شو کت حیات: مابعد جدیدیت کے آئینہ میں
اس پیچیدہ اور پر آشوب دور میں جن افسانہ نگاروں نے اپنے فن اور فکر کے ذریعہ اردو افسانے میں مزید وسعت ومعنویت اورامکانات کے دروازے کھولے ہیں ان میں ایک نہایت ہی معتبر نام شوکت حیات کا ہے۔ شوکت حیات نے افسانے کے علاوہ دیگر اصناف ادب پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ لیکن جہاں تک شہرت کا تعلق ہے وہ بطور افسانہ نگار ہی مشہور ہیں۔
شوکت حیا ت ایک ایسے مابعد جدید افسانہ نگارہیں جو تعداد پر نہیں، معیار پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پہلے افسانوی مجموعہ (گنبد کے کبوتر) کے بعد ان کا کوئی دوسرا افسانوی مجموعہ اب تک راقم کی نظم میں نہیں آیا۔ ہاں کچھ مضامین اورافسانے ضرور مختلف رسائل وجرائد میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ دراصل شوکت حیات نے اپنی افسانہ نگاری کی شروعات اس وقت کی جب جدیدیت کی لائی ہوئی علامت پسندی، تجریدیت اور اسطور پسندی کے تصورات پر کافی بحث ومباحثہ شروع ہوچکا تھا۔ اور نئے لکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان تصورات کے تحت وہ کس نوعیت کے افسانے لکھیں۔ بہر حال اس نظریاتی کنفیوزن اور کشمکش کے باوجود بھی اس عہد میں اپنے علم ، تجربے ، مشاہدے اور جدت پسند طبیعت کی بنا پر اپنی الگ شناخت قائم کرنے ، اپنے فکر وخیالات کو نئے پیرائے اورنئے انداز سے ادا کر نے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ بقول وارث علوی:
’’شوکت حیات ان جیالے لوگوں میں سے ہیں جو نہ تو کسی نقاد کی پراوہ کر تے ہیں اور نہ دوسروں کی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر راہِ ادب طے کرتے ہیں۔ وہ اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ اور اپنے اظہا ر وبیان کے طریقے آپ ہی ایجاد کرتے ہیں۔ ‘‘ ۱
وارث علوی کے اس قول میں یقیناسچائی کا عنصر پایا جاتاہے ۔ کیوں کہ شوکت حیات کبھی سکّہ رائج الوقت تحریکات ورجحانات کے زیر اثر نہیں رہے ۔ وہ نہ ترقی پسندی کی چکا چوندھ میں پڑ کر نعرہ بازی کا شکار ہوئے ، نہ جدیدیت کی داخلیت میں گم ہوئے اور نہ مابعد جدیدیت کی فارمولہ بازی کے حصار میں قید ہوئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شوکت حیات کے افسانے نہ صرف انسانی زندگی کے مختلف گوشوں کا احاطہ کرتے ہیں بلکہ ان میں ہمہ گیریت کا احساس بھی ہوتاہے۔فکر واحساس اورجذبات کی سطح پر ان میں وہ کیفیات موجودہیں جن کی بدولت ذہن ودل منتشر اور مضطرب ہوجاتاہے ۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتے وقت ہم سر سری طورپر نہیں گزر سکتے تو غلط نہ ہوگا۔ ’’گنبد کے کبوتر‘‘، ’’گھونسلہ‘‘،’’اپنا گوشت‘‘،’’فرستے‘‘،’’سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘‘،’’بلی کا بچہ‘‘، ’’کوبڑ‘‘ ،’’رانی باغ‘‘،’’سکوت‘‘،’’چیخیں‘‘،’’مادھو‘‘،’’ڈھلان پر رکے ہوئے قدم‘‘ وغیرہ کئی ایسے افسانے ہیں جو اپنے فکر وفن کی وجہ سے چونکاتے اور حیرت واستعجاب میں ڈال کر غور وفکر کرنے پرآمادہ کرتے ہیں ۔
شوکت حیات کے افسانوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے اکثر وبیشتر افسانے کا آخری جملہ یا پیرا گراف سعادت حسن منٹو کی طرح تاثرات کی بکھری ہوئی کڑیوں کو سمونے میں معاون ومددگار ہوتاہے۔ اور کاغذ پر ختم ہونے کے بعد کہانی دوبارہ قاری کے ذہن ودماغ میں شروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً ان کے مشہورافسانہ ’’سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ‘‘ کا یہ جملہ :
’’وہ جس علاقے کی طرف گیا تھا وہاں انسانی اجسام پھول گوبھیوں میں تبدیل ہوچکے تھے ۔‘‘ ۲
شوکت حیات کا یہ افسانہ نہ صرف ان کے فکری وفنی رویے کی غمازی کرتاہے بلکہ قاری غور وفکرکی ایک اتھاہ گہرائی میں پہنچ جاتاہے۔ افسانہ کاغذ پر تو ختم ہوجاتاہے مگر قاری کے ذہن ودل کوا س طرح اپنی گرفت میں مقید کر لیتا ہے کہ غم واندوہ کے مارے وہ نہ صرف اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتاہے بلکہ حقیقت یا سچائی کی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتاہے جہاں وہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ گویا یہ کیفیت کردار پر نہیں بلکہ اس پر گزر رہی ہے۔
شوکت حیات کو تمام چھوٹے بڑے واقعاو حالات کی اہمیت وافادیت کا بخوبی اندازہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن عام لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں وہ اس میں ایسی کہانیاں تلاش کر لیتے ہیں کہ قاری حیرت واستعجاب میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مثلاً’’ کوبڑ ‘‘،’’بلی کا بچہ‘‘،’’گھونسلہ‘‘، ’’گھڑیال‘‘ ، ’’کوا‘‘ وغیرہ افسانوں کا شمار اسی قبیل میں ہوتاہے۔ غالباً شوکت حیات کی اسی خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظام صدیقی ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’شوکت حیات جدید تر نسل میں سب سے زیادہ منفرد، تیز گام اور تجربہ پسند افسانہ نگار ہیں۔ ‘‘ ۳
شوکت حیات کاعہد حاضر کے ان افسانہ نگاروں میں ہوتاہے جوتقلید کو اپنا مسلک نہیں بناتے بلکہ اپنی راہ خود تلاش کر سماج ومعاشرے کے اہم ترین موضوعات اور اس کے مسائل کو بڑی باریک بینی کے ساتھ قاری کے رو برو پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں موضوع ومواد کی کوئی قید نہیں ہے۔ بس جب جس شۂ ضرورت واہمیت کا اندازہ ہوا اپنے منفرد انداز میں قاری کے سامنے پیش کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شوکت حیات کے یہاں امیر، غریب، پیر ومرشد، چور اچکوں کے ساتھ چرند پرند بھی اپنی نمائندگی کرتے ہوئے بخوبی نظرآتے ہیں۔
شوکت حیات کی سب سے بڑی خوبی جو انھیں مابعد جدیدافسانہ نگاروں سے ایک الگ یا منفرد مقا م عطا کرتی ہے وہ ان کا اختصار میں جامعیت کا فن ہے۔ ان کے یہاں افسانے میں برتا جانے والا ہر لفظ اپنے اندر کئی دنیا یا جہان معنی رکھتاہے۔ شوکت حیات کی کہانی عام طورپر مختصر ہوتی ہے ۔ لیکن معنی ومفاہیم ایک وسیع کائنات اس میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ لمبے چوڑے منظروپس منظر کو اکثر وہ ایک یا دو جملے میں پیش کر دینے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ کوزے میں سمندر کو سمونے والا فنِ شاعری کا یہ وصف ان کے چند افسانوں سے ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے کہانی یا کردار کا پورا منظر وپس منظر عیاں ہوجاتاہے:
’’یہ ہنر اسے معلوم تھا کہ بچپن سے اب تک اکثر اوقات سنگین حالات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اسے خود کو بے جان اشیا میں تبدیل کردینا پڑتاتھا۔ ‘‘ (کوبڑ)
’’بے ٹھکانہ کبوتروں کا غول آسمان میں پرواز کر رہا تھا۔ ‘‘(گنبد کے کبوتر)
’’میں نے انھیں آخری رسوم کے لیے روپئے دے دیئے …آخران کا جائداد میں حصہ تھا…‘‘ (اپنا گوشت)
’’تو دیکھتا کیاہے…لااس کتّے کو میرے کتّے کے …‘‘ (مادھو)
’’اس جنازے کو رخصت کی اجازت دیجئے…‘‘ (مرشد)
’’نوجوانی کی بلند چوٹی کی طرف بڑھتا ہوااس کا بیٹااپنے ساتھیوں سے کوئز کے طور پر آرڈی ایکس کافل فارم دریافت کرتارہتاہے۔‘‘ (بھائی)
’’منا ن پتھر تھا اپنی جگہ صامت رہا۔
عامر لکڑ تھا چرمرا کر ٹوٹ گیا۔‘‘
بنادی طور پر اگر دیکھا جائے تو شوکت حیات کا فن افسانوی ترسیل کافن ہے۔ وہ اپنی کہانی کا تانا بانا ایسے ہی چھوٹے چھوٹے جملوں سے بنتے اور قاری کوایک خاص فضا اور ماحول سے آشنا کرنے کے لیے جزئیات وقاری پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ اس طرح شوکت حیات کی فن کارانہ جابک دستی ان کے طرزِ تحریر میں نمایاں ہوکران کی اہمیت وانفرادیت کو واضح کرتی اور صاحب طرز افسانہ نگار کے منصب پر فائز کرتی ہے ۔بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ:
’’شوکت حیات ہمارے ان افسانہ نگاروں میں ہیں جو تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں ۔ وہ ادب اورادبی مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے اور اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں ادبیت اورسماجی احساس وشعور دونوں پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے طے شدہ نتائج اورسیاہ وسفید میں بٹے ہوئے افسانے کی روایت سے گریز کرتے ہوئے سچائی کی تلاش اپنے طورپر جاری رکھی اور نئی کہانیوں کا رشتہ سامجی حقیقتوں سے جوڑا۔‘‘ ۴
دراصل شوکت حیات عہد حاضر کے ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جو اسی وقت قلم اتھاتے ہیں جب ان کو پختہ یقین ہوجاتاہے کہ افسانہ پوری طرح ان کے ذہن ودماغ میں نمو پا چکا ہے بس اب اس کو صفحہ قرطاس پرآنا چاہیے۔ آخر میں یہ باور کراتا چلوں کہ شوکت حیات نے اپنے افسانوں میں کوئی فارمولہ پیش نہیں کیاہے۔ اور نہ ہی اپنے قارئین کو کسی خاص نظریے کے تحت پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ بلکہ یہ قاری کی فکرا ور اس کی فہم پر چھوڑ دیاہے تاکہ وہ اپنی فہم وادراک کے مطابق معنی ومطلب اخذ کر سکے۔ اپنے افسانوی ادب کے حوالے سے شوکت حیات خود لکھتے ہیں:
’’میرے افسانے اس تناظر میں دیکھے جائیں کہ یہ وہ نئے جدیداور مابعد جدیدافسانے ہیں جودراصل ’’نامیاتی‘‘ پسندی کے سرمدی اوصاف سے مملو ہیں۔ ان افسانوں میں آج کے عہد اورآج کے انسان، اس کے مسائل کو نئے ڈھنگ ، لہجے ، تکنیک ، موضوع، فکری بصیرت اور تیور کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ ۵
حواشی
۱۔ شوکت حیات: گنبد کے کبرتر(افسانوی مجموعہ) ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ۲۰۱۰، ص ۱۱
۲۔ ایضاً ص ۱۴۴
۳۔ ایضاً ص ۳۱۳
۴۔ گوپی چند نارنگ (مرتب) اردو افسانہ روایت ومسائل، ایجو کیشنل بک ہاؤس ، دہلی ص ۶۸۰
۵۔ شوکت حیات : گنبد کے کبوتر(افسانوی مجموعہ) ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲۰۱۰، ص ۳۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید اختر انصاری
ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو
دہلی ہونیور سٹی
Leave a Reply
1 Comment on "شو کت حیات: مابعد جدیدیت کے آئینہ میں
"
[…] شو کت حیات: مابعد جدیدیت کے آئینہ میں […]