حافظ ابراہیم کی شاعری میں مرثیہ گوئی
مصر میں نپولین کے حملہ سے انقلاب کا ایک نیا باب کھلا جس نے زندگی کے ہر شعبہ کی کایا پلٹ کردی ۔عربی زبان وادب بھی نہضہ حدیثہ کے اس دور میں داخل ہوا اور عالمی تغیر پذیری کا ہم دوش ہوگیا۔نئی ایجادات و اختراعات کے نئے اقدار و اصول کی ترجمانی کے لئے ہمہ گیریت کو بہ روئے کار لانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن یہ عمل تدریجی ارتقاءاور قدیم پیرہن میں ہی طے ہونا تھا۔قدیم وجدیدکے اشترا ک کا یہ دور مصر میں عربی زبان کا سنہرا دور کہلانے کا حقدار ہے ۔اس نے نہ صرف مصر بلکہ عالم عربی کو فن کے بہترین شہسوار فراہم کئے ،حافظ ابراہیم بھی اس جیل نجیل کا ایک نمایاں فرد ہیں ۔
عربی زبان جب نہضہ حدیثہ کے دور میں قدم رکھ کررہا تھا تو مرثیہ نگار ی کافن ایک طویل مسافت طے کرکے پختگی کی نئی عبارت رقم کر چکا تھا ۔چنانچہ تیز ی سے بدلتے سیاسی وسماجی منظر نامے اور ملکی حالات سے پیدا شدہ مسائل اور موضوعات کے بارے میں اظہار کا اپنا زاویہ مقرر کرلینے میں کوئی تاخیر نہ کی۔اور حافظ ابراہیم اس ارتقاءکے سرخیل قرار پائے ۔حالانکہ وہ قدیم نہج سے یکسر انحراف نہ کرپائے مگر یہ بھی فن کا اعتبار بچائے رکھنے کے لئے نہایت ضروری تھا۔
حافظ ابراہیم ایک فطری شاعر تھے ۔ دس سال کی عمر میں ہی ان کی فطری شاعری سامنے آگئی تھی۔ انہوں نے یہ فن نہ کسی استاد سے سیکھا، نہ ادیب سے اورنہ اداروں میں داخلہ لیا۔ بلکہ اساتذہ کے اشعار کا مطالعہ کیا ،انہیں یاد کیا اوراسی کے نتیجہ میں ان کے اند ر شعری سلیقہ آیا۔ تحقیق وجستجو کے شوق میں اضافہ ہوا اور اپنے ہم عصروں سے آگے بڑھ کر کمال عروج کو پہنچے ۔
وہ زندگی کے ہر ہر لمحے میں امن وسکون اوراطمینان وفارغ البالی سے مکمل طورپر محروم رہے اور بے چینی وبے قراری ان کے لیے لازم حیات بنی رہی۔تلاش معاش، یتیمی کاداغ،ملک و قوم کی زبوں حالی کا احساس غرض کہ کوئی نہ کوئی فکر انہیں لاحق رہی،یہی سارے عنوانات ان کی شاعری کے موضوعات کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ۔ انگریزوں کی وحشت وبربریت کو انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا اور قوم ووطن کے درد نے انہیں قومی شاعر بنادیا۔
حادثہ دنشوای یہ ان کی شاہ کار نظم ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ عوام کے احساسات اورتوقعات کے بہترین ترجمان ، ان کی مایوسیوں اورپریشانیوں میں سب سے بڑے خیرخواہ تھے ۔ حافظ ابراہیم نے اپنے نغمات میں سرزمینِ مصر اور وادی¿ نیل کی عظمت کے گیت گائے ہیں۔چنانچہ مصر نے ایک شاعر نیل مانا ہے ۔
حافظ ابراہیم کے دیوان جو دوحصوں پر مشتمل ہے ۔ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری میں مرثیہ کااچھا خاصا حصہ موجود ہے ۔چنانچہ وہ خود بھی کہتے ہیں:
Êذا تصفحت دیوانی لتقرانی
وجدت شعرالمراثی نصف دیوانی
(تم میرادیوان پڑھو گے تو تمہیں میرے دیوان کا آدھا حصہ مراثی پر مشتمل ملے گا)
یہ کہنا شاید بے جا نہ ہو کہ شاعر نے مرثیہ گوئی میں سب سے زیادہ کمال پید اکیاہے ۔ اسی لیے امیر الشعراءاحمد شوقی حافظ ابراہیم کے بارے میں کہتے ہیں کہ کاش تم میرا مرثیہ کہتے تاکہ میرے مرثیہ کا حق ادا کرتے :
قد کنت ا¿وثرا¿ن تقول رثائی
یا منصف الموتی من الاحیائ
(اے مردوں کو حق دلانے والے میری تو خواہش تھی کہ تم میرا مرثیہ کہتے )
ان کے اکثر مرثیے ان کے دوستوں پر ہیں ۔مصر میں یہ دور سیاسی اتھل پتھل اور نرانزٹ کا دور تھا۔ اس منظر نامہ میں ان کے اشعار ایک بے داغ آئینہ ہیں جس میں ان کے ساتھ پوری قوم کے درد و الم اور حسرت ویا س کی تصویر نظر آتی ہے ۔سیاسی لیڈر ہو ،دینی پیشوا ہو ،سماجی مصلح ہو، الغرض کوئی بھی معاصر اور قدآورشخصیت ایسی نہ تھی جن کو انہوں نے اپنے مرثیے میں جگہ نہ دی ہو ۔
جب انہوں نے شیخ عبدہ کا مرثیہ کہا ہے تو وہ اتنا ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے کہ دین ،علم اور دنیا کے فلسفہ سے ان حالات کوبیان کرتے چلے جاتے ہیں جو مسلمانوں کو لاحق ہیں:
سلام علی الÊسلام بعد محمد
سلام علی ا¿یامہ النظرات
علی الدین والدنیا علی العلم والحجا
علی البر والتقوی علی الحسنات
لقد کنت ا¿خشیٰ عادی الموت قبلہ
فا¿صبحت ا¿خشیٰ ا¿ن تطول حیاتی
(محمد کے بعد اسلام کی سلامتی ہو، محمد کے بعد اسلام کے آنے والے حالات پر سلامتی ہو۔ دین ودنیا پر سلامتی ہو علم وعقل پر سلامتی ہو ، برو تقویٰ اور نیکیوں پر سلامتی ہو۔مجھے ان سے پہلے اپنی موت کاندیشہ تھا۔ اوراب اندیشہ ہے کہ مجھے اور زندہ رہنا پڑے گا)
ان امانتوں کا بوجھ بھلا کون اٹھا سکتاہے جو امام محمد عبدہ چھوڑ گئے ہیں؟ چنانچہ شاعرایسے کسی شخص کو پانے کے تعلق سے مایوس ہے :
مددنا Êلی الا¿علام بعدک راحنا
فردت Êلی ا¿عطافنا صفرات
جالت بنا تبغی سواک عیوننا
فعدن وا¿ثرن العمی شرقات
(ہم نے تمہارے بعد اپنے ہاتھ بڑے بڑے لوگوں کی طرف بڑھانے کی کوشش کی مگر انھیں نامراد ہی آنا پڑا۔ ہماری آنکھیں تمہارے علاوہ کوڈھونڈتی رہیں۔ مگر وہ نامراد اواپس آئیں اور پھرعدم تلاش وجستجو کو ترجیح دی)
وہ اپنے جذبات کو لے کر حدود مصر سے نکل کر شرق اسلامی کے ملکوں تک بھی پہنچے جسے رنج وغم کے آنسو¶ں سے اسے بھی سیراب کرنا چاہتے ہوں:
بکی الشرق فارتجت لہ الا¿رض رجة
وضاقت عیون الکون بالعبرات
ففی الھند محزون وفی الصین جازع
وفی مصرباک دائم الحسرات
وفی الشام مفجوع وفی الفرس نادب
وفی تونس ماشئت من زفرات
بکی عالم الÊسلام عالم عصرہ
سراج الدیاجی ھادم الشبھات
(پورامشرق روپڑا اوران کی وجہ سے زمین پر لرزہ طاری ہے کائنا ت کے آنسو خشک ہوچکے ہیں۔ ہندستان میں ہر شخص رنجیدہ ہے ،چین میں ہرشخص پر گھبراہٹ طاری ہے ، مصرمیں لوگ حسرت سے آہ وبکا کر رہے ہیں۔ شام میں لوگ مصیبت سے دوچار ہیں، ایران میں ہائے ہائے مچی ہے اور تیونس آہیں بھر رہا ہے ۔ پوراعالم اسلام اپنے زمانے کے عالم پر رورہا ہے جو تاریکیوں کا چراغ اورشبہات کو دور کرنے والا تھا)
شیخ سلیم بشری کا مرثیہ کہتے ہوئے کہتے ہیں:
ا¿یدری المسلمون بمن ا¿صیبوا
وقدواروا(سلیماً) فی التراب
ھوی رکن الحدیث فای قطب
لطلاب الحقیقة والصواب
(موطا¿مالک) عز (البخاری)
ودع ﷲ تعزیة ( الکتاب)
قضی الشیخ المحدث وھو یملی
علی طلاب فضل الخطب
ولم تنقص لہ التسعون عزما
ولا صدتہ عن درک الطلاب
(مسلمانوں کو اندازہ ہے کہ انھیں کس کا غم لاحق ہے اورانھوں نے سلیم کو زمین میں دفن کر دیا۔ وہ علم حدیث کے ایک رکن تھے ۔ اب حقیقت اورراہِ راست کے متلاشی لوگوں کا مرجع کون ہوگا۔ چاہے وہ م¶طا امام مالک ہو یا صحیح بخاری ۔ اور کتاب کو تو جانے ہی دیجئے ۔ وہ شیخ الحدیث اب نہیں رہا جو اپنے طلبہ کو قول فیصل املا کراتاتھا۔ نوے سال کی عمر میں بھی اس کے عزائم میں کمی نہیں آئی اور نہ یہ عمر انھیں بعید ترین چیزوں کوحاصل کرنے سے باز رکھ سکی)
قدیم ناقدین الفاظ پر بہت دھیان دیتے تھے ۔ چنانچہ الفاظ اورمعانی کے قضیے نے انھیں بہت طویل زمانے تک الجھائے رکھا۔ اس کا سہرا حافظ کے سر جاتاہے ۔ انہوں نے معانی کے علم کوخاص عام مشترک کی اصطلاح دی ہے بعد کے لوگوں نے اس کی پیروی کی۔
حافظ ابراہیم قدما ءکی طرف جھکا¶ رکھتے تھے ۔ اس طورپر کہ وہ خوبصورت الفاظ کو معانی پر ترجیح دیتے تھے ۔ خلیل مطران کے بقول وہ ایک شعراتنی محنت سے کہتے تھے کہ اس کے حل میں بڑے بڑے نحویوں کے پسینے چھوٹتے تھے ۔ وہ خوبصورتی کواثرآفرینی پر ترجیح دیتے تھے ۔ خوبصورت الفاظ کے تئیں ان کی دیوانگی معنی سے کم نہیں تھی۔
جہاں تک حافظ کے مرثیے کی زبان کا تعلق ہے تو انہوں نے قدما ءکے راستے پر چلتے ہوئے الفاظ کی شیرینی کو اس کی معنویت پر ترجیح دی ہے ۔ وہ قدماءسے متاثربھی تھے اور ان کے اشعار پر تضمین بھی کرتے تھے ۔ ابونواس ، ابوالعلاالمعری، متنبّی اور ابو تمام جیسے عظیم شعراسے وہ کافی متاثر تھے ۔ حافظ ابراہیم اپنی شاعری تصویر کشی میں تشبیہ استعارہ اوررمز کا سہارالیتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابراہیم نے مرثیہ کو ایک شعری فن کے طورپر برتاہے ۔ اس لیے کہ فن مرثیہ ان کی طبیعت کے موافق ہے جس نے کبھی اپنے بچپن سے ہی فقر اوربدبختی کے علاوہ کچھ نہ دیکھا ہو ۔وہ چوں کہ اپنی دوستی میں مخلص تھے ۔ لہٰذا انھوں نے دوستوں کا مرثیہ پوری سچائی اورخلوص سے کہا۔ مرثیے میں ایک طرف وہ اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری طرف قوم کے دل پر گذرنے والے غم کا رونا بھی روتے ہیں۔ ان کا دل ایک شفاف آئینہ کی طرح تھا جس میں خود ان کا اورقوم کا رنج صاف جھلکتاہے ۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!