غالب کی ایک غزل’’ عشق پر زور نہیں‘‘ پر وہاب اشرفی کی تنقید

گلزار احمد*
ماہنامہ آجکل نئی دہلی کے فروری ۲۰۱۶ شمارہ میں گوشۂ غالب کے تحت پروفیسر وہاب قیصر کامضمون بعنوان’’غالبؔ کی ایک غزل اور لاتیقن‘‘ پڑھنے کو ملا ۔ مضمون میں غالبؔ کی غزل ؂ نکتہ چین ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے۔ کی تشریح وتوضیح پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مذکورہ غزل میں لایقینی ، تشکیک یا پھر تذبذب کی کیفیت کو اجاگر کرتے ہوئے مضمون نگار رقمطراز ہیں:
’’یہ غزل پوری طرح سے لاتیقن پر کاربند ہے۔ ہر شعر میں شبہ اور تذبذب کا غلبہ ہے پوری غزل غیر یقینی ، بے اعتباری اور لاتیقن کی کیفیت کا شکا رہے۔ ‘‘ ۱؂
(وہاب قیصر ۔ ’’غالب کی ایک غزل اورلاتیقن‘‘مشمولہ آجکل (دہلی)شمارہ فروری ۲۰۱۶)(ص۔۱۷)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مضمون نگار نے آسانی کے ساتھ اس غزل کے تمام اشعار پر لاتیقن اورتشکیک کا لیبل چسپاں کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس مضمون نے ہی مجھے غالبؔ کی اس غزل کے بارے میں چند باتیں لکھنے کے لیے اکسایا۔ مضمون پڑھنے کے بعد جو بات سب سے پہلے میرے ذہن میں آئی وہ یہ کہ اس غزل میں یا غزل کے کسی شعر میں تشکیک ، تذبذب کی کیفیت نہیں ملتی۔ تاہم ایک طرح کی بیزاری ، مایوسی، مجبوری، بے بسی اور لاچاری کی کیفیت ضرور ملتی ہے ۔ غزل کے تمام اشعار میں ایک طرح کا معنوی ربط یا تسلسل ملتاہے۔ غزل اس طرح ہے:
نکتہ چین ہے، غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
اس پر بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیاہے تو چھپائے نہ بنے
اس نزاکت کا بُرا ہو، وہ بھلے ہیں تو کیا !
ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھوں، کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں، کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گراہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
غزل کے مطلع میں روئے سخن اس محبوب کی طرف ہے جس پر عاشق کی آہ وزاری ، نالوں اورفریاد کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا ۔ عاشق اپنے محبوب کے برتاؤ اورسلوک Treatmentسے قدرے بد دل اور نالاں نظرآتاہے ۔ اس کی آہ وزاری اورفریاد وفغاں اپنی تاثیر کھوچکی ہے ۔ اسے جس شخص سے لگاؤ ہے نکتہ چینی اس کا شعار ہے۔ عاشق کو حقیر گرداننا اور تمسخر اڑانا اس کا شیوہ ہے۔ بات بات پر عاشق کو اپنی کم مائیگی اورحیثیت یاد دلاتاہے کہ اس (محبوب) کے سامنے آپ کی (عاشق کی) وہ حیثیت ہی نہیں کہ آپ کے پیغام محبت کو قبول کیا جائے۔ عاشق جب بھی ہجر اورجدائی کے ایام کی بپتا سنانا چاہتاہے عاشق جب بھی اپنے مقصد سے محبوب کوآگاہ کرانا چاہتے ہے اپنی حالت زار سے واقف کراناچاہتاہے محبوب تحقیر آمیز کلمات سے مخاطب کرتاہے۔ مایوسی ، بددلی اورمجبوری کے عالم میں عاشق نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس شخص کے سامنے دل کی حالت بیان نہیں کی جائے جس کاشیوہ حقارت اور دوسروں کو اپنی نگاہوں سے گرانا ہو۔ بات بنانے کی ان تھک کوشش کے باوجود جب مراد اورمقصد کے حصول میں دشواری ہو تو اس طرح کے تاثرات اوراحساسات کا اظہار فطری ہے ان احساسات اورتاثرات کا اظہار غزل کے اس پہلے شعر میں بھر پور انداز میں ہواہے۔ یہاں ہمیں تشکیک ، تذبذب کی بجائے ایک طرح کی ناامیدی اوربے دلی کی سی کیفیت نظرآتی ہے۔
غزل کے دوسرے شعر میں وصل کی خاطر بلانا پڑتاہے۔ وصل پر اسے آمادہ کرنے کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ آہ وزاری اور فریاد وفغاں سے کام لینا پڑتا ہے بات سنانے کی کوشش میں طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔بہر طور محبوب کسی طرح وصل اور نظرالتفات پر آمادہ نہیں۔ اس کی کیفیت وہ نہیں جو عاشق کی ہے ۔ ایک طرف بے قراری، بے سکونی اور وصل کی شدید خواہش ہے دوسری طرف ملن کی کوئی مجبوری نہیں۔ عاشق کی کم مائیگی کا شدید احساس کرتے ہوئے محبوب ٹس سے مس نہیں ہوتا یہاں عاشق اپنے دلی جذبات اورخواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا متمنی ہے کہ معاملہ دونوں طرف برابر کا ہو۔ جو حالت ادھر کو ہے کاش کہ ادھر کو بھی ہو۔ ادھر بے قراری اور بے چینی کی حالت ، محبوب کے ملن اور وصل کی شدید خواہش ، محبوب کے دیدار کی حسرت۔ ستم ظریفی کہ اُدھر ایسی کوئی بات نہیں۔ دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے عاشق اپنی شدید تمنا اورخواہش کا اظہار کرہی جاتاہے کہ کاش جو حالت میری ہے اُ س شخص کی بھی ہو تاکہ وہ دیدار اوروصل سے نوازے۔ کاش محبوب کے دل کو بھی عاشق کے دیدار کے بغیر قرار اورچین نہ پڑے۔ تاہم اس بات کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں کیوں کہ یہ شخص نکتہ چین بہت ہے ۔ اس شعرکے مطالعے کے بعد بھی تشکیک ، تذبذب اور لایقینی کی کوئی کیفیت نظر نہیں آتی۔ تاہم ایک طرح کی شدید خواہش اورتمنا کا اظہار ضرور ہوا ہے جو ہر محبت رکھنے والے دل کی ہوتی ہے ۔ بہرحال یہ ایک فطری امر ہے۔
کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
عاشق کی آہ وزاری فریادوفغاں کو نکتہ چین محبوب کھیل پر محمول کرتاہے ۔ یہاں بھی مجبوری اور لاچاری کی شدید کیفیت سامنے آتی ہے۔ شاید ہی کوئی عاشق چاہے کہ اس کا محبوب عشق کو کھیل سمجھ کر نظرانداز کردے۔ کھیل سمجھنے سے مراد ہے کہ کسی چیز کی قدروقیمت ، توقیر یا وقعت نہیں۔ محبوب کی نظر میں عاشق کے دعویٰ عشق کی وقعت نہیں ۔عاشق کے احساسات اورجذبات کی کوئی توقیر نہیں محبوب اس آہ وزاری اوردعوےٰ عشق کو سرسری لیتاہے اور اس بات سے یوں ہی گذرجاتاہے ۔ مجبوری اور بے بسی کے عالم کی انتہا دیکھیے کہ عاشق اپنے عشق کو جسے اس کا محبوب کھیل سمجھتاہے ،محبوب کے ستانے ، تڑپانے اور ترسانے کو قبول کرتاہے کہ اس کے بنا مجبو ر اور بے بس دل کو چارہ نہیں۔ تعلق کوکسی طرح بحال رکھنے کی خواہش میں اپنی تحقیر اوربے عزتی کو گوارا کر نا عشق کی انتہا ہے۔ چاہے یہ تعلق بے عزتی اور تحقیر کی قیمت پر ہی بحال کیوں نہ ہو۔کاش اب ایسا ہو کہ محبوب ستانا چھوڑ نہ دے۔ ظلم ڈھانا بند نہ کرے۔ تعلق کسی نوعیت کا بھی ہو۔ وہ کھیل سمجھ کر تڑپائے مگر تڑپائے بھی ۔ اس کج ادائی میں بھی اب سکون کی کیفیت نظرآتی ہے۔ مذکورہ شعر میں بھی ایک طرح کی اداسی ، بے بسی اوارمجبوری کی شدید کیفیت نظرآتی ہے باوجود تشکیک اورلاتیقن کے:
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
محبوب اپنے عاشق کی بجائے غیروں (رقیبوں) سے راہ ورسم رکھتاہے ۔ عاشق کی بجائے غیروں پر نظر التفات دوڑاتاہے۔ یہاں تک کہ خط بھی غیروں کو ہی لکھتاہے۔ اب کے جو خط محبوب نے کسی اورشخص کو لکھاہے اس کے بارے میں عاشق کو معلوم پڑتاہے ۔ معلوم پڑنے پر جو کیفیت اور احساس کیاہے اسی کا اظہار اس شعر میں ہواہے ۔ شاید ہی کوئی عاشق ہو جو یہ بات گوارا کرے کہ اس کے محبوب کی رسم وراہ غیروں سے بھی ہو،اور جب محبوب کی خط وکتابت اوروں سے ہوتو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ عاشق بہر حال گوارا نہیں کرسکتا۔ عاشق نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرہی لیاہے کسی نہ کسی صورت میں وہ محبوب کواس سے باز رکھنا چاہتاہے ۔ غیر نے محبوب کے لکھے خط سے جو معاملہ کیاہے اس سے محبوب کے ناموس پر حرف آنے کا احتمال ہے۔ اپنے محبوب کی ناموس کا خیال کرتے ہوئے عاشق اسے خط لکھنے سے باز رکھنا چاہتاہے کیوں کہ غیرنے خط کے ساتھ غیر مناسب معاملہ کیاہے ۔ پھولے نہیں سماتا کہ شہر کاسب سے حسین شخص جسے غالبؔ اپنا محبوب رکھتا ہے خط لکھتا ہے۔ خط کو جیب کی بجائے ہاتھ میں رکھتاہے یوں خط پوشیدہ نہ ہوکر عیاں ہے راہ چلتے لوگوں کے دیکھنے کا احتمال بہر حال موجود ہے جس سے محبوب کی بدنامی ہوسکتی ہے اسی خدشے کا ادراک کرتے ہوئے عاشق محبوب سے ایسے کم ظرف (غیر) کو خط نہ لکھنے کی ترغیب دیتاہے کیوں کہ غیر محبوب کی ناموس اورعزت کا سرے سے ہی خیال نہیں کرتا اور محبوب کی بدنامی پر آمادہ نظرآتاہے خط ہاتھ میں لیے راہ چلنے سے راز کھل جائے گا کہ محبوب نے اس شخص کو نامہ لکھاہے یوں لوگ واقف ہوں گے کہ محبوب اس شخص پر مہربان ہے اور راہ ورسم غیر سے اس قدر ہے نتیجتاً بدنامی ہوگی۔ اس کے بر خلاف محبوب اپنے عاشق کو خط لکھے جسے اپنے محبوب کی ناموس اورعزت کا از حد خیال ہے مگر ستم ظریفی محبوب اپنے عاشق کو ستاتاہے حقارت کی نگاہ سے دیکھتاہے اس کے عشق کو کھیل سمجھتاہے۔ مذکورہ شعر کی توضیح کے بعدیہ بات سامنے آتی ہے کہ محبوب کو غیر کو خط لکھنے سے باز رکھنے میں یا تو واقعی ناموس کاخیال ہویا پھر حسد اور رشک کی حدتک بات کہہ گئی ہو۔ حسد، بغض اورعداوت کے جذبات ابھرآئے ہوں کہ غیر کی بجائے کاش محبو ب اپنے عاشق کو خط لکھے۔ دوسروں پر مہربان ہونے کی بجائے اپنے عاشق پر مہربان ہواورغیر کی بجائے عاشق سے راز ونیاز کی باتیں ہوں جس سے عاشق کے بیقرار اور ستم رسیدہ دل کو قراراورسکون میسر آئے۔ دوسری جانب اس شعر کو عاشق کی صدق دل پر محمول کریں تو معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ چوں کہ غیر آپ کی عزت کا خیال نہیں کرتا۔ اگر خط لکھنا ہو تو مجھے لکھ کہ مجھے آپ کی ناموس اور عزت کا پاس ہے۔ رقابت اور رشک کا عنصر کارفرما ہے عاشق کی نیت پر بہ یک وقت اعتبار بھی ہوتاہے اورکچھ کچھ شک بھی۔
اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا!
اس شعر میں خوبصورت انداز سے لاچاری اور بے بسی کا اظہار کیا گیاہے۔ اور محبوب کی نزاکت اورخوبصورتی کا بیان ہے۔ ہو نہ ہو کہ دل کچھ اس صورت تڑپے کہ ان کو پیار آہی جائے۔ ہونہ ہو کہ عاشق کی آہ وزاری اورنالوں کا کچھ اثر ہو۔ محبوب اپنے عاشق پر مہربان ہوکر اسے وصل سے نوازے اور اس کے پہلو میں بیٹھے۔ تاہم مصیبت یہ ہے کہ محبوب حد سے زیادہ نازک اندام ہے۔ اتنا نازک کہ چھوئے یا مس Touchکرنے سے چورچور ہونے کا ڈرہے۔ شیشہ سے نازک بدن والا محبو ب کبھی کبھار پہلو میں ہواور دل چاہے کہ محبوب کو چھواجائے مگر افسوس نازکی کا ادراک کرتے ہوئے اورٹوٹنے کا خوف کرتے ہوئے عاشق نہیں چھوسکے گا ۔ یہاں ایک طرح سے خود کو دلاسہ دینے کی کیفیت بھی ملتی ہے اس چیز کو تصور میں لاتاہے جو فی الواقع نہیں ہوتا ہے۔
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
بوجھ دو طرح کا ہوسکتاہے ایک عشق اوردوسرا زندگی۔ جیسا کہ میرؔ نے کہاہے:
عشق میرؔ اک بھاری پتھر ہے
کب تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
پہلی بات بوجھ سے مراد کیاہے اور کون سی بات عشقکو بوجھ یا بار بنادیتی ہے۔ عشق کو بوجھ محبوب کی نارسائی ، کج ادائی، بے التفاتی بے وفائی اورستم شعاری بناتی ہے ۔ عاشق اس عشق کے میدان میں کودپڑا ہے جس میں بے وفائی ہے آ ہ وفغاں ہے نکتہ چینی ہے۔ غیروں سے خط وکتابت ہے عاشق کا عشق کو کھیل کود سے زیادہ اہمیت نہ دینے والے محبوب سے سروکارہے۔ دل کے ہاتھوں مجبور عاشق میدان عشق کا شہسوار اب میدان چھوڑ کے جانہیں سکتاکہ میدان چھوڑنا بزدلی کی دلیل ہے ۔ دوسری بات یہ کہ وہ عاشق ہے جو اس بات پر یقین رکھتاہے کہ’’… عشق سے زیست کا مزاپایا۔‘‘ ورنہ بوجھ ایک مرتبہ سرسے گرگیا تو اٹھانے کی حماقت کیوں ہوتی ۔ اسی لیے کہ عشق سے ہی زندگی جینے یا کرنے کا سلیقہ آتاہے اور دوسری بات محبوب کی بے وفائی اورکج ادائی سے گھبرانا حماقت کی دلیل ہوگی ۔ لہٰذا کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے۔ مطلب عشق جیسے بوجھ کوسہہ لینا عاشق کا مقدر ہے عاشق ناتواں ہے میرؔ کی طرح :
کیا کیا فتنے سر پہ اپنے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب وتواں کو عشق کا مارا جانا ہے
اور چوں کہ عشق سے ہی زندگی کا مزاہے یہ بات اس بوجھ کو دوبارہ اٹھانے کے لیے اکساتی ہے تاہم بوجھ پھر سر سے گر جاتاہے بوجھ اٹھانے یعنی برداشت کرنے کے خوبصورت کام میں عاشق مشغول ہے۔
بوجھ زندگی کا ہوسکتاہے زندگی جیسی خوبصورت شے کو مصائب وآلام بوجھ بتادیتے ہیں۔ زندگی جب اس شکل سے گزرے تو بوجھ کیوں نہ ہوکہ :
رہی نہ کوئی طرز ستم آسمان کے لیے
دیگر گوں حالات زندگی کو بوجھ بنادیتے ہیں۔ تاہم حالت کچھ بھی ہو زندگی سے فرار ممکن نہیں کہ فرار بزدلی پر منتج ہوتی ہے۔ زندگی جیسی کہ ہے بہر حال گزارتی پڑتی ہے۔ جس کے لیے اخترالایمان نے ’’گزران‘‘ کا لفظ استعمال کیاہے۔ تاہم بوجھ سہنے کی ہمت اورحوصلہ عاشق کھو چکاہے لیکن کیا کیجیے گا کہ جب تک سانس ہے بوجھ گواراکرناپڑتاہے کہ’’ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔‘‘بوجھ اٹھانے کی کوشش میں ہر بار ناکامی ہاتھ آتی ہے ۔ زندگی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ صبر کا یارا نہیں ہوتا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
(ذوقؔ )
سلسلہ رقص حیات زہر پینے کے باوجود بھی ختم نہ ہوتو خودکشی کیوں کر کی جائے۔ بہرحال زندگی کا یہ بوجھ سہنا پڑتاہے۔ ؂
زہر پی کر بھی ملی کس کو یہاں غم سے نجات
ختم ہوتا ہے کہیں سلسلہ رقص حیات
(خلیل الرحمن اعظمی)
زندگی بنانے کی لاکھ کوشش کے باوصف زندگی نہیں بنتی۔ زندگی بتانے سے مراد زندگی کے خوشگوار پہلوؤں کا احساس کرتے ہوئے ،زندگی بسر کرنا۔
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
محبوب کے حسن اور نازکی کا باہمی ربط ہے ۔ محبوب کے حسن کی تاب عاشق نہیں لاسکتا۔ حسن کی تاب لاناسب کے بس میں نہیں ؂ موسیٰ حسن ازل کی تاب نہ لاکر بے ہوش ہوگئے تاہم اصرار عاشق کا شدید سے شدید تر تھا کہ اے میرے محبوب اب مجھے دیدار سے نواز حالاں کہ محبوب نے لاکھ منع کیا تھا کہ اے موسیٰ تجھ میں میرے حسن کی تاب لانے کی سکت نہیں ۔ میرے نور کو دیکھنے کی تاب نہ لائے گا۔تاب نہ ہو کر بھی حسن ازل کے دیدار کی شدید طلب بہر حال عاشق کوہوتی ہے :
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
(اقبالؔ )
عاشق صاحبِ ادراک ہے محبوب کے چہرے سے پردہ اٹھانے کی جرأت تو کرتاہے اگر چہ معلوم ہے کہ محبوب نے ایسا پردہ کیاہے جس کو اٹھانا ناممکن ہے۔ پردوں میں جو ذات جلوہ بکھیرتی ہے عاشق اس ذات کو دیکھنے کا بے حد اشتیاق ہے مگر اسے معلوم ہے کہ اتنی ذات حسین ہے کہ حسن کی تاب نہیں لاسکتے۔ لہٰذا قربتیں دوریوں میں بدل جائے :
تری قربتیں بھی ہیں دوریاں یہ کرشمۂ کشش بدن
چہ قیامتے نہ می رسی ز کنا رمن بہ کنار من
(فراقؔ )
پردہ ہٹانے کا شوق تو اس لیے بھی ہوتاہے کہ :
چاک پردے سے یہ غمزے تو اے پردہ نشیں
ایک میں کیا سبھی چاک گریباں ہوئے
(مومنؔ )
اس قدر پردہ چھوڑنے کے باوجود بھی جلوہ گری ہوتی ہے۔ اب جلوہ گر ذات کے دیدار کی حسرت دل میں ہی رہ جاتی ہے کہ دیدار کی تاب نہیں۔ پردہ چاک ہوگا تو دیکھنے والا اپنے ہوش وحواس کھو دے گا۔ کائنات کے تمام مظاہر اسی ذات کے نوراورحسن کا عکس ہیں۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
موت کی راہ اگر نہ بھی دیکھوں موت کا متمنی نہ بھی ہوں جب بھی موت آکے رہے گی موت ایسی کہ اپنے وقت پہ آکے ہی رہ جاتی ہے کہ موت کا اک دن معین ہے ، موت کا مزا ہر ذی روح کو بہر حال چکھنا ہے۔ اس کے برعکس اگر میرادل چاہے کہ آپ میرے پہلو نہ ہوں کیوں کہ آپ کا پہلو میں ہونا موت کے ہی مترادف ہے کہ حسن کی تاب نہیں آپ سامنے ہوں گے تو میں بے ہو ش ٹھہراہوش وحواش کھو بیٹھوں تاہم آپ کو بلائے بغیر میرے دل کو چین نہ پڑے گااگر چہ آپ کا آنا میرے لیے کسی موت سے کم نہ ہوگا مگر کیا کیجیے کہ اس موت کو دعوت دئے بغیر چارہ نہیں کہ دل نہیں چاہے کہ آپ میرے پہلو میں نہ ہوں۔ دل کواس بات کا شوق ہے کہ آپ ہمہ وقت میرے روبرو ہوں۔ مطلب موت کو اگر نہ بلایا جائے جب بھی آئے گی اورآپ کا آناموت کے ہی مترادف ہوگا۔اگر چاہوں بھی کہ تم نہ آؤ کہ آنا موت کے برابر ہے تو بلائے بغیر نہ رہ پاؤں کہ آپ کے سوا قرار کا حصول ناممکن ہے۔
یہاں بھی شدید طرح کی مجبوری کا عالم ہے کہ اگر چہ محبوب کا آنا کسی موت سے کم نہیں اوریہ کہ محبوب کو نہ بلاؤں تو مصائب وآلام سے چھٹکارا پاؤں مگر کیا کیجیے کہ اس موت کو (محبوب) کو دعوت دینا دل کی شدید خواہش ہے اور عاشق دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ اور جس طرح موت آکے رہے گی اسی طرح محبوب کو آنا ہی ہے کہ بلائے بغیر کوئی صورت نہیں ۔ یعنی موت دونوں صورتوں میں آنی ہے۔ جس طرح موت کے آنے نہ آنے پر کسی کو اختیار حاصل نہیں اسی طرح محبوب کے نہ بلانے پر بھی اختیار نہیں ۔ لاکھ چاہنے کے باوجود محبوب کو بلانا ہی ہوگا کہ دل کا تقاضاہے۔
گرچہ محبوب کا آنا موت کی راہ دیکھنے کے مترادف ہے تاہم اورچاہوں بھی کہ محبوب نہ آئے تب بھی دل کو نہ روک پاؤں گا۔ تم کو چاہوں بھی کہ نہ آؤ تو آپ کو سدا دیے بغیر نہ رہ پاؤں گا۔ موت کی راہ نہ دیکھوں مطلب محبوب کو پہلو میں نہ دیکھوں اس پر اختیار نہیں۔یہ ایک غیر اختیاری امر ہے تم کو لاکھ چاہوں کہ نہ آؤ تو نہ رہوں یعنی آپ کو بلانانہ بلانا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کو چاہوں کہ نہ آؤ کہ آپ کا آنا موت کو دعوت دیناہے تاہم دل پراختیار نہیں کہ آپ کو نہ بلاؤں کہ آکے عاشق پرتمسخر اڑاتے ہو۔ نکتہ چینی کرتے ہو۔ کھیل سمجھ کر ہر بات کو ٹال دیتے ہو۔ اس کے باوجود عشق پر زور نہیں۔ بلائے بغیر نہیں رہتاہوں۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
عشق کا جذبہ توانا جذبہ ہے یہ ایک اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ بے اختیاری کا عمل ہے یہ وہ جذبہ ہے جو کسی غیبی طاقت کے طفیل ابھرآتاہے اس جذبے کو پنپنے میں انسان کی کوشش کو دخل نہیں۔ عشق کا جذبہ اپنے آپ پنپتاہے کوئی غیر محسوس طاقت اس کے پیچھے برابر رہتی ہے۔ عشق کوآگ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔تاہم آگ اورعشق میں بین فرق ہے آگ لگائی جاتی ہے اس میں انسان کی کوشش کو دخل ہے آگ اختیاری عمل ہے آگ لگ جائے تو کوشش سے بجھائی جاسکتی ہے اس کے برعکس عشق کی آگ خودبخود لگ جاتی ہے اورلگ جانے کے بعد کوشش سے بجھائی نہیں جاسکتی۔ آگ سے مراد تونا جذبہ ہے جو پیدا ہوجائے ، تحریک پائے پھر کوشش سے کمزور نہیں پڑتا۔
اگر یہ اختیاری عمل ہوتا تو محبوب کی تحقیر اور تمسخر گوار نہیں ہوتا۔ نکتہ چینی برداشت نہیں ہوتی محبوب کا عاشق کے عشق کو کھیل سمجھنا اور اس کے بعد اس کے ستائے جانے کو مقدر جان کر تسلیم نہیں کیاجاتا۔ بوجھ سر سے گر جانے کے بعد بار بار اٹھانے کی کوشش نہیں ہوتی۔ اس غزل کا شعری کردارتسلیم ورضا کا پیکر نظرآتا ہے جس کی طرف ایک دوسری غزل میں اشارہ کیاگیاہے :
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تیری عادت ہی سہی
مذکورہ بالا غزل میں بے اختیاری کی کیفیت ملتی ہے ۔ محسوسات کے اظہار میں خوداختیاری کا عمل دخل نہیں ملتا۔ لاکھ چاہنے کے باوصف عاشق اس لگی آگ کو بجھانے پر قادر نہیں۔ اس غزل کو غزل مسلسل کے ذیل میں رکھا جاسکتاہے۔ ان اشعار کا بغور مطالعہ کریں تو قاری کو ایک طرح کا خوبصورت ربط اورتسلسل ملے گا۔ غیرشعوری کاوش بھی کبھی کبھار شعور کی سرحدوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے جس کا بین ثبوت مذکورہ بالا غزل ہے ۔ کبھی کبھی غیر ارادی طورپر کیے جانے والے کام میں بھی کہیں نہ کہیں ارادے اور کوشش کے دخل ہونے کا شدید سے شدید تر احساس ہوتاہے اتنا خوبصورت معنوی ربط کسی اور غزل میں شاید ہی ہو۔ اس ربط کا حسن اس کی بے ربطی میں مضمر ہے اس تسلسل کا تمام تر حسن اس غیر محسوس عدم تسلسل میں پوشیدہ ہے اور یہی اس غزل کی خوبصورتی ہے ۔
***
*ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
Mob:7298452049, Email:urdugulzar000@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.