اقبال کاآفاقی فکروفلسفہ

علامہ اِقبال کے فکروفلسفہ کی یہ ممتازخصوصیت ہے کہ جس زمان ومکان کے حوالے سے انہوں  نے اپنی فکرکا پرچار کیا، آج اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی موجودہ دور سے متفرق نظر نہیں  آتا۔علامہ کی فکر و نظر کا آفاقی ہونا ، یہ ایک سنجیدہ مسئلے کی طرح ہمیشہ بحث ومباحت کا موجب رہا۔اس حقیقت سے انکار نہیں  کہ علامہ نے فکروفن کے حوالے سے مشرق ومغرب سے خوب استفادہ کیا، یہاں  تک کہ ان کے فکری ارتقاء میں  نت نئے نظریات جنم لیتے رہے۔ اس ضمن میں  زندگی کے آخری دور میں  اس حقیقت کے قائل ہو گئے تھے کہ انسانیت کے تمام مسئلوں  کا حل اسلامی نظامِ حیات میں  پنہاں  ہے ۔ اسلامی فکریات کے حوالے سے علامہ نے جن نظریات کا پر چار کیا وہ آفاقی نوعیت کے ضرور حامل رہے ۔ علامہ اقبال کے انتقال کے بعد مشرقی مفکروں  اور ادب شناسوں  نے جن میں  خاص طور پر مشرقی اذہاں  قابل ذکر ہے نے علامہ کے بارے میں  اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ علامہ صرف ایک ملت کے شاعر (یعنی ملت اسلامیہ کے شاعر) ہے۔ علامہ چنانچہ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے اور ان کے فکرونظر میں  عاقبت اندیشی پوشیدہ تھی ، اس ضمن میں  شاید یہ ذہن اس نکتے کو سمجھنے سے قاصررہے،جس کی سبب انہیں  نکتہ چینی کا شکار ہونا پڑا۔ شہرت یافتہ مستشرقین، نکلسن نے علامہ کے بارے میں  جریدہ”اسلامیہ ” میں  تحریر کیا تھا:

”اقبال کو سمجھنے کے لیے اس قدر غور وفکر، وسعتِ مطالعہ اور عمیق احساسات کی ضرورت ہے ،جس کا اظہار عالم اسلامی کے اس ممتاز ترین فاضل کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے ”

        (بحوالہ :اقبالیات کے نقوش،ڈاکٹر سلیم اختر،ص۔١٤٧)

            علامہ اقبال کے کلام میں  چونکہ کئی قسم کے فلسفیانہ خیالات موجود ہیں ، لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں  کہ جس فکرونظر کے سبب انہیں  شہرت ابدی نصیب ہوئی ،وہ فکرونظر ان کا ”فلسفہ خودی” ہے ۔جیسے کہ عبدالسلام ندوی اقبال کامل میں  فرماتے ہیں  کہ” علامہ کے اس فلسفہ سے مراد فخروغرور نہیں  بلکہ ذات کی وہ پائیداری ہے جو ہر مخلوق کے علم وعمل کو ایک مخصوص دائرے میں  نمایاں  کرتا ہے ۔ اسکی ذاتِ صفات کی بودو نمود کے مظاہر متعین کرنا ہے اور اس کی نشوونما اور بالیدگی کے سامان فراہم کرنا ہے ۔”علامہ اس ضمن میں  مقصدیت پسندی کے حامل ہیں  ، انہوں  نے اپنے اس فکرونظر سے انسان کی صلاحیتوں  کو اجاگر کرنے اور انسان کو مفید اور پیداوار بنانے کی طرف گامزن کیا ۔ ان کے تفکرمیں  علم وفن بذاتِ خود مقصد نہیں  بلکہ اس سے اہم ترین چیز مقصدِحیات ہے ۔ علامہ نے”اسرار خودی” میں  اس حوالے سے یوں  اظہار کیا تھا:

  علم از سامانِ حفظ ِ زندگی است

علم از اسبابِ تقویمِ خودی است

علم وفن از پیش خیزان ِ حیات

علم وفن ازخانہ زاد انِ حیات

      (کلیات (فارسی)اسرارخودی،ص۔١٧)

یہان سے یہ بات سامنے ضرور آتی ہے کہ علامہ نے اس نظریہ (خودی )کے ذریعے فردمیں  عرفانِ ذات، احساسِ شخصیت اور اس کی انسانی صلاحیتوں  کو اجاگر کرنے کی ایک بہت بڑی سعی کی ہے اور اس نظریہ کے تحت اس فرد کا کسی نسل، کسی خطے یا کسی مذہب سے وابسط ہو نے میں  کوئی افتراق نہیں  ۔ فلسفہ خودی کا نظریہ دراصل انسان اور اس میں  مضمر توانائیاں  کے موضوع کے تحت جلوہ گر ہوتا ہے اور اقبال ہر فرد کی توجہ ان توانائیوں  کے لامحدود امکانات کی طرف متوجہ کراتے ہیں  تا کہ انسان صحیح معنوں  میں  نیابت الٰہیہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کراپنے وظائف ِ حیات سرانجام دے سکے اور اپنے اپ کو مستقبل کے لیے تیار کرے ، جہاں  حیاتِ جاوداں  اس کی منتظر ہے ۔ علامہ اس راز کا انکشاف کرتے ہیں  کہ نظام عالم کا انحصار خودی پر ہے ،وہ بنی نوع انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :

 پیکرِ ہستی زآثارِ خودی است

  ہر چہ می بینی زاسرارِ خودی است

             (کلیات(فارسی)اسرارخودی، ص۔١٢)

علامہ کے فکروفلسفہ میں  آفاقیت کے حوالے سے انسان دوستی اور احترام آدمیت بدرجہ اتم موجود ہیں  ۔ علامہ کے فکروفلسفہ میں  صرف ایک ”انسان ”ہی موضوعِ بحث رہا ہے ۔ ان کے ابتدائی متروک کلام ”باقیات اقبال” سے یہ شعرتفہم کیجئے:

  بیابانوں  میں  اے دل اہل دل کی جستجو کیسی

  کریں  جو پیار انسان سے وہی اللہ والے ہیں

(بحوالہ :ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ،عروج اقبال،ص۔١٤٣)

رابندرناتھ ٹیگورنے عباس علی خاں  کے نام لکھے گئے خط میں  کچھ یوں  انکشاف کیا تھا:

”…مجھے یقین ہے کہ سرمحمد اقبال اور میں  ادب میں  صداقت اور حسن کی خاطر کام کرنے والے دودوست ہیں  اور اس جگہ یکجاہو جاتے ہیں  جہاں  انسانی دماغ اپنا بہترین ھدیہ”جاودانی انسان” کے حضور پیش کرتا ہے”

(بحوالہ: رحیم شاہین۔ایم اے،اوراق گُم گشتہ، ص۔٤٤١۔٤٤٠)

علامہ نے دراصل انسان کی عظمت کو اپنے فکری نظام میں  ایک نظر یہ کے تحت پیش کیا ، کائنات میں  انسان کے بلند مقام ومنصب اور اس کی لامحدود تخلیقی صلاحیتوں  کا اپنے منظوم ومنشور کلام میں  جابجا ذکر کیا ہے ۔ اس ضمن میں  نظم ”انسان اور بزم قدرت” میں  ”انسان ” اور ”بزم قدرت” سے پیش کی گئی مکالمہ بازی قابل توجہ ہے ، اسی سلسلے میں  نظم ”انسان” سے انسان کی صلاحیتوں  کے راز سے یوں  پردہ فاش کرتے ہیں :

   رفتار کی لذت کا احساس نہیں  اس کو

فطرت ہی صنوبر کی محرِوم تمنا ہے!

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں

انسان کی ہر قوت،سرگرم تقاضاہے!

              (بحوالہ: بانگ درا،نظم (انسان)ص۔١٧٩)

اس سلسلے میں  ”جاوید نامہ” کے منظوم کلام”خلافت آدم” کے عنوان سے کائنات میں  انسان کی رفعت وعظمت اور اس کے بلند مقام کا ذکر یوں  کرتے ہیں  :

  برتر از گردوں  مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

                   (جاوید نامہ، نظم (خلافت آدم) ص۔٦٩

اردو منظوم کلام میں  اس فکر کا انکشاف علامہ یوں  کرتے ہیں :

 آہ ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

 راہ تو، رہروبھی تو، رہبربھی تو، منزل بھی تو

(بانگ درا،نظم (شمع وشاعر)ص۔١٩٢۔١٩١)

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہِ کامل نہ بن جائے!

    (بال جبریل ،نظم (لالہ صحرا)ص۔١٢٢،١٠)

اگر چہ نطشے نے بھی انسان کی عظمت نظریہ فوق البشریعنی (Super man)کے حوالے سے پیش کیا ،لیکن ان کے ہاں  مادیت کا غلبہ ظاہر تھا اور جوڈارون (Darwin)کے تصورات سے ہم آہنگ ایک نظر یہ تھا جس کا رُخ انسانیت کی تخریب کی طرف تھا۔لیکن اقبال نے اس کے برعکس جہاں  مادی تصورات کی بات کی وہی پر اخلاقی یاروحانی اقدار کو بھی زائل نہ ہونے دیا اور تبھی علامہ کے تصور کا نتیجہ یہ پاتے ہیں :

  ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفرین، کارکشا کارساز

                (بال جبریل،نظم (مسجدقرطبہ)ص۔٩٧)

علامہ نے انگریزی خطبات کی تصنیف The Reconstructionکے پیش لفظ میں  قرآنی آیت”ماخلقکم ولا بعثکم الا لنفس واحدۂ”کا حوالہ دیکر یہ صاف واضح کیا کہ انسان کی وحدت کا یہ نظریہ اگر قبول کیا جائے تو پوری دنیا میں  وحدت کا منظر عام ہو گا، کیونکہ اس نظریہ کے تحت تمام ترنسلی تفاخر کا خاتمہ ہو سکتا ہے جو کہ آفاقی پیغام نظر آتا ہے ۔ اسی طرح جب علامہ کے ہاں  تصورِ وطنیت کی فکر کی کا تجزیہ کرتے ہیں  ط،تو یہ عیاں  ہوتا ہے کہ اس ضمن میں  ان کے ہاں  وحدت انسانی کا تصور اور انسانیت کی خدمت کا نصب العین ابتدا ہی سے ایک بنیادی جزنظر آتا ہے ۔اس حقیقت سے انکار کرنا مُحال ہے کہ ان کے فکری ارتقاء کے حوالے سے زندگی کے مختلف ادوار میں  یہی جذبہ اور نصب العین اپنے اظہار وتکمیل کے لیے مختلف صورتیں  اختیارکرتا گیا ۔ اقبال کے فکری ارتقاء کے نتیجے میں  ان کے نظریات میں  تغیر وتبدل رونما ہوتا رہا ۔ اس سلسلے میں  ان کے ابتدائی دورِ شاعری میں  حب الوطنی کے جذبے نے ماحول اور عصری حالات کے زیر اثر ہندوستانی قومیت اور وطنیت کا روپ دھارلیا، بعد میں  جب انہیں  یہ علم ہوا کہ وطنیت کے اس محدود اور مہلک تصور نے تضادات پیدا کئیں  تو انہوں  نے اس نظریہ کی تکمیل کے لئے اسلام کی آفاقیت کا سہارا لیا واضح رہے کہ فکرونظر کا مرکز وہی رہا لیکن اس نظریہ کے دائرے وسیع تر ہوتے گئے ۔ اقبال نے سرزمین ہندوستان سے فطرت کے نظاروں  سے پردہ اُٹھاکر یہ منکشف کیا کہ انہیں  ہندوستان سے کس قدر محبت ہے ۔ اس سلسلے میں منظوم کلام ہمالہ،ابرکہسار، ایک آرزو، رخصت اے بزمِ جہاں  وغیرہ قابل تو جہ ہیں  ، اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ”ترانہ ہندی” اور”ہندوستانی بچوں  کاقومی گیت” وطن کی محبت کے لئے وہ جلوہ پیش کرتا ہے جس کی مثال برصغیر کے کسی دوسرے شاعر سے لینا محال ہے ۔ چند اشعار تفہیم کیجئے:

  سارے جہاں  سے اچھا ہندوستان  ہمارا

 ہم بلبلیں  ہیں  اس کی یہ گلستان ہمارا

        (بانگ درا، ترانہ ہندی ،ص۔٨٣)

  رفعت ہے جس زمین کی بام فلک کا  زینا

  جنت کی زندگی ہے جس کی  فضا  میں  جینا

  میرا وطن وہی ہے،  میرا  وطن  وہی  ہے

(بانگ درا، ہندوستانی بچوں  کا قومی گیت ،ص۔٨٧)

یایہ شعر توجہ فرمائیں :

  مذہب نہیں  سکھاتا آپس میں  بیر رکھنا

  ہندی ہیں  ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا

            (بانگ درا، ترانہ ہندی ،ص۔٨٣)

وطن کی ہمدردری کے حوالے سے ”جاوید نامہ” کے ان اشعار کے متن کو قابل تو جہ ٹھہرا یا جاسکتا ہے ،جن میں  علامہ نے ہندوستان کے غدار بنگال کے جعفر اور دکن کے صادقکے متعلق یہ انکشاف کیا:

اندرونِ او دوطاغوتِ کہن

روحِ قومے کشتہ از بہر دوتن!

جعفر از بنگال وصادق از دکَن

ننگِ آدم ،ننگِ دیں !ننگِ وطن!

                (جاویدنامہ، ص۔١٤٢۔١٤١)

اس فکری ہم آہنگی کے حوالے سے ”پس چہ باید کرداے اقوام شرق” میں  فرماتے ہیں :

   اے ہمالہ ! اے اطک ! اے رودِ گنگ

 زیستن تا کے چناں  بے آب و رنگ؟

   (پس چہ باید…(اشکے چند برافتراقِ ہندیاں )ص۔٣٣)

ابتدائی دور کے کلام میں ”ترانہ ہندی” اگر چہ نیشنلزم Nationalismکا مظہر ہے ، آخری دور میں  جب علامہ نے”قوم وملت” کا مفہوم پیش کیا تو اس وقت بھی وطن کے متعلق ان کے وہی تاثرات تھے ، حالانکہ انہوں  نے یہ واضح کیا کہ ملت کا لفظ قوم کے معنی میں  استعمال کر کے ا نہوں  نے اپنے نظریات تبدیل نہیں  کئیں  بلکہ علامہ یقین رکھتے تھے کہ اسلام عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں  ایک تدریجی اور اساسی انقلاب چاہتا ہے ، جو بناکسی تفرق کے خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔علامہ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں  کہ امت کی اساس انسانیت پہ ہونی چاہیے نہ کہ قومیت پر۔ علامہ نے”نیا شوالہ” بھی تحریر کی اور ”صقلیہ کے ساتھ ساتھ ”بلادِ اسلامیہ ”بھی ۔ ان تین منظوم کلام میں  مشترک جذبات ابھرتے ہیں ، اگر چہ پس منظر مختلف ہی ہے ۔اب جب ١٩٠٨ء کے بعد”ترانہ ملی” تحریر ہوئی تو اس کے فوراً بعد نظم ”وطنیت ” تخلیق ہوتی ہے ، جس میں  وطن کو بحیثیت ایک سیاسی تصور کے طور پر پیش کیا گیاہے ۔ علامہ اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں  کہ وطنیت کا نظریہ علیحدگی پسند اور یہ زمانہ حاضرہ کی اختراع ہے ، یہاں  تک کہ یہ تصور کرتے ہیں  کہ عسکری قومیت کا وجود میں  آنا ہی جنگ وجدل کا سبب ہے کیونکہ دونوں  عالمگیر جنگیں  اسی کی مرہون منت ہے۔ اقبال اس تناظر میں  مغرب سے بیزار ہوکر نالاں  ہوتے ہیں :

 آں  چناں  قطع اخوت کردہ اند

 بروطن تعمیرِ ملت کردہ اند

 تاوطن راشمعِ محفل ساختند

 نوعِ انسان راقبائل ساختند

               (رموزِ بے خودی،ص۔١١٥)

اقبال خود اس فکرونظر کے حوالے سے اسلامی فکریات کا تقاضا کرکے فرماتے ہیں :

 یہی مقصود فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی

 اخوت کی جہانگیری ،محبت کی فراوانی!

   بتانِ رنگ وخوں  کو توڑ کر ملت میں  گم ہوجا

   نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی ،نہ افغانی

                     (بانگ درا،طلوع اسلام،ص۔٢٧٠)

اسلامی منظر نامے پر جب نگاہ کرتے ہیں  تو نبی پاک ۖ کا یہ فرمانِ مبارک واضح دلیل پیش کرتا ہے کہ:

”میں  کالے اور گورے اور سرخ وسفید کی طرف بنی بنا بھیجا گیا ہوں ”

         (بحوالہ: ایس ایم عمرفاروق، طواسین اقبال(جلداول)

یا اس طرح کی ایک اور زندہ مثال نبی پاکۖ کا خطبہ حجُتہ اوداع ہے ۔ یہاں  تک کہ Stray Reflectionsمیں  علامہ مزید فرماتے ہیں :

”قومیت کا تصور یقینا قوموں  کی نشوونما میں  ایک صحت مند عامل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ لیکن جذبۂ قومیت مائل بہ افراط ہوتا ہے اور جب یہ حد سے متجاوز ہوجاتا تو اس میں  فن اور ادب کا وسیع ترانسانی مقاصد کو ختم کردینے کا رجحان پیدا     ہو جاتا ہے ”

   (مرتبہ: ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، شذراتِ فکر اقبال،ص۔٨٣)

علامہ کی فکر میں  چونکہ سرمایہ داری اور اشتراکی نظام کا بھی تجزیہ ملتا ہے ،اس ضمن میں  علامہ نے مارکس کے اس نظر یہ کاردکیا جس میں  انہوں  نے اس بات پرزور دیا کیا جدید سرمایہ داری کا جوعملی اور نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہیے اس کے اصول سائنٹفک رنگ کے ہونا لازم ہے۔ حالانکہ اس نظریہ کو بعد میں  باقی مفکروں  نے بھی ردکیا ۔ مارکس کے متعلق علامہ فرماتے ہیں :

 صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل

 یعنی آں  پیغمبرِبے جبرئیل

  زانکہ حق وبا طلِ اور مضمراست

  قلبِ او مومن دماغش کا فر است

    (جاوید نامہ (اشتراک وملوکیت)ص۔٦٢)

            بالا ذکر اشعار کامتن اس فکر کا احاط ضرور کرتا ہے کہ علامہ کے خیالات کس قدر اسلامی فکریات سے ہم آہنگ ہے جو کہ عالمگیر نوعیت کے حامل نظر آتے ہیں ۔

علامہ کی فکر میں  ہم جگہ جگہ بنی نوع انسان کے لئے ایک مستفیض پیغام پاتے ہیں  ، اس ضمن میں  دنیا کے نوجوانوں  کو حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں  حوصلہ دیکر زندگی کے رازسے آشناکرتا ہے،اس طرح سے وہ ان سے مخاطب ہے:

   عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں  میں

  نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں  میں

ایک اور جگہ نظم ”جاوید کے نام” میں  جوانوں  سے مخاطب ہیں :

  دیار عشق میں  اپنا مقام پیدا کر!

نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر

       (بال جبریل ،جاوید کے نام،ص۔١٤٧)

            ”عورت”کے حوالے سے بھی علامہ کی فکر میں  عالمگیر نوعیت نظر آتی ہے ، جیسے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں :

 مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن

اُسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطون

حالانکہ ”ضرب کلیم” کے مجموعہ کلام میں  عورت کے موضوع پر کئی ساری نظمیں  تحریر کی گئی ہے ،جن میں  عورت کی تعلیم، پردہ، آزادی اور اس کی بنیادی ذمہ داریوں  کے بارے میں  فکری خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ۔مزید اس کے علامہ نے انگریزی خطبات میں  عورت کے موضوع پر بحث کی ہے ، جس میں  عورت کی عظمت کی دلیل پوشیدہ ہے جوکہ آفاقی نوعیت کالبادہ اُوڑے ہوئے نظر آتا ہے۔

فن کے اعتبار سے دیکھا جائے تو علامہ ایک ممتاز فن کار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں  ، اس ضمن میں  وہ کئی ساری ادبی رجحانات اور تحریکوں  سے متاثر تھے ۔ اس حوالے سے مغربی ادبی دنیا سے وہ رومانی تحریک سے بھی متاثر تھے اور اس تحریک سے مستفیق ہونے پر انہوں  نے اپنے ابتدائی دور سے لیکر آخری دور تک کے اردو فارسی کلام میں  اس کانمونہ پیش کیا ۔اس بات میں  کوئی دورائے نہیں  کہ رومانیت پسندی میں  وہ وڑزوتھ کے گرویدہ رہے ۔ جس کا انکشاف ان کے ابتدائی مجموعہ کلام بانگ دراکے علاوہ ان کے ابتدائی دور کے متروک کلام سے بھی ہوتا ہے ۔منظوم کلام میں  ابرکہسار، آفتاب، چاند، شمع، ستارہ،صبح ،موجِ دریا، طفل شیرخوار، ایک آرزو، جگنو وغیرہ جیسی تخلیقات کو گنوایا جاسکتا ہے ، اس تفکرمیں  ”بانگ درا” سے یہ اشعار محظوظ فرمائیں :

  حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں  جھلک ہے

   انسان میں  وہ سخن ہے ، غنچے میں  وہ چٹک ہے

  یہ چاند آسمان کا شاعر کا دل ہے گویا

   واں  چاندنی ہے جو کچھ ، یاں  دردکی کسک ہے

           (بانگ درا،نظم (جگنو)ِص۔٨٥)

اٹھارویں  صدی کی نصف ثانی کی یہ رومانی تحریک جو مغربی دواذہان کا نٹ اور شیلنگ کی مرہون منت ہے کہ حوالے سے بعد میں  اس تحریک کے جوپیروکار سامنے آئے جن میں  خاص طور پر ولیم بلیک ،وڑزورتھ،کالرج، شیلیوغیرہ قابل ذکر ہیں  ۔کو ادب شناسوں  اور نقادوں  نے اقبال کے ہمہ پلہ ٹھہرایا اور یہ ثابت کیا کہ ا قبال ایک بہت بڑے رومانی شاعر ہے جو کہ اس دلیل کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ اقبال فن کے اعتبار سے بھی آفاقی شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں  ۔ اس طرح نقاد جب علامہ کا موازنہ غالب، ٹیگور، حافظ، بیدل، وڑزورتھ، ملٹن، دانتے، شیکسپیر، بائرن، کیٹس، شیلےوغیرہ ممتاز فن کاروں  کے ساتھ کرتے ہیں  تو یہ جواز خود بخود عمل پزیر ہوتا ہے کہ علامہ کی فکریات آفاقی حیثیت ضرور رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ آج کے زمانے میں  بھی ان کے خیالات وقیع اور قابل توجہ ٹھہرتے ہیں  ، جو کہ ان کے آفاقی ہونے کی ایک دلیل بھی ہے۔اب غالب ہی کو لیتے ہیں  جس کو بین الاقوامی سطح پر آفاقی حیثیت حاصل ہے ، جب اقبال اور غالبکے فکر کا تجزیہ کرتے ہیں  تو دونوں  کے فکری خیالات میں  ہم آہنگی ضرور نظر آتی ہے ،یہاں  پر راقم اس اہم نکتے پر چند مثالیں  دیکر ہی اکتفا کرنا چاہتا ہے ،اس ضمن میں  اقبال کا یہ شعر تفہیم کیجئے:

              نقش ہیں  سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر

              نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

توغالب کے اس شعر کو توجہ فرمائیں :

 حُسنِ فروغِ شمع سخن ،دور ہے اسد

 پہلے  دل گداختہ پیدا کرے کوئی!

یہاں  تک کہ علامہ کی مشہور نظم ”ایک آرزو” کو غالب  کی ایک مسلسل غزل سے موازنہ کرتے ہیں  تو یہ احساس ہوتا ہے کہ دونوں  تحریریں  ایک ہی ذہن کی تخلیق کردہ ہے ،”ایک آرزو” نظم کو ذہن میں  رکھ کر غالب کی یہ مسلسل غزل تو جہ فرمائیں :

  رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں  کوئی نہ ہو

 ہم سخن کوئی نہ ہواور ہم زبان کوئی نہ ہو

 بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں  کوئی نہ ہو

                   (بحوالہ:دیوان غالب،ص۔١٢٤)

آخر پر اقبال ہی کا یہ شعر تحریر کرنا ناگزیر بنتا ہے:

    دلوں  میں  ولولے آفاق گیری کے نہیں  اُٹھتے

  نگاہوں  میں  اگر پیدانہ ہو اندازِ آفاقی!

٭٭٭٭

محمدحسین بٹ

  اسکالر اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یو نیورسٹی سرینگر

            Qazimhussaniur@gmail.com

      Cell.9419772266

Leave a Reply

1 Comment on "اقبال کاآفاقی فکروفلسفہ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 133.     اقبال کاآفاقی فکروفلسفہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.