ڈاکٹر تنویر احمد علوی بہ حیثیت محقق ٭ ڈاکٹر محمد اکمل٭
ڈاکٹر محمد اکمل
ڈاکٹر تنویر احمد علوی کا تعلق کیرانہ، ضلع مظفر نگر، مغربی یوپی سے تھا۔ کیرانہ ایک معروف اور مردم خیز خطہ رہا ہے۔ انہوں نے عربی و فارسی کی تعلیم دیوبند کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد پٹیالہ طبیہ کالج سے فن طب میں گولڈمیڈل حاصل کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں علم و ادب کا شوق پیدا ہوا۔ اسی علمی و ادبی ذوق و شوق نے انہیں ہندی، انگریزی اور دوسرے مضامین کے مطالعے کی طرف متوجہ کیا۔ زمانہ طالب علمی میں الجمعیہ دہلی کے کالموں میں کئی اہم مضامین لکھے۔تنویر احمد علوی اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے اور دو سال کی مدت گزر نے سے قبل ہی ذوق پر اپنا تحقیقی مقالہ پیٍ ایچ۔ ڈی کے لئے مکمل کر لیا۔ اس کے بعد اسی یونیورسٹی سے ڈی۔ لٹ کی سند حاصل کی۔ تنویر احمد علوی بنیادی طور پر محقق تھے۔ ان کی بیشتر تصانیف تحقیق و تراجم سے متعلق ہیں۔ انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت تصوف، تاریخ اور مشرقی شعر و ادب کے مطالعے میں صرف کیا۔ کثرت مطالعے کی وجہ سے ان موضوعات پر انہیں اچھی دسترس حاصل ہو گئی۔ ان کی زبان پر عام طور پر تاریخ کے حوالے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحقیق و تنقید اور تخلیقی حسیات کی تصویر کشی اور پیکر تراشی میں زیادہ اثر تاریخ سے قبول کیا ہے۔
ڈاکٹر علوی محقق و ناقد کے ساتھ شاعر بھی تھے۔ اوائل عمری ہی سے شعر گوئی کی طرف ان کی طبیعت کا میلان تھا، شعر و شاعری ان کی زندگی اور ادبی سفر میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔ ان کی باتیں شاعرانہ ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنی تقریر و تحریر میں شاعرانہ تراکیب اور تخلیقی نوعیت کے جملوں کا بکثرت استعمال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحقیق و تدوین کے اکثر موضوعات شعرو سخن سے متعلق تھے۔ ان کی مطبوعہ کتابیں،مقالات و مضامین کی فہرست طویل ہے۔ جن میں سے چند اہم کتابوں کے نام’’ ـــــــآزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق، اصول تحقیق و ترتیب متن، کلیات ذوق، انتخاب دواوین، رسالہ تذکرات کی ترتیب اور اردو میں بارہ ماسہ کی روایت مطالعہ و متن‘‘ ہے۔’ ’آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق‘‘ تنویر احمد علوی کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس میں مختلف اہل علم کے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب میں اصولِ تحقیق اور تحقیقی تنقید پرمشتمل مضامین ہیں۔ حرف آغاز کے بعد تنویر احمد علوی کا ’دہلی میں اردو تحقیق ایک منظر نامہ‘ کے نام سے ایک جامع اور تحقیقی مضمون شامل کتاب ہے۔ انہوں نے اس مقالے میں دہلی کالج، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے علاوہ شعبہ فارسی و عربی سے وابستہ اہل قلم کی خدمات پر گفتگو کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’دہلی میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کے ساتھ فارسی اور عربی شعبوں سے وابستہ اہل علم نے بھی اردو زبان کے تموّل میں اپنی تحقیقی نگارشات سے گراں قدر اضافے کئے ہیں۔ــ‘‘ ۱
دہلی میں اردو تحقیق کے سلسلے میں سرسید احمد خاں کی آثار الصنادید کی ترتیب اور آئین اکبری و تزک جہانگیری کی ترتیب و تدوین کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے ایسے اداروں کا بھی ذکر کیا ہے جہاں سے علمی و تحقیقی کارنامے شائع ہوکر منظر عام پر آئے۔ان میں انجمن ترقی اردو (ہند)، ترقی اردو بورڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اکیڈمی، اردو اکادمی دہلی اور مکتبہ جامعہ اہم ہیں۔ صرف ان اداروں سے منسلک حضرات نے ہی تحقیقی کام نہیں کیے بلکہ ان یونیورسٹیوں اور اکیڈمیوں سے باہر رہنے والوں نے بھی ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے ہیں۔ تنویراحمد علوی رقم طراز ہیں:
ــ’’یونیورسٹیوں سے باہر جن لوگوں نے دہلی میں رہتے ہوئے تحقیق اور علمی کاموں سے اپنے گہرے شغف اور دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں مالک رام صاحب کے علاوہ جو اردو کے نامور محقق اور ماہر غالبیات ہیں۔ عتیق صدیقی، مولانا امداد صابری (مرحوم)، مولاناواصف (مرحوم) اور عبداللطیف اعظمی، کمال احمدصدیقی کا نام لیا جاسکتاہے۔ کئی اعتبار سے اس سلسلے میں شمس الرحمان فاروقی کے کام اور نام کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔‘‘ ۲
اس کتاب میں’متن اور روایت متن‘ کے نام سے علوی صاحب کا ایک تحقیقی مضمون ہے۔ جو اصول تحقیق سے متعلق ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے متن اور متن میں داخل ہونے والی غلطیوں کے اسباب پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔متن کی اصلی اور صحیح صورت نیز روایت متن کے سلسلے میں علوی صاحب لکھتے ہیں:
’’کسی متن کی اصل اور صحیح صورت وہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ خود صاحب متن نے اسے پیش کیا ہے۔ اپنی اصل شکل میں مصنف کا اپنا مسودہ یا مبیضہ اگر مل جائے اور باوثوق سطح پر اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ صحیح ہے تو اس روایت کو اصل متن قرار دیا جانا چاہیے ۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصنف کے قلم سے اس کی ایک سے زیادہ رواتیں موجود ہوں۔ ایسی صورت میں بالعموم آخری روایت کو مستند روایت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ لیکن تحقیقی متون میں جہاں زبان اور تلفظ کے بہت سے مسائل متن سے وابستہ ہوتے ہیں۔ وہاں اولین متن کو اساسی روایت قرار دینا اورمؤخر روایات کو اضافی حیثیت سے شامل کر نا زیادہ بہتر صورت ہو سکتی ہے۔‘‘ ۳
تنویر احمد علوی کے دو مضامین کے علاوہ اس کتاب میں مالک رام، محمد حسن، رشیدحسن خاں، خلیق انجم، خواجہ احمد فاروقی، مولوی حفیظ الرحمٰن واصف، نثار احمد فاروقی، گوپی چند نارنگ، ظہیر احمد صدیقی، قمر رئیس، کمال احمد صدیقی، فضل الحق، عنوان چشتی،مظفرحنفی اوراسلم پرویزکے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔
کلام ذوق کے انتخاب کو علوی صاحب نے ’انتخاب ذوق‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ انتخاب ذوق میں قصائدو غزلیات کا انتخاب شامل ہے۔ ذوق کے کلام کو حروف تہجی کے اعتبار سے پیش کیا گیاہے۔ سب سے پہلے قصائد ہیں، قصائد کے ساتھ جگہ جگہ قطعات بھی ہیں۔اس کے بعد غزلیات کا حصہ ہے۔ غزلوں کے بعد کچھ قطعے اور رباعیاں بھی پیش کی گئی ہیں۔ متن سے قبل تعارف میں شیخ محمد ابراہیم ذوق کے حالات زندگی، ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ، شاعری، شاہی دربار سے وابستگی اور ان کی شاعرانہ شہرت و مقبولیت پر مدلل روشنی ڈالی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس تعارف میں ان کی غزل گوئی اور قصیدہ نگاری سے متعلق سیر حاصل گفتگو بھی کی گئی ہے۔ اس انتخاب میں سب سے پہلے تعارف پھر متن ہے، فرہنگ اور ضمیمۂ فرہنگ کتاب کے آخر میں پیش کئے گئے ہیں۔
شیخ محمد ابراہیم ذوق کے اردو کلام کے مجموعہ ’کلیات ذوق‘ کو تنویر احمد علوی نے مرتب کیا۔ کلیات ذوق کی ترتیب کے ساتھ انہوں نے ایک جامع مقدمہ لکھا جو کہ بہت ہی اہم ہے۔ اس میں مرتب نے ذوق کے حالات زندگی، ابتدائی تعلیم، شعر و شاعری سے دلچسپی اور دربار سے وابستگی کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ذوق ایسے شاعر گزرے ہیں جنہوں نے اشعار خوب کہے مگر ان کی جمع و ترتیب نہ کی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر تنویر احمدعلوی لکھتے ہیں:
’’ذوق نے اپنی زندگی میں جس تواتر اور توجہ کے ساتھ شعر کہے اس کا کوئی حصہ بھی اپنے سلسلۂ اشعارکے کسی جامع انتخاب اور مجموعہ سخن کی ترتیب پر صرف نہیں کیا اور دوسروں کی طرف سے اس ضمن میں کسی فرمائش یا مخلصانہ شکوے کے جواب میں کہا تو یہ کہا۔
ذوق کیوں کر ہو اپنا دیواں جمع
9کہ نہیں خاطر پریشان جمع۔‘‘۴
± ذوق کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شیخ محمد اسماعیل فوق اور مولانا محمد حسین آزاد نے ذوق کے دیوان کی ترتیب کی طرف توجہ دی۔ مگر ۱۸۵۷ء کے غدر میں ان کی محنت ضائع ہو گئی ۔ اس ہنگامے میں ذوق کا کلام ضائع ہو گیا۔ ان کے کلام کا جو حصہ بچ گیا اسے بعد میں مرتب کیا گیا۔ محمد حسین خاں تحسین کی تحریک پر کلام ذوق کی تدوین ہوئی ۔ تنویر احمد علوی لکھتے ہیں:
’’جب غدرکا ہنگامہ ہوش ربا ختم ہوا اور دہلی والے اپنے اجڑے دیار کی طرف واپس آئے تو محمد حسین خاں تحسین مہتمم مطبع مصطفائی کی تحریک پر ذوق کے کلام کی تدوین کی ذمہ داری حافظ غلام رسول ویران نے قبول کی۔۔۔ ان کے ساتھ کلام ذوق کی جمع آوری و تدوین میں ظہیر دہلوی اور ان کے چھوٹے بھائی امراؤ مرزا انور نے بھی تعاون کیا ۔‘‘ ۵
غلام رسول ویران کے نسخے کے بعد اسی کی بنیاد پر کئی مطبعوں نے دیوان ذوق کے دوسرے ایڈیشن شائع کر دیئے۔ تنویر احمد علوی نے کلیات ذوق کے مقدمے میں ان تمام نسخوں اور ایڈیشن پر تحقیقی گفتگو کی ہے۔
جو تذکرے ذوق کی زندگی میں ترتیب دیئے گئے وہ کلام ذوق کے مآخذ میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ جن میں ذوق کا ذکر کیا گیاہے، ان میں سے بعض تذکروں کی اشاعت ان کے زمانے میں اور بعض کی بعد میں ہوئی ۔ کلام ذوق کی ترتیب تنویر احمد علوی کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ متن کی ترتیب میں انہوں نے مقدمے کے بعد حروف تہجی کے اعتبار سے ذوق کی غزلوں کو یکجا کیا ہے۔ اس کے بعد غزل کے اشعار ، ابیات، قطعات، رباعیات اور مثنوی کے اشعار پھر قصائد کو یکجا کیا ہے۔ کلیات ذوق کے دوسرے حصے میں محمد حسین آزاد کی روایت کے مطابق ابیات، غزلیات اور قصائد کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں حواشی حصہ اول، حواشی حصہ دوم اور مصادر پیش کئے گئے ہیں۔ کلیات ذوق کی ترتیب کے سلسلے میں علوی صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’ شروع میں غزلیات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قصائد کو جگہ دی گئی ہے۔ اصول ترتیب متن کے مطابق قدیم تر روایت کو مرجح قرار دیا گیا ہے۔حواشی میں مآخذ کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ ‘‘ ۶
عہد ظفر کے ایک شاعر مولانا امام بخش صہبائی فارسی کے بڑے عالم تھے۔ ان کا شمار اپنے عہد کے ممتاز علماء اور اہل ادب میں ہوتا تھا۔ انہیں زبان و بیان ، فصاحت و بلاغت اور قواعد و لغت کے علاوہ فارسی ادبیات پر دست رس حاصل تھی۔ ان کا شمار قدیم دہلی کالج کے اساتذۂ ادبیات میں ہو تا ہے۔سنہ ستاون کے ہنگامے میں انگریزی فوجوں کے ہاتھوں دہلی کے جو اکابر مقتول ہوئے، ان میں ایک نام امام بخش صہبائی کا بھی ہے۔
’انتخاب دواوین ‘ میں چند معروف شعرا کے کلام کا انتخاب شامل ہے۔ جن شعرا کے انتخابات اس کتاب میں شامل ہیں، ان کے نام شمس ولی اﷲ، خواجہ میردرد، سودا، میر، جرأت ، میرحسن، نصیر، ممنون، ناسخ، مول چند، ذوق اور مومن ہیں۔ امام بخش صہبائی نے اس کتاب کے دیباچے میں مختلف اصناف شعراور بیان وبلاغت کے بعض اہم مسائل کو بیان کیا ہے۔
’انتخاب دواوین‘ کو اردو ئے معلی سیریز کے تحت شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کی جانب سے شائع کیا گیا۔ اسے تنویر احمد علوی نے مرتب کیاہے۔ مولانا امام بخش صہبائی کایہ مرتبہ تذکرہ کمیاب تھا۔ اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ اس کمیاب نسخے کی دستیابی کے سلسلے میں علوی صاحب رقم طراز ہیں:
ـ’’اس کے نسخے بہت کم یاب ہیں۔ ۱۹۷۸ء میں اپنے سفر حیدر آباد کے دوران راقم الحروف نے عا ر یتاًاسے کچھ وقت کے لئے جامعہ عثمانیہ کی لائبریری سے حاصل کیا اور دہلی میں اس کا زیرو کس تیار کر لیا ۔ جس کے بعد اسے جامعہ عثمانیہ کی لائبریری کو واپس کر دیا ۔ اس کے حصول کے لئے میں محترمہ شاکرہ خاتون اسسٹنٹ لائبریری کا سپاس گزار ہوں جن کے خصوصی اعتماد پر یہ نسخہ دہلی لایا جا سکا اور اس کی عکسی نقل ممکن ہوئی۔‘‘ ۷
اس نسخے کے متن کی قرأت میں بڑی دیدہ ریزی اور ذہنی کا وش سے کام لیا گیا ہے۔ متن کے جو الفاظ پڑھے نہیں جاسکتے تھے انہیں شعرا کے دواوین سے درست کیا گیا ہے۔ کتاب میں تنویر احمد علوی کا ایک عالمانہ مقدمہ ہے جس میں انہوں نے انتخاب دواوین میں شامل شعرا سے متعلق چند معلومات پیش کی ہیں۔ اس کے بعد ظہیر احمد صدیقی کا ’’مولاناامام بخش صہبائی اور ان کی تالیف انتخاب دواوین‘‘ کے نام سے تفصیلی تعارف ہے۔ ’انتخاب دواوین‘ سے متعلق ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:
’’صہبائی کے اس تذکرے یا انتخاب کو اردو تذکروں کے طویل سلسلے میں ایک قابل ذکر اضافہ تو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن ان کے اپنے مذاق اور معیاروں کے مطالعے کے ضمن میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور یہ امر تو بہر حال مسلم ہے کہ انیسویں صدی کے نصف اول کی دلّی کی علمی واد بی شخصیتوں میں ان کا مقام مسلّم ہے اور یہ مجموعہ اگرچہ ان کے کمالات علمی کی پوری نمائند گی نہیں کرتا۔ لیکن اس عہد کے علمی و ادبی معیاروں کے مطالعے کے لئے ایک کار آمدد ستاویز ضرور ہے۔‘‘ ۸
’انتخاب دواوین‘ میں ہر شاعر کے کلام سے قبل اس شاعر کا تذکرہ مختصراً کیا گیا ہے۔
گارساں دتاسی کو اردو زبان سے گہر الگاؤ تھا وہ علم و ادب کا بے حد شوقین تھا۔ اسے اردو زبان و ادب کی تاریخ مرتب کرنے سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ ہندوستان اور انگلستان کی علمی و ادبی انجمنوں اور اداروں سے خط و کتابت کر تا، کتابیں منگواتا، نایاب کتابوں کی نقلیں دستیاب کرتا اور اخبارات و رسائل حاصل کرتا پھر انہیں ہر نئے عیسوی سال کے شروع میں اپنے خطبے میں پیش کرتا۔ ’رسالہ تذکرات‘انہیں چیزوں سے متعلق ہے۔ اس میں ہندی شاعروں کا تذکرہ فرانسیسی زبان میں ہے ۔ گارساں دتاسی کے اس تذکرے کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا پھر اسے اردو میں منتقل کیا گیا ۔ منشی ذکاء اﷲنے اس فرانسیسی محقق کے تذکرے کا اردو میں ترجمہ کیاہے۔ چونکہ یہ ترجمہ در ترجمہ ہے اس لئے اس میں بعض تسامحات داخل ہوگئیں ۔’رسالہ تذکرات‘ کو تنویر احمد علوی نے مرتب کرنے میں بہت محنت کی ہے۔ انہوں نے اس کتاب کی ترتیب اور حواشی سے متعلق واضح کیا ہے:
’’سب سے پہلے منشی ذکاء اﷲدہلوی کا دیباچہ دیا ہے۔ اس کے بعد مطبوعہ متن کی نقل اور اس کے ذیل میں قلمی حواشی درج کئے ہیں۔ بعض غلط اسمااور الفاظ کی قیاسی تصحیح خطوط وحدانی میں دے دی گئی ہے۔ نامعلوم حاشیہ نگار نے اپنے قلم سے متن میں جو اصلاحیں کی تھیں۔ وہ قوسین میں درج کی گئی ہیں۔ اس کے بعد حواشی الف اور ب میں دُتاسی کے متن اور قلمی حاشیوں سے متعلق بعض ضروری تو ضیحات پیش کی گئی ہیں ‘‘۔ ۹
واضح رہے کہ رسالہ تذکرات کی زبان قدیم ہے۔ اس کے املے میں بھی قدامت کا اثر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے کیٹلاگ میں اس کا نام ’رسالہ خطبہ ڈی ٹاسی ‘دیا گیا ہے۔ اس نسخے پر کسی نا معلوم حاشیہ نگار کے حاشیے ہیں جو متن کی اہمیت کو مزید بڑھاتے ہیں۔
تنویر احمد علوی ایک ایسے محقق ہیں جن کے خون میں تحقیق کا مذاق رچ بس چکا تھا۔ وہ ہر وقت حقائق کی تلاش میں لگے رہتے تھے۔ انہوں نے کئی اہم تصنیفات پیش کی ہیں ۔ ان کا ایک زندہ جاوید کارنامہ ’اصول تحقیق و ترتیب متن‘ ہے۔ کتاب کے نام ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں تحقیق کے اصول اور ترتیب و تدوین متن کے مباحث ہوں گے۔ اصول تحقیق اور ترتیب متن کے موضوع پر یہ ایک مکمل کتاب ہے۔ یہ کتاب وادی تحقیق کے ہر موڑ اور ہر منزل پر رہنمائی کرتی ہے۔ ’نوائے ادب ‘ کے مدیر عبدالرزاق قریشی نے تنویر احمد علوی سے تقاضہ کیا کہ نوا ئے ادب کے لئے تنقید اور تحقیق متن کے مسائل پر بالاقساط لکھیں۔چنانچہ انہوں نے تنقیدمتن سے متعلق کئی ابواب نوائے ادب کے لئے لکھے۔
اس کتاب میں وہی مضامین ہیں جو نوا ئے ادب میں شائع ہو چکے ہیں۔ ہاں اس کتاب کا ایک باب تالیف متن غالب نامہ میں شائع ہوا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے متن اور روایت متن ، تالیف متن ، تنقید متن، تحقیق متن ، تاریخ متن ،تاریخ کتابت متن ، تاریخ طباعت متن، تصحیح متن، ترتیب متن، تحشیہ متن اور تعلیقات متن سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ اور بہت سے الجھے ہوئے مسائل اور مباحث کو واضح کیا ہے۔ بہت سی نئی اصطلاحات وضع کیں اور پرانی اصطلاحات کے مفاہیم کا تعین بھی کیا ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم حصہ تنقید متن کے لئے خاص ہے جس میں انہوں نے تنقید متن اور ادبی تنقید کے مابین فرق کی وضاحت کرکے تنقید متن پر مفصل گفتگو کی ہے۔ علوی صاحب تنقیدمتن اور ادبی تنقید کی توضیح کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’تنقید متن (Textual Criticism)جیسا کہ اس کے اصطلاحی نام سے ظاہر ہے۔ اپنی نوعیت اور مقصد کے اعتبار سے اس تنقید سے مختلف ہے جسے ادبی تنقید (Literary Criticism)کہا جاتا ہے۔ ادبی تنقید میں ادب اور مقصد ادب سے متعلق مختلف زاویہ ہائے نگاہ کے تحت کسی شعری یا ادبی تصنیف کی فکری اور فنی قدر وقیمت کے تعین کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے خوب و ناخوب کے بارے میں فیصلہ دیا جاتا ہے لیکن تنقید متن کی صورت میں کسی غیر تحقیقی نقطہ نظر کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ذاتی یا جماعتی پسند و ناپسند سے اسے کوئی واسطہ نہیں۔ یہاں تو متن سے متعلق مختلف خارجی و داخلی حقائق سے گفتگو کی جاتی ہے اور کسی متن کی تحقیقی اہمیت اور ترتیب متن کے نقطہ نظر سے اس کی افادیت پر کوئی فیصلہ دیا جاتا ہے ۔‘‘ ۱۰
اس کتاب کے سلسلے میں پروفیسرقمر رئیس لکھتے ہیں:
’’یہ تصنیف موضوع کی تفہیم و تعبیر اور مباحث کی جامعیت کے لحاظ سے بلاشبہ ایسی ہے جس پر اردو زبان بجا طور پر فخر کر سکتی ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس موضوع پر نہ صرف فارسی میں بلکہ ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں بھی ایسی مستند اور معیاری کتاب اب تک شائع نہیں ہوئی ۔‘‘ ۱۱
علوی صاحب نے اس موضوع پر لکھنے کے لئے کسی انگریزی یا غیر ملکی کتاب کو مشعل راہ نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کی تقلید کی بلکہ یہ کتاب ان کے وسیع مطالعہ اور آزادانہ غور و فکرکا نتیجہ ہے۔ انہوں نے اس موضوع سے متعلق تمام مباحث کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس میں خلط مبحث اور انتشار کا شائبہ تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب بے حد پسندید گی کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ علمی اور تحقیقی ذوق رکھنے والے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ کتاب تحقیقی کام کرنے والے اساتذہ اور طلباکے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی اہم کتابیں، مقالات و مضامین لکھے ہیں۔ ڈاکٹر تنویر احمدعلوی اب ہمارے درمیان نہیں رہے، جب تک صحت مند اور با حیات رہے سمیناروں اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے دہلی اور بیرون دہلی کے شعبہ اردو اوردیگر جلسوں میں کئی اہم مقالے اور توسیعی خطبات بھی پیش کیے ہیں۔
حوالہ جات
۱ آزادی کے بعد دہلی میں اردو تحقیق،مرتبہ تنویر احمد علوی،اردو اکادمی،دہلی،۲۰۰۱ء، ص:۱۵
۲ ایضاً، ص:۱۶
۳ ایضاً، ص:۱۰۲
۴ کلیات ذوق،مرتبہ تنویر احمد علوی،ترقی اردو بیورو ،نئی دہلی،۱۹۸۰ء، ص:۱۱
۵ ایضاً، ص:۳۷۔۳۸
۶ ایضاً، ص:۶۷۔۶۸
۷ انتخاب دواوین،مرتبہ تنویر احمد علوی،شعبہ ٔ اردو، دہلی یونیورسٹی،دہلی ،۱۹۸۷ء، ص:۷۔۸
۸ ایضاً، ص:۴۷
۹ رسالہ تذکرات،مرتبہ تنویر احمد علوی،مجلس اشاعت کلاسکی ادب،فراش خانہ،دلی، ص:۱۵
۱۰ اصول تحقیق وترتیب متن،تنویر احمد علوی،شعبہ اردودہلی یونیورسٹی ،دہلی،۱۹۷۷ء، ص:۵۶
۱۱ ایضاً، ص:۱۰۔۱۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr. Mohd. Akmal
Asst. Profesor
K.M.C. Arabic, Urdu, Persian Univerisity
Lucknow
UP
اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Leave a Reply
2 Comments on "ڈاکٹر تنویر احمد علوی بہ حیثیت محقق ٭ ڈاکٹر محمد اکمل٭"
Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is” Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad” plez guide and send me the relavent material.I will pray that Allah Taala succeed you in this world and the world after,forgive all your mistakes.
yours sincerely,
Rafiuddin
Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
03336750546 – 03016998303 Email address drfi@ymail.com
[…] […]