اخترالایمان کی شاعری کا فکری پس منظر
بیسویں صدی کے نمائندہ شاعروں میں اخترالایمان کو منفرد مقام حاصل ہے۔ روشِ عام سے ہٹ کر انھوں نے جس طرز کی شاعری کو رواج دیا اس سے ہمارے اجتماعی مذاق کو مانوس ہونے میں دیر لگی۔ اس عہد کے ادبی حلقے میںاخترالایمان کی شاعری کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی جب شاعر کا ذہن ارتقائی دور سے گز رہا تھا۔ لیکن ان کی شاعری زیب طاق نسیاں نہیں ہو ئی بلکہ کچھ عرصہ بعد ان سنجیدہ توجہ کا مرکز بنی۔
دراصل اخترالایمان کے طرزِ احساس اور طرزِ اظہار میں عجیب طرح کی جدت ہے۔ ان کی شاعری مروجہ اور مقبولِ عام اسالیب کی گرفت سے بھی بہت حد تک آزاد ہے۔ ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اخترالایمان کی شاعری کا ابتدائی دور ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا۔ اس وقت ترقی پسند تحریک کے نزدیک ایسی شاعری کی کو ئی قدر وقیمت نہیں تھی جو ان حضرات کے نظریے کی ترجمان نہ تھی۔جو بزوم خود اس تحریک کے نظریہ ساز بن گئے تھے۔اخترالایمان نے ان نظریات سے اثرات تو قبول کیے جنہیں ترقی پسند کہا جاتا تھا مگر وہ سکہ بند ترقی پسند وں سے دور ہی رہے۔ ا نھوںنے اپنی شاعری کو ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے نظریے کا پابند نہیں بنایا۔ مزید برآں شعر و ادب کے تئیں ان کا رویہ ترقی پسندوں اور حلقے والوں کے لیے یکساں الجھن کا سبب بنا رہا۔ حالانکہ ا خترالایمان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات وہی تھے جو ترقی پسندتحریک اور حلقہء ارباب ذوق کے شعرا کے تھے۔ لیکن اخترالایمان کی طرز فکر اورطرزِ اظہار ان سے مختلف رہا ہے۔ اخترالایمان اشتراکیت کے نظریے کے مخالف نہیں تھے ۔بلکہ اس کے زیراثر شاعری کی نام پر جس قسم کی نعرے بازی کی جارہی تھی اخترالایمان اس سے متفق نہ تھے ۔حلقۂ ارباب ذوق کے شعرا بھی اپنی تمام تر فکری آزادی کے باوجود انفرادی اور داخلی زندگی کے مسائل اور ہئیت و اسلوب کے تجربے تک محدود ہوکر رہ گئے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان شعرا کی تخلیقات میںزندگی کی مکمل ترجمانی نظر نہیں آتی۔ اخترالایمان کونظر یے کی پابندی کا بخوبی اندازہ تھا ۔ انھوںنے کسی نظرے کی پابندی اسی لیے قبول نہیں کی کہ بنے بنائے اصول و نظریات لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کا ادبی فن پاروں میں مکمل احاطہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی بہت دور تک ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اخترالایمان کا اصرار یہی تھا کہ اس بے کنار زندگی کو کسی مخصوص نظریے سے اس کی مکمل ترجمانی نہیں کی جاسکتی۔ جدیدیت کے نظریہ سازوں کے احکام بھی اخترالایمان کو گوارہ نہ ہوئے ۔ جدید شعراء کے یہاں بھی چند موضوعات ہی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اخترالایمان نے شاعری کا مستقبل اس نسل سے وابستہ کیا ہے جو کسی مخصوص نظریے کا پابند نہیں ۔بہ قول اخترالایمان:
”جدیدیت اور ترقی پسند تحریک دو مختلف سیاسی نظریاتی ممالک کے تابع تھیں۔ دونوں ہی اپنے آقاؤں کے سامنے اپنی افادیت دیر تک قائم نہ رکھ سکیں۔ میرے خیال میں نئے ادب اور نئی شاعری کا مستقبل اس نسل اور لکھنے والوں کے اس گروہ سے وابستہ ہے جو کسی تحریک سے وابستہ نہیں۔”
(اخترالایمان سے بات چیت : ا طہرفاروقی ، گفتگو ان کی، انجمن ترقی اردو (ہند) ی دہلی،2006 ، ص 23 )
اخترالایمان کے اس فکری رویے کے سبب ان کی مقام بندی آسان نہیں۔ ان کی شاعری کے بارے میں رواروی میں کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ان کی شاعری نہ تو روایتی شاعری کے زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے مزاج سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ بلکہ ان کی شاعری اپنی منفرد اور ایک مجتہدانہ شان رکھتی ہے۔ اخترالایمان کسی انقلابی تبدیلی کا اعلان کیے بغیر انقلاب کے مغنی ہیں۔ ان کا شعور غیررسمی اور غیرروایتی ہے۔ ان کی تخلیقی سرگرمی کسی نظریے کی پابند نہیں۔ ان کے یہاں ذہنی آزادی کا رویہ ہر حال میں مقدم ہے۔ اخترالایمان ایک نئے طرزِ احساس کے ساتھ اپنے شعور کی وساطت سے اپنے شعری نصب العین تک پہنچے۔
اخترالایمان شاعری اور شاعرکے منصب کا واضح تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کی چیز نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ اخترالایمان کے نزدیک شاعری پیغمبرانہ عمل ہے ۔بہ قول اخترالایمان :
”حیات کاتانا بانا اب تو بن گیا۔ پیغمبر اب نہیں آتے مگر چھوٹے پیمانے پر یہ کام شاعر کررہا ہے۔ شاعر کا کام ہے زندگی میں ایک توازن پیدا کرنا اور اس کے اندر جو حیوان ہے اس کی نفی کرنا بھی۔” ( پیش لفظ، سروساماں:اخترالایمان )
شاعری کے اعلی منصبی کے اسی تصو ر کے سبب اخترالایمان کو اس بات کا دکھ تھا کہ آج بھی لوگ شاعری کو گانے بجانے کی چیز سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاعری بالخصوس غزلیہ شاعری کو تفنن طبع کی خا طر محفلوں میں سنے سنانے کا چلن عام تھا۔ لوگ شاعری سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور اچھی یا بری شاعری کا فیصلہ وہیں صادر فرما دیتے ہیں۔اخترالایمان شاعری کو جتنا سنجیدہ اور جاں سوزی کا کام سمجھتے تھے اس کے پیش نظر ان کا اصرار تھا کہ شاعری کے حسن و قبح کا فیصلہ محفل میں سن کر نہیں لگایا جا سکتا۔اسی لییاخترالایمان کا اپنے قاری سے مطالبہ یہ تھا کہ ان کی شاعری کو ٹھہر کر پڑھا جائے۔اور یہ سوچ کر پڑھا جا ئے کہ:
”یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی ایک ایسے انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی قدروں سے دوچار ہے۔ جو اس معاشرے میں زندہ ہے جسے آئیڈیل نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں عملی زندگی اور اخلاقی قدروں میں ٹکراؤ ہے تضاد ہے۔”
(پیش لفظ، آب جو:اخترالایمان )
اس( شاعری) کے اجزا میں زندگی کی جمالیاتی قدریں بھی شامل ہیں،سماجی،معاشی،سیاسی اور اخلاقی قدروں کی اتھل پتھل بھی دن پر دن پیش آنے والے حالات کا محاکمہ اور محاسبہ بھی خوشگوار تصورات کی ترویج اور تنقیدبھی۔مختصر یہ کہ جتنی بڑی اور لامتناہی زندگی ہے اتنی ہی بڑی چیز شاعری ہے۔،، ( پیش لفظ، سروساماں:اخترالایمان )
اخترالایمان کا اپنی شاعری سے متعلق ان وضاحتوں کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان کی شاعری کی تفہیم اس عہد کے سیاق میں رکھ کر کی جائے جس میں کہ یہ شاعری وجود میںا ئی ہے۔ اخترالایمان نے شاعری کو زندگی کی طرح وسیع قرار دے کر ان تمام تصورات کی نفی کردی جو زندگی کی حقیقتوں کو الگ الگ خانوں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ زندگی کے منظرنامے پر رونما ہونے والا کوئی بھی مسئلہ ان کی شاعری کا موضوع بن جاتا ہے۔ اخترالایمان کو اگر یہ اصرار ہے کہ ان کی شاعری عہد حاضر کے ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے اور یہ کہ ان کی شاعری انسان کی روح کا کرب ہے تو اس لیے کہ ان کی شاعری سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی سطح پر انتشار اور زوال، اخلاقی اور عملی زندگی کے تضاد اور تصادم سے جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخترالایمان کی شاعری معاصر عہد کے تمام تر آشوب زیست کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی ہر نظم ایک نیا موضوع اور ایک نئی سوچ لے کر آتی ہے۔
اخترالایمان اپنی ادبی روایت کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہمارے متقدمین شعرا نے اپنی تخلیقات کے ذریعے نہ صرف اپنے عہد کے مسائل کی ترجمانی کی بلکہ ہمیں راستہ بھی دکھایا۔ معاصر شاعروں سے اخترالایمان کو یہ شکایت تھی کہ ان کی شاعری اپنے عہد کی حقیقتوں کی مکمل ترجمانی نہیں کرتی۔ اخترالایمان نے نظم نگاری کی طرف توجہ دی تو اسی لیے کہ ان کے نزدیک عہد حاضر کی بدلتی ہوئی زندگی اور اس سے وابستہ مسائل کی ترجمانی کے لیے نظم بہترین ذریعہ ہے۔ چنانچہ نظم نگاری کے باب میں اخترالایمان ان شعرا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جنھوں نے شاعری کے میدان میں انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ حالی، آزاد، عظمت اللہ خان، اور عبدالرحمن بجنوری وغیرہ نے نظم کو وسعت دینے کے لیے جو کوششیں کیں۔ اخترالایمان اس تسلسل کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اخترالایمان نے اس بات پر بہت زور دیا کہ ہمیں شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اظہار کے امکانات روشن ہوں۔
بلاشبہ حالی اور آزاد کی کوششیں جدید نظم کے باب میں انقلابی شان کا درجہ رکھتی ہیں۔شاید اسی لیے حالی ، آزاد کو اپنی شاعری کے جواز اور اس کی دفاع کی ضرورت پیش آئی۔ ان حضرات سے پہلے اپنی شاعری کے دفاع کی مثال نہیں ملتی۔ بعد کے شاعروں میں عظمت اللہ خان کے یہاں مروجہ شاعری سے بغاوت کی لے سب سے تند و تیز رہی ہے۔ اخترالایمان کے ہم عصروں میں راشد، میراجی اور فیض کے یہاں بھی کسی نہ کسی طور اپنے ادبی موقف کے وضاحت کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن اخترالایمان اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ اخترالایمان کو اپنے شعری موقف کو پرزور انداز میں پیش کرنے کی ضرورت شاید اس لیے پڑی کہ اس عہد میں ادبی دنیا ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق کے زیراثر تھی۔ مخصوص نظریے کی شاعری کے اس عہد میں اپنی الگ پہچان قائم کرنا آسان نہ تھا۔ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے جھگڑے میں پڑے بغیر اخترالایمان نے پنے شعور کی وساطت سے اپنے نصب العین تک پہنچے۔ اخترالایمان نے جب شاعری شروع کی اس وقت دہلی میں جس قسم کی شاعری کا تھا اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
”یہ زمانہ دلی میں:
پہنچے جو رات خواب میں ان کے مکان پر
سوئے زمیں پہ آنکھ کھلی آسمان پر
قسم کی شاعری کا تھا۔ استاد حیدر دہلوی، پنڈت امرناتھ سحرڈ، سائل دہلوی اور استاد بیخود کے شاگردوں کی ٹولیاں۔ کہیں جامع مسجد کے چوک اور کہیں ایڈورڈ پارک کے لان میں بیٹھی ادبی رسہ کشی میں مصروف نظر آتی تھیں۔ مصرعوں پر تابڑ توڑ گرہ لگانا اور فی البدیہہ شعر کہنا ہی شاعری کی معراج سمجھی جاتی تھی اور شاعری کا موضوع وہی تھا زلف و رُخ کی داستان، ہجر اور وصال کے قصّے، عاشق اور رقیب کی کشمکش۔ محبوب کے جور و جفا کا رونا غرض کہ وہی ساکیت جو اردو شاعروں اور شاعری کا ورثہ ہے اور سب کے حصے میںا ئی تھی اور سب اسی سال خوردہ محبوب کی لاش سے لپٹے ہوئے تھے۔ جس کے خط و خال تو کیا نظر آتے استخواں بھی باقی نہیں رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ان شعراء کی محبت ہوا میں معلق ہے جس پر زمانے کے گرم و سرد کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان شاعروں کا اپنے معاشرے سے کوئی واسطہ نہیں اور ان کا اپنے دور کے معاشی اور سیاسی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنی تاریخ اور انسان کی نفسیات سے کوئی ناتا نہیں۔ ان کی شاعری اور شعر کی طرف اس رویہ کا مجھ پر یقینا ردعمل ہوا۔”
(پیش لفظ، یادیں:اخترالایمان )
اخترالایمان کی تحریروں اور بیانات کو سامنے رکھا جائے تو تضادکا پہلو سامنے آتا ہے ۔ اخترالایمان اپنی تحریروں میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جدید اردو شاعری کی زمین حالی، اسماعیل میرٹھی، آزاد اور ان کے دوسرے ہم خیالوں نے تیار کی اور عظمت اللہ خاں اور بجنوری نے اس کے دامن کو وسیع تر کیا۔ اخترالایمان یہ اعتراف بھی کرتے ہیںکہ جدید اردو شاعری کا اطلاق حالی اور اس کے بعد کی شاعری پر کیا جاسکتا ہے۔
اخترالایمان نے شاعری کا آغاز 1932میں کیا۔ اخترالایمان اپنی تحریروں میںیہ اعتراف کر تے ہیںکہ جدید اردو شاعری کا آغازحالی سے ہوتاہے ،اور حالی نصف صدی پہلے شاعری شروع کر چکے تھے ۔ پھر استاد حیدر دہلوی ،سائل اور بیخود وغیرہ شاعروں کی ٹولیوں کی شاعری اس عہد کی مجموعی ادبی صورت حال کیسے قرار د یا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ مشاعرے کی شاعری کواس عہد کی ادبی صورت حال کی ترجمان کیسے قرار دیا جا سکتاہے ۔ اورہمیںیہ بھی ذہن میں رکھنا چاہے کہ مشاعرے کی شاعری بہرحال ایک الگ مزاج رکھتی ہے۔
حالی سے اخترالایمان تک غزلیہ شاعری سے قطع نظر اچھے نظم نگار شعرا کی طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے۔ اخترالایمان اپنے عہدکی جس ادبی روایت کا ذکر کرتے ہیںاس سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اسے مجموعی ادبی صورت حال بھی نہیں تسلیم کیا جا سکتا اگرادبی صورت حال کے سلسلے میں اخترالایمان کے اس بیان کو تسلیم کر لیا جاے تو پھر اقبال،فراق،عظمت اللہ اور عبدالررحمان بجنوری وغیرہ کو کس ادبی صورت حال کی شاعری کا ترجمان شاعر کہا جائے ۔جبکہ خود اخترالایمان ان شعرا کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔
اخترالایمان نے اردو کی پوری شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ‘حصار’ کے باہر اور ‘حصار ‘ کے اندر والی۔ شاعری ‘حصار’ کے اندر والی شاعری بہ قول اخترالایمان:
”حصار کے اندر والی شاعری وہ ہے جو ہم اکثر مشاعروں میں سنتے ہیں سو تھوڑی سی زبان کی تبدیلی کے اس شاعری اور ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں کوئی فرق نہیں۔ یہ اتنی صدیاں جو بیچ میں ہیں گزر گئیں ان کی کوئی چھاپ، کوئی نشانِ قدم کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ شاعری نہ ادبی رسائل اور جریدوں میں چھپتی ہے نہ کتابوں میں ملتی ہے۔ نہ ادب کا کوئی تجربہ ہے نہ زبان میں کوئی اضافہ ہے۔ نہ نئے تصورات اور میلانات کی کوئی ترویج ہے۔ اس کا مقصد صرف محفل گرمانا ہے اور یہ شا۔عرانہ محفلیں، مجروں اور سماع و رقص کی محفلوں کا بدل بن گئی ہیں۔” (پیش لفظ، بنت لمحات :ا خترالایمان )
بلاشبہ ہماری شاعری پر غزل کی حکمرانی رہی ہے۔ ہماری ادبی سوچ پراس کے مضامین اور لفظیات پر اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے اخترالایمان کو اس شکایت تھی کہ آج بھی ادبی مزاج پر غزل کا رنگ غالب ہے۔ اخترالایمان اردو شاعری کو غزل کی فضا سے رکھنا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں اور بیانات میں ادبی صورتِ حال سے بے اطمنانی نظر آتی ہے۔ اخترالایمان کا اپنے قاری سے مطالبہ تھا کہ ان کی شاعری کو بڑھتے وقت اپنے ذہن کو غزل کی فضا سے نکال کر پڑھا جائے۔ لیکن یہاں اس بات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ اخترالایمان مشاعرے کی شاعری اور اس کے مزاج کو اردو کی پوری شاعری کا مزاج سمجھ بیٹھے۔ یہاں اس زمانے کی رسائل و جرائد میں شائع ہونے والی شاعری کے حوالے سے کوئی رائے قائم نہیں کی گئی بلکہ مشاعروں کی شاعری کی بنیاد پر پوری شاعری کا محاکمہ کیا گیا ہے۔ اس اقتباس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اخترالایمان اردو کی مجموعی شاعری کی تقسیم میں حصار کے اندر والی شاعری مشاعرے کی شاعری کو قرار دیتے ہیں جن کا مقصد محفل کو گرمانا ہے اور بس۔ ظاہر ہے اردو کی پوری شاعری مشاعرے کی شاعری نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو حصار، کے باہر والی شاعری قرار دیا ہے، ‘حصار’ کے باہر والی شاعری کیا ہے بہ قول اخترالایمان:
”حصار کے باہر والی شاعری وہ ہے جس میں نئے تجربات، نئے میلانات اور نئے شعور کی
ترجمانی اور نمائندگی ہوتی ہے۔میں اس سلسلے کا آغاز غالب سے کرتا ہوں شاعری میں فکر کا عنصر یہیں سے شامل ہوتا ہے۔اور بعد میںجس کے تجربے آزاد عظمت اللہ خاںاور بجنوری نے بھی کیے تھے۔ اور میں اپنی شاعری کا شمار اسی ‘حصار’ سے باہر والی شاعری میں کرتا ہوں۔” ( پیش لفظ،بنت لمحات: اخترالایمان )
ظاہر ہے اخترالایمان نے اپنی شاعری کو اسی تسلسل کی کڑی تصوّر کرتے ہیں جن کے ہاتھوں شاعری میں فکری اور فنّی اعتبار سے وسعت پیدا ہوئی۔ جیسا کہ اقتباس سے ظاہر ہے اخترالایمان کے نزدیک اس طرز کی شاعری کا آغاز غالب اور حالی سے ہوتا ہے۔ شاعری میں فکری عنصر کی شمولیت انھیں سے ہوئی۔ اس سلسلے میںا زاد، عظمت اللہ خاں اور عبدالرحمن بجنوری بھی شامل ہیں کے یہاں نئے تجربات کی گونج موجود ہے۔
اخترالایمان اپنی شاعری کو اپنی ذات کا اظہار قراردیتے ہیں۔ ا ن کا خیال تھا کہ جب تک شاعری میں شاعر کی ذات اور خلوص شامل نہ ہو اچھی شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری کسی فوری ردِّعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ شا عری اس وقت وجود میںآئی جب زندگی کے لگائے ہوئے ہر ز خم مندمل ہوگئے۔ کوئی واقعہ کوئی سانچہ برسوں بعد کسی نظم کے پیکر میں ڈھلا ہے۔اخترالایمان نے اپنی بعض نظموں کے سلسلے میں اسکی وضاحت بھی کی ہے۔
اخترالایمان کی شاعری میں اعلیٰ قدروں کے زوال کا شدید احساس موجودہے۔ ان کی شاعری میں اخلاقیقدروں کی شکست و ریخت، خیر و شر کی جنگ اور اعلیٰ قدروں اور عملی زندگی کے تضادات بہت نمایاں ہیں۔ صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات نے ہماری پرانی قدروں کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ا س کے لیے زند گی کا مقصد دو وقت کی روٹی رہنے کو ایک چھپر اورایک عورت سے زیادہ نہیں۔ اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کبھی اپنا ہی نغمہ ان کا کہ کر مسکراتا ہے۔ اخترالایمان کے یہاں زندگی گزارنے کے لیے قدم قدم پر مفاہمت کے تقاضے سے فرد اور ضمیر کی کشمکش کا شدید احساس موجود ہے۔ اخترالایمان کے معا صرین پر نظر ڈالیں تو اس احساس کوگرفت میں لینے والی شاعری کسی کے یہاں نظر نہیں آتی۔ انسان کا اشرف المخلوق ہونے کا شرف اور اس کی اعلیٰ و ارفع مقاصد سے عاری زندگی کا بعد اخترالایمان کو پریشان رکھتاہے۔ اخترالایمان کی نظموں میں اخلاقی قدروں اور عملی زندگی کاتضاد نمایاں ہے:
فرقت کی ماں نے شوہر کے مرنے پر کتنا کہرام مچایا تھا
لیکن عدت کے دن پورے ہونے سے ایک ہفتہ پہلے
نیلم کے ماموں کے ساتھ بدایوں جاپہنچی تھی
بی بی کی صحنک، کونڈے، فاتحہ خوانی
جنگِ صفّین، جمل اور بدر کے قصوں
سیرتِ نبوی، ترکِ دنیا ور مولوی صاحب کے حلوے مانڈے میں کیا رشتہ ہے؟
(کالے سفید پروں والا پرندہ اور میری ایک شام)
وہ با لک ہے آج بھی حیراں میلہ جوں کا توں ہے لگا
حیراں ہے بازار میں چپ چپ کیا کیا بکتا ہے سودا
کہیں شرافت کہیں نجابت، کہیں محبت کہیں وفا
آل اولاد کہیں بکتی ہے کہیں بزرگ اور کہیں خدا
ہم نے اس احمق کو آخر اسی تذبذب میں چھوڑا
اور نکالی راہ مفر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
(یادیں)
اخترالایمان کی شاعری اپنے عہد کی سیاست کے سبب پیدا شدہ مسائل سے گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ سیاست سماجی زندگی کی تنظیم کے لیے ضروری ہے لیکن ہمارے عہد کی سیاست نے ملک کو نراجی ماحول میں مبتلا کر دیاہے۔ آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے اثرسے محفوظ نہیں۔ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ آج کی سیاست کسی اخلاقیات کی پابند نہیں۔مذہب، رنگ و نسل علاقائیت،اور زبان کے نام پر فسادات ہوتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں ویران ہوجاتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان فسادات کا جواز بھی پیش کیا جاتا ہے۔ فسادات نے ہماری زندگی کو ایک ناقابلِ فراموش زخم دئیے ہیں۔ اخترالایمان کی شاعری میں ان مسائل کا اظہار مختلف انداز میں نظر آتا ہے:
دور جمہور میں کیا کیا ہوئی بیداد لکھیں
کوئی حقیقت تو کہیں
بادشاہوں کے سے انداز میں کچھ لوگوں نے
حکم بھیجا ہے بدل ڈالوں میں اندازِ فغاں
طرزِ تحریر و بیاں
رسمِ خط اپنی زباں
(میں ایک سیارہ)
فسادات دیکھے تھے تقسیم کے وقت تم نے
ہوا میں اچھلتے ہوئے ڈنٹھلوں کی طرح شیر خواروں کو دیکھا تھا کٹتے
اور پستاں بریدہ جواں لڑکیاں تم نے دیکھی تھیں کیا بیان کرتے
نہیں یہ تو نشّہ نہیں تجربہ بھی نہیں ایسا کوئی
یہ اک سانحہ ہے
(راہِ فرار)
سماجی زندگی کے تضادات پر اخترالایمان کی گہری نظر تھی۔ مصلحت پسندی، مکر و فریب، دریوزہ گری نے پورے معاشرے کو نیلام گھر میں تبدیل کردیا ہے۔ انسان زندگی گزارنے کے لیے نہ جانے کتنی شکلیں بدلتا ہے۔ عملی زندگی کی بنیادی اخلاقی قدریں نہیں مصلحت ہے ۔بہ طور ایک فرد کے اخترالایمان ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہے جسے آئیڈیل نہیں کہا جاسکتا جہاں عملی زندگی اور اخلاقی قدروں میں ٹکراؤ ہے تضاد ہے۔ جہاں انسان کا ضمیر اس لیے قدم قدم پر ساتھ نہیں دے سکتا کہ زندگی ایک سمجھوتہ کا نام ہے اور سماج کی بنیاد اعلیٰ اخلاقی قدریںنہیں مصلحت ہے۔اپنے ضمیر کے خلاف مفاہمت کرنے کے سبب وہ جس درد و کرب میں مبتلا ہوتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعری اس درد و کرب سے بنیادی سروکار رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اخترالایمان نے اپنی شاعری کو ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری کہا ہے۔
نئی شاعری میں بڑے شہروں کا تجربہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ صنعتی شہروں نے سے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کوغیرمعمولی طور پر متاثر کیا ہے۔ صنعتی شہروں نے ہمارے لیے معاش کے مواقعے فراہم توکیے لیکن اس نے ہمیں نئی نئی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا۔بڑے شہروں نے انسانی رشتوں پر کاری ضرب لگائی ۔اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تانے بانے کو بکھیر دیا۔ شہری زندگی اجنبیت کے درد میں مبتلاہے۔ بھرے پرے گھر اور گائوں کی پرسکون اور دلفریب فضا کی جگہ گھٹن بھری زندگی نصیب ہوتی ہے۔ گائوں میں زندگی گزارنے والا شخص جس زمین اور سماج کو چھوڑ کر شہر آتا ہے وہ اس زندگی سے رشتہ قائم نہیں رکھ پاتا۔ اس کی سادہ زندگی ایک کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اخترالایمان کے یہاں شہری زندگی میں ٹوٹتے بکھرتے رشتوں اور احساس تنہائی کا کرب بہت شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے:
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں
جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
اور آواز دے او بے او سر پھرے
دونوں اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں
گالیادیں، ہنسیں، ہاتھا پائی کریں
پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر
گھنٹوں ایک دوسرے کی سنیںاور کہیں (تبدیلی)
اخترالایمان ایک بیدار حسیت کے شاعر ہیں۔ ان کے حسی تجربات اور ان کی حسیت کا تناظر اپنے عہد کے دوسرے تمام شاعروں سے زیادہ وسیع اور رنگارنگ دکھائی دیتا ہے۔ موضوعات اور مسائل یکسانیت کے باوجود اپنے معاصرین سے خاصے مختلف نظر آتے ہیں۔ صرف ترقی پسندوں کے یہاں تجربے اور اظہار کی یکسانیت نہیں ہے جدید شاعروں کے یہاں بھی یہی صورتِ حال دیکھی جا سکتی ہے۔ اس ہجومِ افکار میں اخترالایمان کی حسیت ایک نئی حقیقت کی متلاشی دکھائی دیتی ہے۔
اخترالایمان ایک طرح کا مزاحمتی شعور رکھنے والے شاعر ہیں۔ جو رواج عامہ کے غلبے، مقبول اور پامال موضوعات اور اسالیب سے انھیں بجائے رکھا۔ وہ جذباتی طور پر کسی واردات سے مغلوب نہیں ہوئے۔ ایک خاص طرح کی ہوش مندی ان کے شاعرانہ احساس کی ہم رکاب ہوتی ہے۔ اپنے تخلیقی ردِّعمل کے اظہار میں وہ ہر طرح کے کچے پن اور عجلت پسندی سے دور رہے۔ اخترالایمان نے لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کے تجربت کو مشینی انداز میں نظم نہیں کیا۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی کو متاثر کرنے والے واقعات اور حادثات کی وقوع پزیری کے برسوں بعد ان کے یہاں کوئی تجربہ تخلیق کی شکل اختیار کرتا ہے۔ کسی واقعے کا فوراً تخلیقی ردِّعمل کا اظہار شاعری نہیں۔ان کا خیال تھا کہ جب تک فن پارے کی تخلیق میں فن کار کی اپنی ذات شامل نہ ہو اچھی تخلیق وجود میں نہیں آسکتی اخترالایمان اپنے شخصی تجربے اجتماع سے رشتہ قائم کرتے ہیں۔ اخترالایمان ایسے واقعے کی پیش کش کے قائل ہی نہ تھے جو شاعر کا اپنا تجربہ نہ بن جائے۔ ‘یادیں’ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ اس وقت نہیں لکھا جب ان تجربات اور محسوسات کی منزل سے گزر رہا تھا جومیری نظموں کا موضوع ہیں۔ انھیں اس وقت قلم بند کیا ہے جب وہ تجربات اور محسوسات یاد بن گئے تھے۔ جب ہر نشتر کے لگائے ہوئے زخم مندمل ہوگئے تھے۔ ہر طوفان گزر کر سطح ہموار ہوگئی تھی اور ہر رفتہ اور گذشتہ تجربہ کی صدائے بازگشت مجھے یوں محسوس ہورہی تھی جیسے میں ان سے وابستہ بھی ہوں اور نہیں بھی۔ یہی وجہ ہے میری بیشتر شاعری میں ایک یاد کا سا رنگ ہے اور یہ شاعری بیک وقت داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔”
(پیش لفظ، یادیں:اخترالایمان )
اخترالایمان کو اردو کی شعری لغت کی کم مائیگی کا احساس تھا اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اسے وسعت دینے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری کے ساتھ ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ شاعری میں اظہار کے امکانات روشن ہوں۔ ان کے یہاں کھردری اور نامانوس زبان کا استعمال اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ بحث الگ ہے کہ اخترالایمان اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ غزل کی مخصوص زبان اور لفظیات کے مفروضے کو تسلیم کرلیا جائے تو اخترالایمان کی شاعری غزل کی فضا سے انحراف کی شاعری ہے۔ زبان و بیان کے سلسلے میں اخترالایمان کے تصورات کچھ اس طرح سے ہیں:
”شاعری کے ساتھ بڑی مشکل یہ پیش آئی ہے کہ وہ ابھی تک غزل کی فضا سے نہیں نکلی۔”
( پیش لفظ، زمین زمین: اخترالایمان )
”کوئی بھی صنفِ سخن ہو اس میں وسعت کی گنجائش ہونی چاہیے اور زبان کا ایسا استعمال ہونا چاہیے کہ پہلے جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اضافہ بھی ہو اور زبان اپنے وسیع تر معنوں میں بھی استعمال ہوسکے اور وہ صنف اور پیکر زندگی سے ہم آہنگ بھی ہو۔”
( پیش لفظ، زمین زمین: اخترالایمان )
اخترالایمان کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ اظہار کے لوازمات اور طریقے بدلتے رہتے ہیں۔ آج کے عہد اور اس کے مسائل کے اظہار کے لیے جاگیردارانہ سماج کا دیاہوا رومانیت میں ملبوس میٹھا میٹھا تھکا تھکا نرم غنائی لب و لہجہ ہمارے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ اخترالایمان کی زبان کا مزاج صر یحاً غیر ادعائی(Non -dogmatic ( ہے وہ کسی ایک تہذیبی روایت کی زائیدہ نہیں ہے۔نہ تو وہ اسلامی روایات سے ماخوذ ہے نہ ہی قدیم ہندو دیو مالا سے۔ اگرچہ اخترالایمان کی ابتدائی دور کی شاعری میں تراشیدہ الفاظ کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور ابتدائی دور کی شاعری پر فیض، میراجی کی زبان اور لفظیات کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن آگے چل کر اخترالایمان اپنی شعری لغت خود ترتیب دیتے نظرآتے ہیں۔ ان کے یہاں نامانوس زبان اور لفظیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔عوامی زبان اور لفظیات کے ساتھ نئی لفظیات کا استعمالاخیرالایمان کی شاعری میں نئی جوت جگاتے ہیں:
خوار ہوئے دمڑی کے پیچھے اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اٹھے جیسے چھوا تو کردے گا کنگال
سیانے بن کر بات بگاڑی ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھاناد شبِ محبت کتنا آبلہ پا مجنوں کی مثال
کبھی سکندر کبھی قلندر کبھی بگولہ کبھی خیال
سوانگ رچائے اور گزر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
(یادیں)
برتن، سکے، مہریں
بے نام خداؤں کے بت ٹوٹے پھوٹے
مٹی کے ڈھیروں میں پوشیدہ چکی چولھے
کند اوزار زمینیں جن سے کھودی جاتی ہوں گی
کچھ ہتھیار جنھیں استعمال کیا کرتے ہوں گے مہلک حیوانوں پر
کیا بس اتنا ہی ورثہ ہے میرا
انسان یہاں سے جب آگے بڑھتا ہے کیا مرجاتا ہے؟
(آثارِ قدیمہ)
بلاشبہ اخترالایمان کی شاعری میں زبان و بیان کے تجربے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سے ان کی انفرادیت بھی قائم ہوتی ہے لیکن ان کے یہاں فن کا تمام تر تصور تخلیقی عمل کے نصب العین کی بنیاد پر قائم ہے۔ان کے یہاں ایک نئی شعری زبان بھی ہے اور ہیئت و اسلوب کی مختلف صورتیں بھی،لیکن اظہار کے تمام وسائل لفظیات،تشبیہات، استعارات؛علامات اور اسالیب سبھی کچھ ان کی مربوت اور مرتب تخلیقی فکر کے زیر اثر ہیں۔ اخترالایمان کی شاعری میں نثریت آمیز لب و لہجے کا اثر بعض مقامات پر بہت نمایاں ہے۔
اخترالایمان کی شاعری فکری اور فنی دونوں لحاظ سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ ان کی حسیت اور بصیرت اور آزاد فکری رویہ انھیں اپنے تمام ہم عصروں سے ممیز کرتا ہے۔ اس پورے عہد میں اخترالایمان اپنے طرز کے تنہا شاعرہیں ۔ گذشتہ صدی میں کئی بڑی اور قدآور شخصیتیں پیدا ہوئیں اخترالایمان کو ہم اسی سلسلے کی آخری کڑی کہ سکتے ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "اخترالایمان کی شاعری کا فکری پس منظر"
[…] اخترالایمان کی شاعری کا فکری پس منظر […]