اُردو اور پنجاب کا باہمی رشتہ       

محمد عرفان*

پنجاب ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مختلف ادوار میں اس خطے کا نام تبدیل ہو کر اب ”پنجاب” نام سے جانا جاتا ہے جو کہ فارسی زبان کے دو لفظوں ”پنج” اور ”آب” کا مرکب ہے اس کا مطلب ہے پانچ پانیوں کی دھرتی اور وہ پانچ آب یا دریا ہیں ستلج،راوی،بیاس،چناب اور جہلم۔پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیںکہ:

”اِس دھرتی کو خدا نے پانچ دریائوں کی نعمتوں سے سرفراز کیا اور اِن دریائوں کو اس قدرسیراب رکھا کہ حرص و ہوس کی پیاس انکے قریب سے بھی نہ گزر سکی۔”  ١

خطہ پنجاب تہذیبی، تاریخی اور ادبی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامِل ہے۔ پنجاب ایک مشترکہ تہذیب و کلچر کی علامت ہے اور اس مشترکہ کلچر میں صوفیوں، سنتوں اور سِکھ گوروصاحبان نے اہم کردار نبھایا ہے جیسے بابا فرید، بُلھے شاہ، شاہ حسین وغیرہ یہ وہ صوفی بزرگ تھے جنھوں نے اپنے کلام میں وحدت، اخوت، بھائی چارگی، ہمدردی انسانیت جیسی عظیم صفات کا درس دیا۔سِکھ مذہب کی مقدس کتاب گورو گرنتھ صاحب میں جن شعراء کا کلام موجود ہے ان میں مسلمان بزرگ بابا فرید، ہندوسنت کبیر اور نامدیو بھی شامل ہیں۔یہ صوفی سنت، درویش گوروصاحبان سر زمینِ پنجاب میں اتنے ہر دلعزیز ہوئے کہ ان سب کے پیغامات پنجاب کی شناخت بن گئے۔عباداﷲ لکھتے ہیںکہ:

”گورو گرنتھ صاحب میں اُردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گورو  صاحبان اور وہ شعراء جن کا کلام اِس میںشامل ہے نے  اپنے  خیالات کی تبلیغ کے لئے اس زبان کا بھی سہار ا  لیا۔”٢

اس خطہ میں ہندو، مسلم،سِکھ، عیسائی سب بغیر مذہبِ ملت پنجاب کے مشترکہ کلچر کو آپسی رواداری اور بھائی چارگی کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔ اس مشترکہ کلچر کے مختلف عناصر میں قومی جذبہ حبُ الوطنی، جذبہِ ایثار و قربانی، ایک دوسرے کا احترام پنجاب اور پنجابیت کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر جسبیر سنگھ اہلووالیہ کہتے ہیں:

”سرزمینِ پنجاب کو گیان اور دھیان کی دھرتی کہا جاتا ہے۔یہاں کے منفرد کلچر یہاں کے گیت اور سنگیت  یہاں زندگی  کو جی بھر کے جینے کی خواہش اور یہاں چونکا دینے والی فکر و نظر پنجاب کے لئے ہی نہیں پورے ہندوستان کے لئے باعث فخر ہے۔”  ٣

اُردو اور پنجاب کا گہرا رشتہ شروع ے ہی رہا ہے۔اُردو کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے کلام میں اہلیان پنجاب کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔علا مہ اقبال بھی پنجاب کا ذکر گورو نانک دیو جی کے حوالے سے اس طرح کرتے ہیں:

 پھر اُٹھی  آخر صدا  توحید کی  پنجاب سے

ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا تھا خواب سے

پنجاب کے مشترکہ کلچر نے ہندوستان کو پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو زبان سے بھی مالا مال کیا۔ جس کے متعلق اکثر ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اُردو کی اصل جائے پیدائش پنجاب ہی ہے۔ پنجابی اور اُردو زبان میں کثیر الفاظ مشترکہ بھی پائے جاتے ہیں۔اُردو ہندوستان کی وہ قدیم زبان ہے جو نئے ہندآریائی دور میں شروع ہو کر پورے ملک میں پھلی پھولی ہے۔ ابتدا میں اِسے ہندوی ‘اور ہندی’ کے نام دیئے گئے لیکن اِس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اُردو زبان پنجاب میں پیدا ہوئی اور یہی جوان ہوئی اِس زبان کی ترویج و ترقی میں سب سے نمایاں خدمات پنجاب کے قلم کاروں کی رہیں ہیں۔پروفیسر محمود شیرانی کی معرکتہ الآرا کتاب ” پنجاب میں اُردو” اِس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔پروفیسر محمود شیرانی لکھتے ہیںکہ:

”اُردو اور پنجابی زبانوں کی ولادت گاہ ایک ہی مقام ہیدونوں نے ایک ہی جگہ تربیت پائی ہے  اور جب سیانیہوگئی  ہیں  تب  اِن  میں  جدائی  واقع  ہوتی ہے۔”٤

 اُردو چونکہ پنجاب میں پیدا ہوئی اِس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو پنجابی کے مماثل ہو یا اُس کی قریبی رشتہ دار ہو۔ بہر حال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوتے ہیں جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے بات کرسکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے۔پروفیسر محمود شیرانی لکھتے ہیںکہ:

”خضر خاں کی تمام فوج  پنجاب سے تعلق رکھتی تھی جس طرح کہ وہ خود پنجابی تھے اور جب  وہ بادشاہ بن گیا تو ظاہر ہے کہ دہلی کی  زبان  پر پنجاب کا ترمجدداً ہوگیا۔”٥

 پنجاب ہر میدان میں اپنی برتری منواتا رہا ہے۔ علم و ادب اور تہذیب کے ارتقاء میں بھی اس علاقہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ اُردو ادب کی تاریخ کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ارتقائی پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ پنجاب کے قلمکاروں کا ذکر کئے بغیر اُردو ادب کی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہوسکتی۔ پنجاب نے اُردو شاعری اور نثر کے حوالے سے اُردو ادب کو ایسے معتبر، معتمد شاعر اور ادیب عطا کئے جنھوں نے اُردو ادب کے حوالے سے مختلف اصناف میں گراں قدر کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اقبال، فیض، حفیظجالندھری، ساحر لدھیانوی وغیرہ ۔نثر کے حوالے سے الطاف حسین حالی،مولوی محمد حسین آزاد،شبلی نعمانی،سرسید احمد خاں،ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔علاوہ ازیں یہاں کے ادیبوں نے طنزو مزاح اور صحافت کے میدان میں معرکتہ الآرا کام انجام دیئے۔اس کے متعلق داکٹر ناشر نقوی لکھتے ہیں:

”اِس طرح جہاں پنجاب کی  سر زمین  یہاں کے لوگوں کے طرزِفکر اور طرزِ زندگی نے اُردو کے نقش و نگار بنانے اور انہیں سنوارنے میں  ایک اہم کردار ادا کیا  ہے وہاں  پنجاب کے اہل قلم نے اُردو ادب میں ان  گلابوں کی مہک  بھی سمودی ہے   جن   کی   خوشبو   میں  پنجاب  کی  مٹی   ہے۔”٦

پنجاب بیرونی حملہ آوروں کے لئے دروازے کا کام کرتا رہا۔آریائوں سے احمد شاہ ابدالی تک اکثر آنے والے اسی راستے سے ہندوستان داخل ہوئے ہیں۔ لہذا محمود غزنوی نے بھی پنجاب کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کے دوسرے صوبوں اور شہروں کو اپنا نشانہ بنایا۔صرف پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ١٩٤٧ء  ہندوستان کی تاریخ کا وہ عجیب و غریب سال ہے کہ جس نے راتوں رات اس ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی ۔ لوگ گھر سے بے گھر ہوگئے اور وہ زبان جو ہر خاص و عام بولتا تھا اور جس میں تمام سرکاری اور نیم سرکاری کام ہوتے تھے ،وہ غیر ملکی زبان قرار پائی۔١٩٤٧ء سے قبل پنجاب کا ماحول اُردو کے لئے نہایت ہی خوشگوار تھا۔ پنجاب اردو زبان کا و ادب کا اہم مرکز تھا۔اسکولوں اور کالجوں میں اس کا چلن تھا ۔یہ زبان روزگار سے وابسطہ تھی ۔ اُردو یہاں بولی،پڑھی،لکھی اور سمجھی جاتی تھی۔ اس زبان کو فرماروائوں کی سرپرستی حاصل تھی اور ریاستوں میں سرکاری سطح پر تمام کام اسی زبان میں ہوتے تھے۔مثلاً محکمئہ مال گزاری،انتظامی اور عدالتی کاروائی اسی زبان میں ہوتی تھی۔ساتھ ہی درباروں میں اس زبان کا کافی بول بالا تھا۔اُردو کی محفلیں سجتی تھیں،مشاعرے ہوتے تھے۔ شعراء ان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے اور اپنی تخلیقات کا جادو جگاتے تھے۔ڈاکٹر ستنام سِنگھ خمار رقمطراز ہیں :

”١٩٤٧ میں ہم نے  وطن کی آزادی کا استقبال  اپنی اندرونی شکست و ریخت سے کیا  تھا۔۔۔۔۔۔۔پنجاب کے  سینے  پر گہری  سرخ

لکیر تراش  دی گئی۔ہمارا مشترکہ کلچر سیاست کے مجنون  ہاتھیوں  کے بھاری قدموں کے نیچے  کچل کر رہ گیا۔ذہنوں کے  تعصب نے پنجاب کو کاٹ کر  پاکستان  بنا دیا ۔مہذب سماج کے  افراد مسلم  اور غیر مسلم بن کے ہجرت  اور نقل  مکانی کے  سیلاب میں  بہنے  لگے۔ پاکیزہ راستوں میں  دراڑیں آگئیں۔پنجاب کے مسلم  اور  غیر مسلم

 بھائیوں کے بیچ فاصلے  اور سرحدی  دیوار اُبھر  آئی  راوی،جہلم،ستلجاور  بیاس کی لہریں اب  پانی کے نہیں آنسوئوں  کے  دریالگنے لگے۔”٧

پنجاب ہندوستان کا سرحدی صوبہ ہے ظاہر ہے کہ ہندوستان کے شمال سے جتنے بھی حملہ آور یہاں پر باہر سے آتے ان کا پہلا پڑائو پنجاب ہی میں رہا۔ حملہ آوروں کے آنے اور آکر یہاں بس جانے کا سلسلہ ایک دو بار نہیں بلکہ صدیوں رہا ہے۔ باہر کے حملہ آوروں سے پنجاب کے لوگوں نے لڑائیاں لڑیں اور دلیری کے ثبوت دئے۔بیرونی حملہ آوروں پر پنجابیوں نے اپنی تہذیب کے نقوش بھی چھوڑے اور ان کی تہذیبوں سے بھی بہت کچھ حاصل کیا ۔معاشرے میں جب تبدیلی رونما ہوتی ہے تو نئے الفاظ بھی وجود میں آتے ہیں اور پرانی زبانوں کے بہت سے لفظ خارج بھی ہوجاتے ہیں۔محمود شیرانی رقمطراز ہیں :

”اُردو دہلی کی قدیم نہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ دہلی جاتی ہے اور  چونکہ مسلمان پنجاب سے ہجرت کرکے  جاتے ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ وہ پنجاب سے کوئی زبان اپنے ساتھلے کر گئے ہوں۔”  ٨

وہ مسلمان جو پنجاب میں داخل ہوئے۔ اور جنہوں نے جنگ و جدال سے الگ ہوکر اس دھرتی کو اپنا وطن بنایا اور انہوں نے مقامی پنجابیوں کے دلوں میں گھر کر لئے۔عوامی میل ملاپ بڑھا تو اظہار میں عمل حرکت پیدا ہونے لگا۔زبانوں اور معاشروں کے قریب آنے سے پنجاب میں ایک نئے معاشرے اور ایک نئی زبان کی تشکیل کا آغازہوا۔حقیقت یہ ہے کہ اُردو جس طرح ہندوستان کے اور صوبوں میں اسی طرح پنجاب میں برابر بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اُردو پنجاب میں پیدا ہوئی وہاں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ تقسیم ملک کے بعد اُردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا جبکہ زبانیں مذہبوں کی نہیں تہذیبوں کی علامت ہوتی ہیں۔بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم لکھتے ہیں :

جو گلی کوچوں سے چلی آئی تھی ایوانوں تک

جس کی آواز پہنچ جاتی تھی  انسانوں تک

کیا گلہ تم کو  اس اُردو سے  ہے بولو ہمدم

یہ جو محدود ہوتی  جائے مسلمانوں  تک

(بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم)

پنجاب کے مزاج میں مہمان نوازی کا عنصر ہمیشہ نمایاں رہاہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد تک زبانوں اور تہذیبوں کے جذب و قبول سے پنجاب گزرتا رہاہے۔ظاہر ہے کہ شروع سے یہاں مختلف اور مخلوط زبانیں بولی جاتی رہی ہیں۔ مختلف زبانوں اور بولیوں کے بولنے کا سلسلہ یہاں آج بھی جاری ہے پھر بھی پنجاب میں قومی زبان ہندی اور سرکاری زبان پنجابی ہے۔پنجاب میں مسلمانوں کی آمد سے سِکھ مذہب کے دس گوروئوں کے دور تک اور پھر برطانوی حکومت سے تقسیم درتقسیم کے ادوار اور موجودہ عہد تک جب ہم پنجاب اور اُردو کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتے ہیں تو اُردو کی ہر ترقی پسند تحریک کے روشن تانے بانے پنجاب ہی مربوط نظر آتا ہے۔ اُردو نے پنجاب کی تہذیب یہاں کے رسم و رواج، یہاں کے عوامی مزاج ان کی متنوع زندگی کی ترجمانی بھی کی ہے۔دوسرے لفظوں میں پنجاب کے جوہر ایک طرف توخود کو پنجابی زبان میں اور دوسری طرف اُردو زبان میں منعکس کیا ہے۔آزاد گلاٹی کچھ اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:

”سچ تو یہ ہے کہ پنجاب اپنی تمام ترثقافتی توانائی اور برنائی کے ساتھ اُردو کی  رگ رگ  میں جاری و ساری ہے۔”٩

اُردو زبان و ادب اور اس کا لب و لہجہ ہر آدمی کی شخصیت کو نکھار دیتا ہے۔گفتگو میں دلکشی پیدا کر دیتاہے ۔اُردو زبان دنیا کی بہترین زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔پنجاب اور اُردو کا ماں اور بیٹی کا رشتہ ہے ۔اُردو زبان و ادب کی ترقی میں پنجاب کا بھی ایک اہم اور نمایاں رول رہاہے۔اس صوبے میں اُردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ خاصی تعداد میں اُردو کے شاعراور ادیب موجود ہیں۔ ہندوستان کے بڑے شاعروں اور ادیبوں کا تعلق بھی اس صوبے سے رہا ہے۔اس کی آب و ہوا نے شاعروں اور ادیبوں کے کلام کو تازگی اور توانائی بخشی ہے۔ آج بھی بہت سے شاعر ،ادیب ایسے ہیں جن کا تعلق پنجاب سے بنا ہوا ہے۔پنجاب شروع ہی سے اُردو شعر و ادب کا مرکز رہا ہے۔ یہ ادیبوں، شاعروں، مصّنفوں ،فنکاروں اور دانشوروں اوراربابِ ذوق کا صوبہ رہا ہے۔ اگر پنجاب میں موجودہ زمانے میں اُردو تعلیم کی بات کریںتو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ پنجاب میں اسکولی سطح سے یونیورسٹی سطح تک طلبا کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔اُردو کی اس موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہمیں خوش ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیئے بلکہ ہم کو اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے۔ہم نے یہ سوچنا ہے کہ اُردو کو روزگار کے ساتھ کیسے جوڑا جائے۔ہمیں نئی نسل کو اُردو سکھانے پڑھانے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی سے مزین طریقے اپنانے ہوں گے۔ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ نئی نسل کیا چاہتی ہے؟

حوالے:

١۔ ڈاکٹر ناشر نقوی، اُردو پنجاب اور سِکھ شعرائ،پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ  ١٩٩٩ئ،ص۔٢٧

 ٢۔گیانی عباد اﷲ،گورو گرنتھ صاب اور اُردو، مرکزی اُردو بورڈ،لاہور  ١٩٦٦ئ،ص۔٧٢

٣۔ ڈاکٹر جسبیر سنگھ اہلووالیہ، اُردو پنجاب اور سِکھ شعرائ،پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ  ١٩٩٩ ئ،ص ۔٥

٤۔ پروفیسر محمود شیرانی، پنجاب میں اُردو،نسیم بُک ڈپو،لاٹوس روڈ،لکھنئو  ١٩٨١ء ،ص۔٩٩

٥۔پروفیسر محمود شیرانی ،پنجاب میں اُردو،نسیم بُک ڈپو، لاٹوس روڈ، لکھنئو  ١٩٨١ئ،ص۔٧٥

٦۔ڈاکٹر ناشر نقوی، اُردو پنجاب اور سِکھ شعرائ،پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ  ١٩٩٩ء ،ص۔٥٤

٧۔ ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار،اُردو پنجاب اور سِکھ شعرائ،پنجابی یونیورسٹی ،پٹیالہ  ١٩٩٩ء ،ص۔١١

٨۔پروفیسر محمود شیرانی،پنجاب میں اُردو،نسیم بُک ڈپو،لاٹوس روڈ،لکھنئو  ١٩٨١ء ،ص۔١٩

٩۔ آزاد گلاٹی، اذکار ، طالب سہارنپور  ١٩٨٧ئ،ص۔٥٤

٭٭٭

Leave a Reply

1 Comment on "اُردو اور پنجاب کا باہمی رشتہ       "

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 143.     اُردو اور پنجاب کا باہمی رشتہ        […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.