امیرشریعت سادسؒ:نقوش وتاثرات
نام کتاب:امیرشریعت سادسؒ:نقوش وتاثرات
مولف:محمدعارف اقبال
قیمت : پانچ سو روپئے(500)
ضخامت : 684صفحات
ناشر:شعبہ نشرواشاعت مدرسہ امدادیہ،لہریاسرائے، دربھنگہ
مبصر:محمدشارب ضیاء رحمانی
امیرشریعت سادس حضرت مولاناسیدنظام الدین علیہ الرحمۃ کواللہ نے دینی امورمیں درک عطافرمایاتھااوردینی اداروں کوحسنِ انتظام کے ساتھ چلانے کی صلاحیت عنایت فرمائی تھی، آپ کی شخصیت اسمِ بامسمیٰ تھی۔آپؒ ایک عہدکے نمائند ہ تھے ،خلوص،بردباری،ہمت وحوصلہ کے پیکرتھے ،بے لوث خادم قوم تھے اوربزرگوں کے نقوش پرچل کردین متین کے مخلص خادم تھے۔ امارت شرعیہ اورمسلم پرسنل لاء بورڈآپ کی خدمات کااہم میدان رہے ہیں،ان دونوں اداروں کو نہ صرف آپ نے نہایت دوراندیشی سے بڑھایا،بلکہ اپنے بڑوں کی امانت کوسینے سے لگاکراس کی ترقی وتوسیع کیلئے پوری زندگی وقف کردی۔ خلوص وللہیت کے پیکرایسے بزرگوں کی زندگیاں آنے والے لوگوں کیلئے مشعل راہ ہواکرتی ہیں۔بزرگوں کی خدمات کوجمع کرنے کامقصداس سے روشنی حاصل کرناہے جس کے ذریعہ نئی نسل مستفیدہوسکے۔چنانچہ اس’’میرکارواں‘‘ کی سوانح و خدمات سے روشناس کرانے کی اولیت کاسہراعارف اقبال کے سرجاتاہے۔ان کی پہلی کاوش ’’باتیںمیرِکارواں کی‘‘کے نام سے 2014ء میں سامنے آئی جوامیرشریعت مولاناسیدنظام الدین صاحب کی اولین سوانح عمری ہے۔مولف کتاب نے اپنی کم عمری کے باوجودایک اہم کام کوانجام دیا،جس پرمشاہیراہل قلم نے داددی،حوصلہ بڑھایا،حوصلہ پاکراشہب قلم آگے کی طرف بڑھاجس کے نتیجہ میں زیرتبصرہ کتاب’’امیرشریعت سادس نقوش وتاثرات‘‘کی تالیف عمل میں آئی۔اس کتاب کی تالیف وترتیب کاکام یوںتوپہلی کتاب کی رسمِ اجراء کے بعدہی شروع ہوگیاتھاتاہم آپ کی زندگی میں یہ کتاب شائع نہ ہوسکی۔مدرسہ امدادیہ لہریاسرائے دربھنگہ سے شائع ہونے والی 684صفحات پرمشتمل اس کتاب کے مندرجات ،حضرت مولاناکی شخصیت ،خدمات اورسوانح کے مختلف پہلوئوں پراہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔مولف کے مطابق ان کی پہلی کتاب’’باتیں میرکارواں کی‘‘حضرت امیرشریعت ؒ کی مکمل سوانح حیات تھی اورپہلی تصنیف وتالیف جبکہ یہ دوسری کتاب مختلف اہل ِ علم،دانشورانِ قوم،رہنمائے ملت کے مضامین ومقالات اورخیالات وتاثرات کے مجموعہ کی شکل میں پیش کی گئی ہے‘‘۔ان کے مطابق 80؍ فیصدمضامین غیرمطبوعہ اوروفات سے قبل کے لکھے ہو ئے ہیں۔
مقدمہ کے بعدمیرِعصرڈاکٹرکلیم عاجزکابیش قیمتی پیش لفظ ہے، پھرحرف ِچند،تقریظ،تبریک،چندسطور،نقشِ آرزو،حرف تاثرات اورمنظوم تاثرات کے عنوانات کے ساتھ مفتی عزیزالرحمن فتح پوری ،پروفیسرابن کنول اورڈاکٹربدرالحسن قاسمی کویت جیسے معروف اہل قلم کی اہم تحریریں پیش کی گئی ہیں۔کتاب چھ ابواب پرمشتمل ہے۔پہلے باب میں سہیل انجم،کاکاسعیدعمری ،مولاناقاسم مظفرپوری ،مولاناخالدرشیدفرنگی محلی،مولاناابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر اسمازہرا اورصفی اخترکے اہم مضامین ،حالات ِ زندگی اورکارناموں سے متعلق ہیں۔اس باب کی خاص بات ماہنامہ ہدایت جے پورسے منقول مولاناامین الدین شجاع الدین کاامیرشریعت ؒ سے ایک اہم انٹرویوبھی ہے ،جوانہوں نے نومبر2000میں لکھنوکے ایک سفرکے دوران آپ سے لیاتھا۔اس کے تحت مسلم پرسنل لاء بورڈکی تشکیل کے عوامل ،بورڈکی تشکیل کی تاریخ ،مسلم پرسنل لاء کی تدوین،بورڈکی خدمات واقدامات ،یونیفارم سول کوڈاورمعاشرہ میں غیروں کی رسم وراج پرمدلل گفتگوپیش کی گئی ہے ۔دوسراباب امیرشریعت سادسؒ کی اداروں سے وابستگی سے متعلق ہے جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ،مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی،المعہدالعالی،مدرسہ امدادیہ اورجامعہ رشیدالعلوم چتراسے متعلق ان کی یادوں کے نقوش زیبِ قرطاس ہیں۔حالانکہ امارت شرعیہ،جومسلم پرسنل لاء بورڈکے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کااہم میدان ہے،جس کی ایک ایک اینٹ آپ کی خدمات کی گواہ ہے،اوراسی بناپر’’امیرشریعت‘‘سے ملقب رہے ، سے وابستگی کاتذکرہ بھی ’اـداروں سے وابستگی‘کے موضوع کے تحت ہوناچاہئے تھا،بلکہ اس ادارہ میں نصف صدی پر محیط آپؒ کی خدمات ،متقاضی تھیں کہ مستقل ایک باب ہوتاجس کے تحت بحیثیت ناظم اوربحیثیت امیرشریعت ان کی خدمات کے کئی اہم پہلوئوں پرروشنی ڈالی جاسکتی تھی۔ گرچہ مقدمہ میں مولف نے لکھاہے’’ آپ نے پوری زندگی امارت شرعیہ اورآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈکی خدمت میں گذاری ہے لیکن اس کے باوجودبے شماراداروں سے آپ کاتعلق رہاہے۔جن میں سے چنداہم اداروں سے آپ کے تعلقات پرروشنی ڈالی گئی ہے‘‘۔انہوں نے اعتراف کیاہے کہ طوالت کے باعث تمام اداروں کاذکراوران سے وابستگی کوپیش کرنے سے میں قاصررہا‘‘ ۔پھربھی میرے نقطہ نظرسے اس باب میں امارت شرعیہ سے متعلق ان کی خدمات کاتفصیلی تذکرہ ضروری تھا۔
تیسرے باب میں ’بزرگوں اورہم عصررفقاء سے تعلق ‘کے عنوان کے تحت مولاناسیدابوالحسن علی ندویؒ،مولاناسیدمنت اللہ رحمانیؒ،مولاناعبدالرحمنؒ،قاضی مجاہدالاسلامؒ،مولاناشاہ ذوالفقاراحمدؒ،مولانارابع حسنی ندوی،مولاناسیدمحمدولی رحمانی اورمولاناخالدسیف اللہ رحمانی سے آپ ؒ کی وابستگی وتعلقات پرمولاناسیدرابع حسنی ندوی،مولاناواضح رشیدندوی،پروفیسرشاکرخلیق،وصی احمدشمسی،صفی اختر،مفتی نذرتوحیدالمظاہری،نورالسلام ندوی اورمفتی امتیازاحمدقاسمی کے مضامین اہمیت کے حامل ہیں۔چوتھے باب میں آپ کی ادبی وصحافتی خدمات بیان کی گئی ہیں۔ادبی امورپرمولانارابع حسنی ندوی نے پرمغز تحریرلکھی ،’شاعرگم گشتہ‘ کے عنوان سے ڈاکٹرکلیم احمدعاجزکی سندمرقوم ہے۔’اسلامی صحافت کے تصور‘کے عنوان سے ڈاکٹرشاہدالاسلام اوران کے اداریئے کے حوالہ سے ڈاکٹرشہاب الدین ثاقب کی معلوماتی تحریرپیش کی گئی ہے ۔پانچویں باب میں’باتیں میرِکارواں کی‘سے متعلق خطوط،منظوم تاثرات،رپورتاژ،رسم اجرائ،تبصرے اورمختلف اخبارات کے تراشے مندرج ہیں۔با ب ششم سانحہ ارتحال کے بعدتعزیت نامہ سے متعلق ہے،جس میںنائب صدرجمہوریہ حامدانصاری،مولانارابع حسنی ندوی سمیت دیگرمشاہیر کے تعزیتی پیغامات جمع کئے گئے ہیں۔بعدازاں آپؒ کے انتقال کے بعدلکھے جانے والے بائیس مضامین میں خدمات کے مختلف پہلوئوں،اوصاف واخلاق ،افکاراوراہم سوانحی پہلوئوں پرروشنی ڈالی گئی ہے۔یہ مضامین تفصیل کے ساتھ ان تمام پہلوئوں کااحاطہ کرتے ہیں اورامیرشریعت کی خدمات سے متعلق بھرپورمعلومات فراہم کرتے ہیں۔پھران کی وفات پراخبارات کی سرخیوں کی جھلک پیش کی گئی ہے۔علاوہ ازیںچھ قطعات وفات درج ہیں۔علاو ہ ازیں کتاب کی طباعت بھی عمدہ ہے، ضخامت بھی متوازن ہے،سرورق جاذب نظرہے۔کتاب کی پشت پرمولف کتاب کے نام امیرشریعتؒ کاآخری مکتوب اہمیت کاحامل ہے جس سے مولف سے ان کی شفقت کااندازہ بھی ہوتاہے۔خلاصہ یہ کہ عارف اقبال کی یہ تالیف دوسالہ مسلسل کدوکاوش کابہترین نتیجہ ہے۔یہ کتاب امیرشریعت سادسؒ کی زندگی وخدمات کوسمجھنے اورجاننے کیلئے بہترین کاوش ہے جوان کی زندگی وخدمات پرکام کرنے والوں کیلئے ایک اہم دستاویزثابت ہوگی۔
٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "امیرشریعت سادسؒ:نقوش وتاثرات"
[…] 93. امیرشریعت سادسؒ:نقوش وتاثرات […]