اردو صحافت اور علماء
اردو صحافت اور علماء
نام کتاب: اردو صحافت اور علماء
نام مصنف: سہیل انجم
صفحات:۲۹۵
قیمت:۳۸۰
ناشر:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی۶
سن طباعت:۲۰۱۶
مبصر: ناظر انور ۔۲۲۵نرمدا ہاسٹل، جواہر لال نہرو یونیورسٹی یو نئی دہلی
اردو صحافت کے حوالے سے سہیل انجم کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ ان کے مضامین اور کالم مختلف اخبارا و رسائل میں برابر چھپتے رہتے ہیں ۔ متنوع موضوعات پر مبنی ان کی تحریریں گہری سیاسی ،اورسماجی بصیرت کی حامل ہوتی ہیں ساتھ ہی یہ تحریریں اپنے صحافتی دائرے میں صرف ہنگامی سیاسی اور سماجی معاملات کی خبر نگاری اور ایک سرسری سی رائے زنی تک ہی محدود نہیں ہوتیں بلکہ ان کا ایک خاص علمی اور فکری سروکار انہیں ایک وقار عطا کرتا ہے اور انہیں معاصر صحافتی کارگزاری میں ممتاز بناتا ہے۔ سہیل انجم کی وابستگی عملی صحافت کے ساتھ صحافت کی تاریخ ،تہذیب اور اس کے نظری معاملات سے بھی رہی ہے ۔انہوں نے کئی کتابیں صحافت اس کی تکنیک ،طریقہ کار اور نئے زمانے میں صحافت اور ترسیل کے بدلتے ہوئے رویوں کے حوالے سے لکھی ہیں ۔حال ہی میں ان کی ایک نئی کتاب ’’اردو صحافت اور علماء‘‘ چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ۔کتاب کے نام سے ہی بڑی حد تک موضوع کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو صحافت کو اس کی بلندیوں تک پہنچانے اور ترقی یافتہ بنانے میں علماء کرام کی صحافتی خدمات کا ایک اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے وطن عزیزکوفرنگیوں سے آزاد کرانے میں اپنی تحریروں کے ذریعہ قوم کو متحدکیا اور ملک کے طول وعرض سے اخبارات ،رسائل اور جرائد کا اجرا کیا۔ان کے توسط سے ہی ہندوستانیوں کوظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا ۔ علماء کا اخبارات کے اجرا کرنے کا اولین مقصد ملک کے سیاسی ،معاشرتی اور تہذیبی حالات سے قوم کو آگاہ کرناتھا تاکہ وہ ملک کے نازک ترین حالات سے مکمل واقفیت کے بعد صحیح سمت میں فیصلے لے سکے ۔ مولانا محمد علی جوہرنے ایک موقعے پر کہا تھا کہ’’میں نے صحافت پیسہ کمانے کے لئے اختیار نہیں کی بلکہ ملک وملت کی خدمت کے لئے،میں رہنماں ہوں رہزن نہیں ‘‘۔ علماء کرام کی صحافتی وابستگی کا یہ وہ سیاق ہے جس سے ان کی صحافتی خدمات اپنا ایک انفراد قائم کرلیتی ہیں ۔ ان کی نظر میں ان کا عہد تھا ،اس کے حالات تھے اور اس کی ضرورتیں تھی ۔وہ بے خوف وخطر لکھتے تھے ۔ان کی اس صحافتی ایمانداری نے ان کیلئے مشکلیں بھی پیداکیں ۔ ان کے اخبارات بند کئے گئے ،انہیں جیل بھیجا گیا اور مختلف کی قسم کی مشقتوں اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اپنے مشن میں لگے رہے ۔اب تک کوئی ایسی کتاب تحریر نہیں کی گئی تھی جو علماء کرام کی صحافتی خدمات اور ان کی حصولیابیوں کو پوری ایمانداری کے ساتھ موضوع بنائے ۔ سہیل انجم نے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے بہت سنجید گی سے لیا ہے اور پوری علمی اور تحقیقی دیانتداری کے ساتھ تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب تیار کی ہے ۔
اس کتاب میں ۲۹ علماء کرام کے صحافتی سفر کاتفصیلی ذکر کیا گیا ہے نیز ان کے اخبارات ،رسائل وجرائداور پیدائش ووفات کی تفصیل بھی پیش کی گئی ہے۔ جن علماء کرام کا ذکراس کتاب میں ہے ان میں بہت سی ایسی عظیم ہستیاں بھی ہیں جن کے تذکرے کے متعدد حوالے ہیں ( مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا امدادصابری ،مولانا محمدعلی جوہر،علامہ راشدالخیری،مولاناعبدالماجددریابادی، علامہ سید سلیمان ندوی،مولاناعبدالحلیم شرراورعلامہ نیاز فتح پوری )لیکن بیشتر مقامات پران کے تذکرے میں ان کی صحافتی خدمات کے اہم ترین گوشے چھوٹ جاتے ہیں سہیل انجم کی اس کتاب کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں ان علماء کی صحافتی زندگی کے تمام گوشوں پرتفصیل سے لکھا گیا ہے۔
اس کتاب کا پیش لفظ حفیظ نعمانی اورمقدمہ فیروز دہلوی نے تحریر کیا ہے ۔مصنف نے جن علماء کرام کی صحافتی خدمات کا ذکر کیا ہے اوران کی زندگی پہ تفصیلی روشنی ڈالی ہے ان میں مولانا ابوالاعلی مودودی، مولانا ابولکلام آزاد، مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ امرتسری، مولانا امداد صابری، تاجور نجیب آبادی، مولاناڈاکٹر حامد الانصاری انجم، مولانا حامد الانصاری غازی،علامہ راشدالخیری،سعید احمد اکبرآبادی، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ظفر علی خاں ، مولانا عامر عثمانی، عبدالباقی، مولانا عبدالحلیم شرر، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی،مولانا عبدالماجددریابادی،عبدالمجیدسالک، مولاناعبدالوحید صدیقی، مولانا عبد السلام بستوی، عبداﷲ عمادی، مفتی عتیق الرحمن، مولانا عمر درازبیگ،غلام رسول مہر، ماہر القادری، مولوی مجید حسن، مولوی محبوب عالم، مولانا محمدباقر، مولانا محمد عثمان فار قلیط،مولانا محمد علی جوہر،محمد مسلم، مولانا محمد منظور نعمانی، معراج الدین احمد، نصراﷲ خاں عزیز اور علامہ نیاز فتح پوری وغیرہ کا نام اہم ہیں ۔ کتاب کی ابتدا میں مصنف نے ’’علماء کی صحافتی خدمات ‘‘ کے عنوان سے ایک جامع اورمفید مضمون تحریر کیا ہے جس میں تقریبا پچاس سے زائد صحافیوں اور ان کے اخبارات و جرائد کا ذکر ہے۔ اس مضمون میں بالخصوص ان علماء کرام کی خدمات کا ذکر کیاگیا ہے جو اکثر مقامات پہ بھلا دیئے جاتے ہیں ۔ جن میں مولوی کریم الدین کا ماہنامہ ’’گل رعنا‘‘، مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی کا ماہنامہ ’’اشاعت السنہ‘‘،مولاناعاشق الہی میرٹھی کا ماہنامہ ’’الرشاد‘‘، دارالعلوم دیوبند سے جاری کئے گئے رسالے ماہنامہ ’’الرشید‘‘ اور ماہنامہ ’’القاسم‘‘، مولانا عبدالستارکلانوری کاماہنامہ ’’ہمدرداہلحدیث‘‘، مولانا داؤد غزنوی کا ہفت روزہ ’’توحید‘‘،دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا ماہنا مہ ’’ مجلہ سلفیہ‘‘، دارالحدیث رحمانیہ دہلی کا ماہنامہ ’’محدث‘‘( ایڈیٹر مولانا نذیر احمد رحمانی املوی)، مولانا محمد صاحب جوناگڈھی کا پندرہ روزہ اخبار ’’اخبار امحمدی‘‘ اور مولانا عبدالجلیل خاں کا ماہنامہ ’’ صحیفہ اہلحدیث ‘‘ وغیرہ خاص طور پہ قابل ذکر ہیں ۔
سہیل انجم نے علماء کرام کی صحافتی خدمات کو رقم کر کے اسلاف کے نایاب اور قیمتی ورثہ کوایک امانت کی شکل میں نئی نسل کے حوالے کر دیا ہے نیز صحافت کے حوالے سے تحقیق کی راہ بھی کھول دی ہے۔امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی ہوگی۔
Nazir Anwar
225, Narmada Hostel
JNU, New Delhi
E-mail: anwarnazir93@gmail.com
Mobile No.+919718994360
Leave a Reply
1 Comment on "اردو صحافت اور علماء"
[…] 42. اردو صحافت اور علماء […]