مہارت حاصل کرنا دوسروں کی بنسبت آسان ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ انہیں عربی اور فارسی دونوں زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اردو زبان مدارس کے طلبہ کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے۔
اردو کے تعلق سے ایک اور اہم بات یہ کہ مدارس کے طلبہ کی تحریر دوسروں سے نمایاں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو مدارس میں خوش خط لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ کمپیوٹر آنے کے بعد کتابت سیکھنے کا رجحان مدارس میں بھی کم ہوا ہے مگر اس کے باوجود اب بھی بعض مدارس میں کتابت کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ لوگ کتابت روزگار کے لئے نہیں، بلکہ قدیم روایات کو باقی رکھنے کے لئے سیکھتے سکھاتے ہیں۔
اکثر بڑے مدارس کے طلبہ وال میگزین نکالتے ہیں۔ اس کے اندر وہ مختلف موضوعات پر کھل کر لکھتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عموما ان وال میگزین کی زبان اردو ہوا کرتی ہے۔ بعض مدارس کے طلبہ سال میں ایک بار طلبہ میگزین بھی نکالتے ہیں۔ یہ میگزین اگرچہ عام طور پر سہ لسانی ہوتے ہیں۔ مگر اس کا اکثر حصہ اردو زبان کے لئے خاص ہوتا ہے۔ وال میگزین اور سالانہ میگزین کی ترتیب تیاری اور مضامین لکھنے کی عملی مشق کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یہ طلبہ باہر نکل کر اپنی رائے کو آزانہ طور پر اخبارات ورسائل کے ذریعہ بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
آج یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے اظہار میں کچھ لوگ ہوسکتا ہے کہ جھجھک محسوس کریں کہ موجودہ اردو روزناموں اور ہفت روزوں میں کام کرنے والوں کی اکثریت مدارس کے فارغین کی ہے ۔ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ملتے ہیں جن کی تعلیمی استعداد صرف مدارس تک محدود ہوتی ہے اس کے باوجود وہ کسی قسم کی پریشانی نہیں محسوس کرتے ہیں۔
کمپیوٹر آجانے کے بعد کتابت کا دور ختم ہوگیا، لیکن آخر وہ کون لوگ ہیں جو معمولی اجرت لے کر اردو کی کمپوزنگ کرتے ہیں؟ آپ مارکیٹ میں گھوم لیں، آخر میں آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہاں بھی مدارس کے طلبہ نے اردو کی لاج بچائے رکھی ہے۔
مدارس کی صحافت کو مذہبی صحافت کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کبھی ہم نے سو چا کہ ہمارے ادبی رسائل کی اوسط سرکولیشن کتنی ہے؟ چند سرکاری رسالوں کو چھوڑ دیں تو اکثر کی سرکولیشن محض چند سوہے۔ اس کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص واقف ہے کہ اردو کی روٹی کھانے والا طبقہ اردو کے لیے کچھ خرچ نہیں کرنا چاہتا۔ اس ماحول میں بھی مذہبی رسالوں کی اوسط سرکولیشن چار ہزار ہے۔ اردوزبان کے یہ رسالے ادبی رسالوں کے مقابلہ میں زیادہ گھروں تک پہنچتے ہیں ۔ آج اﷲ کا شکر ہے کہ اکثر مدارس کا اپنا ایک ترجمان ماہنامہ کی شکل میں شائع ہوکر ایک طرف دین کی خدمت انجام دے رہا ہے دوسری طرف مسلمانوں کو یہ احساس دلارہے ہیں کہ اردو زبان کا رشتہ تمہارے ساتھ بہت گہرا ہے۔ اس کے بغیر اپنا تشخص برقرار رکھنا تمہارے لئے مشکل ہوگا۔ ہماری اس بات کا غلط مطلب نہ نکالا جائے۔ اردو کو اگر باقی رکھنا ہے تو مسلمانوں کو ہی اس کے لئے کوشش کرنی ہوگی۔ اس لئے کہ اس زبان کے ختم ہونے پر سب سے زیادہ ان کا ہی خسارہ ہوگا۔
اردو کے حوالے سے مدارس کی خدمات گنانے کے لئے ماضی کی ادبی شخصیات کا نام لیا جاسکتا ہے۔ صوفیا ئے کرام سے لے ترقی پسند تحریک تک علما اور مدارس کے فارغینن تک ایک لمبی فہرست ہے۔ اس فہرست میں خواجہ بندہ گیسودراز، مولوی ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولانا شبلی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا ابوالکلام آزاد،مولوی عبدالحق، مولانا حسرت موہانی، پروفیسر عبدالمغنی اور حیات اللہ انصاری جیسے نہ معلوم کتنے نام ہیں۔ ان ناموں کو اگر ہم اردو ادب کی تاریخ سے نکال دیں تو کیا اردو ادب کی عمارت باقی رہ سکتی ہے؟ اس کے باوجود افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ خود اردو والوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو اردو زبان کی زبوں حالی کے لیے مدارس اور اس کے فضلا کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ان مدارس کے طلبا نے اردو کا تلفظ بہت گاڑھا کردیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مدارس کو اپنے کام پر توجہ دینی چاہیے انہیں اردو کی فکر نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ اس سے عوام میں یہ تاثر جاتا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ مان لیتے ہیں کہ مدارس نے اپنے بچوں کو اردو پڑھانا چھوڑدیا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اردو پڑھنے والے بچے کہاں سے آئیں گے؟ اسکولوں میں اردو تعلیم کی صوتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں میں کہیں کہیں اردو داخل نصاب ہے لیکن پرائیویٹ اسکولوں سے اردو غائب ہوچکی ہے۔ ایسے میں مدارس سے اس قسم کا بچکانہ مطالبہ کرنے والے اردو کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
ابھی حال میں مدارس کے حوالے سے ایک نئی بات سننے میں آئی کہ یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں اب چونکہ مدارس کے طلبہ کی اکثریت ہوتی ہے اس وجہ سے اردو طلبہ میں ادبی ذوق کی کمی پائی جاتی ہے۔ جو لوگ بھی اس قسم کا نظریہ رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ یونی ورسٹیوں میں جاکر معلوم کریں کہ ادبی ذوق میں کیوں کمی آرہی ہے۔ چائے خانوں میں یا اے سی کمروں میں گفتگو کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔
اردو اسی ملک میں پیدا ہوئی۔ اس کی رگوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوں کا بھی خون ہے۔ لیکن تقسیم ہند کے المیہ کے بعد اس زبان کے ساتھ ملک میں کچھ اس قسم کے حالات پیدا ہوئے کہ یہ مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس زبان کو عام کریں۔ ان لوگوں کو بھی اردو سیکھائیں جو اردو سیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نیک کام کو جو بھی کرے خواہ وہ مدارس اسلامیہ ہوں یا اسکول اور کالجز ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ حوصلہ شکنی اور تہمت تراشی سے اردو کا بھلا نہیں ہوسکتا ہے۔
عزیر اسرائیل
uzairahmad3@gmail.com
Leave a Reply
5 Comments on "اردو زبان کے فروغ میں مدارس کا کردار"
Commentبھائ بہت خوب لکھا ہے لیکن علی میاں صاحب کے بارے میں جو آب نے کہا ہے اس کی تحقیق کر لیجئے
[…] 74. اردو زبان کے فروغ میں مدارس کا کردار […]
اللہ تعالی آپ کو مزید ترقی عطا فرمائے