اپنی بات

Get Complete Issue

’اردو ریسرچ جرنل‘ کا نواں شمارہ پیش خدمت ہے ۔ پچھلے شماروں کی طرح اس بار بھی تحقیق وتنقید کے علاوہ ’رفتار ادب‘ ،’خراج عقیدت‘، ’اقبالیات‘ اور ’غالبیات‘ کالم کے تحت تحقیقی مقالے شامل کیے گئے ہیں۔ اردو کی کچھ اصناف ایسی ہیں جن کو مروز زمانہ کی وجہ سے پس پشت ڈال دیا گیا ہے مثلا قصیدہ ، رباعی اور مثنوی وغیرہ ۔ ہمارے ناقدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس شمارے میں ’اصناف پارینہ کی جمالیات ‘ کے تحت انہی موضوعات پر تحقیقی وتنقیدی مقالات شائع کیے گئے ہیں۔ ہم عصر تخلیق کاروں پر تحقیقی اور تنقیدی مقالے ہمیں بڑی تعداد میں موصول ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر تحقیق وتنقید کے مروجہ اصولوں پر پورے نہ اترنے کی وجہ سے ہم شائع نہیں کرپاتے ۔ میرا ماننا ہے کہ ادبی رسائل وجرائد مستقبل کی ادبی تاریخ کے لیے بنیادی مواد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ ادب کی تفہیم اگر ان کی زندگی میں نہیں ہوئی تو بعد کے محققین وناقدین کوبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ کون سے اصول وضوابط ہیں جن کو سامنے رکھ کر ان کی تفہیم ممکن ہوسکتی ہے یہ گفتگو کا موضوع ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ کوئی بھی تخلیق کار خود کو اول درجے سے کم سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ ادبی رسائل وجرائد کو پیسے دیکر خصوصی شمارے شائع کرائے جارہے ہیں۔ عوامی بے توجہی کی وجہ سے اپنی موت مررہے ادبی رسائل کے لیے خصوصی شمارے ایک اہم آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ چند باثروت ادیب وشاعر جو ردیف وقافیہ جوڑ کر تھوڑی بہت تک بندی کرلیتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ رسالوں کی اشاعت کے لیے خطیر رقم خرچ کررہے ہیں بلکہ من پسند مضامین بھی لکھوا کر رسالوں کے مدیروں کو فراہم کررہے ہیں۔ اس قسم کے توصیفی مضامین سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟ دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کو ہم عصر تخلیق کاروں کے یہاں ادب ہی نہیں نظر آتا ہے۔وہ صرف خوش گوار ماضی کی یاد ہی میں مست رہنا چاہتا ہے۔ ان دونوں انتہاو¿ں سے ہٹ کر ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ہم عصر تخلیق کاروں پر لکھنے کی اپنی نزاکتیں ہیں لیکن اگر قلم کار کے یہاں رات کو رات اور دن کو دن کہنے کا حوصلہ نہیں ہے تو وہ ہم عصر ادیبوں پر ہی نہیں ماضی کی ادبی ہستیوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرپائے گا۔ معاصر تخلیق کاروں کو نظر انداز کرنے کی روش ہمارے لیے اتنی ہی خطرناک ہے جتنی کہ انہیں بلاوجہ ہیرو بنانے کی ہے۔
یہ شمارہ کیسا لگا ہمیں آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

ڈاکٹر عزیر اسرائیل

(مدیر)

Leave a Reply

1 Comment on "اپنی بات"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.