سرسیّد اور صحافت
17اکتوبر 1817ء، یہ وہ تاریخ اور سال ہے جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی سسکتی زندگی کو علم و عرفان کا آبِ حیات پلانے والے سرسیّد احمد خاں کا وجودِ مسعود مقدر ہوا۔ کون تھے یہ سرسیّد؟ اور کیسے تھے؟ آئیے اسماعیل پانی پتی کی وہ قلمی تصویر دیکھتے ہیں جو انھوں نے ’نقوش‘ لاہور کے ’شخصیات نمبر‘ میں کچھ یوں بیان کی تھی:
’’رنگ سرخ و سفید، چہرہ نہایت پر رعب، پیشانی بلند، سر بڑا، بھویں جدا جدا، آنکھیں متناسب اور نہایت روشن، ناک چھوٹی، کان لمبے، گلے میں بڑی سی رسولی، لمبی داڑھی میں بالکل چھپی ہوئی، جسم فربہ، قد لمبا، ہڈی چوڑی چکلی، ہاتھ پاؤں قوی اور زبردست، بدن گٹھیلا اور مضبوط، صورت وجیہ، وزن پورا ساڑھے تین من، لباس ترکی، معاشرت انگریزی۔ یہ تھے جواد الدولہ عارف جنگ ڈاکٹر سرسیّد احمد خاں مرحوم، بانیٔ علی گڑھ کالج، مجدد زبان اُردو، باعثِ تخلیق ’مسدسِ حالی‘۔‘‘ ۱
لیکن اس تصویر سے سرسیّد کی زندگی، ان کے افکار و نظریات اور علمی و قومی خدمات مکمل طور سے سامنے نہیں آتیں۔ کیونکہ سرسیّد کا صرف ظاہری وجود ہی بھاری بھرکم نہیں تھا بلکہ فکری اور سیاسی شعور اس سے زیادہ تھا، وہ نہ صرف شخصی رعب و وجاہت کے حامل تھے بلکہ ان کی علمی گیرائی و گہرائی اس سے آگے تھی۔ کبھی آیاتِ قرآنیہ کی تفسیر کررہے ہیں تو کبھی ’خطباتِ احمدیہ‘ لکھ کر مستشرقین کے خلاف تیغِ بے نیام ہیں، کہیں جج نظر آتے ہیں تو کہیں صدرالصدور، کبھی اہم موضوعات پر قلم اُٹھانے والے مصنف ہیں، تو کبھی علی گڑھ کالج کے بانی اور روحِ رواں، کبھی اُردو کے معماروں کی صف میں کھڑے ہیں تو کبھی صحافت کو نئی زندگی دینے والے عظیم صحافی ہیں۔ غرض کیا کیا بیان کیجیے اور کس کس پہلو پر قلم اُٹھائیے۔ داستان بہت میٹھی ہے اس لیے طویل ہوجائے گی، اس لیے اس مقالہ میں صرف سرسیّد کی صحافت پر ہی ارتکاز کرتے ہیں۔
سرسیّد کا صحافت سے اوّلین تعارف
سرسیّد کا صحافت سے اوّلین تعارف آپ کے بڑے بھائی سیّد محمد خاں کے ’سیدالاخبار‘ کے ذریعہ ہوا، جس کو سیّد محمد خاں نے 1841ء میں دہلی سے جاری کیا تھا، اسی اخبار میں سرسیّد کے ابتدائی مضامین شائع ہوئے اور سیّد محمد خاں کے انتقال کے بعد ’سیّدالاخبار‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی آپ نے ہی سنبھالی، اور اس کا نام ’سیّدالاخبار‘ سے بدل کر ’مطبع الاخبار‘ کردیا۔ آگے چل کر 1849ء میں یہ اخبار بند ہوگیا۔
سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اور اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی‘ کا اجرا
سرسیّد مرحوم اپنی قوم کی زبوں حالی اور علمی بے مائیگی سے بخوبی واقف تھے، اور اس سلسلہ میں ان کو ہمیشہ فکر دامن گیر رہتی تھی، چنانچہ زمانۂ ملازمت میں جب سرسیّدکا قیام غازیپور میں تھا، آپ کو فکر ہوئی کہ کوئی علمی مجلس قائم کی جائے، اور اپنی اس فکر کو 9جنوری 1864ء کو ’سائنٹفک سوسائٹی‘ قائم کرکے عملی جامہ پہنایا۔ اسی سال سرسیّد علی گڑھ آگئے تو سوسائٹی کا دفتر بھی علی گڑھ منتقل ہوگیا۔ سوسائٹی سے ایک اخبار 30مارچ 1866ء کو سرسیّد نے شروع کیا، جو کہ ہفت روزہ تھا لیکن مئی 1877ء کے بعد سہ روزہ ہوگیا اور اُنیسویں صدی کے اخیر عشرہ میں دوبارہ ہفت روزہ کردیا گیا۔
اخبار کے مشمولات میں ایڈیٹوریل، سوسائٹی کی سرگرمیاں اور کچھ خبریں ہوا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں مختلف علمی، سماجی اور اصلاحی مضامین بھی شامل ہوتے تھے۔ اُردو میں ’اخبار سائنٹفک سوسائٹی‘ اور انگریزی میں ‘The Aligarh Institute Gazatte’ نام تجویز پایا۔ اخبار میں دو کالم ہوتے تھے، ایک اُردومیں اور ایک انگریزی میں۔ مضامین عموماً یکساں ہوتے تھے اور کبھی کبھی مختلف بھی، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان قربت پیدا کی جاسکے اور حاکم و محکوم کے بیچ کی خلیج کو پاٹ دیا جائے اور بہرصورت غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔
سوسائٹی کا قیام اور اخبار کی اشاعت کیونکر ہوئی،خود سرسیّد کی زبانی سنیے، جس میں سوسائٹی کے مقاصد بھی آگئے ہیں:
’’اس زمانہ میں میرے خیالات یہ تھے کہ ہندوستان میں علم کے پھیلانے اور ترقی دینے کے لیے ایک مجلس مقرر کرنی چاہیے جو اپنے قدیم مصنفوں کی عمدہ کتابیں اور انگریزی کی مفید کتابیں ہیں، اُردو میں ترجمہ کراکے چھاپے۔ بذریعہ ترجموں کے جو اُردو زبان میں ہوں اپنی قوم کو اعلیٰ درجہ کے یورپین علوم و فنون سے بہرہ یاب کرسکتی ہوں۔ اس پر کوشش اور 1864ء میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جس کی عالیشان عمارت علی گڑھ میں آپ دیکھتے ہیں۔ بہت سی کتابوں کا اُردو ترجمہ ہوا اور اس کا ایک اخبار میرے اہتمام سے جاری ہوا۲۔‘‘
’اخبار سائنٹفک سوسائٹی‘ کی خصوصیات
اس اخبار کو ہندوستانی صحافت میں جو اہمیت اور مرتبہ حاصل ہے وہ کسی ہوشمند اور صاحبِ مطالعہ سے محفی نہیں۔ یہ اس زمانہ کا ممتاز اخبارتھا، اس اخبار میں وہ خصوصیات تھیں جو پہلے کے اخباروں میں نہیں پائی جاتی تھیں، ذیل میں کچھ خصوصیات ذکر کی جاتی ہیں:
(1) اس اخبار کے ذریعہ اُردو کو پہلی مرتبہ حقیقت پسندانہ باہدف صحافت ملی۔
(2) یہ اخبار ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں قدیم و جدید صحافت کا سنگم ہے۔
(3) اس اخبار نے ایڈیٹوریل کو ہندوستانی صحافت میں اہم ستون کی حیثیت سے روشناس کرایا، اس سے پہلے اُردو اخبارات میں ایڈیٹوریل کا وجود ہی عنقا تھا۔
(4) سابقہ اخبارات کے برخلاف اس اخبار نے آسان اور سہل زبان کو ترویج دی۔
(5) اس سے پہلے کے اخبارات ٹائپنگ سے ناآشنا تھے، یہ اخبار سب سے پہلے ٹائپ ہوکر شائع ہونے والا اخبار ہے۔
(6) اخبار کا بنیادی مقصد تعلیم کا فروغ اور امت میں سیاسی بیداری پیدا کرنا تھا، اس کے علاوہ آپسی بھائی چارہ، تفرقہ کی مخالفت اور عملی جدوجہد کی دعوت بھی اس کے مقاصد میں شامل تھے۔
(7) اس اخبار نے اندھی مذہبی تقلید اور بے جا رسوم و رواج کی شدت سے مخالفت کی۳۔
اس سلسلہ میں مولانا حالیؔ ’حیاتِ جاوید‘ میں لکھتے ہیں:
’’1866ء ہی میں سرسیّد نے سائنٹفک سوسائٹی سے اخبار نکالا، اس اخبار کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا ایک کالم انگریزی میں اور ایک اُردو میں ہوتا تھا۔ اس کا خاص مقصد گورنمنٹ اور ہندوستانیوں کے حالات اور معاملات اور خیالات سے آگاہ کرنا اور ہندوستانیوں کوانگریزی طرزِ حکومت سے آشنا کرنا تھا۔ اس میں سوشل، اخلاقی، علمی اور پولٹیکل ہر قسم کے مضامین برابر چھپتے تھے۔ یہ کہنا کچھ مبالغہ نہیں ہے کہ کم سے کم شمالی ہندوستان میں عام خیالات کی تبدیلی اور معلومات کی ترقی اسی پرچہ کے اجرا سے شروع ہوئی۔ وہ ہمیشہ رعیت کو آزادی اور اطاعت سکھاتا تھا اور ان کی خیرخواہی اور وفاداری کے خیالات گورنمنٹ پر ظاہر کرتا تھا۔ ایک وصف جو اس اخبار کے ساتھ مخصوص تھا وہ یہ تھا کہ اس نے اپنی طرزِ تحریر میں برخلاف اپنے تمام ہمعصروں کے کبھی کسی قوم یا فرقہ یا کسی خاص شخص کی دل آزادی روا نہیں رکھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی جھگڑوں سے وہ ہمیشہ بے تعلق رہا اور اگر کبھی کچھ بولا تو دونوں کو صلح و آشتی کی نصیحت کی۔ باوجودیکہ وہ گورنمنٹ اور اس کے مدبروں پر اکثر نکتہ چینی کرتا تھا مگر اعتدال اور ادب اور تعظیم کو جو ایک محکوم قوم کا زیور ہے اس نے ہمیشہ ملحوظ رکھا․․․․․ایک اور خصوصیت اس اخبار کی اس کی باقاعدگی، جو اکثر دیسی اخباروں میں مفقود ہے اور اس کی خبروں کا نہایت معتبر ذریعہ سے لیا جانا تھا۔ اس کی باقاعدگی کا یہ حال تھا کہ وہ بتیس برس برابر جاری رہا اور اس عرصہ میں شاید ہی کوئی نمبر ایسا ہوگا جو اپنی تاریخ معین پر نہ نکلا ہو۴۔‘‘
عام شہرت تو اسی بات کی ہے کہ اخبار گورنمنٹ کا حامی اور خیرخواہ تھا، اس کے باوجود گورنمنٹ کے کسی غلط اقدام یا قوم کی دل آزاری کو اخبار نے کبھی برداشت نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اس سلسلہ میں جرأتِ اظہار اور حق گوئی اس کا طرۂ امتیاز رہی۔
1876ء میں انگریزی حکام نے چھ ہندوستانیوں کو قتل کیا تو اخبار نے اس خبر کو کچھ یوں شائع کیا:
’’یہ چھ خبریں قتل کی ہیں، جن میں چھ غریب ہندوستانی مقتول اور چھ صاحب بہادر قاتل ہیں اور ان جملہ مقدمات میں اب تک یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ قاتلوں سے کیا مواخذہ ہوا۔ کیا غریب ہندوستانی اسی طرح کام آویں گے کہ ہمیشہ صاحب لوگوں کے گھونسوں اور لاتوں اور بوٹوں سے پٹ کر جان دیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر گورنمنٹ انگریزی میں جان کی حفاظت کا دعویٰ شاید صحیح نہ ہوگا۵۔‘‘
اس خبر کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اخبار کی انگریز حکام پر تنقید کرنے میں کیا پالیسی اور کیا رُخ تھا۔
1857ء کے غدر کے بعد مسلمانوں کی حالت اور ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت
1857ء میں غدر ہونا، اور اس کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کا انگریز حکومت کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بننا، یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن سے سرسیّد بے چین ہوگئے تھے۔کیونکہ اوّلاً تو سرسیّد انگریز حکومت کے خلاف غدر کے ہی مخالف تھے۔ ثانیاً غدر کی پاداش میں صرف مسلمان ہی سزا کے مستحق ٹھہرے تھے۔ اسی لیے سرسیّد نے انگریز حکومت کا غصہ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کم کرنے کی غرض سے ’لائل محمڈنز آف انڈیا‘ کے نام سے مختلف رسالے لکھے اور انگریز حکومت کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی مسلمان گورنمنٹ کے مخالف نہیں تھے۔ سرسیّد بقلم خود لکھتے ہیں:
’’میں اس زمانہ میں دیکھتا کہ مسلمانوں نے جو خیرخواہیاں کیں ان کا ذکر اخباروں میں بہت کم چھپتا ہے اور بغاوت کی جو کتابیں چھپی ہیں ان میں تو اس کا ذکر ہی نہیں۔ اس لیے میں نے ارادہ کیا کہ مسلمان خیرخواہوں کا تذکرہ رسالہ میں شروع کردوں۔ میں نے چند رسالے لکھے اور مشتہر کیے جو ’لائل محمڈنز آف انڈیا‘ کے نام سے مشہور ہیں۶۔‘‘
لیکن یہ رسائل سرسیّد کو اپنے مقصد کی برآری کے کے لیے ناکافی نظر آئے، چنانچہ سرسیّد نے مسلم قوم کے حالات کا بہت دقت نظری سے جائزہ لیا اور قوم کے مسائل و مشکلات کا اصل سبب جاننے کی کوشش کی، اور یہ کوشش دو نتیجے سامنے لائی: (1) ساری مشکلات اور مسائل کا بنیادی سبب قوم کا اعلیٰ معیاری تعلیم سے عاری ہونا ہے، (2) دوسرا اہم سبب حاکم قوم کے ساتھ میل جول اور راہ و رسم کا نہ ہونا ہے۔ سرسیّد نے ان پہلوؤں کو سامنے لانے کے لیے ’اسباب بغاوتِ ہند‘ لکھی۔ خود لکھتے ہیں:
’’میں نے یقین کیا کہ اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو یا غدر واقع نہ ہوتا، اگر ہوتا تو جو سخت مصیبت گورنمنٹ پر، ہماری قوم پر واقع ہوئی اس قدر نہ ہوتی۔ تو میں نے رسالہ ’اسباب بغاوتِ ہند‘ لکھا۷۔‘‘
گویا مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو سرسیّد نے نہ صرف ان کی پستی و ذلت کا سبب جانا، بلکہ اس کو دور کرنے کے لیے فکرمند بھی ہوئے۔ ان کو یقین ہوچلا کہ اگر قوم میں نئی روح پھونکنی ہے اور اس کو غیرقوموں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہے تو سوائے تعلیم کے کوئی دوسرا راستہ نہیں جو منزل تک لے جاسکے اور قوم کی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے لگاسکے۔ سرسیّد مرحوم کو اس سلسلہ میں کیا فکرمندیاں لاحق تھیں اس کا اندازہ صرف ان دو جملوں سے لگایا جاسکتا ہے:
’’جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔ آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کردیا اور میرے بال سفید کردیئے۸۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’آحر کو یقین ہوگیا کہ جب تک ہندوستان میں تعلیم عام نہ ہوگی ان خرابیوں کا کلّی انسداد کسی طرح نہیں ہوسکتا۔‘‘ ۹
تعلیم اور تہذیب، جس سے کہ انگریز قوم مالامال تھی، کے کیا طریقہائے کار انھوں نے اپنائے، کن کن تدبیروں سے وہ اس درجہ تک پہنچے، اس کو جاننے اور سمجھنے، اور سمجھنے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اس کو برتنے کی غرض سے سرسیّد نے انگلستان کے سفر کی نیت کی اور اپریل 1869ء میں اپنے دونوں بیٹوں سیّد محمود اور سیّد حامد کے ساتھ رختِ سفر باندھا اور لندن جاکر طریقۂ تعلیم کو اچھی طرح دیکھا اور سمجھا۔ اپنے اسی مقصد کو سرسیّد یوں بیان کرتے ہیں:
’’میرا ایک بڑا مقصد انگلستان کے طریقۂ تعلیم کو دیکھنا تھا اور اس پر غور کرنا تھا، چنانچہ اس غرض سے کیمبرج یونیورسٹی کو خود جاکر دیکھا اور بڑی اور چھوٹی چیز کو غور سے دیکھا، تمام نقشہ ذہن نشین کرلیا اور عام تعلیم پر غور کیا۔‘‘ ۱۰
قیامِ لندن ہی کے دوران سرسیّد نے نہ صرف تعلیم کی تمام تجاویز مرتب کرلی تھیں بلکہ کالج کا نقشہ بھی وہیں بنوالیا تھا۔ اپنے اس تعلیمی مشن کو شروع کرنے کی کچھ ترکیبیں بھی تجویز کی تھیں جن میں سے ایک اس طرح تھی:
’’ایک ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے عموماًخیالات تعصب جو مسلمانوں کے دِلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یورپین سائنسز اور لٹریچر کا پڑھنا کفر اور مذہب اسلام کے برخلاف سمجھتے ہیں، دور ہوں۱۱۔‘‘
اس تجویز کو بروئے عمل لانے کی خاطر سرسیّد نے ہندوستان آکر وہ انقلابی رسالہ جاری کیا جس کو لوگ ’تہذیب الاخلاق‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رسالہ کیا تھا بم تھا جس نے خوابیدہ قوم کو بیدار ہونے پر مجبور کردیا۔ اس رسالہ کے ذریعہ ملت کے افراد کو صحافت کا وہ رنگ دیکھنے کو ملا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا، ایک ایسا رسالہ جس میں نہ خبریں ہوتی تھیں نہ گھسے پٹے موضوعات پر بے اثر مضامین بلکہ رسالہ اپنے جلو میں انقلاب کے ایسے ایسے رنگ لایا جو کبھی قوم نے دیکھے نہ تھے، رسالہ نے ایسی ایسی صدائیں قوم کے کانوں میں ڈالیں جو اس سے پہلے کبھی پڑی نہ تھیں۔ رسالہ میں قوم نے کبھی سیاست کے نقارے سنے کبھی اپنی مفلوک الحالی اور بے سروسامانی کی سسکیاں بھی، اس رسالہ میں ملت نے اپنی تعلیمی محرومی کو الفاظ کا جامہ پہنے دیکھا تو کبھی انگریز حکومت کی مدح سرائی بھی پڑھنے کو ملی، کبھی یہ رسالہ ان کو دین و دنیا سنوارنے کی دعوت دینے والا واعظ نظر آیا، کبھی قوم کی اخلاقی اور نفسانی بیماریوں پر انگلی رکھنے والا معالج دکھائی دیا۔ غرض زندگی کا کون سا شعبہ اور زیست کا کون سا پہلو ایسا ہے جس پر اس رسالہ نے قوم کو جگایا نہ ہو۔
رسالہ کا پہلا شمارہ ۲۴؍دسمبر 1870ء مطابق یکم شوال 1287ھ کو شائع ہوا اُردو نام ’تہذیب الاخلاق‘ اور انگریزی نام ‘The Mohammeden Social Reformer’رکھا گیا۔ سرورق پر عربی میں ایک عبارت یوں لکھی ہوتی تھی: ’’حب القوم من الایمان فمن یسع فی إعزاز قومہ إنما یسعی فی إعزاز دینہ۔‘‘ البتہ مضامین کی زبان صرف اُردو تھی۔ رسالہ ماہانہ ہوگا یا پندرہ روزہ کوئی طے نہیں تھا اسی لیے رسالہ کے پہلے شمارہ میں اس کی وضاحت کردی گئی کہ:
’’یہ پرچہ مہینہ میں ایک بار یا دوبار جیسا کہ مقتضائے مضامین ہوگا چھپا کرے گا۔‘‘ ۱۲
سرسیّد نے رسالہ کے اغراض و مقاصد پہلے ہی شمارہ میں واضح کردیئے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’اس پرچہ کے اجرا سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے تاکہ جس حقارت سے سویلزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزر و مہذب قوم کہلاویں۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’اسلام میں وہ سب سچی باتیں ہیں جو کہ دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی اور انسانیت اور تہذیب اور رحم دِلی کو کمال کے درجہ پر پہنچانے والی ہیں، مگر ہم کو اپنی بہت سی رسوم و عادات کو جو اگلے زمانہ میں مفید تھیں مگر حال کے زمانہ میں نہایت مضر ہوگئی ہیں چھوڑنا چاہیے۱۳۔‘‘
گویا کہ رسالہ کا مقصد مسلمانوں کو تعلیمی اور تہذیبی پستی کے قعر مذلت سے نکال کر مہذب قوموں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا اور پرانی فرسودہ مذہبی رسوم و تقالید کے طوق غلامی سے نجات دلانا تھا۔ آخر الذکر مقصد کی خاطر سرسیّد اور ان کے رفقاء قلم کار کے قلم سے مذہبی امور سے متعلق کچھ ایسی باتیں سپرد قرطاس ہوئیں جو خصوصاً طبقۂ علماء کے لیے دل کی پھانس بن گئیں۔ خاص طور پر دنیا کا چھ دن میں بن جانا، قصّہ آدم، شیطان اور فرشتوں کو تمثیل قرار دینا، جنت وجہنم کو استعارہ سے تعبیر کرنا وغیرہ۔ یہ وہ اُمور ہیں جن کو ’تہذیب الاخلاق‘ میں جگہ دی گئی اور نتیجتاً ایک فضا ’تہذیب الاخلاق‘ کے خلاف بنتی چلی گئی اور صرف دو مہینے بعد ہی ان افکار کی تردید اور مخالفت میں کانپور سے دوپرچے مولانا امداد علی نے جاری کئے پہلا ’نورالانوار‘ جوکہ جنوری 1871ء کو نکالا اور دوسرا ’نورالآفاق‘ اگست 1871ء کو۔ ان دو پرچوں کے علاوہ دیگر اہم مخالف پرچے اس طرح ہیں:
’تیرہویں صدی‘ آگرہ سے نکلا۔ ’لوحِ محفوظ‘، ’تائید الاسلام‘ اور ’اکسیر اعظم‘ مراد آباد سے نکلے۔ ’اشاعت السنۃ‘ پنجاب سے اور ’رفیقِ ہند‘ لاہور سے نکلا۔
لیکن مخالفت کے باو’جود تہذیب الاخلاق‘ کے قدم اپنے مشن سے ڈگمگائے نہیں، کیونکہ ’تہذیب الاخلاق‘ اور اس کے لکھنے والے (ان کی دینی آراء سے قطع نظر) اپنی نیت میں مخلص تھے۔ اور اسی طرح مخالفین بھی اخلاص ہی کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ ’روحِ صحافت‘ میں امداد صابری رقم طراز ہیں:
’’جو شخص بھی ’تہذیب الاخلاق‘ اور اس کے مخالف اخبارات کا مطالعہ کرے گا، اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ یہ دونوں طبقے اپنی اپنی جگہ نیک نیت اور مخلص تھے۱۴۔ ‘‘
اس کے باوجود دونوں میں فرق یہ تھا کہ تہذیب الاخلاق نے کبھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جبکہ مخالفین نے ہر بے اعتدالی اور طعن و تشنیع کو روارکھا۔
’تہذیب الاخلاق‘ اپنے مشن میں کامیاب ہوا یا نہیں، اس کا اثر قوم کے کس طبقہ پر پڑا اور کونسا طبقہ اس کے زیرِ اثر نہ آسکا، اس سلسلہ میں مولانا الطاف حسین حالیؔ کی یہ تحریر رہنمائی کرتی ہے، لکھتے ہیں:
’’ ’تہذیب الاخلاق‘ کے جارے ہونے سے رفتہ رفتہ ایک معتدبہ گروہ مسلمانوں میں ایسا بھی پیدا ہوگیا جو اس پرچہ کا ویسا ہی دلدادہ تھا جیسے انگلستان والے ’ٹیٹلر‘ اور ’اسپیکٹیٹر‘ کے دلدادہ تھے، وہ اس کے مضامین پر وجد کرتے تھے اور تاریخ معین پر اس کے انتظار میں ہمہ تن چشم رہتے تھے۔ اگر سرسیّد یہ پرچہ جاری نہ کرتے اور مسلمانوں کے خیالات کی اصلاح کا اظہار چھوڑ دیتے، بلکہ صرف ان کی تعلیم کا انتظام کرتے تو ظاہراً ان کی مخالفت کم ہوتی بلکہ شاید نہ ہوتی، مگر اس کے ساتھ ہی اعانت اور امداد بھی کم ہوتی اور جو تحریک چند سال میں مسلمانوں میں پیدا ہوگئی اس کا صدیوں تک کہیں نام و نشان نہ ہوتا۱۵۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’چونکہ یہ پرچہ اسلام کو ایسی صورت میں ظاہر کرتا تھا جو مسلمانوں کے عام خیالات کے برخلاف تھی اور ان کے کان میں وہ صدائیں پہنچاتا تھا جو اُنھوں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ اس لیے اوّل اوّل لوگ اس سے بہت بھڑکے، مگر رفتہ رفتہ مسلمانوں کے محدود دائرے میں اس کا اثر پھیل گیا۔ اَن پڑھ مسلمان جن کی تعداد ہمیشہ ایک گری ہوئی قوم میں پڑھے لکھوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ’تہذیب الاخلاق‘ کس جانور کا نام ہے۔ مولویوں اور واعظوں پر بھی اس کا منتر نہیں چل سکتا تھا، کیونکہ وہ اس کو نہ صرف مذہب کے حق میں بلکہ شاید اپنے حق میں بھی مضر جانتے تھے۔ امرا تک اس کی رسائی ہونی سخت دشوار تھی کیونکہ ان کو مسلمانوں کے تنزل کا یقین دلانا ایسا مشکل تھا جیسا کہ مرغابی کو طوفان سے خوف دلانا۔ اس لیے ’تہذیب الاخلاق‘ کا اثر صرف متوسط طبقے کے لوگوں میں محدود رہا، جو نہ محض جاہل تھے اور نہ جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، اور مقدور کے لحاظ سے نہ نہایت پست حالت میں تھے اور نہ اعلیٰ درجہ میں۱۶۔‘‘
سرسیّد کی حیات میں ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت تین ادوار میں ہوئی، تفصیل حسب ذیل ہے:
(1) پہلا دور 24دسمبر 1870 ء تا 20ستمبر 1876ء
(2) دوسرا دور 23اپریل 1879ء تا 28 جولائی 1881ء
(3) تیسرا دور 17اپریل 1894ء تا 3فروری 1897ء
آخری شمارہ کے بعد ’تہذیب الاخلاق‘ کو ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ میں ضم کردیا گیا۔
’تہذیب الاخلاق‘ کی خصوصیات اور کارنامے
’تہذیب الاخلاق‘ جو مشن لے کر چلا تھا وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہا اور اُردو صحافت کی تاریخ میں ایک ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی، ذیل میں اس کی اہم خصوصیات اور کامیابیاں درج کی جاتی ہیں:
(1) یہ رسالہ صرف اور صرف مسلمانوں کے مسائل اور ان کی ترقی کے لیے جاری کیا گیا تھا برخلاف ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ کے کہ وہ ہندوستانی قوم کے لیے تھا۔
(2) اس رسالہ نے اُردو نثرنگاری کو نئی جہت دی اور اس کو مسجع و مقفّیٰ درباری زبان سے ایک عام ترسیل کی زبان بنایا۔
(3) مسلمانوں کی ہندوستان میں زبوں حالی کو دور کیا اور زندگی کو ایک نئی روشنی دی۔
(4) اس رسالہ کی دعوت اور مشن پر ہندوستان میں مسلمانوں کو فکر لاحق ہوئی کہ جدید تعلیمی مراکز قائم کیے جائیں۔
(5) مسلمانوں کو اس رسالہ سے اسلامی قومیت کا سبق ملا جس سے وہ قطعی ناآشنا تھے۔
(6) سب سے زیادہ بڑا اور اہم نفع بلکہ احسان اس رسالہ کا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ محمڈن کالج (موجودہ مادرِ علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کو قائم کرنے کی فضا ہموار ہوئی اور جہالت و بدتہذیبی کے اندھیروں میں بھٹکتی مسلم قوم کو تعلیم و تہذیب کی روشنی ملی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اُردو صحافت سرسیّد کی رہینِ منّت ہے۔ سرسیّد ہی نے صحافت کو تقلید اور فرسودگی کی قید سے نکال کر ایک نئی جہت دی تھی، جرأتِ اظہار، حق گوئی و بیباکی، حالات کا گہری نگاہ سے تجزیہ، شستہ ادبی زبان، یہ سب صحافت کو سرسیّد سے ملا، اور تہذیب نے اس روش کو اپنا کر اُردو صحافت کو آدابِ صحافت سے روشناس کرایا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سرسیّد کی صحافت یا یوں کہیے کہ ’تہذیب الاخلاق‘ اُردو صحافت کے باوا آدم ہیں، اُردو صحافت کا پہلا باب ہی ’تہذیب الاخلاق‘ ہے، اس کے بغیر اُردو صحافت کے وجود کا تصور ہی نہیں۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کے بعد تمام اخبار و رسائل نے اسی کے بتائے اصولوں پر عمل کیا اور اسی کو اپنا راہ نما جانا۔ اور یہی وجہ تھی کہ خود سرسیّد مرحوم بھی ’تہذیب الاخلاق‘ کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ گردانتے تھے، لکھتے ہیں:
’’اگر لوگوں کا یہ خیال صحیح ہے کہ ’تہذیب‘ نے تمام ہندوستانیوں کو ہلا دیا اور لوگوں کے دلوں کو قومی ہمدردی پر مائل کردیا تو شاید میری نجات کے لیے کافی ہوگا۱۷۔‘‘
حواشی:
۱ منقول از ’انتخاب مضامینِ سرسیّد‘ ترتیب: انور صدیقی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی۔
۲ عظیم الشان صدیقی ’مشاہیر کی آپ بیتیاں‘ ص 33، اُردو اکادمی، دہلی
۳ دیکھئے ’الصحافۃ الاسلامیۃ فی الہند تاریخا و تطورہا‘ ڈاکٹر سلیم الرحمن خان ندوی، ص59-60
۴ ’حیاتِ جاوید‘ مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان سے اختصار کے ساتھ منقول۔ از ص131 تا 134
۵ ’اخبار سائنٹفک سوسائٹی‘ 15ستمبر 1876ء، بروز جمعہ، بحوالہ عبدالحئی، ’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘، ص97
۶ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص30
۷ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص30
۸ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص29
۹ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص30
۱۰ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص42
۱۱ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص44
۱۲ ’تہذیب الاخلاق‘ یکم شوال 1287ھ، جلد اوّل، شمارہ1
۱۳ ’تہذیب الاخلاق‘ یکم شوال 1287ھ، جلد اوّل، شمارہ1
۱۴ منقول از ’اُردو صحافت اور سرسیّد احمد خاں‘، ص91
۱۵ مولانا الطاف حسین حالیؔ ’آبِ حیات‘ ص165
۱۶ مولانا الطاف حسین حالیؔ ’آبِ حیات‘ ص167
۱۷ عظیم الشان صدیقی ’مشاہر کی آپ بیتیاں‘، ص44
Leave a Reply
Be the First to Comment!