تانیثیت اور مئیوٹ گروپ تھیوری
دنیا جسے عورت کے نام سے جانتی ہے، صدیوں سے ٹھگی گئی ہے ۔ آج گر اسے کچھ آزادی حاصل بھی ہے تو اتنی ہی جتنی کہ سرمایہ داروں اور پدرسری نظام کے فائدے کے لیے ضروری ہے۔ دی سکنڈ سیکس کی مضنفہ سیمؤن دی بورا کے مطابق خواتین کا مقام محکومیت یا تابعداری کا ہے‘‘۔ اگر اس جملہ پر توجہ دی جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیمؤن بھی اس عام خواتین کی بات کرتی ہیں جو پدرسری (Patriarchal ) نظام کے جبر و تشدد کی شکار ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان اضداد کو نظر انداز کرکے چلنا ہوگا جس کی دہائی اکثر لوگ دیا کرتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر راشنی اگروال’’مغربی خواتین کا ظاہری رنگ روپ دیکھ کر ہم مشرقی عورت یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور اپنی مرضی کی زندگی جی رہی ہیں۔تو ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ ایک سراب ہے حقیقت نہیںہے۔‘‘ خواتین کی محکومیت کی مختلف وجوہات پربحث ہوتی رہتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے نظریات سے اس کی تشریح کرتا ہے۔ حیاتیاتی( Biological)ماہرین اس کے جسمانی ہیت کوہی اس کی غلا می کی وجہ مانتے ہیں۔ جبکہ ماہر نفسیات اس کے جذبات کو ، ماہرین سماجیات سماج کے مختلف روایتوں کو اور ماہر معاشیات اس کے معاشی عدم استحکام کواس محکومی کی وجہ بتاتے ہیں ۔ لیکن ان سب وجوہات کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے جو سب سے بڑی وجہ ہے ۔ وہ ہے ترسیلی رکاوٹ ۔ مردانہ سماج میں خواتین بہت کم بولتی ہیں،بلکہ انہیں بہت کم بولنے دیا جاتا ہے ۔ اکثر اوقات اسے ڈانٹ کے خاموش کردیا جاتا ہے ۔ ا س لیے خواتین کی خود مجازیت کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو بولنے کی آزادی دی جائے۔اس کے جذبات و احساسات کو بیان کرنے کی آزادی دی جائے۔ اس مسئلہ کو ہم مئیوٹ گروپ(mute group ) یا ’’’ گونگی جماعت ‘‘ نظریہ کے تحت سمجھ سکتے ہیں۔ مئیوٹ گروپ ایک ایسا تانیثی نظریہ ہے جو تحریک آزادی نسواں کے ضمن میں خواتین کی ترسیلی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ اس کے مطابق مرد غلبہ والے معاشرہ نے خواتین کی آ واز سلب کر لی ہے۔ بالفاظ دیگر مرد غلبہ والے سماج میں خواتین ترسیلی محکومیت کی زندگی بسر کرتی ہیںجہاں وہ اپنے جذبات و احساسات کا کھل کر اظہار نہیں کر سکتی ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق مردانہ غلبہ والے معاشرہ میں خواتین ’’گونگی جماعت‘‘ یا مئیوٹ گروپ بنادی جاتی ہیں ۔ مردانہ معاشرہ نے اس کی ترسیلی آ زادی پر پہرہ بٹھا دیا ہے۔ جس کے تحت اسے کیا بولنا ہے ،کس سے بات کرنی ہے اور کس سے نہیں، یہ مردہ طے کرتا ہے۔ خواتین مردانہ سوسائٹی کے بنائے ہوئے اس خود ساختہ دائرہ حدودمیں مقید کردی جاتی ہیں ۔یہ پدر سری سوسائٹی طے کرتی ہے کہ اس کا دائرہ اختیار کہاں تک ہے ؟ وہ کیا کہ سکتی ہے کیا نہیں،کس سے مل سکتی ہے کس سے نہیں اورکہاں جا سکتی ہے اورکہاں نہیں۔ خواتین مجبورکیجاتی ہی کہ وہ اپنی پست آواز اور خاموشی کے ذریعہ اپنی ما تحتی اورمحکومیت کا اظہار کرے۔Griffin,E.2009).) اس کی سوچ پر مرد کا غلبہ ہوتا ہے۔ تقریباً تمام تہذیب میں خواتین کے زبان پر قفل ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہی خواتین کی آ زادانہ ترسیل میں سب سے بڑ ی رکاوٹ بنی ہو ئی ہے۔خواتین پر مسلّط کردہ ’’خاموشی‘‘ ان کی ماتحتی اورمحکومیت کی غماز ہے۔
اس نظریہ کو سب سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی کے سماجی انتھروپولوجسٹ (Anthropologist) ایڈون آرڈنر ( Edwin Ardener)نے اپنی تخلیق Belief and problem of women میں 1970 میں پیش کیا۔ انھوںنے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بہت سے مردم سناش(Ethnographer )کا معاشرہ کوسمجھنے کا دعویٰ ہے لیکن یہ دعویٰ صرف مرد غلبہ والی آبادی کی معلومات پر منحصر ہے۔ آرڈنر کا کا ماننا ہے کہ،جو لوگ ’’قوم نگاری‘‘ Ethnography کے ماحول میں زندگی گذرتے ہیں وہ اس عقیدے میں یقین رکھتے ہیں کہ مرد سماج کو سب کچھ دے سکتا ہے، جبکہ عورت کچھ بھی نہیں۔ایڈون آرڈنر کی بیوی Shirely andrew نے اس نظریہ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور کہا کہ’’ گونگی جماعت ‘‘ نظریہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اور طبی طور پر گونگی ہے, بلکہ انھیں مردانہ سماج یا بولنے والی جماعت (Said group )کی طرف سے گونگی یا مسکوت ( hushed)بنادیاگیا ہے۔ یہ نظریہ اس خیال کی بھی ترجمانی کرتا ہے کہ ’’گونگی جماعت ــ‘‘کے اندر اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کی صلاحیت اور قابلیت ہے ۔ لہذا ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے معاشرتی اصولوں اور بندشوں کی ترجمانی کرے؟ آرڈرنرکا کہنا ہے کہ مردانہ سماج کے رسم ورواج اور ادب میںخواتین کو’’ گونگی‘‘ جماعت بنا نے کا ڈھانچہ موجود ہے مگر یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے۔اس کے مطابق خواتین اس discreditedسوسائٹی میں کیا کہے گی جس میں مرد کا غلبہ ہے۔
مرد کو عورت پر ترسیلی فوقیت حاصل ہے کیونکہ زبان اور الفاظ مردوں کے بنائے ہوئے جب ایک خاتون اپنے نظریہ کا اظہار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے بہت ہی سوچ سمجھ کے الفاظ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے، کیوںکی بہت ہی کم ایسے الفاـ ظ ہیں جسے خواتین کی قابلیت اور صلاحیت کی تعریف میں استعمال کیا جاسکے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر آرڈرنر کا ماننا ہے کہ اس سبب سے ایک خاتون ’’گونگی‘‘ یا بے زبان بن جاتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت مرد غلبہ والے یا پدرسری نظام میں خواتین کو ہر شعبہ اورمحاذ پر ’گونگی‘ بنادیا گیا ہے۔ جس کے سبب ان کی بات نہیں سنی جاتی ہے۔آرڈرنراس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ خواتین اورمرد کی تخلیق میںحیاتیاتی(Bilogical) فرق ہے اور اس فرق کی وجہ سے مرد غلبہ والے سماج میں خواتین کو حقیر اور کمتر درجہ کی مخلوق تصور کیاجاتاہے۔ مردانہ معا شرہ کی اس قسم کی تفریق خواتین کے تعمیری صلاحیت پر قدغن لگاتاہے۔ مردانہ سماج میں زندگی بسر کرتے ہوئے خواتین کے اندر گونگے پن کا احساس سے مستحکم ہوجاتا ہے۔ وہ اس بات پر راضی ہو جاتی ہے کہ پدرسری نظام کے اصولوں روایتوں کی پاسداری کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے۔ اس میں کافی حد تک مردانہ تہذیبی غلبہ کا بھی دخل ہے ،جہاں ایک مخصوص ماحول اور مخصوص جماعت و نسل کے کلچر اورتہذیبی رسم و رواج کی بنیادپر خواتین کی آواز سننا پسند نہیں کیا جاتا اور انھیں ’’گونگی ‘‘بننے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ ایسے حالت میں خواتین یہ محسوس کرتی ہیں کہ مرد اور عورت کی دنیا ایک دوسرے سے الگ ہے۔آ گے چل کر آرڈرنر کے اس نظریہ کو مشہور فیمنٹ کرس کارمارے( Cheris karmerae ) نے مزید فروغ دیا اور اس میں نئے تصورات کو شامل کیا۔ کا رمارے آرڈنرکے اس خیال سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین کا گونگی ہونا اس کی کمزوری اور طاقت کی کمی کی وجہ سے ہے اس نے ’’مئیوٹ گروپ ‘‘پر مختلف نقطہ نظر یات پیش کئے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ مرد غلبہ اور پدرسری نظام میں خواتین کے تعلق سے جو تصور پایاجاتا ہے اور جورویہ اور سلوک اختیار کیا جاتا ہے، خواتین خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔اس سپردگی کی وجہ سے خواتین محکوم اور بے زبان بن جاتی ہے۔ اس کے مطابق مرد غلبہ والے سما ج میں نہ صرف یہ کہ خواتین کمزور تصور کی جاتی ہیں بلکہ ایک ایسی جماعت بھی تصورکی جاتی ہے جو مرد جیسی زبان نہیں بول سکتی ہے۔ کرس کامارے نے 1974ء میں اپنے پہلے مضمون ۔ “so well men and women speak a different language”میں اس مسئلہ پر لکھا تھا کہ مرد غلبہ والے سماج میں یہ تصور عام ہے کہ مرد کے مقابلے خواتین کی بات چیت اور تقریر کم اثر پذیر ہوتی ہے۔ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے لکھتی ہیں کہ ہماری تہذیب میں خواتین کی بات چیت اور تقریر پر کئی لطیفے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہے کہ ’ یہ قطعی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مرد آمیز غلبہ والی زبان کی وجہ سے سماج میں خواتین اقلیتوں کی آواز نہیں سنی جاتی ہے۔ مگر اس سے زیادہ افسوس ناک مسئلہ یہ ہے کہ عورت ہو نے کے جرم میں اس کی بات قابل اعتبار نہیں سمجھی جاتی ہے۔ یہ نظریہ اس بات کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ بحیثیت ایک عورت کے مرد غلبہ والے سماج میں عورت کوخود کو مرد کے برابر منوانے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ یہ نظریہ اس تصور پر زور دیتا ہے کہ خواتین کے گونگے پن، کے لیے پوری طرح سے مرد غلبہ والا سماج ذمہ دار ہے۔ کیونکہ سوائے اس زبان کے جسے اس نے خود تشکیل کیا ہیـ,کوئی اور زبان وہ نہ تو سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے ۔ مزید یہ کہ مرد یہ تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتا ہے کہ عورت کی بھی کوئی زبان ہے ۔ کیونکہ انھیں یہ ڈر ہے کہ اگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں گے کہ خواتین کے پاس بھی زبان ہے، تو انھیں خواتین کو کچھ اختیارات دینے ہوں گے۔ اور وہ ایسا کرنا بالکل بھی پسند نہیں کریںگے۔ کیوں کہ زیادہ تر مرد اس کے حق میں نہیں ہوں گے کہ عورت ان کی محکومی سے آ زادی حاصل کر لے ۔کارمارے یہ بھی کہتی ہے کہ چونکہ ترسیل(Communication) پر مرد کا کنٹرول ہے ۔ اس وجہ یہ ہے کہ زبان اور الفاظ کی تخلیق مرد نے اپنے لحاظ سے کیا ہے اور یہی عورت کے لیے نقصان کا سبب بنا ۔ کیوں کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو مرد کے تخلیق کردہ الفاظ کے ذریعے بیان کرتی ہیں۔ زبان پر مرد کانٹرول ہونے کی وجہ سے وہ ایسے الفاظ کثرت سے بناتاہے جو خواتین کی شبیہ کو حقارت کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسے پھوہڑ, گپّی، فریادی، طوائف , رکھیل وغیرہ ۔ دوسری جانب مرد نے اپنی انہیں برائیوں کو جن الفاظ اور پیرا ئے میں ڈھالا ہے وہ منفی ہونے کے باوجود مثبت لگتا ہے، جیسے شاطر ،چالباز، کھلاڑی وغیرہ۔ اس کا یہ بھی ماننا ہے کہ تاریخ انسانی سماج میں کبھی بھی مرد اور عورت کے درمیان ترسیل مساوی درجے کا نہیں رہا ہے۔ Symbolic interaction نظریہ کے مطابق: karmeraeکا یہ بھی کہنا ہے کہ جب خواتین پبلک میں بولتی ہیں تو یہ ان کے لیے بہت مشکل وقت ہوتا ہے ۔ اس لیے بہت ہی سمجھ بوجھ کر انھیں الفاظ کا انتخاب کرناپڑتا ہے کیونکہ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کرتے ہوئے وہ جو کچھ بولنا چاہتی ہے ، وہ آسان نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ الفاظ اور زبان کے سانچے انھوں نے نہیں مردوں نے ڈھالے ہیں۔ (A first look communication theory p-459)
گیٹ کیپر
میڈ یامیں گیٹ کیپر کی اصطلاح سے مراد ایڈیٹر اور میڈیا آرگنائزیشن کے مالکان کی جانب سے خبروں اور اطلاعات میں اپنے نظریہ کے مطابق کانٹ چھانٹ اور روک تھام ہے۔ ایڈیٹرس یا مالکان اخبار میں شائع ہونے والی خبریں، مضامین ، اور دیگر تخلیقات کی ایڈیٹنگ کر کے اپنی فکر اور پالیسی کے تحت شا ئع کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈائرکٹر ڈرامے، فلموں کی اکسرپٹ میں اپنی پالیسی کے مطابق تبدیلی کرتے ہیں۔کارمارے (karmerae)کا مانناہے کہ میڈیا ہائوس میں گیٹ کیر پر مردوں کاکنٹرول ہے جس کی وجہ سے خواتین کی پیش کش خواتین کے نقطہ نظرسے نہیں بلکہ مردانہ غلبہ والے سماج کے نقطہ نظر سے ہوتی ہے۔ وہ دلیل دیتی ہیں کہ 1970 سے قبل پرنٹنگ میڈیا میں خواتین کی شرکت نہیں تھی تمام اخبارات و رسائل جرائد کے ایڈیٹران اور مالکان مرد حضرات تھے جنھوںنے اپنی فکر اساس اور نظریات کے تحت مضامین اور فیچر کے فارمیٹ اور اصطلاح بنائے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ چوں کہ ماس میڈیا میں خواتین کا فقدان رہا ہے ۔ان کی نمائندگی میڈیا کی تاریخ میں کبھی بھی مردوں کے تناسب سے نہیں رہی ہے۔ اس لیے کم نمائندگی اورمرد حضرات کی گیٹ کیپر ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال خواتین کو ’’گونگی ‘‘بنانے کے لیے استعمال کیاجاتا رہاہے۔ (Griffine.p-457) ۔ کارمارے نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی کاکردگی پر تحقیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کے آلات پر شروع سے ہی مردوں کا کنٹرول رہا ہے اور مردوں نے ہی اس کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ ساتھ ہی اس میں Gatekeeping بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے انٹرنیٹ بھی mute group کے نظریہ کے تحت مرانہ د غلبہ والے معاشرتی نظریات کے تحت کام کرتا آیاہے۔ وہ کہتی ہے 1970 سے 1980 کے دہائی میں جب انٹرنیٹ اپنے ابتدائی ترقی کے منازل طے کررہا تھا اس وقت جو آلات اور اصطلاحات بنائے گئے اس بنانے والے تقریباً سبھی لوگ مر د ہی تھے۔ یہی وجہ ہے جو پروگرام بنے وہ سب مرانہ غلبہ والے سماج کے نظریہ کے تحت بنے ہیں۔ آج مرد اور عورت کے درمیان انٹرنیٹ کے مساوی 50/50 استعمال کی بات کی جارہی ہے لیکن تمام سافٹ ویر اور انٹرنیٹ آلات پر مردانا چھاپ گہری ہے ۔کیوں کہ صنفی تفریق کی وجہ سے مرد نے ٹکنالوجی کے میدان میں بھی غلبہ حاصل کررکھا ہے۔ اس وجہ سے خواتین کا حاشیہ نشین (marginalized) ہوناطے شدہ ہے۔ انٹرنیٹ کی وضاحت کرنے کے لے جو اصلاحات اور استعارے استعمال ہوتے ہیں وہ زیادہ تر مردانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔لیکن اس تنقید کے ساتھ ہی کارمارے کو یقین ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا مرد اور عورت کے د رمیان متوازن اور برابر کے شریک کا کام کرسکتا ہے۔ وہ یہ مانتی ہے کہ بلاگس (Blogs ) اور آن لائننیوز پیپر، میگزن اور ڈسکورس سے خواتین کو ایک مضبوط آواز حاصل ہوسکتی ہے۔ وہ ٹکنالوجی کے مختلف اقسام کے ذریعہ اپنی آواز اور نظریات کو پہنچاسکتی ہیں دوسری خواتین کو اپنے ساتھ منسلک کرسکتی ہیں۔
٭٭٭٭
عبدالقادر صدیقی / Abdul Quadir Siddiquee
پی ایچ ۔ڈی ، ریسرچ اسکالر – ماس کمیو نیکیشن اینڈ جرنلزم
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآباد
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآباد 500032
موبائل: 9989490881
ای میل: aqsiddiq1984@gmail.com
کتابیات
Griffin, E. M. (1991). A first look at communication theory (3rd Ed.). New York: McGraw-Hill Companies, Inc.ISU Communication Studies. (n.d.). Context of communication. Muted Group Theory Information
Kramarae, C. (1996). Classified information: Race, class, and (always) gender. In J. Wood (Ed.), Gendered relationships (pp. 20-38). Mountain View, CA: Mayfield
Kramarae, C. (1981). Women and men speaking: Frameworks for analysis. Rowley, MA: Newbury House.
Kramer, C. (1974, June). Folk-Linguistics: Wishy-washy mommy talk. Psychology Today, 82-85 http://www.colorado.edu/communication/meta-discourses/Papers/App_Papers/Baer.htm
http://chadwick.jlmc.iastate.edu/theory/mutedgrp.html
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!