رفعت نواز کی افسانہ نگاری
دکن کے علاقہ کواردو ادب میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ سارے برّصغیرمیں دکن کویہ اعزازحاصل ہے کہ اردو کاادبی سفریہیں سے شروع ہوا۔اردوکے ادبی نقوش چاہے وہ نظم ہوکہ نثراسی سرزمین میں ملتے ہیں۔یہاں ایک طرف شاعری کی مختلف اصناف جن میں قصیدہ ،مرثیہ،مثنوی اورغزل نے ترقی کی منزلیں طئے کیں تووہیں نثرکے میدان میں”معراج العاشقین ”اور”سب رس”کے زندہ ثبوت موجودہیں۔ تنقیدنگاری کے ابتدائی نقوش یعنی کہ تذکرے بھی یہاں لکھ گئے ہیں۔مولوی عبدالحق کی آمدنے تحقیق وتنقیدکے لئے نئے باب روشن کئے اوریہ علاقہ ادب کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔دکن کے علاقے میں شہر اورنگ آباد کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور کیوں نہ ہوشہر اورنگ آباد خجستہ بنیاد زمانے قدیم سے علم وادب کا گہورا رہا ہے۔اس کی مخصوص شناخت صنف شاعری سے ہوئی اسی لیے اس سرزمین کو شاعری کی سرزمین کہا جاتاہے۔ اس شہر کے شعرا کی ایک طویل فہرست ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ولی،سراج،داؤد،عاجز،صفی،وجد،حمایت علی شاعر،قاضی سلیم،اخترالزماں ناصر،وحید اختر،اوربشرنواز جیسے دُرنایاب اسی شہر میں نظرآتے ہیں۔ان ہی نے شہر اورنگ آباد کے نام کو اُردو ادب کے افق پر پُرضیا کردیا۔اور یہ فہرست حتمی نہیں۔۔۔
ان اُفق کے روشن ستاروں کے متعلق مشہور افسانہ نگار نورالحسنین رقمطراز ہیں۔
”ولی اورنگ آبادی نے اگر فارسی کے دبستانوں میں اُردو غزل کا چراغ روشن کیا تو سراج نے زبان کی تعمیر وترقی میں وہی کام انجام دیا جو لکھنو میں ناسخ سے منسوب ہے۔سکندرعلی وجد نے روائتی نظم نگاری کے نئے اُفق دریافت کئے تو حمایت علی شاعرنے مختلف شعری تجربوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک نئی صنفِ سخن”ثلاثی” کا تحفہ بھی بخشا۔قاضی سلیم اور بشرنواز نے جدیدیت کی اُنگلی تھامی اور اپنے شہر کو ادب کے بدلتے رحجانات کے ہمرکاب کردیا۔”(نیا افسانہ -نئے نام،نوالحسنین،ص:٨٣)
غرض شاعری کے اعتبار سے یہ سرزمین بڑی سرسبز وشاداب ہے ۔آج بھی کئی نامور شعرا ء اس سرزمین پر موجود ہیں۔مگرآج جب ہم ادب کے اُفق پر نظرڈالتے ہیں تو نثر نگاری میں بھی اورنگ آباد کا ستارہ ہمیں روشن نظرآتاہے۔نثرنگاری کی سب سے مقبول صنف افسانہ نگاری ہے ۔اس صنف کو ابتداء میں اپنے خون جگر سے سینچنے والوں میں عزیزاحمد،ڈاکٹررفیعہ سلطانہ،شاہین فاروقی،سمپت راؤ،لمعہ اورنگ آبادی،جیسے افسانہ نگاروںکے نام سرفہرست نظرآتے ہیںجنھوں نے نہ صرف اس صنف میں طبع آزمائی کی بلکہ اپنی ادبی نگارشات کے لئے اسی صنف کوعظمت ووقارعطاکیا۔ان افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ حمایت علی شاعر،عاقل علی خان،فرہاد زیدی ،قاضی شفیع الدین ،زہرہ رضوی ،اور وحیدہ نسیم کے نام بھی ہمیں ملتے ہیں مگر عاقل علی خان کے علاوہ سبھی حیدرآباد منتقل ہوگئے۔اس کے بعد اورنگ آباد میں افسانہ نگاری کا دوسرا دور شروع ہوا جس کا سہرا الیاس فرحت، رفعت نواز ،سریندر کمار مہرا ،اثر فاروقی ،محمود شکیل اور رشید انور کے سر جاتاہے۔اسی دوسرے دور کے ممتاز افسانہ نگار رفعت نواز کی افسانہ نگاری میراآج کا موضوع سخن ہے۔مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے اور شاید میں رفعت نواز صاحب کا حق ادانہ کرسکوں مگر کوشش کرنا میرا کام ہے ۔کیونکہ یہی تحقیق وتنقید کی ابتداء ہے اور اسی سبب سے یا پھر اسے شہر اورنگ آباد کے فن کاروں کی عاجزی کہہ لیجئے کہ اُفق ادب پر اُن کی وہ پذیرائی نہیں ہوپائی جس کے وہ مستحق تھے۔شاید یہ اجلاس اور اس طرح کے دیگر اجلاس اُن فن پاروں کا حق ادا کرسکے۔
خاندانی نام رفعت نواز خان، ادبی نام رفعت نواز۔ ٢٠ فروری ١٩٣٧ء کو اورنگ آباد کے علمی و ادبی گھرانے میںپیدا ہوئے ۔والد کا نام امیرنواز خان تھا جو کہ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔اور اورنگ آباد میں ناظرتعلیمات کے عہدے پر فائز تھے۔رفعت نواز سرکاری ملازمت سے وابستہ رہے اور حسن خدمات سے سبکدوش ہونے کے بعد اسی شہر خجستہ بنیاد میں مقیم ہیں۔
گھر کے ادبی ماحول نے بچپن ہی سے رفعت نوازمیںمطالعہ کے شوق کوجلابخشی اور رفتہ رفتہ افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور افسانے لکھنے لگے جو بر صغیر کے معیاری رسائل کی زینت بننے لگے۔ رفعت نواز کا پہلا افسانہ ”علاج کے عنوان سے شاعر میں ١٩٥٧ء کو شائع ہوا تھا۔ جس کے بعد ان کے قلم کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی۔ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ”وہ بات” ١٩٧٩ء اور دوسرا ”فسانہ کہیں جسے” ١٩٩٤ء کو منظر عام پر آیا۔ اُن کے دوسرے افسانوی مجموعے ”فسانہ کہیں جسے”کو مہاراشٹر اردو اکادمی نے پہلے انعام سے نوازا ۔ رفعت نواز کی کچھ کہانیوں کا ترجمہ ہندی اور مراٹھی زبانوں میں بھی کیا گیا۔
رفعت نواز کے افسانوں کے مطالعہ کرنے پر اُن کے افسانوں میں کہیں ہمیں مثالی میاں بیوی نظرآتے ہیں تو کہیں میاں بیوی کی نوک جھونک اور جھگڑے بھی نظرآتے ہیں ۔مشترکہ خاندان کے محبتوں کے پیکر دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب سگے سوتیلی بہن بھائیوں کے جائداد کے جھگڑے بھی ہیں۔کہیں بے لوث پڑوسی ہیں تو کہیں عدالت کی کاروائیاں بھی نظرآتی ہیں۔جنریشن گیپ اور مٹتی اقدار کا غم وافسوس نظرآتا ہے تو نئے زمانے کی روشن نوید بھی ملتی ہے۔
رفعت نواز کے کہانی کہنے کے انداز سیدھا ،سادہ اور و سچا ہے وہ مبہم انداز و پیچیدہ باتوں سے پرہیز کرتے ہیں وہ کہانی کی تلاش میں ادھر ادھر نہیں بھٹکتے بلکہ اطراف و اکناف کے حالات و واقعات قصہ کے پیرہن میں اس طرح پیوست کرتے ہیں جس سے وہ اس محرک وحیتی جاگتی زندگی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں ۔
بقول نورالحسنین۔۔۔
”رفعت نواز کے اکثر افسانے گھر کی چار دیواری میں بسنے والے عام انسانوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے موضوعات بظاہر بہت ہی معمولی ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً بے حد مشکل ہوتے ہیں۔ کیونکہ بالکل ہی قریب سے کسی موضوع کا اٹھانا اور پھر اسی کے ذریعہ بھر پور تاثیر پیدا کرنا آسان بات نہیں ۔” نورالحسنین،روزنامہ اورنگ آبادٹائمز،تاریخ:١دسمبر٢٠٠٦ئ
رفعت نواز کے کرداروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ٹوٹنے ،بکھرنے اور الجھنے کے باوجود انسانیت کے دروازے اپنے آپ پر کبھی بند نہیں ہونے دیتے ۔رفعت نواز اپنے افسانوں کی ابتداء پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے مگر اُن کی کہانیوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ وہ کلائمیکس پر خاص توجہ دیتے ہیں اور اسی سبب سے بظاہر ہلکی پھلکی نظرآنے والی کہانیاں کلائمیکس پر قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ اُن کے افسانوں میں افسانہ ”ماسٹر”اسی طرح کا ایک افسانہ ہے ۔یہ افسانہ ایک وقت کے پابند ،مخلص ،فرض شناس اور حساس معلم کی کہانی ہے جو غریبی کے باوجود اپنی عزت نفس کو نیلام نہیں کرتا۔مگر کلائمکس پر وہ جس نفسیاتی الجھن میں گرفتار ہوکر رشتوںکی پاسداری کرتے ہوئے زندگی کی بھیڑسے غائب ہوجاتاہے اور اپنے پیچھے معاشی ،سماجی ،عدم مساوات جیسے بے شمار سوالات چھوڑ جاتاہے۔مختصر یہ کہ یہ افسانہ ایک ایسے شخص کی زندگی کا درد ناک و المناک خاکہ پیش کرتا ہے جس کے بیٹے اس کے بڑھاپے میں اس کا ساتھ چھوڑ کر اپنی اپنی زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں ماسٹر جی کو نیلی کی شادی کی فکر مزید گھلاتی رہتی ہے اس کے باوجودکہ وہ پڑھی لکھی لڑکی ہے لیکن چونکہ اس کا باپ ایک غریب ماسٹر ہے اس لئے جہیز کی کثیر رقم دینے سے قاصر ہے بالآخر نیلی کنویں میں کود کر اپنی جان دے دیتی ہے یہ افسانہ ہنڈے، اور جہیز جیسی برائی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
احمد ابراہیم علوی کے الفاظ میں !
” ماسٹر جی ان بے شمار لڑکیوں کی دکھ بھری کہانی سے جو اپنے والدین کی غربت کے سبب ازدواجی زندگی کی لذتوں سے زندگی بھر محروم رہنے کا تصور کرکے کانپ اٹھتی ہیں اور پھر خود کشی کر لیتی ہیں۔(احمدابراہیم علوی، خیروجز،علی گڑھ،مارچ١٩٨٠ئ)
گھریلو زندگی، زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی تلاش، خاندانی کشاکش، دفتری معمولات خلوص و محبت سے گندھے رشتے، رفعت نوازکے افسانوں کے موضوعات ہیں۔ وہ جذبات نگاری میں خصوصی اہمیت تو رکھتے ہی ہیں ۔ کرداروں کے ساتھ بھی ایماندارانہ رویہ اپناتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنھیں عام حالات میں کوئی بھی نظر انداز کر سکتا ہے۔ رفعت نواز کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ جزئیات نگاری میں تضاد سے پرہیز کے سبب ان کے فن میں نکھار پیدا ہوگیا ہے۔ رفعت نواز نہ تو کسی تحریک کے پروردہ ہیں اور نہ ہی تجربات کے شوقین نہ تو وہ علامتی انداز اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی تجریدی رویہ اپناتے ہیں بلکہ اپنی خود کی وضع کی گئی شاہرا پر قدم بڑھانے ہی کو پسند کرتے ہیں۔
بقول نورالحسنین !
رفعت نواز ایک ایسے افسانہ نگار میں جنھوں نے ہمیشہ ہی اپنے مزاج کے افسانے لکھے وہ نہ تو جدیدیت کی لہر کے شکار ہوئے اور نا ہی انھوں نے کسی مخصوص مکتبہ فکر کی نمائندگی کی ہاں وہ وقتی موضوعات سے پر ے انسانی معاشرے کے زندہ افسانہ ضرور لکھتے رہے بظاہر ان کے فن کا یہ خاموش سفر کس طرح جوالا مکھی بن گیا وقت اندازہ بھی نہ کر سکا۔ لیکن ہند و پاک کے تقریباً مقتدر رسائل ان کے افسانوں کی روشنی میں یہ اعلان ضرور کر رہے تھے کہ جس دن بھی اردو افسانہ اس تاریکی سے نکلے گا رفعت نواز کا فن اپنا لوہا منوائے گا۔ (نورالحسنین، رفتارادب،اورنگ آبادٹاٹائمز،تاریخ:١٠دسمبر٢٠٠٦ئ)
رفعت نواز کے افسانے کہیں میاں بیوی کی محبت اجاگر کرکے ان کے ایثار کے جذبہ کو ابھارتے ہیں تو کہیں ازدواجی جھگڑوں کا دلچسپ نقشہ بھی بڑے ہی دلکش انداز میں کھینچتے ہیں ان کے افسانوی مجموعہ ”وہ بات” کا افسانہ ”وہ بات” کا یہ دلچسپ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔۔۔
”غضب ہو گیا میاں، تمہاری چچی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہائیں کب؟ کیسے؟ شام تک تو کچھ نہیں ہوا تھا پھر اچانک یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔؟
بس تمہارے جانے کے بعد یہ جھگڑا ہو گیا۔ مجھے تمہاری چچی کی کنجوسی پسند نہیں، اب یہی دیکھو نا تمہیں کھانے پر بلایا تھا تو اچھاکھلاتی، خوب سا میٹھا دیتی، مگر وہ تو مہمانوں کو بھی ناپ تول کر کھلاتی ہے تمہارے جانے کے بعد میں نے باز پرس کی تو زبان درازی کرنے لگی۔ میں نے بھی چار طمانچے لگادئیے بس ٹھہر ٹھہر رونے لگی اور مجھے کو سنے لگی پھر میری آنکھ لگ گئی اب اٹھ کر دیکھا تو بیگم غائب۔ (رفعت نواز،”وہ بات”ص:٧٦ تا ٧٧)
افسانہ ”تیرے لئے ”کی رفیعہ اپنے شوہر حفیظ کی پالی ہوئی بلی سے خوفزدہ ہے اور اس کے اصرار پر اس کا شوہر جو کہ بلی سے بے انتہا محبت کرتا ہے بیوی کی محبت پر بلی کی محبت کو قربان کر دیتا ہے اور دوبار اسے اپنے گھر سے دور کسی گڑھے میں پھینک آتا ہے الیکن بھر بھی وہ لوٹ آتی ہے۔ ایک دفتری کام کے سلسلے میں جب حفیظ کسی دور دراز علاقے میں جاتا ہے تو رفیعہ اپنے شوہر کی جدائی برداشت نہیں کرتی اور رونے لگتی ہے تب ہی بلی اس کے قریب آتی ہے تو وہ خوف و غصہ کے باعث اس کو لاٹھی سے مارنے ہی والی ہوتی ہے کہ اچانک اس بلی سے اپنے شوہر کی محبت اسے لاٹھی چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اقتباس !
”لاٹھی رفیعہ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ کرب کا بے کراں سمندر دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ جھک کر اس نے بلی کو گود میں اٹھا لیا اور اپنا رخسار بلی کے بالوں پر رگڑتے ہوئے بولی وہ تجھے بھی بہت چاہتے ہیں نا۔ (رفعت نواز،”وہ بات”ص:٤٥)
رفعت نواز کے افسانوںمیں کہیں تو سگے سوتیلے بھائیوں کا جائیداد پر جھگڑنے کا عمل ایک دکھ ایک تکلیف کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کہیں مادی اشیاء کی محبت دنیا کی ہے ثباتی سے صرف نظر کرواتی ہے۔ ”پرکھ” اور نیا گھر بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں نیا گھر بنانے اور اسمیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی خواہش لئے ”نیا گھر” کا مرکزی کردار منوں مٹی تلے جا بستا ہے۔ اقتباس !
”بیوی بین کر رہی تھی۔ لڑکی ہچکیاں لے کر روئی جارہی تھی۔ چند لمحوں تک لڑکا ہکا بکا کھڑا یہ سب دیکھتا رہا۔ پھر وہ باہر کی طرف لپکا اور ڈاکٹر کو لے آیا۔ ڈاکٹر نے نبض دیکھی۔ سینہ ٹھونک ٹھونک کر دیکھا۔ منہ پر منہ رکھ کر پھونکیں ماریں۔ اور خاموش کھڑا ہوگیا۔ بیوی نے وحشتناک چیخ ماری۔ اور لڑکی کو لپٹا لیا لڑکا بھی ماں سے لپٹ کر رونے لگا۔ ڈاکٹر نے بکس اٹھایا اور باہر چلا گیا۔ دوسرے دن وہ منوں مٹی تلے اپنے نئے گھر میں اطمینان سے سورہا تھا۔ (رفعت نواز،”فسانہ کہیں جسے”ص:٤٩)
رشتوںکے تقدّس کی پامالی کواجاگرکرتاانکاافسانہ ”پرکھ ”کااقتباس ملاحظہ !
”علیم میاںنے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ معمولی سی بات اتنی غیر معمولی بھی بن سکتی ہے کہ رضیہ ان پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے کچہری میں ان کے خلاف درخواست دے ڈالے یہ تو سراسر ان کی نیت پر حملہ تھا اوررضیہ نے ڈنکے کی چوٹ پران کی بد نیتی کا اعلان کیا تھا۔ اگر انھیں اس حملے کا پہلے سے علم ہوتا تو وہ پہلے بچائو کی تدبیر سوچتے اور کسی طرح معاملے کو کچہری تک نہ جانے دیتے۔ اس طرح جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی۔ مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اور دنیا ان کے تڑپنے کا تماشہ دیکھ رہی تھی۔ (رفعت نواز،”فسانہ کہیں جسے”ص:١١)
رفعت نواز کے افسانوں میں فن اور موضوع دونوں کا لحاظ نظر آتا ہے ان کی تحریریں قاری کو ذہنی آسودگی بخشتی ہیں ساتھ ہی ان کی کہانیوں کا مطالعہ ان کے صاف ستھرے ذہن کو اجاگر کرتا ہے۔
احمد عثمانی رقمطراز ہیں۔
”رفعت نواز کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور نہ ہی قاری کو کرتے ہیں ان کا نظریہ کچھ بھی ہو لیکن ان کے افسانوں میں وہ ایک فنکار ہیں۔ ایک خاص نظریۂ ادب رکھنے والے ادیبوں کی طرح وہ سماج کی اصلاح نہیں کرتے اور نہ قاری کو مجبور کرتے ہیں وہ تو جو کچھ ہے اپنے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔” (احمدعثمانی،سہ ماہی جواز،مالیگاؤں شمارہ:١٤اکتوبر١٩٨١ئ)
رفعت نواز لفظوں کے گورکھ دھندوں میں الجھنے کے بجائے گہرائی و تاثیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ان کے افسانے موضوعاتی سطح پر ندرت کے حامل ہیں کہانیوں میں سبک روی خیال انگیزی کے علاوہ دلچسپی کا عنصر نمایاں ہے۔ تجربات کی سچائی کے ساتھ اپنے فن سے بھی سچا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کہانیوں کو ابہام سے بچاتے ہوئے سیدھی سچی اور کھری بات سیدھے سادے و سچے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں زندگی کے تلخ حقائق کا بیان ہوتاتوہے اورساتھ ہی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کامیاب عکاسی ان کے افسانوں کی خاص خصوصیات ہیں ان افسانوں کا مطالعہ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔
از:سید امجدالدین قادری
ریسرچ اسکالر،شعبہ اُردو
ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی،اورنگ آباد
Mob:- 09028831692
E-mail:- saq_muneeb@rediffmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!