جوگندر پال کی افسانہ نگاری مصنف: ابو ظہیر ربانی

ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی معاصر ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریریں ملک کے معروف ادبی جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہی ہیں۔  فکشن تنقید ان کا خاص میدان رہا ہے۔  زیر نظر کتاب بھی ایک اہم افسانہ نگار جوگندر پال کی افسانہ نگاری پر ہے۔  ڈاکٹر ابو ظہیر ربانی نے جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی سے جوگندر پال کی افسانہ نگاری پر ایم فل کیا تھا۔ یہ ان کی دلچسپی ہی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس مقالہ کو نئے سرے سے ترتیب دے کر کتابی شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔

مصنف نے کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

1۔ جوگندر پال : شخصیت اور عہد

2۔ جوگندر پال کے افسانے: فکری وفنی تجزیہ

3۔ جوگندر پال کی انفرادیت

جوگندر پال کی افسانہ نگاری

مصنف: ابو ظہیر ربانی   صفحات: 164

قیمت: 200     ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

مبصر: ڈاکٹر عزیر احمد

ISBN: 978-93-5073-350-9

پہلے باب میں انہوں نے جوگندر پال کی زندگی کے احوال درج کیا ہے جس میں سرسری طور پر معاصر ادبی صورتحال کو بھی بیان کیا ہے تاکہ جوگندر پال کی انفرادیت کا خاکہ قاری کے ذہن پر  قائم ہوسکے۔ جوگندر پال کی زندگی کے احوال بھی کسی ناول یا افسانہ  سے کم نہیں ہے۔ ان کا تعلیمی سفر، تعلیم کے بعد بے روزگاری، شادی کی دلچسپ روداد، بیرون ملک ملازمت اور پھر جوانی کے ایام میں ہی رٹائرمنٹ پھر ہندوستان واپسی۔ یہ سب کچھ اتنا دلچسپ ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ جب افسانہ نگار کی زندگی کی روداد اتنی دلچسپ ہے تو ان تجربات کو بھٹی میں تپاکر اس نے جو افسانے لکھے ہوں گے وہ کس نوعیت کے ہوں گے؟ اچھی بات یہ ہے کہ انہوں معاصر ادبی صورتحال میں صرف انہی چیزوں کو لیا ہے جو واقعی اہم ہیں غیر ضروری تفصیلات سے کتاب کو بوجھل نہیں بنایا ہے۔ دوسرے باب میں انہوں نے جوگندر پال کے افسانوں کا مختلف جہتوں سے مطالعہ کیا ہے۔  سماجی، تہذیبی اور فکری فضا، فنی اور تکنیکی جہتیں، پلاٹ، کردار، زبان واسلوب اور تکنیک جیسے موضوعات قائم کرکے انہوں نے جوگندر پال کی افسانوی کائنات کی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔  ڈاکٹر ابوظہیر ربانی کا ماننا ہے کہ  پال کے افسانے سوچے سمجھے پلاٹ کے تحت نہیں ہیں بلکہ وہ تمام پابندیوں سے آزاد ہیں۔  انہوں نے پلاٹ اور واقعات سے زیادہ زور کرداروں کے ذہنی رویوں کو دیا ہے۔  جوگندر پال کی زیادہ تر کہانیاں علامتی اور تجریدی ہیں۔  لیکن ان کے افسانے قاری کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ انہوں نے انہی پہلوؤں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے جو جس کا انہوں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔

جوگندر پال اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن انہوں نے کہانیوں کی شکل میں جو کچھ ہمیں دیا ہے اور اردو کے ادبی سرمائے بیش بہا اضافہ ہے۔ ان کی افسانہ گاری پر اب تک کوئی مستقل کتاب نہیں  تھی ۔ ڈاکٹر ارتضی کریم نے بہت پہلے جوگندر پال کے فن پر ایک کتاب مرتب کی تھی جس میں مختلف اہل قلم کے مضامین شامل تھے۔ لیکن یہ کتاب اگرچہ اپنے موضوع میں اہم ہے لیکن جوگندر پال کی زندگی اور فن کا مکمل احاطہ نہیں کرتی تھی۔ ابو ظہیر ربانی کی یہ کتاب کسی حد اس کمی کا ازالہ کرے گی۔  امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب جوگندر پال کے فن کی تفہیم میں معاون ثابت ہوگی۔

جوگندر پال نے کہا تھا:

“مجھے یقین ہے کہ میی کتھا یاتر سدا جاری رہے گی، ہاں، میرے بعد بھی جاری رہے گی۔ کیوں کہ جو بھی اسے جاری رکھے ہوگا اس کی بدولت میری خواہش ہی پوری ہورہی ہوگی۔”

ابو ظہیر ربانی کی یہ کتاب حقیقی معنوں میں اس عظیم فن کار کو خراج عقیدت ہےاور والوں کے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ امید ہے کہ ادبی حلقوں میں یہ کتاب پذیرائی حاصل کرے گی۔

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.