علامہ راشد الخیری- محض مصور غم؟
ابتدائیہ:
علامہ راشد الخیری اردو کے منجھے ہوئے افسانہ نگار و ناول نگار تھے اردو ادب میں افسانے کا آغاز، بقول بعضے، انہی سے ہوتا ہے(۱)۔ وہ بیک وقت ادیب، مصلح، سیرت نگار، سوانح نگار، مبصّر اور معاشرے کے نبّاض تھے۔ ان کے ہاں اپنے معاشرے کے پستے ہوئے کرداروں کی عکّاسی بھی ملتی ہے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی و بے حسی کی دہائی بھی۔ ایک طرف وہ صنفِ نازک کے حقوق کی بحالی اور ان کو اپنی اصلاح و ترقی کی اہمیت کا احساس دلاتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف ہندومسلم دشمنی و نفاق پر قلق میں مبتلا اور حکومتِ وقت کے مسلمانوں سے بہیمانہ سلوک پر رنج و الم کا شکار ۔ بلاشبہ انہیں مصورِ غم کی شہرت ملی لیکن ان کی مطبوعات خود اس امر کی عکّاس ہیں کہ وہ محض حزن نگار یا طبقہ نسواں کے حقوق کے علمبردار نہیں تھے تاہم المیہ یہ ہے کہ اردو ادب کے متعدد ناقدین کی جانب سے علامہ پر زبردست تنقید کی گئی ہے کہ: انہوں نے اپنے فن کی مبادیات کو نظر انداز کیا ہے۔ ان کے کردار بالکل سپاٹ اور بے جان محسوس ہوتے ہیں اور بے جان چیزوں کی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے کردار طویل اذیّت کا شکار بیویاں ساسوں کے مظالم سہتی بہویں، سوتیلی ماں کے ظلم و ستم کا شکار بچے۔۔۔ ان کے کردار ایک ہی جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ کسی ایک ساس کو دوسری ساس سے، ایک ظالم و لاپروا شوہر کو دوسرے سے، ایک لاپروا باپ کو دوسرے باپ اور ایک ظالم سوتیلی ماں کو دوسری ماں سے ممیز کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے(۲)۔
اسی طرح ان کے کرداروں پر اعتراض ہے کہ وہ یک رُخے ہیں۔ مثلاً وہ عورت کو حور کا تصوّر بخشتے ہیں اس کو ایک مثالی سچائی و پاکیزگی کا مجسّمہ بنا کر پیش کرتے ہیں جس میں کوئی خامی کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی۔ ان کے کردار میں حد درجہ مبالغہ ہے حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ عورت کو بالکل یوں پیش کیا گیا ہے جیسے وہ ایک مکمل بے عیب مخلوق ہو۔ پھر ان کے کرداروں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ باتیں نہیں کرتے بلکہ لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں(۳)۔ اسی طرح ایک اور اعتراض یہ ہے کہ ان کے پلاٹ عموماً غیر فطری اور پیچیدہ ہیں۔ مقالہ ھٰذا میں مولانا کی تصانیف کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا واقعتا مولانا پر اٹھائے گئے اعتراضات بجا ہیں؟ وہ محض طبقہ نسواں کے حزن نگار تھے یا ان کی نگارشات میں اس کے علاوہ بھی کچھ مضامین ملتے ہیں؟ کیا واقعتا وہ عورتوں کو دیویاں اور مردوں کو ظالم دیو بناکر پیش کرتے تھے اور کیا ان کے سب کردار یکساں طور پر بے جان اور سپاٹ ہیں؟ چنانچہ اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ مولانا کے کام پر کی جانے والی تنقید درست ہے یا وہ نامکمل مطالعے پر مبنی ایسی تحقیق ہے جو ناں صرف اردو ادب کے قارئین کے لیے بلکہ خود ناقد کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
مقالہ ھٰذا میں ابتدائیے کے بعد دو اجزا ہیں جزو اول میں مولانا کا مختصر سوانحی خاکہ ہے اور جزو ثانی میں ان کے ہاں زیربحث آنے والے مختلف موضوعات یا ان کے ہاں مضامین کا تنوّع ان کی تحریروں کی روشنی میں زیربحث آیا ہے۔
جزو اوّل: علامہ راشد الخیری – سوانحی خاکہ:
راشد الخیری جنوری ۱۸۶۸ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ نوبرس کی عمر میں یتیم ہوگئے اور اس کے بعد ان کی کفالت ان کے چچا، عبدالحامد، ڈپٹی کلکٹر اور ان کے نابینا دادا مولوی عبدالقادر کے زیرنگرانی ہوئی۔ راشد الخیری نے ابتدائی تعلیم اینگلو عریبک سکول سے حاصل کی۔ نویں جماعت میں تھے کہ دادا کا انتقال ہوگیا۔ راشد سکول چھوڑ کر اپنے پھوپھا ڈپٹی نذیر احمد دہلی کے تلمیذ بن گئے تاہم البتہ میٹرک نہ کرسکے۔ ۱۸۹۰ء میں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ ۱۸۹۱ء میں وہ محکمۂ بندوبست علی گڑھ میں کلرک بھرتی ہوئے۔ یکے بعد دیگرے کئی ملازمتیں تبدیل کیں اور بالآخر ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے دفتر میں سب آڈیٹر تعینات ہوئے۔ ۱۹۰۳ء میں پہلا افسانہ ’’نصیر و خدیجہ‘‘ لکھا۔ ۱۹۱۰ء میں یہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور اپنی ذات کو صرف ادبی کاموں کے لیے وقف کردیا۔ ۱۹۰۸ء میں دہلی سے رسالہ ’’عصمت‘‘ نکالا۔ اپریل ۱۹۱۱ء میں دہلی سے ذاتی پریس سے رسالہ ’’عدن‘‘ نکالنا شروع کیا۔ جو ان کے مضمون بعنوان ’’طرابلس سے ایک صدا‘‘ کی اشاعت پر ۱۹۱۳ء سے حکومتی پابندیوں کا شکار رہا۔ ۱۹۱۵ء میں ہفتہ وار رسالہ ’’سہیلی‘‘ نکالا جو محض چند ماہ چل سکا۔ ۱۹۱۸ء میں پنجاب یونیورسٹی نے نصاب کی تصحیح کی خدمت ان سے لی۔ ۱۹۲۵ء میں نیشنل یونیورسٹی نے ان کو اردو کا اوّلین ممتحن مقرر کیا۔ ۱۹۲۱ء میں اردو ہندی کی ترقی کے لیے ہند سے بحیثیت ماہر اردو حکومت بہارواڑیسہ کے مشیر رہے۔ ۱۹۳۲ء میں ۲ ماہ کی علالت کے بعد دہلی میں وفات پاگئے(۴)۔
جزو دوم: راشد الخیری کے ہاں زیرِ بحث آنے والے اہم موضوعات:
علامہ راشد الخیری کے ہاں مضامین کا تنوّع پایا جاتا ہے۔ ذیل میں اسی تناظر میں ان کی تخلیقات کے مختلف موضوعات کی جھلک پیش کی جارہی ہے:
راشد الخیری بطور مُبلّغ:
راشد الخیری کی کئی تحریریں ان کے تبلیغی انداز کی بھرپور عکّاس ہیں۔ ان کا مخاطب پورا مسلم معاشرہ ہے جسے وہ تعلیمات اسلامی کی تذکیر کے ذریعے بیدار کرنے کی سعی و کاوش کرتے ہیں مثلاً نوحہ زندگی کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ہادی برحق کو رسول اللہ سمجھنے والے مسلمان ذرا آنکھ ملا کر بات کریں اور ایمان سے کہیں کہ کیا جہالت کا زمانہ جب معصوم لڑکیوں کے گلے گھونٹ دیے جاتے تھے، اس سے بہتر تھا کہ وہ بڑی ہوکر اور بیوہ بن کر ان مظالم سے دور رہتی تھی۔ اس لیے کہ ایک بیوہ خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے موافق نکاح ثانی کرتی ہے آج دنیا اس کی دشمن ہے۔‘‘(۵)
اسی طرح صبح زندگی کا یہ اقتباس:
’’ہم کو خدا کا لاکھ لاکھ شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایسا دین ہم کو ملا جس میں ہمارے حقوق کی پوری حفاظت ہوئی۔ ہم اپنے مال کے مالک، اپنی مرضی کے مختار۔۔۔۔ اسلام نے ہم کو ہر طرح کی آسائش اور ہر طرح کا آرام دیا ہے۔ غور کرو اور سوچو۔ فرماتے ہیں: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘۔
علامہ کی تحریروں میں اسی مذہبی و تبلیغی عنصر کے وجود پر تبصرہ کرتے ہوئے پریم چند گلہ کیے بِنا نہ رہ سکے:
’’غیر مسلموں کو راشد سے اگر کوئی شکایت ہوسکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے مسلمانوں کے لیے لکھا، جس طبقے کو آپ اٹھانا چاہتے ہیں وہ مسلمانوں کا طبقہ ہے۔ اتنا ہی نہیں کہیں کہیں تو ان کے افسانے مذہبی تبلیغ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں‘‘(۷)۔
۲- راشد الخیری بطور مصلح:
راشد الخیری علی گڑھ تحریک سے خوب متاثر تھے بنابریں انہوں نے اردو افسانے میں معاشرتی اصلاح پسندی کی داغ بیل ڈالی۔ طبقہ نسواں کی زبوں حالی اور معاشرتی انحطاط ان کا خاص موضوع تھا۔ لیکن بالفاظ احمد ندیم قاسمی ’’وہ نہ صرف طبقہ نسواں کے مصلح اعظم تھے بلکہ دائرہ ذکور بھی بہت حد تک علامہ مرحوم کا گرویدہ احسان ہے کیونکہ مرد کا کردار عورت ہی بناتی ہے‘‘(۸)۔ سو ان کی نگارشات خود شاہد ہیں کہ علامہ نے اپنے ناولوں افسانوں کے مختلف کرداروں کے ذریعے اخلاقی تنزل کے خاتمے اور معاشرتی اصلاح کی بھرپور کوشش کی۔ معاشرے کی قبیح رسوم اور مذموم روش پر کڑی تنقید و نکتہ چینی کی۔ نیز متوسط طبقے کی گھریلو زندگی، ان کے مسائل وغیرہ کی عکّاسی بڑی مہارت سے کی اور قصہ گوئی کے انداز میں معاشرے کے منفی کرداروں کی نشان دہی بھی کی۔ مثلاً نوحہ زندگی میں قدیر اور اس کے شرکائے کار کے کردار
راشد الخیری- سیرت نگار و مؤرخ:
علامہ راشد الخیری کو تاریخ و سیرت نگاری سے بھی خاص شغف تھا اور انھوں نے اس فن میں بھی اپنے قلم کے جوہر خوب دکھائے ہیں۔ اسلامی تاریخ پر انھوں نے نو ناول تحریر کیے۔ تاریخ و سیرت پر چھ کتب بھی تحریر کیں۔ بقول احمد ندیم قاسمی وہ تاریخ کی جانب اس لیے راغب ہوئے کہ وہ اصلاح معاشرہ کا نسخہ ماضی سے حاصل کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے شعوری طور پر ساری تاریخ اسلام کے مختلف ادوار کو التزاماً ادبی صورت دینے کا عہد کرلیا تھا۔ حضرت عمرؓ کا دورِ حکومت (یاسمین شام اور ماہ عجم)، حضرت عثمانؓ کا دورِ خلافت (محبوب خداوند)، کربلا اور اس کے نتائج (عروس کربلا)، خلافت عباسیہ کا عہد (امین کا دم واپسیں)، خاندان عباسیہ کی تباہی، ہلاکو کے حملے اور اباقع خان کی حکمرانی (شہنشاہ کا فیصلہ)، اسپین میں اسلامی حکومت کا زوال (اندلس کی شہزادی) سلطنت مغلیہ کی تباہی اور غدر ۱۹۵۷ء (نوبت پنج روزہ) غرض تمام بڑے واقعات و ادوار پہ انہوں نے کتب لکھیں۔ ان کے علاوہ بہت سے افسانے و مضامین جن میں مسلمان بادشاہوں سے عقیدت کا اظہار اور عیسائی عالموں، مثلاً جرجی زیدان، کے حملوں کا جواب ہے۔(۹)
سیرت نگاری کے میدان میں ان کے قلم سے نکلنے والے جواہر میں نمایاں الزھرا، امت کی مائیں، آمنہ کا لال، سیّدہ کا لال، نیز وداعِ خاتون ہیں۔ انہیں سیرت نگاری، بطورِ خاص خواتین کی سیرتیں پیش کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا(۱۰)۔
انہوں نے قصص الانبیا کو بھی ادبی رنگ میں پیش کیا ہے۔ مثلاً نالۂ زار افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک افسانہ ’’چراغ سحری‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے بڑی روانی و برجستگی سے قصصِ انبیا بیان کیے ہیں۔ انھوں نے حضرت یوسفؑ کی جدائی پر حضرت کی جدائی پر حضرت یعقوبؑ کا رنج و الم، بے چینی و اضطراب اور پھر پورا واقعہ فرعون کا اولادِ نرینہ کو قتل کرڈالنے کا حکم اور حضرت موسیٰؑ کی والدہ کا صبر و استقامت تا آخر واقعہ نیز دیگر قصص بہت پُرتاثیر انداز میں بیان کیے ہیں(۱۱)۔
راشد الخیری – خواتین کے مسائل کے عکّاس:
راشد الخیری کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک صنف نازک کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں اور امتیازی سلوک ہے۔ انھوں نے مرد کی اجارہ داری کی بنا پر تشکیل پانے والے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو بطورِ خاص ہدفِ بحث بنایا ہے۔ چنانچہ شوہر کی دوسری شادی پر پہلی بیوی کی کسمپرسی، سوتیلی ماؤں کا بچوں سے ظالمانہ سلوک، بیٹی کی پیدائش پر ماں کے ساتھ برا سلوک، غریب رشتہ داروں کے ساتھ لوگوں کا ناروا سلوک وغیرہ ان کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں عورت کی مظلومیت، خاوند کی زیادتیوں وغیرہ پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ راشد الخیری ہندوستانی عورت کو انتہائی مظلوم مخلوق تصور کرتے تھے اور ہندوستانی سماج میں اس کی زبوں حالی کو دیکھ کر کڑھتے تھے۔ بدیں سبب انھوں نے معاشرے کی ان قبیح رسوم پر کڑی نکتہ چینی کی جن کی بدولت عورت مظلوم بن کر رہ گئی تھی۔ عورت کی بے کسی کو انھوں نے یوں مُصوَّر کیا کہ مُصوّرِ غم کا خطاب پایا۔
راشد الخیری- عالمی منظر نامے کے نقیب:
راشد الخیری کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع تھا عالمی سیاسی منظر نامہ نیز ہندوستان کے حالات۔ بنابریں ہم ان کے ہاں عربوںاور ترکوں پر ہونے والے مظالم کی خونچکاں داستانیں بھی پاتے ہیں مثلاً ان کا افسانہ ’’طرابلس سے ایک صدا‘‘ طرابلس پر اطالوی حملے کے خلاف بھرپور احتجاج ہے۔ بطور مثال چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اطالیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جنگ طرابلس نے اچھی طرح ثابت کردیا ہے کہ یہ تہذیب و تمدن کے مدّعی انسانی دنیا کے لیے سود مند ہیں کہ اپنی محترم خواتین کو سر راہ دکانوں میں بٹھا کر لوگوں کو آوارگی کی جانب مائل کریں۔ ورنہ ہمدردی بنی نوع انسان جو انسانیت کا سچا زیور اور اسلام کا پہلا اصول تھا ان میں نام کو نہیں‘‘(۱۲)۔
’’اطالیہ نے یورپ میں اپنی ہی عزت پر پانی نہیں پھیرا بلکہ اپنے ساتھ بہت سی برادری کی ناک کٹوا دی اور تاریخ کو دکھا دیا کہ جہاں مغرب میں مرحوم شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جیسی صلح جو طبیعتیں پیدا ہوئی ہیں اور شہنشاہ جارج پنجم میں ہمدرد بادشاہ موجود ہے وہاں وہ بدبخت لوگ بھی زندہ ہیں جو کسی اعتبار سے انسان کہلائے جانے کے لائق نہیں۔ا طالیہ طرابلس میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے گلے سنگینوں سے چھید رہی ہے۔ ان کے آہ و نالے سننے والوں کے دل دہلا دیتے ہیں لیکن مہذب لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں چلتی‘‘۔(۱۳)
اس احتجاج کی سزا کے طور پر ان کے رسالے ’’تمدن‘‘ کا زرِ ضمانت بھی ضبط کرلیا گیا اور ان کو مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ راشد نے ایک مظلوم خاتون جس کے بیمار شوہر اور چار بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا، کی صدا بہت مؤثر اور الم ناک انداز میں پیش کی گئی ہے اور آخر میں بہت ایمان افروز کلمات ہیں۔
نیز مسلمانوں، اسلامیان عالم کو بالعموم اور اسلامیان ہند کو بالخصوص، کو ان کی بے حسی پر سرزنش بھی کی ہے مثلاً: ’’شہید مغرب‘‘ میں یہودی نومسلم خاتون مریم کا آخری خط، جو اس نے شہادت سے قبل اپنے دیور کے نام لکھا، کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’کاظم آفندی تم اور تمہارے بھائی جو مسلمان ہونے کے مدعّی ہیں کس دل سے آج کل پیٹ بھر کے کھا رہے ہیں جب ان کے رسولؐ کے کلمہ گو بھائی بہنوں کو کئی کئی وقت کے بعد مٹھی بھر دانے میسّر آتے تھے۔۔۔ تمہارا کھانا تم پر حرام ہے جب تک تم اپنے دسترخوان سے ایک روٹی اٹھا کر ان خانماں بربادوں تک نہ پہنچا دو جو اپنے کلیجوں کے ٹکڑے برابر کے بھائی، بڈھے، ماں باپ گنوا کر صرف لااِلہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی حفاظت کررہے ہیں۔‘‘(۱۴)
اسی طرح ہندوستان کے حالات پر نوحہ خوانی بھی علامہ کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً ’’سیاہ داغ‘‘ میں انہوں نے جلیانوالہ باغ میں ہونے والے سانحے کی خوب تصویر کشی کی ہے نیز اس افسانے میں انہوں نے ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھا اور دکھایا ہے(۱۵)۔
ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کا قیام ان کی بہت بڑی آرزو تھی چنانچہ ہندومسلم کشیدگی پر ان کی آزردگی ان کی تحریروں سے مترشح ہے۔ مثلاً دیکھیے ’’کلونیتاں‘‘۔ اس میں تمثیل کی صورت، شہرزاد کی داستان گوئی کا منظر پیش کیا ہے اواخر افسانہ میں ہندو مسلم اتحاد کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک ماں کی دو بیٹیوں کی مثال دی ہے جو مسلسل لڑائی جھگڑے ، مناقشے و تنازعے میں برسرپیکار ہیں۔ ان کی قریب المرگ ماں ان سے کہتی ہے کہ ’’درگزر کا مادہ پیدا کرو‘‘۔ افسانے کے آخر میں شہرزاد بہت رنج و الم سے بھرپور لہجے میں یہ کہتی ہے:
’’بادشاہ یہ عجوبہ روزگار بچیاں ابھی زندہ ہیں ان کے دیکھنے کا شوق ہو تو ہندوستان کا رُخ کیجیے۔ دونوں تبلیغ اور شدھی کے روپ میں نظر آئیں گی‘‘(۱۶)۔
اختتامیہ:
مندرجہ بالا معروضی حقائق کی روشنی میں سہیل حسن کا دعویٰ بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ہمارے ناقدین کا سہل پسندانہ رویہ تھا جس کے سبب علامہ راشد الخیری کے کام کی جہات اپنی بھرپور شکل میں سامنے نہ آسکیں اور انہیں محض مصورِ غم مشہور کردیا گیا۔
گزشتہ صفحات میں پیش کردہ مثالیں انہیں ایک ہمہ جہت اور نہایت حسّاس طبع ادیب ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بلاشبہ اردو ادب میں المیے کا آغاز ان سے ہوا اور وہ طبقۂ نسواں کے مصلح تھے لیکن مرد کی کردار سازی بھی عورت ہی کرتی ہے بنابریں تمام معاشرہ ہی ان کا موضوع اور میدان تھا۔ ان کو محض خواتین کا مصورِ غم قرار دینا ان کے فن سے ناشناسی یا پھر اس کی قدر ناشناسی ہی ٹھہرے گی۔
حواشی:
۱- ڈاکٹر سلیم اختر، اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۲۰۰۵، ص: ۴۵۱؛ رام بابوسکینہ: تاریخ ادبِ اردو، ت مرزا محمد عسکری، گلوب پبلشرز، لاہور
2- Muhammad Sadiq: A History of Urdu Literature, Karachi, 1964, p. 512-513
۳- محمد احسن فاروق، اردو ناول نگاری کی تنقیدی تاریخ، لاہور، ۱۹۵۱ئ، نیز سہیل بخاری: اردو ناول نگاری۔
۴- راشد الخیری کے مفصّل سوانحی خاکے کے لیے دیکھیے: ماہنامہ عصمت، راشد الخیری نمبر
عابدہ سمیع الدین “Rashid al-Khari” در Encyclopedic Dictionary of Urdu Literature, Global Publishing House, Delhi, 2004. ؛ مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، اردو افسانے کی روایت، اکادمی ادبیات، اسلام آباد ۱۹۹۱ئ، ص: ۱۶۵-۱۶۶؛ رازق الخیری، مجموعہ راشد الخیری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۸ئ، دیباچہ عصمت، جولائی ۱۹۶۴ئ، سوانح عمری راشد الخیری۔
۵- راشد الخیری، نوحہ زندگی، مشمولہ مجموعہ راشد الخیری، ص: ۵۴۷
۶- ایضاً، صبح زندگی مشمولہ مجموعہ راشد الخیری، ص: ۲۵۵
۷- پریم چند: ’’علامہ راشد الخیری کے سوشل افسانے‘‘ در عصمت، کراچی فروری ۱۹۸۶ئ۔
۸- امروز، لاہور ۴ فروری ۱۹۵۱ئ، بحوالہ سوانح عمری علامہ راشد الخیری، اگست ۱۹۶۴ئ، ص: ۶۳۲-۶۳۳۔
۹- احمد ندیم قاسمی ماخوذ از امروز لاہور، ۴ فروری ۱۹۵۱ئ، بحوالہ سوانح عمری علامہ راشد الخیری، عصمت، اگست ۱۹۶۴ئ، ص: ۶۳۲-۶۳۳
۱۰- تفصیلی آرا کے لیے دیکھیے: ممتاز منگلوری: ’’اردو ناول اور افسانہ‘‘ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، ج: ۱۰، ص: ۱۵۷؛ علی عباس حسینی، ناول کی تاریخ اور تنقید، ص: ۳۸۷؛ نادرہ زیدی: ’’عورتوں کا ادب‘‘در تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند، ج: ۹، ص: ۴۷۱۔
۱۱- راشد الخیری، نالۂ زار، مشمولہ مجموعہ راشد الخیری، سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور، ۲۰۰۴، ص۶۰۹-۶۱۱
۱۲- راشد الخیری،’’ طرابلس سے ایک صدا‘‘، ص: ۳۳۔
۱۳- ایضاً، ص۳۳۔
۱۴- راشد الخیری، ’’شہید مغرب‘‘ مشمولہ شہید مغرب، عصمت بک ڈپو، دہلی، س ن، ص: ۱۷۔
۱۵- دیکھیے: راشد الخیری، ’’سیاہ داغ‘‘ مشمولہ شہید مغرب، ص: ۴۴ تا ۵۱۔
۱۶- راشد الخیری، ’’کلونیتاں‘‘ مشمولہ شہید مغرب، ص۸۳؛ نیز دیکھیے: عصمت سالگرہ نمبر، جولائی ۱۹۹۴ئ۔
٭٭٭
سینیئر مدیر شعبہ اردو دائرۂ معارفِ اسلامیہ
پنجاب یونیورسٹی، لاہور ،موبائل:۱۰ ۴۱۹۶۲۔۰۳۲۱
Leave a Reply
2 Comments on "علامہ راشد الخیری- محض مصور غم؟"
[…] 171. علامہ راشد الخیری- محض مصور غم؟ […]
[…] علامہ راشد الخیری- محض مصور غم؟ […]