ہندی نہیں رہے ہم اردو زباں ہماری
(ادارتی نوٹ: شاہ نواز ہاشمی کے اس مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، خصوصا آزادی کے بعد اردو کو لے کر خود اردو آبادی اور سیاست دانوں کے رویہ کے بارے میں اس کی صداقت کا اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ لیکن اردو کے نام کے بارے میں انہوں نے جو تحقیق پیش کی ہے اس کے بارے میں مزید تحقیق کی گنجائش باقی ہے۔ ان کے مضمون کو من وعن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس پر اپنی رائے ضرور دیں ۔مدیر)
بہار میں اردو کی صورتحال پر کچھ کہنے سے پہلے ذرا لفظ ’اردو ‘ کی تشکیل پر غور کرلینا میرے خیال سے بے محل نہیں ہے۔ یہ لفظ سنسکرت کے دو شبدوں کے میل سے بنایا گیا تھا۔ ’ار‘ یعنی دل اور ’دو‘ یعنی دو ، مجموعی طور پر ’دودل‘ اور دودلوں کا میل ہی اردو ہے۔ تھوڑی تفصیل میں جائیں تو اس تشکیل کا عمل اس وقت ظہور پذیر ہوا جب ہندو اور مسلمانوں میں مصالحت کی راہ ہموار ہوئی۔ کیوں کہ دونوں ہی قومیں ایک اور اجنبی قوم (انگریز) کے دست نگر تھیں اور اس پر ان کا کوئی زور نہیں چلتا تھا۔مسلمان تب بھی نہ صرف وضع قطع میں ہندوستانیوں سے مختلف تھے بلکہ تہذیبی، ثقافتی اور لسانی طور پر بھی وہ ان سے بہت مختلف تھے۔ ان کی آپسی مصلحت پسندی سے جو زبان وجود میں آئی اور بلاشبہ وہ ایک مشترکہ تہذیب کی علامت بھی بنی وہی ’اردو‘ ہے۔ یہ اردو آج صرف بہار میں نہیں، ہندوستان میں نہیں، بلکہ اپنی گوناگوں صفات کی وجہ سے ملک کے باہر بھی لوگوں کو سرشار کررہی ہے۔یہی وہ زبان ہے جس کے لئے ایک برطانوی دانشور نے کہا تھا کہ اردو وہ زبان ہے جس پر ہندوستانی فخر کرسکتا ہے۔ فورٹ ولیم کالج کے بانی گلکرسٹ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ہندوستان میں عوامی زبان اگر کوئی ہے تو وہ اردو ہے۔ اسی طرح جیمس آگسٹس کے قول پر بھی غور کیا جائے تو اردو کی اہمیت آج بھی سابقہ طور پر مسلم ہے۔مگر افسوس کہ ہندوستان کے طبقہ ذاتی نظام نے اس بات کو کبھی گوارا نہ کیا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے اپنی تاریخی تقریر میں ملک کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے سے روکنے کیلئے کہا تھا ، ملاحظہ کیجئے:
’’… اگر ہم اب بھی مجبور ہیں کہ مذہبی تفریق کی بنا پر ہی اکثریت اور اقلیت کا تصور کرتے رہیں تو بھی اس نقشہ میں مسلمانوں کی جگہ محض ایک اقلیتی نہیں دکھائی دیتی۔ وہ اگر چھہ صوبوں میں اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں تو پانچ صوبوں میں ہماری اکثریت کی جگہ حاصل ہے۔ ایسی حالت میں کوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کو ایک اقلیتی گروہ ہونے کا احساس مضطرب کرے…۔‘‘ (وائس ریکارڈ آن انٹرنیٹ)
اگر مولانا آزاد نے مسلمانوں کو اقلیت کہے جانے کے عوض ’ملک کی دوسری اکثریت ‘ یا دوسری سب سے بڑی جماعت کہنے کی طرف اشارہ کیا ہے توظاہر ہے، اس کی وجہ یہ رہی کہ اقلیت کہہ کر مسلمانوں کو احساس کمتری میں نہ ڈالا جائے۔اب یہاں ’اقلیت‘ اور ’احساس کمتری‘ کی وضاحت کرنا میرے خیال سے موضوع کو طول دینا ہوگا لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مولانا نے تقسیم ہند کے بارے میں جو نظریات قائم کئے تھے یا تقسیم کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا، دیکھا جائے تو آج وہ تمام باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔اس میں شک نہیں کہ مولانا کو ہندوستان کی قدیم تاریخ کا صرف علم ہی نہیں تھابلکہ قدیم باشندگان کی تہذیب وثقافت پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ماقبل تاریخ سے لے کرہندوستان میں مسلم فاتحین کی آمد تک کی تاریخ پر اب بھی نئے سرے سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی قومیں مختلف فرقوں میں اور گروہوں میں رہ کر ہمیشہ ایک دوسرے سے متصادم رہتی تھیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ وہ خطوں، علاقوں اور قریوں میں مروجہ رواجوں کے موافق اپنے صنمیات وضع کرکے ان کی پرستش کرتے تھے۔ ان کے خدائوں کے الگ الگ نام تھے اور صرف نام ہی نہیں ان خدائوں سے منسلک خصوصیات پر مبنی الگ الگ رسومات کے تحت تہوار بھی تھے اور اب بھی ہیں ۔ جنوبی ہند میں بالا جی، مغرب میں گنپتی، شمالی ہند میں شری رام اور کرشن تو مشرق میں درگا جیسے دیوی دیوتائوں کی پرستش کی جاتی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شاید یہ کہنا بیجا نہیں کہ اب مغربی ہند میں چند برسوں میں ایک نیا رجحان سامنے آیاہے اور ریاست بہار میں جس طرح عرصہ دراز سے سورج کی اوپاسنا میں چھٹھ کی پوجاہوتی تھی، اسی طرح رواں دہائی سے وہاں بھی چھٹھ پوجا شروع ہوگئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو کوئی ایک صنم یا کوئی خدا کسی ایک خطے یا قریے میں محدود نہیں رہا اور سبھی دیوی دیوتائوں کی پوجا سبھی جگہوں پر یکساں عقیدت سے کی جانے لگی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں کی سابقہ قوموں میں اگر کوئی کرامتی تبدیلی آئی تو یہ کہ وہ ساری قومیں جو بکھری ہوئی تھیں اور علاقائی اجارہ داری کیلئے برسر پیکار رہتی تھیں، محوریت کی طرف مائل ہوگئیں۔ ملک کی آزادی سے پہلے اس پولرائزیشن میں وہ شدت نہیں تھی مگر آزادی کے بعد اس رجحان میں تیزی آنے لگی۔ تاہم شروع سے ہی ایک اجنبی فاتح قوم کو اپنے اوپر مسلط پاکر وہ اندر ہی اندر گھٹتے رہے۔ انہوںنے اس کی تدبیر کیلئے پہلے شودروں کو ’ہریجن‘ کہا جو یقینا ایک بڑا ہی مبارک نام تھا، مگر بعد میں لفظ’ ہریجن‘ بھی شودروں کو راس نہیں آیا اور وہ ان کے لئے کسی گالی کے مترادف ہوگیا۔ بعد میں وہ دلت کہلانے لگے اور آج بھی کہے جاتے ہیں۔ اس طرح ملک کے مختلف خطوں میں جہاں جس خدا سے عقیدت رکھنے کے متحمل لوگوں کی تعداد رہی جس میں دلتوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں اسی کی مناسبت سے مذہبی تنظیموں کی تشکیلات عمل میں آئیں اور انہیں بھی پوجا پاٹھ کے کاموں میں حصہ داری دی جانے لگی۔ پھر ان تنظیموں کے توسط سے ہی قدیم تہذیبوں کی آپسی خوں ریزیوں کو مسلمانوں کی طرف موڑنے کی حکمت عملی کو فروغ دیا جانے لگا۔ ان سب کے باوجود اعلیٰ ذات اور حسب ونسب کے حامل لوگوں کو دلت طبقہ کا وجود بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا۔ یہاں تک کہ انہوںنے سکھ ، عیسائی، بودھ اور جین کسی کو بھی گلے لگانا گوارہ نہ کیا۔بودھوں اور جینیوں کو تو ہندوستان میں پھولنے اور پھلنے کا موقع تک نہیں ملا اور وہ یہاں معتوب ہوگئے مگر سکھوں نے بالآخر قدرے مصالحت کی بنیاد پر اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی۔اسی انداز پر مسلمانوں کو بھی رام کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ اس کیلئے آمادہ نہیں ہوئے۔ انہیں یہ بات قطعی پسند نہیں آئی کہ وہ مندروں کے آگے اپنے سر خم کریں ۔ لیکن آزادی کے بعد مسلمان بھی مختلف فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوئے اس کا بین ثبوت ہر آئے دن دیکھنے میں آتا ہے۔ جشن محمدی کے نام پر اب مسلمان بھی کیا کیا تماشے کرتے ہیں وہ بھی نظروں کے سامنے ہے۔اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان جو کبھی محمود وایاض کی صورتوں میں ایک ہی صف کے مقتدی تھے اب وہ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں میں سمٹنے لگے کیوں کہ انہیں اب کسی کی اقتدا پسند نہیں آتی۔ فرقوں اور مسلکوں کی بنیاد پر ٹکرائو اور تصادمات ہر آئے دن کی بات ہوگئی۔جو لوگ ان کی شرطوں پر مصلحت پسندی میں عافیت سمجھتے ہیںیقینا وہ عارضی طور پر ان کی مراعات سے کسب فیض پاتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ وہی آج کے میر جعفر بھی ہیں۔
اردو جو خالص ہندوستانی زبان تھی اور اب بھی ہے، آزادی کے بعد اسے مسلمانوں کی تہذیب اور معاشرہ سے جوڑنے کا عمل شروع ہوا۔ اول تو مسلمانوں کو پہلے سے ہی باہر سے آیا قرار دیا جاتا رہااور اور اب بھی ایسی آواز ہندوستان کی فضا میں گونج پیدا کررہی ہے۔ ملک میں بنے آئین اور قوانین سے پرے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی منظم کوششیں کی جانے لگیں۔ایک طرف اقلیت کا ٹھپہ ان کے ماتھے پر جڑدیا گیا تو دوسری طرف اردو کو ان سے منسوب کرکے ملک بھر میں اردو کی کمر توڑی جانے لگی۔کبھی گجرال کمیٹی جو اردو کو فروغ دینے کی تجویز پیش کرتی تھی، کمیٹی کے سربراہ آئی کے گجرال کانگریس سے الگ ہونے کے بعد اردو کی جڑ کھودنے میں لگ گئے۔ جب پہلی بار مارچ یا اپریل 1984 میں ریاست بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو بہار کی طلبا تنظیم’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ کے کارکنان نے نعرے لگائے کہ ’اردو تھوپی لڑکوں پے تو خون بہے گا سڑکوں پے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ جس اقلیتی طبقہ کو روزی روٹی سے جوڑنے کیلئے اردو کو بہار کی دوسری زبان قرار دی گئی اس کی وجہ سے بجائے اقلیتوں میں خوشی آتی وہ سہمے سہمے نظر آنے لگے۔ دربھنگہ اور رانچی جیسے شہروں میں فرقہ وارانہ فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ خدا خدا کرکے یہ شور تھما اور اردو کی کچھ اضافی فائلوں سے بیوروکریٹس کی میزوں کو سجانے کا کام کیا گیا۔1987-88 کے عرصہ میں ان فائلوںکی تجدید کیلئے پہلی بار بہار میں قریب ڈھائی ہزار اردو مترجم کی تقرری کیلئے اشتہار دیا گیا اور بی پی ایس سی کے توسط سے ان کے امتحانات لیے گئے۔ کل پانچ سو مترجم کی تقرری کے بعد کانگریس نے گویا اپنا قسم نبھا دیا اور بقیہ دو ہزار اردو امیدواروں نے امیدوں کے سہارے اپنی نصف زندگی گزار دی۔پھر نوے کی دہائی اقتدار کی تبدیلی کا پیغام لے کرآئی مگر اس سے کسی مسلمان کی کسی برادری کا بھی بھلا نہ ہوا اور نا ہی اس کی دور تک کوئی آس ہی نظر نہیں آئی۔ بیچارے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت میں ہی لگے رہے ، تب تک دو دہائیاں گزر گئیں۔ تاہم اس دوران جنتادل کی حکومت کانگریسی بیوروکریٹس کی میزوں پر سجی فائلوں کو کسی تہہ خانے میں ڈال چکی تھی۔اس سے انکار نہیں کہ سیاست کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ سرگرم رہتی ہے۔ جنتادل سے بنی راشٹریہ جنتادل اورجنتادل یونائٹیڈ کی چشمک شروع ہوئی اور ایک وقت آیا جب بہارمیں جنتادل یونائٹیڈ نے بی جے پی کی مدد سے اقتدار پر اپنا قبضہ جمایا۔جے ڈی یو کو ایک بار پھر مسلمانوں کی یاد آئی اور اس نے استحکام حاصل کرنے کیلئے اقلیتوں پر احسان کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اردو اساتذہ کی تقرری پر کارروائی شروع ہوئی۔ مہینوں اور برسوں کے ہنگامے کے بعد جب اردو زبان کے اسامیوں کو ریزرویشن دینے کی بات آئی تو حسب ونسب کے حاملین (بی جے پی) کے پیٹ میں درد اٹھنے لگا۔ اس نے ایک جھٹکے میں اردو کو بنگالی سے ٹیگ کرکے ہزاروں مسلمانوں کے جوش اور جذبوں پر پانی پھیردیا۔گویا مسلمانوں کو پھر سے یہ احساس دلانے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ملک میں تمہاری حیثیت اقلیت کی ہے اور تمہاری زبان کسی دوسری ہندوستانی زبان کے بغیر اپاہج ہے۔ حالیہ پس منظر میں کالجوں میں اردو لکچرر کی تقرری کا ہنگامہ بھی کافی حد تک پرجوش نظر آتا ہے مگر سابقہ تجربوں کی طرح اس کی حتمی شکل ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اردو کا یہ المیہ صرف بہار میں ہے بلکہ پورے ملک میں یہی صورتحال ہے، یہاں تک کہ جن ریاستوں میں اردو کو دوسری زبان کا حق دیا گیا وہ کسی دانت کھائی روٹی کی طرح ہی ہے۔ ظاہر ہے ، جہاں منو، کوٹلیہ اور چانکیہ کے پرستاروں نے جس حکمت عملی کو بروئے کار لاکر لفظ ’اردو‘ کی تشکیل میں اپنی معاونت دی تھی وہ عارضی طور پر عاقبت اندیشی کو گلے لگانے کی پالیسی تھی۔ وہ ملک میں ایک طویل جدوجہد کے بعد مسلمانوں سے کسی قدرمصالحت پر رضامند تو ہوگئے مگر بعد میں انگریزوں کی غلامی سے نجات کا ان کے آگے کوئی راستہ نہ تھا۔حقیقت یہی ہے کہ جس زبان کو دو دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ بنایا گیا، آزادی کی خاطر پہلی لڑائی سے لے کر آخری لڑائی تک اسی ایک زبان اور اس کے متوالوں نے ملک کے تمام گوشوں کو جوش اور جذبوں سے بھردیا تھا۔مگر آج ہندوستان کی مسلم آبادی فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والی چیتھڑوں میں لپٹی کسی بوسیدہ عورت جیسی ہے اور اردو کی حیثیت اس کی گود میں بھوک سے بلکتے بچے کی طرح نظر آتی ہے۔ایک بار پھر مولانا ابولکلام آزاد کی اس تقریر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا تھا،انہوں نے کہا تھا:
’’…کیا یہ بات غور کرنے کی نہیں کہ جب تقسیم کی بنیاد ہی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ منافرت ایک آئینی شکل اختیار کرگئی ہے…۔‘‘ (وائس ریکارڈ آن انٹرنیٹ)
واقعی تقسیم ملک سے جو صورتحال پیدا ہوئی تھی وہ آج بھی اپنی سابقہ صورتحال پر قائم ہے اور اس کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شروع سے اب تک اکثریت اور اقلیت کے درمیان غالب اور مغلوب جیسی حالت ہے۔ ایک طبقہ اقتدار کے سہارے جارحانہ روش پر قائم ہے تو دوسرا اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے آج بھی کوشاں ہے اور یہ سلسلہ ابھی بہت آگے تک جائے گا۔ ان تمام حالات میں بھی آج بہار میں اردو کی موجودہ حالت کو دیکھ کر ایک سرشاری تو ہوتی ہے کہ یہاں اردو زبان کے فروغ میں ایک طرف ریاست کی مختلف تنظیمیں سرگرم ہیں تو دوسری جانب سرکاری سطح پر بھی اسے فعال بنایا جارہا ہے۔بہار اردو اکیڈمی کے جملہ پروگراموں ، اردو نفاذ کمیٹی کی فعالیت اور اسکولوں کالجوں میں مشاعروں اور سیمیناروں کے ذریعہ اردو طلبا، ادبا اور دانشوروں کو اپنے عمل اور ردعمل کے اظہار کے مواقعے فراہم کرائے جاتے ہیں۔
A2/242, Himsagar Apartment
Sector P4, Pari Chawk, Greater Noida
Leave a Reply
Be the First to Comment!