کاشف الحقائق اور شیخ امام بخش ناسخ
’کاشف الحقائق‘ امداد امام اثر کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔ اس کی قاموسی حیثیت آج بھی مسلم ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں اثر کا نام اسی کتاب کی بدولت ہے۔ اس مضمون کا اصل مقصد ’کاشف الحقائق‘ میں درج اثر کی ان آرا کا جائزہ لینا ہے جو شیخ امام بخش ناسخ کے متعلق ہیں ۔ اس ضمن میں وہ باتیں بھی در آئی ہیں جن کا تعلق اثر کے تصور شعر اور تصور غزل سے ہے۔ اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اپنے عہد کے برعکس امداد امام اثر ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو شاعری میں اصلاح کے قائل ضرور ہیں لیکن اپنی روایت، تہذیب اور ثقافت سے پوری طرح دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ۔ کاشف الحقائق کے مطالعے سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جہاں ’ مقدمۂ شعر و شاعری‘ میں اردو کی تمام اہم اصناف کو بے اعتنا سمجھا گیا ہے اور مثنوی کو اغراض شاعری کے لیے بے حد کارآمد بتایا گیا ہے، وہیں امداد امام اثر اپنی کتاب میں صنف غزل کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں ۔ غزل کی یہ اہمیت اثر کے یہاں صرف تنقید ہی سے نہیں شاعری سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ امداد امام اثر کی اس اہمیت اور معنویت پر ڈاکٹر سرور الہدیٰ صاحب نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’دیوانِ امداد امام اثر‘ کے مقدمے میں مفصل اور بامعنی گفتگو کی ہے۔
امداد امام اثر شاعری کی تقسیم مضامین کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک شاعری ازروے تقاضاے مضامین دو قسم کی ہے کیوں کہ عالم دو نہج پر واقع ہوا ہے۔ مادی اور غیر مادی۔ اسی وجہ سے شاعری کی ایک قسم خارجی ہے اور دوسری داخلی۔ شاعری کی ان دو قسموں کی اساس پر شعرا کو تین خانوں میں بانٹتے ہیں ، ایک خارجی، دوم داخلی اور سوم خارجی و داخلی۔ خارجی رنگ کی شاعری کرنے والے اردو کے عمدہ شاعر کی مثال میں نظیر اکبر آبادی، داخلی رنگ میں میر تقی میر اور خارجی و داخلی دونوں رنگوں پر ید طولیٰ رکھنے والے شاعروں میں میر انیس کو پیش کیا ہے۔ میر کو سہل ممتنع ، داخلی سوز و گداز، غم و اندوہ اور محرومی و محزونی کا شاعر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ میر کی مثنویات بھی اپنی طرز میں بے مثال ہیں لیکن ان کی پہچان غزل سے قائم ہوئی ہے۔ لہٰذا اثر نے شاعروں کی جو درجہ بندی کی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اثر کے نزدیک غزل کا بنیادی وصف کیا ہے۔ باالفاظ دیگر غزلیہ شاعری کی شناخت کن عناصر پر قائم ہوتی ہے۔ اثر خارجی اور داخلی پہلو کے بارے میں لکھتے ہیں :
خارجی پہلو کی شاعری برتنے کے واسطے اطلاع عام کی بڑی حاجت ہے۔ برخلاف اس کے داخلی شاعری میں معاملات خارجیہ کے دانست کی بہت حاجت نہیں ہوتی۔ داخلی شاعر کا درون ہی اس کی کائنات ہے جو وارداتِ ذہنیہ اور معاملات قلبیہ اس کے ادراک میں جگہ رکھتے ہیں انھیں وہ موزوں کردیتا ہے۔
(کاشف الحقائق، امداد امام اثر، قومی کونسل فروغ اردو زبان نئی دہلی، دوسرا ایڈیشن ۱۹۹۸، ص: ۴۱۱)
درج بالا بیان سے بھی یہی بات مترشح ہے کیوں کہ ان کے نزدیک خارجی پہلو کی شاعری میں اطلاع عام کی بڑی حاجت ہے لیکن داخلی رنگ کے لیے اطلاع عام یعنی معاملات خارجیہ کی بہت دانست ضروری نہیں ہے۔ حالاں کہ معاملات خارجیہ کے بغیر واردات ذہنیہ کا وجود محال ہے۔ اطلاع عام کے بغیر بیشتر معاملات قلبیہ کا ظہور میں آنا بھی مشکل ہے۔ اثر اشیاے خارج کی موجودگی کے سبب سے بھی کسی شعر کا رنگ خارجی قرار دیتے ہیں ۔ مومن کی غزل ’’کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اثر لکھتے ہیں :
واضح ہو کہ گہر بار، رخسار، اور زنار اشیاے خارجیہ سے ہیں ۔ ناچار ان اشعار کے مضامین بھی خارجی پہلو سے بندھے ہیں ۔ (ایضاً، ص: ۴۲۵)
کاشف الحقائق اور شیخ امام بخش ناسخمحمد مقیم خاناے۱۰-، بٹلا ہاؤس چوک، جامعہ نگر اوکھلا، نئی دہلی
|
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ مومن کے جن اشعار میں درج بالا الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مضمون خارجی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اثر نے اس بات کو قاعدہ کلیہ کے طور پر پیش کیا ہے جس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ اس بات کو اکثری تسلیم کرلیا جائے تب بھی شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری وسیع نہیں ہوسکتی۔ اگر وسعت مضامین کو قربان کردیا جائے تو سوال یہ ہے کہ ارتقا اور تازگی کا عمل کیسے ممکن ہوگا۔ اور اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیشتر متقدمین شعرا کے یہاں مضامین کا تنوع اور اس پر ناز کیوں ؟ آخر کیوں بڑے بڑے طباع اور خلاق ذہنوں نے وسعت مضامین کی کوشش کی۔ لیکن اثر غزل سرائی میں وسعت بیان اور وسعت مضامین کو رد کرتے ہیں ۔ اثر لکھتے ہیں :
بخیال راقم غزل سرائی کا احاطہ وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہے۔ اس واسطے کہ اس صنف شاعری میں خارجی مضامین داخل نہیں کیے جاسکتے ۰۰۰ اس واسطے کہ اس صنف شاعری میں خارجی مضامین داخل نہیں کیے جاسکتے۔ ایسے مضامین کے دخل پانے سے غزلیت جاتی رہتی ہے۔ (ایضاً، ص: ۴۴۶)
اپنی اسی تھیسس کی بنیاد پر اثر بھی دلی اور لکھنؤ اسکول میں فرق کرتے ہیں حالاں کہ آج یہ اسکول مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں ۔ دلی اور لکھنؤ کی شاعری کے متعلق اثر کا بیان درج ذیل ہے:
۰۰۰ دلی کی شاعری سے ایک علاوہ رنگ کی شاعری ظہور میں آئی۔ یعنی استاد ناسخ نے غزل سرائی کا ایک خاص رنگ پیدا کیا۔ اور آتش بھی صنف شاعری کو دلی والوں سے الگ ہو کر برتنے لگے۔ پھر ان دونوں استادوں کے شاگردوں نے غزل سرائی کی مختلف راہیں نکالیں ۰۰۰ اہل انصاف سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر چند لکھنؤ میں اردو غزل سرائی نے بہت کچھ فروغ پکڑا۔ مگر دلی والوں کی غزلیت کا لطف غزل سرایان لکھنؤ اپنی غزلوں میں پیدا نہ کرسکے۔ (ص: ۴۰۴ اور ۴۰۵)
امداد امام اثر مزید لکھتے ہیں :
۰۰۰ لکھنؤ کے حضرات متغزلین دہلی کے حضرات متغزلین کے برابر پر تاثیر مضمون آفرینی نہ کرسکے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ غزل سرائی میں حضرات لکھنؤ نے شاعری کے خارجی پہلو کو داخل کردیا۔ جو غزل سرائی کے تقاضے کے خلاف ہے۔ (ص: ۴۱۳)
امداد امام اثر کے نزدیک خارجی مضامین احاطۂ غزل سے باہر ہیں ۔ لہٰذا صنف غزل کی تنقید میں انھوں نے داخلیت ہی کو سب کچھ سمجھا ہے۔ یہی وہ معیار ہے جس کی وجہ سے ان کے نزدیک غالب کی عظمت ہے۔ داخلی اور خارجی رنگ کے فرق اور اثر کو واضح کرنے کے لیے انھوں نے مومن اور آتش، غالب اور ناسخ، ذوق اور غالب کی غزلوں کا تقابل بھی کیا ہے۔ مومن کی غزل ’’ کرتا ہے قتل عام وہ اغیار کے لیے‘‘ کے مقابل آتش کی غزل ’’ نافہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے‘‘ اور ناسخ کی غزل ’’شسدر سا رہ گیا ہوں در یار دیکھ کر‘‘ کے مقابل غالب کی غزل ’’کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر‘‘ اور ذوق کی غزل ’’کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے‘‘ کے مقابل غالب کی غزل ’’وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے‘‘ رکھی ہے۔ امداد امام اثر، ناسخ، ذوق اور غالب تینوں کو الگ الگ طرز اور اسلوب کا شاعرگردانتے ہیں ۔ یہ بات ایک حد تک ہی ٹھیک ہے کیوں کہ ناسخ اور غالب ایک ہی طرز، خیال بندی کے شاعر ہیں ۔ ذوق اور مومن نے بھی ناسخ کی زمین میں غزلیں کہنے کی کوشش کی ہے۔ ناسخ کے بارے میں اثر لکھتے ہیں :
شاعری کے اعتبار سے لاریب شیخ بڑے طباع اور خلاق سخن تھے ان کی نازک خیالی اور بلند پروازی نادر انداز رکھتی ہے۔ کلام میں بلاغت فصاحت کے ساتھ شیر و شکر ہورہی ہے۔ (ایضاً، ص: ۴۴۶)
غور کرنے کی بات ہے کہ فنی اعتبار سے ناسخ کے یہاں وہ کون سا نقص ہے جس کی وجہ سے ناسخ کو بھلا دیا جائے یا غزلیہ شاعری سے ٹاٹ باہر کیا جائے؟ تخلیقی طرز گذاری ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے اور کلاسیکی تصور شعریات اور صناعی کو فضول سمجھ کر ثانوی حیثیت دی جائے تو وہ کون سے پیمانے ہوں گے جن کی رو سے میر پر فانی یا فانی پر میر کو فوقیت دی جائے گی۔ اگر میر کے تنوع کو نظر انداز کردیا جائے تو اس صورت میں میر اور فانی کے تخلیقی سروکار ایک ہی ٹھہریں گے۔ حزن و ملال کی کیفیت دونوں کے یہاں مشترک ٹھہرے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ میر کے یہاں یاسیت معدوم ہے اس لیے میر کو فوقیت حاصل ہے، کیوں کہ یاسیت واردات قلبیہ کا صالح عنصر نہیں ہے تو ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ میر اور فانی کے ایسے اشعار کا انتخاب کیا جائے جس میں رجائیت کا پہلو بھی مشترک ہو۔ اس صورت میں میزان کس طرف جھکے گا؟ ظاہر ہے ایسی صورت میں موشگافی اور تاثرات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔امداد امام اثر نے ناسخ کے اس وصف کا کھل کر اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے غالب اور اقبال کے لیے راہ ہموار ہوئی اور بعد کے ادوار میں غزل کی بقا اور وسعت کا ضامن بھی ہوا۔ اثر لکھتے ہیں :
“پس شیخ سے بلند فکر۔ عالی دماغ شاعر نے جو ایسے میدان میں قدم رکھا۔ تو غزل سرائی کا دائرہ تنگ بہت وسیع ہوگیا۔ چنانچہ وہ خیالات شیخ کی بدولت بڑی کثرت کے ساتھ احاطۂ غزل سرائی میں داخل ہوگئے جو درحقیقت احاطہ سرائی سے باہر ہیں ۔ یعنی شیخ نے ان خیالات کو زبردستی کے ساتھ احاطہ غزل سرائی میں داخل کردیا۔ جو قصیدہ و قطعہ وغیرہ کے لیے مخصوص ہیں ۰۰۰غزل سرائی کا مطلب فوت ہو کر ایک ایسی قسم کی شاعری ایجاد ہوگئی کہ جس پر نہ قصیدہ گوئی اور غزل سرائی دو میں کوئی تعریف صادق نہیں آتی۔ “(کاشف الحقائق، ص: ۴۴۶)
درج بالا اقتباس میں اثر نے جو اہم بات بتائی ہے وہ یہ کہ شیخ ناسخ کی بدولت غزل کے مضامین میں تنوع آیا اور وہ مضامین جو اب تک غزل سرائی میں نظم نہیں ہوئے تھے، ناسخ نے انھیں بھی احاطۂ غزل میں داخل کردیا۔ دیکھا جائے تو یہ قابل تعریف بات ہے لیکن اثر نے اس پر جس طرح پانی پھیرا ہے وہ محل نظر ہے۔ خیال بندی کی وجہ سے غزل کی دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا اور اردو شاعری پر اس کے جو مثبت اثرات پڑے اس پر جدید دور میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنی کتابوں بالخصوص ’اردو غزل کے اہم موڑ‘ اور ’غالب پر چار تحریریں ‘ میں بڑی مفید اور مدلل گفتگو کی ہے۔ناسخ اور دیگر خیال بندوں کے یہاں تلاش مضامین تازہ اور مضمون آفرینی و معنی آفرینی کا جو عمل پایا جاتا ہے اس کی بنا پر اثر نے ایسے شعرا کو بحیثیت غزل گو رد کردیا ہے۔ لیکن اس وصف کی بنیاد پر محمد حسین آزاد نے ناسخ کو غزل گو شعرا کی فہرست سے خارج نہیں کیا اور ناسخ کے تعلق سے لکھا کہ:
صائب کی تشبیہہ و تمثیل کو اپنی صنعت میں ترکیب دے کر ایسی دست کاری اور مینا نگاری فرمائی کہ بعض موقع پر بیدل اور ناصر علی کی حد میں جا پڑے۔‘‘ (آب حیات، ص: ۳۴۰)
غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ محمد حسین آزاد نے ناسخ کے بارے میں باتوں باتوں میں جو چند بنیادی باتیں کی ہیں بعد کے لوگوں نے انھیں بھی رد کرنے پر کمر کس لی تھی۔ لہٰذا صائب، بیدل اور ناصر علی جو کہ فارسی کے اساتذۂ کلام میں شمار کیے جاتے ہیں اور فارسی ادبیات کے مطالعے میں ناگزیر سمجھے جاتے ہیں انھیں بھی بے معنی قرار دیا گیا۔ طرز گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ صائب کے بارے میں امداد امام اثر کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے اور شیخ ناسخ کا ذکر صائب کے ساتھ کرتے ہیں ۔ عبدالسلام ندوی کی شعر الہند کی بنیاد کاشف الحقائق پر ہے۔ تغزل یا اغراض غزل سرائی اور خیال بندی کے تعلق سے جو گفتگو امداد امام اثر نے کی ہے عبدالسلام ندوی اسی کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حتیٰ کہ دلی اور لکھنؤ اسکول کے تعلق سے بھی دونوں حضرات متحد الخیال ہیں ۔ لہٰذا عبدالسلام ندوی نے جہاں صائب، بیدل اور ناصر علی کے کلام کو اہمیت نہیں دی وہیں ، مضمون آفرینی کو بھی بے اثر اور بے نمک گردانتے ہیں ۔ صاحب شعرالہند کا کہنا ہے کہ اس قسم کی شاعری کرنے والوں کو ادب کی تاریخ میں کبھی پسند نہیں کیا گیا۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں وہ میر حسن کلیم کے تذکرے سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں ۔ اقتباس درج ذیل ہے:
باوجود این زور و قوت شاعری نمک در کلام نیافتہ بنا برین اشعارش اشتہار نیافت۔
(شعر الہند، عبدالسلام ندوی، مکتبہ معارف، اعظم گڑھ، ص: ۲۳۰)
ظاہر ہے عبدالسلام ندوی کے دعوے سے درج بالا اقتباس کو کچھ علاقہ نہیں ۔ کیوں کہ اقتباس میں ایک مخصوص شاعر کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے نہ کہ مخصوص طرز معرض بحث ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی شاعر کا کلام باوجود سادہ گوئی و واردات قلبیہ اشتہار نیافت۔
کلام ناسخ میں بکثرت تشبیہات پائی جاتی ہیں ، بیشتر تشبیہات میں ندرت کا احساس عہد ناسخ میں بھی کیا گیا ہے اور آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ تشبیہہ کے بارے میں امداد امام اثر کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے:
بکثرت تشبیہہ سے اعلا درجہ کی غزل سرائی مستغنی ہے۔ پھر جب تشبیہہ پھبتی کی پستی کو پہنچ جاتی ہے تو اس سے اغراض غزل سرائی میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ (ایضاً، ص: ۴۴۷-۴۴۶)
’’بکثرت تشبیہہ سے اعلا درجہ کی غزل سرائی مستغنی ہے‘‘ ایک مبہم جملہ ہے۔ لفظ ’مستغنی‘ کے استعمال کی وجہ سے اثر کا موقف واضح نہیں ہوتا۔ یعنی اعلیٰ درجہ کی غزل سرائی میں تشبیہات کی کثرت ہونی چاہیے؍نہیں ہونی چاہیے کی وضاحت نہیں ہوتی۔ ’’اغراض غزل سرائی‘‘ کی فہرست سازی نہیں کی جاسکتی۔ تشبیہہ کب پھبتی کہلائے گی اور اس کی مثال کیا ہوگی یہ بھی مفقود ہے۔ اگر پھبتی نما تشبیہہ سے مراد ایسی تشبیہات ہیں جو ناسخ کے مندرجہ ذیل اشعار میں موجود ہیں تو اثر کا بیان محل نظر ہے
آبلے چیچک کے جب نکلے عذار یار پر
بلبلوں کو برگ گل پر شبۂ شبنم ہوا
میسر ہو اگر عشرت تجھے جان احتلام اس کو
جہاں میں پائے گر ایذا سمجھ خواب پریشاں ہے
درج بالا اشعار اپنے اغراض میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔ بالخصوص دوسرا شعر اپنی نوع کا نادر شعر ہے۔ دنیاوی عشرتوں اور عسرتوں کی حقیقت اور خود دنیا کی بے ثباتی کا مضمون اس شعر میں جس طرح ادا ہوا ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ دنیاوی زندگی کی حباب سے بہتر اور دنیاوی عشرت کی احتلام سے عمدہ تشبیہہ اب تک نظر سے نہیں گذری۔ جہاں کہیں تشبیہہ پھبتی کی شکل میں وارد ہوئی ہے وہاں شاعر کا مقصود پھبتی ہی کہنا ہے۔
شیخ امام بخش ناسخ کے کلام میں امداد امام اثر کو مضامین کی علویت بڑی گراں قدر معلوم ہوتی ہے اور وہ شیخ ناسخ کے اس وصف کی کھل کر تعریف بھی کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پست خیالی اور مکروہ مضامین کو سچی اور فطری شاعری کے لیے بے حد مضر بتایا ہے۔ امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں یہ بڑی اچھی بحث اٹھائی ہے کہ فطری شاعری یا ناول یا افسانہ کیا شئے ہے۔ انھوں نے مثال بھی دی ہے اور فطری عناصر کب مکروہ مضامین یا بیان میں بدل جاتے ہیں اس کی صراحت بھی کی ہے۔ امداد امام اثر کے بیان سے اختلاف یا اتفاق کی گنجائش تو ہو سکتی ہے لیکن یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ اگر، انفرادی ذوق کی بات کی جائے تو وہ بڑا نکھرا ہوا ذوق رکھتے ہیں اور نستعلیق آدمی معلوم پڑتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ فطری عناصر اور مکروہ مضامین کے بارے میں انھوں نے جو بیان دیا ہے اور جو رائے قائم کی ہے اس سے شاید ہی اختلاف کی راہ نکلتی ہو۔ بالخصوص اس وقت جب اس بات کو اہمیت دی جائے کہ امداد امام اثر یہ باتیں کس عہد میں کررہے ہیں ۔ ظاہر ہے اثر جس عہد میں یہ باتیں کررہے تھے، فطری شاعری یا نیچرل شاعری کا بڑا غلغلہ تھا۔ اس ہنگامی دور میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے بھونڈے اور بھدے پن کو نیچر یا فطرت باور کرا رہے تھے، اس روش سے یہ خیال راہ پاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو ادب کے ان مغربی تصورات سے گہری واقفیت نہیں تھی۔ لہٰذا ایسے دور میں امداد امام اثر کا اس بحث کو اٹھانا فی نفسہٖ ایک اہم بات ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کلاسیکی شعری روایت سے اچھی واقفیت رکھنے کے علاوہ امداد امام اثر کئی زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ بعض باتیں بڑی عمومی نوعیت کی کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ رعایت لفظی، مبالغہ پردازی اور صنائع و بدائع کو ڈھکوسلا کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس بات سے اتفاق کرنا ممکن ہی نہیں کیوں کہ ان باتوں کا تعلق فنی سروکاروں سے ہے اور امداد امام اثر تخلیقی طرز گذاری یا تخلیقی سروکاروں ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ ٹھیک ہے کہ یہ عناصر مقصود بالذات نہیں ہیں لیکن ان ہتھکنڈوں کے بغیر مقصود بالذات کا حصول بھی ممکن نہیں ہے۔ مبالغہ تو ہمارے روزمرہ کا حصہ ہے اور اس کا اظہار ہمارے بیان کی ترسیل میں حیرت انگیز طور پر معاون ہوتا ہے۔ بالفرض محال مبالغہ پردازی کو ڈھکوسلا مان لیں تو ہمارے شعری سرمایے کے ایسے بہت سے اشعار بھی ڈھکوسلا ٹھہریں گے جو یقینا شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں اور ہمارے لیے مایۂ افتخار ہیں ۔ مثلاً
میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا
میری آہ آتشیں سے بال عنقا جل گیا
(غالب)
غالب کی طرز سے قطع نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مبالغے کے بغیر اس اسلوب اور اس مضمون کا وجود ممکن تھا؟ کاشف الحقائق کی قرأت کے دوران مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ مشرقی و مغربی ادب کے صالح عناصر کی کھوج اور آمیزے کی تیاری میں امداد امام اثر نے مشرقی شعریات سے انصاف نہیں کیا ۔ امداد امام اثر نے مخالفین کے اعتراضات قبول کرنے کے بعد یہ مقدمہ قائم کیا ہے کہ ہماری ادبی روایات میں صالح عناصر بھی ہیں ، اور اثر ان صالح عناصر کو نشان زد کررہے تھے جو ان کے زمانے کی نئی نسل کے خام اور خود ساختہ ادبی تصورات کے عین مطابق تھے۔ ذیل میں عرفی کے فارسی شعر اور میر کے اردو شعر کو درج کیا جارہا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ رعایتوں اور مناسبتوں کے بغیر میر کس طرح عرفی کے مضمون پر اضافہ کرسکتے تھے۔ شعر ملاحظہ کیجیے
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جان است
عرفی
جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل
اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل
میر
’مقدمۂ شعر و شاعری‘ کے اثر سے ادبی تصورات میں جو پراگندگی نمودار ہوئی اور سچی شاعری، فطری شاعری، حقیقی شاعری اور حقیقت نگاری کے حوالے سے جو مغالطے قائم ہوئے اور روایتی ادبی تصورات کے تئیں جو بیزاری عام ہوئی، اس سے بڑی حد تک برأت کا اظہار کرلیا گیا ہے۔ لیکن ان خود ساختہ اور جذباتی تراکیب کی تفہیم اور تعریف کے تعین میں جو بنیادی غلطی ہوئی ہے اسے سمجھنے کے لیے حکیم نجم الغنی رامپوری کا حوالہ ناگزیر ہے۔ حکیم نجم الغنی لکھتے ہیں :
“قضایاے شعریہ میں اولیات صادقہ کا استعمال جائز نہیں اور اولیات صادقہ سے مراد ایسے قضایا ہیں کہ عقل ان قضایا کا تصور کرتے ہی ان کے قطعی ہونے کا حکم لگا دیتی ہے کسی دوسری چیز کی طرف محتاج نہیں ہوتی جیسے کُل بڑا ہے جز سے بلکہ شعر میں مخیلات کاذبہ کا استعمال مستحسن ہے جس شعر میں مخیلات صادقہ کا استعمال ہوتا ہے وہ بے مزہ ہوتا ہے۔”
(بحرالفصاحت جلد اول، مولوی محمد نجم الغنی، مقبول اکیڈمی، لاہور، ۱۹۸۸، ص: ۵۳-۵۲)
مخیلات کاذبہ کی اثر پذیری کی مثال میں غالب کا درج بالا شعر تو پیش کیا ہی جاسکتا ہے ساتھ ہی درج ذیل اشعار بھی ملاحظہ کیجیے
اس قدر ہوتا نہیں دست حنائی کا اثر
پنجۂ خورشید تیرے گیسوؤں کا شانہ ہے
اس سروقد کا دست حنائی ہے شعلہ زن
یا آگ لگ رہی ہے یہ برگ چنار میں
ناسخ)
آگ سی میرے دل کو لگتی ہے
جل رہا ہوں حنا کے ہاتھوں سے
اثر، شیخ امام بخش ناسخ کے شعری مضامین کو بہت پسند کرتے تھے اور ان کی طباعی و خلاقی کے بڑے مداح تھے لیکن یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ شیخ ناسخ کے بیشتر مضامین احاطۂ غزل سے باہر ہیں ۔ کیوں کہ اثر کے نزدیک غزل کا احاطہ وسعت پذیری کی صفت سے متصف ہی نہیں لہٰذا خارجی مضامین غزلیہ شاعری میں داخل نہیں کیے جاسکتے۔ تعجب ہے کہ امداد امام اثر کو یہ حسرت کیوں رہ گئی کہ کاش شیخ ناسخ نے غزل کے بجاے کسی اور میدان میں طبع آزمائی کی ہوتی۔ ان کی اس حسرت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شیخ ناسخ کو اپنی طرز ہی نہیں طبیعت سے میل کھانے والی صنف بھی ساتھ لے کر شاعری کے میدان میں قدم رنجہ ہونا تھا۔ ظاہر ہے قصیدہ محض شوکت الفاظ کا نام نہیں اور شیخ ناسخ کے مضامین کا قصیدے میں کچھ کام نہیں اور نہ ہی محض شوکت الفاظ اور نامانوس الفاظ سے ناسخ کی شناخت قائم ہوتی ہے۔@@@@
Leave a Reply
Be the First to Comment!