علامہ اقبال  اورافغانستانِ

علامہ اقبال کے کلام میں عالم اسلام میں سب سے زیادہ تذکرہ افغانستان کا ہے۔شاہی مہمان کی حیثیت سے وہ افغان گئے ۔ان کی وہاں بڑی قدرو منزلت کی گئی۔ اس عزت افزائی کے لئے اقبال کے دل میں ان کے لئے نرم گوشہ کا ہونا ایک فطری امرہے۔ ہندوستان میں افغانی سفیر صلاح الدین سلجوقی اپنی گہری عقیدت کے باعث علامہ اقبال کومرشد کہاکرتے تھے۔ اقبال نے ‘پیامِ مشرق ‘کو امیرِ افغانستان شاہ امان اللہ خان (١٨٩٤ئ۔١٩٦١ئ) سے منسوب کیاہے۔ اس مجمومہ میں  ٨١ /اشعار کاایک منظوم خطاب بھی شامل ہے۔ جس میں دیگر تمام مسلم اقوام کی زبوں  حالی کے ساتھ ہی اس خواہش کابھی اظہار ہے کہ شاہ امان اللہ زمامِ اقتداراپنے ہاتھ میں لیں ۔اوراسلام کی شوکت اورعظمت رفتہ کے احیاء کے لئے کوشش کریں ۔ شاہ امان اللہ کاسب سے بڑاکارنامہ یہ تھا کہ ٨اگست ١٨٩٩ئ کو راولپنڈی معاہدے کے تحت انگریزوں نے افغانستان کی مکمل خودمختاری کوتسلیم کرلیا۔ اس طرح انہوں نے افغانستان کوانگریزوں  کی غلامی سے نجات دلائی ۔ شاہ امان اللہ بیدارمغزحکمران تھے۔ ملک کی ترقی کے لئے بہت سی اصلاحات کیں ۔ کابل یونیورسٹی کاقیام ، جدیدتعلیم کافروغ ، زراعت اورصنعت وحرفت پر توجہ اورمختلف کارخانوں  کاقیام اُن کامرہون منت ہے۔ علامہ اقبال غیورافغانیوں کا تزکرہ یوں کرتے ہیں

ملّت آوارہ کوہ ودمن

دررگِ اُوخونِ شیراں  موجزن

زیرک وروئیں  تن وروش جبیں

چشمِ اُوچوں  چرہ بازاں  تیزبیں

علامہ اقبال ٤نومبر ١٨٢٩ئ کو عبدالجمیل بنگوری کے نام ”ہلال احمرفنڈ” کے لئے دس روپئے کا عطیہ ملنے پر شکریہ کاخط لکھتے ہوئے تحریرکرتے ہیں  کہ :

”ہمارے اٹک پار بھائیوں کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں  ہم پربھی عائد ہوتی ہیں  ۔ افغانستان کااستقلال واستحکام مسلمانانِ ہند اوروسط ایشیا کے لئے وجہِ

حمیّت وتقویت ہے”۔ (کلیات مکاتیب اقبال۔جلد ٣  از  مظفرحسین برنی)

ان کاخیال تھا کہ افغانوں کی خودی کہساروں میں خوابیدہ ہے اوراس خودی کومہذب وتہذیب یافتہ بنانے کی ضرورت ہے

قسمتِ خود ازجہاں  نا یافتہ

کوکبِ تقدیر اُو نا یافتہ

درکہستاں  خلوتے در  زیدہ

رستخیرِ زندگی نادیدہ

جانِ تو ہرمحنتِ پیہم عبود

کوش درتہذیبِ افغانِ غیور

علامہ اقبال افغانیوں کوجس تہذیب وتمدن کاسبق دیناچاہتے ہیں وہ یورپ کی جگمگاتی اورنظرکوخیرہ کرنے والی تہذیب نہیں  تھی۔ایران ،عراق،ترکی ،شام ،مصر وہندوستان کے مسلمانوں کی بے راہ روی ، کوتاہ بینی اورتقلید کو وہ اپنی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں  کہ ان ممالک کے حکمرانوں  نے مغربی علوم وفنون کی ترویج کاتوکوئی انتظام نہیں کیا ۔البتہ یورپین لباس اورتہذیب وتمدن سے اپنی قوم کوآشناکردیا اوراپنی حماقت سے سمجھ بیٹھے کہ اگرمسلمان عمامہ کے بجائے ہیٹ اورشلوار کے بجائے پتلون یاعورتیں  بے حجابی اختیارکرلیں گی توترقی کے دروازے کھل جائیں  گے حالانکہ ترقی ونشونماکے لئے صرف علم کاچراغ روشن کرنا درکارہے نہ کہ ساقِ عریاں لباس

قوتِ افرنگ نہ ازچنگ ورباب

زرقصِ دخترانِ بے حجاب

نے زسحر ساحران لالہ روست

نے زعریاں ساق ونے قطع موست

محکمی اورانہ ازلادینی است

نے فروغش ازخطِ لاطینی است

قوت افرنگ ازعلم وفن است

از ہمیں  آتش چراغش روشن است

حکمت از قطع وبریدجامہ نیست

مانع علم وہنرعمامہ نیست

علامہ جس تہذیب وتمدن کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ ذہنی ودماغی تربیت ہے۔ اس عقیدہ کی تعلیم ہے کہ زندگی پیہم کوشش وجدوجہد کانام ہے۔ فتح وکامیابی کسی کاپیدائشی حق نہیں  بلکہ پیہم جستجو کانتیجہ ہے ۔مادی اشیاء کاعلم اوراس کی تسخیرنے ہی مغرب کوفروغ عطاکیا ہے،اس کے بغیر دنیا میں زندگی وکائنات کے قوتوں کی تسخیر ممکن نہیں

زندگی جہداست واستحقاق نیست

جُز بعلم النفس وآفاق نیست

گفت حکمت را خدا خیرکثیر

ہرکجا ایں خیر را بینی بگیر

علم اشیاء علم الاسماء سبتے

ہم عصاوہم یدِ بیضا ستے

علمِ اشیاء داد مغرب را فروغ

حکمت اُوماست فی ہندوزدوع

علامہ اقبال کاخیال تھا کہ افغانستان میں آزادی کی خواہش دراصل آزادی کی خواہش کے تاریخی تسلسل کاہی نتیجہ ہے ۔افغانیوں میں مغلوں  کی شہنشاہیت سے آزاد ہونے کی تحریک خوشحال خان خٹک (١٦٨٩ئ۔ ١٦١٣ئ)،پشتوزبان کا مشہوروطن دوست شاعر اورسپہ سالار،نے شروع کی تھی ۔علامہ اقبال خٹک کے اسی طرح مداح ہیں جیسے جدید افغانستان کی اس تحریک کے جوبرطانوی سامراجیت کے خلاف اُٹھی ۔ اقبال اورخٹک میں بہت سی باتیں مشترک تھیں  ۔ مولاناجعفر شاہ پھلواری  کے بقول :

”آج سے تین سوسال قبل ضلع پشاور کے ایک گاؤں  اکوڑہ خٹک میں ایک شخص گزراہے جسے دیکھ کریہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ پشتو کا اقبال  بشکل خوشحال تھا یا تین سوسال بعد اردوکاخوشحال  بشکل اقبال پیداہوا”۔ (خوشحال خان خٹک اوراقبال)

علامہ اقبال افغانیوں کی خودی کوبیدارکرناچاہتے تھے اوریہی کام خٹک  کے پیش نظربھی تھا۔ علم ،ہنر ،شجاعت،سخاوت ،رحم دلی ،خودشناسی،خوداعتمادی،استغناء ،افکار بلند، عشق وعقل ،آزادیٔ ضمیر،ایمانی پختگی ،خودداری،صبرواستقامت وغیرہ وہ روحانی واخلاقی اقدار ہیں جواقبال  کے کلام میں  بتکرار مختلف اندازمیں آئے ہیں ۔ یورپ میں  قیام کے دوران ہی وہ خوشحال خاں خٹک کے افکارسے واقف ہوئے ۔ علامہ اقبال نے افغانستان کے وزیرتعلیم سے خوشحال  کی شاعری اوران کے افکار پر کام کروانے کی درخواست بھی کی تھی ۔ علامہ اقبال اورخوشحال خاں خٹک کے درمیان خیالات کااشتراک بہت ہی واضح ہے۔ بلکہ یہاں  تک کہاجاتاہے کہ اقبال  نے ‘شاہین ‘کا تصور خٹک سے ہی لیا ہے

برہنہ سرہے توعزمِ بلند پیدا کر

یہاں  فقط سرِ شاہین کے واسطے ہے کُلاہ(اقبال)

خٹک اپنی افغانی مزاج کی صلابت اوراپنی بات کودوٹوک اندازمیں  کہنے کی وجہ سے یوں  فرماتے ہیں

درکلاہ لائق خوبازشاہین دے

            پہ راحہ چہ کلاغے بہ سرکلاشئی

(ترجمہ:  سرپرکُلاہ رکھنے کااہل بازیاشاہین ہے ،کوّے کے سرپر اگرکُلاہ ہے توکس کام کی ؟)

جھپٹنا پلٹنا پلٹ کاجھپٹنا

لہوگرم رکھنے کاہے ایک بہانہ(اقبال)

چہ فصل خورل خوردن کانواحہ نہ دے بازشاہین دے  چہ ئے سوزے لرہ پوسی یامیزی دے یانارہ(خٹک)

(ترجمہ :۔  جھپٹ کرمارنا ، کھانا اورکھلانا بازاورشاہین کے سواکسی دوسرے کاکام نہیں  ۔کھانے کی چیزوں  کو بِل میں  گھسیٹ کر لے جانا چیونٹی کاکام ہے یاچوہے کا ۔)

افغانستان کی دوسری عظیم ہستی اورممتازشخصیت جس نے علامہ اقبال کومتاثر کیا وہ سیدجمال الدین افغانی (١٨٣٨ئ۔١٨٩٧ئ)ہیں ۔اقبال انہیں  مسلمانوں  کی نشاةِ ثانیہ کامؤسس قراردیتے ہیں ۔ ٧اپریل ١٩٣٢ئ کو چودھری محمد احسن کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ :

”زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگرکوئی شخص مجدّد کہلانے کامستحق ہے تووہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر،ایران،ترکی اورہندوستان کے مسلمانوں

کی اگرکوئی تاریخ لکھے تواسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اوربعدمیں  جمال الدین افغانی کاذکرکرناہوگا۔ موخرالذکرہی اصل میں مؤسس ہے زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاةِ ثانیہ کا ۔ اگرقوم نے انہیں مجدّد نہیں کہا یاخودانہوں نے اس کادعویٰ نہیں کیا۔ تواس سے ان کے کام کی اہمیت میں  کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا”(مکاتیب اقبال ۔جلد٣۔ص ٤٠٣  از  مظفرحسین)

جمال الدین افغانی سے علامہ اقبال کی ملاقات کا واضح ثبوت نہیں  ملتا۔لیکن ان کے علم وفضل اور انقلابی تحریک کا غلغلہ مشرق و مغرب میں  تھا۔ان کی شخصیت میں  ایسی جاذبیت اور الفاظ میں  ایسا اثر تھا کہ وہ جس ملک میں  بھی جاتے ،اکثریت ان کی عالم اسلام کے اتحاد کی تحریک کے حامی و معاون بن جاتے۔مشہور فرانسیسی مفکر رینان (Earnest Renan 1823-1892)نے اپنے تاثر کا اظہار ان الفاظ میں  کیا ہے:

”ان کی آزاد فکر اور ان کے شریفانہ کردارنے مجھے ایسامتاثرکیا کہ گویا میرے سامنے ابن سینا ، ابن رشد یادورِقدیم کے مسلمانوں سے کوئی زندہ ہوکر آگیا ہو”۔

            (بحوالہ :علامہ اقبال ،چندجہتیں ۔ص ١٢٦  :  مختار مکّی)

مفتی محمد عبدہ کے بقول” وہ بلند حوصلہ اورزبردست قوتِ ارادی کے مالک تھے ۔ علم وحکمت کے شیدائی ،مادّیت سے گریزاں  اورروحانیت کے دلدادہ ”۔ (ایضاً)

اقبال کے دورِشباب میں  جمال الدین افغانی اکثرہندوستان آتے رہتے ۔ان کانقطۂ نظر’ اتحاد ملّت اسلامیہ ‘تھا۔اوراغیار کی غلامی سے نجات ۔ علامہ اقبال بھی اس کے لئے کوشاں  تھے ۔اس وجہ سے وہ جمال الدین افغانی سے قریب اورمتاثر ہوئے ۔ ڈاکٹرجاویداقبال ان اثرات کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”ہندوستان میں جمال الدین افغانی کی بین الملّی اتحاد اسلامی تحریک کاپرجوش خیرمقدم کیاجاتا ۔ چنانچہ جب بھی وہ یہاں  سے واپس گئے ،تومعتقدین کی ایک جماعت اپنے پیچھے ہندوستان چھوڑ گئے۔ اقبال بھی مسلم نوجوانوں کی طرح اس جماعت کے رُکن تھے ، جوجمال الدین افغانی کے تصوراتحادِملّی سے متاثرہوئی”۔

            (شذراتِ فکر اقبال ۔ص٥٠)

جمال الدین افغانی مغرب کے محکوم قوموں میں  قوم پرستی کاجذبہ پیداکرناچاہتے تھے ۔ تاکہ وہ مغربی استعمار (Colonialism)کامقابلہ کرسکیں ۔ وہ ‘تحریک اتحاد عالم اسلامی’ کے علمبردارتھے ۔جسے مغرب نے اپنے بغض اورعنادسے ‘پان اسلامزم'(Pan Islamism)کانام دے رکھاہے۔ وہ مسلم ممالک کوایک خلافت کے جھنڈے تلے متحد ومنظم کرناچاہتے تھے ۔ حب الوطنی کو وہ انسان کافطری جذبہ مانتے تھے لیکن حبّ دین کو حبّ الوطنی پر فوقیت دلواناچاہتے تھے ۔ وہ عالم اسلام میں  احیاء اسلام کے لئے کوشاں  تھے ۔ ان کاخیال تھا کہ :

            ”مغربی اقوام مشرقی ثقافت کی نشوونما کے لئے نہیں  بلکہ ان کے استحصال کے لئے ان میں احساسِ کمتری پیدا کرتی ہے اور انہیں یہ باورکرانے کی کوشش کرتی ہے کہ مغرب ہی تمام خوبیوں  اورکمالات کا حامل ہے ۔ اورانسانی ثقافت مغربی زبانوں  ہی کے ذریعے ممکن ہے ”۔ (علامہ اقبال ، چندجہتیں  ۔ص ١٢٧)

جمال الدین افغانی مشرقی قوم کواپنی ثقافت ،زبان وادب اوراس کی عظمت رفتہ کا صحیح احساس دلاناچاہتے تھے :

”جن لوگوں  کی اپنی زبان نہیں  ، اُن کی اپنی شخصیت وقومیت نہیں  ۔ نیز جس قوم کی اپنی کوئی تاریخ نہیں  ،اُس کی دنیامیں کوئی عزت نہیں  اور جن لوگوں  کی نظرمیں اپنے ثقافتی ورثے اور اپنے بزرگوں کے کارناموں کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہوتی ۔ ان کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں رہتا”۔(ایضاً )

سامراجیت و استعمار کے خلاف افغانی ہر وقت سعی کرتے رہے۔نوآبادیات میں  استعماری طاقتوں  کی ظاہری ترقی سے پردہ کشائی کی۔بعد میں  فلسطینی نژاد مفکر ایڈورڈ سعید(Edward Saed 1935-2003)نے بھی سید جمال الدین افغانی کی طرح مغربی استعمارکی حقیقت واضح کی ان کے بقول علمی ،ادبی ،ثقافتی اورفنی ترقیوں کے پیچھے حکمراں قوم کی اپنی غرض وغایت ہوتی ہے اور اپنی قوت کومستحکم کرنے کے لئے وہ علمی میدان میں بھی ایسی ہی صورت پیداکرتے ہیں ،جوان کی حکمرانی کومزید مستحکم بنادے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی قوت اورحکمرانی کی غرض سے ذہن ودماغ بھی جیتنا چاہا اور یہ تبھی ہے کہ جب ترقی کے نام پرذہنوں  کومتاثر کیاجائے۔ محکوم قومیں  لازماً یہ تصورکرتی رہی ہیں  کہ جوکچھ ہورہاہے وہ ان کی ترقی کاسبب ہے کیونکہ نوآبادیات کے نظام میں  علمی اورثقافتی استحصال کاپہلو مخفی ہوتاہے۔ ایڈوڑ سعید اپنے نوآبادیاتی مطالعے کے سلسلے میں اس نتیجے پرپہنچا کہ:

“That ,study ,understanding ,knowledge, evaluation, masked  as  blandishment to rule”                                                                                                                                       ( Orientalism, pg.  107)

معلوم ہوا ایڈورڈ سعید  کی نگاہ میں حکمرانوں کے ذریعہ مطالعہ ،تفہیم ،علم ،تجزیہ سبھی ان کی حکمرانہ چالوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان کے چکنے چپڑے طریق کار سب کے سب ان کی فتوحات کاحصہ ہیں ۔ گویا Power سے نوآبادیاتی علوم کو الگ نہیں کیاجاسکتا۔

سیدجمال الدین افغانی کسی ایک ملک کے رہنمانہیں تھے بلکہ عالم اسلام کے متفقہ رہنما تصورکئے جاتے تھے ۔ان کے خیالات ونظریات کااثر ترکی ،ایران ،مصر ہندوستان اورشمالی افریقہ کی قومی تحریکوں پر بہت ہی گہراپڑا۔ انہوں نے جدیددنیاکے اجتماعی مسائل کواسلامی نقطۂ نظر سے حل کرنے کا راستہ بتایا ۔ اور قدیم وجدیداندازِ فکرکوملاکر ایک جامع وہمہ گیر اسلامی اندازِ فکر کی بنا ڈالی ۔ان کی تحریک کوبدنام کرنے کے لئے’ پان اسلامزم ‘(یعنی پوری دنیامیں  جبراً اسلام کومسلط کرنا )کالفظ استعمال کیاجاتاہے۔ علامہ اقبال اس تصورکے سخت مخالف تھے۔ اوراسے بہتان سمجھتے تھے ۔ اپنے ایک بیان میں  جوکہ انہوں نے ٢٨ستمبر ١٩٣٢ئ کو لاہورمیں  جاری کیا تھا ، فرماتے ہیں  :

”پان اسلامزم کا لفظ فرانسیسی صحافت کی ایجاد ہے اور یہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے تحت انہوں نے استعمال کیا تھا جواس کووضع کرنے والوں  کے خیال میں اسلامی ممالک ،غیراسلامی اقوام ،خاص کریورپ کے خلاف کررہے ہیں ۔ بعدمیں  پروفیسر براؤن اوردیگراشخاص نے پوری تحقیقات کے بعد یہ ثابت کردیا          ہے کہ یہ کہانی غلط تھی ۔ پان اسلامزم کاہوا پیدا کرنے والوں  کامنشاصرف یہ تھا کہ اس کی آڑ میں  یورپ کی چیرہ دستیاں  جواسلامی ممالک میں جاری تھیں ،جائز  قراردی جائیں ”۔ (گفتارِ اقبال۔ص ١٧٧  :  محمدرفیق افضل)

رینان  کادعویٰ تھا کہ اسلام کی تعلیمات جدیدسائنس وعلوم کے عمل کے مخالف ہے۔ سیدجمال الدین افغانی نے ان سے فاضلانہ مباحثہ کیا اور تبحّر علمی کاثقہ یورپین مستشرقین پربٹھادیا۔ خود رینان نے اُن کے مضامین کوپسند کیاہے۔ (علی گڑھ میگزین ، علی گڑھ نمبر ۔ص ١٢٣)

جاویدنامہ کے آٹھویں باب میں  جب وہ فلک قمر سے فلک عطارد پہنچتے ہیں  توانہیں  وہاں  جمال الدین افغانی اورترکی کے سعید حلیم ملتے ہیں ۔ مولانارومی ، افغانی کا تعارف اقبال  سے کراتے ہوئے کہتے ہیں

گفت مشرق زیں  دوکس بہتر نزاد

ناخنِ شاں  عُقد ہائے ماکشاد

سیّدالسّادات مولانا جلال

زندہ ازگفتارِ اورسنگ وسقال

یعنی ایشیامیں ان دوآدمیوں سے بہتر انیسویں صدی میں کوئی دوسراشخص پیدانہیں ہواہے،جنہوں نے اپنی دینی فراست اور ذاتی قابلیت کی بدولت ہمارے تمام سیاسی، تمدنی اورمعاشی مسائل کاحل پیش کیاہے۔ ان کی تقریرمیں وہ جوش تھا کہ مردہ دلوں میں بھی زندگی کی لہر دوڑجائے۔ عقیدت سے علامہ اقبال نے بصداحترام ان کے ہاتھوں کوبوسہ دیا ۔جمال الدین افغانی نے مسلمانانِ عالم کاحال پوچھا تواقبال نے جواب دیا کہ ان کے درمیان دین ووطن کی جنگ جاری ہے۔ ترکی ،ایرانی ،مصری ،عربی، افغانی اورہندوستانی غرض سب کے سب فرنگی تہذیب وتمدن کے زیراثرہیں ۔ دوسری جانب اشتراکیت کے تحت یورپین اقوام مسلمانوں  کوسیاسی ومعاشی اعتبارسے اپناغلام بنارہی ہے اورمسلمان چکّی کے دوپاٹ کے درمیان پِس رہے ہیں ۔ افغانی ان حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے ملّت روس کوپیغام دیتے ہے اوراشتراکیت کی روح سے علامہ اقبال کو آگاہ  کرتے ہوئے کہتے ہیں

زانکہ حق درباطل اومضمراست

قلب اومومن دماغش کافراست

غریباں  گُم کردہ اندرافلاک را

درشکم  جوئند  جانِ  پاک  را

گفتگوکے دوران قومیت وملوکیت کی مختلف شکلیں  اُبھرکرسامنے آتی ہیں ۔ لیکن وہ ملوکیت واشتراکیت سے اپنی بیزاری کااظہارکرتے ہیں ۔ ‘کاخِ سلاطینِ مشرق’ میں  مولانارومی نے علامہ اقبال کی ملاقات نادرشاہ درانی  ،احمدشاہ ابدالی  اورٹیپوسلطان  سے کرائی۔احمدشاہ ابدالی کی تعریف بحیثیت فاتح پانی پت نہیں  بلکہ بحیثیت مؤسس ملّت افغانیہ ہے                   از خمیرش ملّتے صورت پذیر

احمدشاہ ابدالی ، اقبال کوبتاتے ہیں  کہ میری قوم نے عہدماضی میں  کئی حکومتیں  قائم کیں ۔ لیکن وہ اپنے کوہستانی علاقہ میں  محصور ہوکر رہ گئیں ۔ اور نانِ خشک پرزندہ ہے۔ ابدالی کی زبان سے ہی اقبال نے اس حقیقت کوبھی واضح کیا کہ مغربی اقوام کی قوت اورسطوط کاسبب نہ جنگ ورباب اوررقص وموسیقی ہے اورنہ ہی بے حجاب عورتوں کی عریانی وبے حیائی۔بلکہ ان کی قوت کارازعلم وفن اورسائنٹفک ترقی میں پوشیدہ ہے۔ اورسائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی خاص وضع کالباس اختیارکرنا ضروری نہیں بلکہ دماغ اورذوق وشوق کی ضرورت ہے۔ ترکوں اورافغانوں نے اہل مغرب کی اُن باتوں  کواختیارکرلیاجوآسان تھیں لیکن وہ باتیں نہ سیکھیں جن کی بدولت ان مغربی اقوام نے ترقی کی ہے ۔جو قوم اس دنیامیں سہولت پسندی کواختیارکرلیتی ہے، سمجھووہ مردہ ہوچکی ہے اوراس میں  ترقی ونشوونما کی صلاحیت مفقودہوگئی

نقدجانِ خویش دربازدبہ لہو

علم دشوارست می بازدبہ لہو

ازتن آسانی بگیر دسہل را

فطرتِ او در بریرد سہل را

سہل راحسین دریں  دہرکہن

ایں دلیل آنکہ جاں رفت ازبدن

٢٣ستمبر ١٩٣٣ئ کو امیرافغان نادرشاہ غازی  نے تعلیمی امورکے سلسلے میں  رائے ومشورہ کے لئے علامہ اقبال،سررأس مسعوداورسید سلیمان ندوی کوافغانستان آنے کی دعوت دی،بوجوہ مقررہ تاریخ پروہ پہنچ نہ سکے بلکہ ٢٣اکتوبر کوکابل پہنچے ۔کابل میں ان کاقیام شاہی مہمان خانہ ‘دارلامان’میں تھا ۔بطورسکریٹری بیرسٹر غلام رسول اورخادم کی حیثیت سے علی بخش ساتھ تھے۔ ٢٦اکتوبرکونادرشاہ غازی سے ملاقات ہوئی ۔ ملاقات کے دوران علامہ اقبال نے ان کی خدمت میں  قرآن کریم کاایک نسخہ پیش کرتے ہوئے فرمایا

ایں  کتابے ہست کہ تقدیرہائے امم

شرق وغرب دربطونِ آں آشکارمی بینم

            (ترجمہ:۔  یہ ایک کتاب ہے جس سے اقوام مشرق ومغرب کی تقدیریں  صاف نظرآرہی ہیں )۔

نادرشاہ نے پرنم آنکھوں سے اسے قبول کرتے ہوئے کہا

            ‘آیاتِ بیناتِ اوپناہ گاہِ من است’  (ترجمہ:۔  اس کی آیاتِ بینات میری پناہ گاہ ہیں )

٢٧اکتوبرکو ‘بل خسی’ کی جامع مسجد میں  شاہ کے ساتھ نمازجمعہ اداکی ،نمازکے دوران شاہ وگدا کے نظارہ نے انہیں  اتنامبہوت کردیا کہ کہنے لگے ، ‘دارالحرب میں نماز جمعہ کی ممانعت آج سمجھ میں آئی ‘

ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے محمود وایاز

نہ کوئی بندہ رہااورنہ کوئی بندہ نواز

٣٠اکتوبرکواقبال ،غزنی کی طرف روانہ ہوئے جہاں  حکیم سینائی (متوفیٰ ٥٤٥ھ)، محمود غزنوی (متوفیٰ ١٠٣٠ئ) ،مغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر(١٤٨٣ئ۔١٥٣٠ئ) اورداتاگنج کے والد بزرگوارکے مزاروں  پرحاضری دی۔ سیدسلیمان ندوی اپنے سفرنامہ افغانستان میں لکھتے ہے کہ :

”حکیم سینائی سے شاعر اقبال کوخاص رغبت تھی۔وہ اس کے مزارکی زیارت کے زیادہ مشتاق تھے…..وہ حکیم ممدوح کے سرپائے ہوکر بے اختیار ہوگئے اوردیرتک زاروقطارروتے رہے”۔

اقبال حکیم سینائی کو مولاناروم کے بعدشعروحکمت میں  اپنادوسرااستاد مانتے تھے ۔حکیم کے مزارپرکہتے ہیں

از نوازشہائے سلطان….

صبح وشامم صبح وشام روزعید

اس کاجواب روحِ سینائی بہشت سے اس طرح دیتی ہے

راز داں  خیروشر گشتم زفقر

زندہ وصاحبِ نظرگشتم زفقر

بال جبرئیل میں  ‘افکارپریشاں ‘کے نام سے چندغزلوں میں حکیم سینائی کے ایک مشہورقصیدہ کی پیروی کی گئی ہے۔ اوریہ اس روزِ سعید کی یادگارہے ، جب انہوں نے مزارکی زیارت کی تھی

یہی شیخ حرم ہے جوچراکربیچ کھاتاہے

گلیم بوذر ودَلقِ اویس وچادرِزھرا؟

حضورِحق میں اسرافیل نے میری شکایت کی

یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کرنہ دے برپا!

نداآئی کہ آشوبِ قیامت سے یہ کیاکم ہے

گرفتہ جیناں  احرام ومکّی خفتہ دربطحا!

سلطان محمود کے مزارپروہ طاقت کے تصورسے مسحورہوکرکہتے ہیں

گنبددرطوافِ اُوچرخ بریں

تُربتِ سلطان محمودست ایں

برتنِ سوزاں  تیغ بے زنہاراُو

دست دو رلرزند او یلغارِ اُو

شہنشاہ بابر خُلد آشیاں  کے مزارپروہ کہتے ہیں

بیاکہ سازِ فرنگ ازنواہرافتاداست

درونِ پردۂ اُونغمہ نیست فریاداست

کابل میں ہی لکھے گئے اپنی ایک غزل میں وہ کہتے ہیں

مسلماں  کے لہومیں  ہے سلیقہ دل نوازی کا مُروّت حسن عالمگیرہے مردانِ غازی کا

شکایت ہے مجھے یارب!خداوندانِ مکتب سے

سبق شاہیں  بچوں  کودے رہے ہیں  خاک باز ی کا

علامہ اقبال نے افغانستان سے واپسی پر اپنی مشہورمثنوی ‘مسافر’لکھی ،جوجذب واثرمیں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایڈورڈ تھامپسن کے نام اپنے نویں اورآخری خط مورخہ ٢٦جولائی ١٩٣٤ئ میں اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ :

”فارسی میں لکھی ایک مختصر نظم ‘مسافر ‘زیرطباعت ہے ،اس میں میرے افغانستان کے سفرکا تذکرہ ہے اوریہ اس ملک کے نوجوان بادشاہ کی خدمت میں پیش کی جائے گی”۔

سیدسلیمان ندوی کے بقول’یہ فارسی زبان میں  خیبر ،سرحد،کابل ،غزنی اورقندھارکے عبرت انگیز مناظرومقابرپر شاعرکے آنسوں  ہیں ۔ بابر ، سلطان محمود،حکیم سینائی اوراحمدشاہ ابدالی کی خاموش تربتوں  کی زبان حال سے سوال وجواب ہے’۔

اقبال کے خیال میں  افغانیوں میں  ساری شجاعانہ خصوصیات موجودہیں ۔کمی اگرہے توخودشناسی کی ، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور پشتودھن پر وہ کہتے ہیں

رومی بدلے، شامی بدلے،بدلاہندوستان!

توبھی اے فرزندِ کہستاں !اپنی خودی پہچان!

اپنی خودی پہچان اوغافل انسان!

موسم اچھا ،پانی وافر،مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسادہقاں !

اپنی خودی پہچان اوغافل انسان!

اسی طرح اس نظم میں افغانیوں کے عزم واستقلال ، خودداری وعزت ، جوش وعمل اورشجاعت کے حضور خراجِ عقیدت پیش کیاگیاہے۔ اس میں کہیں  نادرشاہ کے حوالے سے کہاگیاہے

نادرنے لوٹی دلّی کی دولت

ایک ضرب شمشیر !افسانہ کوتاہ!

افغان باقی !کہسار باقی!

الحکم اللہ الملک اللہ

کہیں افغانیوں کے حوالے سے جوانی وقوت کارازفاش کیاگیاہے

وہی جواں  ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کاہوبے داغ،ضرب ہوکاری

اگرہوجنگ توشیرانِ غاب سے بڑھ کر

اگرہوصلح تورعنا غزالِ تاتاری!

کہیں وہ ان خطرات کااظہارکررہے ہیں کہ فرنگی چالیں افغانوں کے کردار کی ان خصوصیات سے محروم نہ کردیں  جوانہیں عزیزہیں ، اس وجہ سے انہیں ہوشیار ہنے کی تلقین کرتے ہیں

مردِ بے حوصلہ کرتاہے زمانے کاگلہ

بندۂ حر کے لئے نشترِ تقدیرہے نوش!

نہیں ہنگامۂ بے کارکے لائق وہ جواں

جوہونالۂ مرغانِ سحرسے مدہوش!

مجھ کوڈرہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری

اورعیارہیں  یورپ کے شکرپارہ فروش!

علامہ اقبال کا خیال ہے کہ انقلاب محض مذہبیت اوردعاؤں  سے نہیں آسکتا، ا سکے لئے عمل اورقومی خودی کی تعمیر کی نشوونما کی ضرورت ہے

تیری دعا سے قضاتوبدل نہیں سکتی

مگرہے اس سے یہ ممکن کہ توبدل جائے!

تیری خودی میں  اگرانقلاب ہوپیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چارسوبدل جائے!

تری دعاہے کہ ہوتیری آرزوپوری

میری دعاہے کہ تیری آرزوبدل جائے!

            اور

تو  اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ

خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں !

یہ نیلگوں  فضاجسے کہتے ہیں آسماں

ہمّت ہوپرکُشا توحقیقت میں کچھ نہیں !

علامہ اقبال کاخیال ہے کہ کوئی مرددرویش ہی اس ملک کوحقیقی انقلاب سے روشناس کراسکتاہے ۔ایسامرددرویش جوغریب اورمحنت کش طبقہ سے تعلق رکھتاہو، اس میں شجاعت ،کردار، اخلاق اورفقرکی تمام خوبیاں موجودہوں ۔وہ تلوارکادھنی ہواوروقت توخودتلوارہے ہی،جب چلتی ہے توتقدیرکی تشکیل کرتی ہے

دنیا ہے روایاتی، عقبیٰ ہے مناجاتی

دربارِ دوعالم را ایں  است شہنشاہی!

٭٭٭

Leave a Reply

2 Comments on "علامہ اقبال  اورافغانستانِ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 134.     علامہ اقبال  اورافغانستانِ […]

trackback

[…] علامہ اقبال  اورافغانستانِ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.