”کشمیر کی عکاسی ترنم ریاض کی تخلیقات ”برف آشنا پرندے ،اور مورتی کے آئینے میں
آشنااپنی حقیقت سے ہو اے دہقان ذرا
دانہ تو،کھیتی بھی تو،باراں بھی تو،حاصل بھی تو
علامہ اقبال
ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں،آبشاروں، لالہ زاروں ، سر سبز شاداب کھیتوں ، زعفراں زاروں کے ہوشربا اور پر کشش قدرتی مناظر سے بھر پور سرزمین جسے بقول علامہ اقبال اہل نظر نے ایران صغیر سے تعبیر کیا ہے اور جس کی سرحدیں ہندوستان، پاکستان،چین ،افغانستان کے ساتھ ملتی ہے قدیم عہد سے دنیا بھر میں مشہور ہے دنیا کا کوئی مقام اس کا ہمسر نہیں۔اگرکشمیر کو بر صغیر ہندو پاک کا سویزر لینڈ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا اسکی رنگارنگ وادیوں اور اسکی دل فضا ٹھنڈی ہوائوں میں سانس لینے سے مردہ رگوں میں جان آجاتی ہے اس کے صحت افزاء مقامات کی سیر سے مریض تندرست ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی مقام ہی نہیں اس کے ارد گردپہرے دار پہاڑ سبز وادی میں ملبوس کھڑے ہیں ۔کشمیر ان کے بیچ مین گویا پتھر کی انگو ٹھی میں زمرد کا نگینہ جڑا ہوا ہے۔اس ضمن میں ترنم ریاض کا ناول” برف آشنا پرندے ”سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
”یہ خطہ بلا شبہ دنیا کا حسین ترین خطہ ہے پہاڑوںمیں چھپے ایک کثیررنگ خود رو پھول کی طرح ۔ جس کی نوک پلک صرف موسم نے سنواری ۔اس سے یورپ ،امریکہ ۔ وسطہ ایشائ۔ یا ہندوستان کے دوسرے پہاڑی علاقوں کی طرح کسی نے کھربوں روپیے خرچ کرکے سجایا نہیں۔” ١
چپے چپے پہ آبشار ،ہر طرف سایہ دار درخت ،عمدہ اور لذیذمیووء ں کے ڈھیر پڑے ہیں کیا کوہستان اور کیا میدان غرض تمام خطہ سدا بہار گلزار ،کوسوں تک سبزہ ہی سبزہ زار ہیں پھر سبزہ بھی کیسا گویا اس پر سفید موتی بکھرے پڑے ہیں زمین ایسی صاف اور سوکھی کہ اس پر سو رہنے کو جی چاہتا ہے پھر کیا مجال کہ کپڑوں پہ داغ لگ جائے ۔ایک ایسا خطہ ہے جو قدرتی مناظروں سے مالا مال وادی کشمیر جسے دنیا بھرمیں زمین پر جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک پانے کے لئے پوری دنیا کے لوگ بے تاب اور بے قرار رہتے ہیں ۔ہر وہ شخص جس نے کشمیر نہیںدیکھا اپنے آپ کو ادھورا سمجھتا ہے۔ مرنے سے پہلے کم از کم ایک بار اس کو دیکھنے کی ہر کسی کے دل میں آرزو اور تمنا ہوتی ہے اس کے قدرتی حسن اور جمال کو دیکھ کر ہر کوئی اس کا دیوانہ بن جاتا ہے اور ہر کوئی یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است ہمیں است ہمیں است
جن لوگوں نے کشمیر کی سیر وسیاحت کی ہے یا جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کشمیر کے حالات دیکھے ہیں اسے متاثر ہوئے بغیر ہوئے نہ رہ سکے نشاط باغ کی سیر میں جہاں سر محمد اقبال ہر اہل دل کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
شرابے کبابے ربابے نگارے
وہاں نشاط کی سیر کے دوران میں بدنصیب کشمیریوں کی المناک حالات کے متعلق اسی نظم میں لکھتے ہیں ۔
کشمیری کی با بندگی خود گرفتہ
بتے مے تراشند ز سنگ مزارے
ضمیرش تہی از خیال بلندے
خود ی نا شناسے ز خود شرمسارے
بر یشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامئہ تار تارے
نہ در دیدئہ او فروغ نگا ہے
نہ در سینہ او دل بے قرارے
ارزاں مے فشاں قطرہ بے کثیری
کہ خاکسترش آفریند شیرارے ٢
ادب ایک ایسا سمندر ہے جس میں دنیا جہاں کے خیالات کے دریا آکر ضم ہو جاتے ہیں ادب اپنے زمانے اور ماحول کی بھر پور عکاسی کرتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی ادب فطرتا اپنے ماحول سے بیگانہ نہیں ہوسکتا ہر ادیب ہر مصنف اور ہر شاعر بالواسطہ یا بلاواسطہ، دانستہ یا غیر دانستہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور سماج کے جس طبقے سے اس کا تعلق ہوتا ہے اس طبقے کی حمایت کرتاہے ادب انسانی زندگی سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے ادب زندگی کا ترجمان اور نقاد ہوتا ہے اس لئے ادب میں سماجی ،سیاسی، ثقافتی ،معاشی، فنی اور جمالیاتی پہلو کا ہونا لازمی ہے کیونکہ یہی چیزیں ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرتی ہیں بہترین ادب کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اپنی تہذیبی حالات ،سماجی ماحول اور معاشرت کی عکاسی کرے ۔
کوئی بھی قلم کاراپنے گردونواح کے حالات ، واقعات اور حادثات سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور پھر جب حالات و حادثات کی شدت ایسی ہو کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ یا کسی شعبے سے وابستہ کوئی بھی فرد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تو قلم کار کے قلم حالات و واقعات کے ہی گرد گھومتا ہے ۔اردو زبان کو کشمیر میں یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں اس کے چاہنے والے اس کو دل و جان سے چاہتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں یہ زبان ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گی اور اپنے دلدادگان سے داد تحسین پاتی رہے گی۔
اردو ادب میں ناول کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہ صنف ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرتی ہے جب بھی کوئی ناول نویس ناول لکھتا ہے تو وہ کوئی نئی دنیا اپنی خواہش کے مطابق نہیں بناتا بلکہ وہ ہماری دنیا سے بحث کرتا ہے اور وہی چیزیں پیش کرتا ہے جن کا ہماری زندگی ،تہذیب، تمدن اور حالات سے تعلق ہوتا ہے ۔ڈاکٹر ترنم ریاض سر سے پا تک کشمیری ہیں ان کی تخلیقات میں کشمیر جیسے خوبصورت شہر کی عکاسی بدرجہ اتم موجود ہے انہوں نے کہانیوں کی فضا اپنے محبوب ترین علاقے کشمیر سے تیار کی ۔ ترنم ریاض کے ناول”برف آشنا پرندے “میں شروع کے صفحات سے لے کر آخری صفحات تک کشمیر کی تہذیب و حالات کی عکاسی مصنفہ نے بڑی فنکاری سے کی ہے کشمیر کی تہذیب، تمدن ثقافت، سیاست، معاشرت اس ناول کے اکثر صفحات پر جلوہ گر ہیں اپنے ناول کے ذریعہ مصنفہ نے کشمیر کی طویل تاریخ قلم بند کی ہے پانچ سو سنتالیس صفحات پر مشتمل یہ ناول کشمیر کی تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔
کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں اور کشور بھی کہا گیا ہے مورخیں کا خیال ہے کہ “کشیر”کشمیر کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور پانی ہی پانی تھا اور یہ ستی سر کے نام سے مشہور تھا۔ پھر ہزاروں سال پہلے اس کے شمال میں کچھ چٹانین کھسکیں ،کچھ مٹی کے تودے گرے اور پہاڑوں میں شگاف پیدا ہونے کے سبب قدرتی طور یا انسانی عمل سے پانی کی نکاسی ہوئی اور پانی بہہ نکلا کہیں جہلم سے ملا تو کہیں چناب سے ،کہیں راوی سے تو کہیں گنگا ، جمنا، ستلج اور کہیں ولر کی شکل اختیار کی اور کشمیر کے خطے میں خشک زمین وجود میں آگئی اور یہ خطہ انسانی زندگی کے لیے ساز گار رہا ۔ترنم ریاض کے ناول ” برف آشنا پرندے “سے یہ اقتباس ملا حظہ کیجئے۔ ”ستی سر کا عظیم جھیل۔۔۔۔۔۔لاکھوں برس پہلے ہوا کرتی تھی جھیل ۔
جب اس کے چاروں جانب اونچے اونچے پہاڑ تھے جو اب بھی ہیں
ہزاروں سال پہلے اس کے شمال میں کچھ چٹانیں کھسکیں اور پہاڑوں میں
شگاف پیدا ہونے کے سبب پانی نے سرکنے کا راستہ ڈھونڈ لیا اور بہہ نکلا۔۔۔اور وجود میں آگیا کشمیر۔”٣
راج ترنگی جو کہ کشمیر کے تعلق سے قدیم ترین مستنند تاریخ ہے میں بیان کیا گیا ہے کہ کشیر ایک بہت بڑی جھیل تھی جس کا نام ستی سر تھا درویش کشپ ریشی نے اس کاپانی نکال کر ہندوستان کے کچھ برہمنوں کو لایا اور یہاں آباد کئے ۔تاریخی طور پر کشمیر بدھ مت اور ہندومت کا قدیم مرکز رہا ہے یہاں پر قدیم ترین مندر”مارٹنڈ “بھی موجود ہے جو اننت ناگ کے علاقے میں موجود ہے بعض مورخین کے نزدیک یہ ہندو مت کا قدیم ترین مرکز رہا ہے بدھ مت کے عروج کے بعد یہاں ہندو دھرم کے عروج کا زمانہ بھی آیا ۔اور کشمیر ہندو مذہب کا مرکز بن جاتا ہے١٣ صدیں میں ایک بڑے بزرگ سید علی ہمدانی جن کو شاہ ہمدان اور سالار اعجم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کشمیر کی سر زمین پر تشریف لاتے ہیں اور دین اسلام کی تبلیغ اشاعت کا کام بڑے پیمانے پر شروع کیا ان کے ساتھ اوربھی کئی سعادات وادی وارد ہوئے تھے اور کافی محنت شفقت سے دین کی آبیاری کرنے میں وادی کے مختلف علاقوں میں جٹ جاتے ہیں اور وادی کے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت ہندو مت کو چھوڑ کر مشرف بہ اسلام ہوئے اس سرزمین سر سبز و شاداب میں چاروں طرف نغمہ توحید گونجنے لگا اور اسلام کے نور سے یہ خوبصورت وادی منور ہوئی ” برف آشنا پرندے”سے اقتباس ملاحظہ ہو۔
”کچھ شیخ خاندان وہ کہلائے جو گیارھویں صدی مین حضرت شاہ ہمدان کے ہندوستان
آنے پر مشرف بہ اسلام ہوئے جن کے ہمراہ کئی سید زادے بھی تھے ان کی درگاہیں
وادی کے مختلف علاقوںکے علاوہ سرینگر میں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔”٤
ڈاکٹر ترنم ریاض وادی کشمیر کی صورتحال کا دانشورانہ تجزیہ کرتے ہوئے کشمیر کے ماضی اور حال کی عکاسی جرات مندانہ اور حقیقت پسندانہ رویہ سے کیا ہے “برف ااشنا پرندے “میں ترنم ریاض کلی طورپر کشمیر کی تاریخ نہیں دہرا رہیں لیکن ناول کا مرکز کشمیر ہی ہے اس لئے کشمیری تاریخ کے بعض اہم واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ ناول کے اصل قصے کے ساتھ جوڈ ا ہے جوآہستہ آہستہ ناول کے اصل قصے یا نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کے سا تھ ساتھ تاریخی جہات کو بھی واضح کر دیتا ہے۔ اس سے مصنفہ کی علمیت و ذکاوت اور تاریخ سے دلچسپی کا اظہار ملتا ہے ۔
”بارہ سو کے قریب چنار کے درختوں کاباغ نسیم شہنشاہ اکبر نے
صدیوں پہلے ١٥٨٦ء میںڈل جھیل کے کنارے بنوایا تھا باغ
یونیورسٹی سے منسلک تھا بلکہ ینورسٹی کی کچھ انتظامیہ اور دو ایک
شعبے قریب ہی تھے۔۔۔۔۔۔۔یہ ڈل جھیل کا مغربی کنارہ ہے۔”٥
ہر فنکار کے تخلیقی لا شعور کو اسکا ماحول اور گردو پیش مواد بہم پہنچاتا ہے جو پہلے مادی تجربے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور پھر تخلیقی تجربہ اسی سے جنم لیتا ہے اس لئے فنکاری کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کا مطالعہ بے حد ضروری ہوتا ہے تب جاکر فن کے اسرار کا کوئی دروازہ وا ہوسکتا ہے ٹھیک اسی طرح ترنم ریاض کے فن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی تخلیقات پر اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے ان کے عہد کا مطالعہ کر لیں جس کا تزکرہ ترنم ریاض کی بیشتر کہانیوں خصوصا ناولوں میں ملتا ہے ” برف آشنا پرندے”کے سپاس نامے میں ترنم ریاض نے لکھا ہے کہ
”بے حد ممنوں ہوں اپنی والدہ محترمہ کی جن کی یاداشت کے سبب
غیر منقسم کشمیر کے تاریخی واقعات کو تخلیقی شکل دینے میں میری رہنمائی
ہوئی۔”٦
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ناول ”برف آشنا پرندے ” میں ترنم ریاض نے کشمیری تاریخ،تہذ یب،تمدن،اور قدرتی مناظروں کی عکاسی پیش کی ہے ترنم ریاض کا ناول کشمیر کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب سے لے کر ٢٠٠٩ تک کی جھلکیاں پیش کرتا ہے اسطرح یہ ناول قدیم اور نئی تہذیبوں کا ایک عمدہ ذخیرہ ہے۔پیارے ہتاش”برف آشنا پرندے “سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں
”ناول نگار نے جہاں ستی سر ،کلہن پنڈت ،راج ترنگی ،نیل مت پران،
دیوی درگا ماتا،کا ذکر کیا ہے وہیں دریائے جہلم ،وتستا،کشپ ریشی،ناگوں ،
دریائے راوی،ستلج، گنگا، جمنا،سرسوتی،دل ،ولر،مہا پدم،شہر سرینگر،پرور پورہ،
پریاس پورہ،بودھ بکھشوں کا وتستا وادی سے کشمیر میں داخل ہونا جیسی چیزوں
کو مناسب جگہوں پر زیر بحث لایا ہے۔”٧
کشمیر جس کا مقدر ابتداء سے ہی ظلم و جبر رہا ہے لیکن ہر ظلم و جبر کے اندر سے ہی آخر کار احتجاج اور بغاوت کی چنگاریاں بھی پھوٹتی ہیں چنانچہ ظلم وبربریت، استبداد ،نسل کشی،جیسا یہ جان لیوا چلن ڈوگرہ راج کے زوال کا پیش خیمہ ہے،صدیوں سے غلامی کی صعوبتیں جھیلتی، امن و سکون کی خواہاںکشمیری قوم آخر کار ڈوگرہ راج سے آزادی کا پرچم بلند کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
”سن انیس سو اکتیس سے لے کر سن چھیالیس تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف
برصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی۔”٨
انگریزوں اور ڈوگرہ عہد میں کشمیر میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی مصنفہ نے اس کی عکاسی اتنے بھر پور انداز میں کی ہے کہ پوری صورتحال پردئہ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔تقسیم کا سانحہ برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسا المیہ ہے جس کی دلدوز یادوں کا شکنجہ آنے والی نسلوں کو صدیوں تک کستا رہے گا۔چنانچہ اس سانحہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں اور اس کے نتائج کو سہنے والوں کی آنکھوں کا دھواں سالہا سال تک گردو پیش کو دھند لاتا رہے گا ۔تقسیم ملک کے واقعات اگر چہ پوری دنیا کی تاریخ میں انسانیت سوزواقعات کے لئے یاد رکھیں جائیں گے تاہم ہندو پاک دونوں ممالک میں یک گو نہ اطمنان کی لہر دوڈی مگر اس بد نصیب ریاست جموں و کشمیر کی تاریخی دور نہ ہو سکی۔
ادھر کشمیر بھی ایک عجیب سیاسی انقلاب سے دوچار ہوا۔ جس کے نتیجے میں ڈوگرہ شاہی کا دور ختم ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی نئے استبداد اور مظالم کا زمانہ شروع ہوا۔ کشمیر کے عوام نے صدیوں کی کے بعد جو آذادی کا خواب دیکھا تھا وہ محض ایک خواب ہی ر ہا۔جس کے نتیجے یہاں کے خواص و عوام دونوں طبقے کے انسان نفسیاتی طورپر بے بسی کا شکارہوگئے اور ایسی صورتحال میں ایک حساس قلمکار،ادیبہ نے اپنے گردوپیش کے غم کو شعور کی بٹھی میں پگلا کر اپنے معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھا ۔ملک کے بٹوارے کے وقت ہوئی تباہی اور اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ایک جگہ ملک کے بٹوارے کی تباہی کا نقشہ یوں کھینچا ہے ۔
”صوبہ جموںمیںایک لاکھ سے زیادہ مسلمان کو تہہ تیغ کیا گیا اس سے دوگنی تعداد
کو جموں و کشمیر کے پاکستانی کنٹرول والے علاقے میں دھکیل دیا گیا ہے صوبہ جموں
میں جو ایک مسلم اکثریت والا صوبہ تھا ۔اب ایک مسلم اقلیتی صوبے میں تبدیل ہو گیا”٩
ملک کے بٹوارے کے دوران ہوئے مظالم کا نقشہ مصنفہ نے بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے مسلمان اس وحشت کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔مصنفہ نے اس کا ذکر واضع الفاظ میں کیا ہے ۔ان حالات و فسادات کے علاوہ ترنم ریاض نے ان عظیم ہستیوں کا ذکر بھی کیا ہے ۔جنھوں نے نے وادی کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردانہ اور والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ہے جنھیںکشمیری کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ترنم ریاض لکھتی ہیں۔
”سکھوں کے دور حکومت میں صوبیدار کرنل مہان سنگھ نے قحط ذدہ کشمیریوں کی باز آبادکاری
کے لئے پنجاب سے گھروں میں پالی جانی والی مرغیاں ،بطخیں،اور اناج کے بیج منگوا کر انہیں
دوبارہ زندگی کی طر ف ر اغب کیا تھا۔ان کے منصفانہ اندازکی شنوائی کی وجہ سے کشمیری انہیں
نوشیروان ثانی پکارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈوگرہ حکومت میں پنڈت
سا غر کول جنھیں کشمیری محبت سے سرج کاک کہتے تھے خلوص اور نیکی کی ایک ایسی ہی مثال تھے۔”١٠
تقسیم کے بعد قبائیلوں نے کشمیر پر دھاوا بول دیا۔جس نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا۔شیخ محمدعبداللہ جیل سے رہا ہو کر عوامی قائد کی حیثیت سے تسلیم کراچکے تھے ۔چنانچہ نظم و نسق کا کام ان کے سپرد ہو گیا تھا ۔ اس کام میں ان کے معاون ان کے وہ ساتھی تھے جو آزادی کی لڑائی میںان کے ہمراہ تھے ۔یہ وہ حالات ہیں جن سے متاثر ہو کر یہاں کے قلمکاروںنے نثر کا دامن تھام لیا اوریاداشتوں کے طور پر ایک ایک واقعہ،سانحہ رقم کرکے نئی نسل کو سوچنے کی ترغیب دی۔شیخ عبدللہ کی تنظیم جو اس سے پہلے مسلم کانفرنس کے نام سے آزادی کشمیر کے خاطر برسر پیکار تھی اب نیشنل کانفرنس میں تبدیل ہوگئی جس میں غیر مسلم بھی شامل ہوگئے۔اس جماعت کا لائحہ عمل فرقہ واریت کے بجائے قومیت کا تھا نیشنل کانفرنس بننے کے بعد شیخ عبدللہ اور ان کے رفقاء نے حق ارادیت کے موقف سے انحراف کیا اور اپنی ٢٢ سالہ تحریک جدوجہد یعنی رائے شماری کو انہوں نے سیاسی آوارہ گری سے تعبیر کیا ۔اس واقعے سے کشمیریوں کا دل نوحہ کناں ہوا اور ان پر ظلم و بر بریت کا بازار عام ہوا۔قتل و غارت گری،لوٹ کھسو ٹ وغیرہ جیسی صورتحال دیکھنے کو آئی ۔ترنم ریاض نے کشمیر کی اس المناک صورتحال کا اظہار یوں کیا ہے۔
یہ کس نے بوئی ہیں چنگاریاں تیری زمینوں میں
یہ کس نے آگ سی سلگائی ہے معصوم سینوں میں
کوئی ویران موسم آبسا بارہ مہینوں میں
کہ جیسے ہوں نہ تاثیریں ہی اب جھکتی جبینوں میں
یہ کس نے باغبان بن کر جلایا مرغزاروں کو
یہ کس نے سائبان بن کر اجاڑاہے بہاروں کو
سبھی تیری زمیں پہ چاہتے ہیں آسماں اپنا
جڑوں کو گھن لگا کر ٹہنیوں پہ آشیاں اپنا
مخالف ساعتوں میں تجھ کو ہمدم کون رکھے گا
میری وادی تیرے زخموں پہ مرہم کون رکھے گا ١١
یہ وہی کشمیر ہے جو کبھی جنت ارضی کے نام سے تو کبھی امن و سکون،سکھ چین اور بھائی چارے میں اپنی مثال آپ تھی۔سیاسی بازی گری سے پہلے یہاں مرغے کو کئی دنون تک بنا ذبح کئے پالنا پڑتا تھا کیونکہ لوگ اتنے رحم دل تھے کہ اپنے سامنے مرغے کو ذبح ہوتے دیکھنا برداشت نہیں کر پاتے ۔کبھی اگر آسمان پر سرخ رنگ کا نشان دیکھتے تو اسے کسی جگہ انسانی خون کے ناحق بہنے کی علامت سمجھتے تھے اور فورا ایک دوسرے سے توبہ استغفار کرنے کو کہتے۔ اب اسی کشمیرمیں خون خرابا،فتنہ فساد،مار دھاڑ،قتل وغارت،آتش زنیاں،عصمت دریاںاور افرا تفری ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ گو کہ جس جنت کی فضائیں روحانی مہک سے معطر رہتی تھیں اسی جنت میںگولیوں اور دھماکوں کی گن گرج سنائی دینے لگی۔ہر طرف چیخ وپکار،تباہی،افراتفری،سڑکین سنسان ،گلی کوچے سرخ اور بربادی کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔انسانی خون جہلم کے پانی کی طرح بہنے لگا۔
بوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں میں
ہر کسی کے لئے ہر نیا دن ایک نیا جنم لے کر آتا ہے صبح کو گھر سے نکل کر شام کو صحیح سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید کم ہی ہوتی ہے ۔پوری وادی عملی طور پر ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے فورسز کے چھاپے،گرفتاریاں،کریک ڈاون،کرفیو،کراس فائرنگ،گرنیڈ حملے،ٹارچر اور بم دھماکے روز کا معمول بن گیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لوگ اپنے ارادوں پہ اٹل، کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔بلکہ بندوقوں،گولیوں،توپوں کے سایے تلے اپنی زندگی کے روزوشب گزارتے ہیں اس سلسلے میں ترنم ریاض کا ناول برف آشنا پرندے کے علاوہ ان کا ناولٹ یمبرزل قابل ذکر ہیں۔یمبرزل میں انہوں ان حالات کی بھر پور عکاسی کی ہے پروفیسر وارث علوی اپنے مضمون اپنے مضمون میں یوں رقم طراز ہیںکہ۔
”کشمیر کی المناک صورتحال پر ترنم ریاض نے اثر آفرین کہانیاںلکھی ہیں۔
کشمیر کا ان کا تجربہ ذاتی ہے۔ کیونکہ اسکا تعلق اسی سر زمین سے ہے ۔۔
۔۔۔۔کشمیر کی صورتحال پر انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ آئینہ بن گیا ہے” ١٢
ناولٹ یمبرزل میں یوسف نکی کو گھر چھوڑنے جاتا ہے تو راستے میں وہ دونوں فائرنگ میں پھنس جاتے ہیں بھگ دھڑ مچ جاتی ہے۔کچھ زخمی ہو کر گر جاتے ہیں اور کچھ لوگ بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔وہ دونوں قبرستان کے احاطے میں چھپ جاتے ہیں وہاں بے شمار قبروں کے درمیان کھلے پھولوں کو دیکھ کر یوسف نکی کو “نرگس اور یمبرزل”کے القاب دیتا ہے یمبرزل دراصل وادی کشمیر کا ایک پھول ہے تو وہ جواباکہتی ہے
”تمہیں موت کے سناٹے میں زندگی کی باتیں کیسے سوجھتی ہیں یوسف ”١٣
یہ جملہ اثر آفرین بھی ہے اور اس میں دکھ درد بھی شامل ہے کشمیر کی المناک صورتحال پر غمگین ہو کے قاری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کتنے قریب ہیںدونوںزندگی اور موت کے ،اور گولیوں کی گن گرج میں زندگی کے ایام گذارنا ان کا معمول بن گیا ہے ۔ناول برف آشنا پرندے میں بھی کشمیر کے اس خونی پس منظر کی عکاسی کی گئی ہے۔
”خدا جانے۔۔۔۔۔۔۔حفاظتی افواج انکاوئنٹر میں مرنے والوںکی
لاشیں ٹرک میں بھر کر یہاں وہاں پھینکی تھی جن میں مردہ سمجھے گئے ایک
زخمی نے کہا کہ اس کے علاوہ عاصم سے ملتے جلتے حلئیے کا ایک اور لڑکا بھی
تھا جو اس سے قریب زخمی بڑاسانس لے رہا تھا مگر اس سے پہلے ہی ایک
چوراہے کے پاس پھینک دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدمی نے کسی کو بتا یا تھا
کہ کوئی انکاوئنٹر نہیں ہوا تھا وہ اصل میں اسٹوڈنٹس تھے ایگزامز کے بعد کی
چھٹیوں میں گھر آرہے تھے ۔ٹورسٹ سینٹر سے نکلتے ہی ان پر وردی پوشوں
نے گولیاں برسائیں، سب کو مردہ خیال کرکے ان کے برابر میں ہتھیار رکھ
کر تصویریں اتاریںپھر سب کو گاڑی مین بھرا اور ادھر ادھر پھینکتے اپنے کیمپ کی
طرف روانہ ہوئے۔”١٤
ان مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے کے بعد ہر ذی روح بے قرار،قلب بے چین،ذہن گھٹن کا قیدی،جگر تشویش کا بندھک، ہر آنکھ آنسو ذدہ،ہر لب پر رحم وکرم کی دعائیں ہوتی ہیں۔وردی یا عہدے یا اپنی انانیت، حاکمیت اور دولت کی آڑ میں لوگوں پہ ظلم و ستم اور زیادتی کرنے والے خود بھی بے خبر ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں دراصل وہ سیاست کے مہرے بنے ہوئے ہیں جن کو کچھ خود غرض لوگ اپنی انانیت اور حاکمیت کے عوض خرید لیتے ہیں۔کشمیر کی اس جہنم کدہ صورتحال کا نقشہ ترنم ریاض نے اپنی کہانیوں میں بحسن و خوبی پیش کیا ہے۔ ناول برف آشنا پرندے،اور ناولٹ یمبزل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کسی کو ظلم کی آہ سے بچنا چاہیے کیونکہ مظلوم کی آہ سے ساری دنیا ہل جاتی ہے اور ظلم کرنے والے کو للکار کر سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنے کو کہا جاتا ہے۔ہر کوئی مذہب انسانیت کا درس دیتا ہے اور آپس میں پیار محبت اور انسان دوستی سے رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔اچھا ہندو،مسلمان،سکھ ،عیسائی اور بھی کسی مذہب کا ماننے والا وہی ہوتا ہے جس کو دیکھ کر ہر کسی کے دل کو ٹھنڈک اور سکون پہنچے اور وہ خود کو محفوظ سمجھے ۔جسے ہر کوئی ڈر اوف خوف محسوس کرے وہ قطعا بھی اس مذہب کی ترجمانی کرنے کے لائق نہیں ہے کیونکہ مذہب بیر اور نفرت کرنا نہیں سکھاتا ۔زمین والوں پر جو رحم کرتا ہے آسمان والا اس پر رحم کرتا ہے ۔اور جو لوگ اپنے اپنے مذاہب کے بنیادی اصولوں اور تعلیم پر عمل نہیں کرتے تو انہیں چاہیں کہ وہ اپنے نام سے مذہب کا لیبل ہٹالیں اور بعد میں اپنی مرضی چلا کر جو بھی کرنا چاہیں کریں۔ کم از کم مذہب کے نام پر مذہب کا استحصال ہونا تو بند ہو جا ئے گا۔ناول برف آشنا پرندے کا اقتباس ملا حظہ ہو۔
”شیبا نے تھیلے میں سے جھانکتی ایک کاپی کھینچی تو اس کے ساتھ ایک
رنگین رسالہ بھی باہر کو پھسلا۔اس نے ہاتھ میں اٹھا کر دیکھا کوئی مذہبی
رسالہ تھا جس کے ادارے میں نماز و روزے کی پابندی ،گناہ ثواب کے
ذکر کے ساتھ شمارے میں شامل کچھ مضامین پڑھنے کی تلقین کی تھی ۔شیبا
نے پہلے حوالہ شدہ مضمون کا صفحہ کھول کر پڑھنا شروع کیا تو اس کا دل تھر تھر
کانپنے لگا۔ ایسا مضمون کسی بھی معصوم ذہن کو موت کے اندھیروں کی نذر
کرنے کے لئے کافی تھا۔۔۔۔۔۔ ” ١٥
ناولٹ یمبرزل سے اقتباس ملاحظہ ہوں۔
”اگر کوئی شہید ہوتا ہے تو کیا اس کے والدین جنت میں جاتے ہیں یوسف نے
نوجوان کو خاموش ہوتے دیکھ کر فورا سوال کیا ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں نے ایسا کہیں تو نہیں پڑھا، حافظ کی ماں
جنت میں جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔نادان ہو تم جہاد کے راستے میں” ١٦
٩٠ کی دہائی سے ایسی ہی کچھ صورتحال رہی جس نے وادی کشمیر کا سکھ چین تو کیا بلکہ مائوں کی جھولیاں خالی کر دی ،بہنوں کو بھایئوں کی محبتوں سے محروم،بیویاں اپنے شوہروں کے انتظار میں غرض کہ ہر طرف خزاں کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ یہ وہ حالات تھے جب وہاں صحت مند لوگوں سے زیادہ بیمار لوگ پائے جاتے تھے اور اتنے بیشمار دل کے مریض کہ حیرت ہو جاتی ہے۔ سرکاری پارک قبرستانوں میں تبدیل ہوگئے قبرستانوں کے لئے زمیں کم پڑ گئی۔ہزاروں نوجوان غائب،سڑکیں ٹوٹ پھوٹ ہوگئیں ،ہسپتالوں میں خدمات میسر نہ سہولیات،ماحول اور پانی پر آلودگی حاوی ہو گئی ۔جنگلوں کے کٹنے سے بے گھر ہوئے درندے آزادانہ پھیر کر بندوق کے ظلم سے بچ نکلے ہووئں کو نوش کرتے ہیں ۔ اس خوف و دہشت کے عالم میں کسی کو بھی عام آدمی پر رتی بھر ترس نہیں آرہا ہے اور کوئی بالکل ہی اس بات کو سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ چھری خربوزہ پر گرے یا خربوزہ چھری پر دونوں صورتوں میں خربوزہ ہی کٹتا ہے ۔عام آدمی مصیبت دکھ درد اور پریشانی کی چکی میں پس رہا ہے اور اپنے درد کو اندر ہی اندر چھپائے بیٹھا ہے وہ اپنے دردو غم کاکسی سے اظہاربھی نہیں کرتا۔مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ اس کا درد اسکی برداشت سے باہر ہونے لگا اور تڑپ تڑپ کر مرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔کوئی بھی اس کے درد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے ۔بقول شاعر۔
رنگ زندگانی کے پھیکے پڑ گئے مجھ پر
لباس ماتمی ہیں اب چیخنے لگا ہوں میں
ترنم ریاض نے ان ہی حالات وواقعات کو صفحہ قرطاس پر لا کے کشمیریوں کے دکھ درد کی وکالت کرتے ہوئے عالمی برادری کو اس گھمبیر مسلئہ پر سونچنے کی ترغیب دی ہے اور ان کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں اور سچائی پر مبنی حالات اور واقعات کو عالمی برادری کے سامنے سوالیہ انداز میں لایا ہے۔ ترنم ریاض نے جہاںایک طرف عالمی برادری کو کشمیر کے متعلق زیادہ مثبت positive اور نتیجہ خیز حکمت عملی اپنا نے کا پیغام دیا ہے وہیں دوسری طرف اہل کشمیر کو بھی یہ باور کیا ہے وہ اپنی سر زمیں کے ماحول ،ثقافت۔تہذیب،تمدن کو تاریخ کے حوالے سے پہنچانیں۔
ترنم ریاض نے جہاںایک طرف کشمیر کے جہنم کدہ حالات کی تصویر کشی کی ہے وہی دوسری طرف کشمیر کی فطرت،ثقافت،معاشرت،سماجیات کو بھی سمیٹا ہے کشمیر اونچے اونچے مریم جیسے پہاڑوں کا شفاف علاقہ ہے یہاں باغات برزلہ بھی ہیں ، ڈل جھیل بھی حضرت بل کی خانقاہ بھی، چار چنار،چشمہ شاہی،شالیمار باغ، پری محل ، کوہ زبرون وغیرہ جیسے خوبصورت علاقے آج بھی دلوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے برف آشنا پرندے سے اقتباس ملا حظہ ہوں۔
” میرا عظیم وطن۔۔میرا کشمیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نرم خو،حلیم اورحسین کشمیریوں کی زمین،دانشوروں، فنکاروں اور
دستکاروں کا خطہ، ریشم و پشم،زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سر زمین۔
پہاڑوں اور وادیوں کا یہ مسکن یہ کشمیر،جنت بے نظیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” ١٧
برف آشنا پرندے میں اخروٹ اور آلوچے کے درخت ہیں گیلاس کے پیڑ ہیں،برفباری کا بیان ،بادام کے درخت کے مختلف رنگ،مختلف پرندوں کی شکل و صورت اور ان کی آوازیں، عزیز کاک کی کھڑاوں،سبزیوں، پتوں اور پھلوں کے آمیزے، حنوط شدہ چیتے،بھالو، لومڑی ،ہرن،درگاہوں کی تعمیر کے علاوہ کشمیر کی سماجی و ثقافتی روایات پھرن، سماوار،پشمینے کی شالیں ،کانگڑی ،کاراقلی،شیراوانی،وغیرہ جیسے چیزوں کا ایسا سچا اور بھر پور بیاں ہے کہ پڑھنے والا جگہ جگہ کشمیری سماج کی تہذیب و تمدن مین مسحور ہو جاتا ہے ۔سید محمد اشرف ترنم ریاض کے ناول برف آشنا پرندے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
”برف آشنا پرندے کشمیری ماحول میں زندگی گزارنے والی ایک حساس لڑکی
کے نقطہ نظر سے لکھا ایک مختلف انداز کا ناول ہے۔کشمیر کے ماحول پھول،پھل،
گھاس، پرند،یعنی نباتات اور حیوانات کا بے حد خورد بینی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
کشمیر کو مرکز بنا کر اردو میں اتنی طویل تخلیقی تحریر میری نظر سے نہیں گزری۔۔۔۔” ١٨
کشمیر کے تاریخی حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ترنم ریاض نے کشمیری تہذیب وثقافت کی بھر پور عکاسی کی ہے یہاں کے لوگوں کے لباس، شادیاں،زیورات،ماتم پرستی،کھانے پینے کی اشیا ،کشمیری چائے،بیو پار،کام کاج،تمباکو نوشی، رہن سہن،رسم و رواج اور مذہبی عقیدت وغیرہ کا بڑی فنکاری سے اظہار کیا ہے شادی بیاہ کے موقعے پر گائے جانے والے گیتوں کا مثال ملا حظہ ہوں ۔
”عورتیں ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے چھ چھ سات سات کی تعداد مین جنگلا
سا بنا ہوا پائوںبدل بدل کر لوک گیت گایا کرتیں۔ دو جنگلے بنائے جاتے باری باری
گانے کے لئے اور کبھی کبھی چار بھی۔ دولہے کے استقبال میں یا بدائی کے وقت
گائیے جانے والے ان نغموں میں اس کی وادی کی خوش کلام خواتین صورتحال کی
مناسبت سے نغمے تراشتیں، انہیں موسیقی اور لئے بخشتیں ۔یعنی اگر بارات آکر
لڑکی کے گھر نکاح و طعام کی خاطر ٹھر گئی ہے۔
ان نغموں کے معنی یوں ہوتے ہیں ۔
سلام عرض کرتے ہیں دولہے میاں
کہ آپ آئے تو جگ منور ہوا
یعنی
السلام علیکم سانہ مہارازو
چانہ ینہ گاہ پیو عالمس” ١٩
ریاست جموں و کشمیر جہاں بھر میں صنعت و دستکاری اور اپنے حسن و قدرتی مناظر کے لئے مشہور ومعروف ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنی خوبصورتی، تہذیب و تمدن کے قصیدے لکھوا چکی ہے برف آشنا پرندے میں بھی ترنم ریاض نے کشمیری لباس، دستکاریاں ،عورتوں کا کھیتوں میں کام کرنا اور باغوں میں مردوں و عورتوں کا اکٹھا ہو کر کام کرنا وغیرہ کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ۔ترنم ریاض کے ناولوں میں کشمیری تہذیب اور حالات کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ قاری مطالعہ کرتے وقت پوری دل لگی سے کشمیر کے باغوں ، کھیتوں، کلیا نوں ، ندیوں ، نالیوں، دریاوں ،جھیلوں وغیرہ کی سیاحت کر لیتا ہے ۔
بہرحال ترنم ریاض نے اپنے ناولوں میں کشمیر کے ماحول اور کشمیر کے حالات و واقعات کو حقیقت کا روپ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس وادئی کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف موسم کی سازشوں سے ہو رہا ہے ورنہ یہ وادی جنت بے نظیر کبھی خوشحالی، امن و سکون ، بھائی چارے کی مثال تھی اور آج کا ہر کوئی بندہ جنت بے نظیر کی خوشحالی، امن و آشتی، اور بھائی چارے کا خواہاں ہیں اور ہر کوئی اپنے دل میں یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ اس جگہ کو جنت کا وہی مقام ملے جو پہلے کبھی اسے ملا تھا تاکہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی اور رونق ہی رونق لوٹ آئے، ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹ واپس لوٹ آئے اور ان سب کے زخموں کو بھر دے جو اپنوں کو بچھڑ نے سے لگے ہیں ۔بقول شاعر
اسکی چیخوں کی سدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں نے زندہ ہی تیری یادوں کو دفنا یا تھا
برف آشنا پرندے وادی کشمیر کی ذرخیز مٹی سے پیدا ہونے والے ان خوبصورت پھولوں کی داستان ہے جن کی مہک کبھی اقبال کے تخلیقات میں مہک رہی ہے اور کبھی شیخ نور الدین نورانی شرکوں میں چمک رہی تھی۔پھولوں کی اس مہک کو لل دید نے سنوارا اورحبہ خاتون نے مدھر گیتوں کا رس ان پھولوں میں بھر دیا اور رسول میر نے ان پھولوں میں پیار کی داستان بھر دی۔پیارے ہتاش اردو ناول برف آشنا پرندے پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” ناول کے صفحات پر اس وقت ایک الگ نکھارآتا ہے جب ان پر صوفی بزرگ
شیخ نور الدین نورانی کے شرکوں }شلوک{کو زیر قلم لایا ہے اور صوفی شاعر لل دید
کے مشہور واکھوں کا بھی اندراج ملتا ہے وہیں سنت کبیر کے دوہوں کو بھی شامل کیا
گیا ان سب سے ناول نگار کی وسیع معلومات اور مطالعہ کی ترجمانی ہوتی ہیں۔” ٢٠
ناول برف آشنا پرندے اور یمبرزل نہ صرف شیبا ،یوسف نکی کے مضبوط کردار کے محور میں گھوم رہا ہے بلکہ ناول اور ناولٹ نے سماج میں موجود ان چیزوں کو بے نقاب کیا ہے جو حکومت کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں جنہوں نے کشمیر کی خوبصورتی کو بر باد کرنے میں بھر پور کردار نبھایا ہے جنھوں نے یہاں کی زمیں پہ نا جائز قبضہ جمایا ہے جنھوں نے اپنے لئے سڑکوں پہ خون کی ہولی کھیلی اور غریب عوام کو اپنے پیروں تلے ایسے رونداکہ وہ کسی بے سہارے کا سہارا نہیں بن سکے۔ناول برف آشنا پرندے اور ناولٹ یمبرزل دراصل احتجاج ہے اس ظلم کے خلاف اس بر بر یت کے خلاف جو جنت کشمیر کی سر زمین میں صدیوں سے چلتے آئے ہیں۔
مختصرا ترنم ریاض نے اپنی تخلیقات خصوصا ناولوں کے ذریعے عصری سماج اور معاشرہ کو کما حقہہُ سمجھا ہے انہوں نے اپنے ناولوں میں کشمیریت کو پیش کیاہے کشمیری ہونے کے ناطے انہوں نے وہاں کے رسم و رواج اور انسانی زندگی کی قدروں کو جانچ کربخوبی پیش کیا ہے ۔وہ وادی کشمیر کی واحد خاتون ہیں جنہوں نے اپنے تخلیقات خصوصا ناولوں میں کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو پیش کیا ہے۔ جس سے مصنفہ کی علمیت و ذکاوت کا اظہار ہوتا ہے یہ ناول جموں و کشمیر کی ناول نگاری کی تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے اس ناول کو تاریخی ناول کہلانے کا شرف حاصل ہے جب بھی ریاست کے اچھے اور کامیاب ناولوں کا ذکر ہوگا ترنم ریاض کے شاہکار ناول ” برف آشنا پرندے”کا ذکر سر فہرست ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
توصیف مجید لون
نانل اسلام آبادکشمیر
فون نمبر ۔٩٥٩٦٣٥٣٦٧٣
پن کوڈ۔ ١٩٢١٢٥
Leave a Reply
1 Comment on "”کشمیر کی عکاسی ترنم ریاض کی تخلیقات ”برف آشنا پرندے ،اور مورتی کے آئینے میں
"
[…] 158. ”کشمیر کی عکاسی ترنم ریاض کی تخلیقات ”برف آشنا پرندے ،… […]