اکیسویں صدی اور عصمت کی افسانہ نگاری کی معنویت
عصمت چغتائی کا نام آتے ہی ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ایساکیا رہ باقی رہ گیا جس پر قلم اٹھا کر عصمت کی تخلیق کے مانند ہی لوگوں کو چونکا دیا جائے۔ یہ کوئی آسان عمل نہیں ہے کہ قلم اُٹھایا اورکام ہو گیا۔اردو افسانے کے اُفق پر جس مانند عصمت کا نام جھگمگا رہاہے اُس کی پھیلی ہو ئی روشنی کو سمیٹنا ایک طالبِ علم کے لئے بے حد مشکل عمل ہے۔لیکن راہ میںآئی اس دشواری کاجواب بھی خود عصمت بتاتی نظر آتی ہیں ۔بقول عصمت:۔
’’لکھئے…ضرور لکھئے….جوکچھ آپ دیکھتے ہیں….سنتے ہیں ‘سوچتے ہیں وہ ضرور لکھئے ۔نہ زبان کی غلطیوں سے ڈرئیے نہ اس بات سے کہ کوئی آپ کو ادیب نہیں مانتا ‘‘۔ یہ چند سطریں پڑھ کر میں نے اپنے اندر ایک الگ ہی sparkمحسوس کیا اورسمجھ آیا کہ دراصل عصمت کی یہ جُرآت ہی ان کی تحریروں میں ڈھل کرسامنے آتی ہے جس سے بے شک متاثر ہوئے بغیرنہیں رہا جا سکتا۔
عصمت کی اس جُرآت مندی کا سبب ان کے بچپن کی وہ تربیت بتائی جاتی ہے جس میں نہ ملنے والےspecial attention نے انھیں اس قدر بے باک اورباغی بنا دیا ‘شاید یہ وجہ رہی ہو لیکن احساس کمتری میں رہنے اور پلنے والا شخص نفسیاتی اورذہنی مریض بھی بن کر رہ جاتا ہے ساتھ ہی عصمت کی شخصیت پر غور کریں تو وہ کبھی کسی طرح کےcomplex کا شکار نظر نہیں آتیں۔جس طرح بچہ انفرادی صفات لے کر دنیا میں قدم رکھتا ہے اُسی طرح عصمت کی بھی بے باکی اورباغیانہ صفات ابتدا ہی سے اُن کے مزاج کاحصّہ تھیں۔
عصمت کی افسانہ نگاری پرغور کریں توابتدا میں آپ حجاب امتیاز علی سے کا فی متاثر نظر آتی ہیں لیکن انگارے کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو افسانے کی دنیا میں ایک نیا باب کھلا اور ایک ایسی عورت کا نام سامنے آیا جس نے انسانی استحصال کے خلاف میدان میں آ کر اپنی روشن خیالی کامظاہرہ کیایعنی’’ رشید جہاں‘‘۔۔آپ کی آنکھوں میں پلنے والا وہ خواب عصمت نے اپنی آنکھوں میں بسا لیا اور آخرکار اُسے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو کر حقیقت کاچولا پہنا کرہی دم لیا۔
اردو افسانے کی دنیا میں عصمت نے ایک ایسے موضوع کی طرف سب کی توجہ دلائی جہاں سماج کاایک فرد دوسرے فردکا متواتر استحصال کرتا نظر آتا ہے ۔دراصل یہاں مُراد مرد کے ذریعے عورت پر کئے جانے والے ظلم سے ہے جسے عصمت نے ایک فرد کی نظر سے دیکھا اورمحسوس کیا ۔لہٰذا عصمت کے تمام افسانوی موضوعات کا مرکز ومحو روہ فردیعنی کہ عورت رہی جس کا استحصال ایک بڑا مسئلہ تھا اور وہ بھی متوسط طبقے کی گھریلو مسلم خواتین۔دراصل عصمت نے گھر کی چہار دیواری میں پائے جانے والے بے شمارموضوعات اورکردار‘ جو کہ سماج میں ایک فردکی حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن اہمیت نہیں‘اُن عورتوں کی زندگی کے تمام تر معاملات ‘پریشانیوں اور ذہنی اور جنسی گھٹن کو اپنا موضوع بنایا جنھیں اب تک نظرانداز کیا جارہا تھا۔ان افسانوں میں عورت کے تمام تر روپ جلوہ گر ہیں جس میں‘ بچپن سے لے کر جوانی تک کی دستک اور ادھیڑ عمر سے لے کر زندگی کے اخری سفر تک کا بیان ہے۔افسانہ چوتھی کا جوڑا‘ روشن‘چھوٹی آپا ایسے افسانے ہیں جہاں شادی میں کھڑے ہونے والے مسائل ان کی زندگی بد تر کر دیتے ہیں۔یہاں ایک بات اورقابلِ توجہ ہے ‘ وہ یہ کہ مرد کے جذبات کو بھی آپ نے نظر انداز نہیں کیا‘ جس کا ثبوت افسانہ ’’نفرت ‘‘میں بخولی دیکھنے ملتا ہے ‘جس میں بغیر مرضی مردپر عورت تھوپ دی جاتی ہے جس سے وہ مرنے کے بعد بھی آزاد نہیں ہو پاتا۔افسانے کے ہیرو’’ منو‘‘ جس کی شادی زبردستی فخرالنسا سے کردی جاتی ہے اپنے جذبات دل ہی دل میں یوں بیان کرتا ہے …
’’کہیں دل کی گہرائیوں میںیہ آرزو چھپی ہوئی تھی کہ…..کہ وہ بھی کسی پھول جیسی ہلکی پھلکی تیتری کو یوں بازوؤں میں اُٹھا لے جیسے ….مگر وہ اس آرزو کو دماغ سے آگے بڑھنے نہیں دیتا‘‘۔
حالانکہ عصمت نے اپنے افسانوں میں عورت کی مظلومی کاذکر کیا ہے لیکن ان کے نزدیک مرد بھی کئی دفعہ بے حدمظلوم ہوتاہے۔اس طرح افسانے میں مزاح کاعنصر بھی پایا جاتا ہے۔ جیسے افسانہ ’’شوہر کی خاطر‘‘میں ریل کے سفر کے دوران شوہر کو لے کر کئے سوالات کاانبارہمیں لطف اندوز کر دیتا ہے اورہمیں بھی افسانے کے کردار کے ساتھ ساتھ عورتوں کے نزدیک شادی کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
جہاں ایک طرف عصمت نے چوتھی کاجوڑا‘ننھی کی نانی اور مغل بچہ جیسے مختلف افسانوں میں عورت کی بے بسی کا بیان کیا ہے تو دوسری طرف اُن کے بیشتر افسانوں میں اُن کے کردار روایت سے بغاوت کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ان کا خاصہ تھا۔ننھی کی نانی میں نانی کا کردار ایک ایسی عورت کی گمازّی کرتا ہے جو زندگی کے ہزار تھپیڑے کھانے کے باوجود زندہ رہتی ہے اور ابتدا سے ہی ایسی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور نظر آتی ہے۔دیکھئے یہ اقتباس :
’’دنیا کاکوئی ایسا پیشہ نہ تھا جو زندگی میں ننھی کی نانی نے اختیار نہ کیا۔کٹورا گلاس پکڑنے کی عمر سے وہ تیرے میرے گھرمیں دو وقت کی روٹی اور پرانے کپڑوں کے عوض اوپرکے کام پر دھر لی گئیں۔یہ اوپر کاکام کتنا نیچا ہوتا ہے ۔یہ کچھ کھیلنے کودنے کی عمر سے کام پر جوت دیے جانے والے ہی جانتے ہیں۔ننھے میاں کے آگے جھنجھنا بجانے کی غیر دلچسپ ڈیوٹی سے لے کر بڑے سرکار کی سر کی مالش تک اوپر کے کام کی فہرست میں آ جاتی ہے‘‘۔
سماج میں عورت کی اس حالت کو دیکھ کر عصمت کو رحم نہیں بلکہ غصّہ آتا تھا۔جس کے بنا پر ان کے کرداروں کی زبان بھی ان کے قلم کی مانند قینچی کی طرح چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور منھ توڑ جواب دیتی نظر آتی ہے۔ان کے یہاں عورت وفا کا پیکر‘ حسن کامجسمّہ یا محبت کی دیوی نہیں ہوتی بلکہ اپنے جذبات کو پیش کرنے کا دم خم رکھتی ہے۔بقول عصمت ’’اگر مرد چیخ سکتا ہے تو عورت کو بھی کراہنے کی اجازت ہونی چاہئے‘‘۔ عصمت کے افسانے تل‘ گھر والی ‘لحاف ‘بھول بھولیاں اور کنواری وغیرہ میں عورت کھل کر اپنے جذبات کااظہار کرتی نظر آتی ہے۔
اس طرح ایک طرف عصمت کی عورت روتی بصورتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف حالات کے آگے ڈٹ کر کھڑی رہتی ہے۔عصمت چونکہ ترقی پسند تھیں لہٰذا حقیقت کی پیش کش کے ساتھ ہی نت نئے امکان پیداکرنا جو انسان کی ترقی میں کارگر ہوں ان کا اہم مقصد تھا۔بقول عصمت ’’تر قی پسند ادب وہ ہے جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔انسان کی زندگی کے عروج کا قائل ہو‘‘۔ لہٰذا اپنے افسانوں کے ذریعے عصمت نے اس خواب کوپورا کرنے کی کوشش کی جہاں ہر فرد اپنی ایک حیثیت رکھتاہو۔اس کے ساتھ ہی سماجی حقیقت نگاری کاتصور بھی ان کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے‘جہاں اپنے افسانوں میں سماج میں رائج گھناؤنے رسم و رواج کو پیش کیا اور اونچے طبقے میں نوابوں کے ذریعے باندیوں پر ہونے والے ظلم کو اپنا موضوع بنایا۔افسانہ’’ بدن کی خوشبو‘‘ اور’’ اپناخون‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ان افسانوں میں باندیوں کا جنسی استحصال اور ناجائز تعلقات کا بیان ملتا ہے اوران کے حاملہ ہونے کے بعد ان کی طرف بے حسی اوربے توجہی کے معاملات کی بڑی صفائی سے تصویر پیش کی ہے۔اور ساتھ ہی نوابوں کی بیگموں کی تصویر کو بھی بخوبی پیش کیا ہے جو اپنی اولاد کو بہکنے سے بچانے کے لئے باندیوں کو ان کی خدمت میں پیش کرتی ہیں اور حاملہ ہو جانے کے بعد انھیں محل سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ایک غریب عورت کس طرح مختلف سطح پر جبرو استحصال کا شکار ہوتی ہے عصمت نے اس موضوع پر بہترین افسانے لکھے ہیں۔ ساتھ ہی افسانہ ’’بدن کی خوشبو‘‘ میں تعلیم یافتہ اور ذہین نواب کے بیٹے کا ایک باندی کی محبت میں ڈوب کر اس کے لئے سب کچھ چھوڑ دینا عصمت کے اسی ترقی پسند ذہن کی علامت ہے جو معاشرے کی تنقید کے ساتھ ساتھ اسے بدلنے کا بھی قائل ہو۔
عصمت کی اصل خوبی ان کا اسلوب ہے ۔ان کاقلم باغی اور جارحانہ طرز رکھتا تھا۔دراصل عصمت نے جس ماحول میں پرورش پائی ‘ اُس کا مشاہدہ اور مطالعہ اتنی باریکی سے کیا کہ اس زندگی کا ہر پہلو اُنھیں کے انداز میں ہوبہو ہمارے سامنے پیش کر دیا اورلوگوں کو اس قدر چونکا دیا کہ گھر کی چار دیواری میں چھپے لا تعداد موضوعات ادب میں ایک نئی راہ قائم کرتے نظر آتے ہیں۔
کئی دفعہ عصمت کے افسانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک محدود میدان میں اپنے قلم کی زور آزمائی کی لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ عورتوں کے متعلق ‘ان پر ہونے والے ظلم و استحصال‘ذہنی وجسمانی تکلیفوں کو پیش کرنے کے باوجود ہمارے سماج میں عورت آج بھی انھیں تمام مسائل سے دو چار ہوتی نظر آتی ہے جس پر عصمت نے لکھا۔آج بھی افسانہ’’ ننھی کی نانی‘‘ جیسی کئی ننھی ہوس کاشکار ہوتی ہیں۔افسانہ ’’بیکار‘‘ کی کردار جیسی کئی بیویاں گھر کی ذمہ داری اٹھانے پر مخالفت جھیلتی ہیں‘آج بھی ’’امربیل‘‘کے کردار جیسی کئی رخسانہ بے جوڑ شادی کے بنا پر اپنی زندگی برباد ہونے سے نہیں بچا پاتیں۔ غرض کہ عصمت کا ہر ایک کردار ہمیں آج بھی اپنے پاس کھڑا نظر آتا ہے لہٰذا جن لوگوں کو آپ کے افسانوں میں سوائے لذت اور فحش نگاری کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تو یہ ان کے اذہان کاقصورہے ورنہ تو آج بھی عصمت کی کہانیاں سماج میں موجود تمام تر حقیقت کی روداد بیان کرتی ہے ‘جہاں آج بھی تانیثیت اور عورت کے مسائل کھڑے نظر آتے ہیں اور جہاں آج بھی برابری کے حق کا وہی خواب جو عصمت کی آنکھوں میں تھا ہمارے سامنے آنکھیں پھاڑیں نظر آتا ہے جس پر’’نئی لہر‘‘ کالیبل لگا کر نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔لہذا عصمت کے افسانے آج بھی بھر پور معنویت کے حامل ہیں اوروقت کے ساتھ اُن کی معنویت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
***
Ekkiswen Sadi Aur Ismat ki Afsana Nigari … by Shahnaz Yousuf, P. NO. 60 to 61
ریسرچ اسکالر ۔موہن لال سکھاڈیا یونیورسٹی۔اودے پور
zubeida.s.shahnaz@gmail.com, Mob.9057471104
Leave a Reply
Be the First to Comment!