داستان’’طلسمِ حیرت‘‘؛مابعد الطبیعیاتی مطالعہ
ABSTRACT:
Metaphysics is the Universal fact which is deep rooted in human civilization.Social sciences are based on metaphysics and literature generates from society.So is the way that literature and metaphysics co-incide.In Urdu literature, such Tales, which have been heared and read from centuries, are replete with metaphysics.This article argues on the metaphysical elements in
Urdu Tale”Tilsm-e-Hairat”.
’’طلسمِ حیرت‘‘محمد جعفر علی شیون کا کوری کی تالیف ہے۔شیون شاعرتھے اور شاعری میں محی الدین خان ذوق کاکوروی کے شاگرد تھے جب کہ نثر میں جیسا کہ خود لکھا ہے مرزا رجب علی بیگ سرور سے شرفِ تلمذرکھتے تھے۔شیون نے ’’طلسمِ حیرت‘‘ ۱۲۸۹ھ بمطابق ۱۸۷۲ء تالیف کی اور اِس کی پہلی طباعت ۱۲۹۰ھ بمطابق ۱۸۷۳ء ہوئی۔(۱) اِس کے سبب ِتالیف میں جعفر علی شیون نے اپنے دوست ظرافت پیماجگت آشنا محمد اکرام علی خان صاحب حسرت کا ذکر کر کے بتایا ہے کہ حسرت نے انھیں آذرشاہ کو کب ہند کی حکایت اپنے انداز میں دوبارہ لکھنے کی ترغیب دی جسے اُن کے استاد رجب علی بیگ سرور ’’شگوفۂ محبت‘‘ کے نام سے پہلے لکھ چکے تھے۔ شیون نے اپنے خواب اور دیوانِ حافظ سے ملنے والی فال کا ذکر کر کے اپنی تحریر کو الہامی رنگ دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ اسی وقت بعنایت ِ ایزدی طبیعت نےوقتاً فوقتاً ایسی قوت پائی کہ تھوڑی عرصے میں کہانی کہہ سنائی بسکہ عالمِ تحیر مین اس کا انصرام ہوا اس لیے طلسم حیرت افسانہ کا نام ہوا‘‘۔ (۲)
’’طلسمِ حیرت’‘ لکھنؤ اور دہلی کے لسانی تنازعے کی آخری کڑی ہے جس کا آغاز شیون کے اُستاد رجب علی بیگ سرور نے کیا تھا۔سرور نے ’’فسانہ عجائب‘‘ کی تمہید میں میر امن پر کچھ اعتراضات کیے اور امن نے ’’باغ وبہار‘‘ کے دیباچے جو ’’دلی کا روڑا’‘ہونے پر اظہارِ فخر کیا ہے اُسے نشانۂ تضحیک بنایا۔اِس کے بعدفخر الدین حسین سخن نے ’’سروشِ سخن‘‘ تصنیف کی تو اس کے دیباچے میں ان اعتراضات کا جواب دیا جو سرور نے کیے تھے اور کسرِ نفسی کا اظہار کرتے ہوئے سرور پر خوب چوٹیں بھی کیں۔انداز ملاحظہ ہو:
’’مرزا صاحب یگانہ ہیں ؛وہ موجد ہیں، ہم مقلد ہیں ؛فرق اِس قدر کہ ہم کم سن اور مرزا صاحب پرانے آدمی، ضعیف۔پھر کہاں اُن کی تالیف اور کہاں ہماری تصنیف! ہم نوجوان، وہ صد باراں دیدہ؛سنجیدہ و فہمیدہ، پیرکہن؛پھر کہاں فسانۂ عجائب اور کہاں سروشِ سخن۔۔۔مگر صاحب موصوف نے جو اپنی تالیف میں بے چارے میر امن دہلوی کو بنایا ہے، اپنی زبان کی تیزی سے اس صاف گو کو ایک آدھ کڑا فقرہ سنا یا ہے، تو ہم بھی اب کہتے ہیں کہ سرور لکھنؤی نے اٹھارہ مرتبہ فسانۂ عجائب کو درست کیا۔‘‘(۳)
’’طلسمِ حیرت‘‘ میں شیون کا کوروی نے ان باتوں کا سخت جواب دیا۔اہلِ دہلی کے خوب لتے لیے اور فخر الدین حسین سخن کے ساتھ ساتھ مرزا غالب پر بھی خوب چوٹ کی۔یوں طعن و تشنیع کا یہ سلسلہ اس دور تک چلتا ہے اور ’’طلسمِ حیرت‘‘کی شہرت کا سبب بھی یہی ہے۔وگرنہ کہانی اور زبان و بیان کے اعتبار سے محققین نے اِسے ناقص داستان قرار دیاہے ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں:
’’طلسمِ حیرت قصے کے لحاظ سے دِل کش نہیں۔ کردار نگاری کی خوبیوں سے معرا ہے۔عمدہ بیانات نہیں۔ بس لے دے کے جو کچھ ہے وہ ضلع جگت ہے۔ اِن کی اُستادی اور مشاقی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔لیکن اِس ترصیع کے باوجود یا اِس کی بدولت داستان جسدِ بے روح ہوگئی ہے۔قصے سے کہیں جذبات کو تحریک نہیں ہوتی۔اِس کا نام اگر لیا جاتا ہے تو محض سرور اور امن کے معرکے کی وجہ سے۔‘‘(۴)
پروفیسر سید وقار عظیم کو بھی شیون کی ضلع جگت اور رعایت لفظی خوب کھٹکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ طلسمِ حیرت کے مصنف میں کمزوریاں ہیں۔ ایک تو اُسے بات اختصار سے کرنی نہیں آتی اور دوسرے وہ سیدھا راستہ چلنا نہیں جانتا۔چھوٹی بات کو بلاضرورت پھیلاتا ہے اور سیدھی سی بات کو پیچیدہ بنا کر کہتا ہے اور اِن دونوں میں لفظی رعایتوں کا ایسا التزام رکھتا ہے کہ باید و شاید۔‘‘(۵)
ڈاکٹر سہیل بخاری (۶)اور آرزو چودھری (۷) کے نزدیک بھی یہ داستان اپنے طرز، قصہ پن اور زبان و بیان کے اعتبار سے کسی خاص مقام کی حامل نہیں مگر ڈاکٹر جمیل جالبی اِن تمام آراء کے برعکس شیون کے اِس طرزِ اظہار کو سراہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِس داستان کی شہرت کا سبب بھی اِس کا یہ انداز ِ بیان ہے جس نے شاعرانہ تہذیب کے زیرِ اثر جنم لیا۔وہ کچھ یوں رقم طراز ہیں:
’’یہ تہذیب جس کے زیر اثر ’’طلسم حیرت‘‘ لکھی گئی ہے حقیقت سے دور، شاعری کی تہذیب تھی۔ شاعرانہ طرز ِفکراس کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا۔ رعایت ِلفظی، صنائع بدائع کا استعمال اور ضلع جگت کازور اس کے مزاج کا حصہ تھے۔ اس تہذیب کی یہ ساری خصوصیات پوری شدت کے ساتھ طلسم حیرت کی رعایت و ضلع جگت سے بھری استعاراتی نثر میں موجود ہیں جن سے اس کی ایک ایک سطر کو شعوری طور پر سجایا گیاہے۔ یہ بہت محنت طلب اور جان لیوا کام تھا لیکن شیون نے اس رنگ کو اس قصے میں پوری طرح قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (۸)
یوں ’’طلسمِ حیرت‘‘ وہ داستان ہے جو ایک ادبی تنازعے کے تحت تالیف ہوئی۔ اُس تنازعے کے حوالے سے آخری کڑی ثابت ہوئی مگر اپنے ادبی مقام ومرتبہ کے لیے ابھی تک متنازعہ ہے۔
اِس داستان کا خلاصہ مختصر یوں ہے کہ مصر کے بادشاہ سکندر بخت کی بیٹی نگار ارم کو مچھلیوں کے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک دن وہ اپنی وزیر زادی کے ساتھ شکار پر نکلی تو بھٹک کر ایک باؤلی میں جاپہنچی جہاں موجود ایک خوبصورت عمار ت میں داخل ہوئی تو دیوار پر آویزاں ایک تصویر دیکھ کر اُس کے عشق میں مبتلا ہوگئی۔اِسی دوران میں ناہید پری زاد اپنی کنیزوں کے ساتھ اُتری اور اُس تصویر کو سینے سے لگا کر آہ و زاری کرنے لگی۔شہزادی کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ یہ حیدر آباد کے شہزادے نگار عالم کی تصویر ہے جسے جنوں نے اغوا کرلیا ہے۔ناہید اپنے عشق کی داستان سناتے ہوئے اتنا روئی کہ جان دے دی۔ایک غیبی آواز نے اُسے دفن کرنے سے منع کیا تو اُس کی لاش کو صندوق میں بند کرکے نگار ارم اپنی وزیر زادی اور ناہید کی بہن کو ساتھ لے کر مردانہ بھیس میں شہزادے کی تلاش پر روانہ ہوئی۔یہ تینوں تیس ہزار کو س کا سفر کرکے شاہ جہاں آباد ایک شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے جو سال میں دو بار دربار لگاتے تھے اور سائلین کی مشکل کشائی کرتے تھے۔یہ تینوں حاضر ہوئیں تو شاہ صاحب نے انھیں شاہ جن کے سپرد کردیا جو انھیں پرستان لے گیا۔پرستان پہنچتے ہی شہزادی نگار ارم کو حکیم بلینا س اُٹھا لے گیا۔اتفاقاً اُسی شب نگار عالم کا وہاں سے گزر ہوا تو وزیر زادی جو مردانہ بھیس میں تھی اسے ساتھ لے کر شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
شاہ صاحب نے شہزادے نگار عالم کو شہزادی نگار ارم کی داستان سنائی اور اُس کی قید کا تذکرہ کرتے ہوئے وصال کی خوش خبری بھی دی۔شہزادے نے شاہ صاحب سے شہزادی کی تلاش پر روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو شاہ صاحب کے حکم سے پرطاس نامی جن اُسے ایک صحرا میں چھوڑ آیا۔دشت گردی کرتے ہوئے شہزادہ شاہ قمرالملک کے شہر جا پہنچا جہاں اُس کی ملاقات ملکہ شب افروز سے ہوئی جس نے اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ شہزادہ یہاں سے نکل کر دشتِ آہن پہنچا وہاں اُس کا مقابلہ لہاک آہن گر سے ہوا جسے شہزادے نے ہلاک کردیا اور ایک پیر مرد کے ذریعے مصر جا پہنچا۔ مصر کے ناہید باغ میں اُس نے ناہید پری کا تابوت دیکھا اور شہزادی کی تلاش کے لیے روانہ ہوا۔اثنائے سفر میں بہرام حرامی کے چنگل میں پھنس کر ٹھگوں کے شہر جانکلا جہاں کچھ عرصہ تک ٹھگوں کے سردار کی بیٹی سے فیض اُٹھاتا رہا۔پھر ایک اور شہر پہنچا جہاں ملکہ شب افروز نے دست درازی کرنے پر وزیر زادے کو قتل کردیا تھا، شہزادے نے اُسے عقوبت سے بچایا۔ پھر اُس کی ملاقات وزیر زادہ بہار عالم سے ہوئی جو اپنے باپ سے جھگڑ کر یہاں پہنچا تھا اور لاولد بادشاہ کا بیٹا بن کر تاج و تخت کا وارث ہوچکا تھا۔یہاں اُسے ملکہ شب افروز نے بتایا کہ وہ حقیقت میں وزیر زادی بہار ارم ہے جسے شاہ صاحب نے بادشاہ قمر الملک کے پا س بھیجا تھااور اُس نے اُسے بیٹی بنا لیا ہے۔
کچھ عرصہ وہاں قیام کرکے وہ سب شہزادی نگار ارم کی تلاش میں نکلے۔ صحرا میں اُن کی ملاقات تخت رواں پر نمودار ہونے والے ایک عمر رسیدہ شخص سے ہوئی جو شہزادی نگار ارم سے مل کر آیا تھا اور شہزادے کی تلاش میں نکلا تھا۔اُس شخص کی مدد سے یہ سب قلعہ بلیناس پہنچے اور پرطاس جن کی مدد سے فتح یاب ہوکر شہزادی نگار ارم کو لے کر شاہ صاحب کی خدمت میں شاہ جہاں آباد پہنچے۔شاہ صاحب کے کہنے پر حضرت شمس تبریز مجذوب نے ناہید پری زاد کو ٹھوکر ماری اور قم باِذن اللہ کہہ کر زندہ کردیا۔ نگار عالم کی شادی شہزادی نگار ارم اور ناہید پری زاد سے ہوئی جب کہ وزیر زادی بہار ارم وزیر زادے بہا ر عالم کے عقد میں دے دی گئی۔شاہ صاحب سے اجازت لے کر وہ سب نگار عالم کے ملک اقلیمِ ہند لوٹ گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
’’طلسمِ حیرت’‘اِسلامی مابعد الطبیعیات کے زیرِ اثر لکھی گئی داستان ہے۔جیسا کہ اِس کے داستان نگار نے لکھا ہے کہ اِس کی تالیف کا سبب خواب میں بشارت اور ایک بزرگ کی طرف سے کتاب سے نوازا جانا ہے۔داستان اِسلامی معاشرت میں رنگی ہوئی ہے تمام کردار مسلمان ہیں جو ذات ِواحد پر ایمان رکھتے ہیں۔ داستان نگار نے ابتدا ہی میں اپنا عقیدہ واضح کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعدنثر میں نبی اکرم ﷺ کی نعت لکھی ہے۔اظہارِ عجز کے بعد اِس بات کا اقرار بھی کیا ہے کہ اِس کتاب کی تالیف میں اعانتِ رب العلیٰ اور استعانتِ صاحبِ لولاک لما ﷺشامل ہیں۔ پھر ایک رباعی تحریر کی ہے جس میں نبی اکرم ﷺ سے فریادِ اعانت کی گئی ہے:
؎ ای صاحبِ لولاک لما خذ بیدی
دودان بسرم ریخت بلا خذ بیدی
فریاد رسے نیست کہ فریاد برم
فریاد رسا بہرِ خد اخذ بیدی(۹)
شیون نے نبی اکرمﷺ کے معجزات کا ذکر مخمس میں اور واقعہ معراج کو مسدس میں نظم بھی کیا ہے۔اِس کے بعد صحابۂ کرام ؓ اور ائمئہ طہار کی منقبت بیان کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیون اگرچہ مرزا رجب علی بیگ سرور کے شاگرد اور لکھنؤی تھے مگر سنی العقیدہ تھے اور اپنے مسلک کے اظہار میں پس و پیش نہیں کرتے تھے۔اُن کا اپنے مذہب و مسلک سے یہ لگاؤ پوری داستان میں نظر آتا ہے۔اُنہوں نے جہاں مختلف مقامات پر آیاتِ قرآنی کا اہتمام و التزام کیا ہے وہاں نعتِ سید العالمینﷺ اور منقبتِ اصحاب و اہلِ بیت کے بعد درود شریف بھی شاملِ کتاب کیا ہے۔پھر مخمس میں منظوم منقبت بعنوان’’عرضِ حاجت بدرگاہِ رب العزت باستعانت جناب محبوب سبحانی حضرت شیخ الشیوخ غوث الثقلین عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ و برکاتہٗ‘‘ (۱۰) شامل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیون کو تصوف سے خاص لگاؤ ہے اور وہ اہلِ تصوف سے عقید ت بھی رکھتے ہیں۔
اِس داستان میں وجودیات کے ضمن میں یہ نظریہ ملتا ہے کہ اِس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔تمام معاملات اُس کی حکمتِ بالغہ کے تحت سرانجام پاتے ہیں۔ کائنات کی تمام رنگینی اُسی کے اذن اور کرم سے ہے۔حیات و ممات اور تقدیرِ انسانی سب اُسی کی منشا کے تابع ہیں۔ خالقِ حقیقی کی جستجو اور لگن ہی انسان کا مقصدِ حیات ہونا چاہیے۔عشقِ مجازی اُس کے عشق کا راستہ ہے جہاں سے گزر کر اُس کی چاہت کا سفر شروع ہوتا ہے۔اُس کی راہ کے مسافر منازلِ سفر طے کرکے جب اُس کے قرب سے بہرہ مند ہوتے ہیں توکائنات اُن کے لیے مسخر کردی جاتی ہے اور انھیں کائناتی امور میں تصرف کی قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔ جو فرد اپنی ذات کو فنا کرکے راہِ عشق ِ حقیقی پر گامزن ہوجاتا ہے اُس کی زندگی کا مقصد مخلوقِ خدا کی خدمت قرار پاتا ہے۔ اِس داستان میں قرب ِ حقیقی کا مظہر عبد الرشید شاہ ہیں جو چھے ماہ بعد دیدار کراتے اور مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ جنات اُن کے تابع فرمان ہیں۔ اِسی طرح داستان کے آخر میں شمس تبریز مجذوب بھی اپنی خداداد روحانی طاقت کے سبب ناہید پری کو’’ قم باذن اللہ‘‘ کہہ کر زندہ کردیتے ہیں۔
’’طلسمِ حیرت‘‘ کا تصورِ کائنات دوسری داستانوں سے مشابہ ہے۔یہاں ایسا جہان آباد ہے جہاں جن، پریاں اور انسان ایک ساتھ زیست بسر کرتے نظر آتے ہیں۔ پریاں انسانوں پر عاشق ہوتی ہیں اور اُن کے لیے جان بھی دے دیتی ہیں۔ جن عورتوں پر عاشق ہوتے ہیں اور انھیں اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ غیبی آوازیں انسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں اور خدا رسیدہ لوگ غیب کی خبریں دیتے نظر آتے ہیں۔ پرندے بھی گفتگو کرتے ہیں اور غیب کی خبریں دیتے نظر آتے ہیں۔ تبھی تو نگار ارم ایک پرندے سے مخاطب ہوکر کہتی ہے:
’’اے طائرِ فرزانہ! خوش گو، نیک خو کچھ باتیں کرو جو دِل بہل جائے، رات کٹے جی سنبھل جائے، ورنہ مرغِ روح مجروح پھڑ پھڑا کے نکل جائے گا، قلب سلگتے سلگتے جل جائے گا۔‘‘(۱۱)
شہزادی نگار اِرم کی فرمائش پر مینا اُسے دو کہانیاں سناتی ہے جس میں انسانی نفسیات کے کچھ پہلوؤں سے عقدہ کشائی کی گئی ہے۔اِس کائنات میں طلسمات بھی ہیں مگر اُن میں اتنی جان نہیں جیسا کہ ’’داستان امیر حمزہ‘‘، ’’بوستانِ خیال‘‘ اور ’’آرائش ِ محفل‘‘ کے طلسمات میں ہے۔اِن طلسمات پر علمِ طب کے گہرے اثرات ہیں۔ داستان نگار نے طلسمی کرداروں کے نام تمثیلی طور پر طبی اصطلاحات سے لیے ہیں جن میں سے اکثر بیماریاں ہیں۔سفال، فالج، لقوہ، استسقائ، زکام، صندل جنگ بہادر، ہلیلہ سیاہ زنگی اور اسپٖغول وغیرہ سے شہزادے نگار عالم کا اکثر سامنا ہوتا ہے اور داستانوی روایت کے مطابق اِس مقابلے میں شہزادہ ہی کامران ٹھہرتا ہے۔
اِس داستان میں خیر و شر میں آویزش بھی نظر آتی ہے۔شہزادہ نگار عالم خیر کا نمائندہ ہے جو ہمیشہ سفر میں ہے۔اُس کو اغواکرنے والے جنات، حکیم بلیناس، لہاک آہن گر، بہرام حرامی اور اُس کی بیٹی شر کے نمائندے ہیں جو اُس کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ شہزادے کا کام خیر بانٹنا ہے۔ اِس سفر کے دوران میں جہاں وہ خود ارتقائی منازل طے کررہا ہے وہاں وہ دوسروں کے لیے سہارا بھی بنتا ہے۔جہاں کہیں کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے وہ بلاجھجک اپنی دانش و بینش سے اُس کی مدد کرتا ہے۔اگرچہ اِس ضمن میں کبھی کبھار وہ کسی نہ کسی مصیبت میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے مگر خیر خواہی کا وصف جو اُس کے کردار میں شامل ہے وہ اُسے ترک نہیں کرتا۔
داستان کی اِس کائنات میں کردار وں کاتقدیر پر پختہ ایمان نظر آتا ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کو تقدیر کا نام دے کراِ نسان خود کو مطمٔن کرنے کی کوشش کرتا ہے ایسا ہی شہزادی نگار ا رم کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ خود کردہ خطاؤں کے سبب حکیم بلیناس کی قید میں پھنس جاتی ہے تو اپنے نصیب کو دوش دیتی ہے۔فہمیدہ تبسم شہزادی کی اِس تقدیر پرستی پر یوں تبصرہ کرتی ہیں:
’’شہزادی کی دانش اپنی جگہ لیکن مقدر اور نوشتے پر یقین اِس عہد کے مخصوص مزاج کو ظاہر کرتا ہے جب اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر کام کے پیچھے تقدیر کا عکس دیکھا جاتا تھا۔شہزادی خود گھر سے نکلی، ایک انجان جگہ پر محوِ خواب ہوئی اور جب جن نے اُسے یرغمال بنا لیا تو اُسے قسمت کا لکھا سمجھ لیا۔‘‘(۱۲)
معاملاتِ عشق کے ضمن میں ’’طلسمِ حیرت‘‘، ’’فسانۂ عجائب‘‘ اور ’’سروشِ سخن‘‘ میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ اِس کے مرکزی کردار تصویر دیکھ کر عشق میں مبتلا ہوتے ہیں اور حصولِ محبوب کے لیے طویل سفر سر انجام دیتے ہیں۔ ’’طلسمِ حیرت‘‘ میں نظریۂ عشق کے حوالے سے تین طرح کے تصورات سامنے آتے ہیں۔ پہلا عشق ناہید پری کا ہے جواِس قدر سوختۂ جاں کہ شہزادے کی تصویر دیکھتے ہی آہ و زاری شروع کردیتی ہے: ’’وہ حور راحت سے دور، نزدیک آتے ہی مثلِ ماہی کاغذ گیر اِس تصویر سے لپٹ گئی، پریوں کے ہوش اُڑ گئے چھاتی پھٹ گئی۔‘‘(۱۳)آخر کار اِسی آہ و زاری میں جان دے دیتی ہے۔اِس کے عشق میں لگن اور شدت تو ہے مگر عمل کی کمی ہے حا لانکہ یہ پری ہے شہزادے کی مدد کرسکتی ہے مگر ایسا نہیں کرتی بلکہ غم کی شدت سے جان دے دیتی ہے۔دوسرا عشق شہزادی نگار ارم کا ہے جو شہزادے کی تصویر دیکھ کر اُس کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے:’’عین نظارہ میں آنکھ لڑی یعنی اُس مرقع میں ایک تصویر برق تنویرنظر آئی، آفت تازہ سر پر لائی، دوچار ہوتے نقشہ بگڑ گیا، طرفۃ العین میں آنکھوں پر پردہ پڑ گیا، ہر چند ٹالا، آپ کو سنبھالا مگردیکھتے ہی عجیب حال ہوا، جا سے ہلنا محال ہوا۔‘‘(۱۴)اِس پر مستزاد ناہید پری کا شہزادے کی وجاہت کا تذکرہ اور اور اُس کا جان دے دینا جلتی پر تیل کاکام کرتا ہے اور شہزادی اُس کے عشق میں مبتلا ہوکر اُس کی رہائی کے لیے نکل پڑتی ہے۔شہزادی کے عشق میں حصولِ محبوب کے لیے کوشش کرنا شامل ہے وہ مایوس نہیں ہوتی اگرچہ نرم و نازک ہے مگر بساط بھرکاوش ضرور کرتی ہے۔ اِس طرح اُس کا جذ بۂ عشق ناہید پری کے عشق سے فروتر ہے۔تیسرا عشق شہزادے نگار عالم کا ہے جو شہزادی کی خوب صورتی کا سنتے ہی اُس پر جان دینے لگتا ہے اور اُس کی حالت یہ ہوتی ہے:
’’سنتے کے ساتھ ہی سینے پر ایک تیر سا پڑا، خدنگ عشق تُل کے ایسا پڑا کہ دل و جگر مین ترازو ہو کے پلے پار ہوگیا، دو سار ہوگیا۔بے اختیار دل بے قرارسے ایک آہ شرر بارسرکی۔’‘(۱۵)
لیکن اُس کا کردار عام داستانوں کے ہیرو جیسا ہے وہ یک در گیر محکم گیر نہیں رہتا بلکہ حصولِ تلذذ کے جو مواقع اُسے میسر آتے ہیں اُن سے خوب فیض یاب ہوتا ہے۔ وہ نگار ارم کی تلاش میں نکلتا ہے تو اُس کی ملاقات بہت سی مہ جبینوں سے ہوتی ہے جن سے خوب لطف اُٹھاتا ہے۔ اُن میں سے ایک وزیر زادی بہار ارم بھی ہے جو ملکہ شب افروز کا بھیس بدلے ہوئے ہے۔وہ شہزادے کو نہیں پہچان سکتی اور اُس سے عشق کرنے لگتی ہے۔ شہزادہ بھی اُس کی خوب حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر جب حقیقت کھلتی ہے تو وزیر زادی وزیر زادے سے عشق کرنے لگتی ہے اور شہزادے کے دل میں نگار ارم کی چاہت انگڑائی لیتی ہے اور وہ پھر سے اُس کی تلاش کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔شہزادے کا یہ تصورِ عشق ناہیدپری اور شہزادی نگار ارم کے تصورِ عشق سے کم تر ہے۔ ڈاکٹر گیان چند اِس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شہزادے اور وزیر زادی میں اختلاط کرانے کے بعد مصنف اپنے ذہن میں بٹن دباتاہے اور وزیر زادی کو وزیر زادے پر عاشق کرکے معاملہ ٹھیک کرلیا جاتا ہے۔ عشق بھی گویا بجلی کا تار ہے کہ اِس مشین سے ہٹا کر اُس مشین میں لگا دیا۔یہ سب مصنف کی خام کاری اور پھوہڑ پن کے سوا کچھ نہیں۔’‘(۱۶)
’’طلسمِ حیرت‘‘ کے قصہ میں موجود واقعاتی بے ربطی اورزبان و بیان کے بوجھل پن کے باوجود داستان نگار نے اِس میں مابعدا لطبیعیاتی عناصر کی شمولیت کا التزام کیا ہے اور انھیں اپنے نقطۂ نظر سے پیش کیا ہے جو اُردو کی دوسری داستانوں سے مشابہ ہونے کے باوجود اُن سے خاصی حد تک مختلف بھی ہیں۔
حوالہ جات
۱۔گیان چند، ڈاکٹر: اُردو کی نثری داستانیں، کراچی، انجمن ترقی اُردو پاکستان، باردوم، ۱۹۶۹ئ، ص ۳۸۸
۲۔محمد جعفر علی شیون:طلسمِ حیرت، لکھنؤ، مطبع منشی نول کشور، بار سوم، اگست ۱۸۸۲ئ، ص۱۹
۳۔محمد فخر الدین حسین سخن:سروشِ سخن مرتبہ خلیل الرحمن داؤدی، لاہور، مجلس ترقی ادب، بار اوّل، ستمبر۱۹۶۳ئ، ص۸
۴۔گیان چند، ڈاکٹر: اُردو کی نثری داستانیں، ص ۳۹۷
۵۔وقار عظیم، پروفیسر سید: ہماری داستانیں، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ئ، ص۳۸۰
۶۔سہیل بخاری، ڈاکٹر: اُردو داستان (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)، اِسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، مارچ ۱۹۸۷ئ، ص۲۸۹
۷۔ آرزو چودھری: داستان کی داستان، لاہور، عظیم اکیڈمی، ۱۹۸۸ئ، ص۴۸۲
۸۔جمیل جالبی، ڈاکٹر: تاریخ ادب اردو، جلد سوم، لاہور، مجلس ترقیٔ ادب، طبع اوّل جون ۲۰۰۶ئ، ص ۶۵۹
۹۔محمد جعفر علی شیون:طلسمِ حیرت، ص۶
۱۰۔ایضاًص۱۲
۱۱۔ایضاًص۴۳
۱۲۔فہمیدہ تبسم: اُردو داستانوں کے مرکزی کردار، مقالہ برائے پی ایچ ڈی اُردو، اسلام آباد، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، دسمبر ۲۰۰۷ئ، ص۴۴۶
۱۳۔محمد جعفر علی شیون:طلسمِ حیرت، ص۲۹
۱۴۔ایضاًص۲۷، ۲۸
۱۵۔ایضاًص۷۰
۱۶۔گیان چند، ڈاکٹر: اُردو کی نثری داستانیں، ص۳۹۱
Leave a Reply
1 Comment on "داستان’’طلسمِ حیرت‘‘؛مابعد الطبیعیاتی مطالعہ"
[…] 182.داستان’’طلسمِ حیرت‘‘؛مابعد الطبیعیاتی مطالعہ […]