شبلی نعمانی کا تنقیدی زاویہ بحوالہ موازنۂ انیس و دبیر

 روحی سلطانہ٭

ارددادب میں شبلی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جو بیک وقت نظریہ ساز نقاد بھی ہیںاور سیرت نگار بھی ،وہ منفرد شاعر بھی ہیں انشاء پرداز بھی ، تاریخ نویس بھی ہیں اور علم کلام کے صحیح واقف کار بھی ۔ مشرقی علوم پر ان کا مطالعہ کافی وسیع تھا۔ اس کا اعتراف الطاف حسین حالیجیسے دانشور نقاد نے بھی کیا ہے۔

ادب اور مشرقی تاریخ کا ہو دیکھنا مخزن

تو شبلی سا وحید عصر و یکتائے زمن دیکھیں

تنقید کا ایک اسلوب تقابلی تنقید ہے عموماً اس میں معنوی حسن کو سامنے رکھ کر دو فنکاروں کی تخلیقات کا موازنہ و تقابل کرتے ہیں یہ انسان کی فطرت میں ہوتا ہے کہ ایک ہی طرح کی چیزوں میں بہتر کی تلاش کے لئے موازنہ کرتا ہے،شاعری میں زیادہ موازنہ کیا جاتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض شعراء میں معاصرانہ چشمک چلا کرتی ہے۔ایک دوسرے کے معتقد دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور پھر شاعر کے معائب پر اظہار ِرائے ہوا کرتی ہیں ۔تنقید کی یہ قسم اردو ادب میں با ضابطہ طور سے نہ تھی پھر جب شبلی نعمانی کی تصنیف” موازنہ ٔ انیس و دبیر”منظر عام پر آئی تو اسی سے ”تقابلی تنقید” کی داغ بیل پڑی بقولِ رشید حسن خان :

”اس کتاب کا بنیادی عنصر تقابل ہے اور اس طرح یہ کتاب اردو میں تقابلی تنقید کی پہلی کتاب کہی جا سکتی ہے۔جس میں انھوں نے تقابل کا راستہ اپنا کر انیس و دبیر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے”   ١

(شبلی کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ  ۔ص١٠٢)

شبلی نعمانی کے زمانے میں ایک عرصہ تک اردو داں طبقہ ٔ ”انیسۓ”اور ”دبیرئیے”کے دو گروہوں میں تقسیم رہا ہے اور ہمیشہ ایک دوسرے کو فوقیت دیتا رہا ۔ان کے شاگردوں اور ماننے والوں میں بھی اکثر بحثیںہوتی رہی ہیں ۔شبلی نعمانی نے ان ہی چشمکوں کے پیشِ نظر ”موازنۂ انیس و دبیر ” لکھ کر ایک شکل دینے کی کوشش کی ۔لیکن اس کے بعد بھی ان کی یہ بحث ختم نہ ہوئی ۔بعد کے کچھ ناقدین کو اس کی شکایت رہی کہ شبلی نے دبیر کے مراثی کا انتخاب کرنے میں جانب داری برتی ہے۔

 موازنۂ انیس و دبیر میں شبلی نے تقابلی تنقید کا ایک لامثال نمونہ پوری دنیا ئے ادب کے سامنے رکھا ہے۔شبلی نعمانی نے چونکہ عربی اور فارسی ادبیات کا غائرانہ طور پر مطالعہ کیا تھا ۔اسی وجہ سے ان کے افکار میں تازگی موجود تھی۔شبلی نعمانی تنقید کے میدان میں ایک بلند مرتبہ رکھتے ہیں ۔اس بلند مرتبے کی وجہ ،ان کا وسیع علمی شعور اور ادبی ذوق ہے۔اس ذوق و شعور کی ترسیل انھوں نے ایک منفرد اسلوب ِ نگارش سے کی ہے،جس میں خیالات کی آراستگی و تازگی یا سنجیدگی و شادابی کا وہ متوازن امتزاج ہے جسے قدیم اصطلاحات میں فصاحت و بلاغت کی ہم آہنگی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جدید محاورے میں سادہ پرکار کہا جاتا ہے۔یہ خصوصیت شبلی کے فنکار اور تنقید نگاردونوں حیثیتوں کے ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ ادب کے دو مستقل بالذات دائرے تخلیق اور تنقید ہیں ۔ لیکن بعض اوقات دونوں کے عناصر کی ترکیب باوجود ان کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہونا ضروری نہیں ۔

موازنۂ انیس و دبیر شبلی کے تنقیدی افکا ر کا نمونہ سمجھا جاتا ہے ۔اس میں مرثیے کے اندر شعریت کی بہترین خوبیوں کا سراغ لگا کر اردو میں موضوعاتی نظم نگاری کے کمالات کا تجزیہ اس طرح سے کیا گیا ہے کہ رزمیے،المیے اور فطرت نگاری کے اصلی جُز نمایا ں ہوئے ہیں ۔تقابلی تنقید کا یہ ایک عظیم الشان کا رنامہ ہے ،جو ایک نقطۂ عروج سمجھا جاتا ہے۔شبلی کا اندازِنقد ”موازنۂ انیس و دبیر کے حوالے سے ملاحظہ ہو:

”جذبات کا ادا کرنا شاعری کا اصلی ہیولاہے۔ان کے سوا عالمِ قدرت کے مناظر مثلاًگرمی و سردی ،صبح و شام ،بہار وخزاں،باغ وبہار ،دشت وصحرا،کوہ وبیاباں کی تصویر کھینچنا ،ان کے تاثرات اور حالات کا بیان کرنا بھی اسی میں داخل ہے”  ٢

(موازنۂ انیس و دبیر ۔ص ٢٠)

موازنہ ٔ انیس و دبیر میں شبلی نعمانی نے شروع میں مرثیہ گوئی کی اجمالی تاریخ پیش کی ہے۔اس کے بعد انیس کے کلام کی خصوصیت فصاحت ،روز مرہ محاورے،مضامین کی نوعیت ،ردیف و قافیہ کی موزونی،بلاغت اور اس کی جزیات ، استعارات ،تشبیہ وصنائع وبدائع پھرمنظر کشی محاکات اور جنگ اور اس کی جزیات کا ذکرتفصیل سے کیا ہے۔پھر اس کے مطابق انیس و دبیر کے کلام سے مثالیں دے کر دونوں شاعروں کے مراثی کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔

شبلی بخوبی اس حقیقت سے واقف تھے کہ موازنہ کے لئے موضوعات اور عناصرادب کا مشترک ہونا ضروری ہے۔انیس و دبیر کے موضوعات ایک جیسے ہی ہیں ۔ذریعۂ اظہار بھی مسدس ہے۔مرثیوں کے عناصر بھی ایک ہی ہیں ۔اسی لئے” موازنۂ انیس و دبیر” کی ضرورت آج بھی مسّلم ہے۔ اہلِ فن نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ موازنۂ انیس و دبیرمیں شبلی نے اکثر مقامات پر دبیر کے ساتھ زیادتی کی ہے اور انھوں نے انیس کے بہترین کلام کے ساتھ دبیر کے کلام کا موازنہ نہیں کیا ہے۔لیکن ان کے مطابق مجموعی طور پر شبلی جس نتیجہ پر پہنچے ہیں وہ درست ہے۔یعنی انیس و دبیر کتنے ہی مقامات پر ایک ساتھ نظر آتے ہیں ۔کہیں کہیں دبیر انیس سے بڑھ جاتے ہیں جیسے مداحی کے باب میں ۔لیکن بیشتر مقامات پر انیس دبیر سے آگے نظر آتے ہیں ۔فرق ظاہر کرنے کے لئے انیس و دبیر کے یہ دو مصر عے کافی ہیں:

مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسین ہوں      (انیس)

فرمایا میں حسین علیہ السّلام ہوں      (دبیر)

شبلی نعمانی نے میر انیس کے یہاں حلیمی دکھائی ہے اور مرزا دبیر کے یہاں تعلّی۔میر انیس ومرزا دبیر کا موازنہ کے باب میں شبلی کا کہنا یہ ہے کہ مرزا دبیر کے کلام میں وہ فصاحت اور شگفتگی نہیں جو میر انیس کے کلام میں ہے۔شبلی کے مطابق مرزا اکثر ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں ،مثلاً:

القمر ،اناالطور، النشرلبیک و سعدجیسے الفاظ اگرچہ صحیح ہیں ،عربی اور فارسی میں استعمال بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن شبلی کا ماننا ہے کہ اردو نظم کی سلاست اور روانی ان کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔بعض ناقدین نے اس بات پر پھر یہ دلیل ظاہر کی کہ دبیر قرآنی لفظوں سے بخوبی واقف تھے اس لئے ان لفظوںکا ایسے ہی استعمال کرنا لازمی تھا ۔ھل اتیٰ،لافتیٰ،انّما،قل کفیٰ یہ چاروں لفظ حضرت علی کے فضائل کی تلمیحا ت ہیں ۔ان تلمیحات کو ایک ایک بند میں دونوں نے باندھا ہے۔مرزا صاحب فرماتے ہیں :

”اہلِ عطا میں تاجِ سرِ ہل اتیٰ ہیں یہ

اغیار لاف زن ہیں ،شہِ لافتیٰ ہیں یہ

 خورشید ِانورِ  فلک انّما  ہیں  یہ

کافی ہے یہ شرف کہ قل کفیٰ ہیں یہ

ممتاز گو خلیل رسولانِ دیں میں ہیں

کاشف ہے لو کشف،یہ زیادہ یقیں میں ہیں”  ٣

(ماخوذ از:موازنۂ انیس و دبیر ۔ص ٢٥٥)

میر انیسکہتے ہیں :

”حق نے کیا عطا پہ عطا ہل اتیٰ کسے

حاصل ہوا ہے مرتبہ ٔلا فتیٰ کسے

کونین میں ملا شرفِ انّما کسے

کہتی ہے خلق بادشہِ قل کفیٰ کسے

دنیا میں کون منتظمِ کائنات ہے

کس کو کہا خدا نے کہ یہ میرا ہات ہے”  ٤

(ماخوذ از:موازنۂ انیس و دبیر ۔ص ٢٥٥)

شبلی کی تنقیدی فکر اور تقابلی تنقیدی عمل نے اردو تنقید کو مل کر منزلِ مقصود کا راستہ دکھایا ہے، ان کے تجزیاتی انداز اور عالمانہ نقطۂ نظر نے ان اہم بنیادی موضوعات و وسائل کی گرہیں ظاہر کر کے واضح کر دی ہیں ۔ اردو تنقید کے حلقے جن میں آج تک الجھے ہوئے ہیں اور اپنے خام خیال میں تجدید ِ ادب کی باتیں کر رہے ہیں ۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ہم آہنگی شبلی کی تنقید نگاری میںجامعیت اور توازن کا سب سے بڑا ثبوت ہے،اسی سے معلوم ہو تا ہے کہ فکر و فن دونوں کی جہتوں پر شبلی کی دقیقہ رس نگاہ پوری طرح محیط تھی۔ لیکن کچھ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ شبلی نے” موازنۂ انیس و دبیر” میں جا نب داری برتی ہے۔یہ جانب داری تقابلی تنقید کے منافی ہے۔

شبلی نے اپنی بصیرت افروز نظر اور وسیع علم کے بنا پر پیروی مغرب اور نا قص ر استے سے ہٹ کر بیسویں صدی کے اوائل میں ہی دیگر عہد آفرین تصانیف کے ساتھ ساتھ موازنہ ٔ انیس و دبیر لکھ کر ہوا کا رُخ ضرور بدلاہے ۔اس طرح شبلی نے اردو تنقید کے وسیلے سے اردو ادب کے صحیح رُخ پر ہموار ارتقاء کا راستہ روشن کر دیا جو پچھلی نصف صدی سے زائد کے گردو غبار کے باوجود ایک بار پھر چمک اٹھااور مختلف جہتوں سے دورِحاضر میں مشرق کی بازیافت کی آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں ۔یہ دراصل عصر حاضر میں انسانیت کی آفاقی اقدار کی بازیافت کی آوازیں اور آرزوئیں ہیں جن سے ہی درحقیقت تہذیب وتمدن کے جدید عالمی نظام کے سازوسامان مہیا ہوں گے۔

پچھلے سو سالوں کی بحث و مباحثوںسے ناقدین نے شبلی کی اس تصنیف ”موازنۂ انیس و دبیر ”کو اس طرح سے صرف ایک جملے میں سمیٹ کر یہ کہاکہ دبیر کے یہاں آہ آہ ہے اور انیس کے یہاں واہ واہ ہے۔

حواشی

١          خلیق انجم شبلی کی علمی وادبی خدمات انجمن ترقی اردو(ہند)دہلی ١٩٩٦ئ

٢          شبلی نعمانی موازنۂ انیس ودبیر ایجو کیشنل بک ہاوس علی گڈھ ٢٠٠٣ء

٣          ایضاً

٤          ایضاً      ِِ

Leave a Reply

1 Comment on "شبلی نعمانی کا تنقیدی زاویہ بحوالہ موازنۂ انیس و دبیر"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 151.     شبلی نعمانی کا تنقیدی زاویہ بحوالہ موازنۂ انیس و دبیر […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.