تر جمہ : ایک تہذ یبی و لسانی مفا ہمہ
ڈاکٹر ابو شہیم خان

   ڈاکٹر ابو شہیم خان*

 تمام علمی و ادبی کار ناموں کی طرح ترجمے کا بھی راست تعلق ترسیل اور ابلاغ سے ہے  ۔ ترسیل اور ابلاغ کو موثر ،بلیغ اور مفرح بنانا اور بنائے رکھنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے خا ص طور پرتخلیق کاروں کے لیے ۔  اس چیلنج سے نبرد آزما  ئی میں ترجمے کی ایک تا ریخی اہمیت ہے کیو ں کہ تر جمہ تجر بے کی تشکیل نو اور تر سیل کے ساتھ تخئیل کو بھی بال وپر عطا کرنے میں معاون ہو تا ہے۔ اسی لیے جملہ امور عالم میںجو سرگرمیاں سب سے زیادہ اہمیت و قدر و قیمت رکھتی ہیں ان میں ترجمہ کو بھی شامل حال سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک مستقل فن ہے جس میں دسترس کے لیے شوق و صلا بت، مشق و مزاولت درکار ہے۔ یہ فن مشرق و مغرب کی بعض یونیورسٹیوں میں ایک علاحدہ مضمون کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔  دوسرے سماجی علوم کی طرح ”مطالعات تر جمہ یا تر جمیات ”  کا بھی سا ئنس یا آرٹ ہو نا اور نہ ہونا زیر بحث ہے۔  ا س کی روز افزوں ترقی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر مختلف عالموں نے ترجمہ کو مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے۔ کسی نے اس کو نگینہ جڑنے کا فن تو کسی نے لسانی و تہذیبی مفاہمہ کا نام دیا ہے ۔ اسی طرح کچھ نے بین الاقوامی انداز نظر پیدا کرنے کا وسیلہ اور تہذیبی معاملوں کے اتحاد کا نام دیا ہے، تو بعض نے ترجمہ کو تصورات کی تہذیبی باز آبادکاری  (Cultural Rehabilitiation)  کا فر یضہ ادا کرنے والا بھی کہا ہے۔ غرضیکہ مختلف دانشوروں نے اس کو مختلف اغراض و مقاصد کے پیش نظر یا پس منظر میں اس کی تعریف و توضیح کی ہے۔  عظیم مؤرخ  Daniel Borestin  نے ترجمہ کی اہمیت یوں بیان کی تھی کہ  :

“Translation is a great device of exploration.”

پروفیسر محمد حسن نے ترجمے کے بارے میں لکھا تھا کہ  :

”بنیادی طور پر ترجمہ لسانی و تہذیبی مفاہمہ ہے جو نہ اصل کی لذت کو پوری طرح پاسکتا ہے نہ اس سے مکمل طور پر محرومی کو قبول کر تا ہے۔

یعنی ترجمہ ایک زبان کے مافی الضمیر کو دوسری زبان میں پیش کرنے کا نام ہے جس کے ذریعے تمدنی افہام و تفہیم کے مرحلے طے کیے جاتے ہیں اور تصنیف و تالیف کے تشکیلی منزلوں کی معلومات بہم پہنچائی جاتی ہے۔”

دنیاکے مختلف حصوں کی تہذیبی، سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ و روایات کئی معنوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے اور رابطہ قائم کرنے کا عمل مختلف ذریعوں، سطحوں اور سمتوں میں قدیم زمانے سے ہوتا رہا ہے۔ وقت اور ذرائع کی بنیاد پر یہ عمل کبھی تیز اور کبھی سست ہوتا ہے۔ انسانی ارتقا کی تاریخ میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جو افراد کے درمیان رابطہ قائم کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے جو اگلے وقتوں کے لیے علم کو محفوظ رکھنے کا کام بھی انجام دیتی ہے۔ دوسرے کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے کے لیے کسی مشترک زبان کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے تراجم کا عمل انسانی تہذیب و تمدن، مزاج اور تاریخ کی دریافت و شناخت کا اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ ترجمہ زبان کو علمی اور ادبی سطحوں پر ایک وسیع تناظر بھی مہیا کرتا ہے جس کے ذریعہ زبانیں تجربہ اور اعتماد حاصل کرتی ہیں۔ جن تہذیبوں میں دوسری تہذیبوں سے رابطہ قائم کرنے کا یہ عمل رک جاتا ہے ان کی ترقی کی راہیں محدود یا مسدود ہو جاتی ہیں، ترجمہ کی مدد سے ہی انسانی تاریخ میں فلسفہ، حکمت و تہذیب کے ارتقا کی کھوئی ہوئی کڑیاں بھی مل جاتی ہیں۔ ترجمے کی اسی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ظ۔ انصاری لکھتے ہیں  :

”سقراط اور افلاطون کی دو ہزار سال سے زیادہ پرانی کاوشیں، روما اور یونان کے قدیم کھنڈروں میں دب کر رہ گئی تھیں اگر عربی زبان کے ذی علم مترجم انھیں وہاں سے نکال کر یورپ اور ایشیا کی آخری سرحدوں تک کھلی ہوا میں نہ لے گئے ہوتے، بو علی سینا، ابن رشد، ابو نصر فارابی کے کارنامے، یروشلم، غرناطہ اور بغداد کے محاصرے میں دم توڑ چکے ہوتے اگر بعد کی لاطینی زبانوں نے انھیں اپنے یہاں منتقل کرکے تاریخ و فلسفے کے اگلے وقتوں کے لیے محفوظ نہ کر لیا ہوتا۔”

ادب مشرق کا ہو یا مغرب کا یہ انسانیت کا ایک مشترک سرمایہ ہوتاہے اور اس سرمایہ پر پورے عالم انسانی کا حق ہے۔ اور ترجمہ ہی وہ واحد ذریعہ اور وسیلہ ہے جس کے ذریعہ عالم انسانی اپنے اس حق کا استعمال کر سکتی ہے اور عالم گیر آگہی کے نورو و سرور سے مستفیض ہو سکتی ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن صاحب  :

”عالم گیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان کے دامن میں تو سمٹنے سے رہا۔ جب تک ایک زبان کے بولنے والے دوسری زبانوں کے علم و آگہی، جذبے اور شعور، فکر و احساس ٹکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے ترجمے کا سہارا لیں گے۔ خواہ یہ سہارا کیسا ہی ناتمام اور ناقص کیوں نہ ہو۔”

پچھلی کئی دہائیوں میں ذرائع ترسیل و ابلاغ کے فروغ یا برقیاتی انقلاب و مہاجرت نے مختلف تہذیبوں کے اختلاط کا عمل تیز تر کر دیا ہے۔ مسافرت، ٹیلی ویژن، فیکس، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور

کنور جنس  (Convergence)  اور اس کے علاوہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دیگر وسائل کے ذریعہ مختلف تہذیبوں کے بیچ کی دوریوں میں کمی اور تہذیبی تصادم کے نظریہ کو ضرب پہنچی ہے۔ عالمی گائوں یا گلوبل ولیج  (Global Village)  کا تصور ایک حقیقت بن رہا ہے۔ ایک دوسرے کو اور بہتر طریقے سے جاننے اور سمجھنے کا عمل تیز تر ہوا ہے اور اس میں اپنی پہچان و شناخت قائم کرنے کی خواہش و ضرورت بھی۔ بروقت اکثر لوگ کئی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں۔ دنیائے ادب میں جس عالمی ادب کا تصور بہت زمانے تک مبہم تھا اب اس کے امکان، اہمیت اور ضرورت کے نقوش زیادہ روشن ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے اس سلسلے کی درمیانی کڑی ترجمہ ہے۔ تقابلی ادبیات کے فرانسیسی نژاد امریکی پروفیسر ایلبرٹ گیرارڈ نے اپنی مایہ ناز تصنیف  World Literature  کے مقدمہ میں لکھا تھا کہ  ”عالمی ادب کے تصور کو ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ترجمہ ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔ ”

یعنی ترجمہ وہ ذریعہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں اور یہ عہد جدید کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر ہم عالمی سطح کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے ہندوستان سمیت دنیا بھر میں کئی ادارے کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میںکوئی بھی اہم تخلیق خواہ وہ کسی زبان میں ہو کچھ دنوں میں دنیا کی بیشتر زبانوں میں دستیاب ہو جاتی ہے جس سے وہ تخلیق کسی ایک زبان یا ملک تک محدود ہو کر نہیں رہ جاتی بلکہ عالمی ادب کا حصہ بن جاتی ہے۔

ترجمہ ادبی تنقید کی ایک شاخ یعنی تقابلی مطالعہ کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے۔ اس تقابلی مطالعے کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہ ایک دور میں مختلف تہذیبوں کا طرز فکر اور احساس و جمالیاتی قدریں ایک دوسرے سے کتنی مماثلت یا اختلاف رکھتی ہیں۔ کسی تہذیب میں رونما ہونے والے واقعات کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا انداز بیان کیا ہے؟ اور پھر مختلف ادوار میں فکری و جمالیاتی تحریکات جو ادب کو متاثر کرتی ہیں ان کا دائرہ محض کسی زبان و ادب تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان سرحدوں کو پار کرکے دوسری زبانوں اور ان کی ادبیات تک پہنچتا ہے۔ اس سے نئے موضوعات، اسالیب و طرز فکر کی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ کچھ سطحوں پر وہ مشترک بھی ہوتی ہیں اور مختلف بھی۔ اور ان دونوں کے مطالعے سے ادب کانہیں اس ادب کے دائرہ اثر میں آنے والے معاشرے اور اس کی حسیت کے بارے میں اہم نتائج نکالے جاسکتے ہیں مثلاً اردو ادب میں ترقی پسند تحریک جس نے براہ راست روس کی اشتراکی تحریک سے حرارت حاصل کی۔ لیکن ہندوستانی حالات و معاشرے کی پیچیدگیوں کے سبب یہ کئی معنوں میں اس سے مماثل تھی اور کئی سطحوں پر مختلف بھی۔ اسی طرح فٹر جیرالڈ کے خیام کی رباعی کے ترجمے سے فارسی ادب کا مغرب پر کیا رد عمل ہوا یا مغرب نے خیام کی توضیح کس طرح کی وہ فارسی نقادوں سے خاصی مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی ترجمہ ایک طرف تو انسانی علوم میں اضافے اور ذہنی سرحدوں کو کشادہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے نئے نئے خیالات زبان میں داخل ہوتے ہیں اور زبان کی قوت اظہار میں نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ ایک بین الاقوامی انداز نظر پیدا ہوتا ہے کیوں کہ یہ ترجمہ بذات خود بین الاقوامی نقطۂ نظر کی پیداوار ہے۔

عالمی ادب کے اس دائرہ عمل میں برصغیر کے اہم کلاسیکی ادیبوں اور خاص کر اردو ادیبوں کی نمائندگی بہت محدود ہے۔ اس کی اہم وجہ اس عظیم ورثے کا دوسری زبانوں میں معیاری ترجمہ دستیاب نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ گرچہ چند مشہور اردو ادیبوں کے تراجم دوسری ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ہوئے ہیں اور کچھ ادیبوں کے تراجم کیے بھی جا رہے ہیں لیکن سوائے چند تراجم کے ابھی کچھ خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔  چند ہی اردو ادیب ایسے ہیں جن کے ایک یا ایک سے کچھ زیادہ تراجم موجود ہیں۔ نتیجتاً بین الاقوامی کلچر و تہذیب پر اس ادب کے اثرات مرتب ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ اور عالمی ادب میں ہمارا حصہ بالکل نہیں کے برابر ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کی مقبولیت پھیلائو اور اہمیت کا دار و مدار بڑی حد تک ان کے مفید ہونے اور علمی و ادبی سرمائے کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے کی اہلیت پر ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن  :

”اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جب دنیا کی طنابیں کھنچ رہی ہیں اور عالم گیر سطح پر ایک اکائی بنتا جا رہا ہے کوئی بھی زبان ترجمہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جب تک نئے خیالات کا خون اور نئی آگہی کا نور رگ و پے میں سرایت نہ کرے زندگی دشوار ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج کی دنیا میں زبانوں کی مقبولیت پھیلائو اور اہمیت کا دارو مدار بڑی حد تک ان کے مفید ہونے پر ہے۔ اور افادیت کا پیمانہ یہ ہے کہ کوئی زبان اپنے زمانے کے علمی سرمایے اور ادبی ذخیرے کو کس حد تک اپنے پڑھنے والوں تک پہنچانے کی اہل ہے۔ اردو زبان کی خوش بختی ہے کہ اس نے ترجمے کی روایت کو ابتدا ہی سے اپنایا اور اپنے دریچے باہر سے آنے والی ہوائوں کے لیے کھولے اور بین الاقوامی کلچر کے نقوش سے اپنی محفل کو آباد کیا۔ اس دور تک آتے آتے وہ پرانی روایت بھی ناکافی ہوئی اور نئی دنیاکے تہذیبی سیاق و سباق نے برق رفتاری کے ساتھ ترجمے کے کام کو پھیلانے کو ناگزیر بنا دیا۔”

Global Village  اور ‘عالمی ادب’ کے تصور کو  Explosion of Knowledge  نے مہمیز لگائی ہے اور اس روز افزوں علمی سیلاب کے باعث ‘عالمی ادب’ اور  Global Village  کے تصور کو ٹھوس حقیقت میں صرف اور صرف ترجمہ کے ذریعہ ہی بدلا جاسکتاہے Translate or Perish  پر منا سب ردعمل کا اظہار نہ ہوا  تو اردو یا کوئی اور زبان دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے شانہ بہ شانہ نہیں چل سکے گی۔ اور عالمی ادب میں ہماری حصہ داری یا شناخت نا قا بل اعتنا ہو گی کیوں کہ نئی زبانیں قدیم زبانوں کی انگلی تھام کر ہی چلنا سیکھتی ہیں اور قدیم و جدید زبانیں اپنی ہم عصر زیادہ دولت مند زبانوں کا سہارا لیتی ہیں اور یہ عمل تاریخ و تمدن کے ایک باب کی طرح ہمیشہ سے جاری ہے۔ اور ترجمہ ہمارا سب سے اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت یہ عمل آج تک جاری ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے اور کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے۔ یہ عمل تمام جدید زبانوں کی طرح اردو کے ساتھ بھی کچھ خاص خصوصیات کا حامل ہے۔ کیوں کہ کسی زبان کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اس کو ادبی درجہ عطا کرنے اور ترقی پذیر زبانوں کی صف میں داخل کرنے میں ترجمہ کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے اور ترجمہ ہی کی بدولت وہ ایک باقاعدہ زبان بنتی ہے۔ اگر ہم اردو زبان اور اس کی ترقی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات بالکل ہی عیاں اور ثابت ہو جاتی ہے کہ ترجموں کی بدولت ہی اردو ایک باقاعدہ زبان بنی۔ بقول ڈاکٹر ظ۔ انصاری  :

”اردو تو ایک باقاعدہ زبان بنی ہی ترجموں کی بدولت۔ ورنہ جب تک وہ کھڑی بولی کے روپ میں تھی اسے کسی بڑے قلم کار نے ادبی تصنیف کے قابل نہ سمجھا۔ بولی سے زبان تک کا طویل فاصلہ ایک صدی کے اندر طے کر لینے میں ترجموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ کہیں یہ ترجمے کتابی صورت میں ہوئے اور کہیں محض خیال، استعارے، اور اصطلاحوں کی صورت میں … بہرحال یہ مسلم ہے کہ عربی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی کے علاوہ بھاشائوں کے ترجمے اور ترجمان کو اردو زبان کی تعمیر اور تربیت میں بڑا دخل ہے۔”     ١

مترجم کو چبائے ہوئے لقمے کو چبانے والا یا  Traitor  اور  Immitator  کہا جائے یا  Maker،  اس کی اہمیت و افادیت طلوع تہذیب سے اپنی جگہ مسلم  ہے کیوں کہ ترجمہ نے انسانوں اور قوموں کے درمیان حائل بہت سی دیواروں کو توڑا ہے اور ہر عہد میں نئے نئے افکار و نظریات کو ایک قوم سے دوسری قوم تک پہنچانے میں، ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے روشناس کرانے میں ترجمہ نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اقوام کے درمیان لین دین، افہام و تفہیم محض معاشی اور سیاسی سطح پر نہیں ہوتی فکری اور تہذیبی سطح پر بھی ہوتی ہے اور ترجمہ کے ذریعہ ایک زبان دوسری زبان سے متعارف ہوتی ہے اور اس کے طریقۂ اظہار، نحوی ساخت، اور مزاج سے استفادہ کرکے وسعت حاصل کرتی ہے۔ بقول پروفیسر قمر رئیس  :

”ترجمہ نے ہر عہد میں نئے نئے افکار و نظریات کو ایک قوم سے دوسری قوم تک پہنچایا ہے۔ ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے روشناس کرایا ہے۔ ترجمہ کے ذریعہ ہی ایک زبان دوسری زبان کے اظہارات اس کے مزاج اور نحوی ساخت سے متعارف ہو کر اپنا روپ رنگ بدلتی اور وسعت حاصل کرتی ہے۔ اکثر دوسری زبانوں کے شاہکاروں کا ترجمہ بھی ادیبوں کو نئے ادبی میلانوں اور فنی معیاروں کااحساس دلا کر نئے تجربات پر اکساتا اور نئے ادبی رجحانات کا محرک ثابت ہو تا ہے۔”

ترجمہ ایک مشکل اور کبھی کبھی ناممکن عمل ہے۔ اس کے باوجود بنیادی ضرورتوں کے پیش نظر اس امر مشکل کو کرنا ہی پڑتا ہے جس میں بے انتہا دشواریاں اور پریشانیاں در پیش ہوتی ہیں۔ مترجم کو خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچا کر منزل مقصود تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ادبی تراجم کے سفر میں بہت ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے دو چار ہوناپڑتا ہے۔ نثری ادب کے مقابلے شعری ادب کے تراجم میں پریشانیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ علوم کے ترجمے میں صرف مواد کو منتقل کرنا ہوتا ہے اسلوب کو نہیں۔ جب کہ ادبی تراجم میں ایک تہذیبی سانچے کو دوسرے تہذیبی سانچے میں، ایک شعری و نثری روایت کو دوسری نثری و شعری روایت میں منتقل کرنا ہوتاہے۔ جملوں کی ساخت، آہنگ اور اسلوب کی نیت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور اسے بھی مطلوبہ زبان میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اصل زبانوں کے لفظوں کے جادو کو مطلوبہ زبان کی لفظیات میں جگانا ہوتا ہے جو کہ آسان امر نہیں ہے کیوں کہ زبانوں کی نفسیات، صوتیات، نحوی ترکیب، لغات، لہجے اور محاورے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتے ہیں اور ان میں ترجمہ بہت مشکل ہوتا ہے۔ مترجم کو کافی  chanllenges  کا سامنا ہوتا ہے اور بیک وقت بہت سارے لوازمات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ نثری ادب کیمقابلے شعری ادب کے تراجم میں یہ پریشانیاں دوبالا ہوجاتی ہیں خصوصاً غزل کے ترجمے میں۔ نظم چونکہ کسی ایک خاص موضوع پر محیط ہوتی ہے اور نسبتاً طویل ہو تی ہے، شعری پابندیاں غزل کے مقابلے کم ہوتی ہیں یعنی مترجم کو اس کے سمجھنے اور ترجمہ کرنے میں نسبتاً آزادی اور آسانی ہوتی ہے۔ لیکن یہ آسانی غزل کے ترجمے میں نہیں ہوتی اور بہت ساری پریشانیوں اور  challenges  کا سامنا ہوتا ہے۔ تجربہ کار، کہنہ مشق اور تخلیقی ذہن رکھنے والا مترجم ہی ان مسائل و مشکلات اور پریشانیوں سے ابر سکتا ہے۔ ترجمہ کی پریشانیاں، مسائل و مشکلات اس وقت مشکل تر ہو جاتی ہیں جب دونوں زبانوں کی صوتیات، ترکیب نحوی، لغات،لہجے اور محاورے اور دونوں زبانوں کی تہذیب اور ان کا مزاج مختلف ہو اور ترجمہ ادب خصوصاً شعری ادب کا ہو۔ ایک اچھا مترجم زبان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھتا ہے کیوں کہ دو زبانوں میں بامعنی اظہار کے لیے ایک ہی طرح کی علامت نہیں ہوتی ہے جس سے ترجمہ میں معلومات کی مکمل و من و عن ترسیل کا زیاں ہوتا ہے۔  Nida  نے لکھا تھا کہ  Distoration take place due to ethno linguistic design of communication  یعنی نسلی، لسانی نظامِ ترسیل میں تفاوت کے باعث دورانِ ترجمہ متبادل لانے میں پریشانیاں اور مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کرنے میں ان دقتوں، مسائل و مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور مصنف، شاعر، ناول نویس و افسانہ نگار، ناقد و مترجم شیو۔کے کمار نے اپنی کتاب  Best of Faiz  کے مقدمے میں لکھا ہے کہ  :

“Translating Urdu poetry into English verse is a formidable task, especially when one undertakes to translate as difficult a poet as Faiz Ahmad Faiz whose innovated thought process often make his syntax very complex, almost intractable to rendition in a lnaguage whose diction, phrasing and rhythmic patterns are not tuned to oriental sensibility.”

یعنی اردو شاعری کو انگریزی شعر ی قالب میں ڈھالناایک مشکل فعل ہے۔ خصوصاً فیض احمد فیض کی طرح کسی مشکل شاعر کے کلام کا ترجمہ۔ جس کے پرپیچ خیال و فکر کا عمل ان کے تراکیب اور جملوں کی ساخت کو پیچیدہ بنا دیا ہو اور جس کی ادائیگی کسی ایسی زبان میں جس کے لغات، محاورے اور آہنگ کی ترتیب و تنظیم مشرقی حسیت سے مطابقت نہ رکھتی ہو عموماً اس میں ترجمہ مشکل ہوتا ہے۔  ا سی مقدمے میں آگے چل کر شیو کے۔کمار نے فیض احمد فیض کا جو کہ خود ایک اچھے مترجم تھے اور انگریزی و اردو زبانوں پر یکساں دسترس حاصل تھی کا ترجمہ کے مسائل و مشکلات پر نظریہ نقل کیا ہے۔ فیض کے مطابق  :

“Translating poetry, even when confined to a cognate language with formal and idiomatic affinities with the original composition, is an exacting task, but this task is obviously for more formidable when the languages involved are as far removed from each other in cultural background, rhythmic and formal patterns, and the vocabulary of symbol allusion as Urdu and English.”

یعنی شاعری کا ترجمہ چاہے ایک لسانی خاندان کی زبان  (cognate)  میں ہو جواصل تخلیق کے ساتھ اصولی اور محاوراتی قربت رکھتی ہو ایک دقت طلب عمل ہے اور یہ عمل مزید مشکل ہو جاتا ہے جب اصل و مطلوبہ دونوں زبانیں تہذیبی پس منظر، آہنگ، صرفی و نحوی اصول، اشارہ و علامت کی لفظیات، تشبیہات و استعارات میں اردو انگریزی کی طرح ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف اور بعض صورتوں میں متضاد ہوں۔

یعنی ترجمہ کا عمل فی نفسہ بہت مشکل ہے۔ ترجمہ جب سائنس کا ہو، تاریخ کا یا اور دوسرے علوم و فنون کا ہو تو کسی قدر آسان ہو جاتا ہے لیکن شاعری کا ترجمہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے کیوں کہ شاعری میں الفاظ، صرف معلومات یا محض تصورات پیش نہیں کرتے بلکہ ایک خاص فضا اور کیفیت کے مالک ہوتے ہیں۔ اس خاص فضا اور کیفیت کو معلومات اور تصورات کے ساتھ دوسری زبان اور دوسری تہذیب کے سیاق و سباق میں بٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے معلوماتی ترجمہ کے برعکس شاعری کا ترجمہ سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً کسی ایسی زبان میں جس کا اصل زبان سے یا متن سے کوئی لسانی رشتہ نہ ہو اور دونوں زبانوں میں اختلاف ہو اور الگ الگ ماحول میں پروان چڑھی ہوں اور دونوں زبانوں میں فن شاعری کے اصول جدا جدا ہوں اور دونوں کی شعریات بالکل مختلف ہوں۔ اس لیے شاعری کا ترجمہ شاعری ہی میں کرنا بہت ہی مشکل اور جوکھم کا کام ہے۔ ان ہی مشکلات کے باعث ترجمہ کے بارے میں مختلف دانشوروں کے مختلف و متضاد اقوال ہیں جیسے والٹیر   (Voltaire)  کا کہنا ہے کہ   :

”تراجم کسی تخلیق کی کمی میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کے حسن کو تہ و بالا کرتے ہیں۔”

بیرو  (Barrow)  کا ماننا ہے کہ  :

”کسی ترجمے کی معراج یہ ہے کہ اس میں اصل کی بازگشت ہو۔”    ١

اور سائج  (Syege)  لکھتا ہے کہ  :

”ترجمہ اس وقت تک ترجمہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہ اپنے الفاظ  سے اصل شعر کا آ ہنگ نہ دے”

ایک کامیاب مترجم کے لیے ان کی پابندی لازمی قرار دی ہیں اور یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ مترجم کے اندر کون کون سی صلاحیتیں ہونی چاہیے۔

.1         جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اس زبان کی لغت سے، اصطلاحات اور محاروں سے، کسی قدر ادبیات سے اور تھوڑی بہت تاریخ سے واقفیت اور نکھرا ہوا ذوق ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس زبان کی تصنیف کا ترجمہ کرنا ہے اس زبان پر مترجم کو ماہرانہ عبور حاصل ہو۔

”خشونت سنگھ نے اردو ہندی اور پنجابی کی کئی ادبی تخلیقات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ ترجمے کے مسائل کا انھیں پورا احساس ہے ان کا کہنا ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جارہاہے مترجم کو اس پر عبور حاصل ہو اور جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے اس کی تھوڑی بہت واقفیت کافی ہے۔”     ١

لیکن وہ دوسری ہی سانس میں اپنے تجربے بیان کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کے  ‘شکوہ جواب شکوہ’  کا انھوں نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ :

”در خیبر (حجاز) اور درئہ خیبر (پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر) کا فرق انھیں آسانی سے معلوم نہیں ہو سکا۔ نیز بحر ظلمات اور بحر اوقیانوس  Atlantic Ocean   کے سمجھنے میں بھی انھیں دقت ہوئی۔”

”حفیظ جالندھری کی نظم ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ کے انگریزی ترجمے میں انھوں نے ترنم ہزار کو  A Thousand Melodies  لکھا ہے۔ جب کہ اس جگہ ‘ہزار’ بلبل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اور بعض دوسرے ماہرین فن کا یہ خیال پوری طرح صحیح نہیں ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جارہاہے اس پر عبور اور جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے اس کی تھوڑی بہت واقفیت کافی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مترجم کو دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔”    ١

ایک ہی مترجم کا دو زبانوں پر بیک وقت عبور حاصل ہونا کافی مشکل شرط ہے اور ایسے مترجمین کی تعداد نہیں کے برابر ہوگی۔ اس لیے مترجم جس زبان سے ترجمہ کر رہا ہے اس زبان کے کتابی علم سے تھوڑی بہت یا جتنی زیادہ واقفیت ہو اچھا ہے تاکہ وہ اصل عبارت کے سیاق و سباق اور خیال کی نزاکتوں کو پورے طور سے سمجھ کر ترجمے میں منتقل کر سکے۔

.2جس زبان میں ترجمہ کرنا ہے اس پر ماہرانہ عبور حاصل ہو۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر ظ۔ انصاری نے یوں بیان کی ہے  :

”… تصنیف کی زبان سے کہیں زیادہ قدرت اس زبان میں ہونی چاہیے جس میں ترجمہ کرنا مقصود ہے۔ یہاں تک کہ اس زبان میں خود لکھ لینے کی اچھی خاصی مشق اور اس زبان کا پہلودار علم ہونا چاہیے۔ پہلودار علم سے مراد یہ ہے کہ اس کے ماخذ کا جہاں جہاں سے وہ سیراب ہوئی ہے ان سرچشموں کا، اس کے نشیب و فراز کا علم ہو۔ الفاظ کہاں سے آئے، کیونکر آئے، ان کے لغوی معنی کیا تھے، اصطلاحی معنی کیا ہوگئے اور کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ ان کے روزمرہ اور محاورے کیونکر بنے۔ انھیں مختلف موقعوں میں کیسے کیسے استعمال کیا گیا اور آئندہ کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان میں مختلف اوقات میں کیا تبدیلیاں ہوئیں اور ان تبدیلیوں کی بنیاد پر اور کیا

تبدیلیاں ممکن ہیں۔ ان کی مدد سے اور نئے سانچے کیسے بن سکتے ہیں۔ ایک ہی معنی کتنے مفہوم اپنے دامن میں رکھتا ہے اور ایک ہی لفظ کو جب مختلف نسبتوں سے ادا کیا جائے تو اس کے لیے کتنے کتنے مختلف وزن کے الفاظ موجود ہیں۔”

.3مترجم جس موضوع کا ترجمہ کر رہا ہے اس کی اس موضوع سے مناسب حد تک واقفیت ہونی چاہیے کیوں کہ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی اصطلاح، ایک ہی ترکیب یاایک ہی لفظ ادب میں کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ معاشیات و نفسیات میں دوسرے ہی معنوں میں مستعمل ہوتاہے۔ اس لیے مترجم کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف لغت پر توجہ نہ مرکوز کریں بلکہ خاص موضوع اور سیاق و سباق کی روشنی میں اصطلاحوں اور ترکیبوں کا ترجمہ کریں اور خاص موضوع کی کتاب یا مضمون سے گہری دلچسپی یا اس کے متعلق بنیادی معلومات رکھتے ہوں تبھی اس موضوع کو ترجمہ کے لیے انتخاب کریں۔ بہتر بھی یہی ہے کہ مختلف ترجمہ کرنے والے اپنی دلچسپی اور اپنی پسند کے مضامین منتخب کر لیں اور ان ہی کا ترجمہ اپنے لیے مخصوص کر لیں کیوں کہ اس میں مترجم اور قاری دونوں کا فائدہ ہے اور اصل تصنیف بھی متاثر نہیں ہوتی۔

فن ترجمہ کے ماہرین کے درمیان بھی اختلاف کئی سطحوں پر پایا جاتا ہے کیوں کہ مختلف ماہرین فن نے جس طرح مترجم کے لیے مختلف شرطیں رکھی ہیں۔ ان شرائط میں کافی اختلاف ہے۔ یا کس کتاب کا ترجمہ کرنا چاہیے اور کس کا نہیں اور کس کتاب کو کیسے کرنا چاہیے۔ یہ اور اسی طرح کئی باتیں ہیں جن پر ماہرین کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ متنازعہ فیہ مسائل ان کے درمیان ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ ترجمہ کے اصول کیا ہیں اور ترجمہ کس طرح کرنا چاہیے یا ترجمہ کس طرح اور کیسا ہونا چاہیے اس پر ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔ اور یہ آرا ایک دوسرے سے کافی مماثل بھی ہیں اور مختلف و متضاد بھی ہیں۔ مثلاً ترجمہ کس طرح ہونا چاہیے یا ترجمہ کس طرح کرنا چاہیے اور قاری ترجمہ کو کس طرح لے یعنی ترجمہ کے بارے میں قاری کا کیا رویہ ہونا چاہیے ۔ تھیوڈر ساوری  (Theodore Savory)  نے  The Art of Translation (London, 1959)  میں بارہ نکات کا ذکر کیا تھا جن سے مترجم پر عائد ذمہ داریوں کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ وہ بارہ نکات درج ذیل ہیں  :

.1         ترجمہ میں اصل متن کے الفاظ کا ترجمہ ہونا چاہیے۔

.2         ترجمہ اصل متن کے معانی و مفاہیم پر مشتمل ہونا چاہیے۔

.3         ترجمہ کو اصل تصنیف کی طرح پڑھا جانا چاہیے ۔

.4         ترجمہ کو ترجمہ ہی کی طرح پڑھا جانا چاہیے۔

.5         ترجمہ میں اصل تصنیف کے اسلوب کی جھلک ہونی چاہیے۔

.6         ترجمہ کو مترجم کے منفرد اسلوب کا نمائندہ ہونا چاہیے۔

.7         ترجمہ کو اصل متن کے زمانے تحریر کی طرح پڑھا جانا چاہیے۔

.8         ترجمہ کو مترجم کے زمانے تحریر کی طرح پڑھا جانا چاہیے۔

.9         ترجمہ میں اصل تصنیف سے حذف و اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

.10       ترجمہ میں اصل متن سے حذف اور اضافہ کبھی ممکن نہیں۔

.11       نظم کا ترجمہ نثر میں ہونا چاہیے۔

.12       نظم کا ترجمہ نظم میں ہونا چاہیے۔

اگر ہم ان مندرجہ بالا نکات اور گذ شتہ اوراق پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ترجمہ چاہے سائنسی یا ادبی مواد کا ہو اور اسے لفظی ،معنوی یا جمالیاتی قالب میں ڈھالنا  ہویا لغوی، صوتی ،استعاراتی اجزا یا ابعاد کو ایک دوسرے میں مدغم کرنے کی کوشش ہو سب کے الگ الگ اصول اور ضابطے ہیں اور ان کو پرکھنے کے مختلف اصول اور پیمانے ہیں۔  ترجمہ کے ناقدین مترجمہ عبارت یا کتاب کو ان ہی اصول و ضوابط پر پرکھنے کی کوشش کر تے ہیں اور ادبی معیار قائم کر تے ہوہے مختلف فنون کے تراجم میں درپیش مختلف پریشانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔اور ترجمہ کی اصل غایت یعنی زبان و بیان کی نئی جہتوں،تجربات کی نئی سمتوں اوراحساسات کے نئے رنگوں کودیکھنے  اور سمو نے کی کو شش کر تے ہیں۔  پرو فیسراسلوب احمد انصاری نے ترجمہ کی اصل غایت بیان کرتے ہو ئے لکھا تھا کہ:

”ترجمے کا مقصد پا یان کار دو زبانوں کے ما بین تہذ یبی فصل یعنی Barrier  کو لمحاتی طور پر ختم کرنا اور مخصوص کلچروں کی مختلف المر کزیت یعنی  Eccentricity کو فی الوقت محو کرنا اور باہمی لسانیاتی زرخیزی کو وجود میں لانا ہے ۔ایسا کرنے میں اگر قطعیت کا حصول ممکن نہ بھی ہو تب بھی صحت کے قریب قریب پہنچنے کی کوشش یعنی  Approximation بہر حال ضروری ہے ۔ کسی بھی زبان کے محاوروں کو مردہ استعاروں کا نام دیا گیا ہے اور استعارے چاہے وہ توانا اور متحرک ہوں یا منجمد مضمحل اور یخ بستہ ،وہ پیدا وار ہوتے ہیں ،مخصوص تہذیبی ماحول اور آ ب و ہوا کے اور مترجم کا کام دراصل اس تجربے کی تشکیل نو اور ترسیل ہے جس نے کسی زبان کے مزاج اور رنگ روغن کو جنم دیا ہے ”

حوالے

  01    پروفیسر محمد حسن  :  نوعیت اور مقصد، مشمولہ قمر رئیس (مرتبہ) ترجمہ کا فن اور روایت،  تاج پبلشنگ ہائوس، 1974

   02   پرو فیسر اسلوب احمد انصاری ؛ تر جمہ کا عمل  مشمولہ  نقد و نظر  علی گڈھ 1987

      03 ڈاکٹر ظ۔ انصاری، ترجمے کے بنیادی مسائل، مشمولہ خلیق انجم (مرتبہ) فن ترجمہ نگاری، ثمر آفسیٹ پرنٹرز، نئی دہلی، 1995

 04 کلیم الدین احمد  ”فرہنگ ادبی اصطلاحات”، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1987

  05   سید ضیاء اللہ  ”اردو صحافت، ترجمہ و ادارت”، کرناٹک اردو اکادمی، بنگلور، 1994

   06  وحید الدین سلیم  :  وضع اصطلاحات، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی

  07   بلال احمد زبیری  ”سماجی علوم کا ترجمہ مسائل و مشکلات”  مشمولہ اعجاز راہی (مرتبہ) اردو زبان میں ترجمے کے مسائل، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1986

 08-George Steiner (1978) On Difficulty and Other Essays, Oxford University Press, London,

09 -S. R. Faruqi “Language, Literature and Translation” in

     R.S. Gupta (ed) Literary Translation, Creative Books, New Delhi, 1999,

٭٭٭

Leave a Reply

3 Comments on "تر جمہ : ایک تہذ یبی و لسانی مفا ہمہ
ڈاکٹر ابو شہیم خان"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Muhammad Ashfaq Ayaz
Guest
میں نے اس مضمون کو کئی دفعہ پڑھا ہے۔ ہر بار اس کی نئی تفہیم سامنے آئی۔ بڑی تحقیق کے بعد لکھا گیا مضمون ہے۔
trackback

[…] تر جمہ : ایک تہذ یبی و لسانی مفا ہمہ          ابو شہیم خان […]

trackback

[…] تر جمہ : ایک تہذ یبی و لسانی مفا ہمہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.