”دشت سوس”  ۔۔ فکشن اور تاریخ کا انوکھا امتزاج

ڈاکٹرفردوس احمد بٹ*

            جمیلہ ہاشمی اردوادب کی ایک مایہ ناز فکشن نگار ہیں۔ افسانہ نویسی اور ناول نگاری کو انہوں نے اپنا خاص میدان بنایا او ر ان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔جہاں تک ناول نگاری کاتعلق ہے تو انہوں نے اس میں انفرادیت کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ جنہیں اردو کے ادبی حلقے کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ناول کے وسیع کینوس سے فائدہ اٹھاکر انہوں نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو خوب صورتی کے ساتھ اجاگر کیاہے جن میںعورت پرمرد کی بالادستی ایک اہم پہلو کی صورت میں سامنے آتاہے۔

            جمیلہ ہاشمی کے کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے معاشرتی ناولوں میں”تلاش بہاراں”،”جوگ کی رات”،”آتش رفتہ” اور ”روہی”شامل ہیں۔  ” تلاش بہاراں” ان کاسب سے بہترین ناول ہے۔اس پر انہیں آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا ہے ۔یہ پہلی مرتبہ جون١٩٦١ء میں اردو اکیڈیمی سندھ ‘کراچی سے شائع ہوا۔ معاشرتی ناولوں کے ساتھ ساتھ جمیلہ ہاشمی نے” چہر ہ بہ چہر ہ رو برو” اور ”دشت سوس” کے عنوان سے دوکامیاب تاریخی ناول بھی لکھے ہیں۔

            ناول” چہرہ بہ چہرہ روبرو” ١٩٧٧ء میںشائع ہوا۔یہ ایران کی تاریخی شخصیت قرة العین طاہرہ کی زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس میں ایران کے متوسط طبقے کی طرزِ زندگی کو بھی پیش کیاگیا ہے ۔ناول کامرکزی کردار ام سلمیٰ یعنی قرة العین طاہرہ ہے۔قرة العین طاہرہ کی تاریخی شخصیت کوموضوع بنا کر کئی حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں تفاوت کی خلیج وسیع المنی ہے ۔ناول میںانسانوں’مذہبوں’ جنسوں اورملکوں کی منافرت ابھر کر سامنے آتی ہے۔

            جہاں تک ”دشتِ سوس”کا تعلق ہے  یہ جمیلہ ہاشمی کاایک اہم اور معروف تاریخی ناول ہے جو ١٩٨٣ء کو رائٹر زبک کلب لاہور کی جانب سے منظر عام پرآیا۔ ناول بغداد کے درویش و صوفی حسین بن منصور حلاج کی زندگی سے متعلق ہے  اس میں ان کی  شخصیت  کے اہم گوشوں کو اجاگر کیاگیا ہے ۔ ساتھ میں حکومت وقت کی جانب سے ان پر ڈھائے گئے مظالم کے ہولناک   مناظر دکھائے گئے ہیں۔ ناول میں  دسویں صدی کے عباسی دور کوسیاسی ‘سماجی او ر مذہبی تناظرات کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔

 ڈاکٹر سید جاوید اختر ناول”دشت سوس” کے بارے میں  رقم طراز ہیں:

”  ”دشت سوس”ایک کرداری ناول ہے جس کی کہانی آتش پرست محمی کے پوتے او رنو مسلم منصو رکے بیٹے حسین کے گرد گھومتی ہے ۔”چہرہ بہ چہرہ روبرو” کی طرح یہ ناول بھی تاریخ کے پسِ منظر ہی میں لکھاگیاہے۔حسین ابن منصور کے مخصوص فکری تناظر کی روشنی میں تحریر کردہ یہ ایک خوبصورت ناول ہے جس میں مصنفہ نے ثابت کیاہے کہ اگرچہ عشق مزرع گلاب بھی ہے اور مزرع زندگی بھی__لیکن کبھی کبھی یہ اپنی جان سے گذر جانے کانام بھی بن جاتا ہے”   ١

            حسین بن منصور حلاج ٢٤٤ھ میں ایران کے شہر طوس میں پیدا ہوئے۔سولہ برس کی عمر میںانہوں نے قرآن شریف حفظ کیا او رسہیل بن عبداللہ تستری کے مرید ہوگئے ۔وہ صوم وصلواة کے پابند اور سیر وسیاحت کے دلدادہ تھے۔ بیس سال کی عمر میں حسن بصری کے مدرسہ میںپہنچے۔ بصرہ میں جب حکومت وقت نے انہیں پریشان کیاتو وہ بغداد چلے گئے جہاں وہ ایک صوفی کے طورپر ابھرے ۔یہاں انہوں نے شادی بھی کی اور ان کے چار بچے بھی ہوئے۔ بغداد میں بھی جب ان کے مریدوں کی تعداد بڑھنے لگی تو وہ حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور انہیں طرح طرح سے تنگ کیاجانے لگا۔ ان پر رعایا کوحکومت کے خلاف بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے۔ یہاں سے نکل کر وہ حج پرروانہ ہوئے اور تین سال تک وہاں رہنے کے بعد خراساں چلے گئے۔اس کے بعد مشرقی ایران میںپانچ سال گزارنے کے بعد واپس تستر لوٹ آئے۔پھر ہندوستان کادورہ کیا اوریہاں ہندو فلسفہ کامطالعہ کیا۔  ترکستان میں بدھ مذہب کامطالعہ کیا۔تیسرا حج کرنے کے بعد واپس بغداد چلے گئے جہاں انہوں نے خانۂ کعبہ کاایک ماڈل تیار کیا ۔وہ عبادت او رتبلیغ میںدن رات مشغول رہتے تھے۔

            حسین ذہنی اعتبار سے ایک نئی روایت کے علمبردار تھے ۔ان کی شاعری باغیانہ او ران کے خیالات اس عہد کی فکری رویوں کے بالکل برعکس تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے انہیں دیوانہ قرار دیا ۔وہ انسان کومرکزی حیثیت دیتے تھے۔ان کے مطابق انسان کی ذات کے اندر ہی خدا کاوجود ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ فرد میں خودی او رعزت نفس کااحساس اس قدر اجاگر ہونا چاہیے کہ و ہ اپنی انفرادیت کو منواسکے۔ اس بات پران کی مخالفت ہوئی او رانہیں طرح طرح کے مصائب کاسامنا کرنا پڑا۔اس وقت عرب میں بغاوتیں ہورہی تھیں او رلوگ عباسی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہورہے تھے۔حسین بن منصور کے کارناموں او ران کے پیرو کاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے حکومت خوفزدہ تھی۔ چنانچہ حاکم وقت     حامد بن عباس نے ٢٩٧ھ کو ابن داؤداصفہانی سے حسین بن منصور حلاج کے قتل کافتویٰ لے کر ان کو گرفتار کروایا۔ ایک سال کے بعد وہ فرار ہوگئے او رعلاقہ

٣

خوزستان (سوس) چلے گئے ۔٣٠١ھ میں انہیں پھر گرفتار کیاگیا۔ کئی سال تک جیل میں رہنے کے بعد جب رہا ہوئے تو حامد بن

عباس کے اسرار پر پھر گرفتار ہوئے۔ ایک سال تک ان پرمقدمہ چلنے کے بعد٣٠٩ھ میںانہیں بے دردی سے قتل کیاگیا او ر لاش جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیاگیا:

”حامد نے چیخ کر کہا ۔”جاؤ او راس کے جسد خاکی کو جلادو۔ خاک اڑادو ۔اس کی انا کو میں نے قتل                    کردیاہے۔اب وہ کیسے حق کو پکارے گی”وہ پھر رقص کرنے لگا۔

            عمار نے سوچا ‘ حامد بن عباس وزیر مملکت دیوانہ ہوگیا ہے۔پھر وہ بھاگا او راس نے خلقت کے ہجوم کو چیر کر راستہ بنایا۔پل کے ایک حصہ کو توڑ کر جمع کیا او راس کے کٹے ہوئے سر بریدہ لاشے کو ان مثلہ کیے ہوئے بازوؤں او رپاؤں کو اس ڈھیر پر رکھ کر آگ لگادی۔ ہجوم برابر نعرے لگارہا تھا او رواویلا کررہا تھا او رہوامیں شعلے او رچنگاریاں او ر ذرے” اناالحق” پکار رہے تھے۔ اتنی بہت سی آنکھیں اس پر نگراں تھیں او رمحمی کاپوتا حسین خود آتش کدہ بن گیا تھا تاکہ اس آگ کو فروزاں رکھ سکے جو اسے خون کی امانتوں کے طور پر ملی تھی۔وہ ایک شعلے میں تبدیل ہورہا تھا کہ خود شعلہ تھا۔انا الحق کہہ رہا تھا کہ وہ حق تھا۔ انا الحق۔اناالحق۔اناا لحق”   ٢

            اسلامی تاریخ میں حسین بن منصور حلاج کی شخصیت متنازعہ فیہ رہی ہے ۔  لیکن جمیلہ ہاشمی نے انہیں ایک نئے تناظر میں موضوع بنا کر ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے ناول میں کچھ خامیاں ہیں جن کی طرف ڈاکٹر حسن اختر اور اسلم سراج الدین نے بھی اپنے مضامین میںتوجہ دلائی ہے۔مثال کے طور پر ناول میں دکھایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب اللہ سے ہم کلام ہوئے او ران سے دیدار کی خواہش ظاہر کی تو رب نے منع کیا۔لیکن جب موسیٰ بضد رہے تو آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھو او ردرخت طور میں سے آواز آئی کہ میں خدا ہوں:

”حضرت موسیٰ نے جب خدا سے مکالمہ بہت کیا تو انہیں دوست کو دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ انہوں نے کہا”رب ارنی” اے میرے رب میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں او رخدا نے کہا تم میرا جلوہ نہیں دیکھ سکو گے ۔ موسیٰ پھر بھی بضد رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھ سکوگے۔ موسیٰ پھر بھی بضد رہے ۔آخر اللہ تعالیٰ نے کہا پھر اس درخت کی طرف دیکھو اور درخت طور میں سے آواز آئی ‘میں خدا ہوں”  ٣

لیکن قرآن شریف کے ”سورة الاعراف”آیت نمبر١٤٣ میں یہ واقعہ اس کے برعکس بیان ہوا ہے۔اصل واقعہ یہ ہے کہ جب موسیٰ نے خدا سے دیدا ر کی خواہش ظاہر کی تو رب نے کہا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ پھر موسیٰ کو پہاڑ کی طرف دیکھنے کو کہا او

٤

رجب اللہ تعالیٰ نمودار ہوئے تو موسیٰ بے ہوش گر پڑا۔درخت والا واقعہ بھی قرآن شریف کے ” سورة القصص” آیت نمبر٢٩۔٣٠ میں بیان ہوا ہے لیکن وہ واقعہ حضرت موسیٰ کو پیغمبری عطا کرنے سے متعلق ہے ۔اس حوالے سے ڈاکٹر حسن اختر

لکھتے ہیں:

 ”مصنفہ نے قرآن کے ان دو حصوں کو آپس میں ملا کر ایک عجیب صورت حال پیدا کردی ہے او راتنی زحمت بھی نہیں کی کہ لکھنے سے پہلے متعلقہ حصوں کو ایک بار دیکھ لیتیں۔ اس سے معلوم ہوجاتاہے کہ ا نہوں نے واقعات کی چھان پھٹک کی کوشش نہیں کی ”   ٤

            جمیلہ ہاشمی پر یہ اعتراض بھی کیاگیا ہے کہ انہوں نے حسین بن منصور کے دعویٰ انا الحق کاغلط مفہوم لیا ہے۔ ڈاکٹر حسن اختر کے

مطابق حسین کے دعویٰ’ انا الحق’ سے مراد یہ نہیں تھا کہ وہ خدا ہیں جب کہ مصنفہ نے ناول میں ‘اناالحق ‘سے مراد بندے اور خدا کا اتصال لیا ہے ۔ اس کے علاوہ جمیلہ ہاشمی نے حامد بن عباس اور ابنِ منصور کے درمیان تضاد کی وجہ انمول کو بتا یا ہے ۔کیوں کہ انمول حامد بن عباس کی بیوی تھی او ر حسین اسے محبت کرتا تھا۔ ناول میں دکھایا گیاہے کہ حامد جب اپنی بیوی انمول کے دل میں اپنی مضبوط جگہ بنانے میں ناکام ہوتاہے تو وہ اپنی شکست کو چھپانے کے لیے حسین کا قتل کرواتا ہے۔لیکن تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ تاریخ کے مطابق حسین بن منصور او رحامد بن عباس کی دشمنی سیاسی او رمذہبی بنیادوں پر تھی۔

            ناول میں حسین بن منصور کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کیاگیا ہے ۔ عشق کاعنصر تخلیق کرکے حسین کے سادہ او رسپاٹ کردار میںدلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حسین بن منصور سیاسی دشمنی کی بھینٹ چڑھا لیکن جمیلہ ہاشمی نے ان کے قتل کے دیگر محرکات کو تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔انہوں نے انمول کو حسین او رحامد کے درمیان رقابت کی وجہ قرار دیا ہے او ریہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک حاکم کس طرح شخصی دشمنی کو سیاسی دشمنی کارنگ دے کر ایک بے گناہ کو قتل کرواتاہے۔ لیکن اس عشقیہ داستان سے ناول پر افسانویت غالب آگئی ہے ۔

            اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ”دشت سوس” تاریخ کے پسِ منظر میںلکھاگیا ہے لیکن اس میں کہیں کہیں تاریخ مجروح ہوگئی ہے ۔کامیاب تاریخی ناول نگار تاریخ اور فکشن کے لوازمات میں توازن برقرار رکھتاہے۔وہ حتی الامکان یہ کوشش کرتاہے کہ کہیں تاریخ مسخ نہ ہونے پائے ۔لیکن جہاں تک اس ناول کاتعلق ہے اس میں مصنفہ نے ایک ایسی عشقیہ داستان پیش کی ہے جو حقیقت سے بعید نظر آتی ہے۔ حالاں کہ تاریخی ناول میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ کردار اورواقعات تخلیق کیے جاسکتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھنا لازمی ہے کہ ان کااستعمال تاریخی صداقتوں پر اثر انداز نہ ہونے پائے۔ناول کی اس خامی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے ڈاکٹرحسن اختر ملک لکھتے ہیں:

٥

”افسوس کہ یہ تاریخی ناول لکھتے ہوئے جمیلہ ہاشمی’ شرر سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں او ریہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ جب تک ناول میںعشق و محبت کاتذکرہ نہ ہو وہ ناول نہیں بن پاتا۔چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے انمول کاکردارو ضع کیاہے جو ابن منصور کی زندگی پر چھایا رہتا ہے ۔انمول کے کردار پرتو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا او ریہ بھی ممکن ہے کہ ابن منصور نے کسی سے ٹوٹ

کر محبت کی ہو۔ مگر جب انمول کاکردار ابن منصور کی شہادت کاسبب بن جاتاہے تو ایک تاریخی حقیقت مجروح ہوتی ہوئی نظر آتی ہے……پلاٹ کو یہ رخ دینے سے ناول حسن و عشق کاایک سرسری قصہ بن کر رہ جاتاہے او ر اس کے کردار تاریخی حقیقتوں سے منہ موڑتے نظر آتے ہیں۔حامد بن عباس کی ابن منصور سے دشمنی سیاسی او رمذہبی بنیادوں پر تھی مگر اس کو مصنفہ نے جذبۂ رقابت کانتیجہ قرار دے دیا ہے”   ٥

تاریخ میں اگر چہ انمول نام کی کسی عورت کاذکر نہیں ملتا ہے تاہم جمیلہ ہاشمی نے اس کردار کو تخلیق کرکے ان محرکات تک پہنچنے کی سعی کی ہے جو حسین ابن منصور کے قتل کا سبب بنیں۔یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی ناول خالص تاریخ نہیں ہوتا بلکہ اس میں قدم قدم پر ناول کے تقاضوں کا بھی خیال رکھنا پڑتاہے۔ مصنفہ نے بھی انہی لوازمات کو مدنظر رکھ کر تاریخ کو ناول کے پیرائے میں اس انداز سے برتنے کی کوشش کی ہے کہ ایک تو قارئین اس میں دلچسپی لیں او ردوسرا تاریخ کے اس اہم کردار کے تئیں ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہو۔جمیلہ ہاشمی ناول پر اپنے خیالات کااظہار یوں کرتی ہیں:

” حسین بن منصور حلاج کے متعلق میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرے۔ مثلاً وہ کون سے عوامل تھے جس نے اسے دار تک پہنچایا او روہ کیا چیز تھی جس کے پیش نظر وہ ہنستا کھیلتا اس منزل تک پہنچ گیا۔ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے مجھے اس دور تک کاسفر کرنا پڑا۔میں نے حسین بن منصور حلاج کے فلسفے کامطالعہ کیا او رپھر اس تصادم او رٹکراؤ پر غور کیا جس کے نتیجے میں

منصور کی موت واقع ہوئی او ریوں میرے ناول کاخاکہ تیار ہوا”   ٦

            ناول میں دسویں صدی کے عباسی خلافت کے دور کو خوب صورت زبان وبیان کے ساتھ پیش کیاگیاہے ۔اس میں اس عہد کی نمایاں شخصیتیں آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔اس کے علاوہ جگہ جگہ پر قدرتی او رثقافتی مناظر کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر خالد اشرف ناول”دشت سوس” پر اپنے خیالات کااظہار یوں کرتے ہیں:

”یہ اس شخص کاانجام ہے جس کی ”کتاب الطواسین” کے لفظ لفظ سے رسولِ خداۖ سے والہانہ محبت او رعشقِ خداوندی جھلکتا نظر آتاہے۔موت کے بعدبھی منصور حلاج او راس کی تعلیمات کی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ شاعر معریٰ کے مطابق لوگ دجلہ کے کنارے اس انتظار میںکھڑے رہتے تھے کہ ابھی دجلہ کی لہریں منصور کے جسم کی راکھ کو واپس ان کے سپرد کردیں گی۔جمیلہ ہاشمی نے اس ناول

٦

میں کہیں کہیں تاریخی حقائق سے چشم پوشی کی ہے تا ہم ان کا یہ آخری ناول اردو کے اہم تاریخی ناولوں میں شمار کیے جانے کے لائق ہے ۔دسویں صدی کے عباسی خلافت کے دور کو انہوں نے خوبصورت زبان و بیان کے سہارے دو بارہ زندہ کردکھایاہے”   ٧

”دشت سوس”جمیلہ ہاشمی کاایک حزینہ ناول ہے جس میں تاریخی شخصیت حسین بن منصور حلاج پر ہوئے مظالم کی دل سوز تصویریں دکھائی گئی ہیں۔ اس میں جہاں زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے وہیں مصنفہ کا مظلوم کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ بھی نمایاں ہوا ہے۔ناول میں مظلوم کی لاچاریوں ‘ سیاست میں  عوام الناس کی کسمپرسیوں او ر میدان عشق میں جذبۂ رقابت کی نذر ہونے والوں کی بے بسیوں پر ہمدردانہ نگاہ ڈالی گئی ہے ۔اس میں حالات گو اصل حقائق سے بڑی حد تک مطابقت رکھتے ہیں تاہم جمیلہ ہاشمی کااساسی نظریہ ہر جگہ غالب ہے۔

            حواشی

            ١۔         ڈاکٹرسید جاوید اختر’   اردو کی ناول نگار خواتین    (بسمہ کتاب گھر ‘دہلی’٢٠٠٢ء )   ص  ١٥٣

            ٢۔           جمیلہ ہاشمی’   دشت سوس    (رائٹرز بک کلب’ لاہور’١٩٨٣ئ)    ص  ٤٩٢

            ٣۔           بحوالہ ڈاکٹر حسن اختر   ”دشت سوس”   روزنامہ امروز’  ٢٧ دسمبر١٩٨٤ئ’ لاہور

            ٤۔         بحوالہ ڈاکٹر حسن اختر   ”دشت سوس”   روزنامہ امروز’  ٢٧ دسمبر١٩٨٤ئ’ لاہور

            ٥۔           بحوالہ ڈاکٹرسید جاوید اختر’   اردو کی ناول نگار خواتین  ( بسمہ کتاب گھر ‘دہلی’٢٠٠٢ئ)    ص  ١٥٤

            ٦۔            بحوالہ طاہر مسعود’    یہ صورت گر کچھ خوابوں کے     ص  ٢٩٩

            ٧۔   ڈاکٹر خالد اشرف’   برصغیر میں اردو ناول   (کتابی دنیا’ دہلی’٢٠٠٣ئ)     ص  ٣٣٩

٭٭٭

 شعبہ اردو کشمیر یو نیور سٹی سرینگر

فون نمبر 9797964917

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.