پریم چند کے خطوط:ایک تنقیدی نظر
مدن گوپال نے کلیات پریم چند کی جلد سترہ میں پریم چند کے تمام خطوط کو یکجا کیا ہے۔ دیباچے میں ان تمام مشکلات کا تذکرہ بھی کیا ہے جو ان خطوط کو یکجا کرنے کے لیے اٹھانی پڑیں۔یہ خطوط دیانرائن نگم،جینندر کمار،امتیاز علی تاج اور بنارسی داس چتر ویدی وغیرہ کے نام ہیں۔بعض خطوط میں دلچسپ واقعات اور جملے بھی تحریر کیے ہیں۔ جیسے فراق کے بارے میں کہ جب خطوط کے حوالے سے ان کو تحریر کیا تو جواب ملا کہ کس کو معلوم تھا کمبخت آگے چل کر اتنی مقبولیت حاصل کرے گا اور اس کے خطوط کو اتنی اہمیت حاصل ہو جائے گی(١)۔
بیشمار راز دار جن میں پریم چند کی اولاد اور بیوہ شامل ہے، ان کے خطوط کو سنبھال کر نہ رکھ سکے۔ پریم چند کے سوتیلے بھائی نے اس وجہ سے خطوط نہ دیے کہ وہ بھائی صاحب کو مورتی کی طرح پوجتے تھے مگر ان خطوط میں بھائی صاحب کا مقام گر گیا ہے۔بہت منت سماجت کے بعد خط دیے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پریم چند تاریخ، مہینہ اور سال میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور چھوڑ جاتے تھے(٢)۔ اس لیے خطوط کو ترتیب دینا اور مشکل ہو گیا۔یہ ترتیب ١٩٠٥ء سے ١٩٣٦ء تک کی ہے اور یہ سارے خطوط دیانرائن نگم کے بیٹے سمن کے پاس تھے اور زلزلے میں ان کا مکان گر گیا ۔خوش قسمتی سے تمام خطوط زمانی ترتیب سے گرے ہوئے مکان سے مل گے۔مدن گوپال لکھتے ہیں کہ سوانح لکھنے میں ان خطوط سے اتنی مدد ملی ہے ۔ یہ میرے کہنے کی چیز نہیں پڑھنے والے خود دیکھ لیں گے(٣)۔امرت رائے نے ان سارے خطوط کو دو حصوں میں شائع کیا ۔یہ کتاب ١٩٦٢ء میں’ ہنس پرکاشن ‘سے شائع ہوئی۔
دوسرے مجموعے میں وہ خطوط بھی شامل کیے جو کچھ ادیبوں نے پریم چند کو لکھے تھے۔ مدن گوپال کا مجموعہ ‘پریم چند کے خطوط ‘کے عنوان سے ١٩٦٦ء میں مکتبہ جامعہ نے شائع کیا۔ان تینوں کتابوں کی اشاعت کے بعد کچھ اور خطوط بھی ملے ۔ان سب کو مدن گوپال نے جلد سترہ میں شامل کیا ہے۔ان خطوط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند اپنے بچوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہ تھے۔ اور وہ ان کو کاروبار میں لگانا چاہتے تھے تاکہ دولت پیدا کر سکیں(٤)۔ ٢٢ جولائی ١٩٢٤ء کے خط بنام دیانرائن نگم میں اپنے ڈرامہ’ کربلا’ کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو شیعہ حضرات نے اٹھائے تھے۔
پریم چند کا اظہار تھا کہ انہوں نے ہندو مسلم ایکتا کے لیے یہ ڈرامہ صرف پڑھنے کے لیے لکھا تھا، سٹیج پر کھیلنے کے لیے نہیں۔شری واستو کے نام ٤ اپریل ١٩٢٨ء کے ہندی خط میں عورت کے بارے میں پریم چند کے خیالات سامنے آتے ہیں۔اس خط میں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کو دیکھ لے۔ پردے کے قائل نہیں لیکن سماج کے قائل ہیں۔اور سماج میں لڑکے لڑکی کا ملنا معیوب ہے۔البتہ فوٹو کے ذریعے یا بہن بھائیوں کے ذریعے لڑکی کو دیکھا جا سکتا ہے۔لڑکیوں کے لیے موجودہ سکولی تعلیم کو اچھا نہیں جانتے۔ان کا کہنا ہے کہ ضرورت کی حد تک لڑکی انگریزی جانتی ہو، ہندی ادب کا شعور ہو، سلائی کڑھائی کر سکتی ہو۔ کھانا اچھا بنا سکتی ہو۔ جہیز کے قائل نہیں۔ تاہم بیٹی کے نام ایک معقول رقم بنک میں رکھنے کے قائل ہیں(٥)۔زیادہ تر خطوط دیانرائن نگم کے نام ہیں۔ اور ان میں افسانوں اور ناولوں کا حساب کتاب ہی ہے کہ کبھی دام ملے ہیں، کبھی کم ملے اور کبھی زیادہ۔پڑھے لکھے طبقے سے مایوس ہیں ان کے نزدیک دو فیصد انگریزی خواں اصحاب اگر تحریک آزادی کے ساتھ ہیں تو ٩٨ فیصد اس کے مخالف ہیں۔ یہ لوگ سرکار کے آدمی ہیں، قوم کے نہیں۔غیر انگریزی دان کاروباری اور پیشہ ور طبقوں ہی نے اس تحریک میں جان ڈالی ہے۔
اکثر خطوط اس بارے میں لکھے ہیں کہ کہانیوں کو کہاں، کیسے اور کس طرح سے چھپوایا جائے۔ بنارسی داس کے نام ٣ جون ١٩٣٠ء کا ہندی خط اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں اپنے بارے میں تفصیل دی ہے۔جس کے مطابق آپ نے ١٩٠٧ء میں لکھنا شروع کیا۔’ سوز وطن’ ١٩٠٧ء میں’ زمانہ’ پریس سے نکلا۔ آپ کی پسندیدہ کہانیوں میں بڑے گھر کی بیٹی،رانی سارندھا،نمک کا داروغہ، سوت، آبھوشن، پرائسچت،مندر اور مسجد، گھاس والی،مہاتیرتھ،ستیہ گرہ،ستی،لیلیٰ اور منتر شامل ہیں۔ پریم چند کا اظہار ہے کہ ان کے اسلوب پر کسی لیکھک کا اثر نہیں تاہم سرشار اور ڈاکٹر رویندر ناتھ ٹھاکر کا اثر پڑا ہے۔ اس خط میں بھی آمدن کا رونا رویا ہے کہ کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ہم سوراجیہ سنگرام میں جی رہے ہیں۔دھن کی لالسا نہیں، کھانے کو مل جاتا ہے،موٹر اور بنگلے کی ہوس نہیں۔ اولاد کے بارے میں وہ چاہتے تھے کہ وہ ایماندار، سچے اور پکے ارادے کے پرش بنیں۔ خوش آمدی نہ ہوں اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ شانتی سے بیٹھنا نہیں چاہتا۔ سچ اور وطن کے لیے کچھ کرتے رہنا چاہتا ہوں۔ ہاں روٹی دال اور تولہ بھر گھی اور معمولی کپڑے میسر ہوتے رہیں تو اچھا ہے(٦)۔
مانک لال جوشی کے نام ٢٠ دسمبر ١٩٣٣ء میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ اپن یاس سمراٹ کا لقب نہیں جوڑا۔ مجھے اس سے نفرت ہے میں موازنے پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ یہ غیر منصفانہ اورناگوار ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق دنیا کے تمام بڑے ناول سماجی مقصد کے تحت لکھے گئے ہیں جیسے ٹالسٹائی کا ناول ‘وار اینڈ پیس’۔ ناول نگار کے لیے کرداروں کے ارتقاء کی اہمیت ہے ۔اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندی کے کچھ اخبار پریم چند کے خلاف تھے۔اس لیے بڑے دکھ سے لکھا کہ ادبی حلقہ بھی ذاتی تعصبات کا شکار ہو گیا ہے۔یہاں بھی پارٹیاں اور گروہ بندیاں ہیں(٧)۔ بنارسی داس ہی کے نام ١٨ جنوری ١٩٣٤ء کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ پریم چند جیسے روشن خیال تخلیق کار کو بھی لوگ فرسودہ قسم کا آدمی جانتے ہوئے مزید نہ لکھنے کا مشورہ دے رہے تھے۔٤ جون ١٩٣٤ء کو اپنی پتنی کے نام ان کے خط سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پریم چند کو اپنے پریوار سے کتنی محبت تھی۔ میں نے مکان نہیں لیا ہے۔ مکان لے لوں گا تو وہ سونا گھر مجھے اور کھانے کو دوڑے گا ۔ میرا منورنجن تو بچوں سے ہو سکتا ہے اور گھر سے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ گھر سے دور کیسے رہ لیتے ہیں مجھے تو یہ مہینہ ڈیڈھ مہینہ یاد کر کے میری نانی مرتی ہے(٨)۔
١٥ جون١٩٣٥ء کا دیانرائن نگم کے نام خط میں تحریر کرتے ہیں کہ میں تعلیم یافتہ لڑکوں کی جانب سے بدگمان ہوں۔ لڑکیاں گرہستی کا پالن کرتی تھیں تو چلتا تھا۔ اب دونوں یونیورسٹی جا کر تباہ ہوئے۔بد مزاجی، بدتمیزی، کج خلقی لڑکیوں نے اپنے بھائیوں سے سیکھ لیں۔ میں انہیں دوش نہیں ٹھہراتا۔ ایک طرف یہ صدا ہے کہ انہیں شوہروں سے اقتصادی آزادی چاہیے :خیر جی ہم لوگ تو چند دن کے اور مہمان ہیں دنیا اپنی رفتار جائے گی(٩)۔اندر ناتھ مدان کے نام اپنے بارے میں مزید تحریر کرتے ہیں کہ ٨ سال کا تھا ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔پہلا مضمون ١٩٠١ء میں چھپا اور پہلی کتاب ١٩٠٣ء میں منظر عام پر آئی۔ ١٩١٤ء میں میرے افسانوں کا دوسروں نے ترجمہ کیا اور وہ ہندی رسالوں میں شائع ہوا۔ زندگی میں کسی عورت سے عشق نہیں رہا۔
میری نظر میں عورت کا آدرش ایثار خدمت اور پاک دامنی کا عکاس ہونا چاہیے۔میری شادی شدہ زندگی رومان سے قطعی بے بہرہ تھی۔ ١٩٠٤ء میں پہلی بیوی انتقال کر گئی جس کے بعد ایک بال ودھوا سے شادی کر لی ۔زندگی میرے لیے مسلسل کام ہے۔ مالی لحاظ سے ناکام رہا ہوں ۔کبھی صحافی نہیں رہا۔لیکن حالات نے صحافی بننے پر مجبور کر دیا۔ ادب میں جو کچھ کمایا اخبار نویسی میں کھو دیا۔افسانوی کردار کے محاسن کے اظہار کے لیے میں ہمیشہ افسانوں کے پلاٹ سوچتا ہوں۔ افسانوں کی بناء ہمیشہ نفسیاتی ہوتی ہے۔میرے اکثر کردار حقیقی زندگی سے لیے گئے ہیں، اگرچہ ان کی اصلیت پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ جب تک کردار کی بنیاد حقیقت پر مبنی نہ ہو وہ غیر حقیقی ،غیر یقینی اور ناقابل اعتبار ہوتا ہے۔رومین رولاں کی طرح باقاعدگی سے کام کرنے میں یقین رکھتا ہوں(١٠)۔
دیانرائن نگم کو تحریر کرتے ہیںکہ ادب کا موضوع ہے تہذیب، اخلاق ،مشاہدہ ، انکشاف حقائق اور واردات و کیفیات قلب کااظہار۔ جو شاعری حسن و عشق کوپالتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس کا ورد کریں( ١١)۔پریم چند کو مشہور ہونے کا بہت شوق تھا۔ اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ دن گزرتے جاتے ہیں اگر کتاب اس وقت نکلی (پریم پچیسی) جب لوگوں کو خیال بھی نہ رہے گا کہ پریم چند کون ہے تو اس کے نکلنے سے کیا فائدہ(١٢)۔خطوط ہی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پریم چند اپنے اسلوب کے بارہ میں بھی پریشان رہتے تھے ان کا کوئی خاص اسلوب نہ تھا۔کبھی وہ بنکم کی نقل کرتے تو کبھی آزاد کے پیچھے چلتے۔ٹالسٹائی سے بھی متاثر تھے اور اسے اپنی کمزوری سمجھتے تھے(١٣)۔
پریم چند ایک طرف زمیندار کے دشمن تھے تودوسری طرف خود اسامیوں کو سودپر قرض دیتے تھے اوراس سود کی شرح ١٨فیصدتک تھی(١٤)۔ معاشی مسائل کا شکار رہے اور جب یہ معاشی مسئلہ بڑھنے لگا تو ہندی میں لکھنا شروع کیالیکن غصہ اردو دان طبقے پر اتاراکہ اردو میں اب گزر نہیں ہے ۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ بال مگند گپت کی طرح ہندی لکھنے میں زندگی صرف کر دوں گا۔اردو نویسی میں کس ہندو کو فیض ہواجو مجھے ہو گا(١٥)۔یعنی اگر کتابیں نہ بکیں اور کہانیوں کے چاہنے والے نہ ملیں تو گردن زدنی مسلمان ہی ٹھہریں گئے ۔
پریم چند کسی ایشور پر یقین نہ رکھتے تھے۔ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ موت کی فکر مارے ڈالتی ہے، اتنا چاہتا ہوں کہ پرماتما پر بھروسہ رکھوں مگر دل موذی ہے، سمجھتا نہیں۔کسی مہاتما کی صحبت ملے تو شاید راستے پر آئے(١٦)۔پریم چند جمہوریت پسندنہ تھے۔ اختیارات کے معاملے میں بالشویک اصولوں کے قائل تھے(١٧)۔انہیں اس بات کا بھی افسوس رہا کہ اگر اوائل عمر میں تعلیم مکمل کی ہوتی تو یہ کسم پرسی کی حالت نہ ہوتی(١٨)۔پریم چند کوادب میں زنانہ پن پسند نہیں تھا ۔ ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ میں ادب کو masculine دیکھنا چاہتا ہوں۔Feminism خواہ وہ کسی صورت میںہو مجھے پسند نہیں اسی لیے مجھے ٹیگور کی اکثر نظمیں نہیں بہاتیں۔اشعار بھی مجھے وہی اپیل کرتے ہیں جن میں جدت ہو۔غالب کے رنگ کا تو میں عاشق ہوں(١٩)۔
پریم چندکے انہی خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ ملازمت سے ان کا استعفیٰ ١٥ فروری ١٩٢١ء کو منظور ہوا(٢٠)۔پریم چند کو اس بات کا ادراک تھا کہ ان کی کہانیوں کا لطف اردو زبان میں زیادہ ہے کیونکہ اردو زبان نکھری ہوئی اور لوچ دار ہے(٢١)۔ہندوستان میں ادب، ادیب اور ادبی زندگی کی حالت زار پر پریم چند دلبرداشتہ رہتے تھے۔ان کے نزدیک اس ملک میں مقامی جنتاادیبوں کی عوام حوصلہ افزائی نہیں کرتی ۔گھٹیا کتابیں تو بک جاتی ہیں کیونکہ پڑھا لکھا روشن خیال طبقہ یورپی ادب پر جان دیتا ہے۔اس حالت میں اردو کتابوں کی طرف کون آئے گا۔کسان تو غریب اور ان پڑھ ہے (٢٢)۔
پریم چند کے نزدیک آزاد ملک کا ادب آزاد اور غلام ملک کا ادب غلام ہوتا ہے۔ہندوستان جب تک آزاد نہیں ہوتا آرٹ بلند پرواز نہیں ہوسکتا۔لوگوں کوتعلیم اور شعور دے کر جذبات کا رخ پھیرا جا سکتا ہے۔ہندوستانیوں کے مسئلے کا حل مکمل آزاد ی ہے اور یہ آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوسکتی۔کیونکہ من حیث القوم ہمارے اندر کردار کی کمی ہے (٢٣)۔پریم چند نے ہندوستانی فلم انڈسٹری پر بھی اپنے خطوط میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے نزدیک سینما کی اصلاح ممکن نہیں کیونکہ استحصالی ٹولہ ایک منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کا مذاق تبدیل کر رہا ہے۔پریم چند پرتاثیر الفاظ کے استعمال کے قائل تھے اور اس سلسلہ میں وہ کسی زبان کا تعصب نہ رکھتے تھے۔ زبان خواہ اردو ہو، ہندی، عربی یا فارسی۔دیکھنا چاہیے کہ خیالات کا تسلسل اور تحریر کی روانی قائم رہے(٢٤)۔
ایک خط سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پریم چند اپریل ١٩٣٥ء تک اپنے آپ کو اردو زبان کا ہی تخلیق کار سمجھتے تھے اور ہندوستانی زبان کی تحریک میں اردو اور ہندی دونوں کو شریک دیکھنا چاہتے تھے۔تاہم اپنے خیالات اردو والوں کے سامنے پیش کرتے تھے(٢٥)۔مذہب بیزاری اور کسی دوسری دنیا پر اعتبار، یہ پریم چند کے مزاج کے خلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری دنیا پر اعتقاد انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتا ہے(٢٦)۔پریم چندتحریرکرتے ہیں کہ بڑے بڑے ادیب کسی زبان یا ملک کی ملکیت نہیں ہوتے۔جب ہم لوگ ایک راشٹرکے روپ میں ہیں تب ہم کو بنکم کا بھی اتناہی احترام کرناچاہیے جتناجوش یا اقبال کا(٢٧)۔
پریم چندہندی زبان وادب کے لیے کتنادرددل رکھتے تھے،چترویدی کے نام تحریرکرتے ہیں کہ ‘ہندی کے پہلے اخبار’وشال بھارت’ کی ناکامی کا سن کردل خون کے آنسورویا۔کاش اردو ادب کے قارئین کی طرح ہندی والے بھی ادب کی قدرکرتے۔ہندی شاعرابھی تک انفرادی اور جذباتی ہے۔اس میں تڑپ اور زندگی نہیں۔جانے کیوں شاعروں پر یاسیت کا عالم طاری ہے جبکہ اردو شعراء کا رویہ حقیقت پسندانہ اور فلسفیانہ ہے۔ان کے شعراء قوم کو اخوت،مساوات اور جمہوریت کے اصولوں کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔اقبال جیسے شاعرکو بھی پریم چند نے کمیونسٹ لکھا(٢٨)۔پریم چند ہندوستانی زبان کے قائل تھے جس میں ہندی اور اردو دونوں شامل ہوں۔مولوی عبدالحق کے نام تحریر کیا کہ اگراردوداں طبقہ ساتھ دیتا ہے تو پریشد کی زبان ہندستانی بنے گی اور وہ اگر الگ ہوجاتا ہے تو ہندی ہندستانی بنے گی(٢٩)۔ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔
پریم چند دیوی دیوتائوں کی پوجا کے خلاف تھے۔رسوماتی مذہب کی انھوں نے مذمت کی۔بنارسی داس کے نام تحریر کرتے ہیں کہ ہنومان جی کو ایشور مت نبائو۔بندروالی گھٹنا سب خرافات۔کیاتلسی بھگت لوگ میری کافروں جیسی بات پسند کریں گے(٣٠)۔ہندی والوں کے رویے سے پریم چند نالاں رہتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پتروں کا جواب اردو والے تو دیتے لیکن ہندی والے نہیں(٣١)۔پریم چند نے اپنے خطوط میں بھی ہندستانی زبان لکھنے کی کوشش کی ہے۔عام طورپرخط کو داخلی کیفیت کاآئینہ دارکہاگیاہے۔اس میں مکتوب نگاراندرکاسچ لکھتاہے۔پریم چندنے اردو،ہندی،عربی،فارسی اور سنسکرت کے الفاظ مناسب تعدادمیں استعمال کیے ہیں ۔جیسے ولی کھنگڑ،مہاشے اور مہیلا زیادہ اجنبی نہیں لگتے۔تاہم عربی کے الفاظ دقیق استعمال کیے ہیں مثلاًمع الخیر،متہم اورمعہودوغیرہ۔فارسی اور ہندی کا خوب صورت امتزاج مرکب الفاظ کی صورت میں پیش کیا ہے جیسے سہ آنند،سہ کاری اور سہ یوگی۔مقامی الفاظ کو فارسی کے ساتھ بھی مہارت سے استعمال کیا ہے جیسے بنے اور بنی کو خانہ آبادی مبارک۔
حوالہ جات
١۔مدن گوپال(مرتب)،’پیش لفظ’،”کلیات پریم چند17”،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،٢٠٠٣ئ،صix
٢۔ایضاً،ص x
٣۔ایضاً،ص xi
٤۔پریم چند،’خطوط پریم چند’،مشمولہ ،مدن گوپال(مرتب)”کلیات پریم چند17”،دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،٢٠٠٣ئ،ص ٢٤٤
٥۔ایضاً،ص ص ٣٠٩تا ٣١٠
٦۔ایضاً،ص ص ٣٦٣ تا ٣٦٥
٧۔ایضاً،ص ٤٨٤
٨۔ایضاً،ص ٥٠٢
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "پریم چند کے خطوط:ایک تنقیدی نظر"
[…] پریم چند کے خطوط:ایک تنقیدی نظر […]