تصوف، اردوادب اور ہمارا معاشرہ  

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

   ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

     (اقبالؒ)

 تصوف کسی مذہب، مسلک یا کسی انتساب کا نام نہیں بلکہ تصوف ایک فکر ہے، ریا ضت اور مجاہدت ہے جو قلب کے پردے ہٹا دیتا اور حقائق کا انکشاف کرتاہے۔

تصوف کے موضوع پر اظہار خیال کرنے سے پہلے اسکے اشتقاق پر ایک نگاہ ڈالنا میں مناسب سمجھتا ہوں۔ ’صوفی ‘اور ’تصوّف‘کے لغوی اشتقاق کے بارے میں محققین کے یہاں ہر زمانے میں اختلاف رہا ہے۔ عربی زبان کی قدیم لغات نیز جاہلی ادب کا وسیع ذخیرہ اس سے خالی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علمائے تصوّف اس کی اصل کے بارے میں مختلف الرّائے ہیں۔ عہد جاہلیت میں صوفی کی اصل تلاش کرنے کی پہلی کوشش حافظ محمد بن طاہر المقدسی(۱۰۵۶-۱۱۱۳ئ)نے کی تھی۔انھوں نے سلوک و تصوف کے موضوع پر ’صفو ٰۃ التصوف‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جو پھر کئی علمائے حدیث کے لئے ہدف تنقید بھی بنی۔ ان کے بیان کے مطابق کوفہ کے ایک محدث ولید بن قاسم (۷۰۶ئ)کے صوفی کی نسبت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا:

  ’’قوم فی الجاہلیۃ یقال لہم صوفہ انقطعوا الی اللہ عزوجل وقطنوالکعبۃ فمن تشبۃ بہم فہم الصوفۃ‘‘

  ’’جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لئے یکسو ہو گئی تھی اور جس نے خانۂ کعبہ کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا تھا۔پس جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے‘‘۔

 صوفہ کی قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خانۂ کعبہ کے مجاور تھے اور حاجیوں کیلئے آرام و آسایش کا انتظام کرنا ان کے ذمّے تھا۔ ان میں سب سے پہلے غوث بن مر کا نام صوفہ پڑا۔غوث کی ماں بے اولاد تھی۔اس نے نذر مانی کہ اگر خدا نے اسے لڑکا عطا کیا تو وہ اسے خانۂ کعبہ کی خدمت کے لئے وقف کردے گی۔لڑکا ہوا تو اس کا نام غوث رکھا گیا۔یہی غوث آگے چل کرصوفہ کہلایا۔بعد میں ا س کی اولاد بھی صوفہ کے نام سے مشہور ہوئی۔

  علامہ ابن جوزیؒ(۱۱۱۴-۱۲۰۱ئ) بغداد کے مشہور حنبلی عالم جو تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ وسیرت کے امام تھے۔بغداد میں ہر جمعرات کو ان کا وعظ ہوتا تھا۔تاثیر کا یہ عالم تھا کہ ان کے ہاتھ پر ایک لاکھ مسلمانوں نے توبہ کی اور 20 ہزار غیر مسلم ایمان لے آئے۔ انھوں نے مختلف علوم میں 400کتابیں تصنیف کی ہیں۔ وفات کے وقت وصیّت کی کہ ان کے غسل کا پانی اس کترن اور برادہ سے گرم کیا جائے جو حدیث لکھنے کیلئے قلم بناتے ہوئے گر کر جمع ہوا تھا۔یہ برادہ اتنا تھا کہ پانی گرم ہو جانے کے بعد بھی بچا رہا۔انھوں نے” تلبیس ابلیس “کے نام سے ایک کتاب لکھی، کتاب کا بیش تر حصہّ صوفیہ کے اقوال و افعال پر تنقید و دارو گیر پر مشتمل ہے۔روایت کرتے ہیں کہ غوث بن مر کی ماں کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا بچہ زندہ رہا تو وہ اس کے سر پر صوفہ (صوف کا ٹکڑا)باندھے گی۔ لڑکا ہوا تو اس نے اپنی نذر پوری کی۔اس وجہ سے اس لڑکے کا نام صوفہ پڑااور بعد میں اس کی قوم بھی صوفہ کہلائی۔

  (بحوالہ تلبیس ابلیس، دارالطباعۃ المنسیریہ القاہرہ، الطباعۃ الثانیہ ۱۹۵۰ئ؁ ص ۱۶۱)

 مشہور لغوی ابو عبیدہ معمر بن مثنی(۷۶۸-۸۶۴ئ) (قرآن، نحو و لغت، امثال فتوحات اور دوسرے علوم میں 150کتابیں لکھیں اور موصوف فارسی نژاد تھے۔مذہباً خارجی اور سیاست میں شعوبی تحریک سے متاثر تھے)۔کے بیان کے مطابق صوفہ یا صوفان ہراس شخص کو کہتے ہیں جو بیت اللہ سے غیر متعلق ہوتے ہوئے بھی اس کے کسی معاملہ کا ذمّہ دار ہو یا مناسک حج میں سے کوئی کام اس کے ذمہ ہو۔

 علامہ ابن جوزی بھی اس اشتقاق کو صحیح مانتے ہیں لیکن مستشرقین اور بعض علماء نے صوفہ سے صوفی کا اشتقاق غلط ٹھہرایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ عربی زبان و قواعدکی رو سے صوفہ سے صوفانی بنے گا نہ کہ صوفی۔اس سے انکار نہیں ہے کہ صوفہ سے صوفانی بنتا ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے۔اگر عربی زبان کی قواعد سے “صوفہ سے صوفی”بننا غلط ہے تو “کوفہ سے کوفی”کا اشتقاق بھی درست نہیں ہو سکتا ہے۔اس لئے اس اشتقاق کویکسر غلط نہیں قرار دیا جا سکتا۔

 بعض مورخین صوفی کو یونانی لفظ “سوف “سے ماخوذ بتاتے ہیں۔ الغرض صوفی اور تصوّف کی معنوی تعریف میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ہر صوفی نے اس کی تعریف اپنے ذوق و حال کے مطابق کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی ایک ہی صوفی کی تعریفات باہم متضاد بھی دکھائی دیتی ہیں لیکن ذوق اور حال کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ تضاد خود بہ خود رفع ہو جاتا ہے کیونکہ جب ایک صوفی مختلف احوال سے گزرتا ہے تو ہر حال کے مطابق اس کی تعبیر بھی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک ہی صوفی سے منسوب مختلف اقوال ملتے ہیں۔ مثلاً:  ایک صوفی ابراہیم بن المولد الرقی(جنید بغدادی کے شاگردتھے) نے تصوف کی 100سے زیادہ تعریفیں کی ہیں۔

 صوفی کی پہچان کے بارے میں شیخ ابو حمزہ بغدادی کہتے ہیں کہ “سچے صوفی کی علامت یہ ہے کہ وہ امیر سے فقیر، معزّز سے ذلیل، مشہور سے گم نام ہو جائے اور جھوٹے صوفی کی علامت یہ ہے کہ وہ فقیر سے امیر، ذلیل سے معزّز اور گم نام سے مشہور ہو جائے”۔مشہور صوفی شیخ سہل بن عبد اللہ تستری کے بیان کے مطابق صوفی وہ ہے جو میل کچیل سے پاک ہو، ہمہ تن غورو فکر ہو، مخلوق کو چھوڑ کر اللہ ہی کا ہو گیا ہو اور اس کے نزدیک سونا اور مٹی برابر ہو۔

 یہ تھی تصوف کے اشتقاق کی بحث۔ اب ہم تصوف پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں گے۔ نکلسن نے of the arabs literary history، ص، ۸۳ میں کہا ہے کہ تصوف کی نشو نما کے دو ادوار ہیں۔ پہلا دور اسلام کی ابتدا سے نویں صدی عیسوی کے آغاز تک اور دوسرا نویں صدی سے بارہویں صدی تک aور اسلام کے آغاز کے بعد ہی تصوف کی باقاعدگی سے شروعات ہوئی۔مسلمانوں کے نزدیک مذہب کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی اور تصوف اسلام کا باطنی پہلو ہے۔یہ ایک ریاضت اور مجاہدہ بالقلب ہے جس سے دل کے پردے ہٹتے ہیں اور نفس پر حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔یہ تھا تصوف کا اشتقاق۔مختصراً تصوف کے بارے میں یہ کہیں گے کہ یہ وہ علم ہے, جس سے سعادت ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس، تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی اصلاح کے ا حوال جانے جاتے ہیں۔ تصوف کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک نظری اور دوسرا عملی۔

 نظری پہلو:تصوف میں معرفت ِحق کا راستہ اپنشدی فلسفے کی طرح روحانی تکمیل اور تہذیب نفس کا ہے۔اس نظریہ کی بنیاد چار اصولوں پر رکھی گئی ہے۔

 ۱۔عقل، حقیقت کے راز کو نہیں پا سکتی۔ صداقت کی تلاش کے لیے نظری علم بے کار ہے۔اس لیے حضوری علم چاہیے جو منطق یا ریاضی کے اصولوں سے نہیں بلکہ حسِ باطنی یا وجدان کے ذریعے ممکن ہے۔

 ۲۔انسان اشرف المخلوقات ہے۔وہ اگر باطن کی طرف رجوع کرے تو اسے احساس ہوگا کہ اس میں حقیقت کو جاننے کی تڑپ ہے۔یہ وہ چنگاری ہے جو ابدی شعلہ میں ضم ہوجانا چاہتی ہے۔اس کا سراغ قلب میں ملتا ہے۔اس لئے صوفی کو قلب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دیدارِمحبوب سے چشم باطن روشن ہو سکتی ہے۔

 ۳۔معرفت کے لیے ریاضت اور مجاہدہ ضروری ہے۔خود غرضی، لذتیت اور عیش کوشی سے روح ملوث ہوجاتی ہے۔مادی لذتوں کی قید وبند سے آزاد ہوکر ہی حقیقت کو بے حجاب دیکھا جا سکتا ہے۔

 ۴۔خدا سے رشتہ محبت کی بنا پر ہونا چاہیے۔محبت ایک جذبہ ہے اور معرفت ایک کیفیت ہے۔جذبہ سے کیفیت تک ایک قدم ہے۔محبت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرد محبوب کے جلوۂ حسن میں جذب ہوکر خود کو فراموش کر جاتا ہے۔حب الٰہی صوفی کا ضابطہ ہے۔وجدان اس کا مدعا ہے اور معرفت وصالِ محبوب ہے۔

عملی پہلو:تصوف کے نظری پہلو کی طرح اس کا عملی پہلو بھی اہمیت رکھتا ہے۔تصوف کے مبتدی کے لیے جن مقامات سے گزرنا لازمی ہے، وہ ہیں توبہ، ورع، زہد، فقر، صبر، توکل اور رضا۔ایسے ہی صوفی کے لیے مندرجہ ذیل حال ضروری بتائے گئے ہیں:

مراقبہ، قرب، محبت، خوف، رجا، شوق، انس، اطمینان، مشاہدہ اور یقین۔توبہ سے مشاہدہ تک صوفی کے سفر کے تین حصیّ کیے جا سکتے ہیں۔ اتباع شریعت، مغفرت اور فنا۔پہلی حالت کو مجاہدہ دوسری کو محاضرہ اور تیسری کو مشاہدہ کہا جاتا ہے۔

ادب اور تصوف:جس زمانے میں تصوف بام عروج پر تھا، اس وقت ادب اتنا وسیع نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔اس وقت کا ادب شعروشاعری ہی تک محدود تھا۔ اس لیے جب اردو غزل نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو تصوف کے ماحول میں پایااور اردو غزل جس معاشرے میں وجود میں آئی۔ اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے عقلی اور تہذیبی نظریات کار فرما تھے۔گیارہویں اور بارہویں عیسوی میں جہاں سیاست اپنی کشمکش میں تھی۔ وہیں صوفیوں اور فقیروں کا طبقہ بھی جدوجہد میں مصروف تھاجو اپنا آفاقی پیام اس ملک کے عوام تک پہنچانا چاہتے تھے۔یہ لوگ عربی، فارسی اور ترکی کے عالم تھے لیکن انھوں نے محسوس کیا کہ اپنے روحانی پیام کو ہندوستان کے عام لوگوں تک پہنچانا ہے تو انھوں نے ادب کا سہارا لیا اور جن کے روحانی فیض سے نہ صرف عوام فیضیاب ہوئے بلکہ ادب کو اس سے خاصا فائدہ بہم پہنچامگر یہاں پر یہ امر توجہ کے قابل ہے کہ اس زمانے میں ہمارے ملک میں ہندو مسلم اتحاد کی ایک زبردست تحریک جاری تھی۔تصوف کا فلسفہ ہمہ اوست اور ویدانت کے بھکتی کے تصور میں نہ صرف گہری مشابہت تھی بلکہ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ یہ دونوں اسلامی اور ہندو تصورات ایک دوسرے پر اثر انداز تھے اور طریقت و معرفت کی جستجو میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔اگر ہم دیکھیں تو جو تصوف و معرفت کے مسائل ہمیں حضرت گیسودراز کے یہاں ملتے ہیں وہی ہمیں سنسکرت میں بھی نمایاں ملتے ہیں۔ مثلاً نرِـگن اور سَگن۔نرگن اور سگن، اس وقت بھکتی تحریک کے دو اہم نظریات تھے۔یہاں ہم پہلے سگن نظریہ، جس کے گرو تلسی داس تھے کو پیش کریں گے۔بھکتی کی یہ شاخ قدیم نظریہ کی حامی تھی۔اس کے بڑے بڑے علم بردار ولبھ اچاریہ نام دیو، تکا رام دیواور چیتنیہ تھے جو خدا کے سگن یعنی شخصی تصور کے قائل تھے۔بھکتی تحریک کا دوسرا اہم نظریہ نرگن کا تھا۔اس نظریہ کے روح رواں کبیر داس تھے۔کبیر نے معبود حقیقی کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں ہندو مذہب اور اسلام دونوں کی روح جھلکتی ہے۔کبیر کی تعلیم کے مطابق خدا زماں اور مکاں سے ما ورائبھی ہے اورجاری وساری بھی۔اسے محدود بھی کہا جاسکتا ہے اور لا محدود بھی۔وہ موجود بھی ہے معدوم بھی۔وہ نہ پنہاں ہے نہ نمایاں۔ خدا دراصل ہر قسم کی صفات اور تعینات سے ما ورا ہے۔”ساکھی “میں کبیر کہتے ہیں کہ:

   پاہن کو کیا پوجے جو نہیں دے جواب

   اندھا نر آشا مکھی یونہی کھووے آب

   پاہن پوجے ہری ملے، تو میں پوجوں پہار

   تاتے تو چکی بھلی، پیسی کھائے سنسار

 جیسا کہ ہم اوپر بیاں کر چکے ہیں کہ اردو ادب میں تصوف ہمیں غزل میں ہی ملے گا۔ چونکہ ا س زمانے میں جب تصوف کی تحریکیں بام عروج پر تھیں۔ اس وقت اردو ادب غزل ہی کی صورت میں موجود تھا۔جب یہ تحریکیں شمالی ہند میں اپنے نقش چھوڑ رہی تھیں تو یہاں شمالی ہند میں سب سے پہلے حضرت امیر خسرو کی آغوش محبت میں آنکھ کھولی اور اسی آغوش محبت میں غزل اور تصوف آپس میں متعار ف ہوئے۔اردو غزل نے تصوف کی گود میں جب آنکھ کھولی تو وہ حال و قال کی محفلوں اور صوفیوں اور درویشوں کی صحبتوں میں پروان چڑھی۔صوفیوں نے اپنے لیے اسے وسیلۂ اظہار بناکے اپنے روحانی فیض کونگر نگر، گلی گلی پہنچایا۔حضرت خسرو کی کہہ مکرنیاں، پہیلیاں اوردوہے اس کا مسلّم ثبوت ہے۔ادب میں تصوف کو اگر بیان کرنا ہے تو ہمیں سب سے پہلے تصور عشق سے آشنا ہونا ضروری ہوگا۔چونکہ عشق زندگی کا مرکز و محورہے۔عالم رنگ و بو میں جوکچھ نظر آتا ہے وہ مختلف عناصر کے باہمی ربط و کشش سے بنتا اور قائم رہتا ہے لیکن مختلف اشیا میں اس ربط وکشش کے مختلف مدارج ہیں۔ عشق کی یہ کشش شعوری ہے اور کہیں نیم شعوری اور کہیں غیر شعوری۔انسان چونکہ ذی شعور مخلوق ہے، اس میں عشق کی کشش کا وجدان کسی حد تک شعوری بھی ہے جس کا اثر جذبہ واحساس کی شکل میں ہوتا ہے۔

 اردو شاعری کی ابتداتصوف کے ان رجحانات سے ہوئی تھی، جن میں عشق مجازی کو عشق حقیقی کا زینہ قرار دیا جاتا تھا اور جن میں تصوف کا رنگ اپنی اصلیت کے ساتھ نمایاں ہے۔اردو میں ایسی برگزیدہ ہستیاں گنی چنی ہیں۔ سرآج اورنگ آبادی، خواجہ میر درد، شاہ نیاز بریلوی، عبدالعلیم آسی ایسے شاعر ہیں، جن کی شاعری کا اصلی رنگ عشق حقیقی کا عرفان ہے۔ان کے یہاں بھی اپنی اپنی انفرادیت کی بنا پر حقیقی عشق کی روحانی کیف و سرمستی اور رموز و نکات کے بیان کرنے کے اسالیب باہم مختلف ہیں۔ خواجہ میر درد اس رنگ کے امام ہیں۔

درد ـؔ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

  جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

  جان سے ہو گئے بدن خالی جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

  نالہ فریا د آ ہ اور زاری آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

   ********************

  غافل تو کدھر بہکے ہے ٹک دل کی خبر لے

  شیشہ جو بغل میں ہے اسی میں تو پری ہے

   ********************

   حجاب رخ یار تھے آپ ہی ہم

کھلی آنکھ جب، کوئی پردہ نہ دیکھا

   ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ********************

  نہ پوچھو کچھ ہمارے ہجر کی اور وصل کی باتیں

  چلے تھے ڈھونڈنے جس کو سو وہ ہے آپ کھو بیٹھے

سرآج اؔورنگ آبادی:

  خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی

  نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

  وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا

  کہ کتاب، عقل کی طاق میں جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

شاہ نیازؔ بریلوی:

 تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا

 وہیں محو حیرت بے خودی مجھے آ ئینہ سا بنا دیا

 جبھی جا کے مکتب عشق میں سبق، مقام فنا لیا

 جو لکھا پڑھا تھا نیاز نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا

عبدالعلیم آسیؔ:

 اس کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا

 میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا

  انھیں کانوں سے انا الحق کے سنے ہیں نعرے

  آدمی عشق میں جا نئے؟ کیا ہوتا ہے

 ہر چند کہ تصوف زندگی کے ہر شعبے پر چھایا ہواتھا تاہم خواجہ میر درد اور ان جیسے چند اکابرین کو چھوڑ کر زیادہ تر شعرا کا رشتہ تصوف سے رسمی اور روایتی نوعیت کا تھا۔تصوف اس زمانے میں بطور فیشن بھی اختیار کیا جاتا تھا۔تصوف کو عملی طور پر اپنانے کے لیے خاص قسم کی ذہنی تعلیم اور باطنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، جسے ہر شخص نہیں نبھا سکتا۔اس دور کے شاعر تصوف سے لگاؤ تو رکھتے تھے لیکن یہ ان کی عملی زندگی کا جزو نہیں تھا۔جب شاعری نے لکھنو ٔکی طرف رخ کیا تو اس دور میں عشقیہ شاعری کا وہ رنگ جو درد مندی اور دلسوزی سے عبارت ہے، غائب ہو گیا۔دہلی کی شاعری ماحول کی افسردگی اور تصوف کے اثرات سے عشق زدہ تھی۔لکھنو کی شاعری فراغت و فراوانی کے عام نقشے سے ہوس زدہ بن گئی تھی۔یہاں عشق کی کیفیت جذبات قلبی کے اظہار سے کم اور چوما چاٹی کے اتھلے احوال سے زیادہ ابھاری جاتی تھی۔لکھنو کی عشقیہ شاعری میں معاملہ بندی اور چوما چاٹی کا آغاز جرأت اور انشا سے ہوتا ہے۔نمونے کے طور پر جرأت کے چند مطالع سماعت کیجئے۔

  امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ

  کیا رات ہے کیا رات ہے کیا رات ہے واللہ

  مل جا گلے سے تاب اب اے نازنین نہیں

  ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں

 انشائؔ:

  شب کو میں ان سے راہ میں لپٹا بیم حاکم رہا نہ خوف عسی

ہاتھا پائی ہوئی یہاں تک تو ان کی انگلی کی مڑ گئی چٹ نس

  لگے کہنے کہ میرے دامن کو نہیں اب تک کیا کسی نے مس

  غصے میں ترے ہم نے بڑا لطف اٹھایا

اب تو عمداً اور بھی تقصیر کریں گے

 انشاؔ کی زبان اور چلبلاپن بہر حال شاعرانہ مزہ رکھتا ہے لیکن ان کے بعد آنے والے شعرا نے تو اس عریانی میں ایسا تصنع اور فحاشی میں ایسی بناوٹ پیدا کی کہ کہ کاسۂ عشق، عشق حقیقی سے خالی ہو گیا اور محبت صنعت گری میں تبدیل ہو گئی۔اردو کی عشقیہ شاعری کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس حصے کی طرف آتے ہیں جو صحیح معنوں میں بلند ترین عشقیہ شاعری کے ذیل میں آتا ہے۔اس لیے ہمارے نزدیک میر و غالب کے نا م لیے جا سکتے ہیں۔ میرؔ کی شخصیت کا اولین نقش ان کے والد ہی کے ہاتھوں اٹھا تھا جو ایک درویش دل تھے۔ان کی صحبت میں میر کو دوسرے درویشوں، صوفیوں وغیرہ سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مواقع حاصل ہوتے رہے۔خود میرؔ کے والد ان سے اکثر کہا کرتے تھے:

  “اے پسر عشق بورز، عشق است کہ دریں کارخانہ متصرف است”

 نمونے کے طور پر چند اشعار سماعت کیجیے۔

  صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا تم نے نہ دیکھا صد افسوس

  کیا کیا فتنے سر جوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے

 دل سے شوق رخ، نکو نہ گیا

 جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا

 یہاں ایک بات کا خیال رہے کہ میرؔ کی شاعری کو مجاز یا حقیقت کی روایتی اصطلاحوں سے سمجھنا، اس سے نا انصافی کرنا ہے۔عشقیہ شاعری کے لیے یہ ضروری نہیں کہ شاعر نے ویسی شدت سے عشق کیا ہو جیسا کہ اس کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔

 غالبؔ گوکہ ایک دنیادار اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن تمدن کے اثر سے متصوفانہ عقائد کا پرتو ان کے نظریات اور خیالات پر بھی گہرا ہے۔تاہم میرؔ اور غالبؔ میں سے کسی نے بھی تصوف کو اپنا نصب العین نہیں بنایا۔میر اور غالبؔ نے گو کہ تصوف کے بعض اثر ات قبول کیے لیکن تصوف ان کی زندگی کا معمول نہیں تھا۔خواجہ میر دردؔ یا سرآج اورنگ آبادی کی طرح میرؔ و غالبؔ با ضابطہ صوفی شعراء نہیں ہیں تاہم یہ تصوف سے بیگانۂ محض بھی نہیں۔

 غالبؔ:

  وہ فراق اور وہ وصال کہا ں

 وہ شب و روز ماہ و سال کہاں

  فرصت کا رو بار شوق کسے

  ذوق نظارۂ جمال کہاں

  تھی وہ اک شخص کے تصور سے

 اب وہ رعنائی خیال کہا ں

  عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

درد کی دوا پائی درد بے دو ا پایا

 اس باہمی فرق کے با وجود ان دونوں کی عشقیہ شاعری کی بنیاد ایک ہی ہے۔وہ ہے عشق کا فطری انسانی احساس۔وہ نہ لکھنو کی شاعروں کی طرح نفس پرستی پر اتر آتے ہیں نہ دہلی کے معاصرین میر و سودا کی طرح عشق کو ماتم بناتے ہیں اور نہ صوفی شاعروں کی طرح عشق حقیقی کے جذب و کیف کی بلند یوں میں پرواز کرتے ہیں بلکہ ان کی شاعری اپنا آب و رنگ فطری انسانی خواہشات سے حاصل کرتی ہے۔جس کا ارتفاع ان کے ہاں اپنے اپنے طور پر ہوا ہے۔میرؔو غالبؔ کے بعد صحیح معنوں میں علامہ اقبال تصوف کا لبادہ اوڑھ کر اردو شاعری کی دنیا میں داخل ہوئے۔ان کا ـ ” فلسفۂ خودی ” سارا کا سارا تصوف کے تارو پود سے بُنا ہوا ہے۔واضح رہے اقبال کی غزل ہو یا نظم، رباعی ہو یا مثنوی، و ہ تمام صنف میں تصوف کی آواز لے کر وارد ہوئے ہیں۔ انھیں تصوف سے گہرا لگاؤہے۔تصوف انھیں ورثے میں بھی ملا اور خود اپنی آگہی کے علم و عرفان سے بھی۔اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اقبال تصوف کے روایتی پہلو سے کسی قدر نالاں بھی ہیں۔ تاہم یہ ناراضگی بقول آل احمد سرور:

  ’ ’دو پریمیوں کے ما بین جھگڑے کی نوعیت جیسی ہے‘‘

دراصل اقبال اس تصوف سے بچنے اورباز رہنے کی تلقین کرتے ہیں جو صرف دکھاوے، مراسم اور خانقاہی پر منحصر ہے۔یہ حرف شیریں کہنے والا بھلا تصوف کا منکر کیسے ہو سکتا ہے۔

 ملاحظہ ہو:

   یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

   کہ میں آپکا سامنا چاہتا ہوں

ملاحظہ ہو ں چند اور اشعار:

  خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

  تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

   عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام

   اس زمین وآسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

تصوف اور اردو ادب کامعاشرتی رنگ:

میں ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کی ہندوستان ایک مشترکہ تہذیب کا گہوارہ ہے۔اس لیے یہاں کے ہر معاشرتی شعبے پر اس میل جول کے نمایاں اثرات ملتے ہیں۔ ہولی، دیوالی وغیرہ ہندوؤں مسلمانوں کے مشترکہ تہوار ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کے محرم اور شب برأت جیسے تہوار کا اثر یہاں کی تہذیب پر بھی پڑا، جس کے نتیجے میں ایک رنگ برنگی مشترکہ تہذیب پروان چڑھنے لگی۔مقامی فضا اور تہذیبی اخذ و قبول کا سب سے زیادہ اثر اسلامی تصوف پر ہوا۔ہندو مذہب کے اثرات سے روشنیہ، الٰہیہ اور تناسخیہ کے فرقے پیدا ہوئے۔ یوگ کی بڑی مقبولت ہوئی اور خانقاہوں کی زندگی اس سے متاثر ہوئی۔اس زمانے میں پھر تصوف میں رہبانیت کے رجحانات مزید گہرے ہوگئے۔ اس زمانے میں کئی مسلمان صوفی اور فقیر بالکل ہندو جوگیوں کی سی وضع سے زندگی بسر کرنے لگے۔

  با الآخر میں اس بات پر اکتفا کرو ں گا کہ ہندوستانی تہذیب بھکتوں، صوفیوں ں، فقیروں اور سنتوں کی آمیزش سے پروان چڑھی ہے اور اسی رنگ میں ہمارا ادب بھی رنگا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.