ترقی پسند تنقید اوراردوفکشن
ترقی پسندتحریک سے قبل اردومیں مختصرافسانہ نگاری کے دوواضح میلانات ملتے ہیں ایک حقیقت نگاری اور اصلاح پسندی کاجس کی قیادت پریم چندکررہے تھے اوردوسرارومانیت اورتخیل پرستی کاجس کی نمائندگی سجادحیدریلدرم اور نیازفتح پوری کررہے تھے ۔ پریم چندکواردوافسانہ نگاری کابانی کہاجاتاہے جن کی تربیت داستانوں کے ماحول میں ہوئی ۔ جیساکہ خودانھوںنے ایک خط میں لکھاکہ” طلسم ہوش ربا”کے مطالعے نے ان کے اندرچھپی تخلیقی صلاحیتوں کوجگایا لیکن حقیقت نگاری کارجحان ان کے یہاں شرت چندرچٹرجی کے بنگالی افسانوں اورروس کے عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کے مطالعے سے آیااوراس طرح سے اردومیں پہلی بارپریم چندکے ذریعے افسانہ نگاری کی بنیاد پڑی ۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کادوراصل میں ہندوستان میں قومی بیداری کادورہے ۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں ان کے افسانوں کووقت کی رہنمائی اوررفاقت ملی ۔ وہ بہت جلدفروغ پاگئے ۔وہیں دوسری جگہ رومانی ادیب جن کے افسانے اپنے طرزانشا، اپنی خواب آورکیفیات اورآلام حیات کے گردحسین دنیائوں کی تخلیق کے لحاظ سے بے مثال تھے، بہت جلدبے وقت کی راگنی معلوم ہونے لگے ۔ لیکن پریم چندکی افسانہ نگاری کایہ پہلوبھی قابل غورہے کہ ان کے مختصرافسانوں پرداستانوں کاکافی اثر رہا۔ داستانوں کے برخلاف ان کے کردارحقیقی ہیں۔
اردوفکشن کے بعض نقادوں نے دبے لفظوں میں ترقی پسندتحریک کی بے لگام حقیقت نگاری کی مخالفت کی اور افسانے کافرائڈکے غلط نظریات کاشکارہوجاناغلط قراردیانہ صرف ماضی کی کلاسیکی روایت پرزوردیابلکہ فن پارے کے فن کواولیت دی اورایسے فن کاروں کوجاہل اورکج رووی کاشکاربتایاجن کے فن پارے اپنے فن پرکھرے نہیں اترتے تھے ۔
کسی بھی ناول نگارکے لیے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ موادکوصحیح طریقے سے پیش کردے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان وساخت پرخاص دھیان دے ۔اگرکوئی تخلیق ادراک حقیقت میں ٹھیک ہولیکن زبان کے حسن اورحسیاتی روپ سے خالی ہوتواسے ادبی تخلیق کادرجہ نہیں دیاجاسکتا۔ کسی بات کوصرف مضمون کی صورت میں یا مکالماتی اندازمیں ٹھیک طرح پیش کردینے کانام ناول نہیں ۔
اردوادب کے بعض ایسے بھی فکشن نگارتھے جنھوں نے حقیقت کے چکرمیں ترقی پسندتحریک کوایک انقلاب کا نام دے کراسے عشقیہ شاعری کویک دم مستردکردیا۔بجائے اس کے کہ اس سے مستفیدہوتے اسے بے کاراورنقصان دہ قراردیتے ۔ظاہرہے کہ ہم اس عظیم انسانی ورثے کومستردنہیں کرسکتے اورنہ ہی ہم اپنے ادب کوبے حس،نامکمل اورمجہول رکھنے پرقناعت کرسکتے ہیں ۔
اخترحسین رائے پوری نے پریم چندکے اشتراکی زمانے کوقلم بندکیاہے ۔پریم چندان چندمشہورومعروف فکشن نگاروںمیںسے ہیں جنھوںنے اپنی تخلیقات کے ذریعے اردوفکشن کے جہان میں اضافہ کیا۔اردوفکشن کوایک نئی سمت عطاکی ،اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف اردوفکشن میں بلکہ پورے اردوادب میں ایک انقلاب برپاکردیا۔یہ وہ زمانہ تھاجس میں آرٹ کے بجائے صرف موادپرزوردیاجاتاتھا۔ دبے کچلے لوگوںکے مسائل کے بیان کوہی ادب سمجھاجاتاتھا۔ ایسے وقت میں بھی پریم چندنے اپنی تخلیقات میں آرٹ کوبرتا۔ چونکہ پریم چندایک ایسے ادبی تحریک سے وابستہ تھے جس میں فن کے بجائے موادپرزیادہ زوردیاجاتاتھا۔جسے ہم ترقی پسندتحریک کے نا م سے جانتے ہیں ۔ترقی پسندتحریک کے مصنفین میں پریم چندکی یہ انفرادیت تھی کہ وہ فن کواولیت دیتے تھے ۔جسے اخترحسین رائے پوری نے پریم چندکے آرٹ کاانقلاب کانام دیاہے ۔
اردوکے ممتازنقادمجنوں گورکھپوری جیسے لوگ بھی اردوفکشن کی تنقیدمیں کچھ اضافہ نہ کرسکے ،حیرت کی بات تویہ ہے کہ انھوںنے عصمت چغتائی کے علاوہ کسی اورکواس قابل سمجھاہی نہیں کہ ان کی تحریروں پرکچھ لکھاجائے ۔ افسانوی تنقیدکے نام پرجوان کی تحریرہمیں دیکھنے کوملتی ہے وہ ہے ”پردیسی کے خطوط”جسے ہم نیم افسانوی تنقیدہی کہہ سکتے ہیں ۔ جودلچسپ ہونے کے باوجوداس وزن ووقاراورتجزیاتی نظرسے خالی ہیں جس کی مجنوں سے اورزیادہ توقع تھی ۔
اس مضمون کے ذریعے احتشام حسین یہ بتلاناچاہتے ہیںکہ دراصل آزاداورخوجی ایک ہی کرداکے دومختلف پہلوہیں ۔جس کوآزادنے دوکرداروں کی صورت میں پیش کیاجب کردارکوخوب سنواردیاجاتاہے تووہ آزاد بن جاتاہے اورجب اسی کردارکوبگاڑدیاجاتاہے تووہ خوجی بن جاتاہے ۔غرض یہ کہ دونوں ایک سکے کے دورخ ہیں جس کے بغیر ایک دوسرے کے وجود کاکوئی تصورنہیں ۔ خوجی اورآذاددونوںمل کر ایک مکمل تصویربناتے ہیں ۔
پریم چندکا اپنے آخری زمانے میں ترقی پسندتحریک کی طرف مائل ہونانہ صرف ترقی پسندافسانہ نگاروں کے لیے خوش قسمتی کی بات تھی بلکہ آج کے نوجوان اورمشہورافسانہ نگاروں کے لیے مشعل راہ تھی ۔پریم چندکے ترقی پسندافسانوں نے افسانے کووہ ہمت عطاکی جس نے ترقی پسندادب کو سب سے کامیاب ادب بنایا۔عزیزاحمدنے قاضی عبدالغفار کا ”لیلیٰ کے خطوط”کوپہلاترقی پسندناول کہاہے اوراحمدعلی کے”انگارے ”میں شائع ہونے والے افسانوں کے بارے میں کہاہے کہ وہ ترقی پسندتحریک اورترقی پسندکی تعمیرکے ابتدائی دورکے افسانے ہیں اس لیے اگرترتیب یاتکنیک میں کچھ خامیاں ہیں یافنی توازن پراثرپڑتاہے ۔تویہ سب قابل معافی ہیں ۔
عزیزاحمد،اپندرناتھ اشک کے ترقی پسندنظریات کاجائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اپندرناتھ اشک کے نزدیک ترقی پسندی کامفہوم بلنداوروسیع ہے جس کااظہاراپندرناتھ اشک نے خودکیاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ترقی پسندی مجھے مرغوب ہے ۔ لیکن وہ اس بات کابھی اعتراف کرتے ہیں کہ افسانے میں ترقی پسندی کسی مزدوریاکسان یابیسوایاکسی دوسرے پسماندہ کاقدرے عریاں نقشہ پیش کردینے تک محدودنہیں اورنہ ہی افسانے دوچاردیدہ ودانستہ لکھی ہوئی گالیاں یاکراہیت پیداکرنے والے مناظرکاذکراسے ترقی پسندبناتاہے ۔
اردوفکشن کے ترقی پسندنقادعزیزاحمدکااردوفکشن کے اہم مصنف کرشن چندکے بارے میں خیال ہے کہ ترقی پسندادیبوں میں اگرکسی کانام لائق توصیف اورعزت کامستحق ہے تووہ کرشن چندرکا۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے یہاں بے لوث خلوص انسانیت ہے جوکہ ان کی ہرتحریرسے جھلکتا ہے ۔حقیقت تویہ ہے کہ اسی پران کے تخیل اورفن کی بنیاد ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ترقی پسندی دلوں میں اترکراپناکام کرتی ہے ۔ کبھی دل آزاری نہیں کرتی ۔
عزیزاحمدکی تنقیدمیں سب سے بڑی خوبی یہ کہ وہ فکشن نگارکے مثبت اورمنفی دونوں پہلوئوں کواجاگرکرتے ہیں اس کے علاوہ موضوع اورفن کی سخت گرفت کرتے ہیں ۔بیدی کے افسانوں سے متعلق لکھتے ہیں کہ بیدی کے افسانوں میں زندگی کی تلخی اوراس کی مصیبتوں کے ساتھ تھوڑاسالطف بھی ہے ۔ اس لطف کی خوبی یہ ہے کہ مصائب میں بھی ہلکی سی روشنی پیداکردیتاہے ۔اس لطف کی ایک خاص خوبی اوریہ ہے کہ یہ لطف محبت اورہمدردی کاہے ۔ بیدی کے افسانوں میں طنزہوتاہے لیکن ظرافت یاہنسی بالکل نہیں ۔طنزچبھتاہواسخت اورناخوشگوارہوتاہے ۔اس کے علاوہ زبان کی غلطیاں بھی ہیں لیکن یہ تمام غلطیاں ان کے محاسن کے آگے ہیچ معلوم ہوتی ہیں ۔
علی عباس حسینی اردوفکشن کے اہم فکشن نگاروں میں سے ہیں ۔عزیزاحمدان کی فکشن نگاری کاجائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرہم ترقی پسندافسانہ نگاروں میں اگرکسی کی بات کریں جوسب سے اچھی جگہ کامستحق ہے تووہ ہیں علی عباس حسینی،علی عباس حسینی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ترقی پسندہوتے ہوئے بھی ان کارجحان قطعی انقلابی نہیں ہے لیکن اصلاحی ضرورہے ۔علی عباس حسینی نے انسانی دوستی اورقوم پرستی ہندومسلم اتحاداوردیہاتی مسائل کواپنے افسانوں کابطور خاص موضوع بنایا۔ ہندومسلم اتحادپران کاایک موثرافسانہ ”ایک ماں کے دوبچے”ہے ۔
سعادت حسن منٹوکے افسانوں کوکم وبیش ہرتحریک اوررجحان کے نقادوں نے اپنا موضوع خاص بنایا۔ اس کی تکنیک اوراس کے افسانوں کی دلچسپی کااعتراف کم وبیش ہرنقادنے اعتراف کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے موضوعات میں تنوع اوراس کے افسانوں کی بنیاد مشاہدات پرہوتی ہے ۔ہرنقادنے اعتراف کیا۔ لیکن ان سب کے باوجودترقی پسند نقادوںکااس بات پراعتراض ہے کہ منٹونے صرف دوستوں کی نفسیات،انڈینوکرسچین عورتوں ،رنڈیوں کی نفسیات اور ان کی خواہشات کے متعلق اپنے تجربوں کی بنیادپربکثرت افسانے لکھے ترقی پسندفکشن نقادوں کاجوسب سے بڑا اعتراض ہے وہ یہ کہ وہ جنس پرست تھااورجس شخص کے ذہن پرجنس چھائی ہوئی ہواس شخص سے جنون بھی زیادہ دورنہیں رہتا ۔ اس سے بڑھ کرترقی پسندفکشن نقادوں کامنٹوپرالزام یہ ہے کہ اس میں انسانیت کاراسخ عقیدہ کہیں نظرنہیں آتا۔ جب کہ انسان اورانسان دوستی، ہمدردی،رفاقت اورمحبت وہ عناصرہیںجس پرہراچھے انقلابی فلسفے کی بنیادہوتی ہے ، لیکن ان کے یہاں نہیں ملتی،نیزان کے یہاں جنسی محبت اورکتوں کی محبت میں کوئی فرق نہیں ۔
غرض یہ کہ اردوفکشن کے ترقی پسندناقدوں نے اردوفکشن کانہ صرف گہرائی سے مطالعہ کیابلکہ اردوفکشن میں اپنے قیمتی تنقیدی سرمایوں کے ذریعے اضافہ بھی کیا۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!