مثنوی ”گلزار نسیم“ کاسرسری جائزہ
جگر تجمل بلہ پوری*
پنڈت دیا شنکر کول جن کاتخلص نسیم تھا‘ پنڈت گنگا پر شاد کول کے بیٹے خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد اور لکھنو¿ کے رہنے والے تھے ۔۱۱۸۱ءمیں پیدا ہوئے اور ۵۴۸۱ءمیں وفات پاگئے ۔پنڈت دیا شنکر نسیم نے دو تصانیف ضبط تحریر میں لائی ہیں۔ ایک ” دیوانِ نسیم“ اور دوسری” گلزار نسیم“ دیوانِ نسیم بہت مختصر ہے ۔ اس میں مکمل ونا مکمل غزلوں کی تعداد کم و بیش۴۸ ہے ۔لیکن جس تصنیف نے بعداز مر گ نسیم کو اردو ادب میں زندہ رکھا وہ “ گلزارنسیم“ ہے۔
گلزار نسیم کے جائزے سے پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ اس مثنوی کے مآخذ کیا ہیں؟کیونکہ مآخذ کے سلسلے میں صاحبان علم نے جو بحثیں کی ہیں ان سے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ خود نسیم نے اپنی مثنوی کے تین شعروں میں مآخذ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ :
افسانہ گلِ بکاولی کا
افسوں ہو بہارِ عاشقی کا
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اردو کی زبان میں سخن گو
وہ نثر ہے داد نظم دوں میں
اس مے کو دوآتشہ کروں میں
نسیم کا یہ اشارہ افسانہ گلِ بکاولی کے اردو نثر میں اس ترجمے کی طرف ہے جسے منشی نہال چند لاہوری نے فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر گل کرسٹ کی فرمائش پر عزت اللہ بنگالی کے فارسی قصے کو ” مذہبِ عشق“ کے نام سے کیا تھا۔نسیم نے نہال چند لاہوری کے اسی نثری قصے کو اردونظم میں حسبِ ضرورت ڈھال کر گلزارِ نسیم کے نام سے لکھا۔ گلزارِ نسیم کابنیادی مآخذ یہی نثری داستان ”مذہبِ عشق “ ہے اور خودمذہبِ عشق سے عزت اللہ بنگالی کے فارسی قصہ افسانہ گل بکاولی پر مبنی ہے ۔ نسیم کے اتنے واضح اشاروں کے بعد مآخذ کی بحث ختم ہونی چاہیے تھی لیکن جب گلزارِ نسیم منظرِ عام پر آئی تویہ بات سامنے آئی کہ نسیم نے ریحان الدین کی اردو مثنوی ”خیابانِ ریحان“ سے بھی استفادہ کیا تھا۔نسیم نے ریحان الدین کی مثنوی سے استفادہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن جب ” گلزارِ نسیم“ سے ”خیابان ریحان“ کا مقابلہ کیا جاتاہے تو خیال اور اشعار سے یہ اندازہ پیدا ہوتاہے کہ نسیم نے اس سے بھی استفادہ کیا ہے ۔
خیابانِ ریحان گلزارِ نسیم
اور کہنے لگا کہ واہ جی واہ
کہنے لگا کیا مزا ہے دل خواہ
یہ تو کوئی اور شے ہے واللہ
اے آدمیِ زاد واہ وا واہ
ہر جا اسے ڈھونڈتی چلی وہ
ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
کوچہ کوچہ گلی گلی وہ
ہر شاخ پہ پھولتی پھری وہ
ان اشعار کے تقابلی مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نسیم نے ریحان کی مثنوی سے استفادہ کیا ہے ۔
جہاں تک گلزارِ نسیم کے قصے کاتعلق ہے تو ہ تین مرحلوں سے گزرتا ہے ۔ایک مرحلہ ایسا بھی آتاہے جب تاج الملوک اورگلِ بکاولی کی شادی ہوتی ہے ۔یہاں ایک طرف قصہ ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ نسیم کی فنی مہارت ہی تھی کہ اسے فوراً بعد ہی دوسرا اور تیسرا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔پہلے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ظاہری طور کو ئی ربط نہیں ہے لیکن اواگون کا ہندو عقیدہ اس میں ربط کا رنگ گھول دیتاہے ۔ کہتے ہیں کہ درےائے نربدا کے منبع پر امر کنٹک نامی ہندوو¿ں کی ایک بڑی تیرتھ گاہ ہے وہاں گلِ بکاولی کے قلعے اور باغیچے کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ڈاکٹر گیان چند کے مطابق گلزارنسیم کے قصے کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے ۔فرانسیسی ادیب گارسیں دتاسی نے بھی فرانسیسی زبان میں ” گلزارِ نسیم“ کا ترجمہ ”Doctrine Del Amoor“کے نام سے کیاہے ۔
جب نسیم نے مثنوی مکمل کرلی تو اپنے استاد آتش کو اصلاح کے لیے بھیج دی۔اس وقت مثنوی بہت طویل تھی ۔آتش نے مثنوی کو مختصر کرنے کے لیے صلاح دی اور نسیم نے استاد کی بات مان کر مثنوی کو مختصر کرکے بے نظیر بنادیا۔آتش سے نسیم نے کچھ سیکھا ہویا نہ سیکھا ہو لیکن مرصع سازی اور بندشِ الفاظ کو نگوں کی طرح جڑنے کاسبق ضرور سیکھ لیا تھا۔اکثر نقاد یہ کہتے ہیں کہ اس مثنوی کے قصے کے مختلف اجزاءمیں باہمی ربط نہیںہے ۔یہ بات درست نہیںہے ۔دوسری مثنویوں میں جذبات اور مناظر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے لیکن نسیم نے اختصار سے کام لیا ہے ۔منظر کشی میں بھی اختصار اور حسنِ ادا کی صورت برقرار رہتی ہے۔
کہ جنگلے میں جاپڑا جہانِ گرد
صحرائے عدم بھی تھا جہان گرد
سایے کو پتا نہ تھا ثمر کا
عنقا نام جانور کا
تیورا کے وہیں وہ بار بردوش
بیٹھا تو گرا‘ گرا تو بے ہوش
اس مثنوی میں ادبی لحاظ سے ایک کمزوری یہ ہے کہ جب تاج الملوک نیند میں محوِ گل بکاولی کاپردہ اٹھاتا ہے تو اس کی نظر سوئی ہوئی گلِ بکاولی پر پڑتی ہے ۔اس منظر کو نسیم نے اپنے الفاظ میںیوںقید کرکے تھوڑی سی فحاشیت کامظاہرہ کیا ہے ۔
پردہ جو حجاب سا اٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشمِ نرگسی تھی
چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی
برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی
لپٹے جو بال کروٹوں میں
بل کھاگئی تھی کمر‘ لٹوں میں
چاہا کہ بلا گلے لگاتے
سوتے ہوئے فتنے کو جگاتے
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی
ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی
گلزارِ نسیم کاوہ حصہ فنی اعتبار سے بہت عمدہ ہے جس میں گلِ بکاولی کے گم ہو نے کا پتا بکاولی کو چلتا ہے ۔ گلزارِ نسیم میں تشبیہ اور استعار ات کا خوبصورت استعمال ہوا ہے ۔
گلزار نسیم کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ نسیم کا زو ر قصہ بیان کرنے کے علاوہ لکھنو¿ کے پُر تکلف انداز میں ایک منفرد چیز تیار کرنا تھا۔ مثنوی کے پہلے شعر سے لے کر آخری شعر تک تواتر کے ساتھ یہ اندازِ بیان برقرار رہتا ہے اور اس طرح یہ گلزارِ نسیم لکھنوی تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔اس مثنوی کو لے کر ایک معرکہ”معرکہ چکبست و شرر“ وجود میں آیا۔
٭٭٭
Masnavi “Gulzar-e-Naseem” ka Sarsari Jayza, by Gigar Tajammul Ballapuri, P. No. 89 to 90
* پی۔ایچ۔ڈی۔اسکالر شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر کشمیر
Leave a Reply
2 Comments on "مثنوی ”گلزار نسیم“ کاسرسری جائزہ"
[…] مثنوی ”گلزار نسیم“ کاسرسری جائزہ […]