حالی سے قبل اردو تنقید کی روایت
اردو کے بیشتر نقادوں اور اہل ِ نظر کا خیال ہے کہ اردو تنقید کاباقاعدہ آغاز حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے ہوا جو1893میں شائع ہوا۔یہ بات درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حالی سے پہلے بھی اردو میں تنقیدی عناصر کی کمی نہیں تھی۔یہاں یہ عرض کرنا لازمی ہے کہ ان سے پہلے تنقید کا رنگ روپ اور انداز بلکل مشرقی تھا یہاں مشرق سے مُراد عربی و فارسی تنقید ہے مگر حالی کا تنقید سے رشتہ،مشرقی اور مغربی دونوں تنقیدوں سے ہے۔اُنہوں نے عربی اور فارسی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور عربی و فارسی شعر وادب کا بڑے شوق سے مطالعہ کیا تھا۔انگریزی تنقید سے اُن کا رشتہ بالواسطہ تھا البتہ اردو کے توسط سے انگریزی تنقید کو سمجھنے کا موقع ملا تھا۔حالی کے تنقیدی تصورات کا اگر اندازہ لگایا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تشکیل مشرقی اور مغربی تصورات ِ تنقید کی آمیزش سے ہوئی ہے۔مذکورہ حالات میں حالی کا رشتہ تنقید سے قائم ہوا ہے۔اس طرح اردو کے پہلے باقاعدہ نقادنے اردو تنقید کی باقاعدہ ابتدا کی لیکن کیا حالی سے پہلے اردو تنقید کا کوئی وجود تھا اور اگر تھاتو اس کی کیا شکل و صورت تھی ۔یہی میرے مضمون کا موضوع ہے۔
مشاعرے ہمیشہ سے اردو تہذیب میں شامل رہے ہیںاور آج بھی یہ روایت جاری ہے۔ اردو تنقید کے ابتدائی نقوش ہمیں ان ہی مشاعروں میں ملتے ہیں۔پہلے زمانے میں شہر میں کم سے کم دو مسلم الثبوت اساتذہ سخن ہوتے تھے اور ان کے کئی کئی شاگرد بھی ہوتے تھے۔جب مشاعرہ ہوتا تو دونوں استادوں کے شاگرد بالمقابل بیٹھ جاتے۔جب کسی گروہ کا کوئی شاعر اپنا کلام سناتا تو دوسرے گروہ کے شعراء اس پر تنقید کرنے کے لئے تیار بیٹھے رہتے۔ادھر اس شاعر سے کوئی غلطی سرزد ہوئی اُدھر مخالف گروہ نے تنقید کی بوچھاڑ شروع کردی۔
ایسی صورت حال میں بعض اہم تنقیدی نکات بھی سامنے آجاتے ہیں۔ان مشاعروں میں ہمیں اسی طرح کی تنقید ملتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ یہ تنقید کسی تحریری شکل میں نہیں ملتی مگر اس سے ہمیں اس زمانے کے تنقیدی شعور کا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے۔مشاعروں کی واہ واہ اور ہوٹنگ میں ہمیں کچھ تنقیدی عناصر ضرور مل جاتے ہیں۔عبادت بریلوی نے اپنی کتاب ” اردو تنقید کا ارتقائ” میں فراق گورکھپوری کاایک قول نقل کیا ہے جس سے مشاعروں کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے :۔
”میں اس خیال سے بہت کم متفق ہوں کہ مشاعروں کی تعریف یا شعروشاعری کی حجتوں کی تعریف تنقید نہیں ہے ۔ بسا اوقات یہ تنقید بہت پتے کی چیز ہوتی ہے اور کئی موقعوں پر خطوط یا تذکروں یا عام بات چیت میں ضمنی طور پر شعر وادب کے بارے میں جو باتیں قلم یا زبان سے اضطراری حالت میں نکل جاتی ہیں وہ تیر بہدف ہوتی ہیں اور ادب میں بلا التزام تنقید و تبصرہ لکھنے کا رواج بالکل نیا ہے ۔ لیکن قدما کا ایک تنقیدی شعور تھا ۔ ان کے کچھ جمالیاتی نظریے تھے ۔ بہر حال یہ تنقیدی روایت اردو ادب میں موجود تھی اور اس وقت بھی موجود ہے اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ” ۔
اردو تنقید کی روایت میں تذکروں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔دراصل تذکرہ وہ چھوٹی سے بیاض ہے جس میں تذکرہ نگار اپنے زمانے کے شعرا کے حالات زندگی ان کے کلام کے نمونوں کے ساتھ محفوظ کرتا تھا۔ایسا کرتے ہوئے تذکرہ نگار اکثر شعرا کے کلام کے بارے میں اپنی تنقیدی رائے بھی پیش کرتا تھا۔اردو شعرا ء کے جتنے بھی تذکرے لکھے گئے ان میں ہمیں تنقیدی عناصر ملتے ہیں۔اس سلسلے کی پہلی کڑی میر تقی میرکا تذکرہ نکات الشعرا ہے۔یہ فارسی زبان میںلکھا گیا اردو شعرا ء کاپہلا تذکرہ ہے اور فن تذکرہ نگاری کی عمدہ مثال بھی ہے۔اسی زمانے میں یا اس کے کچھ بعد کے اہم تذکرے ہیں۔حمد اورنگ آبادی کا گلشن گفتار،فضل بیگ کاشغال کا تحفت الشعرائ،فتح گردیزی تذکرہ ریحتہ گویان، ابراہیم خلیل گلزار ابراہیم ،لچھمی نرائن شفیق چمنستان شعراء اور مصفحی کے تین تذکرے تذکرہ ہندی،ریاض الفصحا اور عقد ثریا۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ یہ تمام تذکرے فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں اور ان کا شمار اردو کے قدیم تذکروں میں ہوتا ہے۔ان تذکروں کے علاوہ بھی کئی تذکرے لکھے گئے ہیں جن کی فہرست کافی طویل ہے اور طوالت کے خوف سے یہاں سب کا ذکرنہیں کیا جاسکتا۔بہرحال اردو شعراء کا پہلا تذکرہ جو اردو زبان میں لکھا گیا وہ مرزا علی لطف کا”تذکرہ گلشن ہند” ہے۔اردو تنقید کے حوالے سے دیکھا جائے تو نواب مصطفی خان شیفتہ کا تذکرہ ”گلشن بے خار”١٨٣٤ خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔تذکروں کا یہ سلسلہ مولانا آزاد کی تصنیف”آب حیات”جو ١٨٨٠ میں شائع ہوئی تک چلتا رہا۔اس کتاب کو اردو شاعری کی پہلی تاریخ کہا جاتا ہے۔لیکن آزاد نے خود اسے تذکرے کا نام دیا ہے۔اس کے بعد اردو ادب کی تاریخیں لکھی جانی شروع ہوئیں۔بہرحال آب حیات کو اردو شاعری کی پہلی تاریخ اوراردو شعراء کا آخری تذکرہ کہا جاسکتا ہے۔جب ہم ان تذکروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو جوبات بہت صاف نظر آتی ہے وہ یہ کہ تذکرہ نگاروں نے جہاں کہیں تنقیدی آرا پیش کی ہیں وہاں بہت اختصار سے کام لیا ہے۔صرف ایک یا دو جملوں میں اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے۔اگر اس کام کو ٹھوڑا تفصیل سے کیا جاتا توشاید ان تذکروں کی اہمیت کچھ زیادہ ہوتی۔یہ ایک طرح سے کسی شاعر کے کلام کا اجمالی تبصرہ ہوتا ہے اور اس کو بھی ہم بے ضابط تنقید کے زمرے میں رکھتے ہیں جبکہ باضابط تنقید میں نقاد اپنی رائے کو مدلل انداز میں پیش کرتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تذکروں کی تنقیدی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
اردو تنقید کی روایت میں تقریظ کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے۔تقریظ ایک ایسی تعریفی و توصفیی تحریر ہوتی ہے جس کو کتاب کے اصل متن سے پہلے شامل کیا جاتا ہے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کو پڑھ کرمصنف اور تصنیف کی خوبیوں کے بارے میں پتہ چل جائے۔ تقریظ نویسی مشرقی تنقید کا ایک پرایہ ہے ۔ جدید دور میں اس کا رواج کم ہوگیا ہے لیکن اردو میں اس کا رواج زمانہ ٔ قدیم سے ہے ۔ تقریظ کے معنی مدح یا تعریف کے ہیں ۔ تقریظ سے مراد ایسی عبارت کے ہیں جس میں صاحب کتاب کی مدح یا تعریف کی گئی ہو ۔ تقریظ کو تنقیص کے متضاد مفہوم میں لیا جاتا ہے ۔ تنقید میں کسی کتاب کی اچھائی یا برائی دونوں کو بیان کیا جاتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ عربی میں لفظ ” تقریظ” زیادہ تر تنقید ہی کے مضمون میں استعمال ہوا ہے ۔ موجودہ دور کی روایت ہے کہ لوگ اپنی کتابوں پر کسی اعلیٰ پائے کی شخصیت سے مقدمہ لکھواتے ہیں۔اس کا مقصد بھی کچھ تقریظ سے ہی مماثلت رکھتا ہے۔اکثر تقریظ یا مقدمہ لکھنے والا شخص کتاب کی خوبیوں کو ہی پیش کرتا ہے۔اس کی نگاہ کتاب کی خامیوں کی طرف کم ہی جاتی ہے یا یوں کہا جائے کہ جاتی ہی نہیں تو میرے خیال سے زیادہ مناسب ہوگا۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو تنقید کی آدھی ادھوری صورت ہی سامنے آتی ہے جب کہ تنقید کا کام ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا۔یعنی کسی تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو پیش کر کے کوئی فیصلہ کرنا اصل تنقید ہے۔تنقید کے نقط ِ نظر سے جائے تو تقریظوں میں یہ عمل ادھورا رہتا ہے اور اس لحاظ سے یہ بے ضابط تنقید کہلائے گئی۔اردو میں تقریظ لکھنا زمانہ ِ قدیم سے چلا آرہا ہے۔یہاں تک کے غالب جیسے بڑے شاعر نے بھی شیفتہ کے تذکرے”گلشن ِ بے خار”کی تقریظ لکھی تھی۔ سر سید نے ابوالفضل کی ” آئین اکبری” مرتب کی اور غالب نے اس پر تقریظ لکھی ۔ اس میں غالب نے سرسید کی تدوین کی کوشش کی ستائش کرنے کے بجائے سرسید اور زمانے کو متوجہ کیا کہ اب دنیا میں کیا کچھ ترقیات اور ایجادات نہیں ہورہی ہیں ۔ ان چیزوں کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ اس تقریظ کو سرسید نے پسند نہیں کیا اور انہوں نے آئین اکبری میں اس کو شامل بھی نہیں کیا ۔ غالب کی لکھی یہ تقریظ آج بھی موجود ہے ۔ اس سے غالب ہی کے نہیں سرسید کے مزاج پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ اس کے علاوہ غالب نے اور بھی تقریظیں لکھی ہیں ۔ ان میں غالب کی اس تقریظ کو شہرت حاصل ہوئی جو انہوں نے اپنے شاگرد حبیب اللہ ذکا کی کتاب” خاش وقماش” پر لکھی ہے ۔ اس میں غالب نے کتاب کے ہی محاسن کی ستائش نہیں کی بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ مبالغے سے کام لیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت بہت پرانی ہے اور اس میں ہمیں کچھ تنقیدی عناصر ضرور مل جاتے ہیں۔اس لئے تقریظ نگاری کو اردو تنقید میں شامل کرلیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بظاہر تقریظ میں تحسین وستائش کے پہلو سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ یہ لکھنے والے کے تنقیدی شعور کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تنقیدی شعور مدح وتعریف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ غالب کے علاوہ بھی اردو میں تقریظیں لکھی گئی ہیں لیکن اب تقریظیں لکھنے کا رواج کم ہوگیا ہے ۔ تنقید نے اب الگ ایک صنف کی شکل اختیار کر لی ہے اور تنقید کی اپنی الگ جگہ ہے ۔ اب تقریظوں کی جگہ کتابوں کے ابتدائی صفحات پر پیش لفظ یا پیش گفتار وغیرہ لکھے جاتے ہیں جن میں بعض اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر تو رسمی ہی ہوتے ہیں ۔ یہاں تقریظ کا ذکر کرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ تنقید کے چند نمونے ان تقریظوں میں بھی مل جاتے ہیں ۔
اردو تبصروں میں بھی ہمیں کچھ غیر واضح تنقیدی عناصر مل جاتے ہیں۔تبصرہ کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جاتی ہے۔کسی کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں جو تحریر لکھی جائے وہ تبصرہ ہے۔یہ تحریر اگر کسی اخبار یا رسالہ میں شائع ہو تو اسے تبصرہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ تحریر شائع ہی ہو زبانی تبصرے بھی کیے جاتے ہیں۔یہ ایک طرح سے کتاب اور مصنف کے بارے میں سرسری تعارف ہوتا ہے۔اس لئے اس میں مصنف اور اس کے اسلوب خیال وغیرہ پر تفصیلی بحث نہیں ہوتی۔تبصروں میں جو تنقید ملتی ہے وہ ہر لحاظ سے ناکافی ہوتی ہے۔میعار بھی اُونچا نہیں ہوتا اور تفصیل تو نہایت کم ہوتی ہے۔موجودہ دور میں میں بھی تبصرے لکھے جاتے ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے میعارمیںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔تبصرہ نگار صرف اپنے نام اور تعارف کی خاطر تبصرہ لکھتا ہے۔اگر وہ غور و فکر کرے اور تصنیف کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعداپنا تبصرہ لکھے تو بہتر تنقیدی خیالات و نظریات سامنے آسکتے ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود اگر دیکھا جائے تو تبصرہ نگاری سے بھی کچھ تنقیدی عناصر اخذ کیے جاسکتے ہیں بلکہ اردو تنقید کی روایت کو آگے بڑھانے میں تبصرہ نگاروں کا بھی اہم ہاتھ رہا ہے۔
اردو کے کئی قدیم اور جدید شعراء نے شاعری کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اپنے اشعارمیں کیا ہے۔مثلاََ ملا وجہی قطب مشتری میں زبان کی سلاست کے حوالے سے لکھتے ہیں:۔
جو بے ربط بولے تو بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بول بولے سلیس
جسے بات کے ربط کا نام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچھ کام نئیں
ملا وجہی کی طرح ابن نشاطی نے بھی اپنی مثنوی”پھول بن”میں اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔وہ شاعری کے لئے صنائع و بدائع اور قافیہ کے استعمال کو ضروری سمجھتے تھے۔غواصی کے نزدیک شاعری کے لئے سلیقہ درکارہے۔ان کے نزدیک نئی نئی تشبیہات شعر کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔شمالی ہند میں شاعری کے بنیاد گزار ولی زبان کی شیرنی پر خاص دھیان دیتے ہیں۔اُنہوں نے شاعری کے لئے لطافت،حلاوت اور شگفتگی کو بہت اہم قرار دیا ہے:۔
ولی شیریں زبان کی نہیں ہے چاشنی سب کو
حلاوت فہم کو میرا سخن شہد و شکر دِستا
ہر سخن تیرا لطافت سوں ولی
مثل گوہر زینت ہر گوش ہے
اوپر کچھ دکنی شعراء کا ذکر کیا گیا ہے۔اسی طرح شمالی ہند کے شعراء نے بھی اپنے اشعار میں تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔تنقید کے حوالے سے شمالی ہند میں فائز دہلوی کو کافی اہمیت حاصل ہے۔اُنہوں نے اپنے دیوان کے شروع میں خطبہ لکھا جو خاص طور سے اہمیت کا حامل ہے۔لکھتے ہیں:۔
”شعر کی ہر قسم کے لئے ضروری ہے کہ بدیع ہو اور قافیہ درست ،معانی لطیف،الفاظ شریں اور عبارت صاف ہو۔تاکہ سمجھنے میں مشکل پیدا نہ ہو اور عبارت میںتکلف نہ ہونا چاہیے اور شاعر کو چاہیے کہ اسے نظم کی ترکیب سے شنائی ہو اور تشبہات کے قانون سے اور استعارات اور معاورات کے فن اور تاریخ سے باخبر ہو”۔
فائز کے مذکورہ اقتباس سے اس زمانے کے تنقیدی شعور کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔حاتم نے بھی اپنے زمانے میں زبان کی اصلاح پر زور دیا۔ان کا ابتدائی کلام ایہام گوئی کی عمدہ مثال تھالیکن بعد میں وہ اس رجحان کے خلاف ہوگئے تھے۔حاتم کے بعد سودا نے اپنے اشعار میں بعض تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ اُنہوں نے تنقید کے موضوع پر دو کتابیں ”سبیل ہدایت”اور ”عبرت الغافلین”تحریر کیں جن سے ان کے مذاق ِ تنقید کا اندازہ ہوتا ہے۔سودا شاعری کے تاثیری پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں:۔
ہے ہمارے شعر میں تاثیر ریز
جوش ہر دل سے جنوں کا پیش خیز
ان تمام باتوں پر غور فکر کرنے کے بعد اگر کہا جائے کہ اس زمانے کے مزاج کے مطابق ان تنقیدی خیالات کو اہمیت حاصل تھی تو بے جا نہ ہوگا۔موجودہ دور کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ غیر منظم خیالات بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔آج اردو تنقید ترقی کی کئی منازل طے کرچکی ہے۔کئی سارے تنقیدی دبستان وجود میں آچکے ہیں۔بیشمار ناقدین نے اردو تنقید کو ترقی دینے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔نہ صرف نظری و عملی بلکہ ہر طرح سے تنقید میں توسیع ہوئی ہے۔آج جب اردو تنقید اس مقام پر پہنچ چکی ہے تو اس ترقی میں صرف حالی کی ”مقدمہ شعر و شاعری”کو ہی اہمیت حاصل ہے۔کیا اردو تنقید کو بنیاد فراہم کرانے میں پوار کا پورا ہاتھ حالی کا ہی ہے۔اگر ایسا کہا جائے تو بڑی بے انصافی ہوگی کیونکہ حالی سے پہلے بھی تنقید موجود تھی۔فرق صرف یہ کہ اس کی صورت کچی تھی۔تنقید کی کوئی منظم شکل و صورت نہیں تھی۔اردو تنقید بکھری ہوئی تھی اور خاص بات یہ تھی کہ اس زمانے کی تنقید کا مغرب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ادب میں کوئی بھی صنف اپنے آغاز کے ساتھ ہی عروج کو نہیں پہنچ جاتی۔وہ اپنے آغاز سے پہلے اور آغاز کے بعد کئی ساری منزلیں طے کرتی ہے۔آج اردو تنقید کی جو شکل و صورت ہے یہ صرف حالی کی دین نہیں ہے۔اس کا پس منظربہت پہلے سے تیار ہوتا آرہا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ حالی سے پہلے کی تنقید غیر منظم شکل میں ہے۔حالی چونکہ جدید ذہن کے مالک اور مغربی ادب سے بھی کافی حد تک واقفیت رکھتے تھے۔اس لئے جب اُنہوں نے اردو ادب پر غور و فکر کیاتو ان کو اس میں بہت ساری کمیاں نظر آئیں۔پھر جب اُنہوں نے اپنے کلام کا مقدمہ لکھا تو اردو شاعری کے متعلق مدلل اظہار کیا جو بعد میں باضابط ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوا۔اس طرح اردو تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا لیکن اس آغاز سے پہلے ملا وجہی سے لے کر حالی تک کسی نہ کسی صورت میں تنقیدی خیالات کا اظہار ہوتا رہا ہے۔یہ ایک سچائی ہے اور اردو ادب کے طالب علموں کو یہ سچائی تسلیم کرنی پڑے گئی۔
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "حالی سے قبل اردو تنقید کی روایت"