قمر جمالی بحیثیت ڈراما نگار:ایک جائزہ

            اردو ادب میں قمر جمالی کی پہچان ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے محتاج تعارف نہیں ہے۔ قمر جمالی کے افسانوں کے دو مجموعے ”شبیہ” ا ور ”سبوچہ” شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے طرز تحریر میں دلکشی پائی جاتی ہے۔ کہانی میں تحیر و تجسس کے عنصر کے ساتھ طریقہ کار اتنا دلکش ہوتا ہے کہ قاری کو شروع سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے قمر جمالی نے متعدد ڈرامے لکھے ہیں جو اٰل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوکر مقبول عام پاچکے ہیں۔ انھوں نے اپنے ریڈیائی ڈراموں کا انتخاب ”سنگریزے” کے نام سے شائع کراچکی ہیں۔ دیگر مصنفوں کی طرح قمر جمالی نے اپنے ریڈیائی ڈراموں کو اسٹیج ڈرامے کی تکنیک میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ڈراموں کا مجموعہ ”سنگریزے” 1993 ء میں خورشید پریس چھتہ بازار حیدرآباد سے شائع ہوئی ہے۔ اس مجموعے میں پانچ ڈرامے شامل ہیں۔ (1)ریشماں (2) پورنیما (3) تنہا تنہا (4)سنگریزے (5) اونچے لوگ۔

            پہلا ڈراما ”ریشماں ” میں سات کردارہیں۔  (1) ریشماں (2)  نجیب:ریشماں کا محبوب (3)شمشیر خاں :ریشماں کا منگیتر (4) شیر خاں: ریشماں کا چچا (5) سریر: فارسٹ آفیسر (6) عبدل: صحرادار (7) ماں : سریر کی ماں۔مرکزی کردار ریشماں کی ہے۔ یہ ڈراما ٨ اکتوبر ١٩٧٥ کو اٰل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر کیا گیا ہے۔ڈرامے کا قصہ یوں ہے۔ ریشماں ایک قبائیلی لڑکی ہے جو پہاڑیوں کے درمیان اپنے باپ شیرخاں کے ساتھ رہتی ہے۔ نجیب ایک مصور ہے ۔ تصویر کشی کی غرض سے اسی پہاڑیوں کی طرف جاتا ہے۔ وہاں نجیب اور ریشماں کی ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں میں پیار ہوجاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے عہد و پیمان باندھتے ہیں۔ کچھ دنوں کے لیے نجیب تصویر کشی کی نمائش کے سلسلے میں باہر جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مگر جب ریشماں کے منگیتر شمشیر خاں کو دونوں کے پیار کا پتا چلتا ہے تو وہ نجیب کو مارتا ہے اور اسے دھکادے دیتا ہے۔زخمی حالت میں فارسٹ آفیسر سریر کو نجیب ملتا ہے۔ سریر اسے اپنے گھر لے جاتا ہے۔ کچھ دنوں بعد سریر اسی پہاڑی علاقے کی طرف جاتا ہے جہاں ریشماں رہتی ہے ۔ سریر کی ریشماں سے ملاقات ہوتی ہے۔ ریشماں اپنی اور باپ کی ظلم کی کہانی اسے بتاتی ہے اور نجیب کو تلاش کرنے کی التجا کرتی ہے۔ سریر ریشماں کو اپنے گھر لے آتا ہے۔ اپنی ماں سے ریشماں کے ساتھ شادی کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ مگر جب وہیں ریشماں کو نجیب ،بیماری کی حالت میں ملتا ہے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتی ہے اور نجیب سے چمٹ جاتی ہے۔ تب سریر کو پتا چلتا ہے کہ نجیب یہی ہے اور وہ شادی کا ارادہ ترک کر دیتا ہے۔

            یہ ایک رومانی ڈراما ہے۔ بے لوث محبت کی کامیابی اس ڈرامے کا موضوع ہے۔ڈرامے کا پلاٹ مربوط ہے۔ گرچہ پلاٹ طویل ہے لیکن مصنفہ نے بڑی چابکدستی سے اختصار پیدا کیا ہے۔ ڈرامے میں صوتی اثرات اور موسیقی کا ذکر عمدہ ہے۔ زبان و بیان پوری طرح سے ڈرامائی ہے۔ کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور منظر نگاری کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

”ریشماں: ناجی!

نجیب: ہاں

ریشماں : یہ میری کون سی تصویر ہے۔

نجیب:  دسویں۔

ریشماں:  اتنی ساری تصویروں کا کیا کروگے؟

نجیب:  اس ایک تصویر کو چھوڑ کر باقی نو تصویروں کی قیمت میں تمہارے بابا کو دوں گا۔

ریشماں:  اور یہ تصویر۔

نجیب:  یہ تصویر میرے فن کی معراج ہوگی ۔ میرے احساس میں انگڑائیاں لیتی ، میرے آرزئوں، رنگوں اور امنگوں کی آمیزش سے میں اس تصویر کو ایک لازوال شاہکار بنائوں گا۔ تمہیں کیسی لگی یہ تصویرریشماں؟

ریشماں:  بہت اچھی لگی ۔ مگر ٹھڈی پر اس تل کو ذرا گہرا کرونا۔ نہیں تو میں خود کو کیسے پہچانوں گی۔ سچی بات تو یہ ہے ناجی یہ تصویر مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔

نجیب:  ( چہک کر ) سچ۔ تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ! ایسا ممکن نہیں ہے ریشماں۔ میں تو سوچ رہا ہوں ، اگر میرا برش بہکے بغیر تمہارے نقوش کو ابھارنے میں کامیاب ہو گیا تو سمجھو میری یہ محنت دنیائے مصوری کا ایک لافانی شاہکار ہوگی۔ مگر تم ہواس بلا کی حسین کہ برش کانپنے لگتا ہے۔

ریشماں:  ناجی یہ تصویر بابا کو دکھانے لے لیے دوگے۔

نجیب:  ابھی نہیں۔ پہلے میں اسے عالمی نمائش میں پیش کروں گا۔ یہ نمائش ہمارے ملک کے باہر ہوگی۔ میں بھی کچھ دنوں کے لیے باہر جائوں گا۔” )ص:40 )

            ”پورنیما” میں ٩ کردار ہیں۔(1) پورنیما (جو بعد میں رادھا کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔) (2) ونود (اویناش کے کردار میں بھی ونود ہی ہے۔(3) واصف (ونود کا دوست) (4) ڈاکٹر (5) چوکیدار (6) سرد ار وکاس چندر (دیناکشی قبیلے کا سردار) (7) دیوان جی (8) پاروتی (تعمیری مزدور) (9)وقار مرزا (تعمیری پروجکٹ کا سپر وائزر)۔مرکزی کردار پورنیما اور ونودکا ہے۔ یہ ڈراما ٨ اکتوبر ١٩٧٨ ء کو اٰل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کی فضا آسیبی ہے اور آخر تک تجسس باقی رہتا ہے۔ مقدمے میں رفعت سروش ڈرامے کے تعلق سے تحریر کرتے ہیں:

” میراتاثر یہ ہے کہ یہ ڈراما زندگی کی حقیقتوں سے بہت دور ہے۔اور مصنفہ کی تحریر کی چستی اور مکالمے کی برجستگی اور فضا آرائی کے باوجودایسا ہی ہے جیسے آج کل پیچ در پیچ پلاٹ لے کر فلمیں بن رہی ہیں۔ جن کو جب تک دیکھتے رہیے ذہن اس فضا میں منہمک رہتا ہے۔ اور فلم ختم ہونے کے بعد کوئی تاثر باقی نہیں رہتا۔” (ص: 13-14 )

            ڈرامے کا قصہ یوں ہے۔ونود ایک جوان آرکٹیک ہے۔ اسے ایک ہوٹل کی تعمیرکا کام سونپا گیا ہے۔ وہ اپنے دوست واصف کے ساتھ سائٹ دیکھنے جاتاہے۔ وہاں ونود کو پورنیما نام کی لڑکی ملتی ہے۔ اس کے بارے میں یہ افواہ ہے کہ وہ ایک آتما ہے جو وکاس پور کے وکاس محل میں رہتی ہے۔ پھر تحلیل نفسی کے تحت ونود کو یاد آتا ہے کہ اس نے دیناکشی قبیلے کے سردار وکاس چندر کے لیے ایک وکاس محل تیار کیا تھا اور اس کی بیٹی، مالی کی بیٹی رادھا بن کر اس سے عشق کیا تھا۔جب سردار کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی اور ونود (جس کا نام اویناش تھا۔)ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیںتو وہ اپنی بیٹی کو مار دیتا ہے اور اویناش کو بھاگ جانے کو کہتا ہے۔ ونود اپنا یہ خواب واصف کو بتاتا ہے۔دراصل ڈرامے کے آخر میں یہ پتا چلتا ہے کہ پورنیماایک انٹر پول آفیسر کی بیٹی تھی۔افیسر نے وقار مرزا بن کر ایک انٹر نیشنل مجرم پرکاش کو گرفتار کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو اس کے گروہ میں شامل کرتا ہے۔ پرکاش ونود کا استعمال کرتا ہے۔ اس کے دماغ کو معطل کرتا ہے اور اس کے مقابلے پورنیما کو لگا دیتا ہے۔ اس طرح پرکاش گرفتار کیا جاتا ہے۔ وقار مرزا اپنی بیٹی پورنیما کی شادی ونود سے کر دیتا ہے کیونکہ ونود پورنیما کے پیار میں تقریبا پاگل ہوچکا تھا۔ کردار نگاری ، مکالمہ نگاری اور منظر کشی کے اعتبار سے ڈراما جاندار ہے۔ صوتی اثرات و موسیقی کا ذکر بھی خوب ہے مگر ڈرامے کا پیچیدہ اور طویل پلاٹ ریڈیوکے لیے مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔

            ڈراما ”تنہا تنہا ”١٣ ما رچ ١٩٨٤ء کو اٰل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں آٹھ کردار ہیں۔ (1) بھوک: مجسم ہوکر بولتی ہے۔ (2)شیاملی: جوان لڑکی، بعد میں اس کا نا م رجنی ہوتا ہے۔ (3) ماں : شیاملی کی ماں(4)مانٹی : پاپ سنگر (5)اناونسر (6) بابا (7) وشال: بابا کا بیٹا (8) سنیل: ایک بدمعاش۔مرکزی کردار شیاملی کی ہے۔ ڈرامے کا قصہ یوں ہے۔ شیاملی جو اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے، ملازمت کی تلاش میں ہے ۔ کہیں نوکری نہیں مل رہی ہے۔ دونوں بھوک سے بیحال ہیں ۔ آخر کار ماں اس کو مانٹی کے ساتھ کام کرنے کو کہتی ہے۔ شیاملی مانٹی سے ملتی ہے۔ مانٹی اس کو اپنے گانے پر ناچنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ کچھ دنوں بعد شیاملی کو احساس ہوتا ہے کہ یہ بے حیائی کا کام اس سے نہیں ہوگا ۔ مانٹی اس کو سمجھاتا ہے اور اس سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کر تا ہے۔ شیاملی تیار نہیں ہوتی ہے۔ مانٹی زبردستی کرتا ہے۔ شیاملی اس کے سر پر اگلدان مار کر بھاگ جاتی ہے۔ پھر اس کی ملاقات بابا سے ہوتی ہے ۔ بابا اس کو اپنے گھر میں رکھ لیتا ہے اور اس کا نام رجنی رکھ دیتا ہے۔ شیاملی اپنا قصہ بتاتی ہے مگر اس کے باوجود بابا اپنے بیٹے وشال کی شادی اس سے کر دیتا ہے۔ سماج کے لوگ ان پر طنز کرتے ہیں۔ اسے بازارو عورت کہتے ہیں۔ وشال کا دوست سنیل اس کے گھر آتا ہے اور شیاملی سے دل بہلانا چاہتا ہے۔ وشال اس کو مار کر بھگا دیتا ہے۔ مگر وہ ذہنی الجھن کی وجہ سے بیمار پڑجا تا ہے۔ بابا بھی شیاملی سے نہیں ملتا۔ آخر کار شیاملی انھیں چھوڑ کر گھر سے نکل جاتی ہے یہ کہتے ہوئے :

”(قدموں کی آواز ) میں جارہی ہوں بابا۔ تمہارے پائوں چھو کر تمہیں گندہ نہیں کروں گی۔ تمہاری عظمت کو اس بدنصیب بیٹی کا سلام (سسکتی ہے )تم فکر نہ کرو بابا میں اکیلی نہیں ہوں ۔ میرے تنہائیاں میرے ساتھ ہیں۔ یہی میرا مقدر ہے۔ یہی میری زندگی ہے ۔ (روتے ہوئے) او ہ تنہائی تنہائی !!!” (ص: 116)

اسی پر ڈرامے کا اختتام ہوتا ہے۔ ڈرامے کا موضوع عورت کی تنہائی کا احاطہ کرتا ہے۔ ایک عورت کا کردار جو دنیا کے نشیب و فراز کا تخت مشق بنتی ہے۔ کہیں ٹھوکر کھاتی ہے۔ کہیں دھتکاری جاتی ہے۔ کہیں اپنائی جاتی ہے اور کہیں خود ٹھوکر مار کر تنہائی کو اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ڈرامے میں حقیقت نگاری سے کام لیا گیا ہے۔سماج میں عورت کی صورت حال کے ایک پہلوکو بحسن خوبی پیش کیا گیا ہے۔ فنی اعتبار سے ڈرامے کا پلاٹ مربوط ہے۔ کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے ساتھ صوتی اثرات اور موسیقی کاذکر ایک کامیاب ریڈیو ڈراما ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

            ”سنگریزے” ڈراما ٨ جنوری ١٩٨٨ ء کواٰل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں پانچ کردار ہیں (1) سیف احمد فراز : ایک نوجوان لڑکا، کرنل فیضان کا بیٹا جو اپنے والد کا ہم شکل ہے۔ (2) نبی بابا : حویلی کا نگراں (3) وحیدے: نبی بابا کی بیوی (4) شکورے: احسان کا ملازم (5) مائی : احسان کی بیٹی۔ مرکزی کردار احمد فراز اور مائی کی ہے۔ مائی کا صرف ایک مکالمہ ہے مگر پورے ڈراما میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ ایک محبت زدہ لڑکی کی کہانی ہے جو چھپ کر ایک شخص سے پیار کرتی ہے مگر کسی پر ظاہر نہیں کرتی۔ وہ پیار میں اس قدر دیوانی ہے کہ اس شخص کے ہم شکل بیٹے کواسے ہی سمجھ بیٹھتی ہے اور رات کو چھپ کر اس کا دیدار کرتی ہے۔ ڈراما رومانی ہے ۔ مگر قمر جمالی نے اس قدر ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے کہ ڈراما کے پورے ماحول میں تجسس اور آسیبی فضا چھائی ہوئی ہے۔ رفعت سروش لکھتے ہیں:

” ” سنگریزے” قمر جمالی کے مشاق قلم اور تخلیقی ذہن کا ایک اور خوبصورت نمونہ ہے۔ اس ڈرامے میں قلم کی تحیر آمیزی اور مکالموں کی چستی اور بے ساختگی شباب پر ہے۔ (suspense)پیدا کرنے کی عادت نے قمر جمالی کو یہ فن بخشا ہے کہ سامنے کی بات اس طرح گھما پھرا کر کہے کہ ہر منظر ڈرامائی انداز سے ظاہر ہو اور ڈرامائی انداز سے ہی آنکھوں سے اوجھل ہو۔ ”(ص:19)

            ڈرامے کا قصہ یوں ہے۔کرنل فیضان اپنے دوست احسان سے ملنے جاتے ہیں، جو کہ ایک پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں۔ وہاں کی جگہ کرنل فیضان کو بہت پسند آتی ہے۔ وہ وہاں اپنے رہنے کے لیے ایک کوٹھی بنواتے ہیں۔ کچھ دنوں رہنے کے بعد وہ ہندوستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ کوٹھی کا ایک ملازم نبی بابا کوٹھی کی نگرانی کے لیے وہیں رہتے ہیں۔ پندرہ سال بعد کرنل فیضان کا بیٹا سیف احمد فراز وہاں آتا ہے۔ وہ کوٹھی میں کچھ دن ٹھہرنا چاہتا ہے۔ احسان کی بیٹی جو کہ کرنل فیضان کے عشق میں مبتلا تھی وہ سیف احمد فراز کو فیضان سمجھ بیٹھتی ہے۔ وہ رات کے سناٹے میں کوٹھی کے کھڑکی سے سیف احمد فراز کا دیدار کرتی ہے۔ مگر آسیب سمجھ کر محافظ اسے گولی مار دیتا ہے۔ بیشک فنی اعتبار یہ ڈراما ایک شاہکار ہے ۔ ریڈیو کے لیے صوتی اثرات اور صوتی زبان کا استعمال بہت ہی اچھے طریقے سے کیا گیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:

”(پس منظر میں گھڑی کے دس بجنے کی آواز)

سیف:  افوہ دس بج گئے مگر نیند کا کوسوں پتا نہیں۔ نبی بابا نے تو مجھے بالکل بچہ بنا دیا ہے تمام دروازے کھڑکیاں بند کر دیے۔ کیسی ہول آرہی ہے۔ کوئی تو کھڑکی کھلی ہونی چاہیے۔

(کھڑکی کے پٹ کھولنے کی آواز)

اُف ۔ پہاڑی علاقے کی رات کس قدر سیاہ ہوتی ہے۔ (پانی انڈیل کر پینے کی آواز)

جانے کیا ہورہا ہے مجھے ……چین نہیں پڑتی ۔(پازیب کی آواز)

سرگوشانہ انداز میں ) یہ….. یہ آواز….

(دور سے پازیب کی آواز)

ُُآج پھر …..پھر…..پھر وہی آواز (پازیب کی آواز جیسے کوئی دبے پائوں چل رہا ہو، اور آہستہ آہستہ قریب آرہا ہو۔ )

(ڈر کر) کون……..کون ہے وہاں ؟

لڑکی:  (مدھم قہقہ۔اور پازیب کی آواز جیسے کوئی بھاگ گیا ہو۔)

سیف:  (خوف و دہشت سے ) کون ….کون ہے۔(دروازہ زور سے کھولنے کی آواز ) یہاں تو…….. یہاں تو کوئی نہیںہے۔ یہ…یہ میر ا وہم ہر گز نہیں ہوسکتا…. میں نے دیکھا ہے کوئی ہیولا تھا۔ کھڑکی سے اندر کی طرف جھانک رہا تھا۔ کوئی تھا۔۔(زور سے) او ……میرے خدا………..یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ” (ص: 132)

            ڈراما ”اونچے لوگ” ٥ فروری ١٩٨٩ ء کو اٰل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں سات کردار ہیں۔ (1) شیراز: فساد زدہ لڑکا (2) سارہ: نٹ کھٹ لڑکی (3) جاوید: شیراز کا دوست (4) ابّو :  سارہ کے ابّو (5) ددّو :  ابّو کی دادی (6) اکمل اور (7) اجمل (سارہ کے بھائی)۔ڈرامے کا قصہ یوں ہے۔ شیراز ایک چھوٹا بچہ ہے۔ اس کے گائوں میں فساد ہونے کی وجہ سے گھر کے ساتھ ماں باپ کو جلا دیا جاتا ہے۔ شیراز کسی طرح بچ کر بھاگ نکلتا ہے۔ ابو کے دروازے پر پہنچتا ہے تو ابو اس کو اپنے گھر میں پناہ دیتے ہیں۔ اس کو اپنے دوسرے بچوں کی طرح پالتے ہیں۔ابو کے بیٹوں اور بیٹیوں کو وہ سگے بھائی بہن کا درجہ دیتا ہے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی ابو کی بڑی لڑکی سہبا، شیراز سے پیار کرنے لگتی ہے۔ مگر شیراز کو سہبا سے نہیں چھوٹی نٹ کھٹ سارہ سے لگائو ہو جاتا ہے۔ سہبا کی شا دی کہیں اور طے ہوجاتی ہے تو وہ زہر کھاکر مرجاتی ہے۔ پھر سہبا کے منگیتر کا رشتہ سارہ کے لیے آتا ہے۔ ابو شیراز کو ذمہ داری دیتے ہیں کہ سارہ کی مرضی معلوم کرے۔ مگر شیراز فرض اور جذبات کے کشمکش میں رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگنے کا ارادہ کرتا ہے۔ سارہ کا بھی یہی ارادہ ہے۔ رات میں گھر کے باہر دونوں ٹکرا جاتے ہیں ۔ ابو کو ساری باتوں کا علم ہوجاتا ہے۔وہ دونوں کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ ڈرامے میں اخلاقی اقدار اور انسانی زندگی کی نفسیات کو اچھے طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ڈراما بھی قمر جمالی کے فن کا شاہکار ہے۔ کردار نگاری ، مکالمہ نگاری اور منظر کشی کا نمونہ دیکھیے:

” شام کا وقت۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ۔ پارک کے پس منظر میں۔)

شیراز:  (چونک کر) ارے یہ تو اپنا…

سارہ:  شش….(ہونٹ سکوڑ کر خاموش کرنے کی آواز )

شیراز:  کیا ! یہ ….یہ اپنا…

سارہ:  پلیز ڈسٹرب مت کرو۔

شیراز:  ارے۔ ! اسے ہو کیا گیا ہے۔  !

سارہ:  پلیز…پلیز انھیں خواب دیکھنے دو۔

شیراز :  (کھوکھلی ہنسی) خواب…. خواب یوں دیکھا جاتا ہے۔ اور کیا خواب دیکھنا اتنا ضروری ہے کہ انھیں اطراف کا ہوش بھی نہ رہے۔

سارہ:  ہاں۔ کبھی کبھی خواب دیکھنا صحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔

شیراز:  ارے نہیں ….یہ تو….یہ تو..

سارہ :  (بات کاٹ کر) اخلاقی گراوٹ ہے۔

شیراز :  نہیں تو اور کیا۔ انھیں آواز دینا ہوگا۔ (پکار کر) اے…

سارہ:  نہیں نہیں پلیز….کم از کم میرے سامنے تو نہیں۔ چلو یہاں سے چلتے ہیں۔ تاکہ اگر ان کی آنکھ کھل بھی جائے تو ہمیں اپنے سامنے پاکر انھیں خفت نہ ہو۔

شیراز :  ارے ….! یہ تم اتنی بڑی کب ہوگئیں۔؟

سارہ:  جیسے تم جانتے نہیں۔

شیراز :  میں سچ مچ نہیں جانتا۔

سارہ:  نہیں جانتے…؟ تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں بڑی کس کے سائے میں ہوئی ہوں۔

شیراز:  میں تو اب بھی تمہیں وہی ننھا سا بیل ڈورا سمجھتا ہوں۔

سارہ:  پھر تو تمہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بیل ڈورا جب کسی تناوردرخت سے لپٹ جاتا ہے تو اسی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ اور اگر کوئی اسے اس درخت سے جدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ ” (ص:145-146)

            اسی طرح پورے ڈرامے میں تجسس و کشمکش کا عنصر جاری و ساری ہے۔ صوتی اثرات اور موسیقی کا ذکر اسے ایک بہترین اور کامیاب ریڈیو ڈراماثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔قمر جمالی کے یہ ڈرامے ان کی تخلیقی صلاحیت کے غماز ہیں۔ وہ پلاٹ سازی کی اچھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ واقعات کے غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے، ایجاز و اختصار کے ساتھ پلاٹ کو مرتب کرتی ہیں۔ زبان و بیان میں اس قدر ڈرامائی انداز ہوتا کہ تحیر و تجسس کی فضا چھا جاتی ہے اور یہ ڈراموں کے لیے بہت ضروری ہے۔ ڈراموں کے مکالمے ریڈیو کے لیے جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قمر جمالی نے اپنے ڈراموں میں جان پیدا کرنے کے لیے مکالمے پر کافی محنت صرف کیا ہے۔ ان کے مکالمے نہ صرف عمل سے مربوط ہیں بلکہ کردار کی شخصیت اور ان کے جذبات کا اظہار بھر پور طریقے سے کرتے ہیں۔ قمر جمالی کے یہ ڈرامے ادبی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا مجموعہ ”سنگریزے” اردو کے نشریاتی ادب کا ایک سنگ میل ہے۔

محمد کامل، ریسرچ اسکالر

شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔

موبائل نمبر۔8750991664

kamil.flahi@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "قمر جمالی بحیثیت ڈراما نگار:ایک جائزہ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] قمر جمالی بحیثیت ڈراما نگار:ایک جائزہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.