اقبال کی فکری نظام میں عشق رسالت ماب ﷺ کی اہمیت و افادیت
بہ مصطفے ؐ بر ساں خویش راکہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نر سیدی تمام بولہبی است
(ارمغان حجاز)
علامہ اقبال نہ صرف اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر ہیں ۔ بلکہ وہ ایک عظیم فن کار اور اعلیٰ پایہ مفکر بھی تھے۔ وہ فکر و فن کے ہر عمدہ ہنر سے واقف تھے ۔انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے شاعر ی کو معراج کمال تک پہنچا یا۔ ایک عظیم فن کار ہونے کے ناطے اقبال کی شاعری اپنے اند بڑی وسعت تنوع اور ہمہ گیری رکھتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا باقاعدہ ایک فکری ارتقاء ملتا ہے ۔ اسی طرح جس طرح ایک بڑے فن کار کے یہاں فکر کا ارتقاء ملتا ہے۔ اسی فکری ارتقاء میں ان کی شاعری مختلف موضوعات پر مبنی ہے ۔ان موضوعات میں اقبال کے نظام فکر کی اساس ان کا تصور خودی ہے۔ جسے انہوں نے ایک نظریے کے طور پر اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں تواتر کے ساتھ متنوع انداز اور مختلف جہتوں سے پیش کیا۔ خودی کی تکمیل کے لئے جن افکار کی ضرورت اقبال لازمی کرار دیا گیا ۔ ان میں عشق رسالت مآب ﷺ ، مرکزی حیثیت کے حامل ہے ۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے
قرآن وحدیث اور ائمہ اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں حقیقت ایمان کو دیکھا جائے تو ایمان کی روح از ابتدا تا انتہا حضرت محمد ﷺ سے دلی وابستگی اور قلبی محبت سے عبارت ہے ۔ محبت نام ہے پسند یدہ چیز کی طرف میلان طبع کا ۔ اگریہ میلان شدت کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں ۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور محبوب کے سوا اپنے دل میں کسی غیر کی وابستگی بے معنی رہ جاتی ہے علامہ قبال نے اس تعلق قلبی کو ہی سر دین اور وسیلہ دنیا ٹھہرایا ۔ اس کے بغیر نہ دین کا نہ دنیا کا۔۔۔۔۔۔ فرماتے ہیں ۔
ہر کہ از سر نبی ﷺ گیر و نصیب
ہم بہ جبریل امین گردد قریب
علامہ اقبال عشق رسول ﷺ سے اس قدر سر شار تھے کہ اس کے کلام میں جگہ جگہ محبت کا درس ملتا ہے فقیر و حیدالدین روزگار فقیر میں لکھتے ہیں ۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ جو ہرلب لباب عشق رسول ﷺ ہے ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسو ل ﷺ کے جو مناظر دیکھئے ہیں ۔ ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسول ﷺ نے گداز کر رکھا تھا ۔ زندگی کے آخری زمانہ میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہچ گئی تھی ۔ کہ ہچکی بند ہو جاتی اور آواز بھر اجاتی تھی اور کئی کئی منت مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے ۔ تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں اور گفتگوجاری رکھ سکیں‘‘ ۔ ۱
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ اقبال باوجود اتنا بڑا اور مشہور شاعر ہونے کے شاعر نہیں ۔بلکہ اپنے پیام سے مقام نبوت کی جانشینی کا حق ادا کر رہا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اقبال کا دل عشق رسول ﷺ میں ڈوب چکا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فنا فی الرسول کا بلند مرتبہ عطا کیا ۔ یہی وجہ ہے جب کبھی بھی آپ کی مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھڑ جاتا تو آپ بے تاب ہوجاتے تھے اور دیر تک روتے رہتے تھے ۔اس عشق و محبت کے اولین تیر کو یاد کر کے کہتے ہیں یا رسول ﷺ آپ نے اپنی نگاہ لطف سے مجھے نوازا اور اپنی محبت میں فنائیت کے آداب سکھا دے وہ کتنا خوشگوار دن تھا ۔ جب آپ کی نظر کرم ہوئی اور میرے نفس کی تمام آلائش جل کر ختم ہوگئے ۔
یک نظر کردی ۔ آ داب فنا آمو ختی
اے خنک روزے کہ خاشاک آب مرا و اسوختی
اس فنائیت کے مقام سے جب کائنات پر نظر ڈالتے ہیں ۔ تو انہیں ہر سمت حضور ﷺ کے جلوے نظر آتے ہیں اس دلچسپ نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ کہ دنیا میں جہاں کہیں رنگ و بو کا ظہور ہے ۔ وہ ہمیشہ کیلئے نور محمدی ﷺ سے فیض حاصل کرتی رہے گی ۔ اگر اس سے اب تک اس نور محمدی ﷺ تک رسائی نہیں ہوسکی تو یقیناًوہ اب تک اس کی تلاش میں سر گرداں ہے ۔
ہر کجا بینی جہاں رنگ و بو
اَنکہ خاکش بر دید آرزو
یاز نور مصطقے ﷺ آرادبہاست
یا ہنوز اندر تلاش مسطفے ﷺ است
آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک سے انہیں جو عشق تھا ۔ وہ محتاج بیان نہیں ۔ مولانا اسلم جیراج کا بیان ہے ۔ کہ اقبال نے اپنے پیام کا سر چشمہ رسول ﷺ کی ذات کو بتا یا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کی عزت و تو قیر اقبال صرف اس لئے نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر ہیں بلکہ انہیں رسول ﷺ کی شخصیت سے والہانہ عشق اس لئے بھی ہے کہ وہ رسول ﷺ کی ذات میں ایک کا مل انسان جلوہ گر پاتے ہیں‘‘ ۔ ۳
ماہر القادری اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال کے تصور عشق کی مناسبت سے لکھتے ہیں ۔
’’ اقبال کے عشق میں نہ کوچہ رقیب ہے ، نہ دنیوی محبوب کے نقش پاپر سجدے کی ذلتیں ہیں ۔ اقبال کا عشق خیبر کُشا ہے۔ جہاں پازیب کی نہیں ، تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق اقبال کی ہیرو قیس و فرہاد نہیں ۔ صدیق و فاروق اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔
جنہوں نے خوبصورت عورتوں کے رخسار و گیسو کا نہیں ۔ آیات الہٰی کا مشاہد کیا اور اللہ تعالیٰ کے عشق میں محو ہوگئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۔ ۴
ان کی خطوط، ان کے مقالات ، ان کے پیغام ان کے فلسفے اور ان کے اشعار میں ایک ایک نکتے سے رسول ﷺ کی محبت ٹپکتی ہے ۔ ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسی زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بام عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور دین اسلام کی روح عشق مصطفے ﷺ ہی ہیں ۔
معز قرآن روح ایمان ، جان دین
ہست حب رحمۃ للعالمین
اقبال کی اس والہانہ محبت و عقیدت پر ذکر کرتے ہوئے مولانا ابو الحسن ندوی نے یوں تحریر فرمایا ۔ کہ جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے ۔ اقبال کی نبی ﷺ کے ساتھ والہانہ محبت و الفت بڑھتی گئی ۔ یہاں تک کہ آخری عمر جب بھی ان کی مجلس میں نبی ﷺ کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہو تا ۔ تو اقبال بے قرار ہوجاتے ۔ آنکھیں پرُ آب ہو جاتیں یہان تک کہ آنسو رواں ہو جاتے یہی وہ گہری محبت تھی ، جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مکن رسوا حضور خواجہ مارا
حساب من زچشم او نہاں گیر ۵
اقبال نے دور مادیت کے چھلتے ہوئے ایام جلوہ دانش افرنگ کے تہذیب و تمدن میں گذارے ۔ لیکن اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ سوسکیں ۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جو جذ بہ عشق اور روحانی وابستگی تھی ۔ اس روحانی اور غایت درجے محبت کے طفیل اقبال کو رسالت مآب ﷺ کے دربار میں اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوا ۔ اس کا ثبوت ان کے مکتوب سے ملتا ہے جو انہوں ۲۳ اپریل ۱۹۲۰ ء کو اپنے والدمحترم شیخ نور محمد کو تحریر کیا تھا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے بالکل صحیح ہے کیونکہ میر ے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں ۔ ایسا فضل ضروری ہے ۔ کہ دعا کا ہی نتیجہ ہو ۔ لیکن اگر حقیقت میں پیرزادہ صاحب کا کشف صحیح ہے تو میرے لئے لا علمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے ۔ اس کا یا تو کوئی علاج بتائیے یا مزید دعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے ۔
اقبال نے مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ مغرب تہذیب اور فکر و فن کا بغور مشاہدہ کیا ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تمام فلاسفر ، مفکر ین اور مذاہب عالم کے بانیوں کو اچھی طرح دیکھا اور ان کے افکار وخیالات کو سمجھا ۔ لیکن کوئی ایک راہ کا واقف تھا ۔ دوسری سے بے خبر تھا ، کوئی دوسری سے واقفیت رکھتا تھا ۔ اور تیسری راہ کااس سے علم نہیں تھا ۔ لیکن ہمارے رسول ﷺ تمام راستوں کے دانا ہیں افسوس کہ ہم اس دانائے سبُل کو چھوڑا کر کفر الحاد کے راستوں پر بھڑ کتے رہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روز بہ روز پست ہو کر ٹھو کریں کھاتے پھیررہے ہیں ۔
وہ دانا تے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں و ہی ا ول وہی اخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی طہٰ وہی یٰس
اقبال پیغمبر لولاک ؐ کو بحر ذخار قرار دیتے ہیں ۔ جس کی موجیں آسمان کی بلندی کو چھوتی ہیں ۔ اور اس لئے نصیحت فرماتے ہیں ۔تم بھی اس بحر محبت سے سیرابی حاصل کرو ۔ تاکہ تمہیں حیات نو نصیب ہو اور تمہیں وہ پہلی والی حالت میسر آجائیں فرماتے ہیں ۔
می ندائی عشق و مستی از کجا است
ایں شعاع آفتاب مصطفے است
زندہ تا سوز در جان تست
ایں نگہ دار ہُ ایمان تست
مصطفٰے بحراست موج او بلند
خیز ایں دریا بجو ئے خویش بند ۷
علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں مختلف پیرایہ بدل بدل کر عشق رسول ﷺ کے جذبے کو نمائندگی کے طور پر پیش کیا ۔ کیونکہ آپ کی تمام شاعری کا منبع و محور رسول اکرم ﷺ کو ذات مقدس ہے ۔ ڈاکٹر تھامس ڈبلو آرنا لڈ نے علامہ کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ وہ اپنی شاعری میں محمد ﷺ کی ذات سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور ان کی سب باتوں سے بڑھ کر پیغمبر عمل کی حیثیت سے تعظیم و تکر یم کرتے ہیں ۔ ان کا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات مثالی معاشر ے کی بنیاد ہیں ۔ اور انہیں کے ذریعہ عالم اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن ہے ۸ چنانچہ ’’ اسرار خودی ‘‘ میں علامہ اقبال نظام حیات کی روح رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی تصور کرتے ہیں اور اپنی جذب و مستی کی کیفیت میں فرماتے ہیں ۔ آپ ﷺ کی محبت کا بحرذ خار میرے اندر طلا طم خیز موجیں مار رہا ہے اور سینکنڈوں نغمے میرے آغوش میں ابل رہے ہیں ۔ اس سوز گداز کی کیفیت کو کیا بتاؤں اور آپ ؐ کی محبت کو کس طرح بیان کرو کہ یہ محبت کیا چیز ہے ارے یہ محبت تو وہ ہے جو بے جان چیزوں کو بھی آپ ﷺ کے لئے بے قرار رکھتی تھی ۔ چنانچہ حدیث شریف گواہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ منبر کی خشک لکڑی آپ ﷺ کی جدائی میں ایسے زار قطار اور بلند آواز سے روتی تھی ۔ کہ سننے والے صحابہؓ حیران و ششدہ گئے۔ امت مسلمہ کا وجود آپ ﷺ ہی کے جلووں سے روشن ہے آپ ﷺ کے قدموں کی خاک ایسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں ۔
شور عشقش درنے خاموش من
می تپید صد نغمہ در آغوش من
من چہ گوئم از تو را تیش کہ چیست
خشک چوبے در فراق اوگر بست
ہستی مسلم تجلی گاہ ا و
طور ہا با یدز گردِ ر اہ او ۹
عشق کی صداقت اور پختگی اس بات پر منحصر ہے کہ جس چیز کو بھی محبوب سے نسبت ہو۔ اس سے نسبت رکھے اور اس کا احترام بجالاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ تابعین اور دوسرے ائمہ اسلام رسول اکرم ﷺ کے اہل قرابت اور مدینہ طیبہ کی محبت تعظیم میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ اور اس بات کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ان ہی عرفاء کے اتباع میں علامہ اقبال ؒ نے بھی اپنی زندگی اور اپنی شاعری میں یہ ثبوت فراہم کیا ہے ۔ کہ انہیں حضور ﷺ کے شہر مقدس کی خاک کے ذرؤں سے اس درجہ عقیدت ہے کہ وہ ان ذرؤں کو جہاں کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں ۔
خاکہ طیبہ ازدو عالم خوش تراست
اے خنک شہرے کہ آنجاد لبراست
خاکِ یثرب جو مدینہ الرسول اور روضہ نبوی کی سر زمین ہے دو نوں جہانوں سے زیادہ حسین معلوم ہوتی ہے ۔ کیا ہی عمدہ ہے وہ شہر جہاں محبوب خدا اور محبوب مخلوق تشریف فرماہیں ۔ اس شہر کی یاد دلوں کو سکون اور حوصلہ عطا کرتی ہے ۔ اس یاد سے روح میں ایک و لولہ تازہ پیدا ہوتا ہے ’’ صاحب مدینہ کی محبت ہی خدا تک پہنچے کا ذریعہ اور کائنات پر چھا جانے کا وسیلہ ہے ۔ یہ انسان کی خودی کو مستحکم کرنے کا بہتر طریقہ ہے ۔
اقبال نے اگر چہ ظاہری طور پر حج بیت اللہ اور روضہ اقدس کی زیارت نہیں کی ۔ تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیں روضہ رسول کی زیادت کا بے حد اشتیاق نظر آتا ہے ۔ اور روحانی سفر میں مدینہ طیبہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی پر رونا روتے ہیں ۔ اس کے ازالے کیلئے روضہ رسول ﷺ کے سامنے عاجزل اور انکساری سے دُعا کرتے ہیں ۔ ان کے رگ وپے میں عشق رسول اس قدر سُریت کر چکی کہ وہ حجاز میں ہی داعی اجل کو ڈھونڈتے ہیں فرماتے ہیں ۔
تلخانہ اجل میں جو عاشق کو مل گیا
پایا نہ خضر نے سے عمر دراز میں
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں حجاز میں
فقیر سید و حید الدین نے روزگار فقیر میں ایک ولچسپ واقعہ تحریر فرمایا ۔ جس سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ کہ اقبال حضور نبی کریم علیہ الصلواۃ کی ذات اقدس سے کس درجے والہانہ محبت اور بے پناہ عشق رکھتے تھے ۔ یہ واقعہ دیکھنے اور پڑھنے میں بہت مختصر ہے مگر حقیقت میں عشق و محبت کا دفترِ بے پایاں ہے ۔
ایک روز حکیم احمد شجاع علامہ کے مکان پر پہنچے تو علامہ کو بہت زیادہ فکر مند ، مغموم اور بے چین پایا ۔ حکیم صاحب نے گھبرا کر دریافت کیا خیریت تو ہے ۔ آپ آج خلاف معمول بہت زیادہ مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں ۔ علامہ نے خاص انداز میں نظر یں اوپر اٹھائیں اور غم انگیز لہجے میں فرمایا ۔ ’’ احمد شجاع ! یہ سوچ کر میں اکثر مصطرب اور پریشان ہوجا تا ہوں ۔ کہ کہیں میری عمر رسول اللہ کی عمر سے زیادہ نہ ہوجائے ۱۰ اقبال کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی جب اس عاشق رسول کا انتقال ہوا۔ ان کی عمر اکنسٹھ ۶۱ برس تھی ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف سے دو سال کم تھی ۔ اس واقعہ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ کس قدر اس عاشق رسول کی عقیدت و محبت اپنے معشوق سے استوار ہیں اور اپنے کلام میں جگہ جگہ حضرت محمد ﷺ سے تعلق عشقی قائم کرنے کی تلقین کی اور انہیں یقین محکم ہے کہ عشق رسول ہی وہ سلاح ہے جس سے ساری مشکلیں آسان ہوسکتی ۔
عشق ختم الا نبیاء ترا اگر سامان ہو
زندگی کا ہر سفر تیرے لئے آسان ہے
اقبال ایک پیامی شاعر ہیں اپنے پیغام میں تاکیدی الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ کے دربار میں عاجزی اور انکساری سے عشق نبی ﷺ کے لئے دُعا فرمائے ۔ کیونکہ اس میں دنیا کی بلندی اور اخرت کی کامیابی ہے ۔ جس خوش قسمت کو یہ دولت نصیب ہوگئی ۔ یہ کائنات بحروبر اس کے گوشہ دامان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی۔
ہر کہ عشق مصطفٰے ؐ سامان اوست
بحر و بر در گوشہ دامان اوست
علامہ اقبال نے اس پرُ اشوب دور میں شعور کی آنکھ کھوئی ۔ جب پو رابر صغیر برطانوی استعمار کا غلام تھا۔ یہ دور بالخصوص مسلمانوں کے لئے بڑی پستی اور ذلت کا دور تھا اور مسلمان ہر جگہ اپنے دشمنوں کی سازشوں تلے روند ے جار ہے تھے ۔ اس بے کسی اور بے بسی کے عالم پر ہر صاحب دل نے اپنی مافی الضمیر کو للکارا اور اس کے خاتمے کے لئے بزبان قلم آواز بلند کرتے رہے ۔ چنانچہ اقبال عالم انسانیت کے شاعر ہونے کے ناطے امت مسلمہ کی اس خستہ حالی پر ہمیشہ غور و فکر کرتے رہے اور اس کے سدباب کے لئے راہیں تلاش کرتے رہے ۔ انھیں اس بات کا احساس تھا۔ کہ مسلمانوں کا ماضی بڑا باو قار اور تا بناک رہا ۔ جب اس شاندار ماضی اور پژمردہ حال پر بغور مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ تو امت مسلم کو اس ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہیں ۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان ہم کو دے مارا
ایک رات اقبال حسب معمول مناجات میں بار گاہ الہٰی میں زار و قطاررویا اور بار گاہ ذو الجلال میں سوال کیا ۔ کہ مسلمان اتنے زارو خوار اور عاجز کیوں ہور ہے ہیں ۔ عالم غیب میں ندا آئی کہ تو نہیں جانتا ۔ ان لوگوں کے پاس دل تو ہے مگر اس دل میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں ۔
شبے پیش خدا بگر یستم زار مسلماناں چرا زار ند و خوارندنداآمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دار ندو محبوب ندارد
مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ اقبال کی زبان پر خدا کے حضور میں شکوہ آجاتا ہے اور بارگاہ خدا میں سراپا احتجاج بن کر عرض کرتے ہیں ۔
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا
قوت باز و نے مسلم نے کیا کام تیرا
نقش تو حید کا ہر دل پہ بٹھا یا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمت میں دوڑائے گھو ڑے ہم نے ۱۱
پھر آج ہمارے سا تھ اتنی نا انصافی کیوں بھرتی جاتی ہے ہمارے دشمنوں پر رحمتیں اور ہم پر بجلیاں گرادی جاتی ہیں ۔
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچار ے مسلمانوں پر
نظم ’’ شکوہ ‘‘ میں اقبال نے تاریخ اسلام کا ایک ایک کارنامہ گنوا کر یہ واضح طور پر پیش کیا ۔ کہ مسلمان قوم نے ہی نغمہ توحید کو چار سو پھیلایا ۔ اور اب بھی دین اسلام کے سرگرمیوں میں پابند ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑھتا ہیں ۔
چنانچہ کچھ مدت کے بعد اقبال نے شکوہ کے جواب میں ندائے غیب سے جو پیغام ملا۔ وہ جواب شکوہ میں موجود ہے۔ اس میں جو لائحہ عمل پیش کیا گیا ۔ وہ بھی حضور ﷺ کی ذات سے عشق کی سر گرمی سے عبارت تھی اور تلقین کی گئی کہ پستی سے نکل کر عروج کی دہلیز پر انقلاب برپا کرنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ تو دین اسلام کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیار کر لے۔ اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوجا ۔ پھر دیکھ تجھ میں وہ قوت آجا ئے گی ۔ کہ تو ایک باوقار اور فعال قوم کی حیثیت سے ساری دنیا پر چھا جائیگا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
نظم کے اخری شعر میں اقبال نے گو یا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا اور دو ٹوک الفاظ میں بارگاہ خدا وندی کی مشیت سے آگاہ کر دیا ۔ کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز حضور ﷺ کی غلامی پرمنحصر ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں
***Iqbal ki Fikri Nizam men Ishqe Risalat ki Ahmiyat … by Shaukat Ahmad Dar, P. NO. 79 to 82
اگر بہ او نر سیدی تمام بولہبی است
(ارمغان حجاز)
علامہ اقبال نہ صرف اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر ہیں ۔ بلکہ وہ ایک عظیم فن کار اور اعلیٰ پایہ مفکر بھی تھے۔ وہ فکر و فن کے ہر عمدہ ہنر سے واقف تھے ۔انہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے شاعر ی کو معراج کمال تک پہنچا یا۔ ایک عظیم فن کار ہونے کے ناطے اقبال کی شاعری اپنے اند بڑی وسعت تنوع اور ہمہ گیری رکھتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا باقاعدہ ایک فکری ارتقاء ملتا ہے ۔ اسی طرح جس طرح ایک بڑے فن کار کے یہاں فکر کا ارتقاء ملتا ہے۔ اسی فکری ارتقاء میں ان کی شاعری مختلف موضوعات پر مبنی ہے ۔ان موضوعات میں اقبال کے نظام فکر کی اساس ان کا تصور خودی ہے۔ جسے انہوں نے ایک نظریے کے طور پر اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں تواتر کے ساتھ متنوع انداز اور مختلف جہتوں سے پیش کیا۔ خودی کی تکمیل کے لئے جن افکار کی ضرورت اقبال لازمی کرار دیا گیا ۔ ان میں عشق رسالت مآب ﷺ ، مرکزی حیثیت کے حامل ہے ۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے
قرآن وحدیث اور ائمہ اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں حقیقت ایمان کو دیکھا جائے تو ایمان کی روح از ابتدا تا انتہا حضرت محمد ﷺ سے دلی وابستگی اور قلبی محبت سے عبارت ہے ۔ محبت نام ہے پسند یدہ چیز کی طرف میلان طبع کا ۔ اگریہ میلان شدت کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں ۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور محبوب کے سوا اپنے دل میں کسی غیر کی وابستگی بے معنی رہ جاتی ہے علامہ قبال نے اس تعلق قلبی کو ہی سر دین اور وسیلہ دنیا ٹھہرایا ۔ اس کے بغیر نہ دین کا نہ دنیا کا۔۔۔۔۔۔ فرماتے ہیں ۔
ہر کہ از سر نبی ﷺ گیر و نصیب
ہم بہ جبریل امین گردد قریب
علامہ اقبال عشق رسول ﷺ سے اس قدر سر شار تھے کہ اس کے کلام میں جگہ جگہ محبت کا درس ملتا ہے فقیر و حیدالدین روزگار فقیر میں لکھتے ہیں ۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ جو ہرلب لباب عشق رسول ﷺ ہے ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسو ل ﷺ کے جو مناظر دیکھئے ہیں ۔ ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسول ﷺ نے گداز کر رکھا تھا ۔ زندگی کے آخری زمانہ میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہچ گئی تھی ۔ کہ ہچکی بند ہو جاتی اور آواز بھر اجاتی تھی اور کئی کئی منت مکمل سکوت اختیار کر لیتے تھے ۔ تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں اور گفتگوجاری رکھ سکیں‘‘ ۔ ۱
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں کہ اقبال باوجود اتنا بڑا اور مشہور شاعر ہونے کے شاعر نہیں ۔بلکہ اپنے پیام سے مقام نبوت کی جانشینی کا حق ادا کر رہا ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اقبال کا دل عشق رسول ﷺ میں ڈوب چکا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فنا فی الرسول کا بلند مرتبہ عطا کیا ۔ یہی وجہ ہے جب کبھی بھی آپ کی مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر چھڑ جاتا تو آپ بے تاب ہوجاتے تھے اور دیر تک روتے رہتے تھے ۔اس عشق و محبت کے اولین تیر کو یاد کر کے کہتے ہیں یا رسول ﷺ آپ نے اپنی نگاہ لطف سے مجھے نوازا اور اپنی محبت میں فنائیت کے آداب سکھا دے وہ کتنا خوشگوار دن تھا ۔ جب آپ کی نظر کرم ہوئی اور میرے نفس کی تمام آلائش جل کر ختم ہوگئے ۔
یک نظر کردی ۔ آ داب فنا آمو ختی
اے خنک روزے کہ خاشاک آب مرا و اسوختی
اس فنائیت کے مقام سے جب کائنات پر نظر ڈالتے ہیں ۔ تو انہیں ہر سمت حضور ﷺ کے جلوے نظر آتے ہیں اس دلچسپ نکتے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ کہ دنیا میں جہاں کہیں رنگ و بو کا ظہور ہے ۔ وہ ہمیشہ کیلئے نور محمدی ﷺ سے فیض حاصل کرتی رہے گی ۔ اگر اس سے اب تک اس نور محمدی ﷺ تک رسائی نہیں ہوسکی تو یقیناًوہ اب تک اس کی تلاش میں سر گرداں ہے ۔
ہر کجا بینی جہاں رنگ و بو
اَنکہ خاکش بر دید آرزو
یاز نور مصطقے ﷺ آرادبہاست
یا ہنوز اندر تلاش مسطفے ﷺ است
آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک سے انہیں جو عشق تھا ۔ وہ محتاج بیان نہیں ۔ مولانا اسلم جیراج کا بیان ہے ۔ کہ اقبال نے اپنے پیام کا سر چشمہ رسول ﷺ کی ذات کو بتا یا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کی عزت و تو قیر اقبال صرف اس لئے نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر ہیں بلکہ انہیں رسول ﷺ کی شخصیت سے والہانہ عشق اس لئے بھی ہے کہ وہ رسول ﷺ کی ذات میں ایک کا مل انسان جلوہ گر پاتے ہیں‘‘ ۔ ۳
ماہر القادری اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال کے تصور عشق کی مناسبت سے لکھتے ہیں ۔
’’ اقبال کے عشق میں نہ کوچہ رقیب ہے ، نہ دنیوی محبوب کے نقش پاپر سجدے کی ذلتیں ہیں ۔ اقبال کا عشق خیبر کُشا ہے۔ جہاں پازیب کی نہیں ، تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق اقبال کی ہیرو قیس و فرہاد نہیں ۔ صدیق و فاروق اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔
جنہوں نے خوبصورت عورتوں کے رخسار و گیسو کا نہیں ۔ آیات الہٰی کا مشاہد کیا اور اللہ تعالیٰ کے عشق میں محو ہوگئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۔ ۴
ان کی خطوط، ان کے مقالات ، ان کے پیغام ان کے فلسفے اور ان کے اشعار میں ایک ایک نکتے سے رسول ﷺ کی محبت ٹپکتی ہے ۔ ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسی زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بام عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور دین اسلام کی روح عشق مصطفے ﷺ ہی ہیں ۔
معز قرآن روح ایمان ، جان دین
ہست حب رحمۃ للعالمین
اقبال کی اس والہانہ محبت و عقیدت پر ذکر کرتے ہوئے مولانا ابو الحسن ندوی نے یوں تحریر فرمایا ۔ کہ جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے ۔ اقبال کی نبی ﷺ کے ساتھ والہانہ محبت و الفت بڑھتی گئی ۔ یہاں تک کہ آخری عمر جب بھی ان کی مجلس میں نبی ﷺ کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہو تا ۔ تو اقبال بے قرار ہوجاتے ۔ آنکھیں پرُ آب ہو جاتیں یہان تک کہ آنسو رواں ہو جاتے یہی وہ گہری محبت تھی ، جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
مکن رسوا حضور خواجہ مارا
حساب من زچشم او نہاں گیر ۵
اقبال نے دور مادیت کے چھلتے ہوئے ایام جلوہ دانش افرنگ کے تہذیب و تمدن میں گذارے ۔ لیکن اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ سوسکیں ۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جو جذ بہ عشق اور روحانی وابستگی تھی ۔ اس روحانی اور غایت درجے محبت کے طفیل اقبال کو رسالت مآب ﷺ کے دربار میں اعلیٰ مرتبہ حاصل ہوا ۔ اس کا ثبوت ان کے مکتوب سے ملتا ہے جو انہوں ۲۳ اپریل ۱۹۲۰ ء کو اپنے والدمحترم شیخ نور محمد کو تحریر کیا تھا۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے بالکل صحیح ہے کیونکہ میر ے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں ۔ ایسا فضل ضروری ہے ۔ کہ دعا کا ہی نتیجہ ہو ۔ لیکن اگر حقیقت میں پیرزادہ صاحب کا کشف صحیح ہے تو میرے لئے لا علمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے ۔ اس کا یا تو کوئی علاج بتائیے یا مزید دعا فرمائیے کہ خدا تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے ۔
اقبال نے مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ مغرب تہذیب اور فکر و فن کا بغور مشاہدہ کیا ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے تمام فلاسفر ، مفکر ین اور مذاہب عالم کے بانیوں کو اچھی طرح دیکھا اور ان کے افکار وخیالات کو سمجھا ۔ لیکن کوئی ایک راہ کا واقف تھا ۔ دوسری سے بے خبر تھا ، کوئی دوسری سے واقفیت رکھتا تھا ۔ اور تیسری راہ کااس سے علم نہیں تھا ۔ لیکن ہمارے رسول ﷺ تمام راستوں کے دانا ہیں افسوس کہ ہم اس دانائے سبُل کو چھوڑا کر کفر الحاد کے راستوں پر بھڑ کتے رہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روز بہ روز پست ہو کر ٹھو کریں کھاتے پھیررہے ہیں ۔
وہ دانا تے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں و ہی ا ول وہی اخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی طہٰ وہی یٰس
اقبال پیغمبر لولاک ؐ کو بحر ذخار قرار دیتے ہیں ۔ جس کی موجیں آسمان کی بلندی کو چھوتی ہیں ۔ اور اس لئے نصیحت فرماتے ہیں ۔تم بھی اس بحر محبت سے سیرابی حاصل کرو ۔ تاکہ تمہیں حیات نو نصیب ہو اور تمہیں وہ پہلی والی حالت میسر آجائیں فرماتے ہیں ۔
می ندائی عشق و مستی از کجا است
ایں شعاع آفتاب مصطفے است
زندہ تا سوز در جان تست
ایں نگہ دار ہُ ایمان تست
مصطفٰے بحراست موج او بلند
خیز ایں دریا بجو ئے خویش بند ۷
علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں مختلف پیرایہ بدل بدل کر عشق رسول ﷺ کے جذبے کو نمائندگی کے طور پر پیش کیا ۔ کیونکہ آپ کی تمام شاعری کا منبع و محور رسول اکرم ﷺ کو ذات مقدس ہے ۔ ڈاکٹر تھامس ڈبلو آرنا لڈ نے علامہ کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ وہ اپنی شاعری میں محمد ﷺ کی ذات سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور ان کی سب باتوں سے بڑھ کر پیغمبر عمل کی حیثیت سے تعظیم و تکر یم کرتے ہیں ۔ ان کا ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات مثالی معاشر ے کی بنیاد ہیں ۔ اور انہیں کے ذریعہ عالم اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن ہے ۸ چنانچہ ’’ اسرار خودی ‘‘ میں علامہ اقبال نظام حیات کی روح رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی تصور کرتے ہیں اور اپنی جذب و مستی کی کیفیت میں فرماتے ہیں ۔ آپ ﷺ کی محبت کا بحرذ خار میرے اندر طلا طم خیز موجیں مار رہا ہے اور سینکنڈوں نغمے میرے آغوش میں ابل رہے ہیں ۔ اس سوز گداز کی کیفیت کو کیا بتاؤں اور آپ ؐ کی محبت کو کس طرح بیان کرو کہ یہ محبت کیا چیز ہے ارے یہ محبت تو وہ ہے جو بے جان چیزوں کو بھی آپ ﷺ کے لئے بے قرار رکھتی تھی ۔ چنانچہ حدیث شریف گواہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ منبر کی خشک لکڑی آپ ﷺ کی جدائی میں ایسے زار قطار اور بلند آواز سے روتی تھی ۔ کہ سننے والے صحابہؓ حیران و ششدہ گئے۔ امت مسلمہ کا وجود آپ ﷺ ہی کے جلووں سے روشن ہے آپ ﷺ کے قدموں کی خاک ایسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں ۔
شور عشقش درنے خاموش من
می تپید صد نغمہ در آغوش من
من چہ گوئم از تو را تیش کہ چیست
خشک چوبے در فراق اوگر بست
ہستی مسلم تجلی گاہ ا و
طور ہا با یدز گردِ ر اہ او ۹
عشق کی صداقت اور پختگی اس بات پر منحصر ہے کہ جس چیز کو بھی محبوب سے نسبت ہو۔ اس سے نسبت رکھے اور اس کا احترام بجالاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ تابعین اور دوسرے ائمہ اسلام رسول اکرم ﷺ کے اہل قرابت اور مدینہ طیبہ کی محبت تعظیم میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ اور اس بات کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ان ہی عرفاء کے اتباع میں علامہ اقبال ؒ نے بھی اپنی زندگی اور اپنی شاعری میں یہ ثبوت فراہم کیا ہے ۔ کہ انہیں حضور ﷺ کے شہر مقدس کی خاک کے ذرؤں سے اس درجہ عقیدت ہے کہ وہ ان ذرؤں کو جہاں کی ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں ۔
خاکہ طیبہ ازدو عالم خوش تراست
اے خنک شہرے کہ آنجاد لبراست
خاکِ یثرب جو مدینہ الرسول اور روضہ نبوی کی سر زمین ہے دو نوں جہانوں سے زیادہ حسین معلوم ہوتی ہے ۔ کیا ہی عمدہ ہے وہ شہر جہاں محبوب خدا اور محبوب مخلوق تشریف فرماہیں ۔ اس شہر کی یاد دلوں کو سکون اور حوصلہ عطا کرتی ہے ۔ اس یاد سے روح میں ایک و لولہ تازہ پیدا ہوتا ہے ’’ صاحب مدینہ کی محبت ہی خدا تک پہنچے کا ذریعہ اور کائنات پر چھا جانے کا وسیلہ ہے ۔ یہ انسان کی خودی کو مستحکم کرنے کا بہتر طریقہ ہے ۔
اقبال نے اگر چہ ظاہری طور پر حج بیت اللہ اور روضہ اقدس کی زیارت نہیں کی ۔ تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہیں روضہ رسول کی زیادت کا بے حد اشتیاق نظر آتا ہے ۔ اور روحانی سفر میں مدینہ طیبہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی پر رونا روتے ہیں ۔ اس کے ازالے کیلئے روضہ رسول ﷺ کے سامنے عاجزل اور انکساری سے دُعا کرتے ہیں ۔ ان کے رگ وپے میں عشق رسول اس قدر سُریت کر چکی کہ وہ حجاز میں ہی داعی اجل کو ڈھونڈتے ہیں فرماتے ہیں ۔
تلخانہ اجل میں جو عاشق کو مل گیا
پایا نہ خضر نے سے عمر دراز میں
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں حجاز میں
فقیر سید و حید الدین نے روزگار فقیر میں ایک ولچسپ واقعہ تحریر فرمایا ۔ جس سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ کہ اقبال حضور نبی کریم علیہ الصلواۃ کی ذات اقدس سے کس درجے والہانہ محبت اور بے پناہ عشق رکھتے تھے ۔ یہ واقعہ دیکھنے اور پڑھنے میں بہت مختصر ہے مگر حقیقت میں عشق و محبت کا دفترِ بے پایاں ہے ۔
ایک روز حکیم احمد شجاع علامہ کے مکان پر پہنچے تو علامہ کو بہت زیادہ فکر مند ، مغموم اور بے چین پایا ۔ حکیم صاحب نے گھبرا کر دریافت کیا خیریت تو ہے ۔ آپ آج خلاف معمول بہت زیادہ مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں ۔ علامہ نے خاص انداز میں نظر یں اوپر اٹھائیں اور غم انگیز لہجے میں فرمایا ۔ ’’ احمد شجاع ! یہ سوچ کر میں اکثر مصطرب اور پریشان ہوجا تا ہوں ۔ کہ کہیں میری عمر رسول اللہ کی عمر سے زیادہ نہ ہوجائے ۱۰ اقبال کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی جب اس عاشق رسول کا انتقال ہوا۔ ان کی عمر اکنسٹھ ۶۱ برس تھی ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف سے دو سال کم تھی ۔ اس واقعہ سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ کس قدر اس عاشق رسول کی عقیدت و محبت اپنے معشوق سے استوار ہیں اور اپنے کلام میں جگہ جگہ حضرت محمد ﷺ سے تعلق عشقی قائم کرنے کی تلقین کی اور انہیں یقین محکم ہے کہ عشق رسول ہی وہ سلاح ہے جس سے ساری مشکلیں آسان ہوسکتی ۔
عشق ختم الا نبیاء ترا اگر سامان ہو
زندگی کا ہر سفر تیرے لئے آسان ہے
اقبال ایک پیامی شاعر ہیں اپنے پیغام میں تاکیدی الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ کے دربار میں عاجزی اور انکساری سے عشق نبی ﷺ کے لئے دُعا فرمائے ۔ کیونکہ اس میں دنیا کی بلندی اور اخرت کی کامیابی ہے ۔ جس خوش قسمت کو یہ دولت نصیب ہوگئی ۔ یہ کائنات بحروبر اس کے گوشہ دامان کی وسعت سے زیادہ نہیں رہے گی۔
ہر کہ عشق مصطفٰے ؐ سامان اوست
بحر و بر در گوشہ دامان اوست
علامہ اقبال نے اس پرُ اشوب دور میں شعور کی آنکھ کھوئی ۔ جب پو رابر صغیر برطانوی استعمار کا غلام تھا۔ یہ دور بالخصوص مسلمانوں کے لئے بڑی پستی اور ذلت کا دور تھا اور مسلمان ہر جگہ اپنے دشمنوں کی سازشوں تلے روند ے جار ہے تھے ۔ اس بے کسی اور بے بسی کے عالم پر ہر صاحب دل نے اپنی مافی الضمیر کو للکارا اور اس کے خاتمے کے لئے بزبان قلم آواز بلند کرتے رہے ۔ چنانچہ اقبال عالم انسانیت کے شاعر ہونے کے ناطے امت مسلمہ کی اس خستہ حالی پر ہمیشہ غور و فکر کرتے رہے اور اس کے سدباب کے لئے راہیں تلاش کرتے رہے ۔ انھیں اس بات کا احساس تھا۔ کہ مسلمانوں کا ماضی بڑا باو قار اور تا بناک رہا ۔ جب اس شاندار ماضی اور پژمردہ حال پر بغور مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ تو امت مسلم کو اس ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہیں ۔
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان ہم کو دے مارا
ایک رات اقبال حسب معمول مناجات میں بار گاہ الہٰی میں زار و قطاررویا اور بار گاہ ذو الجلال میں سوال کیا ۔ کہ مسلمان اتنے زارو خوار اور عاجز کیوں ہور ہے ہیں ۔ عالم غیب میں ندا آئی کہ تو نہیں جانتا ۔ ان لوگوں کے پاس دل تو ہے مگر اس دل میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں ۔
شبے پیش خدا بگر یستم زار مسلماناں چرا زار ند و خوارندنداآمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دار ندو محبوب ندارد
مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ اقبال کی زبان پر خدا کے حضور میں شکوہ آجاتا ہے اور بارگاہ خدا میں سراپا احتجاج بن کر عرض کرتے ہیں ۔
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا
قوت باز و نے مسلم نے کیا کام تیرا
نقش تو حید کا ہر دل پہ بٹھا یا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمت میں دوڑائے گھو ڑے ہم نے ۱۱
پھر آج ہمارے سا تھ اتنی نا انصافی کیوں بھرتی جاتی ہے ہمارے دشمنوں پر رحمتیں اور ہم پر بجلیاں گرادی جاتی ہیں ۔
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچار ے مسلمانوں پر
نظم ’’ شکوہ ‘‘ میں اقبال نے تاریخ اسلام کا ایک ایک کارنامہ گنوا کر یہ واضح طور پر پیش کیا ۔ کہ مسلمان قوم نے ہی نغمہ توحید کو چار سو پھیلایا ۔ اور اب بھی دین اسلام کے سرگرمیوں میں پابند ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انہیں ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑھتا ہیں ۔
چنانچہ کچھ مدت کے بعد اقبال نے شکوہ کے جواب میں ندائے غیب سے جو پیغام ملا۔ وہ جواب شکوہ میں موجود ہے۔ اس میں جو لائحہ عمل پیش کیا گیا ۔ وہ بھی حضور ﷺ کی ذات سے عشق کی سر گرمی سے عبارت تھی اور تلقین کی گئی کہ پستی سے نکل کر عروج کی دہلیز پر انقلاب برپا کرنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ تو دین اسلام کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیار کر لے۔ اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوجا ۔ پھر دیکھ تجھ میں وہ قوت آجا ئے گی ۔ کہ تو ایک باوقار اور فعال قوم کی حیثیت سے ساری دنیا پر چھا جائیگا۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
نظم کے اخری شعر میں اقبال نے گو یا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا اور دو ٹوک الفاظ میں بارگاہ خدا وندی کی مشیت سے آگاہ کر دیا ۔ کہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز حضور ﷺ کی غلامی پرمنحصر ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں
***Iqbal ki Fikri Nizam men Ishqe Risalat ki Ahmiyat … by Shaukat Ahmad Dar, P. NO. 79 to 82
*ریسرچ سکالر دیوی اھلیہ وشوویدیالیہ اندور ایم پی
Email : u.darshowkat@gmail.com, Ph. No. 8803326910, 8716822365
Email : u.darshowkat@gmail.com, Ph. No. 8803326910, 8716822365
Leave a Reply
1 Comment on "اقبال کی فکری نظام میں عشق رسالت ماب ﷺ کی اہمیت و افادیت"
[…] […]