داغ دہلوی: خطوط کے آئینے میں
خط انسان کی زندگی کا وہ آئینہ ہے جس میں ان کی شخصیت کے تمام پہلو مختلف انداز میں سامنے آجاتے ہیں۔مکتوب سے نہ صرف مکتوب نگار کی شخصیت اور ان کی ظاہری و باطنی کیفیت کا علم ہوتا ہے بلکہ ان کے زمانے کی زبان، روز مرہ کے الفاظ اور رائج محاوروں کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔خط دو لوگوں کے بیچ رابطے اور تبادلہ خیال کا قدیم اور قابل اعتبار وسیلہ مانا جاتا رہا ہے، اورادیب کے خطوط تاریخ ادب کو مرتب کرنے میں بھی معاون ہوتا ہے حالاں کہ خط کے ذریعے ذاتی طور پرمکتوب نگار بے تکلفی سے اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے لیکن جب کوئی ادیب اپنے کسی شاگرد یا احباب کو خط لکھتا ہے تو اس میں ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ادب، ثقافت اور تہذیب کے بہت سے مسائل اور اس کے حل کی جانب صاف اشارہ ملتا ہے۔چوں کہ مکتوب نگار، مکتوب الیہ تک اپنے دلی جذبات واحساسات پہنچانا چاہتا ہے اس لیے خود پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتابلکہ نہایت بے باکی سے اپنے اور زمانے سے متعلق نکات کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ ایک جانب مکتوب نگار کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتاہے، ان کے زمانے اور لواحقین کے حالات کی عکاسی کرتا ہے تو دوسری جانب محقق و ناقدین کے لیے مواد فراہم کرنے کا کام کرتا ہے۔ مکتوب سےسوانح نگاروں کے ساتھ ساتھ تاریخ نویس اورمفکر بھی مستفید ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر نثار احمد فاروقی نے خطوط غالب سے ماخوذغالب کی سوانح عمری خود غالب کی زبان میں اردو کے قارئیںنکے لیے پیش کیا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی کا ماننا ہے:ٖ
انسان کے اخلاق اورجذبات کا انکشاف جیسا کہ اس کے بے تکلف خط و کتابت سے ہو سکتا ہے ایسا کسی اور چیز سے نہیں ہوتا اسی واسطے مکتوب کو نصف ملاقات قرار دیا گیا ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ جب اس کا وجود عنصری خاک میں پنہا ہو گیا اور اس سے ملنے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا اب اس کی ملاقات محض اس کے خط و کتابت پر منحصر ہے اور بس۔پس کسی مصنف کی وفات کے بعد اس کے مکتوبات کا فراہم کرنا در حقیقت اس کی سوانح عمری کا ایک مہتم بالشان حصہ قلم بند کر دینا ہے۔
(بحوالہ مطالعہ داغ، ڈاکٹر سید محمد علی زیدی، ص ۲۷۰)
مولانا حالی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ خطوط سے کسی بھی فنکار کی زندگی کے بیشتر پہلو سامنے آجاتے ہیں۔اور داغ کی زندگی کے بھی بہت سے گوشوں پر ان کے خطوط سے مکمل روشنی پڑتی ہے۔ ان کے عادات و خصائل اور فکر و نظر کا علم ہوتا ہے۔ ان کی شاعرانہ شوخی سے قارئین واقف ہوتے ہیں نیز ان کے علم اور مختلف لوگوں سے ان کے رشتے کے بارے میں بھی جانکاری ملتی ہے۔
داغ دہلوی ایک نظر میں
نام: مرزا محمد ابراہیم داغ دہلوی۔ والد : شمس الدین نواب آف فیروزپور جھرکہ والدہ: وزیر خانم ۔ پیدائش: دہلی، 25 مئی 1831ء وفات: حیدر آباد، 1905ء قلمی نام: داغ پیشہ: شاعر قومیت: متحدہ ہندوستان صنف: غزل، قصیدہ، مخمس مضمون: عشق (حوالہ : وکی پیڈیا، اردو) |
اب تک داغ کے مکتوب کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں پہلا مجموعہ’ انشائے داغ‘ کے نام سے سید علی احسن مارہروی نے ترتیب دیا جو ان کے انتقال کے بعد 1941 میں انجمن ترقی اردو( ہند) دہلی سے شائع کیا گیا۔اس مجموعہ میں 140 خطوط شامل ہیں۔اس کے بعد احسن مارہروی کے صاحبزادے سید رفیق مارہروی نے ’انشائے داغ‘ کے 140 خطوط میں مزید 99خطوط کا اضافہ کرکے کم و بیش 239 خطوط کو یکجا کرکے ’زبان داغ‘ کے نام سے نسیم بک ڈپو، لکھنئوکی ایک ادبی پیش کش کے طور پر شائع کروایا۔ان میں وہ تمام خطوط بھی شامل ہیں جو نگار داغ نمبر میں شائع ہو چکے تھے۔خطوط کے پہلے مجموعے’ انشائے داغ‘ کے مرتب احسن مارہروی نے اپنے طویل مقدمے کے ساتھ اس مجموعے میں شامل داغ کے خطوط کو تین فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی فصل میں سولہ (16) والیان ریاست، حکام، عمال اور امرا کے نام خطوط شامل اشاعت ہیں تو دوسری فصل میں اٹھارہ (18) مخصوص اعزہ، خاص احبا اور عام شناسا و تلامذہ کے نام خطوط کو یکجا کیا ہے اور تیسری فصل میں داغ کے ان پندرہ (15) شاگردوں کے نام لکھے خطوط کو شامل کیا جن میں ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو موجود ہے۔ اس طرح164 صفحے کی کتاب انشائے داغ میں انچاس (49) لوگوں کے نام کل 140 خطوط شامل اشاعت ہیں۔لیکن احسن مارہروی کے صاحبزادے سید رفیق مارہروی نے جب مجموعئہ مکاتیب نواب مرزا داغ دہلوی ’زبان داغ‘ کو ترتیب دیا تو 292 صفحے کی اس کتاب میں کل 65 لوگوں کے نام لکھے239 خطوط شامل کیے۔ان خطوط کی ترتیب میں رفیق مارہروی نے نہ تو کوئی فصل قائم کی اور نہ ہی کوئی دوسری تخصیص۔ہاں بالکل شروع میں اپنے والد سید احسن مارہروی کے نام لکھے داغ دہلوی کے 47 خطوط شامل کیے۔ داغ اور احسن مارہروی کے تعلقات کا اندازہ رفیق مارہروی کے انتساب سے بھی بخوبی ہوتا ہے۔:
بے جا نہ ہوگا اگر میں جہان استاد فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ دہلوی کے اس مجموعئہ خطوط کو ان کے نامور شاگرد حضرت احسن مارہروی کے نام نامی سے معنون کروں جو نہ صرف عمر کے بیشتر لمحات اپنے شفیق استاد کی پرخلوص قلمی خدمت کرتے رہے بلکہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک استاد ہی کا دم بھرتے رہے۔
(سید رفیق مارہروی، زبان داغ، ص ۵)
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ خطوط ،سوانح نگاری کا اہم ذریعہ اور مکتوب نگار سے متعلق مواد حاصل کرنے کا بہترین وصیلہ ہے۔ داغ کے خطوط میں میں بھی ان کی زندگی سے متعلق بے شمار واقعات، حادثات، خواہشات، مختلف مقامات کا سفر ان کی وجہ اور روداد، مختلف نوابین کے دربار سے وابستگی، ان کے معشوق اور شاگرد، اور ان سے رشتے کی شدت، شاگردوں اور دوستوں سے اپنے معاشقے کا بیان، ادب سے متعلق ان کا نظریہ، شاگردوں کے کلام کی اصلاح اور زبان و محاورے کے استعمال کی تلقین، شاگردوں کے کلام کی اشاعت اور مشاعرے میں بغیر ان کے اصلاح کے نہ پڑھنے کی ہدایت وغیرہ بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طور پر کلکتہ کی ایک مشہور طوائف ملکہ جان کو لکھے ایک خط میں میں وہ اپنے خاندان، اپنے وطن اور زندگی کے حالات ان الفاظ میں میں بیان کرتے ہیں:
الحمد للہکہ مجکو خدا نے عالی خاندان کیا۔ دلی میرا وطن ہے، جب وہ برباد ہوئی تو احتیاج روزگار ہوئی، رامپور میں ، رطب و یابس اللہ تعالیٰ گزارتا ہے۔ چالیس پچاس آدمی کا رزق خداوند کریم دیتا ہے، رئیس میرا قدردان ہے اور ہم عمر و ہم وطن، منفعت دنیا پر اگر نظر کرتا توبہت کچھ پیدا کرلیتا، ہندوستان میں میں کون سی جگہ ہے جہاں سے اس عاجز کی طلب نہ ہوئی مگر اپنا حال یہ ہے:
کرا دماغ کہ از کوئے یار بر خیزد
نشستہ ایم کہ از تا غبار برخیزد
کار ریاست اس قدر سپرد ہیں کہ جس سے مرنے کی بھی فرصت نہیں۔
(زبان داغ، ص ۲۶۹)
اسی طرح داغ نے اپنے شاگردوں کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں میں اپنی زندگی اور معاشقے کے حالات کے ساتھ ساتھ شاگردوں سے محبت اور ان کے بلا اطلاع سفر پر چلے جانے یا ان کو بتائے بغیر کوئی اہم کام کرنے پران کی ناراضگی کا پتہ چلتا ہے۔ داغ کے خاص شاگرد وں میں میں سید بہادر حسین خان انجم نیشا پوری شامل ہیں۔ داغ نے اپنے اس شاگرد کو 20 اپریل 1881 کو ایک خط لکھتے ہوئے ان سے جن حالات کا بیان کرتے ہیں آپ بھی دیکھیں:
میر صاحب مکرم سلامت!
داغؔ کو جلاکر، خاک میں میں ملاکر، آپ لکھنئو چلے گئے، خیر صبر و شکر۔ چوں کہ یہ بے وفائی، اور کج ادائی، ا ٓپ نے اڑائی ہے، ہم بھی ستم سمجھے۔ اے شخص اللہ رے تیرا دماغ، چلتے وقت ملنااور اس تمکنت اور اس استغنا کے ساتھ، رحم نہ آیا، ترس نہ کھایا کہ ایک کشتئہ فراق تڑپ رہا ہے۔اس کی دل جوئی کیجئے یا اس کی تلافی، یہ ہوئی کہ لو ہم جاتے ہیں۔اچھاجائو غارت ہو، دہرا صبر کرلیں گے۔وہ قافلہ لکھنئو سے عظیم آباد پہنچا، وہاں سے ایک قیامت نامہ میرے نام آیا، جس کا مضمون قابل تحریر نہیں، جس کے ساتھ کی میری تصویر سید ناظر حسن کو دی ہے، اس کے ساتھ کی چند تصویریں اور مجکو عنایت ہوں۔میں میں چاہتا ہوں کہ جو حال آپ نے دیکھا ہے وہ میری کیفیت کسی اورسے نہ کہنا، خدا کے واسطے خاک میں میں نہ ملانا۔
راقم مرزا داغ عفی عنہ، ۲۰، اپریل ۱۸۸۱ء
(زبان داغ، ص ۸۲)
انجم نیشاپوری کو ہی ۷ مئی ۱۸۸۲ کو اپنے قیام عظیم آباد اور صحت کے بارے میں میں لکھتے ہیں:
بعد سلام مسنون واضح ہو کہ میں میں بخیر و عافیتوارد پٹنہ عظیم آباد ہوا۔محلہ گرہٹا، مکان سید باقر صاحب میں میں مقیم ہوں۔ چار روز ہوئے کہ وہ کلکتہ روانہ ہو گئے۔ سید قطب الدین کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔یہاں کی آب و ہوا نہایت خراب، گرمی کی نہایت شدت، اہل عظیم آباد نے میری اس قدر خاطر و عزت کی ہے جس کی حد نہیں، کلکتے نہیں جانے دیتے۔ میری طبیعت علیل ہوئی جاتی ہے، اب بھی علیل ہے، سرکار میں میں خط بھیجا ہے، ان کے جواب کا منتظر ہوں۔
(زبان داغ، ص ۸۳)
مرزا داغ دہلوی نے جن خواتین کو مکتوب لکھے ان میں جنابہ اولیا بیگم صاحبہ (۲)، مسماۃ نبی جان(۱)، مسماۃ منی بائی حجاب (۱۱)، مسماۃ حمیدن بائی (۳)، جنابہ عزیز بیگم صاحبہ (۲) اور مسماۃ ملکہ جان (۲) کے نام خطوط زبان داغ میں میں شامل ہیں جبکہ داغ کے ساتھ تعلقات کی فہرست میں ان کے علاوہ اختر جان، آگرہ کی صاحب جان اور میرٹھ کی رہنے والی عمدہ جان بھی شامل ہیں۔ ان میں کلکتہ کی ملکہ جان اور منی بائی حجاب سے انھیں خاص لگائو تھا۔ ملکہ جان کلکتہ کی مشہور ڈیرہ دار طوائف تھی۔حالاں کہ بنارس کی رہنے والی تھی لیکن کلکتہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ملکہ جان اس گوہر جان کی ماں تھی جو نہ صرف ہندوستانیوں میں مقبول تھی بلکہ انگریزوں کی بھی خاص پسند تھی۔ اسی گوہر جان کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہرؔ کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے، شوہر کے سوا
اور گوہر جان کو یہ سب کچھ اس کی ماں ملکہ جان سے وراثت میں ملا تھا۔ ملکہ جان کا بھی انگریزوں سے تعلق خاص تھا۔ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نہ صرف شعر کہتی تھی بلکہ صاحب دیوان تھی۔ یہاں تک کہ ایک مثنوی بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے۔انگریزوں کے تعلقات کی وجہ سے اسے میم صاحب کا بھی نام دیا گیا تھا۔حیدر آباد کی ریختہ گو عابد مرزا بیگمؔ سے مراسم تھے لیکن داغ سے تعلقات میر قطب الدین اشکؔ کے ذریعے ہوا تھا۔ داغؔ اورملکہ جان کے تعلقات کا اندازہ داغ کے خطوط سے بخوبی ہوتا ہے۔ملکہ جان کو اپنے مکتوب مورخہ ۱۲ مارچ ۱۸۸۶ میں تحریر کرتے ہیں:
ملکئہ اقلیم سخنوری، بنارس کی صنم کلکتہ کی پری !دام جمالہاوکمالہا۔
کیوں جی! خدا نے مجھے کیوں عاشق مزاج بنایا، اس بلا میں کیوں پھنسایا۔ پتھر کا دل، لوہے کا کلیجہ کیوں نہ بنایا۔ جس میں کوئی اچھی ادا دیکھی طبیعت لوٹ گئی، خصوصاً کوئی معشوق خواندہ ہو اور شعر گو بھی ہو مرزا داغؔ کی موت ہے۔فریاد داغ کے مطالعہ سے کیفیت معلوم ہوئی ہوگی:
رحم آتا ہے اپنی حالت پر
پڑیں پتھر بتوں کی چاہت پر
میر قطب الدین اشک کو منی بائی کی مزاج پرسی کے لیے کلکتے بھیجا تھا۔اب جو وہ وہاں سے واپس آئے تمھارا بھی سندیسہ لائے۔ مثنوی جو عنایت ہوئی اس کا شکریہ کس زبان سے ادا کروں۔بغیر ملاقات کے اس کی پوری داد نہیں دے سکتا۔
(زبان داغ، ص۲۶۶۔۲۶۷)
پہلے تو داغ ملکہ جان سے منی بائی کو سلام کہلاتے ہیں لیکن دوسرے ہی خط میں منی بائی کو ملکہ جان سے خط و کتابت کا علم ہوجانے پر وہ ناراض ہوتی ہیں اور داغ پر اس کا عتاب نامہ نازل ہوتا ہے۔ملکہ جان کو 9 اگست 1886 کو لکھے خط میں کہتے ہیں کہ’’منی بائی کو میری تمھاری خط وکتابت کا حال کس طرح ظاہر ہو گیا کہ ان کا بہت بڑا عتاب نامہ میرے نام آیا۔‘‘ اس کے باوجود وہ نہ تو ملکہ جان کو اپنے دل کی کیفیت بتانے سے بعض آتے ہیں اور نہ ہی منی بائی کے دام عشق سے نجات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔بیک وقت ایک سے زیادہ معشوق کے عشق میں مبتلا رہنے میں نہ صرف انھیں مزہ آتا ہے بلکہ دلی اور ذہنی سکون ملتا ہے۔
کلکتے کی ہی منی بائی حجاب داغ کو بہت عزیز تھی۔ منی بائی کلکتہ کی ایک مشہور طوائف تھی۔ او رجن دنوں داغ دہلوی رام پور میں تھے یعنی 1865 میں نواب رام پورکلب علی خاں نے رامپور میں ’میلئہ بے نظیر‘ کا انعقاد کیا تو منی بائی حجاب نے بھی اس میں شرکت کی اور یہیں داغ سے ملاقات ہوئی اور وہ انھیں اپنا دل دے بیٹھے۔کچھ دنوں میں ہی منی بائی حجاب کلکتہ واپس لوٹ گئیں۔1881 میں جب دوبارہ میلہ منعقد ہوا تو پھر حجاب کا رامپور آنا ہوا اور اب داغ کی قربت مزید بڑھی لیکن اس بار چند رقیب بھی سامنے آئے۔داغ کی محبت کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے ملنے 1882 میں کلکتہ تک گئے۔ منی بائی حجاب کے نام کل گیارہ خطوط ’زبان داغ‘ میں شامل ہیں۔ان خطوط کی روشنی میں ان کی کیفیت اور شدت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چند اقتباس دیکھیں:
دشمن جانی ! سلام شوق۔ عین انتظار میں تمھارا محبت نامہ دستیاب ہوا۔ کئی بار پڑھا، آنکھوں سے لگایا، چوما اور چھاتی پر دھرا رہا۔ تم لکھتی ہو کہ مجھے بھول جائو اور اگر نہ بھولو تو بدل جائو، یہ کرلوگے جب ہی تمھارے پاس آئوں گی۔ خوب، تم کو بھول جائوں:
تم بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ
نادان کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم
اچھا تم یہاں آجائو، پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو بھولنے کی کوشش کریں گے۔ تمھاری ہر بات منظور ہے۔ لکھو کہ کب آرہی ہو۔
فصیح الملک داغ دہلوی، حیدرآباد، 20 مارچ 1902
جس طرح داغ بیک وقت ایک سے زیادہ معشوق اور ان سے رشتے رکھنے کے شوقین تھے، ان کے معشوق بھی انھیں کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کا ذکر خود داغ کے خطوط میں موجود ہے۔ منی بائی حجاب جس کو داغ سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے ان کو ہی ایک خط میں لکھتے ہیں:
ستم گر و ستم پیشہ۔ شوق ملاقات کے بعد مدعا نگار کہ تم دو روز سے نواب صاحب (نواب حیدر علی خاں جو بہت بڑی زمینداری خرید کر رامپور سے بدایوں منتقل ہو گئے تھے) کے یہاں تھیں۔یہاں دل پر عجیب عالم گذرگیا، میں نہیں مانوں گا کہ تم مجبور ہوگئیں۔اس ریاست میں ایسی بھی خدا کی بندیاں موجود ہیں کہ رئیس کے ہزار دبائو پر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتیں، جن سے واسطہ ہے اور جن سے وفاداری کا عہد کرچکی ہیں، اپنے قول پر قائم ہیں۔ایک طرف دولت ہے، ریاست ہے اور ہر طرح کی شان و شوکت، لیکن محبت کا نام وہاں عنقا رکھا گیا ہے، تمھارا دل دادہ ان کے مقابلے میں کوئی خوبی نہیں رکھتا مگر تمھاری الفت میں جان سے ضرور گزر سکتا ہے۔ کیا میرے رقیب بھی ایسا کر سکتے ہیں، تم کو یقین ہے اور جب نہیں کر سکتے تو پھر کس لیے تم داغ سے پرستار کو محو کئے ہوئے ہو۔ دل پر جبر کرکے لکھتا ہوں کہ اگر قطعی ترک تعلق منظور نہیں تو پھر مجھے دیدہ وشنید سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے:
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجکو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
یہ رقعہ تمھیں جلانے کو نہیں لکھا ہے، نہ اس کا مطلب طعن و تشنیع ہے، مدعا ہے آپ تشریف لائیں اور میری کچھ دل داری فرمائیں۔
بدنصیب داغ دہلوی
(زبان داغ، ص ۱۸۳۔۱۸۴)
داغ کی مثنوی ’فریاد داغ‘ منی بائی حجاب سے محبت کا نتیجہ ہے۔اس محبت کی شدت کا مزید اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب داغ حیدر آباد میں تھے تو 1902 میں حجاب کو حیدرآباد بلوالیا۔ یہاں وہ داغ کے ساتھ اگست 1904 تک رہیں لیکن تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے وہ کلکتہ لوٹ گئیں اور تعلقات خراب ہونے کی وجہ بھی داغ کا مزاج عشق تھا۔ ان کے اس مزاج کی عکاسی اس سے بھی ہوتی ہے کہ ملنا تو دور تصویر دیکھ کر بھی وہ عاشق ہو جایا کرتے تھے۔
جن دنوں داغ دہلوی حیدرآباد میں تھے، ان کے شاگرد عزیز نوح ناروی ان سے ملنے حیدرآباد آئے تو انپے ساتھ الہ آباد کی ایک طوائف نبی جان کی ایک تصویر ساتھ لیتے آئے اور استاد کی خدمت میں پیش کی۔ استاد تو دل پھینک تھے ہی، تصویر دیکھ کر ہی عاشق ہوگئے۔ اور اپنے اسی شاگرد یعنی نوح ناروی کے ہاتھوں پیغام دے بھیجا۔ انشائے داغ میں صفہ ۶۶۔۶۷ اور زبان داغ، ص ۱۴۷۔۱۴۸ پر 23جنوری 1902 کا لکھا یہ خط موجود ہے۔ جناب داغ دہلوی کے الفاظ آپ بھی دیکھیں:
حور کی صورت، نور کی مورت، خوش رہو اور ہم سے ملو۔
کل محمد نوح صاحب تشریف لائے آج بر سبیل تذکرہ تمہاری طرف سے ہمارا ایک ہدیہ پیش کیا یعنی تمہاری تصویر۔تصویر نہیں بلکہ تیر۔ نام پوچھا تو سن کر خواہ مخواہ ایمان لانا پڑا۔ نبی جان بتقدیم نون، بار خدایا ایسی صورت بھی تونے پیدا کی ہے۔ سیرت کی تعریف سنی تو صورت سے بڑھ کر، خوش آواز، خوش مزاج، پھر اس پر لکھی پڑھی۔ زمانہ ایسے لوگوں کی جتنی قدر کرے بجا ہے:
بت ہی پتھر کے کیوں نہ ہوں اے داغؔ
اچھی صورت کو دیکھتا ہوں میں
کیوں جی ! تم سے کیوں کر ملیں، تم کو کیوں کر دیکھیں، کیوں کر سنیں اور نہ دیکھیں تو کیوں کر جییں۔جو شخص ازلی عاشق مزاج ہو خیال کرو اس کا کیا حال ہوگا۔ تم سے یہ امید نہیں کہ خواب میں بھی کبھی آئو۔ ہائے مجبوری، وائے مجبوری۔
میں نے سنا ہے کہ ’’مہتاب داغ‘‘ تمھارے پاس نہیں ہے، بطور ہدیہ میں بھیجوں گا۔ اگر خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہے تو غنیمت ہے۔ میں نے جو تحریر میں سبقت کی ہے یہ خلاف عادت ہے:
دل نہ مانے تو کیا کرے کوئی
سوئے ادبی کے خیال سے تمھارے نام میں ایک نقطے کا تغیر و تبدل کر دیا ہے۔’ نون ‘کا نقطہ ’بے‘ کی جگہ اور ’بے‘ کا نقطہ ’ نون ‘کی جگہ۔ یعنی بجائے نبی جان، بنی جان۔ تمھاری تصویر کی شان میں ایک رباعی کہی ہے:
کیا بات ہے، کیا گھات ہے، اللہ رے شریر
سوجھی ہے نئی طرح کی تجھ کو تدبیر
کب دیکھنے والوں پہ کھلا دل کا حال
کھچوائی ہے کیا سینہ چھپا کر تصویر
(انشائے داغ، ۶۶۔۶۷، زبان داغ، ص ۱۴۷۔۱۴۸)
جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ داغ دہلوی کو طوائفوں سے نہ صرف لگائو تھا بلکہ ان سے خط و کتابت بھی تھی۔ جب وہ کسی طوائف کو خط لکھتے تو خاص اہتمام کے ساتھ نہ صرف تحریر کرتے بلکہ اس کے لیے خاص لفافہ بھی تیار کرتے۔اسے بیل بوٹے سے سجاتے اور اس سجے سجائے لفافہ کو دوسرے لفافے کے اندر رکھ کر بھیجتے۔ایسے ہی ایک خط کا ذکر ان کے شاگرد عزیز نوح ناروی نے کیا ہے۔ یہ خط داغ نے طوائف نبی جان کو لکھا تھا۔ اس سلسلے میں نوح ناروی کے الفاظ دیکھیں:
جب یہ خط بیل بوٹے والے لفافہ میں رکھ کر مجھ سے پتہ لکھنے کو کہا گیا تو میں نے تھوڑی دیر تک کچھ نہ لکھا، ارشاد ہواپتہ کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے کہا گستاخی معاف ہو، ڈا ک خانے کی مہریں پڑکر اس لفافے کے کام کو خراب کردیں گی اگرحکم ہو تو اس لفافے کو ایک دوسرے بڑے لفافے میں رکھ کر، بڑے لفافے پر پتہ لکھ دوں لیکن اس لفافے پر کوئی شعر ہونا چاہیے۔ پہلے تو استاد مسکرائے پھر فوراً یہ مطلع کہا:
شوق کھلنے نہ دیا، عشق کا پردہ رکھا
اس لیے ہم نے لفافے میں لفافہ رکھا
(بحوالہ مطالعہ داغ، ڈاکٹر سید محمد علی زیدی، ص ۲۷۸۔ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی از نوح ناروی، ص ۳۱)
نواب حسن علی خاں امیرؔ، حیدر آباد کے شرفامیں شمار ہوتے ہیں اور جب داغ حیدرآباد پہنچے تو امیر بڑے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کہنے کو داغ کے شاگرد تھے لیکن شاگردی سے زیادہ دوستی و محبت کا رشتہ رہا۔ آخری وقت تک خانگی معاملات میں بھی خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے داغ کے ساتھ رہے۔۱۹۰۲ کے شروع میں کسی وجہ سے امیر ؔ داغ سے ناراض ہوکر ان کے یہاں آنا جانا بند کردیا تو دیکھیں کہ داغ نے کن الفاظ میں انھیں مدعو کیا:
نواب صاحب!
صاحب عالم بہادر کہتے ہیں کہ کل صبح پتنگوں کے پیچ ہیں۔بغیر نواب صاحب کی تشریف آوری کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجکو خبر نہیں تھی کہ پیچ تو وہاں لڑیں گے اور دلوں میں پیچ مجھ سے پڑیں گے، مرد خدا ! یہ کیا بات ہے آپ نے یک لخت ملاقات کم کرکے کیوں ترک کردی۔ میں نے کوئی بات بغیر آپ کے مشورے کے نہیں کی، مصلحت وقت نہیں چھوڑی جاتی، آپ کو حسب معمول روز آنا چاہئے۔ما حضر یہیں تناول فرمانا چاہئے اور اگر یہاں کھانا کھانا گوارا نہیں تو بہتر ہے نہ کھائیے۔مجکو بھی نہ کھلائیے، آئیے آئیے تشریف لائیے۔
داغ۲۵، جنوری ۱۹۰۲ء (شب)
اس کے باوجود نواب امیر کے نہ آنے پر اپنے ذاتی رشتے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ہی خط میں لکھتے ہیں:
نواب صاحب آپ تو بیٹھے بٹھائے کلیجے میں نشتر چبھودیتے ہیں۔یہ فقرہ کیوں کر دل دوز اور جگر فگار نہ ہو، کہ اب مجھے روز کی حاضری سے معاف فرمایا جائے۔ مجھ سے جو کچھ ہوا دانستہ نہیں ہوا۔ حجاب جیسی ہزار ہوں تو تمہارے خلوص، تمہاری محبت پر نثار۔ تم سے کیا پردہ ہے، اور تم سے کیا چھپا ہے۔
(زبان داغ، ص ۹۲۔۹۱)
دوسرے بہت سے شاعروں کی طرح داغ پر بھی برے وقت پڑے۔ ایسے میں ان کی مدد جن لوگوں نے کی انھیں انھوں نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ اچھے وقتوں میں اپنے شاگردوں، دوستوں اور معشوقوں کی مدد کی اور ان کے لیے جو ہو سکتا تھا کیا تو برے وقتوں میں نواب اور رئوسا کے ساتھ ساتھ ان کے شاگرد اور دوستوں نے ان کی پوری مدد کی۔ ان کے شاگردوں میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ خاص یعنی نواب و رئوسا بھی رہے۔ اور اکثر نواب شاگرد ان کے اچھے اور بے تکلف دوست بن گئے۔ ایک مثال ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ایک اور خط جو انھوں نے حیدر آباد کے کنور اعتماد علی خاں کو لکھا تھا دیکھیں:
نواب صاحب مکرم جناب اعتماد علی خاں صاحب، السلام علیکم!
میرے دوستوں میں آپ کا خاص مرتبہ ہے۔ آپ نے وقتاً فوقتاً جو میرا خیال رکھا اور مجھے فکروں سے نجات دی، اس کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔آپ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ خدا کسی سے سابقہ نہ ڈالے۔ضرورت اور مددکے وقت یگانے بیگانے ہوجاتے ہیں، جانے پہچانے انجان بن جاتے ہیں۔آپ نے اس وقت میری دست گیری فرمائی جب کہ میرے دن مجھے موافق نہ تھے۔ اب کہ خدا کا شکر ہے میں مطمئن ہوں۔آپ کو بھول سکتا ہوں ؟ آپ کیافرماتے ہیں کہ زحمت دیتا ہوں۔یہ زحمت میرے لئے رحمت ہے۔
(زبان داغ، ص ۱۷۹۔۱۸۰)
اس طرح کے بہت سے خطوط داغ کے سرمایئہ مکتوب میں موجود ہیں۔ان خطوط پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک جانب داغ غالب کی طرح مختصر القاب و آداب سے خط شروع کرتے ہیں تو دوسری جانب جن سے جذباتی یا دل کا رشتہ ہے ان کو طویل اور مقفیٰ القاب سے نوازتے ہیں تو بعض اوقات مصرع سے مخاطب کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک ہی شخص کو مختلف خطوط میں مختلف القاب و آداب سے نوازا ہے۔ جہاں مختصر القاب ہیں وہاں بے ساختگی اور بے تکلفی کے ساتھ شوخی، خلوص اور شفقت کا عنصر موجود ہے۔ القاب سے مکتوب الیہ سے داغ کے مراسم اور مراتب کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔مثلاً چند القاب دیکھیں:
داغ نواز، نواب صاحب، سید صاحب، محب صادق، بندہ پرور، مہاراجہ صاحب، جناب والا، میر صاحب، دشمن جانی، ستم گر و ستم پیشہ، بائی جی، بے مہر و بے وفا، جناب من، نیک بخت پاک دامن، بہن اولیا بیگم، برخوردار نورچشم راحت جان، حور کی صورت نور کی مورت، مہاراجہ صاحب، ہمشیرہ عزیزہ عزیز بیگم، غریب پرور وغیرہ۔
تو دوسری جانب یا تو مراتب کی مناسبت سے نام ہے یاایسے طویل القاب جس سے مکتوب الیہ کی خصوصیات کا علم ہو یا ان کی تعریف مقصود ہو اور ایسے القاب یا تو داغ نے نواب و امرا کو لکھے ہیں یا اپنے معشوق یعنی بائی و طوائف کو۔ چند آپ بھی دیکھیں:
’ملکئہ اقلیم سخنوری، بنارس کی صنم کلکتہ کی پری! دام جمالہا و کمالہا‘، ’د ل ربا، سخن آرا، حور لقا، پری ادا، دام جمالہا و کمالہا‘، ’غریب پرور فیض گستر سلامت‘، ’مہربان و نامہربان، یاد فراموش دور افتادگان منشی عبدالحمید سلمہ اللہ الوحید‘ وغیرہ۔
اسی طرح داغ خط کے آخر میں مختلف خطوط میں مکتوب الیہ کے ساتھ ان کے رشتے اور حسن طلب کی مناسبت سے اپنا نام درج کرتے ہیں۔اکثر اپنا لقب بھی لکھتے ہیں۔اس کے ساتھ کبھی صرف عیسوی تاریخ تو کبھی صرف ہجری اور بعض اوقات دونوں۔کبھی تاریخ کے ساتھ دن اور مقام بھی لکھ دیتے ہیں تو کبھی صرف سال اور کبھی کبھی سال، تاریخ، دن یا مقام کچھ بھی نہیں۔
داغ دہلوی کے خطوط کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے دانستہ یا نادانستہ غالب کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے خطوط جہاں بغیر غور و فکر کے برجستہ لکھے یا لکھوائے گئے ہیں ان میں شوخی، ظرافت اور بذلہ سنجی کا پہلو نمایاں ہے۔ اور غالب ہی کی طرح خط کے درمیان میں اپنے شعر کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات منظوم شکل میں اپنی بات کہتے ہیں۔ رشتے کی مناسبت سے خط دلچسپ، بے باک ہیں، تکلف، بے تکلفی اور بے ساختگی ہے۔ غالب کی ہی مانند بعض خطوط میں بذلہ سنجی اور ظرافت کا عنصر نظر آتا ہے۔ جب اپنے معشوق یا طوائف سے مخاطب ہوتے ہیں تو شوخئی ادا بڑھ جاتی ہے۔چونکہ انھیں دہلوی زبان پر ناز ہے اور وہ زبان کے استعمال کا خاص خیال رکھتے ہیں اس لیے اکثر با محاورہ زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تہذیب کا دامن ان کے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوٹ سکتا اور کبھی اتنے کھل جاتے ہیں کہ کوئی حجاب درمیان میں حائل نہیں ہوتا۔غالب کی مانند مراسلے کو مکالمہ بنانے کی کوشش موجود ہے۔یعنی حجاب و بے حجابی، تکلف و بے تکلفی، خوش مزاجی و درد مندی، سادگی و پرکاری، مراسلہ و مکالمہ غرض ہر طرح کے جذبات، انداز اور لطف ان کی تحریر میں موجود ہیں۔اس کے باوجود بہت سے خطوط ایسے ہیں جن میں سپاٹ ادائے مطالب اور پر شکوہ انداز بیان کا احساس ہوتا ہے۔
داغ کے خطوط کے مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خطوط کی روشنی میں ان کی سوانح ترتیب دی جا سکتی ہے کیوں کہ انھوں نے اپنے مکتوب میں اپنے خاندان، شوق، مختلف مقامات کے سفر کی داستان، اپنی معاشی، علمی، تہذیبی اور ثقافتی صورت حال کا اکثر ذکر کیا ہے۔یہاں تک کہ اپنے بے تکلف دوستوں اور شاگردوں سے اپنے معاشقے تک کا حال بیان کردیا ہے۔ اپنے معشوق سے دل کا حال بیان کرتے ہوئے جس سطح تک جاتے ہیں اس کی تفصیل بھی موجود ہے یہاں تک کہ ان کے نہ آنے پر زہر کھاکر جان دے دینے کی بات بھی ان خطوط میں موجود ہے۔ اپنے خطوط کے ذریعے شاگردوں کی اصلاح اور زبان و محاورے کے استعمال کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔خالص دلی کی زبان کا خیال رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں۔وہ اشعار میں محاورے کے استعمال کی تلقین تو کرتے ہیں لیکن یہ تاکید بھی کرتے ہیں کہ محاورہ جبراً نہ آئے۔یعنی اگر آسانی سے بحر میں آجائے تو بہتر ورنہ محاورہ شعر کا عیب بھی بن سکتا ہے۔داغ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ اپنے شاگردوں کے کلام کی اصلاح وہ خود نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے کسی ایسے شاگرد کو کلام کے اصلاح کی ذمہ داری دے دیتے تھے جنھیں شاعری کی سمجھ ہو۔ان خطوط کی روشنی میں یہ غلط ثابت ہوتا ہے کیوں یہاں وہ اپنے شاگردوں کو تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بغیر ان کی اصلاح کے غزل نہ پڑھے اور نہ شائع کروائے۔ جب کوئی شاگرد اپنے کلام کی اصلاح کے ساتھ ساتھ کلام کے عیوب جاننے کی خواہش ظاہر کرتا تو ایک ایک مصرعے پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی خوبی، خامی اور ہرلفظ پر گفتگو کرتے۔ غالب کی طرح داغ بھی قرض خوار رہے۔ حالانکہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دربار میں گزرا، وہ مغل دربار یا لال قلعہ ہو، یا رامپور یا پھر حیدر آباد۔ بلکہ بعض خطوط میں تو دوسروں کی کفالت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن داغ نے جب بھی قرض لیا، جن سے بھی لیا اس کو خط لکھ کر یقین دلاتے رہے کہ انھیں وہ ضرور واپس کریں گے۔نواب کے دربار سے وابستگی کی وجہ سے انھیں بھی کئی نوابی شوق ہو گئے تھے جن میں سے ایک کا ذکر آچکا ہے اور دوسرا انھیں حقہ پینے کا شوق تھا۔ کئی خطوط میں اپنے شاگرد کو لکھ کر فرشی حقہ کا حال دریافت کرتے ہیں، بلکہ صرف احسن مارہروی کو لکھے کئی خطوط میں حقہ فرشی کا ذکر ملتا ہے۔
بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتاہے کہ داغ کے لکھے خطوط میں سے زیادہ تر خط سادہ اور سلیس زبان میں ہونے کے باوجود ان میں لطف عبارت اور خوبئی طرز ادا کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن وہ خطوط جو انھوں نے خاص احباب اور طوائفوں کو لکھے ہیں ان میں شوخی، بذلہ سنجی اور عبارت آرائی کے ساتھ ساتھ انشا پردازی کے جوہر داکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ داغ کو اعلیٰ اور بلند پایہ مکتوب نگاروں کی فہرست میں مقام نہیں دیا گیا ہے لیکن ان کے خطوط میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو مکتوب نگاری کے فن کی مناسبت سے ضروری قرار دئے گئے ہیں۔اس لیے ان کے خطوط کا از سر نو مطالعہ کرکے اردو ادب میں بحیثیت مکتوب نگار ان کے مقام پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭
Dr. Mohammad Kazim
Associate Professor
Department of Urdu
University of Delhi, Delhi-110007
Mobile: +91 9868188463, 9818543226
Email: kazimdu@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!