اقبال اور ابوالکلام آزاد: فکری مما ثلت اور مغائرت 

نذیر احمد کھنڈا*
حیات اورکائنات اوراِن کے متعلقات کے بارے میں یوں تو کبھی کبھی معمولی ذہنیت کے حامل افراد بھی متفکر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک مفکر اوردانشورمتعلقہ رموز کو شعوری طور پر اور نہایت ہی سنجیدگی سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتاہے ۔ایسے فرد کے لیے افکار وآرا کا محض اظہار ہی سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ وہ کائنات اور حیات کے بارے میں اٹھنے والے مختلف النوع سوالات کو سمیٹ کر ان کا متناسب و متوازن جواب تلاش کرتارہتا ہے ۔مطالعۂ فطرت ،مشاہدۂ کائنات اور تجربۂ حیات اس کی راہیں ہموار کرتے رہتے ہیں ،تب وہ اظہار کی منزلوں سے گزرتا ہے اور مفکروں اور دانشوروں کی صف میں آکر کھڑا ہوتا ہے ۔
علامہّ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزادمفکروں اور دانشوروں کی اسی صف سے تعلق رکھتے ہیں ۔دونوں اصحاب کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے سرفرار کیاتھا ۔دونوں کو کائنات اور زندگی اور ان سے وابستہ معاملات سے براہ راست سروکار رہا ہے اور ان کی تلخیوں سے تادم مرگ نبرد آزما ہوتے رہے ہیں ۔مذہبی امور ہو کہ سیاسی ،تہذیبی ہو یا ثقافتی ،معاشی ہو یا سماجی ،ادبی ہو یا علمی ان سبھی معاملات پر ان دونوں کی طائرانہ نگاہیں مرکوز رہی ہیں اور ہر معاملے میں ان کا ایک سوچا سمجھا موقف رہا ہے ،جسے تدبر ،تفکراور نہایت ہی جامعیت کے ساتھ یہ دونوں اپنی اپنی نگارشات میں پیش کرتے رہے ہیں ۔
اقبال اور آزاد ایک ہی عہد کے دو بڑے مفکّر تھے۔جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کو اپنے فکرو فن سے متاثر کیا ہے ۔ دونوں مفکر حضرات جس دور سے گزر رہے تھے وہ نرم وشیرین گفتاری کا نہیں بلکہ تلخ نوائی کا دور تھا ۔اس دور نے اقبال اور آزاد دونوں کو مردانہ لب ولہجہ عطاکیا اور ضربت کاری اور لہوترنگ کا مطالبہ کرنے والے زمانے نے دونوں کو پروقار ،پر شو کت اور پر شکوہ طرز گفتار دی ۔در حقیقت دونوں کا مقصد ادب پاروں کے ذریعے مسرت اور انبساط کا سامان فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ بر صغیر کے مسلمانوں کو فکری ،ذہنی اور جسمانی غلامی سے نجات دلانا تھا اور انسان کی فوز وفلاح اِن کی تحریروں کا مرکز و مولود ہے۔
ادبی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ایک ہی دور کے دو یادوسے زائد تخلیق کاروں کا ذہنی رویہّ اور اظہار کے اسالیب مختلف ہو سکتے ہیں ۔حالاں کہ زمانہ ایک ہوتا ہے اور ان تخلیق کاروں کے سامنے مسائل اور معاملات یکساں ہوتے ہیں لیکن طرزِ فکر اور طرزِ اظہار کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ معاصر عبقری ذہن رکھنے والے افراد کے درمیان موجود مشترک ذہنی وفکری رشتوں کے ارتباط کی تلاش وجستجو سے دست بردار نہیں ہوسکتے ۔اقبال اور آزاد ملتِ اسلامیہ کی بقا اور خوشحالی کی تڑپ سے سرشار ہیں۔وہ اتحاد مملکت یا فکر وعمل کو آفاقی دستور تسلیم کرتے ہیں وہ برا عظیمِ ایشیا کی نشاۃ الثانیہ کے طائرِ بہار بن کے نغمہ سنج ہیں ۔نیل کے ساحل سے خاکِ کا شغر تک حرم کی پاسبانی کو اعلان حق سمجھتے ہیں ۔مغربی صحت مند افکارو فنون سے مشرق کو نجات دلانے کا اضطراب رکھتے ہیں ۔احتجاج اور انقلاب کی جنوں خیز کیفیت سے دونوں مغلوب ہیں۔دونوں اتحادِ اسلام کی تحریک کے علمبردار ہیں ۔ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں :
ٍ’’غور سے دیکھئے تو ابوالکلام آزاد اور اقبال کے مقاصد اور نصب العین بھی کچھ زیادہ مختلف نہ تھے ۔یہ دونوں بزرگ اتحاد اسلام تحریک کے علمبردار تھے ۔دونوں ملت اسلام اور خلافت اسلامیہ کے داعی تھے ۔دونوں جہاد اور سرفروشی کے مبلغ تھے ۔عمل ،حسن عمل اور عشق وجنوں دونوں کا محبوب عقیدہ تھا ۔‘‘ ۱؂
اقبال اور آزا دماضی سے بے اعتنائی برتنے کے بجائے ماضی کی خواب گاہوں کی مدد سے حال اور مستقبل کے ایوان اور محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں پھر خلافت کی بنا استوار ہو اور بنی نوع انسان ایک مرکزِ محسوس کے گرد وحدتِ بشر کا مشاہدہ کر سکے ۔ان سے قطع نظر دونوں بے کراں تخلیقی قوت کے مالک ہیں جس میں وہبی اور اکتسابی عرضِ ہنر کی جوہری طاقت جذبہ واحساس کی تمام لطافتوں کے ساتھ جمع ہو گئی ہے ۔ذکر وفکر کے یہی آہنگ ہیں جن میں اِن کی انفرادی شناخت کا راز پنہاں ہے ۔اِن کی تخلیق میں کثرت آرائی کی مثال بے نظیر ہے ،دونوں اصحاب کی علمی ،سیاسی،سماجی ،ادبی ،فکری اور مذہبی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ دونوں مفکر مذہب پرست تھے ،قوم و ملت کے بہی خواہ اور انسانیت کے علمبردار تھے ۔
اقبال اور آزاد کے افکار قرآن وحدیث کی روشنی میں منۂ شہود پر آئے ہیں ۔ان دونوں کا نصب العین تھا کہ دینِ اسلام میں اجتہاد کر کے ملت اسلامیہ کی تجدید اور انسانیت کی نشاۃ الثانیہ کا سامان فراہم کریں ،اس لیے انہوں نے اپنے اپنے نظامِ فکر کو قرآنِ کریم کی اساس پر ترتیب دیا اور اسی کی تعلیمات کی روشنی میں ملتِ اسلامیہ کے تمام مسائل کاحل تلاش کرنے کی کوشش کی ۔بر صغیر کے مسلمان اقبال اور آزاد کے مرہونِ منت ہیں کہ انہوں نے یہاں کے مسلمانوں کی رگوں میں عزم و ہمت ،ارادہ و حوصلہ ،جوش و ولولہ ،خودداری و خو داعتمادی اور ثابت قدمی و اولوالعزمی کا خون دوڑایا ۔اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں :
’’ ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے بیسویں صدی کی اسلامی دنیا میں اپنے فکر وعمل سے ایک ایسی جنبش پیدا کی جس سے زمانے کی سیاست بھی متاثر ہوئی اور ملی زندگی نے دیر پا اثرات قبول کیے ‘‘ ۲؂
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ اُردو کے یہ دونوں مایہ ناز مفکر ادیب اسلامی افکار و احوال میں جو تاثرات قبول کرتے ہیں ان کاتجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اقبال کی شاعری اور افکارِ ابوالکلام میں طرز اظہار کا فرق ہے ۔غالباً سجاد انصاری نے اسی لحاظ سے یہ بات کہی تھی کہ اگر قرآن اُردو میں نازل ہوتا تو اس کے لیے ابوالکلام کی نثر منتخب کی جاتی یا اقبال کی شاعری۔
اقبال اور آزادکی تحریروں کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو یکسانیت کی سطح اتنی بلند ہے کہ اقبال کی تحریریں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم ابوالکلام کو پڑھ رہے ہیں ۔ اسی طرح موخرالذکر کے متن کے مطالعہ کے دوران گمان گزرتا ہے کہ اقبال ہمارے سامنے ہیں۔کیوں کہ بعض مقامات پر تو دونوں کے یہاں حیرت انگیزذہنی و فکری مما ثلتیں ملتی ہیں اس حوالے سے غلام رسول ملک اپنی تصنیف’’ The western Horizon‘‘میں لکھتے ہیں:
In tazkirah there are passages where one has the feeling that one is reading a prose version of some verses of Iqbal,a prose version couched in as powerfull and moving a launguage as that of Iqbal’s poetry itself, 3
اقبال اور آزادکی فکری و ذہنی مماثلتوں کے پیش نظر ایم ۔ڈی۔دوون بھی انہیں خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں :
While portraying his objectives of “Al-Hilal”we find Azad stating the same what Iqbal has poetized in his “Asrar-i-khudi” 4
مولانا آزاد’’تذکرہ ‘‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’بڑوں بڑوں کا عذر ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور سرو سامان اور اسباب کار فراہم نہیں ۔لیکن وقت کا عازم وفاتح اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اس کو ساتھ لوں گا ‘‘ ۵؂
مولانا آزاد کے ’’تذکرہ‘‘کی مذکورہ عبارت کے خیالات علامہ کے یہاں شعری جامہ میں کچھ اس طرح ملتے ہیں :
کہتا ہے زمانے سے یہ درویشِ جوان مرد
جاتا ہے جدھر بندۂ حق تو بھی ادھر جا !
میں کشتی وملاح کا محتاج نہ ہوں گا
چڑھتا ہو ادریا ہے اگر تُوتو اتر جا!
مہرومہ وانجم کا محاسب ہے قلندر!
ایام کا مرکب نہیں ،راکب ہے قلندر ! ۶؂
یا
حدیث بے خبراں تو بازمانہ بساز !
زمانہ باتونہ سازد،تو با زمانہ ستیز ! ؟ ۷؂
اقبال اور آزادبنیادی طور پر انسان دوست تھے یہی وجہ ہے کہ دونو ں کے تصور انسان میں گہری مماثلت ملتی ہے ۔دونوں انسان کو سطحی سیاسی نصیحتوں سے بلند ہو کر انسانی برادری کے عالم گیر دائرے میں دیکھنا چاہتے ہیں ،دونوں کا ماننا ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک ایک ہے ،اس لیے فطری طور پر اس کی مخلوق کو بھی ایک ہونا چاہئے اور ایک ہی مرکز ہدایت سے انسانوں کو وابستہ ہونا چاہئے ۔انسانوں کو آپس میں اس لحاظ سے مر بوط ،متحدہ اور متحرک ہونا چاہئے ۔آزاد لکھتے ہیں :
’’اسلام دنیا میں پہلی آواز ہے جس نے انسان کی بنائی تفریقاتپر نہیں بلکہ الٰہی تعبد کی وحدت پر ایک عالم گیر و اخوت و اتحاد کی دعوتدی ۔۔۔۔ در حقیقت اسلام کے نزدیک وطن و مقام اور رنگ وزبان کی تفریق کوئی چیز نہیں ‘‘ ۸؂
اقبال بھی بنی نوع انسان کو رنگ وخون کے رشتوں سے بلند کر کے ایک نوع انسانی سے وابستہ دیکھنے کے خواہش مند ہیں ؂
یہی مقصودِ فطرت ہے ،یہی روز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری ،محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کوتوڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی ،نہ ایرانی نہ افغانی ۹؂
حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال اور آزاد مختلف حیثیات سے اس یکسانیت کی طرف اشارے کرتے ہیں جن سے ان کی اعلیٰ علمی،ادبی و روحانی کیفیات کا پتہ چلتا ہے ۔آزاد کے ہاں اقبال کی طرح مذہبی اصطلاحات کا مفہوم بڑی حد تک روحِ مذہب ہی سے وابستہ ہے اور ہمیں ان دونوں بڑے ادیبوں کے ہاں وہ واردات ملتی جو حیات اور کائنات کی حقیقت کا انکشاف کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے اور ہم مذہب کی راہ سے ان اقدارِ عالیہ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جو مذہب تہذیب اور انسانی ہستی کا مقصداصل ہے ،جس طرح اقبال نے مذہب کو بنیاد مان کر بے خوفی،طاقت و توانائی اور حوصلہ کا پیغام دیا اسی طرح آزاد نے بھی مذہب کی انہیں حقیقتوں کی طرف متوجہ کیا ۔دونوں نے مذہب کا اعتراف ان معنوں میں کیا ہے کہ وہ ہماری زندگی کے ایک ایسے خلا کو پُر کرتا ہے جسے اور کوئی خیال پُر نہیں کر سکتا ۔
اقبال اور آزادکی تحریروں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دونوں نے اپنے تمام تر خیالات کی تشریح کے لیے فلسفہ کے تین مسائل اور عقلِ انسانی کے تین مراحل یعنی خدا، انسان اور کائنات کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔اقبال انسان اور کائنات کے باہمی ربط کو قرآن کا اعلیٰ شعور قراردیتے ہیں ۔اقبال نے جس تشریح اور تفصیل سے کائنات کے تغیر اور ارتقاء پر بحث کر کے انسان کو اس سے اشرف و اعلیٰ قرار دیا ہے اسی طرح آزاد نے بھی کائنات کے تغیر و ارتقاء میں انسان کی حیثیت اس کے مقا بلے میں بر گذیدہ اور بلند مرتبہ خیال کی ہے ۔دونوں اس پر متفق اور مصر ہیں کہ کائنات قانونِ تغیر اور ارتقاء کے راستے پر گامزن ہے ۔آزاد کائنات میں انسانی عظمت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’کرۂ ارض کے موجودات میں جتنی چیزیں ہیں سب انسان سے نچلے درجہ کی ہیں وہ ان کی طرف نظر نہیں اُٹھا سکتا اس کے اوپر اجرامِ سماوی کی موجودات پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان میں بھی کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس کا نصب العین بن سکے ۔۔۔۔یہاں اس کے چاروں طرف پستیاں ہی پستیاں ہیں جو اسے انسانیت کی بلندی سے پھر حیوانیت کیپستیوں کی طرف لے جانا چاہتی ہیں حالاں کہ وہ اوپر کی طرف اڑنا چاہتا ہے ،اسے بلندیوں اور لا محدود بلندیوں کا ایک بامِ رفعت چاہیے جس کی طرف وہ برابر دیکھتا ہے اور جو اسے ہر دم بلند سے بلند تر ہوتے رہنے کا اشارہ کرتا ہے ۔‘‘ ۱۰؂
اس نوع کے خیالات میں اقبال اور آزاد دونوں بڑی حد تک ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں ۔اقبال اس حقیقت کو یوں آشکار کرتے ہیں :
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے ۱۱؂
تو اسے پیمان�ۂ امروزوفرداسے نہ ناپ جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی ۱۲؂
اگر چہ بنیادی طور پر کائنات کے اس تصور کے بارے میں اقبال اور آزاد ایک دوسرے کے ہم نوا اور ہم نغمہ ہیں لیکن دونوں کی انانیت اس منزل میں بھی یکسر جدا گانہ پہلو رکھتی ہے ۔اقبال کے ہاں انانیت کا اظہار شانِ جلالت کے روپ میں ہے اور آزاد کے ہاں شانِ جمال کے پیکر میں، دونوں نے انسان کی عظمت کو تسلیم کیا ہے ۔
اقبال اورآزاد کی ذہنی وفکری مماثلتوں کے جواز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چوں کہ دونوں احیائے اسلام سے متاثر ہیں اس لیے دونوں کی فکر کی مطابقت عیں ممکن ہے ۔تاہم مماثلتوں کے علاوہ ان کے یہاں بعض نظریات میں مغائرت بھی پائی جاتی ہے بالخصوص دونوں کے سیاسی نظریات میں اختلاف پائے جاتے ہیں ۔ ایم ۔ڈی ۔دَوون اس حوالے سے لکھتے ہیں :
Where there are certain striking similarities in their thoughts ,we find serious diffrences in their approach to many delicate problems confronting their era. 13
اقبال اور آزاد کے ہاں بعض ضمنی اختلافات اورمغائرت سے قطع نظر ان کے یہاں جو فکری یا نظریاتی مماثل صورتیں ملتی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ چنانچہ دونوں کا ماخذ ایک ہے اورمنزل بھی ایک ۔دونوں نے ’’الکتاب ‘‘کو مشترکہ ماخذ مانا ہے ،دونوں نے خودی کی اصطلاح میں ٹھیک معانی کی طرح الفاظ بھی مشترک استعمال کیے ہیں ۔اقبال کے پیامِ خودی اور آزاد کے پیامِ خود شناسی کا تجزیہ کیا جائے تو دونوں جگہ ایک ہی حقیقت کی مصوری ہے۔ فطرت کی کتاب کا جو نسخہ اقبال نے پیش کیا ہے اگر اسے نسخہ خفی کہا جائے تو آزاد کے ہاں یہی نسخہ جلی قرار پاتا ہے ۔اسی قربت اور قوت کی بنا پر ایک انسان کے قلب وجگر کو گرماتا ہے تو دوسرا انسان کی روح کو تڑپاتا ہے ۔دونوں کی پرواز سر حدِ ادراک سے پرے ہے۔اقبال نے فطرت کو جس قدر قوت سے مسخر کیا ہے اسی قدر آزادنے بھی فطرت کو طاقت کے وسیلے سے زیر کرنے کی کوشش کی ہے ۔دونوں نے اسلام کے نظریہ توحید اور عمل تقویٰ کو اساسی طور سے واضح کیا کہ دونوں اسلامی روح کے سچے ترجمان کہلاتے ہیں۔
***

Iqbal Aur Abul Kalam Azad: Fikri Mamaselat … By Nazeer Ahmad Khanda, P. NO. 76 to 78

*ریسرچ اسکالر ، ادارۂ اقبالیات برائے ثقافت و فلسفہ کشمیر یونیورسٹی ، حضرت بل ،سری نگر ۔ ۱۹۰۰۰۶
9622769053, nazirnazar111@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on " اقبال اور ابوالکلام آزاد: فکری مما ثلت اور مغائرت "

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Syed Hanif Rasool
Guest
بہت عمدہ تجزیہ ہے۔ مقالہ نگار کی نظر تعصب سے یکسر پاک ہے اور تقابلی مطالعہ میں گہرائی ہے
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.