محقق قاضی عبدالودود
اردو میں باضابطہ طور پر تحقیق کا آغاز محمود شیرانی سے ہوتا ہے۔ انھیں تحقیق کا معلّم اوّل کہا جاتا ہے۔ شیرانی صاحب نے پہلی بار تحقیق میں غیر جذباتی اندازِ نظر کی ضرورت کا احساس دلایا۔ انھوں نے نئے مآخذ کی تلاش اور اوّلین مآخذ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
شیرانی صاحب کے بعد ان کی تحقیقی روایت کو جس شخص نے آگے بڑھایا وہ قاضی عبدالودود ہیں ۔ قاضی صاحب کو اردو میں تحقیق کا معلّم ثانی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے شیرانی صاحب کی تحقیقی روایت کو نہ صرف تسلسل بخشا بلکہ تحقیق کے معیار کو بھی بلند کیا۔ رشید حسن خاں کہتے ہیں :
’’روایت کو تسلسل حاصل نہ ہو تو وہ ایک وقفے کے بعد بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ تحقیق کی جو روایت شیرانی صاحب نے قائم کی تھی، اس کے تسلسل کے لیے یہ ضروری تھا کہ خبر اور نظر، دونوں کے اعتبار سے کوئی ایسا شخص ہو جو پچھلی روایت میں اضافے کرسکے اور جو معیار سامنے آچکا ہے، اس کو اور بلند کرسکے۔ اس کے بغیر روایت کو وہ توانائی حاصل نہیں ہو پاتی جس کے بل پر وہ اپنے حلقۂ اثر کو وسیع کیا کرتی ہے اور اپنے عناصر کو تابناک رکھتی ہے۔ قاضی صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کا یہ بڑا ثبوت ہے کہ ان کے اثر سے اس روایت کا تسلسل باقی رہا اور ان اہم اضافوں کے ساتھ جن کے بغیر توسیع نہیں ہو پاتی۔ یہ صرف عہد آفریں شخصیت کا کام ہے۔‘‘ ۱
اس عہد آفریں شخصیت کی پیدائش ۱۳۱۳ھ مطابق ۸؍مئی ۱۸۹۶ء کو کاکو، بہار میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے علی گڑھ کے بلگرامی انسٹی ٹیوٹ سے سینئر کیمبرج کی تیاری کی۔ انسٹی ٹیوٹ کا خاتمہ ہوگیا تو پرائیوٹ طور پر میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ پٹنہ سے بی۔اے کرنے کے بعد ۱۹۲۳ء میں آگے کی پڑھائی کے لیے انگلستان گئے۔ وہاں معاشیات میں اعلیٰ تعلیم کے بعد بیرسٹری بھی پاس کی۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے وکالت نہیں کی۔ ان کا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا۔ اس لیے غمِ روزگار کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مطالعہ کے شوقین تھے۔ فرصت کے لمحات بھی میسر تھے۔ لہٰذا پٹنہ کی خدابخش اورینٹل لائبریری سے وابستہ ہوگئے اور دن رات پڑھائی کرنے لگے۔ وہ خود کہتے ہیں :
’’یہاں بیرسٹری سے میرا برائے نام تعلق رہا اور میرا زیادہ وقت ادبیات اردو کے مطالعے میں صرف ہوتا رہا۔ بعد کو ادبیاتِ فارسی کے باقاعدہ مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوا۔‘‘ ۲
قاضی صاحب کے مطالعے کا میدان نہایت وسیع تھا۔ انھوں نے کلاسیکی شعراء کے دواوین خاص طور پر میرؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، جراتؔ اور سوداؔ کا بالاستعیاب مطالعہ کیا تھا۔ اردو زبان و ادب کے علاوہ فارسی زبان و ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ قدرت نے انھیں حافظہ بھی غضب کا عطا کیا تھا۔ کوئی بات ایک دفعہ پڑھ لیتے وہ ان کے ذہن نشین ہوجاتی۔ بہ قول مختارالدین احمد:’’قاضی صاحب کا حافظہ بہت قوی تھا۔ اردو فارسی کے غیر مشہور اشعار کے اگر چند لفظ ان کے سامنے پڑھ دیے جائیں تو وہ نہ صرف شعرسمجھ جائیں گے بلکہ یہ بتادیں گے کہ یہ شعر کس کا ہے، مطبوعہ دیوان میں موجود ہے یا کسی خاص قلمی نسخے میں ہے، کن کن بیاضوں اور تذکروں میں اس کا اندراج ہے۔ وہ یہ بھی بتادیں گے کہ یہ شعر صحیح یا غلط طور پر کن کن شعراء کی طرف سے منسوب ہے۔‘ ‘ ۳
تحقیق کے لیے جو چیزیں درکار ہوتی ہیں وہ سب قاضی صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کے تحقیقی تبصرے ان کی علمیت اور کثرت مطالعہ کے گواہ ہیں ۔ ان کے بیشتر مضامین ’’معاصر‘‘ پٹنہ سے شائع ہوئے۔ انھوں نے خود بھی ایک رسالہ ’’معیار‘‘ انجمن ترقی اردو (بہار) کی جانب سے ۱۹۳۶ء میں جاری کیا تھا لیکن پانچ چھ شمارے کے بعد یہ بند ہوگیا۔
قاضی صاحب نے اپنے تحقیقی تبصروں میں کسی تکلف کے بغیر صاف صاف باتیں کہیں ۔ وہ تحقیق میں معیار کی بلندی کے قائل تھے۔ جب تک وہ پوری بات کی چھان بین نہیں کرلیتے قلم نہیں اٹھاتے۔ وہ ایک بُت شکن محقق تھے۔ انھوں نے بڑے بڑے لوگوں کے فروگزاشتوں کو آشکار کرنے میں کبھی گریز نہیں کیا۔ انھوں نے تحقیق میں سہل نگاری پر روک لگائی اور یہ بتایا کہ کسی بھی مفروضے پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کرنا چاہیے۔ مجنوں گورکھپوری نے ’’میر اور ہم‘‘ میں میرؔ کے اس شعر
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
?مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
کوسامنے رکھ کر میرؔ کے یہاں مقابلہ و حوصلہ پر بڑا زور دیا ہے۔ مجنوں لکھتے ہیں :
’’میرؔ کے کلام میں تڑپنا اور تلملانا نہیں ہوتا۔ وہ خودداری اور سنجیدگی کے ساتھ بڑی مصیبت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں ۔ جو تیور اور جو میلان اس شعر میں علانیہ ملتے ہیں وہ ان کے سارے کلام کے اہم ترکیبی عناصر ہیں ۔ آلامِ عشق کا ذکر ہو یا آفات روزگار کا، ان کے اشعار میں جلی یا خفی طور پر یہ اشارہ ضرور پایا جاتا ہے کہ نامساعد حالات و اسباب کا جان پر کھیل کر مقابلہ کرو۔‘‘ ۴
قاضی صاحب نے میرؔ کے سبھی اردو دواوین (کل چھ) کا بالاستعیاب مطالعہ کیا تھا۔ انھوں نے یہ بات بتائی کہ یہ شعر کلیات میر میں کہیں نہیں ہے۔ دراصل یہ شعر کسی قدر مختلف شکل میں ایک دوسرے شاعر نواب محمد یارخاں امیرؔ کا ہے
شکست و فتح میاں ! اتفاق ہے، لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
یعنی تحقیق کے بغیر تنقید بھی محض قیاس آرائی تک محدود ہوتی ہے۔ قاضی صاحب نے پہلی بار یہ احساس دلایا کہ بنیادی وسائل و ذرائع مستند و قابلِ اعتبار ہونے چاہیے۔
’’اشتر و سوزن‘‘ اور ’’عیارستان‘‘ قاضی صاحب کے تبصروں کے مجموعے ہیں ۔ ’’عیارستان‘‘ میں تین کتابوں پر تبصرے ہیں ۔ دیوانِ فائز مرتبہ مسعود حسن رضوی، مرقع شعرا مرتبہ رام بابو سکسینہ، اور خواجہ احمد فاروقی کی تالیف کردہ ’’میرتقی میر حیات اور شاعری‘‘ اس پر انھوں نے تبصرے لکھے ہیں ۔
خواجہ احمد فاروقی نے اپنی تصنیف ’’میرتقی میر:حیات اور شاعری‘‘ لکھتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ہنوز میرؔ پر ایسی مبسوط اور محققانہ کتاب نہیں لکھی گئی۔ قاضی صاحب نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی بہت سی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ایک مثال پیش ہے۔
خواجہ احمد فاروقی نے اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’میرؔ نے اپنے تذکرے میں ۱۶۰ قلمی چہرے پیش کیے ہیں ، لیکن ان رنگارنگ صورتوں میں خود ان کے چہرے بھی اصلی جھلک موجود ہے۔ میرؔ نے بعض صفات پر بہت زور دیا ہے اور ان کو اکثر شاعروں کی سیرت میں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (ص۵۳۶)
اس پر قاضی صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مصنف میر‘‘ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نکات الشعرا میں بالاستقلال کتنے شعرا کا ذکر ہے۔ ان کی تعداد ۱۶۰ نہیں ، ۱۰۳ ہے اور ان میں بکثرت ایسے ہیں جن سے متعلق عبارت نثر ہے ہی نہیں ، یا ہے تو برائے نام۔ ایسے شعرا جن کے قلمی چہرے پیش کیے ہیں ، کم ہیں ۔‘‘ ۵
دیوان فائز مرتب مسعود حسن رضوی نے فائز کو ولیؔ کا ہمعصر قرار دیا ہے اور آگے یہ بات کہی ہے کہ دیوانِ فائز کی ۳۲ غزلوں میں سے ۱۹ ایسی زمینوں میں ہیں جو ولیؔ کے دیوان میں بھی موجود ہیں۔(ص۹۰) اس پر قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’دیوانِ فائز میں ۳۲ نہیں ، ۲۷ غزلیں ہیں اور ۴ زمینوں میں متفرق اشعار جن کی مجموعی تعداد ۶ ہے۔ ولیؔ بقول قائم ۴۴ء عالمگیری میں وارد دہلی ہوئے اور ۱۱۱۹ھ میں مرے۔ یہ کسی طرح اصطلاحی معنی میں فائز کے ’’ہمعصر‘‘ نہیں ۔ دیوان ولی، ولیؔ کے دوران حیات میں مرتب ہوچکا ہوگا۔ ۱۱۲۰ھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ چند سال قبل تک موجود تھا (مقدمۂ کلیات ولی، ص۶) اور ممکن ہے اب بھی ہو۔ ولیؔ کا فائز کی غزلوں پر غزلیں کہنا حددرجہ بعید از قیاس ہے۔ فائز بے شبہ ولیؔ کے مقلد ہیں ۔‘‘ ۶
قاضی صاحب نے اپنے تبصروں میں نہ صرف غلطیوں کی نشاندہی کی ہے بلکہ تصحیح بھی کی ہے اور معلومات کہاں سے حاصل ہوسکتی ہے یہ بھی بتایا ہے۔ بہ قول رشید حسن خاں :
’’قاضی صاحب نے بہت سے نئے مآخذ کا اُس وقت پتا دیا جب ان کا علم اکثر لوگوں کو نہیں تھا۔ ان کی تحریریں ، ان کے وسعتِ مطالعہ کی شاہدِ عادل ہیں ۔ کم ایسے مآخذ ہوں گے جو ان کی نظر سے نہ گزرے ہوں ۔‘‘ ۷
’’آوارہ گرد اشعار‘‘، ’’جہانِ غالب‘‘ اور ’’تعینِ زمانہ‘‘ ان کے طویل مضامین ہیں جو قسطوں میں شائع ہوئے۔ ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ میں انھوں نے ایسے اشعار جمع کیے ہیں جن کے شاعر کا کچھ علم نہیں ۔ ایسے مشہور اشعار پر انھوں نے مختلف مآخذ سے ضروری تفصیل لکھی ہے۔ ’’جہانِ غالب‘‘ میں غالبیات سے متعلق ان کی تحقیقات ہیں ۔ غالبیات پر یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جسے ۱۹۹۵ء میں خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ سے شائع کیا۔
قاضی صاحب نے غالبؔ کی فارسی فرہنگ ’’قاطع برہان‘‘ کی بھی تصحیح کی ہے۔ غالبیات پر انھوں نے عمدہ کام کیا ہے۔
قاضی صاحب راست گو، بیباک اور حق پسند انسان تھے۔ یہی باتیں ان کی تحقیق میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ تحقیق میں انھوں نے سخت گیری سے کام لیا ہے۔ اہلِ قلم کو نہ صرف احتیاط، زیادہ محنت اور زیادہ علمی دیانت داری کا احساس کرایا ہے بلکہ اردو تحقیق کی مبادیات، اصول، ضابطے اور طریق کار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ قاضی صاحب کی تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گیان چند لکھتے ہیں :
’’قاضی عبدالودود، زبانِ خامہ پر جن کا نام آنے سے طارمِ تحقیق کے تمام غرفے کھل جاتے ہیں اور نوریانِ فلک ان کی تمدیح میں زمزمہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ اگر ادبی تحقیق کوئی دین ہوتی تو بلاشبہ قاضی عبدالودود اس کے نبی ٹھہرائے جاتے۔ ان کا مسلک سچ اور محض سچ تھا جو کسی ذات کی پروا کیے بغیر حقیقت کو افشا کرتے رہتے تھے، جو علائق کی آلائش سے ملوث نہ ہوتے تھے۔ وہ ان ارباب تحقیق کی طرح نہ تھے جو ہندو ہیں تو نسیمؔ و چکبستؔ کی جبّہ داری ان کا دھرم ہے، جو مسلمان ہیں تو اقبالؔ کے خلاف ایک لفظ سننے کو تیار نہیں ، جو شیعہ ہیں تو محمد حسین آزادؔ کا دفاع کرنا ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ قاضی صاحب کو صرف اس سے سروکار تھا کہ کیا لکھا ہے، اس سے کچھ لینا دینا نہ تھا کہ لکھنے والے کا فرقہ، گروہ یا مرتبہ کیا تھا۔قاضی عبدالودود نے اردو تحقیق کو ایک جہت دی، ایک معیار عطا کیا۔ میدانِ تحقیق میں ان کی سب سے بڑی دین وہی اغلاط شماری ہے جس سے بہت لوگ شاکی ہیں ۔ میں ان کے طریقِ کو تصحیحی تحقیق کہتا ہوں ۔‘‘ ۸
سخت گیری کی وجہ سے کچھ لوگ انھیں منفی تحقیق کا قائل بتاتے ہیں ۔ لیکن اپنے تبصروں میں انھوں نے نہ صرف کمیوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ اسے دور کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔
٭٭٭
حواشی
۱رشید حسن خان، تدوین۔تحقیق روایت، ص ۲۰۵۔۲۰۶ ،ایس۔اے پبلی کیشنز ،دہلی،۱۹۹۹ء
۲قاضی عبدالودود ،(مضمون)منکہ قاضی عبدالودود ،(مشمولہ)یادگار نامہ قاضی عبدالودود ،ص ۳۰ ،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،۲۰۰۰ء
۳مختارالدین احمد،(مضمون)قاضی عبدالودود ،(مشمولہ)یادگار نامہ قاضی عبدالودود ،ص ۵۶۔۵۷،غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی،۲۰۰۰ء
۴مجنوں گورکھپوری،(مضمون)میر اور ہم ،(مشمولہ)نقوش و افکار، ص ۱۷ ، سرفراز پریس،لکھئنو،۱۹۵۵ء
۵قاضی عبدالودود ،عیارستان، ص ۲۸ ،مطبع لیبل لیتھو پریس ،رمنا، پٹنہ، ۱۹۵۷ء
۶ایضاً ص ۷
۷رشید حسن خان، تدوین۔تحقیق روایت، ص ۲۱۰ ،ایس۔اے پبلی کیشنز ،دہلی،۱۹۹۹ء
۸گیان چند جین(مضمون)قاضی عبدالودود اور تنقید آبِ حیات،(مشمولہ)یادگار نامہ قاضی عبدالودود ،ص ۹۶، غالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی،۲۰۰۰ء
۹رشید حسن خان، تدوین۔تحقیق روایت، ص ۲۱۵۔۲۱۶ ،ایس۔اے پبلی کیشنز ،دہلی،۱۹۹۹ء
Leave a Reply
Be the First to Comment!