قرآن حکیم کے غیرمحدود ادبی محاسن (ایک جائزہ
تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد برے بڑے ادباء وشعراء کی زبانوں پرمہر لگ گئی جس کی ایک عمدہ مثال جاہلی دور کے شاعر معلقات لبید بن ربیعہ ہے جس کے شعروں پر اسکے معاصرین نے کئی بار سجدہ تہنیت اورخراج تحسین سے نوازا ، اور وہی شاعر قرآن پاک سے مسحور ہو کر شاعری ہی ترک دیتے ہین اور اسلام قبول کرتے ہین اپنے دور میں ملک الشعراء کہلانے والے اس شاعر سے بعد از قبول اسلام کے بعض شعراء طبع آزمائی پر زور بھی دیا تو لبید نے تعجب سے پوچھا ’’ ابعد القرآن ،، یعنی قرآن پاک کی فصاحت وبلاغت کے بعد میرے نزدیک کسی اور شاعرانہ کلام کی گنجائش اور ضرورت نہیں قرآن کی فصاحت وبلاغت کا ایک عملی مظاہرہ سیرت نبوی ﷺ میں ہمیں اس وقت دیکھنے کوملتاہے جب آپ ﷺ نخلہ کی وادی سے گذررہے تھے اور جنوں کی ایک ٹولی نے اللہ کے کلام کو سنا اور انکے زبان سے برجستہ یہ نکلا: إنا سمعنا قرآنا عجبا،،غرض اس جیسے کئی شعراء اور عمائدین ادب قرآنی فصاحت وبلاغت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے ، اور پھر قرآں کی تسلسل وروانگی بلکہ سریع الاثر آیات کی حلاوت کے سامنے ان کے یہاں قلم آزمائی کاکوئی امکان باقی نہ رہا بہر صورت یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ قرآن پاک کی ہر سورہ بجائے خود نہایت حسین نظم ونسق اورفنی وادبی اعتبار سے ایک دلآویز اورنادر مجموعہ ہے ، درحقیقت قرآنی علوم کااصل مخزن الفاظ کی تشکیل آیتوں کی ترتیب اورسورتوں کا نظم ہے ، قرآن پاک کی یہی توفیقی ترتیب وترکیب انسانی عقل و ذہن کوجمال وکمال سے نوازتی ہے اور یہ بات تومسلم ہے کہ جس قدر وعلوم و فنون کی وسعت ہوتی ہے اسی قدر فہم قرآن کے دوران خرد و دانش کی وسعت پر قبضہ حاصل ہوتا، اس پرمولانا فراہی کاقول صادق آتاہے کہ نظم قرآن کے کئی ظاہری و باطنی پہلو ہی تعمق نظر اور وسعت علم کے متقاضی ہیں ، اور نظم قرآن کاعلم درحقیقت قرآنی ترکیب وترتیب کاعلم ہے ( تدبر القرآن ) جلد ۱/ ص : ۱۸۰)
قرآن کریم کے ادبی محاسن ایک جائزہ :
ا ور پھر دوسری جانت قرآن پاک کے جملوں کے دروبست میں وہ شوکت ، سلامت اور شیر ینی ہے کہ اسکی کوئی نظیر ہی نہیں اسکی ایک دلچسپ مثال یو ں ہے کہ قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑے فخر اور تعریف کاباعث تھی اور اسی چیز کی افادیت کوپیش کرنے کے لئے عربی زبان میں کئی ضرب المثل مشہور تھے مثلا : القتل احیاء للجمیع ،، (قتل اجتماعی زندگی ہے ) القتل القی للقتل ( قتل سے قتل کی روک مقام ہوتی ہے ) اور اکثرواالقتل لیقل القتل ( قتل زیادہ کرو تاکہ قتل کم ہو جائے ) اوران محاورات کواتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ ہر آدمی کی زبان پرجاری تھے ، اور فصیح سمجھے جاتے تھے قرآن پاک نے بھی اسے مفہوم کوادا کیاہے لیکن کس لا جواب انداز سے ملاحظہ ہو : ولکم فی القصاص حیوۃ ،، اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اس جملہ کی جامعیت اختصار سلامت شوکت معنویت کوجس بھی پہلو سے دیکھا جائے بلاغت کاایک واضح شاہکار معلوم ہوتاہے ۔اور پہلے مذکورہ تمام جملے اسکے آگے ہیچ اورسجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں قرآن پاک کامنفرداسلوب تمام شاہیاروں سے افضل اور جداگانہ ہے اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ علماء بلاغت نے اسلوب کی تین قسمیں متعین کی ہیں ۱۔ خطابی ۲۔ ادبی ۳۔ علمی ، اور ان تینوں کے مجالات مختلف ہیں اور ہر ایک کی خصوصیات جدااور مواقع مختلف ہیں اور پھر ایک عبقری کے لئے بھی ان تینوں اسالیب کوایک ہی عبارت میں سمانا غیر ممکن ہے کیونکہ ہماری تقریر کا انداز ہماری ادبی نثر سے مختلف ہوتاہے اور ایک علمی مقالہ کااسلوب بالکل جداہوتاہے لیکن قرآن حکیم کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ان تینوں اسالیب کو ساتھ لئے چلتاہے، اس میں زور خطابت علمی متانت اورادبی شگفتگی ساتھ ساتھ رہتی ہے اور کسی ایک میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی ، بہر حال قرآن ادب پیغام رسالت کے ابلاغ وترسیل کامکمل اوصاف وشفاف آئینہ ہے جسکی تعبیر میں اخلاقی تعمیر ہے ، نسل انسان کے ہر طبقہ کے لئے بھر پور ہدایت کے ساتھ آسائس وآرائش کاسامان فرحت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اوربے شک یہ آسمانی ادب کابہتریں اورمکمل شاہکار ہے اور یہ یقیناًنثروی وشعری اضاف میں وجدانی تصاویر کا ایک عالمی مر قع ہے اور قرآن پاک خالق ارض وسماء کی معبودیت اورمخلوقات عالم کی ربوبیت وتربیت میں بے نظیر کشش ، شگفتہ لطافت اور غیر منقطع وابستگی کاسرچسمہ ہے ۔
قرآن حکیم کانزول سارے عالم کے لئے ہوا ہے یہ کتاب وسنت کے نصوص اور اجماع امت کی رو سے ایک حقیقت ہے اورضمن میں وہ تمام آیات جو قرآن کی آفاقیت کی مظہر ہیں انکا احاطہ تویہاں ممکن نہیں لیکن قرآن کی عالمگیرت پر دلالت کرنے والی بعض آیات کی طرف اشارہ کرنا موزوں موگا: البقرۃ : ۱۸۵ ، النساء : ۱ ، ۷۹، ۱۷۰ ، ۱۷۴ ، الاعراف : ۵۸ذ، یونس : ۵۷، ۹۹ ، ۱۰۴ ، ۱۰۸،یوسف : ۱۰۴، بنی اسرائیل : ۸۹، ۹۴، ۱۰۵، ۱۰۶، الانبیاء : ۱۰۷ ، الحج : ۱، ۵، ۲۷ ، ۴۹، ۷۳ ، ص : ۸۷، القلم : ۵: التکویر : ۲۷ ، اور ایک قاری کے لئے یہ آیت ہی اسکی آفاقیت کے لئے کافی ہوجاتی ہے کہ :ان ہوالاذکر للعلمین ( الکتکویر : ۲۷ ) اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ قرآن تمام عالموں ( یعنی مخلوق تامہ ) کے لئے رہنمائی کے لئے آیا ہے
الغرض قرآنی ادب ہی دین عمل ہے اور یہی عالمی اخوت کابانی انسانیت کی معراج ، مساوات عالم کامنبع ، بین الاقوامی محبت ومروت کاگہوارہ اور امن کی سلامتی کا ایک واحد شاہکار ہے جسکا نہ صرف ہر لفظ بلکہ پورے حرکات میں بھی بے مثل ہے یہ ایک ابدی وآفاقی رہنمائے ادب ہے جو نظام حیات کا رہبر اور کامیاب زندگی کی حسین ترین تصویر ہے ۔یہ چونکہ الہی کلام ہے اسلئے انسانی ادب سے بہت بلند ترآسمانی ادب کا ایک شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ علم کا خداوندبھی ہے فصاحت و بلاغت اور قواعد و محاورات کا خزینہ بیش بہا ہے موزون ومناسب الفاظ اوراثر انگیز آیتوں کا مسحور کن معجزہ طویل سورتین ہویا مختصر تمام آیات رشدوہدایت کی علمبردار ہیں ، قرآن کاادبی اعجاز عربی ادب کا بے مثال اعجازی کارنامہ ہے جس پرفصاحت وبلاغت کامعیار منحصر ہے ، بقول جاحط ’’’ یہ قرآن بلاغت کے اس مرتبہ پرفائز ہے جس پربلاغت کے تمام قسموں کا احاطہ ہوجاتاہے بلکہ اس پر مزید پیش رفت کی گنجائش ہے اور بالآخر یہ کہ یقیناًکلام الہی میں بلاغت وفصاحت سلامت ومتانت کا ادبی کمال ہے ، جسکی تحقیق تاروز قیامت جاری وساری رہے گی ۔
المراجع:
۱۔ قرآن حکیم ۲۔ تفہیم القرآن ، (مولانا سیدابو الاعلی مودودی )
۳۔ الاتقان فی علوم القرآن ، (علامہ جلال الدین السیوطی )
۴۔ علوم القرآن ، (صبحی صالح ) ۴۔ الاعجاز البیانی للقرآن ، (عائشۃ عبد الرحمن )
۵۔ البدائع فی علوم القرآن ، (ابن القیم الجوزیۃ ) ۶۔ مفردات القرآن ، (الإمام عبد الحمیدالفراہی )
۷۔ قرآن حکیم کے معجزات ، (ڈاکٹر فضل کریم )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Leave a Reply
1 Comment on "قرآن حکیم کے غیرمحدود ادبی محاسن (ایک جائزہ"
[…] قرآن حکیم کے غیرمحدود ادبی محاسن (ایک جائزہ […]