کرشن چندر بحیثیت افسانہ نگار
کرشن چندر کی شخصیت تعارف کی مختاج نہیں انھوں نے اُردو فکشن کے سرمائے میں بیش ہا اضافے کئے۔انکی زبان میں رس اور جادو ہے۔گھلاوٹ، حلاوت اور بیاہے جانے ولی کیفیت ہے ۔انکی تخلیقات میں حسن کی لگن اور تڑپ، موج در موج اور انسان دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔انکی شخصیت ایک بہت ہزار شیوہ ہے۔جس کا بنیادی جوہر اسکی حسن پرستی اور حسن کاری ہے وہ نہ صرف ہندوستاں اور پاکستان میں مشہور ہیں بلکہ مشرق، جرمنی، روس اور دوسرے کئی ممالک میں بھیان کی تصانیف مشہور ہیں درد ہو یا طنز، رومانیت ہو یا حقیقت نگاریان کا قلم ہر مو قع پر ایسی دلکش چال چلتا ہے جو بانکی بھی ہوتی ہے اور انوکھی بھی لیکن جو اسقدر سادہ اور خطرہ ہو تی ہے ۔جیسے صبح کے وقت چیڑیوں کی پرواز۔
کرشن چندر کا قلم بچپن سے ہی اپنے جوہر دکھانے کیلئے مچل رہا تھا ۔یہ جوہر انکوقدرت نے ہی عطا کیا تھا۔ اس کا ثبوت اُنھوں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں جو مظموں ماسٹر باقی رام پر لکھا تھا، اس سے مل جاتا ہے ۔
کرشن چندر کا ایک مظمون ۲۱ مارچ ۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال کی فضات پر ـ دی ٹریپوں میں شائع ہوا قیام لاہور کے دوران کرشن چندر کے افسانوں کا اولین مجموعہ طسلم خیال ۱۹۳۹ء میں مکتبہ اُردو لاہور سے شائع ہوا۔ جس میں کل بارہ افسانے ہی اور جس میںان کا اشارہ افسانہ پُر قاں بھی شامل ہے۔کرشن چندر کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ نظارے کے عنوان سے جون ۱۹۴۸ء میں میں کتب خانہ ادبی دُنیا لاہور سے شائع ہوا یہ مجموعہ بھی بارہ افسانوں پر مشتعمل ہے جس میںان کا مشہور افسانہ دو فر لانگ لمبی سڑک بھی شامل ہے۔انکے اس مجموعے پر دیباچہ جلال الدین احمد پر ماہانہ ادبہ لاہور نے لکھا جو ستائیس صفحات پر مشتعمل ہے اس میں انھوں نے کر شن چندر کے ضن کی اساسی خصو صیت بیان کی ہے۔
کل ملاکر کرشن چندر نے تقریباً چوبیس افسانوی مجموعے لکھے ہیں جن میں تقریباً دو سو سے زائد افسانے ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف رسائل واخبارات میں شائع ہوئے ہیں ۔انکے افسانوی مجموعے درج ذیل ہیں،،
طلسم خیال، نظارے، ہوائی قلعے، گھونگٹ میں گوری جلے، زندگی کے موڑ پر، نغمے کی موت، پرانے خدا، ان داتا، ہم وحشی ہیں، ٹوتے ہوئے ستارے، میں غنڈے، اجنتا سے آگے، ایک روپیہ ایک پھول، پولٹیس کی ڈالی، ہائیڈروجن بم کے بعد، دل کی کا دوست نیں، مسکرانے والیاں، سپنوں کا قیدی، مس نینی تال، دبواں پل، گلشن گلشن ڈھونڈاتجھ کو، آدھے گھنٹے کا خدا، الجھی لڑکی کالے بال شامل ہیں
کرشن چندرکا نام یقینی طور پر پریم چند کے بعد بڑے افسانہ نگاروں میں لیا جا سکتا ہے ۔کرشن چندر کی اہمیت اور اُنھوں نے اُدردو ادب کو جو کچھ دیا اسکو اُدردو کا کوئی بھی سنجیدہ قاری نظر انداز نہیں کر سکتا ۔کرشن چندر ایک سمندر ہیں ۔اُنھوں نے بہت لکھا اور جم کر لکھا۔اُنھوںنے مختلف اسالیب میں لکھا ۔انکی زبان میں ایسا رس اور جادو ہے جو کسی اور افسانہ نگار کو نصیب نہیں ہوا۔انکی زبان کی جذبا ت اور، روحانی ہمدردی حصرت پسندی، بہتر سماج کی آرز مندی اور انسان دوستی ایسے عناصر ہیں جو مل مل کر ایسی کائنات کی تخلیق کرتے ہیںجسکے بہت سے حصے اگر چہ وقت کی چھلنی سے چھن کر نا ہید رار پائیں گے ان سے زیادہ کچھ حصے ایسے بھی ہیں جو موجود رہیں گے۔
مجموعی طور پر ہمیں انکے افسانوں میں رومان حقیقت کا ایک دلکش اے مزاح باریکی و فراووانی موجود ہ سماج اور معاشی نظٓم قدرت کے دلکش نظاروں کی دلکش منظر کشی، غریب عوام سے ہمدردی، انتہائی ہمدردی کا جذبہ ملتا ہے، اس کے ساتھ میں ہمیں اُن کے افسانوں میں دلکش افر نگاری اور انسانی نغیات کا عمیق ترین معاملہ بھی بردرجہ اتم ملتا ہے۔کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں ضن کے بہت سے پہلو برتے ہیں اُنھوں نے مختلف موضوعات پر لکھا اور تکنیک میں بھی طرح طرح کے تجربے کئے ہیں۔
مجموعی طور پر ہمیئں انکے افسانوں میں رومان حقیقت کا ایک دلکش امتزاج باریکی و فراونی موجودہ سماج اور معاشی نظام قدرت کے دلکش نظاروں کی دلکش منظر کشی غریب عوام سے ہمدردی، انتہائی ہمدردی کا جذبہ ملتاہے۔اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اُن کے افسانوں میں دلکش رمیزیہ نگاری اور انسانی نفسیات کا عمیق ترین مطالعہ بھی بدرجہ اتم ملتا ہے۔
کرشن چندر کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبہ حقیقت نگاری ہے۔زندگی کی حقیقت کو جسطرح اُنھوں نے سمجھا ویسا ہی اُنھوں نے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔اُنکو اپنے خیالات کے اظہار کے لئے موذوں الفاظ اور موثر انداز ِبیاں با آسانی مل جاتا ہے۔یہ انکے زبان و بیان کی ودرت کی دین ہے۔جو قارتی کے زوق جمال کی تسکین کا باعث بنتی ہے۔اور خود کرشن چندر کی تحریروں میں تازگی شگفتگی رہنمائی دلکشی اور مزرت پیدا کرتی ہے۔ان کا اسلوب غنائی ہے۔انکے تشبیہ و اسقارات انکے اشارے دکھائے اور انکے ساتھ ساتھ ہندی الفاظ کا استعمال ماحول کی مناسبت جمال و جلال جوش و ولولے کا اظہار اور سبک روئی، انکی کہانیوں کے اثر کو بڑھا دیتے ہیں ۔جزئیات نگاری انکے ضن کے لوازمات میں ضرور شامل ہے۔لیکن جزئیات نگاری جب حد سے تجاوز کر جائے تو اسلوب عیب بن جاتی ہے۔
کرشن چندر کے افسانوں کے افسانوں کی ایک خوبیان کا طنز یہ اور مزاحیہ انداز بیاں بھی ہے، جس کی پس پردہ فرقہ ورایت اور لسانی و صوبائی جگھڑوں کی طرف نہایت لطیف اور واضع اشارہ کرتے ہیں ۔اُنھوں نے سماج کو ہمیشی سے ہی لعن طعن کا نشانہ بنا رکھا ہے، کرشن چندر پریم چند پر جہدبشہ غم و غصہ اور غمیض وغضب کی کیفیت طاری ہو جاتہ ہے۔تب یہ طنز اور نکھر جاتا ہے انکے طنز پر افسانوں میں”دو فرلانگ لمبی سڑک،، ” زندگی کے موڑ پر ـ،، ” ان داتا، ، “اردو کا نیا قائدہ،، ” مہا لکشمی کا پُل،، “اجنتا کے آگے،، “ہم وحشی ہیں،، ” ایک گرجا ایک خندق،، ” الٹا درخت،، ” قحط اگائو اور بگوان کی آمد،، وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔
کرشن چندر کے اکثر افسانوں میں گہری افسانویت اور علامت پائی جاتی ہے جس کا استعمال وہ اپنے افسانوں میں ایسی چابک دستی سے کرتے ہیں کہ افسانوں میں ابہام کی کیفیت پیدا ہونے کے بجائے افسانے کے حسن اور اس کی رنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے بعد کے افسانے مثلاً نغمے کی موت، فرنگ چڑیا، شعلہ بے درد وغیرہ میں اشاریت علامت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے انھیں اپنے موضوع پر اتنا عبور حاصل تھا کہ دیکھنے میں غیر مربوط ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مربوط کہانی کی تخلیق کر دیتے ہیں اور تخلیق میں تفصیلات اور جزیات نگاری کے ذریعہ اپنے افسانوں میں دل چسپی برقرار رکھتے ہیں موضوع کے لئے کرشن چندر کو بھٹکنا نہیں پڑتا تھا وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے اورچھوٹے چھوٹے واقعات کو ذہن میں رکھ کر اپنے افسانوں کا موضوع تیار کر لیتے تھے وہ کسی بھی موضوع کو لے کر افسانوں کو خوبصورتی کے ساتھ جنم دیتے تھے۔
کرشن چندر نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی کا ایک حصہ کشمیر کی سر زمین میں گذارا ہے اس وجہ سے ان کیافسانوں میں منظر نگاری کی بڑی اہمیت ہے وہ کشمیر جہاں قدرت ہمیشہ مہربان رہی ہے اور جسے دنا کی جنت قرار دیا گیا ہے انسان وہاں رہے اور اس کی فطری خوبصورتی سے متاثر نہ ہو یہ نہ ممکن ہے۔ فطرت نے کشمیر کو بے پناہ حسن سے مالا مال کیا ہے کرشن چندر بھی وہاں کی جھیل، ابشار کوہسار، خوبصورت عورتیں، شفق کی سرکی، زعفران کے کھیت وغیرہ سے حد درجہ متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں وہاں کے منظر کو جگہ دی ہے وادی ِ کشمیر کے متعلق ان کی منظر نگاری اردو ادب کی جان ہے کرشن چندر کو منظر نگاری میں مہارت ھاصل ہے اور ان کا مشاہدہ منظر نگاری میں بہت تیز ہے اور ان کی باریک بینی کی وجہ سے مکمل نقشہ سامنے آجاتا ہے منظر نگاری میں ان کا کوئی ہمسر نہیں ہےان کی منظر نگاری کو پڑھ کر دل میں فرحت محسوس ہوتی ہے اور روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور بے اختیار منہ سے کلمئہ تحسین نکل جاتا ہے ۔
کرشن چندر کے افسانوں کو پڑھنے سے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے دماغوں سے زیادہ ان کے دلوں کو ٹٹولنے اور سمجھنے کے عادی ہیں وہ دنا کے ظلم ستم کے خلاف برسرِ پیکار ہونا چاہتے ہیں انہوں نے اپنے افسانوں مین جملہ انسان دشمنوں کے خلاف بغاوت کا علان کیا ہے ان کے افسانوں میں تکنیک کا انوکھا پن چھپا ہوا ہے اکثر افسانوں میں پلاٹ نہیں ہوتا اس فنی تجزیہ میں وہ کامیاب ہوئے وہ ہمیشہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت لکھتے تھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے بیشتر افسانوں کے پلاٹ ان کا دل نہین بلکہ دماغ تیار کرتا ہے ان کے افسانوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے احساس اور وجود کو پلاٹ سے زیادہ اہم تصور کرتے ہیں ۔
کرشن چندر کے قلم میں وہ طاقت تھی کہ جس طرف بھی چلتی موتیوں کی لڑی پرع دیتی تھی” جرا اور جری،، میں انہوں نے گائوں کے ماحول کو پیش کیا ہے اور وہ بھی خاص کر وادیِ پونچھ کے گائوں کا جہاںانہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا وہ زندگی بھر ان حسین لمحوں کو نہیں بھول پائے جو انہوں نے اس جگہ گذارے اپنے اس رومانی افسانے میں انہوں نے پونچھ کے سچے محبت کرنے والوں کی ایسی کہانی بیان کی ہے جس کا اختتام خوشی پر اور محبت کی کامیابی پر ہوتا ہے چونکہ کرشن چندر نے اپنا لڑکپن اور جوانی کشمیر جنتِ بینظیر میں گذارا تھا اور وہاں کی فضا کی دلکشی، رنگینی اور رعنائی نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے تھے جو آخری دم تک ان کے فن میں رہ کر ابھرتے ہیں اور ان کی تخلیقات کے حسن کو دوبالہ کرتے ہیں۔
Dr. Dil Pazeer R/O fatehpur
Teh. Mandi Distt. Poonch
Mobile No. 08803267734
Leave a Reply
Be the First to Comment!