شوکت صدیقی کے ناولوں میں مظلوم طبقے
ABSTRACT:-
Shaukat Siddique is a famous progressive fiction writer. He got world wide recognition through his two master piece novels “Khuda ki Basti” and “Jangloos”. He received many literary awards that are Adam Jee award (1960), pride of performance (1997), Kamal-e-fun award (2002), sitar-e-imtiaz award (2003) and Aalmi Faroogh-e-Urdu adab award Doha (2004). In his writings, he discussed problems and issues of the lower classes of Pakistani society. His writing style resembles to that of premchand. The themes of his novels are social conflicts, economic condition and troubles, moral flaws and complicated social realities. In main two novels “Khuda ki Basti” and “Jangloos” Shaukat has described the issues of poor children, pity condition of women and problems of peasants. The author has tried to point out various characteristics of above mentioned down trodden classes in these novels.
ادب اور زندگی، ادب اور حقیقت نگاری، ادب اور عصری صورتِ حال، ادب اور تاریخ اور اسی قبیل کے کئی اور سوالات کے زیادہ واضح، جان دار اور معنی خیز جوابات ادب کی دیگر اصناف کے برعکس ناول میں ز یادہ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اردو ادب کی نثری اصناف میں بلاشبہ داستان کے بعد ناول ہی ایسی صنف ہے جس کینوس وسیع ہوتا ہے۔ ناول نگار موضوع کی مناسبت سے کہانی ترتیب دیتا ہے۔ اس میں وہ عصری صورتِ حال کو تخلیقی سطح پر آمیز کر کے ایک ناول تخلیق کرتا ہے۔ یہ بالکل بجا ہے کہ کسی عہد کے ادب سے کسی دور کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ:
’’ادب اپنے اندر تاریخ، سماجی تبدیلیوں اور ہر دور کے باشعور اور درد مند طبقہ کا نقطہ نظر بھی سموتا ہے۔ یوں ہر دور کا ادب اپنے عصری رحجانات، خیالات و افکار، اقداری تنوعات، ذہنی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا خوب صورت مرقع کہا جا سکتا ہے۔‘‘ ۱؎
اس طرح اگر پاکستانی معاشرے کے مظلوم طبقات کی صورتِ حال سے اگاہ ہونا چاہیں تو اس ضمن میں ناول ہمارے لئے زیادہ سود مند صنف ہے۔ اب یہ دیکھنا کہ مظلومیت کیا ہے؟ اس کے لئے ہمیں ’’ظلم‘‘ کو زیر بحث لانا ہو گا۔ جب ظلم فعل ہے اور مظلومیت مفعولی حالت، انسائیکلوپیڈیا آف امریکا نامیں ظلم کی ذیل میں لکھا ہے۔
In law, has not narrowly defined or technical meaning but is a generic term applicable to all categories of willful mistreatment, particularly the infliction of unjustifiable physically pain or suffering. Cruetly to children in punishable not only by criminal action but by removal of mistreated children from the custody of parents, guardians, or other who are guilty of abusing them. Depending on the wording of the particular statute involved, curelty may include the failure to furnish food, clothing, shelter, or medical care as well as infliction of physical abuse ……… (۲)
پاکستانی اردو ناول میں مظلوم طبقوں کی عکاسی کے حوالے سے شوکت صدیقی اردو ادب کے سب سے اہم ناول نگار ہیں۔ وہ نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند ادیب تھے۔ ان کی تحریروں کی کلیدی اساس سماجی حقیقت نگاری ہے۔ اس لئے ان کے ہاں تخیل و رومان کا وہ جمال نظر نہیں آتا جو قاری کو فرحت و انبساط عطا کرتا ہے۔ شوکت صدیقی ہمارے سامنے جس دنیا کی مصوری کرتے ہیں وہ ہماری اپنی دیکھی بھالی ہے۔ ہم اس کے ہر گوشے سے واقف ہیں۔ شوکت صدیقی کو حقیقی معاشرتی مسائل و واقعات سے پلاٹ تعمیر کرتے ہوئے اس لئے بھی سہولت ہوتی ہے کہ وہ ایک صحافی ہونے کے ناتے ملک کے معروضی حقائق سے بھی آگاہی ہیں اور ادیب ہوتے ہوئے تخیلی قوت اور عمیق مشاہدے جیسی خصوصیات سے بھی متصف ہیں۔ ان دونوں اوصاف کے تال میل سے وہ اعلیٰ فن پارہ تخلیق کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے افسانوں کے علاوہ چار ناول بھی تخلیق کیے۔ ادبی معاشرے میں ا ن کو حیاتِ دوام بھی ناولوں کی بدولت ہی نصیب ہوئی۔ اس ضمن میں خاص طور پر ان کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ ان کا پہلا ناول بھی ہے اور ادبی دنیا میں بقا کا ضامن بھی۔ اس مضمون میں ہم شوکت صدیقی کے صرف دو ناولیں ’’خدا کی بستی‘‘ اور جانگلوس کا جائزہ لیں گے جبکہ کمین گاہ اور چار دیواری ہمارے موضوع کی حدود میں ہی نہیں آتے۔
خدا کی بستی:
یہ ناول ۱۹۵۸ء میں منصہ شہود پر آیا۔ ۱۹۶۰ء میں اس ناول کی مقبولیت کے باعث شوکت صدیقی کو آدم جی ریوارڈ انعام ملا۔ اس ناول کا موضوع مظلوم طبقوں کی افسردگی، افلاس، اقتصادی ناہمواری، استحصال، غربت اور سماجی جبر ہے۔ ۳؎ ناول کا لینڈ سکیپ پاکستان کا گنجان آباد شہر کراچی ہے۔ اس کا زمانہ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی دس برس کا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ایک ملک نیا نیا آزاد ہوا ہے۔ اس خطے کے باسی کچھ خواب اور آدرش لے کر آئے تھے۔ مگر شومیِ قسمت کہ آغاز ہی میں وہ خواب بکھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انصاف، محبت، عزتِ نفس اور تحفظ کا احساس مٹنے لگا۔ مصنف نے اسی خیال کے باعث ناول کا عنوان بھی ’’خدا کی بستی‘‘ رکھا ہے۔ جس میں طنز اور خواب و حقیقت کے تضاد کا تصور مخفی ہے۔
شوکت صدیقی نے اس ناول میں مجموعی طور پر جرم و تشدد کی فضا کی عکاسی کرتے ہوئے مظلوم عوام کی بے کسی و بے بسی کو عیاں کیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے معاشرے کے دو طبقے زیادہ واضح ہوئے ہیں۔ یعنی مفلس و نادار مظلوم بچوں کا طبقہ اور دوسرا خواتین کا طبقہ۔ ناول نگار نے نوشا، راجہ،شامی، انور جیسے بچوں کے کرداروں کی مدد سے پاکستانی معاشرے میں استحصال زدہ خاندانوں کی اجتماعی صورتِ حال کی عکس کشی کی ہے۔ یہ بچے بھوک، افلاس، اور تنگ دستی کے مارے ہوئے ہیں جنہیں نہ والدین کی محبت ملی، نہ بنیادی حقوق کی کہیں آبیاری ہوئی۔ نہ مدرسے کی تعلیم نصیب ہوئی، نہ ہی والدین کی تربیت میسر آ سکی۔ ہوش سنبھالتے ہی نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کی ذمہ داریوں تلے دب جاتے ہیں۔ یہ مظلومیت ہی تو ہے کہ ان کے والدین اور حکومت ایسے اقدامات نہیں کرتی جس سے معاشرے کے عام افراد کو زندگی کے بنیادی حقوق میسر آ سکیں۔
شوکت صدیقی نے یہ نکتہ باور کرایا ہے کہ جن معاشروں میں عوام کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کا ریلیف نہیں دیا جاتا وہ نوشا، راجہ، شامی اور انور جیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی ایک گفتگو میں ان بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں :
’’خدا کی بستی جو میرا ناول ہے وہ خالص سماجی حقیقت نگاری ہے۔ بنیادی بات جو تھی وہ اس کے تین کردار تھے۔ تین بچے جو جدوجہد کر رہے تھے۔ بہتر زندگی گزارنے کی اور معاشرہ جو تھا ان کو وہ حالات میسر نہیں کر رہا تھا وہ علم حاصل کرنا چاہتے تھے مگر علم حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ وہ محنت سے اپنی روزی کمانا چاہتے تھے یہ نہیں کما سکتے تھے۔ معاشرے نے ان کو مجرم بنا دیا تھا۔‘‘۴؎
نوشا اور انور یتیم بھائی تھے۔ کرائے کے مکان میں ایک ماں اور بہن کے ساتھ رہتے تھے۔ ماں بیڑیاں تیار کرکے بیچتی تھی اور نوشا آٹو ورک شاپ میں کام سیکھنے جاتا تھا۔ اس گھرانے کی روزی روٹی کا وسیلہ بس یہی تھا۔ غربت و افلاس کا یہ عالم تھا کہ اگر نوشا کسی روز شام کو پیسے لے کر نہیں آتا تھا تو ماں ناراض ہو کر کھانا نہیں دیتی تھی۔راجہ بھی ایسا ہی بے سہارا بچہ تھا جو سارا دن گلیوں میں آوارہ پھر تھا ایک کوڑھی والے کی ریڑھی کھینچنے پر مامور تھا۔ شامی اپنے باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھتا تھا۔ باپ انتہائی سخت گیر ہے جو معمولی غلطی پر بھی تشدد کرتا ہے۔ انور عرف انو بھی کم سن نادار بچہ ہے۔ یہ نوشا کا چھوٹا بھائی ہے۔ ابھی کوئی کام کرنے کے قابل نہیں۔ لاوارثوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ ماں کی موت کے بعد در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ ہیجڑوں میں رہ رہ کر بالآخر ہیجڑا بن جاتا ہے۔
یہ ان بچوں کی مظلومیت کی زندگی کے ابتدائی ایام کی تصویر ہے۔ یہ بچے ایک ایسے معاشرے کے بچے ہیں جہاں کی فضا مثبت رویوں کو جزو ذات بنانے میں کارآمد نہیں ہوتی بلکہ ہر طرف دھوکا، فریب اور دوسروں کا استحصال ہی دکھائی دیتا ہے۔ نوشا کا مالک مکان نیاز، پیشے کے اعتبار سے کباڑیہ ہے۔ وہ اس معصوم بچے کو ورک شاپ سے پرزے چوری کرنے کی ترغیب دیتاہے اور پھر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایک بزدل اور ڈرپوک بچہ ہے۔ اس کے ڈرانے دھمکانے سے وہ رضامند ہو ہی جاتا ہے۔
’’نیاز نے اس دفعہ زور دے کر پوچھا، تو پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘
نوشا سہما ہوا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’کہیں مستری جی کو پتا چل گیا تو میری شامت آ جائے گی۔‘‘
نیاز اپنے ڈھب پر لانے کے لئے اسے پھسلانے لگا، ابے جب اس سالے کو پتا لگے تب، بس ذرا ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ دیکھ میں تجھے ترکیب بتائوں ، اس نے پرزے چرانے کے نوشا کو کئی طریقے بتائے۔ پھر بھی نوشا کسی طرح آمادہ نہ ہوا۔
لیکن نیاز نے اپنے پھندے سے نکلنے نہ دیا۔ نوشا جانے لگا تو اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر دیا۔ مسکرا کر بولا۔
لے آج میری طرف سے جا کر فلم دیکھ۔
نوشا روپیہ لینے میں ہچرمچر کرنے لگا تو نیازنے اصرار کر کے اس کی جیب میں ڈال دیا۔ زیادہ ضد نہیں کرتے۔ میرے کہنے پر چلے گا تو عیش کرے گا۔ نوشا نے اس کی باتیں خاموشی سے سنیں اور شرمایا ہوا سا دکان سے باہر چلا گیا۔ ‘‘ ۵؎
آٹو ورک شاپ کا مالک بھی ظالم انسان تھا۔ وہ معمولی غلطی پر کاری گروں کو سخت سزائیں دیتا تھا۔ نوشا بہت ڈرا اور سہما سہما ساتھا۔ نوشا، نیاز کے اکسانے پر ورک شاپ سے پرزے چرانے لگا۔ جب عبداللہ مستری کو معلوم ہوا تو اس نے پہلے خود خوب تشدد کیا اور بعد میں پولیس کے حوالے کر دیا:
’’عبداللہ شکار پر جھپٹنے والے تیندوے کی طرح آہستہ آہستہ چلتا ہوا قریب آیا اور اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا۔‘‘
’’چپ! سالے آواز نکلی تو یہیں دفن کر دوں گا۔‘‘
نوشا کو سانپ سونگھ گیا۔ اس نے چوں تک نہ کی۔ عبداللہ نے اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس طرح آپس میں پھنسائیں کہ انگلیاں ہتھیلیوں کے اندر ہی رہیں۔ اس کے بعد اس نے نوشا کو اٹھا کر میخ پر لٹکا دیا اور عین اس کے تلوئوں کے نیچے فرش پر دو میخیں گاڑ دیں جن کے نکیلے سرے اوپر اُبھرے ہوئے تھے۔‘‘ ۶؎
ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر نوشا، شامی اور راجہ نے سوچا کہ اگر اچھی زندگی بسر کرنی ہے تو پھر اس جگہ کو چھوڑنا ہی ہو گا۔ چنانچہ تینوں دوست کراچی روانہ ہو جاتے ہیں۔ شامی راستے ہی سے واپس لوٹ آتا ہے۔ نوشا اور راجہ کراچی پہنچ جاتے ہیں۔ کراچی ریلوے اسٹیشن پر ہی ایک دلال انہیں بہلا پھسلا کر چور گینگ کے سرغنہ شاہ جی کے پاس لے گیا۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ وہ جیسے ماحول اور لوگوں سے بچ کر یہاں آئے تھے ان سے بھی بدتر سے واسطہ پڑا۔شاہ جی نے پہلے باقاعدہ ان کی جیب کترنے کی تربیت دی۔ آہستہ آہستہ وہ اس ہنر میں ماہر طاق ہو گئے۔ بعد میں ان سے مخبری کاکام بھی لیا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک بار پکڑے گئے اور ایک برس جیل کی سزا ہوئی۔ شوکت صدیقی نے ناول میں جیل خانوں سے جو احوال بتائے ہیں اس سے باور ہوتا ہے کہ جیل خانہ اصلاح کرنے یا احساسِ جرم کو بیدار کرنے کی جگہ نہیں بلکہ قاری مجرم تیار کرنے کے تربیت گاہیں ہیں۔ نوشا اور راجہ نے یہاں تلخ ایام گزارے۔ راجہ جیل خانے میں ہی کوڑھ کا مریض ہو گیا اور دنیا سے بے خبر ہو گیا جب کہ نوشا نے واپسی کا رختِ سفر باندھا۔واپس آ کر نوشا کو جب حالات و واقعات کا علم ہوا وہ جذباتی ہو کر نیاز کے گھر گیا اور اسے قتل کر دیا یہاں آتے ہی اسے پھر جیل ہو گئی۔ عدالت نے اسے چودہ برس کی قید با مشقت سنائی کہ استدعا یہ تھی:
’’مجھے پھانسی دے دو۔‘‘
’’مجھے گولی مار دو۔‘‘
’’میں زندہ رہنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’میں اب جینا نہیں چاہتا۔‘‘
’’خدا کے لیے مجھے پھانسی دے دو۔‘‘
’’جج صاحب! اللہ کے لئے مجھے پھانسی دے دو!‘‘
نوشا ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ وہ پہلی بار جیل گیا تب وہ صرف سال بھر کے لئے جیل گیا تھا۔ اب اسے چودہ سال کی سزا ملی تھی۔ چودہ سال کی طویل مدت میں وہ زیادہ بڑا اور خطرناک جرائم پیشہ بن سکتا تھا مگر وہ جرائم پیشہ بننا نہیں چاہتا تھا۔ اس زندگی سے موت بہتر تھی۔‘‘ ۷؎
چنانچہ غربت و افلاس کی ظلمت میں آنکھ کھولنے والے بچے نوشا، راجہ، شامی اور انور جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ بہت جلد جیل چلے جاتے ہیں یا فٹ پاتھوں نشے کی حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑے دکھائی دیتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے ’’خدا کی بستی‘‘ میں جس دوسرے طبقے کی مظلومیت کی عکس کشی کی ہے وہ خواتین کا طبقہ ہے۔ ناول میں اس طبقہ کی نمائندہ ’’رضیہ اور سلطانہ‘‘ ہیں۔ یہ دونوں ماں بیٹی ہیں۔ سلطانہ مظلومیت کا سمبل ہے۔ یہ ناول کی ہیروئن بھی ہے۔ رضیہ بیوہ خاتون ہے، تین بچوں کی ماں ہے۔ بیڑیاں تیار کر کے بچوں کا پیٹ پالتی ہے۔ کرائے کے مکان میں رہتی ہے۔ عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے جتن کرتی رہتی ہے مگر قسمت کہیں یاوری ٹیکے لگواتا ہے تاکہ جلد رقم کرتی۔ ایک بچہ دور کراچی چلا جاتا ہے۔ دوسرے کو بھی تعلیم نہیں دلوا سکتی۔ بیٹی بھی ماں کے ساتھ گھر کے کام کاج کرتی ہے۔ تنگ دستی اور بے کسی بے یارومددگار کر دیتی ہے۔ نیاز کباڑیے سے اسے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے شادی کرتی ہے مگر وہ اس کی بیٹی کو حاصل کرنے کے لئے رقم ہتھیانے کے لئے زہر کے ٹیکے لگواتا ہے۔ اس کی منزل رضیہ کی بیٹی ہے چنانچہ وہ اس کا بیمہ کرواتا ہے پھر زہر حاصل ہو۔ رضیہ اپنی بگڑتی ہوئی صحت کو دیکھتے ہوئے بسیار کوشش کی کہ اس کی بیٹی کی شادی ہو جائے مگر ناکام رہی۔ بالآخر زہر کا مقابلہ کرتے کرتے مر گئی۔ عبداللہ جاوید نے سلطانہ کی ماں کے کردار کی تخلیق میں انسانیت کے درد کی آمیزش کچھ اس طرح کی ہے کہ شاید ’’ڈکنس‘‘ کے علاوہ اوروں کے ہاں نہ مل سکے۔ ۸؎ ادھر سلطانہ وہ بدنصیب لڑکی ہے جسے پوری زندگی میں کوئی مسرت نصیب نہ ہوئی۔ بچپن میں ہی ماں کے ساتھ مل کر مزدوری کرنے لگی۔ جوان ہوئی تو ماں درد ناک حالت میں اس کی آنکھوں کے سامنے مر گئی۔ سلمان سے محبت کی، اس میں بھی ناکام رہی۔ پھر سوتیلے باپ کی ہوس کا نشانہ بنی۔ اس کی ناجائز اولاد کی ماں بنی۔ ایک بھائی کراچی چلا گیا، دوسرے پر سوتیلے باپ نے ظلم و ستم کے دریا بہا دیئے نے اپنی جان بچانے کے لئے گھر سے بھاگ گیا۔ وہ پہلے ہم جنس پرستوں کے ہتھے چڑھا پھر ہیجڑوں کے ساتھ رہنے لگا اور خود بھی ہیجڑا بن گیا۔ نوشا واپس آیا تو اس نے نیاز کو قتل کر دیا۔ اس کی بہن بیوہ ہو گئی۔ آخر اسکائی لارک تنظیم نے سہارا دیا۔ اس کو ایک ٹھکانہ میسر آیا۔ نوشا بھائی کو چودہ برس قید بامشقت ہو گئی۔
یہ ہے مظلوم طبقوں کی کتھا۔ شوکت صدیقی نے ظلم و تشدد اور بربربیت کی جو فضا اس ناول میں دکھائی گئی ہے اس کا مقصود اس نظام مملکت کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جہاں جابر و حاکم کے لیے کوئی قانون، قاعدہ نہیں ہے جب کہ غریب کو ہر جگہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی پناہ میں بنایا گیا ماحول ہے جہاں غریب، غریب تر ہوتا جاتاہے۔ معاشرے میں اس کو کہیں امید کی کرن نظر نہیں آتی۔
جانگلوس:
یہ شوکت صدیقی کا دوسر ابڑا ناول ہے۔ اس ناول کا زمانہ تخلیق ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۴ء تک ہے۔ ابتدا میں ایک ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ کراچی میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ بعد میں کتابی شکل میں چھپا۔ یہ ناول تین جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد ۱۹۸۶ء میں شائع ہوئی۔ دوسری جلد ۱۹۸۹ء اور تیسری جلد ۱۹۹۴ء کو منصہ شہود پر آئی۔
اس ناول کا موضوع بھی مظلوم طبقوں کی بے بسی کا بیان ہے۔ ڈاکٹر میاں مشتاق احمد نے الفاظ میں :
’’یہ ناول استحصالی قوتوں کی قلعی کھولتا ہے خاص طور پر جاگیرداری نظام کی، جو جنوبی پنجاب میں اپنی جڑیں رکھتا ہے۔ اس میں غریب اور محروم طبقے کی حمایت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور امیر طبقے کی ظاہری صورت کے اندر مخفی و پنہاں گھنائونی شخصیات کو عریاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘۹؎
اس ناول کا لینڈا سکیپ صوبہ پنجاب ہے۔ یہ واحد ناول ہے جس میں پورے ملک کی تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی، اقتصادی صورتِ حال کو مجموعی طور پر منعکس کرنے کی بجائے ہر علاقے کے انفرادی رحجانات کو عیاں کیا گیا ہے۔
شوکت صدیقی نے اس ناول میں مجرموں اور مظلوموں کی داستان سنائی ہے۔ یہ ناول قصہ در قصہ تکنیک یعنی مرکب پلاٹ پر مشتمل ہے۔ دو مرکزی کرداروں لالی اور رحیم داد کی مدد سے صوبہ پنجاب کی صورتِ حال کو منعکس کیا ہے۔ ان قصص کے بیانیے میں جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں ، غریب کسانوں کا استحصال، اعلیٰ افسران کی بدعنوانیاں اور عورت کی کسمپرسی کو ہو بہو عیاں کیا ہے۔ یہ ناول سفاک حقیقت نگاری کامظہر بھی ہے۔ ناول نگار نے ان پری چہرہ لوگوں کے گھنائونے اور سفاک روپ دکھائے ہیں جو عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ لالچ، خود غرضی، ہوس کاری کا نشانہ کمزور لوگوں کو بناتے ہیں۔ اپنے تمام گناہوں کا ملبہ غریبوں پر ڈال دیتے ہیں۔ وہ بے گناہ اُن کے حصے کی سزائیں کاٹتے ہیں۔
ناول کے دو مرکزی کردار لالی اور رحیم داد بظاہر دو مجرم کردار ہیں جو جرم کی پاداش میں جیل میں بند تھے۔ پھر قید خانے سے فرار ہو کر مختلف علاقوں سے چھپتے پھرتے تھے۔ اگر ان دونوں کرداروں کی سیرت کا مشاہدہ کیا جائے تو یقین واثق ہو جاتا ہے کہ یہ مجرم نہیں بلکہ مظلوم ہیں۔ یہ جرم کرتے نہیں بلکہ ان سے کروایا جاتاہے۔ یہ مجبور محض ہیں۔ لالی پیشہ کے اعتبار سے چور ہے۔ اس کی گزر اوقات کا یہی ذریعہ ہے۔ اکیلا نوجوان ہے اور قطعی نادار ہے۔ نہ مال و متاع،نہ شجرہ و نسب، نہ جورو، نہ اولاد، نہ ماں ، نہ باپ، گویا ناداری کی حتمی مثال ہے۔ ۱۰؎ جب کہ زندہ دلی، صاف گوئی، ایمان داری، وفا شعاری، صلح رحمی، حب الوطنی اور بے باکی کی اس کی ذات کی ایسی صفات ہیں جو اسے اعلیٰ اوصاف کا حامل انسان قرار دیتی ہیں۔ وہ پورے قصے میں اپنے لئے نہیں دوسروں کے لیے جنگ لڑتا نظر آتا ہے۔ اکثر اوقات مشکل حالات کا سامنا کرتا ہے۔ مثلاً رحیم داد کی جیل کی وردی تبدیل کرانے کے لئے وہ کئی مہمات سر کرتا ہے۔ مثلاً شاداں کے گھر سے جاتے ہوئے نمبردار کی گولی نشانہ بنتا ہے۔ اسی طرح پولیس مقابلے میں بڑی مشکل سے جان بچاتاہے۔ پھر حیات وٹو کو بیوی کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے دیکھ کر اس کی پٹائی کر دیتا ہے بلکہ جہاں بھی استبداد دیکھتا ہے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ظلم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔ ناصرہ ہو یا زرینہ، سرداراں ہو یا بختاور اُن تمام مظلوموں کے لئے جان پر کھیل سکتا ہے۔ ۱۱؎ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے لالی کا ایک وسیلہ سا معلوم ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی ڈرامے کا سین ہو جہاں ڈراما نگار مختلف مناظر عکس بند کرتاہے۔ اسی طرح لالی بھی ہر قصے میں آتا ہے اور ان جاگیرداروں ، وڈیروں کی بدعنوانیاں عیاں کرتا ہے۔
سب سے پہلے شوکت صدیقی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قلعی کھولی ہے کہ یہ معاشرے میں عوام کو تحفظ اور عدل فراہم نہیں کرتے بلکہ جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔ جرائم پیشہ گروہ قانون نافذ کرنے والوں کی پناہ میں ڈاکازنی عام ہے اور پھر افیون اور چرس کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ لالی کا ایک دوست اشرف اپنے گھنائونے کاروبار کے متعلق بتاتا ہے:
’’مخبر نے تو لاکھ روپے سے اوپر کی اطلاع دی تھی۔ مال زیادہ بھی ہو سکتاہے۔ کیش کے علاوہ جڑائو زیوارت میں۔ ‘‘ اس نے سوٹ کیس کا ہینڈل پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا، اپنا سنڈیکیٹ چھوٹا شکار نہیں مارتا۔‘‘
لالی مرعوب ہوکر بولا: ’’یار! یہ تو بہت اونچا چکر جان پڑتا ہے، پر خطرناک بھی اتنا ہی ہے: کوئی خطرناک شترناک نہیں ‘‘ اشرف نے ہنس کر بتایا۔ مہینے سوا مہینے میں صرف ایک بار نکلتے ہیں اور تگڑا شکار مارتے ہیں ، اکیلئے نہیں کھاتے، مل بانٹ کے کھاتے ہیں۔ اوپر سے نیچے سب کا حصہ بندھا ہے۔‘‘ ۱۲؎
شوکت صدیقی نے اس ناول میں جاگیردارانہ نظام کے نقائص بڑی ہنرمندی سے عیاں کیے ہیں۔ جاگیردار غریب کسانوں ، مزارعوں کا استحصال کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے اس طبقہ کی ہوس کے اور روپ بھی دکھائے ہیں۔ مثلاً یہ طبقہ جائیداد حاصل کرنے کے لئے اپنے بھائیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دیتا ہے اور اسمبلیوں میں سیٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی غیرت و ناموس بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ محمد حیات وٹو ایک ایسا ہی کردار ہے۔ یہ ایک بڑا زمین دار ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے زمینیں حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے گھر کے تہہ خانے میں بند کر رکھا تھا۔ وہ اسے زہر پاگل خانے والے ٹیکے لگواتا ہے۔ اسے زنجیروں سے باندھے رکھتا ہے۔ لالی کو پتہ چل جاتا ہے کہ حیات وٹو جائیداد کے کاغذات پر دستخط کروانے کے لیے اپنے بھائی پر ظلم کر رہا ہے۔ وہ اسے قتل کرنے کا کہتا ہے مگر لالی اُسے قتل کرنے کے بجائے بچا لیتا ہے۔ محمد حیات اُسے دھمکی دیتا ہے کہ:
’’اس تہہ خانے میں پچھلے چند مہینوں میں تین لاشیں دبائی جا چکی ہیں۔ یہ بات شاید اس نے بھی تجھے بتائی ہو گی۔ میں چاہتا ہوں چوتھی لاش تیری نہ ہو…… اس نے قریب بیٹھے ہوئے اپنے ایشن کی طرف اشارہ کیا۔ اسے جب دوسرا انجکشن لگایا جاتاہے تو …… یہ تیندوا بن جاتا ہے، خونخوار ہو کر جس پر جھپٹتا ہے، اسے چیر پھاڑ کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتا ہے۔‘‘ ۱۳؎
محمد حیات کا گھنائونا پن یہیں ختم نہیں ہوتا۔ وہ فائدے کے حصول کے لیے اپنی بیوی ناصرہ کو بھی ترقی کے زینے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ان جاگیرداروں کے ہاں بیویوں کے حیثیت بھی ایک کھلونے یا آلہ کار کی سی ہوتی ہے۔ وہ ان کے احساسات و جذبات کی بھی کوئی قدر نہیں کرتے۔ ان کے ہاں صرف اسمبلی کی سیٹ اہم ہے جس کے وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ گھر میں ایک پارٹی کا انعقاد کرتا ہے۔ اپنی بیوی کو یوں بہلاتا پھسلاتا ہے:ـ
’’فضول باتیں نہ کرو‘‘ اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔ تم دو تین روز یہاں رہو گی اور پارٹی میں بھی شریک ہو گی‘‘ اس نے قدرے تامل کیا، پھر ناصرہ کے ہونٹ چوم کر بولا ’’ناصرہ میری جان! مجھے یہ کام ضرور کرنا ہے اور تم اس میں میری مدد کرو گی یوں سمجھ لو وہ وزیر بن گیا تو حکومت میں اپنی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گا، جو چاہوں گا، حکومت سے کرا لوں گا۔ کیا سمجھیں ؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور ناصرہ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا۔‘‘ ۱۴؎
محمد حیات وٹو جاگیردارانہ طبقہ کے لوگوں کی علامت ہے جو بظاہر تہذیب یافتہ جب کہ بباطن متعفن اور گھنائونا شخص ہے۔ بقول میاں مشتاق احمد:
’’اس کردار کے ذریعے مصنف نے جاگیرداروں کی ظاہری تابناکی کے اندر رچی بسی بساند کو پیش کیا ہے اور ظاہری نفاست و شائستگی اور باطنی خباثت کی پردہ داری کر کے حقیقت زمانے کے سامنے عریاں کی ہے۔‘‘ ۱۵؎
حیات محمد وٹو کے قصہ میں اُس کا بڑا بھائی محمد ریاض وٹو، اس کی بیوی ناصرہ اور لالی جیسے مظلوم کردار سامنے آتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے اس ناول میں بیورو کریٹ طبقہ کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ یہ طبقہ بھی بدعنوانیوں میں کسی سے کم نہیں۔ حالات کیسے بھی ہیوں وہ اپنی عیاشیوں میں کوئی کمی گوارا نہیں کرتا۔ یہ تمام اعلیٰ عہدوں پر سرکاری افسران ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں غیر اسلامی اقدامات کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ افسران پولی نیشن کلب میں ایک رات ’’نائٹ آف دی گریٹ سسپنس‘‘ مناتے ہیں۔ ان کے عیاشیاں عوام پر ظلم کرنے کے مترادف ہیں۔ لالی کو اوور سیر ہمدانی نے نائٹ کلب کا ائمپائر بنایا۔ چنانچہ لالی اس کلب کی منفرد خصوصیت جان کر چونک جاتا ہے۔ اس کلب کی نمایاں خصوصیت لوگ اپنی جنسی تسکین اور طریقہ کار یہ ہیں۔
’’یہاں کوئی مرد کسی کا شوہر اور کوئی عورت کسی کی بیوی نہیں ہوتی، صرف رات بھر کے لئے‘‘ نوشابہ نے ہلکا قہقہہ لگایا ’’جب ایک سا کھانا کھاتے کھاتے اور ایک سا لباس پہنتے پہنتے طبیعت اُکتا سکتی ہے تو ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے رہتے بھی طبیعت اُکتا سکتی ہے۔ وہ کچھ ٹھہری، چھپ کر گناہ کرنے سے کیا یہ اچھا نہیں کہ گناہ، زندگی کی ایک ضرورت سمجھ کر کیا جائے۔ اس میں کتنا رومانس ہے، کتنا مزا ہے۔‘‘ ۱۶؎
یہ سرکاری افسران اپنی ذاتی خوشیوں میں اتنے منہمک ہوتے ہیں کہ عوام کا دکھ درد انہیں نظر ہی نہیں آتا۔ ناول نگارنے پر یہاں ٹرین حادثہ کا درج کر کے اس طبقہ کے احساسِ ذمہ داری کی جھلک دکھائی ہے۔ اس رات ایک ٹرین حادثہ پیش آتاہے کہ ملازم ایس۔ ایس۔ پی کو حادثے کی اطلاع دیتا ہے۔ ایس پی پر اس حادثہ کا مطلق اثر نہیں ہوتا اور ملازمین کو سختی سے تاکید کرتا ہے کہ اب کوئی فون نہ سنیں اور نہ ہی مجھے کچھ بتائیں۔ یہ ہے اس ملک کی عوام کی مظلومیت!
شوکت صدیقی نے ناول میں جگہ جگہ عوام کی غربت کے نقشے کھینچے ہیں۔ لوگ کس طرح ان لٹیروں کے ہاتھ اپنے آپ کو گروی رکھنے پر مجبور ہیں۔ بھٹہ مزدور اس کی ایک روشن مثال ہیں۔ علی احمد کھوکھر ایک بھٹہ کا مالک ہے۔ وہ مزدوروں کا ہر طرح استحصال کرتا ہے مزدوروں کے احتجاج کرنے یا عدم توجہی پر وہ ان کو عبرت ناک سزائیں دیتا ہے۔ اس ملک میں لاقانونیت کا یہ حال ہے کہ اس نے اپنی جیل بنا رکھی ہے جہاں مزدوروں کو اپنی من مرضی کی سزائیں دیتا ہے اور جتنا عرصہ چاہے قید رکھتا ہے۔ یہ غریب احتجاج کا حق بھی نہیں رکھتے۔ نہ ہی جیل سے بھاگ سکتے ہیں کیوں کہ ایسی حرکات کا انجام دیکھتے رہتے ہیں۔
’’دو نے ایسی کوشش کی تھی۔ ان میں سے ایک تو بھاگتے ہوئے راکھوں کی گولیوں سے مارا گیا۔ دوسرا نکل گیا۔ مگر راکھے بعد میں اسے پکڑ لائے اور گولی مار کر اس کا بھی خون کر دیا جو بھی راکھوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے، اسے مکر اٹھی سے کچھ دور گڑھا کھود کر دبا دیتے ہیں نہ اس پر کفن ڈالا جاتا ہے نہ اسے نہلایا جاتاہے۔ رات کے اندھیرے میں چپ چاپ زمین میں گاڑھ دیتے ہیں۔ میرے سامنے تین قیدی مارے گئے۔‘‘ ۱۷؎
یہ ناول جرم و تشدد کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ لالی ہمیں ایسے ہی واقعات سے آگاہ کرتاہے جو اس ملک میں عوام کی کسمپرسی، ناداری، خستہ حالی کا ثبوت ہیں۔ اس ناول میں خواتین کی مظلومیت کی بھی سفاک تصویریں دکھائی گئی ہیں۔ عورت چاہے مقتدر طبقہ کی ہو یا ادنیٰ طبقہ کی، وہ مظلوم ہی ہے۔ جانگلوس میں شاداں ، ناصرہ، طاہرہ، زرینہ، جمیلہ یا پاروتی۔ یہ ہر جگہ بے بس ہیں۔ کہیں خاندان کی ناموس کی خاطر چپ ہیں اور کہیں شوہر کی بربریت نے ان کی زبانوں پر تالے لگا دیئے ہیں۔ ناصرہ اور زرینہ جیسی جاگیردار طبقہ کی فرد ہونے کے باوجود مجبور ہو کر اپنا استحصال کرواتی ہیں۔ اسی طرح شاداں اور طاہرہ کی غربت ان کی بے بسی کی دلیل ہیں۔ مجموعی طور پر اس ناول کی شوکت صدیقی نے مقتدر طبقوں کی ظلم و بربریت عیاں کر کے مظلوموں کی حالت زار بیان کرنے کی سعی کی ہے۔
’’خدا کی بستی‘‘ کا زمانہ تخلیق پچاس کی دہائی کا ہے اور ’’جانگلوس‘‘ اس کے تقریباً پینتیس برس بعد کی تخلیق ہے۔ سو مصنف نے جس صورتِ حال کی ’’خدا کی بستی‘‘ میں نشان دہی کی ہے ’’جانگلوس‘‘ اس کی توسیع ہے۔ یہ دونوں ناول اس ملک خداداد کی شہری اور دیہی معاشرے کی صورتِ حال کی عکس کشی کرتے ہیں۔ ہم اس جائزے سے یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ کی تشکیل کے ابتدائی برسوں میں جو اونچے طبقوں کی خصائص عیاں ہوئیں وہ چالیس برسوں بعد میں نہیں بدلیں۔ پاکستان مظلوم طبقات کی مخدوش حالت نہ گفتہ بہ ہے۔
حوالہ جات
۱۔ رئوف پاریکھ، ڈاکٹر، اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، کراچی: انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۹۵ء ، ص۱
- Encyclopedia of American (vol: 8) Corot to Desdemona Grolier incoporated (1986) P: 216
۳۔ مشتاق احمد وانی، ڈاکٹر، قیامِ پاکستان کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، … ۲۰۰۷ ص ۱۶
۴۔ نیر احمد: شوکت صدیقی سے گفتگو، مشمولہ ماہنامہ ادب لطیف، لاہور، جلد ۵۴، شمارہ ۵۔ ۶، مئی، جون ۱۹۹۸ئ، ص ۸
۵۔ شوکت صدیقی ، خدا کی بستی، کراچی: کتاب پبلی کیشنز، ۲۰۱۵ئ، ص ۳۳
۶۔ ایضاً، ص ۸۰
۷۔ ایضاً، ص ۴۷۹
۸۔ عبداللہ جاوید، ’’خدا کی بستی‘‘ مشمولہ ’’شوکت صدیقی افکار و شخصیت‘‘، کراچی: کتاب پبلی کیشنز، ۲۰۱۴ئ، ص ۱۹۴
۹۔ میاں مشتاق احمد، ڈاکٹر: ’’جانگلوس کا تنقیدی مطالعہ‘‘ مشمولہ ’’شوکت صدیقی افکار و شخصیت‘‘، ص ۲۹۳
۱۰۔ محمد عارف، ڈاکٹر، اردو ناول اور آزادی کے تصورات (طبع دوم)، لاہور: کوآپریٹو سوسائٹی، ۲۰۱۱ئ، ص ۱۸۸
۱۱۔ میاں مشتاق احمد، ڈاکٹر، ’’جانگلوس کاتنقیدی مطالعہ‘‘ مشمولہ ’’شوکت صدیقی افکار و شخصیت‘‘، ص ۳۰۱
۱۲۔ شوکت صدیقی، جانگلوس (جلد اول)، کراچی: کتاب پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ئ، ص ۲۹۷
۱۳۔ ایضاً، ص ۳۳۵
۱۴۔ ایضاً، ص ۱۸۳
۱۵۔ میاں مشتاق احمد، ڈاکٹر، ’’جانگلوس کا تنقیدی مطالعہ‘‘ مشمولہ ’’شوکت صدیقی افکار و شخصیت‘‘، ص ۳۰۳
۱۶۔ شوکت صدیقی، جانگلوس (جلد اول) ، ص ۳۰۹
۱۷۔ ایضاً، ص ۳۴۳
Leave a Reply
Be the First to Comment!