ن۔ م۔ راشد کی شاعری-ایران میں اجنبی کے حوالے سے

ڈاکٹر شاہ عالم

اسسٹنٹ پروفیسر

ذاکر حسین دہلی کالج، دہلی

                  ن۔م۔راشد کا دوسرا شعری مجموعہ ’ ایران میں اجنبی‘ (1955) میں شایع ہوا ۔راشد نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’ماورا‘ (1942) کی اشاعت سے ہی ادبی دنیا میں اپنی شنا حت قائم کر لی ۔انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا میں یہ واضح کر دیا کہ ان کی شاعری روایتی اور مرو جہ طرز فکر اور طرز اظہار کی پابند نہیں ہے۔ راشد کے تجربے اس عہد کے ادبی منظر نامے پر ایک جرات مندانہ قدم تھے۔ حالی اور آزاد سے ن ۔م۔راشد تک گرچہ اردو نظم میں بالخصوص موضوعات کی سطح پرنمایاں تبدیلی نظر آتی ہے،لیکن ہیئت اور اسلوب کی سطح پر تبدیلی کا رجحان نظر نہیں آتا۔ راشد کی شاعری رو ایتی شاعری سے انحراف کی شاعری ہے ۔ راشد کی شاعری اپنی طرزِ فکر اور طرزِ اظہار دونوں اعتبار سے اس عہد کے ادبی مزاج سے بالکل الگ تھی۔ راشد ایک اجتہاد پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری سے ادبی حلقہ میں ایک نئی بحث کا آغازہوا اور ہیئت و اسلوب کے تجربوں کے حوالے سے مختلف خیالات سامنے آئے۔ دراصل راشد اپنے عہد کے مسائل کوجس انداز سے دیکھ رہے تھے، اس کے اظہار کے لیے ہیئت و اسلوب کے بنے بنائے سانچے ناکافی معلوم ہوے۔ راشد نے ان مسائل کے اظہار کے لیے نئے پیرائے تلاش سے گریز نہیں کیا۔آزاد نطم کی گرچہ راشد کی اخترع نہیں لیکن اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے ان کی پہچان ایک ہیئت پسند شاعر کے طور پر قائم ہوئی۔ بلاشبہ راشد کے یہاں ہیئت کے تجربوں کی بڑی اہمیت ہے۔ انھوں نے اظہار کے لیے تجربوں سے کبھی گریز نہیں کیا۔ لیکن راشد کے یہاں ہیئت و اسلوب کے تجربے برائے تجربہ نہ تھے بلکہ وہ ایک گہرے شعور کا نتیجہ تھے۔ بہ قول راشد:

’’میں سمجھتا ہوں کہ ہیئت یا تکنیک کو دین و ایمان سمجھ لینا کسی طرح مناسب نہیں تکنیک کی کسوٹی شاعر کا خلوصِ اظہار ہے۔ اگر کوئی مضمون اس قابل نہیں کہ اس کے لیے مناسب طریقِ اظہار تلاش کیا جائے تو وہ بے کار ہے۔ اگر نئے طریقِ کار کا جواز مضمون کے اندر نہیں ملتا تو تکنیک محض داؤں پیچ بن کر رہ جاتی۔‘‘ (لا= انسان: ن م راشد، ص 20)

’’ لا محالہ ادبیات میں نئے اصنافِ سخن کا رائج کرنا بنفسہٖ کوئی شاندار کارنامہ نہیں اور کبھی کسی ادیب کو یہ امید بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ اس کو صرف اس وجہ سے ادبیات میں کوئی پائندہ حیثیت نصیب ہوگی کہ اس نے نئے اصناف سخن کو تلاش کی یا ان کی ترویج میں کسی جدت کا مظاہرہ کیا………… قابلِ فخر بات تو صرف یہ ہے کہ اولاً خیالات اور افکار میں اجتہاد ہو پھر نئے خیالات اور افکار اسلوبِ بیان کے ساتھ اس قدر ں مکمل طور پر ہم آہنگ ہو ں کہ اس ہم ا ٓہنگی سے ادیب کی انفرادیت آشکار ہوسکے۔‘‘                                                                                                                                                                                     (ماورا۔ ن۔ م۔ راشد، ص 27)

 راشد کی شاعری نہ صرف اس لیے توجہ طلب ہے کہ انھوں نے ہیئت و اسلوب کے تجربے کیے اور آزاد نظم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ان کی شاعری فکری اعتبار سے بھی اپنے معاصرین کی شاعری سے منفرد و بلند ہے۔ راشد کو اپنے موقف کی وضاحت کی ضرورت اسی لیے پڑی کہ ان کی شاعری مروجہ شاعری سے الگ تھی۔ اقبال کے بعد راشد اکیلا شاعر ہے جس کے یہاں مشرق ایک مستقل موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ مشرق کو بحیثیت موضوع اس طور سے شاعری میں برتنے کی مثال ان کے ہم عصروں یا بعد کے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ راشد کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ راشد کی دلچسپی مشرق وسطی کی زندگی اور وہاں کے مسائل گہر ی رہی ہے، اور ان کی شاعری کا بڑا حصہ اسی پس منظر سے مربوط ہے۔ بالخصوص ایران سے راشد کی وابستگی بہت گہری تھی۔ قیامِ ایران کے دوران راشد نے ایران کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور وہاں کی سیاسی،سماجی، تہذیبی اور معاشی صورتِ حال کو بہت قریب سے دیکھا۔ بہ قول راشد:

’’ایران نے راقم الحروف کے ذہن پر ایک مستقل اثر چھوڑا ہے اور اس ملک کے ساتھ ایک لازوال محبت اور شیفتگی پیدا کردی ہے لیکن ’ایران میں اجنبی‘ جذبات کی اس کشمکش کے تجزیے کی ایک کوشش ہے جو خاص سیاسی حالات نے پیدا کردیے تھے۔ یہ بکھرے ہوئے نقوش اس زمانے کی سیاست کے پردے پر بنائے گئے ہیں۔‘‘

 (ایران میں اجنبی۔ ن۔ م۔ ر اشد، ص 143)

 ایران میں اجنبی کی شاعری پر نظر ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری کا اپنے عہد کے زندہ مسائل سے گہرا سرورکار رہا ہے۔ ان کی شاعری کی تشکیل میں سیاسی، سماجی، تہذیبی اور معاشی موضوعات کی بڑی اہمیت ہے۔ راشد شاعری کو شعبدہ بازی ، ذہنی تلذذ اور شبیہ سازی سے الگ وسیع تر انسانی صورت حال کا ترجمان بنانا چاہتے تھے ۔ بہ قول راشد :

’’ہمارے دور میں جب دنیا کی خوفناک ترین جنگ برپا تھی اور اس جنگ کے اسباب اس سے بھی خوفناک تھے۔ شاعری کے ذریعے محض ذہن کے اسرار دریافت کرنے کی کوشش کرنا یا فن کو لفظی جادوگری کا وسیلہ بنانا یا اپنے عشق کے غم و غصہ کی مجرد پیروی کرتے رہنا ایک ابدی انسانی فریضے سے کنارہ کشی اختیار کرنا تھا۔‘‘

                (ایران میں اجنبی۔ ن ۔م۔ راشد، ص 3)

’ایران میں اجنبی‘ کی نظموں میں اجتماعی ذمہ داری کا احساس بہت نمایاں ہے۔ راشد کی شاعری آشوبِ زیست کی مختلف سطحوں سے واسطہ رکھتی ہے۔ ایرا ن میں اجنبی کی نظموں میں سیاسی اور سماجی مسائل کے ادراک کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ مشرق سے ذہنی موانست اور جذباتی لگاؤ کے سبب راشد نے ان مسائل کو زیادہ شدت سے محسوس کیا۔ انھوں نے ان اسباب کا سراغ لگانے کی کوشش کی جن کے باعث مشرق زوال اور انحطاط کا شکار ہے۔ ایران میں قیام کا زامانہ راشد کے لیے نہایت صبر وآزما تھا۔ یہاں راشد انگریزی حکومت کے نمائندے کے طور پر مقیم تھے۔ ایک غلام ملک کا باشندہ جو آزادی کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہو کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہی غلامی اور استعماریت کا محافظ بنا ہوا تھا ۔ وہ بھی ایران جیسے ملک میں جس سے اس کی جذباتی وابستگی بہت گہری تھی۔ ایران میں اجنبی کی نظموں کا تعلق بالخصوص ان مسائل سے ہے جو ایران میں اجنبی فوجوں کے سبب پیدا ہوے تھے۔ راشد نے ایران کی سیاسی، سماجی تہذیبی معاشی اور اخلاقی زندگی کی مختلف سطحوں پر رونما ہونے والے انحطاط کو اپنی شاعری کی موضوع بنایا ہے۔ راشد نے خارجی واقعات کی تصویر کشی میں اندازِ بیان معروضی نہیں رکھا۔ بلکہ انھوں نے خارجی مسائل کو اپنے وجود کی داخلی سطح سے ہم آہنگ کیا ہے۔ ان نظموں میں ذہنی و جذباتی کشمکش اور اضطراب کی صورت حال بہت شدید ہے۔ ’ایران میں اجنبی‘ کے تیرہ کا نتو گرچہ ایران کی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور اقتصادی صورتِ حال کا بیان ہے لیکن اس کے آئینے میں ہم پورے مشرق کی زبوں حالی کی تصویردیکھ سکتے ہیں۔یہ مثال ملاحظہ کیجیے:

اسی روح شب گرد کا

اک کنایا ہے شاید

یہ ہجرت گزینوں کا بکھرا ہوا قافلہ بھی

جو دستِ ستمگر سے مغرب کی، مشرق کی پہنائیوں میں

بھٹکتا ہوا پھر رہا ہے!

خدا حافظ، اے ماہتابِ لہستاں!

یہی اک سہارا ہے باقی ہمارے لیے بھی

کہ اس اجنبی سرزمیں میں

ہے یہ ساز و ساماں بھی گویا

ہوا کی گزرگاہ میں اک پرِکاہ!

بکھر جائے گا جلد

افسردہ حالوں کا، خانہ بدوشوں کا یہ قافلہ بھی

اور اک بار پھر عافیت کی سحر

اس کا نقشِ کفِ پا بنے گی!

(دستِ ستمگر، ایران میں اجنبی)

…….

یہ طہران جو تیرے خوابوں میں

پاریس کا نقشِ ثانی تھا

یوں تو یہاں رہگذاروں میں

بہتا ہے ہر شام سیما فروشوں کا سیلاب جاری

یہاں رقص گاہوں میں اب بھی

بہت جھلملاتی ہیں محفل کی شمعیں

یہاں رقص سے چور

یا جام و بادہ سے مخمور ہوکر

وطن کے پجاری

بآہنگ سنتور و تار و دف ونے

لگاتے ہیں مل کر

’’وطن! اے وطن‘‘ کی صدائیں!

مگر کون جانے یہ کس کا وطن ہے؟

                (کیمیاگر،ایران میں اجنبی)

ایک مصاحبے میں راشد نے ایران میں اجنبی کی نظموں کے بارے میں کہا تھا:

’’ان نظموں کا مقصد یہ تھا ہی نہیں کہ ان کے ذریعے کوئی خواب آگیں کیفیت پیدا کی جائے بلکہ حالات کی اس دُرُشتی کی طرف توجہ دلانا تھا جس کے ہم سب ایشیائی اس وقت شکار تھے۔ اس اخلاقی اور نفسیاتی زوال کی طرف شارہ کرنا تھا جو جنگ، آمریت، اجنبی حکومت، استعمار، بیرونی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ کہیں بھی کسی قوم میں بھی پیدا کردیتی ہے۔‘‘                                                                                                                    (لا=انسان، ن ۔م۔ راشد، ص 29)

 دراصل یہ دور ایشیائی ممالک کی غلا می اور استعماریت کا دور تھا۔ اس وقت غلامی اور استعماریت ایشیائی ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ تھی۔ ایران بلکہ پورے مشرق کی صورت حال پر راشدکی گہری نظر تھی۔ پوری قوم جس جبرکا شکار تھی اس کی پیدا کردہ صورتِ حال کا اظہار ان نظموں میں نمایاں ہے۔ خالد، یاسمین، حسن کے کردار اپنے ضمیر کے خلاف عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ دستِ ستم گر، تیل کے سوداگر، من و سلویٰ، سومنات، نارسائی، درویش وغیرہ نظموں میں راشد نے احساسِ غلامی اور زوال کا بیان کیا ہے۔ ’سبا ویراں‘ مشرق کی ابتری اور انتشار کا جاں گداز توجہ ہے نیز ایک تہذیب کے نقطۂ کمال تک پہنچ کر رو بہ زوال ہونے کی انتہا کی داستان ہے۔ ’ایران میں اجنبی‘ اور بعد کی نظموں میں زوال کا شدید احساس بہت نمایاں ہے۔ سبا ویراں کا یہ حصہ دیکھیے:

سلیماں سربزانوں اور سبا ویراں

سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

سبا آلام کا انبارِ بے پایاں

 گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی                                                                                                  ہوائیں تشنۂ باراں،

طیور اِس دشت کے منقار زیرِ پر

تو سرمہ درگلو انساں

سلیماں سربزانوں اور سبا ویراں

(سبا ویراں، ایران میں اجنبی)

اس دور کی نظموں میں اجتماعی زندگی کے انحطاط کا احساس بہت قوی ہے۔ گرد و پیش کی دنیا اور سیاسی و سماجی مسائل کا احساس گرچہ بہت شدید ہے لیکن راشد کا اندازِ نظر روایتی طرزِ فکر سے بہت مختلف ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے زوال کو راشد نے ایک داخلی رنگ عطا کیا ہے۔ اس دور کی نظموں کے کرداروں کی ہم کلامی اور خود کلامی سے اس عہد کے انسانوں کی زندگی کے درد و کرب کو بیان کیا ہے ۔ ان کی نظموں کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر آب بیتی کا بیان کررہا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے ان نظموں میں ایک زخمی روح اور مجبور و بے بس انسان کی آواز ہمیں صاف سنائی دیتی ہے:

یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے

مگر اس زمیں سے خدایا رہائی

خدا یا رہائی!!

ٹھکانہ ہے لوطی گری،رہزنی کا

یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں

فقط شاخساریں

ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں

                          (نارسائی،ایران میں اجنبی)

راشد نے سیاسی، سماجی، تہذیبی اور معاشی مسائل کو صحافتی انداز میں بیان نہیں کیا ہے، ان مسائل کا اظہار ترقی پسند شاعروں کے یہاں کثرت سے موجود ہے۔ دراصل راشد اس طرزِ کا سیاسی اور سماجی شاعر نہیں جس کی اس زمانے میں بہتات تھی۔ راشدنے اس عہد کے انسانوں کی زبوں حالی اور بے بسی کو داخلی سطح پر محسوس کیا۔ داخلی دنیا کے ارتعاش جو کہ خارجی مسائل کا نتیجہ ہیں اسے گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گہری سیاسی، سماجی وابستگی کے باوجود راشد کو سیاسی وسماجی شاعروں میں شمار نہیں کیا گیا۔ خود راشد کو یہ شکایت تھی:

’’میرے لیے یہ تسلیم کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے کہ ترقی پسندوں کو میری نظموں میں اجنبی حکومت یا استعمار کے خلاف آواز کیوں نہیں سنائی دیتی۔ یہ مذہبی، ریاکاری، آمریت اور معاشرتی اور جذباتی پابندیوں کے خلاف میرے شدید ردعمل کو انھوں نے کیوں نہیں محسوس کیا۔ جب کہ اس قسم کے افکار انھیں ہمیشہ عزیز رہے ہیں اور بعض مسائل پر میرا نقطۂ نظر ان کے اپنے اندیشوں اور ارمانوں سے دوربھی نہیں۔‘‘

                                                                                     (لا=انسان، ن۔م۔راشد ۔ ص 32)

راشد کی نظموں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں ایک اضطراب آسا ذہن کی کارفرمائی موجود ہے۔ ان کی ابتدائی دور کی نظموں میں درد و کرب اور ہیجانی کیفیت کا احساس ہوتا ہے لیکن ایران میں اجنبی کی نظموں میں راشد کا شعور خارجی اور داخلی دونوں سطحوں سے زیادہ گہرا رشتہ استوار کرتا ہے۔ راشد ہمارے ان جدید شاعروں میں ہیں جن کے یہاں سیاسی اور سماجی، مسائل سے گہری وابستگی ملتی ہے۔ راشد کی تجربہ پسندی خواہ کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، انسان کے خارجی اور داخلی دونوں طرح کے مسائل سے ان کا رشتہ ضرور قائم رہا ہے۔ ان کے مجموعوں میں ’ایران میں اجنبی‘ کا مرتبہ فکری اور فنی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال کے بعد اپنی مشرقیت کے حوالے سے راشد ہمارے اہم ترین نظم گو شاعر کہے جاسکتے ہیں۔

٭

Dr. Shah Alam

Dept of Urdu,

Zakir Husain Delhi College (University of Delhi)

J N Marg, New Delhi – 110002

Mob.: 09868669498, Email.:salamzhc@yahoo.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.