ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں میں سماجی اور سیاسی تناظرات

Abstract:

Dr.Anwaar Ahmad is a renowned and eminent Urdu fiction writer. His writings have portrayed multi-dimensional aspects of society specifically the political & social perspectives are quite evident in his short stories.He has a vision of democratic and prosperous society, thats why he endeavored to reform the society through his literary work.Most of his short stories are discussed in his contemporary political perspective. He has touched and picturised political and social situation in his fiction in different ways.After all he wants to expose the bitter realities of life and he has observed the facts around him and wrote with realism and neutral approach. .Most of his short stories has been discussed with reference to politicle and social situation. The present article is an effort to explore all such perspectives in order to understand the political and social problems of country.

   ڈاکٹرانواراحمدنے ملک کے معروف ادبی مراکز سے دور ملتان کی مردم خیز فضا میں آنکھ کھولی اور اپنی عمر کا معتدبہ حصہ درس و تدریس میں گزارا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے متنوع الجہات ادبی خدمات بھی سرانجام دیں اورتحقیق و تنقید کے علاوہ بہت سی کتابیں مرتب کیں ، افسانے لکھے، خاکہ نگاری اور کالم نگاری میں بھی طبع آزمائی کی، تحقیقی و تنقیدی مضامین اور مقالے تحریر کیے، ڈرامے لکھے، کتابوں پر تبصرے اور فلیپ پر آرابھی تحریر کیں۔  ڈاکٹرانواراحمدکا بنیادی حوالہ تنقید ہے اور تنقید میں ان کی خاص دلچسپی ہمیشہ ہی سے افسانے کی طرف رہی ہے کیونکہ انہیں افسانہ نگاری سے فطری لگائوہے۔ یہ ان کی افسانے سے دلچسپی اور لگائو ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے پی ایچ۔ڈی کے مقالے کے لیے ’’اُردو مختصر افسانہ اپنے سیاسی و سماجی تناظر میں ‘‘ جیسے مشکل اور وقیع موضوع کا انتخاب کیا جس کے لیے انہوں نے اردو کے پہلے افسانہ نگار علامہ راشد الخیری سے لے کر دورِجدید کے افسانہ نگاروں تک کی نگارشات کا مطالعہ کیا۔ اِس طویل تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی ساری زندگی افسانے کے مطالعے اور تجزیے میں گزاری ہے جس سے انہیں افسانے کی روایت کا گہرا شعور حاصل ہوا۔

   ڈاکٹرانواراحمد کی تخلیقی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی افسانہ نگاری ہے۔ ان کی ذہنی و فکری آبیاری میں ان کے ذوق مطالعہ کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ وہ کالج کے زمانے تک اُردو کے کلاسیکی افسانوی ادب کا بغور مطالعہ کر چکے تھے جو بعد میں نہ صرف ان کی افسانے کی تحقیق و تنقید میں معاون ثابت ہوا بلکہ افسانے کے فن اور روایت کا بھرپور تاثر ان کے شعور کاحصہ بن گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ افسانے کے فکری و فنی ارتقا پر بھی ان کی پوری نظر تھی اور اسی لیے جب افسانہ ’’جدیدیت‘‘ کی تحریک کے زیرِ اثر کہانی، پلاٹ اور بعض اوقات کرداروں سے بھی محروم ہو رہاتھا اور محض ایک خیال اور تصور کی ترسیل بن کر رہ گیا تھا، ڈاکٹرانواراحمدنے افسانے کے فنی لوازم کو نبھاتے ہوئے ’جدید‘ افسانے لکھے اور روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج پیش کیا۔

   ڈاکٹرانواراحمدنے زمانہ طالب علمی ہی سے افسانے لکھنا شروع کیے۔ ان کی پہلی کہانی ’’اَمر‘‘ کے عنوان سے ۱۹۶۸ء میں ’’نخلستان‘‘ میں شائع ہوئی۔[۱] پھر یہ سلسلہ سبک رفتاری سے چلتا رہا۔ اَب تک ڈاکٹرانوار احمد کے مندرجہ ذیل تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں :

۱۔ ’’ایک ہی کہانی‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۶ء

۲۔ ’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘، بیکن بکس، ملتان، لاہور، ۲۰۰۳ء

۳۔ ’’آخری خط‘‘، مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء

    ’’آخری خط‘‘‘ میں کل ۲۸ افسانے شامل ہیں جن میں سے ۱۶؍افسانے ان کے پہلے دو مجموعوں یعنی ’’ایک ہی کہانی‘‘اور ’’پہلے سے سُنی ہوئی کہانی‘‘ سے لیے گئے ہیں جب کہ ۱۲؍نئے افسانے اس مجموعے میں شامل کیے گئے ہیں جن میں سے ۷-افسانے ترکی اور جاپان کی معاشرت کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ڈاکٹرانواراحمدکا یہ افسانوی مجموعہ اُن کے فن کی معراج ہے اور ان کے فنی ارتقااور فکروفن کی تفہیم کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔جب ڈاکٹرانواراحمدنے افسانہ نگاری شروع کی تو ان کے سامنے اردو افسانے کی ایک بھرپور روایت موجود تھی۔ فکری اور فنی اعتبار سے افسانے نے زمانے کے سردوگرم کا ذائقہ چکھا اور مختلف تحریکوں اور روایتوں کے اثرات بھی قبول کیے۔ مقصدیت سے لے کر رومانیت تک، حقیقت نگاری سے لے کر مزاح نگاری تک، علامت سے لے کر تجرید تک، ابہام سے لے کر اسراریت تک، وقت کے ساتھ ساتھ افسانے نے کئی کروٹیں لیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ افسانہ محض الفاظ کی بازی گری بن کر رہ گیا اور اس میں سے کہانی کا عنصر بالکل ہی غائب کر دیا گیا۔  یہ دور بلاشبہ ایک تجربے کے طورپر تو اہم رہاہے مگر اسی دور میں افسانہ قاری کی توجہ سے محروم بھی ہوا کہ فن کا اصل مقصد ابلاغ ہے اور ابلاغ کے بغیر کسی بھی تبدیلی، آدرش اور انقلاب کا تصور ہی بے کار ہے۔ ڈاکٹرانواراحمدچوں کہ افسانے کے باقاعدہ قاری اور ذہین نقاد ہیں ، اس لیے ان تمام عوامل پران کی گہری نگاہ تھی جو افسانے کے فن کو عوارض کی طرح لاحق ہو رہے تھے او رقاری اور افسانے کے درمیان دیوار کی طرح حائل تھے۔ لہٰذا ہمیں ان کے ہاں روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے اُسلوب کے تجربے، خیال کی جدت اور بیان کی ندرت کو اپناتے ہوئے بھی افسانے کے بنیادی اور اوّلین عنصر ’کہانی‘ کو نظرانداز نہیں کیا۔ ان کے تمام افسانے خواہ وہ علامتی ہوں یا تجریدی، استعاراتی ہوں یا شعور کی رَو پر لکھے گئے ہوں ان میں کہانی موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے اپنے قارئین کا جذباتی ساتھ دیتے ہیں۔

   ڈاکٹر انوار احمد کا تخلیقی سفر ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں شروع ہوتا ہے جب ترقی پسند تحریک اپنی آخری سانسیں لے چکی تھی اور قومی سطح پر اُبھرنے والی دو تحریکیں یعنی ’اسلامی ادب کی تحریک‘ اور ’پاکستانی ادب کی تحریک‘ بھی تخلیقی میدان میں کوئی خاص مقام بنانے میں ناکام ہو چکی تھیں۔  دوسری طرف معاشرتی و سیاسی ابتلانے ایک قسم کی قومی بے سمتی کو جنم دیا جس کا نتیجہ ایک مجموعی لاتعلقی اور بے حسی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس ادبی ،سماجی اور سیاسی پیش منظر میں ادب کا رجحان داخلیت کی طرف مڑ گیا اور خارجی حقیقت نگاری کی بجائے داخلیت پسندی، نفسیاتی دروں بینی اور تلاش ذات کے داخلی سفر کا آغاز ہوا۔ لہٰذا افسانے میں ہیئت، اسلوب اور تکنیک کے نئے نئے تجربے کیے جانے لگے۔ستر کی دہائی کے آغاز میں مارشل لاکے خلاف معاشرتی اور سیاسی طور پر ردِعمل کا آغاز ہوا جس نے مزاحمتی ادب کو پروان چڑھایا۔ اب افسانے نے ایک بار پھر باطن سے خارج کی طرف سفر کیا مگر مارشل لاکی طرف سے لگائی گئی پابندیٔ فکر واظہار کی بدولت بیشترعلامتی اسلوب اور تجریدی ہیئت کو ہی اپنایا گیااور خارجی حقائق کو علامتوں ، امیجز، داستانوی اسلوب، تمثیل کاری اور اساطیری انداز بیان کے دبیز پردوں میں چھپا کر پیش کیا جانے لگا۔ اگرچہ ۶۵ء کی پاک بھارت جنگ نے ارض وطن سے محبت کاجذبہ ضرور اُجاگر کیا اور دھرتی سے وابستگی کا احساس پیدا ہوا مگر جمہوریت پر مارشل لاکا شب خون جاری رہا۔ اسّی کی دہائی اِس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے حساس ذہنوں کو جھنجوڑ کررکھ دیا۔ یعنی سقوط مشرقی پاکستان، ضیا الحق کا بدترین مارشل لا اور بھٹو کی پھانسی۔ ان تینوں واقعات نے جہاں ملکی سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر دیرپا اثرات چھوڑے وہیں ادب کو بھی موضوع، فکر اور تکنیک کے حوالے سے نئے چیلنجز سے دو چار کر دیا۔ خوف، عدم اعتمادی، بے سمتی، داخلی شکست و ریخت ،باطنی تنہائی اور معاشرتی و قومی سطح پر منافقت ادب کا موضوع بنے رہے۔ یہی زمانہ ڈاکٹرانوار احمد کے تخلیقی سفر کے عروج کا زمانہ ہے۔ ان کے ہاں موضوع کے انتخاب، موضوع کا افقی اور عمودی سمت میں پھیلائو اور اسلوب کی رنگا رنگی اِسی سیاسی آشوب کی دین ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے ڈاکٹر انواراحمد کے افسانوں کو مندرجہ ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ ملکی سیاسی صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر میں لکھے گئے افسانے۔

۲۔ سماجی حقیقت نگاری پر مبنی افسانے۔

۳۔ ترکی اور جاپان کے معاشرت کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے۔

   ڈاکٹرانواراحمد نے جب شعور کی سیڑھی پر قدم رکھا تو ملک اور آئین کو ایوب خان کی آمریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پایا۔۱۹۵۹ء میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخاب میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے جس طرح محترمہ فاطمہ جناح کو دھونس اور دھاندلی سے شکست دی تو ڈاکٹر انواراحمد کے رومانی مزاج نے جمہوریت کو اپنی محبوبہ کا روپ دیا اور اپنے طور پر ہمیشہ آمرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو اس عوامی لیڈر کے حسین وعدوں میں جمہوریت کے دلدادوں کو اپنی منزل سامنے دکھائی دینے لگی۔ مگر ضیا الحق کے مارشل لانے ان خوابوں کو ایک بار پھر نوچ پھینکا اور صرف اِسی پر اکتفا نہ کیاگیا بلکہ جمہوریت کی راہ ہموار کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو کی پھانسی ایک ایسا سانحہ تھا جو ڈاکٹر انواراحمد کے دل و دماغ پر انمٹ اثرات چھوڑ گیا۔لہذا انہوں نے افسانے کو مزاحمت، انقلاب، اصلاح اور تبدیلی کا وسیلہ بنایا اور ایک باشعور، روشن دماغ ادیب کا کردار نبھانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ڈاکٹر انوار احمد کے ایسے افسانے ہماری قومی تاریخ کے ایک اہم دور کی دستاویز ہیں۔  جمہوریت پر مارا گیا شب خون، بھٹو کی پھانسی، مارشل لاکے دوران تحریر و تقریر پر لگائی جانے والی پابندیاں ، جمہوریت کے متوالوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان، قومی زندگی میں اپنایا گیا سب سے بڑا حربہ ’منافقت‘ ،مکر، فریب اور لالچ کے ذریعے حق کے علمبرداروں کو خریدنے کی کاوشیں ،جمہوریت پسند رومانیوں کے خواب، خواب دیکھنے والی آنکھوں ، سوچنے والے ذہنوں اور دردِ دل رکھنے والے انسانوں کی تذلیل، مارشل لاکو طول دینے کے لیے آزمائے گئے حربے، مخالفین کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے جانے والے اوچھے ہتھکنڈے، مذہبی اصلاحات کی آڑ میں جدت، تبدیلی، ترقی اور روشن خیالی کا سدّباب، یہ سب ان کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔  یوں ان کے یہ افسانے ہماری قومی تاریخ کے ایک خاص دور کی ترجمانی کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ترجمانی براہِ راست نہیں ہے، بلکہ ایک سچے فنکار نے جو دیکھا، سنا، محسوس کیا اور جو کچھ اس پہ بیتا، اس نے فن کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افسانے کے فریم میں پیش کر دیا۔ یہی ایک افسانہ نگار کا کمال ہے کہ وہ اپنے عہد کی صورتحال کو بعینہٖ پیش کرتا ہے تاکہ آنے والے ادوار میں اس مخصوص عہد کی تاریخ مرتب کی جا سکے۔ان کے افسانوں خاص طور پر ’’آسٹروٹرف‘‘، ’’چرم ہائے قربانی‘‘، ’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘، ’’ایک ہی کہانی‘‘، ’’بچھوئوں کے ساتھ رات‘‘، ’’بیچ والا آدمی‘‘، ’’پہلا محب وطن بچہ‘‘، ’’کمال بستی، جبڑا چوک‘‘، ’’ناقابلِ اشاعت‘‘، ’’یرغمالی‘‘، ’’گرجھوں والی سرکار کی دعا‘‘، ’’جب راج کرے گی خلق خدا‘‘، ’’حلفیہ بیان‘‘ اور ’’آخرت ایکسپریس‘‘ میں یہی ملکی سیاسی صورتحال اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ ان افسانوں میں کہیں علامتی اسلوب میں اور کہیں مکالماتی بیانیہ کے ذریعے ڈاکٹر انواراحمد نے ایک ہی دور کا المیہ سنایا ہے جو سیاسی آشوب کازمانہ ہے۔بقول شوکت نعیم قادری:

’’ملکی سیاسی و سماجی صورتحال بھی ان کے افسانوں میں نمایاں ہے۔ دور آمریت اور اس کے اثرات یعنی پابندی ’’افکار و اظہار جو حب الوطنی کی دلیل ٹھہرتی ہے، مذہبی Exploitation ، استحصالیوں کے خلاف کمزور ترین جذبۂ ایمانی۔ ایسے میں ہمارے ادبا، اصحابِ فکر و دانش اور سیاسی رہنمائوں کا کردار، یہ وہ تمام موضوعات ہیں جو ان کے افسانوں کو اہم بناتے ہیں۔ ‘‘ [۲]

   ’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘ ایسا ہی ایک افسانہ ہے جو انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے موقع پر تحریر کیا۔ فلیشز کی تکنیک ،علامتی اور استعاراتی اسلوب میں لکھے گئے اس افسانے میں اساطیری زبان اور حوالوں کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ روشن آنکھوں والے ہیروکا کردار، مفاد پرست، ابن الوقت اور بے ضمیر افراد کا رویہ، قادر بھائی کے عشائیے اور سرکاری ٹیلی ویژن کے مذاکرے میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا ساتھ دینے والے قاضی، دانشور اور اہلِ قلم کاباطن ایک ایک فلیش کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اِس افسانے میں روشن آنکھوں والے کی تقریر اساطیری زبان اور حوالوں سے لبریز ہے جس میں ہاتھی والوں کی تلمیح استعمال کی گئی ہے جب وہ اپنا خواب سناتا ہے :

’’میں نے دیکھا ہے کہ ہاتھی والوں کو ان کے اپنے ہاتھی روند رہے ہیں ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ چراگاہیں سیر شکموں اور چشمے سیراب لبوں کے قبضے سے نکل کر فاقہ زدوں اور تشنہ لبوں کی قدرت میں آرہی ہیں ، اور یہ میری بستی کا منظر نہیں ، خدا کی زمین کا نقشہ ہے، اَب سنو! یہی خواب اپنی تعبیر ہے اگر تم اپنے دل سے ہاتھی والوں کا خوف نکال دو، اگر ایسا نہ کر سکو تو سن لو، تم آنے والی نسلوں کو خوف اور دُکھ کے ساتھ بھوک اور پیاس بھی ترکے میں دے جائو گے اور پھر میرے قاتل، میرے خاندان سے ہی خون بہا طلب کریں گے، میرے نام پر کئی مہاوت تمہیں بلائیں گے۔‘‘[۳]

   بھٹو کی پھانسی نے جمہوریت کے رومان پسند ذہنوں کو بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا ،بالکل ایسے کہ وہ سوچنے ،سمجھنے اور اس دکھ پر آہ وبکا کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ اس کے بعد ایک طویل اور بد ترین مارشل لا عوام کا نصیب تھا جس کی عکاسی انہوں نے علامتی اسلوب مگر دلکش پیرائے میں کی ہے۔ ان افسانوں میں جا بجا ضیا الحق کے مارشل لاکے دوران کی گئی مذہبی وسماجی اصلاحات اور ان کے درپردہ اصل حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے جب گونگا ہونا حب الوطنی کی دلیل ٹھہرا۔ دانش وروں ، اہلِ قلم اور اہلِ علم سے کہا گیا کہ وہ صرف اتنا ہی لکھیں ، بولیں اور سنائیں جتنا انہیں کہا جاتا ہے۔ حکومت کے خلاف لکھنا یا بولنا ریاست سے غداری قرار دیا گیا۔ایسے چند افسانوں کے اقتباسات ملاحظہ ہوں :

’’اور پھر جو رات آئی، تو اس کی صبح نہ ہو سکی، آدھی رات کے اندھیرے میں ہی روشن آنکھوں والے کی لاش ہم میں اس طرح رکھ دی گئی کہ ہم سب اس وہم میں مبتلا ہوتے کہ قاتل ہم ہی ہیں اور کبھی اس خوف میں گرفتار کہ مقتول بھی ہم ہیں۔  ذرا دیر بعد ہم میں جو ہوش میں آیا، وہ رونے لگا، فوراً اس پر ایک باز جھپٹا۔۔۔ تب ہم پر یہ کھلا کہ ہمیں گریہ کا حق بھی نہیں کہ مبادا ہم سکتے کی حالت سے باہر آجائیں۔ ‘‘[۴]

’’وہ رات بھی بہت عجیب تھی جب بہزاد کے کینوس سے اس کی شاہکار تصویر گم ہو گئی۔ آذر کا تراشا ہوا جاذب نگاہ مجسمہ ایک بدہیئت پتھر بن گیا اور خسرو منہ سر لپیٹ کر شاعری سے روٹھ گیا۔ چنانچہ اگلی صبح اس شہر کے لوگوں کے معمولات تو وہی رہے مگر معنی و مفہوم ان کی زندگی سے خارج ہو گئے۔ وہ ہنستے بھی تھے اور روتے بھی مگر نہیں جانتے تھے کہ کیوں ؟ وہ لکھتے پڑھتے تو تھے مگر بڑھنے کے لیے نہیں گھٹنے کی خاطر۔ وہ محبت بھی کرتے تھے اور نفرت بھی، مگر اس کے ہدف سے واقف نہیں ہو پا رہے تھے۔‘‘[۵]

’’پھر سانپ جیسی آنکھوں والے کا دور آیا اور نئے سرے سے مسلمانوں کے ختنے چیک ہونے شروع ہو گئے۔ ایک صالح جماعت نے اس حاکم کے سائے میں اخبارات، سرکاری ملازمتوں ، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں طہارت کے بہانے کئی لوگوں پررزق کے دروازے بند کرنے شروع کیے۔‘‘[۶]

’’اور پھر اعلان ہوا کہ پورے ملک میں سردخانے کھول دئیے گئے ہیں۔  جہاں ہر شخص اپنے حصے کا جغرافیہ، تاریخ، ادب و شعر اور آنکھیں جمع کرا دے جس کے صلے میں ہر شخص کو ایک خوش نصیب لا تعلقی دی جائے گی۔‘‘[۷]

مارشل لاکے پس منظر میں لکھا گیا ایک اہم افسانہ ’’بچھوئوں کے ساتھ رات‘‘ (۱۹۸۱ئ) ہے۔ یہ علامتی اسلوب میں ملفوف ایک المیاتی داستان ہے جس میں بچھو غیر ملکی اور ذرا واضح الفاظ میں کہا جائے تو امریکی استعمار کی علامت ہیں جو ملک میں نام نہاد مارشل لا آقائوں کے اَن داتا ہیں۔  یہ بچھو اِس گھر (ملک)، کے مکینوں (عوام) کا بدن کاٹ کاٹ کر نیلا کر رہے ہیں۔  بچھوئوں کا محافظ اندھیرا، اس ملک کے وہ عاقبت نا اندیش حکمران اور دانشور ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا ڈنگ پورے گھر (ملک) میں پھیلا رہے ہیں۔  باپ وہ قوت ہے جو ان بچھوئوں کو مارنے میں مدد دینے کی بجائے اپنے بچوں کو کم حوصلگی کا درس دیتا ہے اور ’گونگی ماں ‘ کا استعارہ اِس دھرتی کے لیے ہے۔ اِس افسانے میں متکلم کا خود سے اور ’واحد غائب‘ کا متکلم سے مکالمہ مسلسل انداز میں ملتا ہے۔’’گرجھوں والی سرکار کی دعا‘‘ بھی ملک کے سیاسی حالات، مارشل لااور بھٹو کی پھانسی کی المناک داستان کا نوحہ ہے۔ ’دکھیاری ماں ‘ علامتی کردار ہے جس کا آدھا ننگا سر، آدھے پاکستان کی علامت ہے۔یہ دُکھیاری ماں اپنے وفادار بیٹوں کے ساتھ کیے گئے مظالم کی داستان سناتی ہے جو کہ دراصل اس ملک کے قابلِ ہمدرد اور وفادار حکمرانوں اور دانشوروں کی داستان ہے۔ اس کے دُکھ کی تفصیل ایک گرجھ سائیں کے گوش گزار کرتی ہے:

’’سائیں جی، آکھدی اے، جو، میں ، ماں ہاں ، پر جس پتر سے میری بنی ہو یا وہ میری خدمت کرنے جوگا ہو تو وہ اس کو پکڑ کر لے جاتے ہیں ، پر میں منت و زاری کروں تو کہتے ہیں کہ کودن رن یہ تمہارے ہی فائدے میں ہے، ورنہ یہ پتر بھورے تو تیرا سودا کیے بیٹھے ہیں۔ ‘‘ میں ہتھ جوڑ کے کہتی ہیں ، ’’کوئی ماں سے بھی تو پُچھے جو کون کملا اس کی عزت تے آبرو کا پہرے دار ہے اور کون چندرا سوداگیر۔ ماں او تری کی کوئی سنتا ہی نہیں۔  بُک بُک روتی اسی لیے ہوں کہ جنہوں کو وہ مجھ سے چھین لے جاتے ہیں ، میرا دل انہی کے لیے کُرلاتا ہے، اوسائیں گرجھوں والی سرکار! اس سے پہلے کہ میرا یہ ادھا سر بھی ننگا بُچّا ہو جائے، اِس وستی کوں برباد چاکر، جو ظلم تے قہر کے برباد ہونے کا بیا راستہ نظر نہیں آتا۔‘‘[۸]

   یہاں ڈاکٹر انواراحمد تلخ حقیقت نگار کی حیثیت سے طنز کے تیز نشتر چلاتے ہیں مگر طنز کی یہ شدت اور تلخی کہانی کے حسن اور افسانے کے فنی رموز کی بدولت قابلِ برداشت ہو جاتی ہے اور یہی ڈاکٹر انواراحمد کا کمال ہے کہ وہ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہوئے،نفرت، غصے اور دُکھ کے عالم میں بھی فن کے تقاضوں کو قربان نہیں کرتے۔ اصغر ندیم سید، ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

   ’’مزاحمت اور ردِعمل کی فضا میں غصہ، نفرت، غیر محفوظ ہونے کا احساس، طنزیہ وار کرنے کا اسلوب اور سنجیدہ چہروں کے پیچھے چھپی ہوئی مضحکہ خیزی کو بے نقاب کرنے کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ لیکن یہ سارے رویے افسانے کے کینوس، بُنت اور تکنیک کے زاویوں میں جذب ہو کر بامعنی بنتے ہیں۔  موضوع کی شدت میں بعض اوقات وہ اپنے کرداروں کی بجائے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے اور اکثر اس میں کامیاب ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ احتجاج اتنا بھرپور ہو کہ دشمن کی کمر توڑ دے لیکن اس طرح وہ اپنے کرافٹ کی باریکیوں اور پہلوئوں کو ضائع کر کے مقصد حاصل کرنے کو ترجیح نہیں دیتا۔‘‘ [۹]

   ملکی سیاسی حالات کے پس منظر میں لکھے گئے دو افسانے ’’یرغمالی‘‘ اور ’’آخرت ایکسریس‘‘ اس لحاظ سے اہم ہیں کہ دونوں ایک ہی سن یعنی ۱۹۹۰ء میں لکھے گئے۔ ’’یرغمالی‘‘ علامتی اسلوب میں لکھا گیا ہے جس میں ٹرین کا اپنے سٹاپ کے بغیر رُکنا جمہوری حکومت کا وقت سے پہلے معطل ہونے اور عالمی قوتوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’آخرت ایکسپریس‘‘ میں اس صورتحال کو بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے عالمی قوتوں کے حربے اور پاکستان کی کٹھ پتلی حکومتوں کے رویے اور ان دونوں کی طرف سے مذہب کے نام پر سادہ لوح عوام کا جذباتی استیصال، یہ سب اِس افسانے میں نظر آتا ہے۔

   ڈاکٹرانواراحمدکے تجربات گوناگوں ہیں۔ انہوں نے زندگی کے زہر کو خود گھونٹ گھونٹ پیا ہے اور اس کی تلخیوں کا، کڑواہٹ کا خود مزا چکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ہمیں جا بجا تلخ حقیقت نگاری نظر آتی ہے اور کہیں کہیں یہ تلخی اور طنز کی کاٹ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر معاشرتی جبریت اور سیاسی آمریت کے پس منظر میں لکھے گئے افسانوں میں ان کی یہ خوبی نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ چوں کہ ڈاکٹرانواراحمدنے خود آمریت کے سنگدلانہ اور سفاکانہ ہتھکنڈوں کے وار سہے ہیں ، تحریر و تقریر اور حق گوئی پر عائد پابندیوں کا سامنا کیا ہے، ظالم و جابر آمر کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے پر جمہوریت کے متوالوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھے ہیں ، اس لیے ان کے ایسے افسانوں میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ سوانح اور آپ بیتی کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتاہے۔

   ڈاکٹر انوار احمد ترقی پسند تحریک سے متاثر ہیں اوراپنے افسانوں میں ترقی پسندانہ رجحانات کو اپنائے ہوئے ہیں۔  مگر ان کا افسانہ جدید افسانہ ہے جس میں اُردو افسانے کی عظیم روایت اپنی تمام تحریکوں اور رجحانات کے اثرات کے ساتھ موجود ہے۔ اپنے تخلیقی موضوعات کے انتخاب میں وہ ترقی پسند ضرور ہیں مگر ان موضوعات کی پیش کش کا انداز جدید ہے۔ لہٰذا ان کے افسانوں میں سماجی ناانصافی، طبقاتی ناہمواری، سیاسی و قومی منافقت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لایعنیت اور ابہام، آمریت کے اثرات، عزبت اور جہالت سے پیدا شدہ عفریتیں اور جدید دور کی عنایت کردہ معاشی، معاشرتی، نفسیاتی اور جنسی اُلجھنیں اپنے پورے پس منظر کے ساتھ نظر آتی ہیں۔  اِس سلسلے میں ان کا افسانہ ’’آسٹروٹرف‘‘ کا مطالعہ بے حد اہم ہے۔تلاش معاش کی مجبوریاں جدید انسان کو اَن دیکھی زمینوں اور اجنبی ملکوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہی نہیں کرتیں بلکہ بعض اوقات ایک دائمی تاسف اور مسلسل دُکھ کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ اِس طرح آخری دو سطور میں نہایت بلیغ انداز میں پاکستان کے مسائل کی وجہ بیان کر دی ہے جس سے افسانے میں رمزیت کی شان پیدا ہو گئی ہے۔ یہ افسانہ ۱۹۷۴ء میں لکھا گیا جب سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوئے تین سال گزر چکے تھے اور اَب اس ساری صورتحال کا تجزیہ دانشور حضرات اپنے اپنے نقطۂ نظر کے تحت کر رہے تھے۔ یوں اس افسانے میں موضوع کا پھیلائو معاشی سطح سے اُٹھ کر سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور جغرافیائی سطح تک وسیع ہو جاتا ہے اور ڈاکٹرانواراحمد کے اکثر افسانوں میں یہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ تقریباً ساڑھے تین صفحات پر مشتمل اس مختصر افسانے میں نہایت خوبی کے ساتھ ہجرت سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ پاکستانی ملکی و سیاسی صورتحال، تہذیبی جڑوں اور شناخت کی تلاش کا مسئلہ، معاشی جبر کے تحت اختیار کی جانے والی جلا وطنی اورعدم تحفظ کے احساس کو سب کچھ پا کر بھی محرومی کے احساس تلے دبے بوڑھے متکلم کی بیانیہ خود کلامی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے:

’’بلکہ یہ واقعہ ہے کہ مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اس زمین پر گھر بنانے سے پہلے میرا کوئی اور گھر بھی تھا۔ ہاں بعض لمحوں میں کچھ چیزیں مجھے گڑبڑا دیتی ہیں ، ایک لق ودق ویرانہ میری نگاہوں میں پھیل جاتا ہے اور میں خود کو ٹھوکریں کھاتا ہوا ایک مسافر دیکھتا ہوں ، یہ سفر نجانے کہاں سے کہاں تک کا سفر کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا سفر یا خود سے خود تک کا سفر! مگر یہ خود سے خود تک کا سفر ہوتا تو پھر میں خود کو ایک اجنبی مسافر کیوں محسوس کرتا؟‘‘[۱۰]

   ’’چرم ہائے قربانی‘‘ (۱۹۷۳ئ) بھی علامتی اسلوب میں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں کہانی اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں کردار نگاری کی بھی تمام خوبیاں موجود ہیں۔  کرداروں کے نام علامتی ہیں جو اپنے اندر بلیغ رمزی مفہوم رکھتے ہیں۔  بڑا بھائی ناسزاخان ہے جو اپنی زنگ آلود تلوار سے اپنے بچے کھچے چشموں ، چراگاہوں اور اپنی بہن عفت کی حفاظت کرتا آرہا ہے۔ مگرچھوٹے بھائی سزا وار خان کا اپنی بہن عفت کی آبرو ’چوٹی پر مقیم تاجر‘ کے پاس گروی رکھ کر وہ بندوق حاصل کرنا جس سے اس نے اپنے دشمن کے خوف کا بدلہ چکا نا ہے ،ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں پر طنز ہے۔ پڑوسی ملک کی طرف سے کچھ ورثے میں ملے اور کچھ خود ساختہ خدشات اور خطرات کو ختم کرنے کے لیے قومی غیرت اور حمیت کو سپرپاورز کی جھولی میں ڈال کر غیر ملکی امداد اور اسلحے کی خرید ایک ایسا قومی ناسور بن چکا ہے جس نے نہ صرف ملکی عزت و وقار کو بلکہ اس خطے میں امن و سلامتی کو بھی گوناگوں خطرات و مسائل سے دو چار کر دیا ہے۔’’حلفیہ بیان‘ ‘بھی ملکی سیاسی و سماجی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ فلیشیز کی تکنیک میں لکھے گئے اس افسانے میں تین مختلف قصے بیان ہوئے ہیں اور تینوں کامرکزی کردار ’محمد سلیم‘ ہے۔ ’محمد سلیم‘ ایک علامتی کردار ہے جس کے مقدر میں بار بار گم ہونا، ذلت سہنا اور دُکھ اُٹھانا ہے۔ پاکستانی عوام کے نمائندہ اس کردار کا نصیب اغوا، بے روزگاری، بدحالی اور نشہ ہے۔ واسکٹ والا شخص میئر شہر،خواجہ صاحب اور فیکٹری کے مالک میاں صاحب اس کا استیصال کرتے ہیں جبکہ مولوی صاحب مجہول تقدیر پرستی کا پرچار کرنے والے مذہبی علماکے نمائندہ ہیں۔  میاں صاحب وہ طاقت ور نادیدہ ہاتھ کی علامت ہے جو سماج میں جرائم، بے روزگاری، غربت، منشیات، دہشت گردی اور کئی قسم کی عفریتوں کا ذمہ دار ہے مگر پھر بھی باعزت اور محفوظ ہے کہ چند مفاد پرست علما اس کی صفائی پیش کرنے کے لیے ’’حلفیہ بیان‘‘ دیتے ہیں۔  یہ علما ایک طرف تو معاشرے کے ان ناسوروں کو پنپنے اور پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری طرف پِسے ہوئے طبقے کو ان مظالم کے سامنے سر جھکانے کو رضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔  گم ہونے والے مزدور ’محمد سلیم‘ کی پچھاڑیں کھاتی بیوہ بہن کو مولوی صاحب تسلی دیتے ہیں :

’’عزیزہ، مشیت ایزدی کے روبرو سرتسلیم خم کرنا شانِ عبودیت ہے۔ اِس عالم اسباب میں ہر وقوعے کا ایک سبب موجود ہے مگر انسان کے فہم ناقص کے لیے اس کا ادراک ممکن نہیں ، یہ مقام آزمائش ہے جہاں نیک اور صابر ہی سرخرو ہوتے ہیں اور اس کی منشاء کے عین مطابق رونما ہونے والے وقوعے کو امرِربّی جان کر چون و چرا نہیں کرتے۔‘‘[۱۱]

   ڈاکٹرانواراحمد کے افسانے محض سیاسی اور سماجی مسائل کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ ان مسائل کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کر کے روحِ عصر کی نمائندگی کرتے ہیں۔  وہ محض ملکی اور عالمی سطح کے واقعات و سانحات کی بالائی پیش کش سے افسانہ نہیں بنتے بلکہ ان واقعات و سانحات کی تہہ میں موجود کرداروں ، رویوں اور عوامل کو بھی منظر عام پر لے آتے ہیں۔  معاشی و سماجی مسائل کی پیش کش ’عصریت‘ کو ظاہر کرتی ہے مگر ان مسائل کے پس پشت خوف، لالچ، دہشت، لایعنیت، بے معنویت، بداعتمادی، روحانی و ذہنی کرب، نفسیاتی اُلجھنیں ، بے یقینی اور بے حس لاتعلقی ’روح عصر‘ کو ظاہر کرتی ہے۔ سلیم آغا قزلباش،جدید افسانے میں عصریت اور روح عصرکی پیش کش پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ سیاسی اور سماجی مسائل، عصر کے ظاہری خدوخال ہیں ، جبکہ عصر کا اصلی چہرہ، ان خطوط کے عقب میں موجود ہوتا ہے اور اس پر سے نقاب اُٹھا کر ہی ’روح عصر‘ سے متعارف ہوا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عصریت فقط بالائی سطح کا شعور رکھنے کا نام نہیں بلکہ اس اجتماعی احساس کا نام ہے جو کسی عصر میں پنپتا ہے۔۔۔۔ عصریت کے حوالے سے جدید اُردو افسانے نے بیسویں صدی کے واقعات، سانحات، نظریاتی اور جماعتی آویزش، گھروں کے ٹوٹنے کا منظر، نقل مکانی کے عالمی واقعات اور معاشی سطح کی تبدیلیوں کے پس منظر میں اپنے کرداروں کو اُبھارا اور کہانیوں کو مرتب کیا ہے، مگر ان بالائی سطح کی تبدیلیوں کے اندر اس روح عصر کی کاروائی کا منظر بھی پیش کر دیا ہے جو کرداروں اور کہانیوں کی پاتال میں موجود ہے۔ یہ روح عصر بیسویں صدی کی وہ تہذیبی موج ہے جو سطح کی ٹوٹتی پھوٹتی لہروں کے نیچے موجود ہے۔‘‘ [۱۲]

   ڈاکٹرانواراحمد نے جن افسانوں میں سماجی، معاشی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی مسائل کو موضوع بنایا ہے، ان میں خاص طور پر اس دور کی روح عصر کارفرما نظر آتی ہے۔ اِس سلسلے میں ان کے افسانے ’’ نَوں جی‘‘، ’’ایک بے ضرر کہانی‘‘، ’’گونگی غراہٹ‘‘، ’’انتظار میں ڈوبا ہوا گھر‘‘، ’’کفن سے انکاری‘‘ اور ’’ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل‘‘ کا مطالعہ خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔’’ نَوں جی‘‘ کا موضوع تو معاشرتی قدروں کی پامالی اور اخلاقی زوال ہے مگر ان کے پیچھے اقتصادی مجبوریاں وہ اصل محرک ہیں جو ایک طرف تو جوان لڑکی کو جسم فروشی کی راہ پر لگاتی ہیں اور دوسری طرف رکشہ ڈرائیورکو اس لڑکی کی مجبوریوں اور ذلت کو نظر انداز کر کے اس کے کپڑے لے کر فرار ہونے پر مجبور کرتی ہیں تاکہ وہ اپنادن بھر کاکرایہ وصول کر سکے۔ قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی بطور انسان اپنے زوال کا احساس نہیں ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے حال سے سمجھوتہ کر کے اس اخلاقی تنزلی کو اپنا نصیب سمجھ لیا ہے:

’’میں نے باہر سے کہا ’’بی بی اللہ دا واسطہ، ذرا جلدی کرلو۔‘‘ بس جی یہ سن کر اس نے مجھے اندر بلالیا اور کہنے لگی ’’میرے پاس پیسے بالکل نہیں مگر گھبرائو نہیں میں پورا کرایہ چکا دوں گی۔‘‘ اس نے توجی ایک ایک کر کے اپنے کپڑے اُتارنے شروع کر دئیے۔ ۔۔۔۔بس جی اس نے ایک جھلنگی چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں اور لمے لمے ہوکے بھرنے لگ گئی، موتیاں والیا! میں نے تو وہ کپڑے اُٹھائے اور وہاں سے ’دڑک لگائی‘۔بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’’لعنت ہو تم پر خدا کی‘‘ بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی۔‘‘ وہ کہنے لگا ’’بائو جی! میرے گھر کھان والے نَوں جی ہیں۔ ‘‘[۱۳]

   اِس کہانی میں شروع سے آخر تک جو ایک تجسس رہتا ہے اور قاری کو کہانی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے وہ آخر میں آکر یک لخت ختم ہو جاتا ہے جس سے قاری کے ذہن کو شدید جھٹکا لگتا ہے اور وہ سکتے کی حالت سے باہر آجاتا ہے مگر اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات اُٹھتے ہیں جن کا ایک ہی جواب افسانہ نگار محض سات الفاظ میں دے دیتا ہے کہ ’’میرے گھر کھان والے نَوں جی ہیں۔ ‘‘ یہ وہ اقتصادی اور معاشی پہلو ہے جس نے اُسے اخلاقی، مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی قدروں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ یہی ڈاکٹر انواراحمد کا کمال ہے کہ وہ محض ساڑھے تین صفحات پر مشتمل اس مختصر افسانے میں ایک وسیع سماجی صورتِ حال کو پیش کردیتے ہیں۔  ڈاکٹر اے۔بی اشرف کے مطابق:

’’انواراحمد اُس وقت لکھتا ہے جب متاثر ہوتا ہے۔ جب اس کے منہ سے چیخ نکلناچاہتی ہے۔ جب اس کی آنکھیں مزید دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔  جب اس کا دل اُمڈنے کو ہوتا ہے تو وہ سارے درد اور آشوب آگہی کو کہانی میں سمیٹ لیتا ہے۔ معروضی حقیقتیں ہی اس کی کہانی کا موضوع بنتی ہیں۔  اس کی کہانیوں کا سارا پس منظر ہمارا سوشل نظام ہے جو فرسودہ بھی ہے اور استحصالی بھی۔ انواراحمد رومانوی حقیقت پسندی سے کام لے کر ماحول کو کیمو فلاج نہیں کرتا۔ چیزوں کو مبہم نہیں بنا دیتا بلکہ واقعات کی نئی ترتیب بناتا ہے اور حقیقت پسندانہ رویے سے کام لے کر کہانیاں تخلیق کرتا ہے۔‘‘ [۱۴]

   ایسا ہی ایک افسانہ ’’گونگی غراہٹ‘‘ ہے جومعاشی و معاشرتی اونچ نیچ اور اس سے پیدا ہونے والی طبقاتی کشمکش، ناجائز دولت پر پلنے والے ناسوروں کی بداعمالیوں اور ان کا طوعاً و کرہاً ساتھ دینے والے کارندوں کی مجبوریوں کو بیان کرتا ہے۔ ’حاجی خواجہ‘ ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جو ہر قسم کی برائی کا شکار اور ہر مسئلے کی جڑ ہے مگر معاشرتی و سیاسی حلقوں میں ’معزز‘ اور اعلیٰ کردار کا حامل گردانا جاتا ہے۔’متکلم‘ حاجی خواجہ کی خوشنودی کے لیے اخلاقی اور انسانی اعتبار سے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے کہ وہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود انجان بنا ہوا ہے کیونکہ اس کا ضمیر سو چکا ہے:

’’کوئٹہ میں جنوری کی ایک برفانی رات تھی۔ میں اپنے حاجی خواجہ کے پیچھے سُو سُو کرتا جاتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ اطلاع بھی فراہم کر رہا تھاکہ رب ذوالجلال کی عنایت سے سارے ٹرک بخیرو عافیت سرحد پار پہنچ چکے ہیں اور حاجی خواجہ بار بار اپنے اوورکوٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر اپنے سوٹ کی ایک جیب میں موجود اس تقریر کو ٹٹول رہا تھا جو اسے قومی معیشت اور سمگلنگ کا انسدادکے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کرنا تھی۔‘‘[۱۵]

   یہ جدید دور کا اخلاقی زوال ہے جس کی جڑیں صنعتی ترقی اور مادیت پرستی سے جڑی ہوئی ہیں۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی فروغ پا گئی اور انسان کی ہوس زر اسے اس پستی تک لے گئی جہاں کوئی برائی بھی برائی نہیں رہی بلکہ حصول زر کی راہ میں ایک کار آمد حربے کا درجہ اختیار کر گئی۔جب انسان نے شرم و حیا ،دیانتداری اور صداقت وامانت سے منہ موڑ کرمحض دولت کے حصول کو اپنی منزل بنا لیاتو اس نے اپنی گھٹیا اور گھنائونی حرکات سے معاشرے میں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لگا دیے اور خود بھی رفتہ رفتہ اس گندگی کے ڈھیر کا حصہ بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے سماج میں تعفن پھیل گیااور انسانوں میں دو گروہ بن گئے۔ ایک وہ جو اس غلاظت کا حصہ تھے وہ بڑے سکون سے معاشرے میں جیتے اور پھلتے پھولتے رہے اور جو اس کا حصہ نہیں بن پائے ان کے لیے اس گندگی اور تعفن میں جینا دوبھر ہوگیا۔ [۱۶]’’ایک بے ضرر کہانی‘‘ صنعتی دور کے اس المیے کی عکاس ہے جسے نسلی بُعد کہا جاتا ہے۔ مشینی زندگی کی تیز رفتاری نے انسان کو ایک پرزہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ بدلتے وقت کے تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے اگر نئی مشین میں فٹ آجائے تو ٹھیک، ورنہ اُس کا مقام خود اس کی اپنی نظروں میں بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔ اِس افسانے میں عام آدمی کے مسائل اور ناتمام آرزوئوں کے بیان کے ساتھ ساتھ مشینی زندگی کے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس نے نہ صرف معاشرتی قدروں کو زوال سے ہمکنار کیاہے بلکہ انسان کی انفرادیت کو بھی ختم کردیاہے۔مشینی دور کی صنعتی ترقی کی تیز رفتاری نے معاشرے اور زندگی کو فطری تسلسل سے محروم کر دیا اور زندگی درجہ بدرجہ طے ہونے کی بجائے طویل جستوں میں طے ہونے لگی۔ یوں زندگی کی تیز رفتاری نے انسان کے تجربات کو تنوع سے دو چار کر دیا اور ان گوناگوں تجربات نے انسان کو اس کی پہچان سے دور کر کے اس کی ’فردّیت‘ چھین لی اور یوں ایک طرح کی ’زندگی میں موت‘ کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پھر مشینی ترقی نے جہاں ایک طرف پرانی اقدار کو شکست و ریخت کا نشانہ بنایا وہیں جدید انسان کو بھی نئے سماجی تقاضوں سے دو چار کر دیا جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسے ہر لحظہ اپنی گردن پر نیا چہرہ سجانا پڑتا ہے۔ اب اس کی اپنی کوئی الگ پہچان نہیں رہی بلکہ وہ ایک ’’ناٹک‘‘ کا کردار بن کر رہ گیا جو زندگی نہیں گزارتا بلکہ محض Roll Play کرتا ہے۔ [۱۷]اور جو اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے، آخر کار احساس شکست اور مایوسی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ڈاکٹر انوار احمد کے افسانے ’’ایک بے ضرر کہانی‘‘ میں واحد غائب کا بیٹا بھی اپنی تعلیمی اسناد کی نقلیں باپ سے ٹائپ کرانے کی بجائے فوٹو کاپی کروالاتا ہے کہ اس میں ذرا صفائی رہتی ہے۔مزید بر آں اِس صنعتی دورکا ایک تحفہ زندگی کی لایعنیت، رشتوں کی بے معنویت اور بیزاری بھی ہے اور یہی لا یعنیت اور بیزاری واکتاہٹ جدید افسانے کامر غوب موضوع ہے۔  آج کے معاشرے کا ہر فرد، خواہ اس کا تعلق سماج کے کسی بھی طبقے سے ہو ،ایک نوع کی یکسانیت کے روگ کا شکار ہے۔ یہ یکسانیت اسے بیزاری میں مبتلا کر کے زندگی کو بے معنویت سے دوچار کر رہی ہے۔ [۱۸] جدید دور کے اس رویے کی عکاسی ڈاکٹر انوار احمد کے افسانے ’’انتظار میں ڈوبا ہوا گھر‘‘ میں نہایت خوبی کے ساتھ کی گئی ہے۔ یہ افسانہ نچلے متوط طبقے کی زندگی کا عکاس ہے۔ اس گھرانے کے تمام افراد ایک بے نام بے زاری کا شکار اور بے شکل آرزئوں کے تمنائی ہیں۔  ان کی یہ ناتمام آرزوئیں بتدریج حسرتوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔

’’دوپہر کے وقت ڈاکیے نے ہمسایوں کا دروازہ کھٹکھٹا کے خط ڈالا تو اس کے دل سے ہوک سی اُٹھی، آج بھی اس کے نام کا کوئی لفافہ نہیں آیا تھا۔ کون لکھے گا اسے خط؟ یہ سوچ کر بہت سی شکلیں اور آوازیں گڈمڈ ہو گئیں ، کوئی ایک چہرہ اور کوئی ایک نام ان میں سے نہ اُبھرا۔ میں ہی لکھ ڈالوں کسی نہ کسی مرن جوگے کو خط۔‘‘[۱۹]

   دورِ جدید کی صنعتی ترقی نے صرف اخلاقی اور سماجی قدروں کو ہی زوال سے ہمکنار نہیں کیا بلکہ انسانی جذبوں کو بھی بے توقیر اور پامال کر دیا۔ ’’محبت کی سیکنڈہینڈ کہانی‘‘ دراصل محبت کے زوال کا المیہ ہے۔ حسن اور عشق کا ازل سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، مگر اب ان دونوں کا ایک دوسرے سے اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ عشق کو گھائل کرنے والا حسن آج خود گھائل ہے اور زخموں سے چور چور بدن کے ساتھ اِسی بے مہر بستی کا مکین ہے جسے دنیا کہتے ہیں۔  عشق کی تپسیا کتنی ہی شدید اور کٹھن کیوں نہ ہو، گھائل حسن اَب اس کا اعتبار نہیں کر سکتا کہ اَب دنیا نے اپنی تلخ حقیقتیں اس پر آشکار کردی ہیں :

’’جب میں نے اسے کہا، میں تمہیں اس نام سے پکارنا چاہتا ہوں ، جس سے تم خود واقف نہیں اور میں تمہارے کانوں میں اس لفظ کا رَس گھولنا چاہتا ہوں ، جو آج سے پہلے ادا نہیں ہوا۔ ’’تو میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل سی مسکراہٹ دیکھی‘‘ سنو! ہم تم سادہ ورق نہیں ، وقت نے ہم پر کچھ بے معنی تحریریں ثبت کر دی ہیں۔  زندگی نے ہماری مرضی سے یا اس کے بغیر ہمیں نام دے دئیے اور کچھ مانوس اجنبی لفظوں میں میری، تمہاری عمر بیت گئی، میرے دُکھ سکھ میرے ہیں اور تمہارے غم اور خوشی تمہارے اپنے، یہی ہم دونوں کی سچائی ہے۔ ڈوبتے ڈوبتے میں نے اسے کہہ ہی دیا ’’ہماری بنیادی سچائی محبت ہے‘‘ زہر بھرے لہجے میں اس نے کہا ’’ہم محبت کا فریب تو پیدا کر سکتے ہیں محبت نہیں۔ ‘‘[۲۰]

   ’’نئی دنیا کی تلاش‘‘ عالمی طاقتوں کے معاشی جنون اور ہوس اقتدارکو علامتی انداز میں بیان کرتا ہے۔ توانائی کے ذخیروں پر قبضہ جمانے کی خاطر سپر پاورز کے ظلم و ستم اور اپنی تہذیبی برتری ظاہر کرنے کے جنون میں مبتلا تہذیب اور علم کے علمبرداروں کا مکروہ چہرہ اس افسانے میں دکھایا گیا ہے۔کولمبس جونئیر کو کمپیوٹر سکرین پر دکھائی دینے والے مناظر۱۱/۹ کے بعد حقیقت میں اس روئے زمین پر نظر آئے اورالمیہ یہ ہے کہ آگ و خون کا یہ کھیل کھیلنے والے آج بھی اپنی تہذیبی برتری پر نازاں ہیں۔

’’کمپیوٹر کا بٹن دباتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے تصویروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں ، اس نے دیکھا کہ وہاں  کیمپ لگے ہیں اور ان میں کوئی نوجوان مرد نہیں تھا۔ وہ سب بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں پر مشتمل تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سرہانے کھڑی صبح گمشدہ جوانوں کا ماتم کر رہی ہے، پھر اس بین میں بچوں کی وہ کُرلاہٹ شامل ہو گئی، جسے بھوکے بچوں کے ماں باپ ہی جان سکتے ہیں۔  اس نے دیکھا کہ کچھ عورتیں اُٹھیں اور بسکٹ نما چیزیں کہیں سے ڈھونڈ لائیں۔  مگر یہ ابھی بچوں کے حلق تک پہنچی نہیں تھیں کہ شاید کسی اور سیارے سے مخلوق اُتری جس نے اپنی سنگینیں بچوں کے خالی پیٹوں میں اُتار دیں۔  مگر وہ بھی عجیب ضدی بچے تھے، مر گئے پر بسکٹ اپنے ہاتھ سے نہ گرنے دئیے کسی نے بھی۔ بچوں کی بھوک کے کارن مائوں کی جو چھاتیاں تھل تھل کر رہی تھیں ، وہ اچانک دودھ کی بجائے خون کے مدار پر گردش کرنے لگیں ، بوڑھوں کی داڑھیاں بھیگ گئیں اور ان کی پگڑیاں کھوپڑیوں کے ساتھ ہی کھل گئیں ، قاتل لاشوں پر ناچنے لگیں۔ ۔۔۔۔پھر کولمبس جو نیئر کا ہو منجمد ہونے لگا کیوں کہ اس نے دیکھا کہ معصوم انسانوں پر ہلاکت نازل کرنے والے مقتولین کے لہو سے ان کے جسموں اور پوشاکوں پر تہذیبی برتری کے نشان بنانے لگے۔‘‘[۲۱]

           ’’درخواست گزاروں کا میلہ‘‘ (۱۹۹۱ء) جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے اثرات اور ان کے پس پشت عوامل و عناصر کو پیش کرتا ہے۔ زندگی کی لایعنیت، انسانی اقدار کی پامالی، مقاصد حیات کی بے سمتی، انتشار اور عالمی ایجنڈے کے تحت پیدا ہونے والا لفظوں کا بحران وغیرہ سب اِس افسانے کا موضوع ہے۔ ایک ہی عوامی جلوس کا بیک وقت ’مشرق سے مغرب‘ اور ’شمال سے جنوب‘ کی طرف سفر اور ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی جو کہ دراصل ان کے اپنے ہی خلاف ہے،دور جدید کے فکری انتشار، سماجی بے سمتی، اقدار کے کھوکھلے پن اور زندگی کی لایعنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک ہی سڑک پر پبلک اسکول، دینی مدرسے، پرائیویٹ اسکول اور سرکاری اسکول کا ذکر مختصر الفاظ میں کر کے پاکستان کے مختلف طبقات میں منقسم نظام تعلیم کی جھلک دکھائی گئی ہے اور پھر اسی سڑک پر ’’قومی یک جہتی کانفرنس کے بین الاقوامی مندوبین کو خوش آمدید‘‘ کے عنوان سے آویزاں بینرکا ذکر کر کے صورتحال کی مضحکہ خیزی کو طنزیہ طور پر دکھایا گیا ہے۔ افسانے کی آخری سطورخاص طور پر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے ’ثمرات‘ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

’’وہ دونوں حیرانی کے ساتھ اس نگار خانے سے گزر رہے تھے، آواز سے تہتمیں ، ڈس انفارمیشن، ایک کونے میں ایک مخبوط الحواس خالی کاغذوں کے پلندے اُٹھا کر توانائی کے بحران پر تقریر کر رہا تھا کہ یہ بحران پیدا اسی لیے ہوا ہے کہ لفظوں کا سارا سٹاک طاقتور لوگوں نے خرید لیا ہے، وہ جس لفظ کا بھائو چاہتے ہیں ،بڑھا دیتے ہیں ، جس کا چاہتے ہیں گرا دیتے ہیں۔  ان دونوں نے ایک دوسرے کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر بازار سے باہر نکل آئے۔‘‘[۲۲]

           مندرجہ بالا افسانوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹرانواراحمدکہانی کہنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں اور انہیں اپنے معاشرے میں پھیلی ہمہ گوں انسانی صورتِ حال کو نہایت خوبصورتی سے کہانی کے پیکر میں ڈھالنے کا فن آتا ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات براہِ راست زندگی اور معاشرے سے ماخوذ ہیں اسی لیے ان موضوعات میں تنوع پایا جاتاہے۔ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے نظریات اورزمینی وزمانی حقائق سے ہم آہنگ کرکے اپنے فن کا حصہ بناتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان افسانوں میں جہاں ایک طرف ان کی اپنی شخصیت جھلکتی دکھائی دیتی ہے، وہیں روح عصر کی آواز بھی سنائی دیتی ہے کہ ملکی، سیاسی اور معاشرتی و قومی زندگی میں پیش آنے والے اہم حوادث کی بازگشت ان افسانوں میں گونج رہی ہے، یہ اور بات ہے کہ اس میں کبھی کبھی المیے کا تاثر بھی اُبھرتا نظر آتا ہے۔ ذاتی مشاہدات و تجربات کو روح عصر سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے سے ان افسانوں میں وہ آفاقی قدر پیدا ہوگئی ہے جو ادب عالیہ کا مطمع نظر ہے۔ ان میں مشینی عہد کی یکسانیت کے پیدا کردہ مسائل بھی ہیں اور عفریت کی طرح پھیلتا ہوا معاشی جبر بھی، مادیت پرستی سے جنم لینے والی اجنبیت بھی ہے اور تہذیبی شناخت کے کھونے کا ملال بھی، سماجی جکڑ بندیوں میں کسمساتی انسانی خواہشات و ضروریات بھی ہیں اور مذہب و اخلاق کے نام پر استیصالی کا نوحہ بھی، سیاسی جبریت میں سسکتی انسانی آزادی بھی ہے اور جمہوریت کی نیم جاں لاش بھی، ہوس پرستی، خود غرضی اور بے حسی کا شکار، کبھی خود سے اور کبھی معاشرے سے منہ چھپاتے انسان بھی ہیں اور دورِجدید کے معاشی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور انسانی اقدار کی تذلیل سے جنم لینے والا باطنی انتشار بھی۔ڈاکٹرانواراحمدایک حساس ناظر اور ایک معصوم شاہد کی حیثیت سے اپنے اِرد گرد پھیلی منافقت، جھوٹ، بے راہ روی اور انسان کا ہر سطح پر اور ہر طرح سے کیے جانے والے استیصال کا گہرا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر ایک تجربہ کار اور ماہر طبیب کی طرح ان معاشرتی عوارض کے اسباب کا بھی بغور جائزہ لیتے ہیں کیوں کہ محض کسی مسئلے کو حل کر دینے سے بات ختم نہیں ہوجاتی، اصل فساد کی جڑ تو وہ اسباب اور وجوہات ہیں جو ان مسائل کی پیدائش و افزائش کا باعث ہیں۔  یوں ان کے افسانے عصریت کی سطح سے اوپر اُٹھ کر روح عصر کو پیش کرتے ہیں۔

   ڈاکٹر انوار احمدچونکہ افسانے کے ماہر نقاد ہیں اِس لیے افسانے کے بارے میں اُٹھائے گئے تمام اعتراضات اور ان کے پس پردہ عوامل پر ان کی گہری نظر ہے۔لہذاانہوں نے تخلیقی عمل، افسانے میں کہانی کے زوال، کہانی کی بے معنویت اور افسانے میں عدم ابلاغ کے مسئلہ پر بھی قلم اُٹھایا ہے۔بطور تخلیق کار انہوں نے ان مسائل کو افسانے کی ہیئت اور کرافٹ میں پیش کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے افسانے کی تکنیک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ ان کے ایسے افسانوں میں بھی کہانی اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ موجود ہے۔ ان افسانوں میں ’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘، ’کہانی کون لکھے؟‘، ’کہانی اور کہر‘ اور ’کھڑکی کھلی رکھنا‘ شامل ہیں۔ ’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی ’’دراصل کہانی کی کہانی ہے، یہ افسانے میں کہانی کے زوال کا المیہ ہے۔ ’متکلم‘ کہانی کار ہے اور اس کی بیٹی قارئین کی نمائندہ ہے۔ متکلم کی ماں پرانی کہانی کار ہے جب متکلم اپنی ماں سے کہانی سنتا تھا تو وہ خود کو بطور قاری اور اپنی ماں کو بطور کہانی کار یا قصہ گو کے، بیک وقت فریب دیتا تھا کہ نئی کہانی سنی اور سنائی جا رہی ہے۔مگر آج کا قاری کہانی کار کو کسی بھی قسم کا فریب نہیں دینے دیتا کیوں کہ وہ باشعور ہے۔ اس لیے متکلم کی بیٹی اس سے شدید احتجاج کرتی ہے اور اس کی سنائی ہوئی ہر کہانی کو رَد کر دیتی ہے۔ یہ افسانہ نہ صرف کہانی کے زوال کی داستان ہے بلکہ لفظوں کی بے معنویت کا بھی المیہ ہے۔ جدید افسانے میں کہانی تو ختم ہو گئی مگر اس کا مزاحمتی رویہ بہر طور قائم رہا:

’’تنگ آکر میں نے کتابوں کا بکس کھولا کہ شاید پرانے یاس زدہ لفظوں نے نئے اور اُمید بھرے لفظوں کو جنم دیا ہو، بکس کھلتے ہی میں اور دہشت زدہ ہو گیا۔ مکڑی کے جالوں نے ایک دقیانوسی مکروہ کہانی بُن رکھی تھی اور تمام کتابوں کی تتلیاں اسی جالے میں مردہ ہو کر لٹک رہی تھیں ، مگر ان کے ادھ کھلے پریہ گواہی ضرور دیتے تھے کہ جکڑے جانے سے پہلے انہوں نے کچھ نہ کچھ مزاحمت کی تو تھی۔‘‘[۲۳]

   ’’کہانی کون لکھے؟‘‘ مزاحیہ اسلوب میں لکھا گیا ایک شگفتہ اور ہلکا پھلکا افسانہ ہے جس میں ملکی ادبی صورتحال کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اِس افسانے سے پاکستان میں ادب کا پورا منظر نامہ تمام مسائل و مشکلات سمیت نظر آتا ہے۔ افسانے کے تمام کردار اسم با مسمّی ہیں۔  مسٹر سٹریٹجی امریکہ سے تشریف لائے ہیں اور پروفیسر کلیم حیران کی مدد سے ان کے شہر کے بڑے کہانی کاروں سے ملنا چاہتے ہیں۔  ان کا پاکستان آنے کا مقصدجنوبی ایشیا کے مرکزی شہروں اور دور کے قصبات میں اُردو فکشن کے رجحانات کا جائزہ لینا ہے۔سپاہی کی آمد پر کلیم حیران کے خیالات اور خدشات ہمارے معاشرے میں ادیب کے مقام اور مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

’’ادھر کلیم حیران نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک محترم رکن کی علی الصبح آمد کے بارے میں قیاس آرائی شروع کر دی۔ ممکن ہے کہ جن اہلِ قلم کا وہ اپنے ہفتہ وار کالم میں ذکر نہیں کرتے، انہوں نے تھانے میں عرضی دے دی ہو یا پھر ملا فوجدار نے ان کا نام مشکوک افراد کی فہرست میں لکھوا دیا ہو، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے کسی افسر کے بیٹے بیٹی کا پرچہ اس پیکٹ میں ہو، جسے انہوں نے ابھی تک کھولا ہی نہیں تھا یا انجمنِ معصومان ادب کے سالانہ جلسے میں شرکت کا دعوت نامہ آیا ہو یا۔۔۔۔‘‘[۲۴]

   ’’کہانی اور کہر‘‘ میں ’کہانی‘ کی تجسیم کی گئی ہے جو مختلف محفلوں میں جا کر معاشرے میں پھیلی منافقت، دوغلے پن، اضطراب، دُکھ،زندگی کی بے معنویت اور اقدار کے کھوکھلے پن کا مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ بلیغ اشارہ ہے افسانے اور کہانی کی زندگی سے بے تعلقی کی طرف، جب تک ایک کہانی کار زندگی کے حقائق، معاشرتی مسائل اور انسانی رویوں کو نظر انداز کرتا رہے گا، معاشرے میں کہر پھیلا رہے گا جس کے باعث کچھ بھی واضح نہیں ہوگا۔’’کھڑکی کھلی رکھنا‘‘ کا موضوع بھی یہی ہے کہ جب تک تخلیق کار اپنے ارد گرد کی دنیا سے، انسانوں کے دُکھوں ، غموں اورخوشیوں سے بے تعلق رہتا ہے، اس کی تخلیق میں وہ پرواز پیدا نہیں ہوتی جو ایک دل کا پیغام دوسرے دل تک لے جاتی ہے۔ ’کھلی کھڑکی‘ ایک استعارہ ہے جس سے باہر کی دنیا کے غم اور دُکھ سکھ نظر آتے ہیں۔  جب تک یہ کھڑکی بند رہتی ہے ادیب سوچتا ہے کہ اس کے سوا دنیا میں کوئی اور غمگین اور افسردہ و پریشان حال نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ میں بندرہتا ہے اور خود کلامی کرتا ہے۔ لہٰذ فصاحت، بلاغت، روزمرہ اور محاورے، مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح اس کے کمرے میں پڑے گلتے سڑتے رہتے ہیں۔ مگر جب ایک دن اس نے اپنے اندر کی گھٹن اور اندر سے اُٹھنے والے سوالوں سے تنگ آکر کھڑکی کھولی تو اسے پتہ چلا کہ صرف وہی دُکھی اور پریشان حال نہیں ہے بلکہ اسے بلکتی اور سسکتی ہوئی انسانیت اور دُکھوں کی گٹھڑیوں کا بوجھ اُٹھائے کئی انسان نظر آئے تو اس کا فن جو رومانیت کی یکسانیت کے باعث معاشرے سے کٹا ہوا تھا،حقیقت سے ہم آمیز ہو گیا اور الفاظ، تشبیہات اور استعارات جو مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرح اس کے کمرے میں پڑے تھے زندہ ہو گئے اور ابلاغ کا وسیلہ بن گئے۔

’’تب اس کے کمرے میں مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں میں جان پڑ گئی، وہ تتلیاں اور پرندے بن گئے اور کھلی کھڑکی کے راستے آنے جانے لگے۔‘‘[۲۵]

   ڈاکٹرانواراحمدکے موضوعات میں تنوع تو ہے ہی ، اس کے ساتھ ساتھ ان کے بیشتر افسانوں میں ایک سے زیادہ موضوعات پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اہداف بھی ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔  ان کے افسانوں کا تانا بانا رنگا رنگ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے بنا ہوتا ہے۔وہ اپنے مشاہدے کی آنکھ اور شعور کی کھلی کھڑکی سے اپنے اِرد گرد کی دنیا کا گہرا معائنہ کرتے ہیں اور اپنے وجدان اور تخیل کی مدد سے ان مسائل کے پسِ پردہ عناصر کی شناخت کرتے ہیں اور پھر پوری فنی صداقت اور دیانت سے ان کو بے باکی سے بے نقاب کرتے ہیں۔  ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات ’مقاماتِ آہ و فغاں ‘ سے گزرنے کے لیے وہ ایسے فنی حربے استعمال کرتے ہیں کہ ان کا ہدف چوٹ کھا کر تلملاتا ہے اور سب کچھ جان کر بھی انجان بننے کی اداکاری کرنے پر مجبور ہوجاتاہے اور یہی ایک افسانہ نگار کا فنی کمال ہے کہ وہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کے مصداق باطل قوتوں اور مخالف نظریات سے ٹکراتا بھی ہے اور خود کو بھی صاف بچا لاتا ہے۔بطور افسانہ نگار ڈاکٹر انوار احمد کا نظریاتی منشور بھی یہی کہ ہے کہ انہوں نے اپنی کہانی کو کبھی معاشرے اور اس کے دُکھوں سے ٹوٹنے دیااور نہ ہی زمینی حقائق سے کبھی نظریں چرائیں۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے ہیئت اور اسلوب میں جدید ہونے کے باوجود موضوع کے اعتبار سے حقیقت پسند ہیں اور ابلاغ کا حق ادا کرتے ہیں اور اسی خوبی نے ڈاکٹرانواراحمد کو جدید افسانہ نگار کے ساتھ ساتھ سماجی حقیقت نگار کا مقام بھی عطا کیا ہے۔ بقول اے۔ بی اشرف:

’’انواراحمد کے یہاں اجنبیت کے منطقے، تنہائی کا کرب، ٹوٹنے کا نوحہ اور لا تعلقی کا زہر نہیں۔  وہ جانی پہچانی دنیا کا مسافر ہے۔ اس کو ایک ایک شے کی پہچان ہے۔ اس کے پاس دیدئہ بینا ہے وہ کورچشم نہیں کہ زمین پر اس کے قدم نہ ٹکیں۔  اس کی آنکھیں تو چیزوں کی تہہ تک پہنچتی ہیں۔  ان کی حقیقت کو پالیتی ہیں۔  وہ اشیااور وقوعات کو علت اور معلول کے رشتے سے دیکھتا ہے۔ انواراحمد تنہائی میں نہیں اجتماعی نحوستوں اور برکتوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ سنتا بھی ہے، جانتا بھی اور بولتا بھی۔ اس لیے کہ نہ وہ بہرہ ہے نہ گونگا۔ یہاں تک کہ اس کی امیجز اور علامتیں بھی بولتی ہیں۔  تنہائی اسے پسند نہیں ، وہ اجتماعی زندگی گزارتا ہے۔ اس میں مقاومت کا حوصلہ ہے، بلکہ اس میں ایک حیرت انگیز صلاحیت بھی ہے کہ وہ چیزوں کو Magnify کر سکتا ہے۔ وہ چیزوں کو اپنے اصل روپ اور جسامت سے بڑھا ہوا دیکھ اور دِکھا سکتا ہے۔ Magnify اور Enlarge کرنے کا رویہ اس کے فن کی اساس ہے۔ اس کی آنکھ میں محدب شیشہ ہے جس سے وہ چیزوں کو بڑا دیکھ کر دوسروں کو بھی محسوس کراتا اور متاثر کرتا ہے۔ یوں تو یہ رویہ اس کی روزمرہ زندگی میں بھی شامل ہے اور اس کے کم و بیش تمام افسانوں میں بھی جاری و ساری ہے۔‘‘ [۲۶]

   ڈاکٹرانواراحمدکے فن افسانہ نگاری کی ایک اختراع سفرنامے کو افسانے کے گردپوش میں لپیٹ کر پیش کرنا ہے۔ انہوں نے ترکی اور جاپان میں تدریس کے قیام کے دوران اپنے مشاہدات اور تجربات کو نہایت خوبصورتی سے افسانے کے کینوس میں پیش کر دیا ہے۔ ان افسانوں میں انہوں نے افسانے کی تکنیک اور ہیئت کو تبدیل کیے بغیر ترکی اور جاپان کی معاشرت کے خدوخال پیش کیے ہیں اور مختلف شہروں اور جگہوں کا تعارف بھی کرایا ہے۔ ان افسانوں میں بھی ان کا مخصوص اُسلوب اپنی بہار دکھا رہا ہے اور قاری کو افسانے میں آپ بیتی اور سفرنامے کی لذت محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹرانواراحمد وزارت تعلیم پاکستان کی طرف سے چار سال تک (اگست ۱۹۹۱ء تانومبر ۱۹۹۵ئ) انقرہ یونیورسٹی میں اُردو چیئر پر کام کرتے رہے اورتقریباََ دو سال (۲۰۰۹ء تا۲۰۱۱ئ)جاپان میں اوساکا یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔اِس دوران انہیں ترکی اور جاپان کے مختلف شہروں کی سیاحت کا موقع ملا مگر روایت کے برعکس انہوں نے سفر نامہ لکھنے کی بجائے ترکی کے پانچ شہروں پر پانچ اور جاپان پر دوافسانے تحریر کیے۔ اِن افسانوں کو انہوں نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’آخری خط‘‘ میں بالترتیب ’’گوشۂ ترکی‘‘ اور ’’گوشۂ جاپان‘‘کے عنوان کے تحت پیش کیا ہے۔ ان افسانوں میں ترکی سے متعلق افسانوں میں ’’نمروت کی چوٹی‘‘، ’’امیت کوئے کی کہانی‘‘، ’’انقرہ کے کوغلو پارک کی حکایت‘‘، ’’تبریزی لب اور حکایت نے‘‘ اور ’’محبوب خلائق اور مردانہ ہاتھ‘‘اور جاپان کی معاشرت پر ’’ناں گندے بچے ناں ! رونا نہیں ‘‘ اور ’’آخری خط‘‘شامل ہیں۔  ان افسانوں کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان میں ان ممالک کے مختلف شہروں اور معاشرت کے مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی پہلوئوں کو اس طرح متعارف کرایا گیا ہے کہ افسانے میں مرکزی قصے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی اور قاری کی توجہ کہانی پر مسلسل مرکوز رہتی ہے۔ان افسانوں میں انہوں نے بیشتر مرکزی کرداروں کی زبانی ہی ان ممالک کی معاشرت کے مختلف پہلوئوں کی تصویر کشی بیانیہ انداز میں کی ہے جس سے افسانے میں سفر نامے کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پرانقرہ میں واقع گلی ’حلمی تنالی‘ اور اس میں واقع مشہور ’کو غلو پارک‘ کا تعارف کراتے ہیں :

’’ویسے تو انقرہ میں بہت سے ایسے پارک، ہوٹل، کلب، ڈسکو بار شاپنگ پلازا، بازار اور گلیاں ہیں ، جہاں جامہ زیب، خوش باش اور بے فکر ترک رات اور دن کے ہر حصے میں بڑی تعداد میں آپ کو ملیں گے، نوجوان تو کیا، بوڑھے بھی اپنے اپنے ساتھی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر حال مست دکھائی دیں گے۔جس طرح لاہور میں انارکلی محض ایک بازار کانام نہیں ، اسی طرح یہاں حلمی تنالی بھی ایک گلی کا نام نہیں ، دولت اور طاقت کے اظہار اور شوکیسوں میں بنداشیا یا شاپنگ میں مصروف لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے والے افراد کی مجبوری سے پیدا ہونے والے کلچرل شو کا مرکز ہے۔ یہاں یورپ کے جدید فیشن کے لباس، جوتے، قیمتی نوادرات اور امریکی فاسٹ فوڈ دستیاب ہے۔ رات کے وقت فٹ پاتھ پر ایران اور وسط ایشیاسے تعلق رکھنے والے یا درمیانے طبقے کے لوگ ہار، انگوٹھیاں ، قسمت بدل سکنے والے موتی اور ذرا سستے لباس فروخت کرتے ہیں۔  بعض بچے جن کے پائوں میں برف باری کے دنوں میں بھی پھٹے پرانے جوتے ہوتے ہیں ، قلم، ٹوتھ برش، بچوں کا اخبار یا چاکلیٹ، بیچتے مل جاتے ہیں۔  یہ وہ گلی ہے جہاں نئے ماڈل کی کاریں اتنی ہوتی ہیں کہ اکثر ٹریفک بلاک ہو جاتی ہے۔ اِسی گلی کے ایک کونے پر بطخوں کا پارک یعنی کوغلو پارک موجود ہے۔ اِسی پارک میں صبح کے وقت تو بعض تھکے ہوئے مسافر، بے گھر سرخوش اور رات کی بچی ہوئی روٹی یا ایکمک، کبوتروں اور بطخوں کو ڈالنے والے چند نیک دل ہوتے ہیں۔  مگر شام کے وقت، خاص طور پربہار اور گرمی کی شام کے وقت یہاں بہت رونق ہوتی ہے، ہر طرح کے عاشق باوفا، موسمی جزوقتی، ناکام یا بعض اوقات کامیابی کے ہاتھوں بھی زچ ہونے والے موجود ہوتے ہیں۔  زیادہ ترکے ہاتھ اوربازو مشغول ہوتے ہیں۔  اگر ان میں محبوبہ کا ہاتھ یا کمر نہ ہو تو پھر آئس کریم یا بیئر ہوتی ہے اور محبوبائیں بھی ہر عمر اور ہر قسم کی ہوتی ہیں ، حتیٰ کہ طربان اوڑھنے والیاں بھی۔‘‘[۲۷]

    ڈاکٹر انوار احمد ترک معاشرت کے پس منظر میں افسانہ لکھ رہے ہوں یا جاپان کے، ایک سچے فنکار کی طرح اپنے وطن اور معاشرے کبھی فراموش نہیں کرتے۔ لہٰذا ان ممالک میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کی معاشی بدحالی، سیاسی بحران، تعلیمی، سماجی اور اخلاقی پستی، مذہبی شدت پسندی اور ان سے پیدا شدہ مسائل کا ذکر کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کے لہجے میں دُکھ کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :

’’پھر جاوید نے اسے بتایا کہ وہ اس بدقسمت خطے سے آیا ہے جہاں حکمران امیر اور عوام غریب رہتے ہیں ، البتہ جہالت، غریبی اور بیماری کا علاج نیوکلیئر توانائی سے کرتے ہیں۔  بھوکوں کے لیے پھانسی کے تختے پر گھاس اُگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ملت وکیل یعنی ارکان پارلیمنٹ جعلی ویزوں کا کاروبار کرتے ہیں ، ماں باپ جوان ہوتی اولاد کو کبھی دعا اور کبھی بددعا دیتے ہیں ، نوجوان خوف زدہ ہو کر محبت کرتے ہیں تو اس میں نفرت اور منافقت خودبخود شامل ہو جاتی ہے اور جہاں کے نوجوانوں کو یقین آگیا ہے کہ ان کا رزق، رشتہ اور رسمِ آخر اَن دیکھی زمینوں سے وابستہ ہے۔‘‘[۲۸]

’’وہ ہنستے ہنستے اپنی آنکھوں کو شرارت سے آسمان کی طرف لے جا کر بند کر لیتی اور کہتی ’’اصل میں تم اس ملک کے ہو، جہاں کے لوگ ۵۰سال کے بعد بھی اپنے ملک کو نوزائیدہ ہی کہتے ہیں۔ ‘‘[۲۹]

   شمس تبریز کے مزار کے احاطے میں نوافل پڑھتے ہوئے طالب اپنے گائوں کے مسجد مکتب کے حافظ شبیر کو یاد کرتا ہے۔ یہ چند سطور پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت پر ڈاکٹرانواراحمد کے مجروح جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔  لکھتے ہیں :

’’اِس وقت تک کوئی سپاہِ محمد تھی، نہ کوئی سپاہِ صحابہ، نہ تبلیغ کے رجسٹر تھے اور نہ بیرون ملک اشاعت دین کے نام پر ڈالروں کی ریل پیل تھی،نعت گو تھے، نعت خواں نہ تھے، پیشہ ور دعا گونہ تھے اور نہ ہی بستیوں کی بستیاں اجاڑنے والے جہادی۔‘‘[۳۰]

      ’’پھر میں نے ذرا اُداس ہو کر کہا، ’’شیاما، تم شاید جانتی ہو کہ ہمارے دیش میں کافی غریبی یعنی پاورٹی ہے، بہت سے بچوں کو کھیلنے کو خواب میں بھی کھلونے نہیں ملتے، وہ پھر بڑے ہو کر اپنی یا دوسروں کی داڑھی سے کھیلتے ہیں۔ ‘‘[۳۱]

   ڈاکٹر انوار احمدکے افسانوں کے آغاز عام طور پر سادہ مگر فکرانگیز ہوتے ہیں اور قاری کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرالیتے ہیں۔  افسانہ سادہ اور بیانیہ انداز میں آگے بڑھتا رہتا ہے اور قاری آہستہ آہستہ مصنف کی باتیں سنتا چلا جاتا ہے اور تخیل کی آنکھ سے مصنف کے مشاہدے اور تجربے کو دیکھنے لگتا ہے۔ ان کے افسانوں کے اختتام بھی بہت زیادہ چونکادینے والے نہیں ہوتے بلکہ حقیقت سے قریب تر ہوتے ہیں اور زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر قاری کو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔  ان کے بیشتر کردار علامتی حیثیت کے حامل ہیں اور عموماً بے نام ہیں جو متکلم، واحد غائب یا جمع غائب کے صیغے میں بیان کیے گئے ہیں۔ چونکہ اکثر افسانے علامتی، اساطیری، استعاراتی، خود کلامی، فلیشز اور شعور کی رَو کی تکنیک پر لکھے گئے ہیں اس لیے ان پر بعض اوقات ابہام اور مشکل گوئی کا گمان ہوتا ہے جس کا ایک سبب ان کا اُسلوب بھی ہے۔ اس اُسلوب میں پیچیدگی اور ابہام کا اشکال ہوتا ہے مگر اسے عدم ابلاغ پر منتج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں یہ ہے کہ ان کے بعض افسانوں کی تفہیم کے لیے ایک عام قاری کو انہیں بار دگر پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے افسانوں کو جتنی بار پڑھا جائے ان سے اتنے ہی معانی اور مفاہیم سامنے آتے چلے جاتے ہیں اور ایک افسانے میں معاشرے کے مختلف رُخ بے نقاب ہوتے نظر آتے ہیں۔

   ڈاکٹرانواراحمدچاہے کسی بھی تکنیک میں افسانہ لکھیں ، ایک چیز جو ان کے کم و بیش ہر افسانے میں نمایاں طور پر جاری و ساری ہے وہ طنزہے، کہیں یہ طنزمزاح کی آمیزش سے دھیما اور خوشگوار محسوس ہوتا ہے اور کہیں اس کی شدت اور تلخی بہت تیز ہوجاتی ہے۔ پھر اس طنز کے اہداف بھی متنوع ہوتے ہیں۔  دراصل ڈاکٹر انوار احمدسیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی استیصال کے خلاف ہیں اور معاشرے کے ان ناسوروں پر کڑی تنقید کرتے ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کسی بھی گھٹیا حربے کو اپنانے سے گریز نہیں کرتے۔ ترقی پسندانہ نظریات کے حامل ہونے کے باوجودوہ اپنے نظریے کی حمایت میں فن کے تقاضوں کو قربان نہیں کرتے۔ وہ الفاظ کے برمحل استعمال سے بخوبی واقف ہیں اور محض چند الفاظ میں ایک سے زیادہ ممکنہ اہداف کو نشانہ بنانے کے ماہر۔ اسی لیے ان کے قاری کو بھی بعض جملوں کی تفہیم کے لیے وسعت فکر اور بالغ نظری کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹرانواراحمدکے افسانوی فن پر بات کرتے ہوئے شوکت علی شوکت رقم طراز ہیں :

’’غریبوں کا استیصال، معاشرتی ناانصافی، سماجی ناہمواری، دولت کی غلط تقسیم، رویوں میں عدم مطابقت جیسے کئی موضوعات کو وہ ایک ہی سطر میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔  وہ وسیع کینوس کو پھیلا کر سمیٹنے کے فن سے بھی آگہی رکھتے ہیں اور سمیٹنے کے بعد کہانی کے دیرپاا ثر کو قائم رکھنے کے لیے سوال بھی چھوڑ جاتے ہیں۔  عصری سچائی کو بیان کرنے کا فن کوئی انواراحمد سے پوچھے، اس قدر خوبصورت اور دلفریب انداز سے کڑوے سچ کو الفاظ کی چاشنی میں ڈبو کر تشبیہ اور استعارے کی سجاوٹ کے ساتھ ہمیں کھلا دیتے ہیں جو حلق سے اُتر کو شِکم میں ہلچل مچا دیتا ہے۔‘‘[۳۲]

   مختصر یہ کہ ڈاکٹرانواراحمد کسی بھی تکنیک اور پس منظر میں افسانہ لکھ رہے ہوں ، ان کے بنیادی موضوعات پاکستانی معاشرت و سیاست سے ماخذ ہیں اور ان کی فکر کا تانا بانا ملکی صورتحال کی رنگارنگی سے ہی تیار ہوتا ہے۔ یوں ان کے افسانے ان کے عہد کی سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور سماجی صورتحال کی دستاویز بن جاتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرانواراحمددورجدید کے افسانہ نگاروں میں ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔  انہوں نے اگرچہ کم افسانے لکھے مگر جتنے بھی لکھے ہیں وہ فن افسانہ نگاری میں ان کے نام کی بقاکے ضامن ہیں۔

حوالہ جات

۱۔ انواراحمد ، ڈاکٹر، ’’دو چار باتوں اپنوں سے‘‘، (دیباچہ) آخری خط [فیصل آباد،مثال پبلشرز۔ ۲۰۱۰ئ]

۲۔ قادری ،شوکت نعیم ، ’’انواراحمد روشن آنکھوں والا کہانی کار‘‘، مشمولہ :سطور، شمارہ :۳ [ملتان،بیکن بکس۔ ۲۰۰۱ء ]ص۔۶۲

۳۔ انوار احمد،ڈاکٹر،’’درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘‘، مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد،مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ء ]ص۔۲۸

۴۔ ایضاََ ،ص۔۲۹،۳۰

۵۔ انوار احمد،ڈاکٹر ،’’پہلا محب وطن بچہ‘‘ ،مشمولہ:آخری خط[فیصل آباد،مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ء ]ص۔۲۴

۶۔ انوار احمد،ڈاکٹر،’’جب راج کرے گی خلق خدا‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۱۱۳

۷۔ انوار احمد،ڈاکٹر،’’بیچ والا آدمی‘‘، مشمولہ:آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۶۲

۸۔ انوار احمد،ڈاکٹر،’’گرجھوں والی سرکار کی دعا‘‘،مشمولہ:آخر ی خط [فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۶۹،۷۰

۹۔ سید،اصغر ندیم ،’’کہانی کار اور کہانی کی کہانی‘‘، مشمولہ :پہلے سے سنی ہوئی کہانی[لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز۔۲۰۰۳ئ]ص۔۲۰

۱۰۔       انوار احمد،ڈاکٹر،’’آسٹروٹرف ‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۱۹

۱۱۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’حلفیہ بیان‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۹۵

۱۲۔       قزلباش ،سلیم آغا، ڈاکٹر، ’’اُردو افسانے میں عصریت اور روحِ عصر‘‘، مشمولہ:’’اوراق‘‘، [سالنامہ جنوری، فروری، ۱۹۹۹ئ]

                                          (جلد:۳۵شمارہ :۲،۱)،ص۔۳۴۳،۳۴۴

۱۳۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’نوں جی‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۱۷،۱۸

۱۴۔       اے۔ بی اشرف، ڈاکٹر، کچھ نئے اور پرانے افسانہ نگار، [لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز۔۱۹۸۷ئ]ص۔۳۲

۱۵۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’گونگی غراہٹ،مشمولہ:پہلے سے سنی ہوئی کہانی، [ملتان،بیکن بکس۔۲۰۰۳ئ]ص۔۴۵

۱۶۔       صبااکرام، ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ ’’اوراق‘‘[ خاص نمبر: نومبر، دسمبر، ۱۹۸۴ئ] (جلد:۱۹، شمارہ:۱۲،۱۱)ص۔۲۸

۱۷۔       صبااکرام،ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ ’’اوراق‘‘[خاص نمبر:جولائی، اگست، ۱۹۸۴ئ]ص۲۱۷،۲۱۸

۱۸۔       صبااکرام، ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ’ ’اوراق‘‘ [خاص نمبر :نومبر، دسمبر، ۱۹۸۴ئ](جلد:۱۹، شمارہ:۱۱،۱۲) ص۔۳۵

۱۹۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’انتظار میں ڈوبا ہوا گھر‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۸۴،۸۵

۲۰۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’محبت کی سیکنڈ ہینڈ کہانی‘‘، مشمولہ:پہلے سنی ہوئی کہانی[ملتان،بیکن بکس۔۲۰۰۳ئ]ص۔۶۱

۲۱۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’نئی دنیا کی تلاش‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۳۸،۳۹

۲۲۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’درخواست گزاروں کا میلہ‘‘،مشمولہ :آخری خط [فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۷۹۔۸۰

۲۳۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘، مشمولہ:’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی[ملتان،بیکن بکس۔۲۰۰۳]ص۔۴۸

۲۴۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’کہانی کون لکھے‘‘،مشمولہ:پہلے سے سنی کہانی [ملتان۔بیکن بکس۔۲۰۰۳ئ]ص۔۸۴

۲۵۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’کھڑکی کھلی رکھنا‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۸۹،۹۰

۲۶۔       اے۔ بی اشرف، ڈاکٹر، ’’کچھ نئے پرانے افسانہ نگار‘‘،[لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز۔ ۱۹۸۷ئ]ص۔۱۴۶

۲۷۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’انقرہ کے کوغلو پارک کی حکایت‘‘،مشمولہ :آخری خط [فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۱۳۴،۱۳۵

۲۸۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’امیت کوئے کی کہانی‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۱۳۲

۲۹۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’انقرہ کے کوغلو پارک کی حکایت‘‘:مشمولہ ،آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ] ص۔۱۳۶

۳۰۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’تبریزی لب اور حکایت نے‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۱۴۴

۳۱۔       انوار احمد،ڈاکٹر ’’ناں گندے بچے ناں ، رونا نہیں ‘‘،مشمولہ :آخری خط[فیصل آباد، مثال پبلی کیشنز۔۲۰۱۰ئ]ص۔۱۶۰

۳۲۔       شوکت، شوکت علی ،’’ڈاکٹرانواراحمد کے افسانوی فن پارے ‘‘مشمولہ ،’’روزنامہ نوائے وقت‘ ‘، ۱۳؍اپریل ۲۰۰۴ئ۔

……………….

ڈاکٹرمسرت بانو

اسسٹنٹ پروفیسر ،گورنمنٹ کالج برائے خواتین ،شاہ پور ضلع سرگودھا(پاکستان)

Email:banomusarat4@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.