اقبال کے مذہبی تصورات مکاتیب اقبال کے آئینے میں

مکتوب کا شمار اردو کی غیر افسانوی اصناف میں ہوتا ہے۔ مکتوب میں روز مرہ کی چھوٹی باتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کا تعلق مکتوب نگار یا مکتوب الیہ کی ذات سے ہوتا ہے۔ خطوط میں بے ربطی اور منتشر خیالی کے ساتھ کبھی ذاتی اور کبھی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی اشارے ملتے ہیں۔بقول خورشید الاسلام:

’’خط حسن اتفاق کا نام ہے اور حسن ا تفاق ہی سے یہ ادب کی ایک صنف ہے۔ اچھے خط ادبی کارنامے ہوتے ہیں خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنے ہوتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں دنیا کا لطف ہے‘‘۔ (۱)

شعرا اور ادبا اکثر و بیشتر اپنی شخصیت کو تخلیقات کے پردے میں پوشیدہ رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔کسی فنکار کی شخصیت اور اس کے مزاج و کردار کے تجزیاتی مطالعے کے لیے اس کی تخلیقات سے کہیں زیادہ مکاتیب مدد گار ہوتے ہیں۔کیونکہ مکتوب ایک تحریر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسے صاف و شفاف آئینے کی حیثیت بھی رکھتا ہے جس میں صاحب تحریر کی شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ نمایاں ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:

’’مکتوب دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہے۔ اس میں وہ صداقت و خلوص ہے جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوں سے انسان کی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے، وہ کسی دوسرے ذریعے سے نہیں ہوسکتا‘‘۔ (۲)

خطوط نہ صرف لکھنے والے کے بارے میں ذاتی معلومات کا خزینہ ہوتے ہیں بلکہ ان کے مطالعے سے لکھنے والے کی پسند و ناپسند، اس کی ذہنی سطح، اس کی خواہشات اور آرزوئیں اور اس کے فکر و ذہن کے سفر کی داستان بھی سامنے آتی ہے۔ اقبال کے خطوط کی بھی یہی نوعیت ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے جدید اردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر کی زندگی، افکار و خیالات، پسند و ناپسند او رتعلقات سے متعلق بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

اقبال کی اردو نثر کا بڑا سرمایہ ان کے وہ خطوط ہیں جو انھوں نے اپنے دوستوں، بزرگوں، عزیزوں، عالموں، دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو لکھے، یہ مکاتیبِ بیشتر اردو میں ہیں اور اردو کے علاوہ انگریزی میں تقریباً ۱۲۵ خطوط دستیاب ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ جرمن زبان میں اقبال کے لکھے ہوئے ۱۷ خطوط ہیں۔صرف چند خط فارسی زبان میں ملتے ہیں اور عربی میں ان کا صرف ایک خط دستیاب ہوا ہے۔ مکاتیب اقبال کا یہ ذخیرہ اقبال کی شاعری، شخصیت اور تصورات کو سمجھنے میں ہماری معرفت کرتے ہیں۔اور ان کی زندگی کے واقعات ان مکاتیب کی روشنی میں زیادہ بہتر طور پر اور صحت کے ساتھ لکھے جاسکتے ہیں۔ان خطوط میں اقبال اپنے خیالات کی خود وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے:

’’میرے مقصد شاعرانہ نہیں بلکہ مذہبی او راخلاقی ہیں’‘۔ (۳)

ان خطوط میں اقبال صاف اور سادہ زبان میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔اقبال کے خطوط ان کے حالات، خیالات، معاملات، جذبات، نظریات اور افکار کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔شاید اس لیے ڈاکٹر جمیل جالبی نے بجا طور پر کہا ہے:

’’وہ لوگ جو اقبال کو صرف شاعری کے آئینے میں دیکھتے ہیں خود اقبال او رمطالعہ اقبال کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں’‘۔ (۴)

اقبال کے خطوط ایسا کلیدی مواد ہے جس کے ذریعے اقبال کی شخصیت کے کئی گوشے نمایاں ہوجاتے ہیں۔چنانچہ انھوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے:

’’شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے۔ اور اعلیٰ درجے کے شعرا کے خطوط شائع کرنا لٹریری اعتبار سے مفید ہے‘‘۔ (۵)

ان کا یہ قول، کسی اورسے زیادہ خود ان کے مکاتیب پر صادق آتا ہے۔ بقول محمد عبد اللہ قریشی:

’’حضرت علامہ کے ہمہ گیر شخصیت کے گوناگوں پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے ان کے نجی اور ذاتی خطوط کے عظیم سرمائے کو سب سے اہم کلیدی حیثیت حاصل ہے‘‘۔ (۶)

شاعری کی طرح اقبال کے خطوط میں بھی بڑا تنوع ملتا ہے۔ ان میں مختلف علمی، ادبی، فکری اور مذہبی موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔اور ایسے موضوعات بھی جو اقبال کے تحت الشعور میں تو تھے مگر شاعری میں کسی مناسب عنوان سے ظاہر نہ ہوسکے تھے۔ اس سلسلے میں رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:

’’خطوط میں اقبال نے مختلف علمی، معاشی اور فلسفیانہ مسائل پر بحث کی ہے اور اپنے مکتوب الیہم کے ساتھ قرآن، حدیث، فقہ، تصوف اور دین و شریعت کے مختلف پہلوئوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ کئی خطوط میں اپنے بعض نظریات و تصورات مثلاً نظریۂ خودی، تصور شاہین، تصوف واجتہاد وغیرہ کی وضاحت کی ہے۔ نیز انھوں نے خطوط میں جابجا اپنے اشعار و افکار کی تشریح بھی کی ہے‘‘۔ (۷)

اقبال نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اس میں تصوف کا گہرا اثر تھا، ان کے والد شیخ نور محمد کی تصوف سے نہ صرف خاص لگائو تھا بلکہ تصوف کا رنگ ان پر بہت زیادہ غالب تھا۔ ان کے روحانی تجربوں کے بارے میں کئی باتیں مشہور ہیں۔خود اقبال کا بیان ہے کہ:

’’میں نے والدہ کی زبانی سنا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ والد کی موجودگی میں بے چراغ کمرے کے اندر تاریک رات میں عجیب و غریب قسم کا نور ظاہر ہوا۔ اور تاریک کمرے میں ایسا معلوم ہوا کہ سورج نکل آیا ہے‘‘۔ (۸)

شیخ نور محمد نے اپنے گھر میں تصوف سے متعلق مشہور کتابوں کی تعلیم کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ اقبال بچپن میں ہی اس قسم کی مجالس میں شریک رہتے۔ چنانچہ ۲۴ فروری ۱۹۱۶ء کی شاہ پھلواری کے نام جو اس وقت برصغیر کے بلند پایہ عالم و صوفی تھے، ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’میرے والد کو فتوحات اور فصوص سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کا درس ہمارے گھر میں رہا۔ گو بچپن کے دامن میں مجھے ان مسایل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا‘‘۔(۹)

اس طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’اسلامی تصوف کا میں کیونکہ مخالف ہوسکتا ہوں کہ خود سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں’‘۔(۱۰)

ہندوستان کے مشہور صوفیوں کے بارے میں ان کی عقیدت کا جو حال ہے، وہ ان کے اشعار و خطوط سے ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر اقبال کئی مرتبہ حاضر ہوئے ہیں۔جب اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ ولایت جارہے تھے تو دہلی میں درگاہِ نظام پر حاضر ہو کر ’’التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم پڑھی۔ جس کے ایک ایک شعر سے عقیدت و احترام کے جذبات ٹپکتے ہیں۔۲۵ جولائی ۱۹۱۸ء کو اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’تعطیلوں میں انشاء اللہ دہلی جانے کا مقصد ہے کہ ایک مدت سے آستانہ حضرت محبوب الٰہی پر حاضر ہونے کا ارادہ کررہا ہوں۔کیا عجب ہے کہ ان گرما کی تعطیلوں میں اللہ اس ارادے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ (۱۱)

پھر ۲۹ مارچ ۱۹۱۹ء کو مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں:

’’دہلی تو گیا تھا اور دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر بھی حاضر ہوا تھا‘‘۔ (۱۲)

اب ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ تصوف کا مخالف تھا، ایک انتہائی لغو اور بے بنیاد بات ہے۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ اقبال کو تصوف کے بعض مسائل سے اختلاف تھا جس کا اظہار انھوں نے شعری و نثری تحریروں میں کیا ہے۔ انھوں نے غیر اسلامی تصوف پر جو بے عملی، ترک دنیا، رہبانیت او رکش مکش حیات سے گریز کی ترغیب دیتا ہے۔ شدت سے تنقید کی ہے۔ اسلامی تصوف کے بارے میں لسان العصر اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں:

’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس قوت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے‘‘۔ (۱۳)

اقبال کے فلسفے کی بنیاد چونکہ فکر اسلامی پر استوار ہے لہٰذا وہ اس اس تصور علم کے نقیب اعلی رہے ہیں اور ان کا نظریہ علم فکریات اسلامی ہی سے ماخوذ ہے۔ اسی تصور علم کے وہ نہ صرف حامی بلکہ داعی او رعلمبردار ہیں۔چنانچہ خواجہ غلام السیدین کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار ومدار حواس پر ہو، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انھیں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے طبیعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے اگر دین کے تحت نہ رہے تو محض شیطنیت ہے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے‘‘۔ (۱۴)

نیاز احمد خان کو ۱۹۳۱ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’مذہب مسائل بالخصوص اسلامی مذہبی مسائل کے فہم کے لیے ایک خاص تربیت ک ضرورت ہے افسوس کہ مسلمانوں کی نئی پود اس سے بالکل کوری ہے جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تعلیم کا تمام تر غیر دینی ہوجانا اس مصیبت کا باعث ہوا ہے‘‘۔ (۱۵)

اقبال اسلام کو ایک ایسی تعلیمی تحریک سمجھتے تھے جس کے ہر رکن سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت عیاں ہے۔ انھیں کے الفاظ میں :

’’اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے۔ صدر اسلام میں اسکول نہ تھے، کالج نہ تھے، یونیورسٹیاں نہ تھیں لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہر چیز میں ہے، خطبۂ جمعہ، عید، حج، وعظ غرض تعلیم و تربیت کے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں’‘۔ (۱۶)

اقبال کے فکر کا خاص محور ’خودی‘ ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کی تکمیل ’خودی‘کے پیدا ہونے کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ان کے تمام تصورات کی طرح تعلیم کا مقصد بھی خودی کی نشو ونما ہے۔

بقول عبد السلام ندوی:

’’ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تعلیم کا اصلی مقصد خودی کی نشوونما ہے‘‘۔ (۱۷)

فلسفہ خودی کی روح عظمت آدم اور احترام انسانیت ہے جس کے لیے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ضروری ہے جس کی بنیاد نسل و رنگ یا علاقائی تفریق کے بجائے اخوت انسانی اور عالم گیر انسانی برادری پر رکھی گئی ہو۔ تمام امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر ہر شخص خودی کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔تکمیل خودی سے مراد فرد کی متوازن سیرت و کردار کی تخلیق ہے جس کے سہارے وہ زندگی کے تمام نشیب و فراز سے کامیاب گزر سکے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدا لحق لکھتے ہیں:

’’دوسرے تمام تصورات کی طرف تدریس و تربیت کا مرکز و مصدر بھی خودی ہے۔ جس کے اثبات اور استحکام میں اس اساسی عنصر کو سب سے زیادہ دخل ہے۔ خودی محض غیر مرئی اور محسوسات کا منبع نہیں ہے بلکہ خودی جب آشکار ہوتی ہے تو ایک زندہ جاوداں پیکر کی صورت اختیار کرتی ہے جسے انسان کامل کہا جاتا ہے۔ خودی کی آگہی اور انوار کے زیر سایہ تعلیم و تربیت کے سبب وہ مثالی انسان بنتا ہے۔ وہی مرد مومن خودی کا محافظ اور تقویمِ زندگی کا محاسب کہلاتا ہے‘‘۔ (۱۸)

اقبال کی تحریروں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے سلسلے میں ان کا مقصود نظر ان کے تصور خودی سے الگ نہیں۔جیساکہ ’’ضرب کلیم‘‘ میں ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے تعلیم کا مقصود بیان کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موجودہ نظام تعلیم نہ صرف یہ کہ خودی کی تعلیم سے خالی ہے بلکہ مذہب و اخلاق جس پر خودی کی تعلیم و تربیت موقوف ہے اس کی بیخ کنی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عبد السلام ندوی لکھتے ہیں:

’’یہی خودی ہے جس کی تعلیم اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں دی جاتی بلکہ ان میں ایسی غلامانہ تعلیم دی جاتی ہے جس سے خودی کے تمام احوال و مقامات پوشیدہ رہ جاتے ہیں’‘۔ (۱۹)

اقبال نے مغربی علوم کی بڑی سخت تنقید بھی کی ہے۔ اس تنقید کی اہم وجہ یہ تھی کہ اقبال کو یورپ میں تین سال رہ کر طالب علم اور استاد کی حیثیت سے وہاں کے کالجوں، نظام تعلیم، طریقہ تدریس، نصاب اور اس سے پیدا ہونے والی تہذیبی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ان کی بالغ نظری دیکھ رہی تھی کہ مغرب کا نظام تعلیم مادی ترقی کی دھن میں غیر اخلاقی بنیادوں پر استوار ہورہا ہے۔ اقبال مولانا عبد الماجد دریابادی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’دیکھا مغربی کالجوں کے پڑھے ہوئے مسلمان نوجوان روحانی اعتبار سے کتنے فروما یہ ہیں’‘۔ (۲۰)

اقبال کا خیا ل ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو اور دار العلوم دیو بند وغیرہ جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، موجودہ زمانے میں نوجوانوں کی اسلامی سیرت پورے طور پر تعمیر کرنے سے قاصر ہیں، کہیں مشرقیت کا غلبہ اور کہیں مغربیت کا، لکھتے ہیں:

’’الندوہ علی گڑھ کالج، مدرسہ دیو بند اور اسی قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کررہے ہیں۔اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازی بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دار العلم ہونا چاہیے جہاں افراد قوم نہ صرف خاص قابلیتوں کا نشو و نما دینے کا موقع حاصل کرسکیں بلکہ تہذیب کا وہ اسلوب سانچہ تیار کیا جاسکے جس میں زمانہ موجودہ کے ہندوستانی مسلمان کو ڈھلنا چاہیے۔ تاکہ ایک جامع و متوازن نظام تعلیم و تربیت مرتب ہو۔

جس کی مسند نشین اسلامی تہذیب ہو اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دلکش اندازسے ہوئی‘‘۔(۲۱)

اقبال ایک مکتوب میں یوں لکھتے ہیں:

’’ہم چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرور ہوں۔کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کردیں۔جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔۔ ۔۔۔۔ جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتابیں موجود ہوں جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے‘‘۔ (۲۲)

اقبال مذہبی تعلیم کی تدریس کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے تھے کہ اسے عصر حاضر کے تمام جدید تقاضوں سے آراستہ کیا جائے۔ مرکزی اہمیت مذہب کو ہی حاصل رہے لیکن اس کے ارد گرد زندگی کے تمام شعبوں کو گھومنا چاہیے۔ اقبال ایک ایسے نظام تعلیم کے خواہش مند تھے جو روحانی و جسمانی ہر لحاظ سے آزادی پسند ہو۔ ان کا نظریہ علم سائنسی بھی ہے اور مذہبی بھی۔ ان کے نزدیک علم کا سب سے اہم موضوع دین بشمول سائنس ہے۔ انھوں نے اسلام کی شکستہ تعلیم روایت سے از سر نو رشتہ جوڑنے کی سعی کی ہے۔

اجتہاد کے مسئلے سے اقبال کی دلچسپی اس قدر گہری تھی کہ انھوں نے نہ صرف خطبات میں ایک باب اسی موضوع پر وقف کیا بلکہ اپنے مکاتیب میں اپنے دور کے علماء سے جن میں سید سلیمان ندوی سرفہرست ہیں۔اس مسئلے پر برابر خط وکتاب کرتے رہتے تھے۔ بقول آل احمد سرور:

’’خطوط میں اقبال کو جس مسئلے سے خاص دلچسپی ہے وہ ماضی وحال کی نئی ترجمانی اور مستقبل کے لیے ایک واضح راستہ تلاش کرنے کی کوشش ہے اس میں اجتہاد کی اہمیت مسلم ہے‘‘۔(۲۳)

اقبال پیام مشرق کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

’’اس وقت دنیا میں اور ممالک مشرق میں ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ میں جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قومی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید لائق احترام ہے‘‘۔

اقبال نے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے ۱۹۱۰ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی ایک مقالہ پڑھا اور اس میں بھی انھوں نے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے:

’’ہندوستان میں اسلامی یونیورسٹی کا قیام ایک اور لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کے اخلاقی تربیت کا کام ایسے علماء اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں اس لیے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروغ کی تلقین کے لیے موجودہ زمانے کے واعظ کو تاریخِ اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیم سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے ادب او رتخیل میں پوری طرح دسترس رکھنی چاہیے‘‘۔(۲۴)

اس طرح اقبال کا مقصد یہی تھا کہ دور جدید کے تقاضوں کے تحت اسلامی یوینورسٹی بھی جدید علوم رائج کرکے مسلمانوں کی جدید تعلیمات سے روشناس کرائیں۔فقہ اسلامی کے حوالے سے ایک مکتوب میں یوں لکھتے ہیں:

’’اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخی کتاب لکھی جائے۔ اس بحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی تھی جو میری نظر سے گزری ہے مگر افسوس ہے کہ بہت مختصر ہے او رجن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظر انداز کردیا ہے۔ ۔۔۔۔ غرضیکہ اس وقت مذہبی اعتبار سے دنیائے اسلام کو رہنمائی کی سخت ضرورت ہے‘‘۔(۲۵)

اقبال کے متذکرہ بالا خطوط اور مقالات کے اقتباسات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ اجتہاد کی اہمیت سے پوری طرح باخبر تھے۔ اور اس کے تقاضوں کو بھی سمجھتے تھے۔ انھیں پورا اعتماد اور یقین تھا کہ اس دور میں اجتہاد ہی امت مسلمہ میں وہ حرکت و حرارت پیدا کرسکتا ہے جو اسے دنیا کی قوموں میں ممتاز کرسکتا ہے۔

الغرض اقبال کے خطوط علم، فکر او رمعلومات کا ایک ایسا ذخیرہ ہے جن کے مطالعے سے اقبال کی زندگی کے مختلف گوشے واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں۔ان خطوط میں اقبال اپنے خیالات کی خود وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔صاف اور سادہ زبان میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے الفاظ میں :

’’اقبال کی نثری تحریروں اور خاص طور پر ان کے خطوط کے مطالعہ سے ان کے خیالات و افکار او رنظریات و تصورات نہ صرف واضح ہوتے ہیں بلکہ ان میں تضاد اور اختلاف کے بجائے تسلسل اور اتحاد نظر آتا ہے۔ اور پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ خطوط کو پڑھ کر ذہنی سفر اور ان کے ذہنی ارتقاء کی داستان قلم بند کی جاسکتی ہے‘‘۔ (۲۶)

٭٭٭

حواشی:

۱۔تنقیدیں، ص: ۸۔۹

۲۔مقدمات عبد الحق، مرتب: ڈاکٹر عبارت بریلوی، ص: ۳۶۸۔۳۲۹

۳۔انوار اقبال، مرتب: بشیر احمد ڈار، ص: ۱۹۳

۴۔ادب کلچر اور مسائل، مرتب: خاور جمیل، ص: ۱۳۲

۵۔انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص: ۱۱

۶۔روح مکاتیب اقبال، ص: ۶۵

۷۔خطوط اقبال، مرتب: رفیع الدین ہاشمی، ص: ۵۷

۸۔آثار اقبال: غلام دستگیر رشید، ۱۹۴۶ئ، ص: ۱۸

۹۔انوار اقبال، ص: ۱۷۷

۱۰۔کلیات مکاتیب اقبال، ج۱، ص: ۴۸۱

۱۱۔اقبال نامہ، جلد دوم، ص: ۳۹۲

۱۲۔ایضاً، ص: ۴۷۷

۱۳۔اقبال نامہ، ص: ۳۸۷

۱۴۔اقبال نامہ، حصہ اول، مرتب شیخ عطاء اللہ، ص: ۵۵

۱۵۔کلیات مکاتیب اقبال جلد ۳، مرتب سید مظر حسین برنی، ص: ۱۹۲

۱۶۔مضامین اقبال، مرتب: عبد الغنی، ص: ۳۲

۱۷۔اقبال کامل، ص: ۳۳۹

۱۸۔رسالہ ایوان اردو، مضمون ’اقبال اور تعلیم و تربیت‘، ص: ۱۵، شمارہ اپریل ۲۰۱۳ء

۱۹۔اقبال کامل، ص: ۳۳۹

۲۰۔اقبال نامہ، ص: ۳۴۲

۲۱۔اقبال کے نثری افکار: مرتب عبد الغفار شکیل، ص: ۲۳۴

۲۲۔کلیات مکاتیب اقبال، جلد ۴، مرتب سید مظفر حسین برنی، ص: ۵۳۵

۲۳۔بحوالہ نظریہ اجتہاہد اور اقبال، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی، ص: ۲۲۹

۲۴۔اقبال کے نثری افکار، ص: ۲۳۶

۲۵۔اقبال نامہ، ص: ۱۲۲

۲۶۔بحوالہ مطالعہ مکاتیب اقبال، پروفیسر محمد امین اندرابی، ص: ۶۷

٭٭٭

 محمد شبیر احمد

ریسرچ اسکالر: کشمیر یونیورسٹی

email: shabirshakir9@gmail.com

Cell No: +91 9858 81 33 19

Leave a Reply

1 Comment on "اقبال کے مذہبی تصورات مکاتیب اقبال کے آئینے میں"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 87.  اقبال کے مذہبی تصورات مکاتیب اقبال کے آئینے میں […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.