اقبال اور عورت
دانش حسین خاں*
’وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ‘
آج اس دور میں جس کو سائنس اور ٹکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے ،اس کو عورتوں کی برتری کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دو رمیں جہاں چہار جانب عورتوں کے تعلق سے گفتگو کی جاتی ہے۔ عورتیں ہر مجلس اور ہر ایوان کی موضوعِ گفتگو ہیں۔ تمام مذاہب نے عورتوں کو ایک الگ اہمیت عطا کی ہے۔ عورت جو عفت وپاک دامنی کی مثال ہے وہی عورت آج ہر محفل کی موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ آج عورتوں کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ ایک لڑکی ایک عورت کو اپنی عزت وناموس کو بچانے کے لیے اپنی جان کی قربانی دینی پڑ رہی ہے۔ وہ عورت جس کے قدموں کے نیچے جنت کی بشارت دی گئی ہے جس کو ایک دیوی کی مانند سمجھا جاتا ہے۔ آج اسی دیوی اور جنت کو اس سماج نے بہت بری طرح روندا اور کچلا ہے۔
میرے مقالے کا عنوان ’اقبال اورعورت‘ کے تعلق سے ہے۔ اس مقالے میں عورتوں کی آزادی، لباس، پردہ، تہذیب اور تعلیم سے متعلق گفتگو کروں گااور اس بات کی نشاندہی کروں گا ۔ اقبال کا عورتوں کے متعلق کیا نظریہ تھا ۔ اقبال کے نزدیک عورت شروع سے ہی ایک مقدس ہستی رہی ہے،جو محبت ووفا کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ جس نے اپنی پاکیزہ محبت سے عشق کی ایک نئی بنیاد قائم کی اور اسی وجہ سے خدا نے بھی عورت کی ذات میں ساری رنگینیاں ، رعنائیاں اور دلفریبی کو سمودیا ہے۔ لیکن جب اقبال نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تو وہ انتشار کا دور تھا۔ مغلیہ سلطنت ختم ہوچکی تھی اور مغربیت مشرقیت پر حاوی ہورہی تھی اور ایک ایسی تہذیب وجود میںآرہی تھی جس میں اخلاقی قدریں پاش پاش ہورہی تھی۔ اس زمانے کے شاعر وادیب نے بھی اپنا سارا زور عورتوں پر صرف کردیا تھا اور ادب اور شاعری میں عورتوں کے خدوخال کو اجاگر کرنے کی ایک نئی بنیاد قائم ہونے لگی تھی۔ لیکن جب اقبال جیسا حساس شاعر اس جانب متوجہ ہوتا ہے تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ :
ہند کے شاعر و صورت گرد افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
عورتوں کی اس عبرت ناک صورت حال کے بارے میں باقر مہدی فرماتے ہیں کہ:
’’خود ترقی پسند اور جدید ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں عورت کی جذباتی اور معاشرتی کشمکش کو مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہیں۔خواہ وہ راشد کی نظم میں ہم رقص ہو یا مجاز کی ’’آنچل کو پرچم بنانے والی باغی لڑکی‘‘ ہو ، عورت کے جسم و ذہن کی اتنی ہی اہمیت ہو جتنی مرد کی، کہیں نظر نہیں آتی۔ اور غزل کی حکمرانی نے عورتوں پر تغزل کے دروازے میں اس طرح بند کیے تھے کہ وہ جانِ غزل تو بن سکتی تھی مگر خود غزل گو نہیں بن سکتی تھی۔‘‘(بحوالہ: شاعری کی تنقید، ابوالکلام قاسمی، ص:318)
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اقبال کا بھی وہی نظریہ ہے جو اسلام کا ہے۔ اور اسی وجہ سے اقبال نے اپنے کلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی سے متعلق اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ اقبا ل نے اپنی شاعری میں عورت کا مختلف انداز میں بار بار ذکر کیا ہے۔ وہ عورت کا ذکر نہایت عزت واحترام کے ساتھ کرتے ہیں ۔ کبھی ماں کی شکل میں، کبھی محبوبہ کی شکل میں، تو کبھی عورت کی جفا کشی اور دلیری پر دادِ تحسین دیتے ہیں تو کبھی اس کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور عورت کی عزت وحقانیت کو مرد کا اولین فریضہ بتایا ہے۔ چنانچہ عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شَرَف ہے اِسی دُرج کا دُرِ مکنوں
مکالماتِ افلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
عورتوں کی شجاعت وبہادری اور ان کی عزت واحترام کا عکس ہمیں اقبال کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے۔ اقبال نے فاطمہ بنت عبداﷲ کو شجاعت کی مثال کہا ہے۔ جو پہلی جنگ عظیم کے وقت غازیوں کو پانی پلاتے وقت شہید ہوگئی تھیں۔ ان کو امت کی آبرو بتایا ہے اور ان کی شہادت پر فخر کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیائی دین کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اﷲ کے رستہ میں بے تیغ وسپر
ہے جسارت آفرین شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی ابھی اس گلستان خزان منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
لہٰذا ان تمام اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورت کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کو مخاطب کرتا ہے۔ عورت کی نسوانیت پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دینے کی قسم کھاتا ہے اور اس کی بڑائی کی سراہتا ہے۔ کیونکہ عورت کے اس روپ میں اسے اپنی ماں نظر آتی ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ماں کے جواب میں ایک ماں کی مامتا، تڑپ، الفت غرض ہر طرح کے جذبوں کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار:
میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جارہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
اقبال نے عورت کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک عورت سات خاندان کو تعلیم یافتہ کرتی ہے۔ اور وہ ایک عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے اور اگر عورت ہی تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو وہ پوری قوم تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ اسی لیے اقبال یہ درخواست کرتا ہے کہ عورتوں کو تعلیم سے مزین کرو۔ عورت اور تعلیم کے عنوان سے ان کی نظم کے چند اشعار پیش ہیں:
تہذیب فرنگی ہے اگر موت اس وقت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازاں
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ ہنر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
لیکن یہاں پر میں اس با ت کی بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ اقبال عورت کی تعلیم کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں مگر وہ تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس تعلیم سے مغربی تہذیب کو اپنایا جائے اور جس سے بے حیائی اور غیر ذمہ داری کو فروغ ملے۔ کیونکہ اقبال خود ایک جگہ فرماتا ہے:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
دیکھ لی قوم نے فلاح کی راہ
یہ تماشا دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہاں پر انگریزی سے مراد یہ نہیں ہے کہ انگریزی زبان میں کوئی خرابی ہے بلکہ اقبال اس تہذیب وثقافت کے خلاف ہے، جو اس انگریزی زبان سے وابستہ ہے۔ بلکہ اقبال کا تویہ ماننا ہے کہ اگر کوئی اَن پڑھ، غیر مہذب ، مگر دین دار عورت بچے کی پرورش کرتی ہے اور ایک غیر ت مند مسلم وجود میں آجائے تو وہ اس موڈرن، تہذیب یافتہ اور بے دین عورت سے قدرے جہاں بہتر ہے۔ عورتوں کی تعلیم سے اقبال کا یہ ماننا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت سے ایک بہتر سماج کی تشکیل ہونی چاہیے۔ قرآن میں بھی ارشاد ہے: ’’ولا متہ مؤ منۃ فیر من مشرکۃ ولو اعجیبتکم البقرۃ۔‘‘ یعنی مومن باندی مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمھاری نظر میں کتنی ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبال دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے بھی حامی ہیں۔ کیونکہ عورت کی تعلیم اگر اسے خاتونِ خانہ کی بجائے شمع انجمن بنائے اور وہ دفتروں ، کارخانوں اور ہوٹلوں کی زینت بنے تو اس سے نئے معاشرتی مسائل پید اہوں گے۔ اقبال عورتوں کی آزادی کے متعلق بھی اپنا ایک الگ اور پختہ نظریہ رکھتے ہیں۔ آزادی سے مراد اقبال کا ماننا یہ ہے کہ عورت کو سماج میں ہر طرح کی آزادی ملنی چاہیے مگر وہ آزادی ایسی نہ ہو کہ جس سے اپنی تہذیب اور اخلاق میں گراوٹ آجائے۔ یعنی مغربی تہذیب کے زیرِ اثر عورت معاشرے میں جو مقام تلاش کررہی ہے وہ مشرقی تہذیب کے منافی ہے۔ اور اس سے صرف بربادی وجود میں آتی ہے۔ اس بارے میں علامہ اقبال نے مدراس کی خواتین سے فرمایا تھا:
’’آپ نے اپنے لیے ایڈریس میں اسیرانِ قفس کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان سے مجھے مغربی عورتوں کی اس تحریک کا خیال ہوا جسے ترکی میں یا اور جگہ یورپ میں (Emacipation)’مردوں کے غلبہ سے آزادی‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے…. آپ کو لفظ آزادی پر نہیں جانا چاہیے۔ آزادی کے صحیح مفہوم پر غور کرنا چاہیے، یورپ کی آزادی کو ہم خوب دیکھ چکے ہیں، یورپین تہذیب باہر ہی سے دیکھی جارہی ہے، کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوں۔ بڑھے ہوئے معیار زندگی کا وہاں لوگوں پر یہ اثر پڑا ہے کہ بعض ماں باپ بچے کی زندگی کا بیمہ کرادیتے ہیں۔ پھر بچے کو تھوڑی خوراک دے کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ بچوں کو اسی قسم کی ہلاکت سے بچانے کے لیے یورپ میں کئی سوسائٹیاں مقرر ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن پڑھیں اور اس کی تعلیم پر غور کریں….‘‘
لہٰذا ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال آزادئ نسواں کے پر زور حامی تھے۔ مگر اس آزادی کے خلاف بھی تھے جو مغربیت کے طرز پر ہو۔ اور ایسی آزادی اقبال کی نظروں میں زہر قند کے مترادف ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہرہے، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ
آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
الغرض ان تمام باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آزادئ نسواں کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اس سے آپ اپنی ذات کی تکمیل کرسکیں۔ اپنی خودی کو اجاگر کریں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مغربیت کی اندھی تقلید کی بنا پر آپ اپنے وجود کو فنا کردیں۔
ان ساری باتوں کے بعد پردہ کا سوال بھی ذہن میں ابھر کر آتا ہے۔ کیونکہ آج کے اس معاشرے میں یہ لفظ پردہ اپنا وجود کھوتاجارہا ہے۔ اس لیے علامہ اقبال بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بے پردگی صرف باعث رسوائی نہیں ہے بلکہ افکار میں پراگندگی وابتری کی بھی محرک ہے۔ مثال کے طور پر:
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ وابتر
لہٰذا ان تمام باتوں کے بعد جب ہم اقبال کا نظریہ عورت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورتوں کی حفاظت کے قائل تھے اور ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتے تھے جس میں عورت کو مرد کے دوش بدوش کھڑا کریں ، جس کا انھوں نے اپنے کلام میں جابجا اشارہ بھی کیا ہے۔ مگر آج کے اس دور میں سماج کا ایک طبقہ عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنارہا ہے، ان کی عزت وآبرو سے کھیل رہا ہے، جب کہ اقبال یہ چاہتا تھا کہ مرد عورت کی حفاظت کرے۔ اور عورت کی حفاظت کو اقبال نے مرد کا اولین فریضہ بتایا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چاہے پردہ ہو کہ نہ ہو، چاہے تعلیم پرانی ہو یا نئی ہو لیکن نسوانیت زن کی نگہبانی فقط مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ کیونکہ سماج میں زن دشمن بھیڑیے ہر ہر قدم پر پائے جاتے ہیں جن سے عورت کی عزت وآبرو ہر لمحے خطرے میں رہتی ہے۔ اور اگر اقبال کی اس با ت کا تجزیہ ہم قرآن کی روشنی میں کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سورۃ النسا میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر۔ اس سبب سے کہ اﷲ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے۔ اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، سو جو عورتیں نیک ہیں، اطاعت کرتی ہیں مرد کی۔‘‘
لہٰذا اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کو عورتوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں۔ اور عورتوں کو اس بات کی بھی نصیحت کی ہے کہ تو بھی حضرتِ فاطمہ کی سیرت کو اپنا تاکہ تیری گود میں بھی کوئی شبیر جنم لے سکے۔
الغرض ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے ہی ایک اچھے اور صحت مند سماج کی تشکیل ہوتی ہے۔ اور آج کے اس دور میں عورت اور مرد دونوں کو برابری کا حق ہے۔ لیکن ہمیں اس با ت کا احساس ہونا چاہیے کہ ہماری سرحدیں کہاں تک ہیں۔ بقول اقبال
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
***
Iqbal Aur Aurat, by Danish Husain Khan, P. No. 73 to 75
*شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی،د ہلی
Mob: 9899804188, E-mail: danish.urdu@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "اقبال اور عورت"
[…] 80. اقبال اور عورت […]
[…] اقبال اور عورت […]