فیض احمد فیضؔ؛انسانی اقدار کا محافظ
Abstract:-
Human values are the principles,standards,convictions and beliefs that people adopt as their guidelines in daily activities.They are a set of consistent measures and behaviours that individuals choose to participate in the persuit of doing.Faiz Ahmad Faiz,the charismatic and eternally living name,was driven close to people by his progressive thoughts and the concern to steer the pain-
staking society out of misery.His verses stirred the public to seek emancipation from the constructed social bonds of feudalism,misinterpreted religious
discourses,extreme class and ethnic polarisation.The philosophy of Faiz is a revolt against the acquistion forces and imbalanced ranks of society.He is the guardian of human values and believed in them in their highest form.This article throws light on how Faiz is concerned about the humiliation of human values and how he interpreted them in his poetry.
ترقی پسند تحریک(۱۹۳۶)پہلی باقاعدہ تحریک ہے جس کی بدولت عوام کی رسائی ادب تک ممکن ہو سکی۔اس تحریک کا بنیادی مقصد زبان و ادب کو عوام کے قریب لانا،عوام سے اس کا رشتہ مضبوط کرنا اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اُجاگر کرناتھا۔اس تحریک سے وابستہ شعراء نے کم و بیش اسی عمل کو انجام دینے کی کوشش کی۔چونکہ ہر شاعر اپنے عہد کا عکاس ہوتاہے،وہ جس ماحول اور معاشرے میں سانس لیتا ہے اس کے اثرات اس کے دل و دماغ پراثر انداز ہوتے ہیں اور وہ وہی کچھ اپنے فن میں پیش کرتا ہے جو وہ اپنے اردگرد حاصل کرتا ہے کیونکہ کوئی بھی حساس ذہن اپنے گردوپیش سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔شاعر اپنے تجربات و مشاہدات کو اوروں تک پہونچانے کا کام کرتا ہے۔ البتہ جو شاعر اپنے تجربات و مشاہدات کو صرف اپنے معاشرے تک محدود نہ رکھ کر پوری دنیا پر محیط کرتا ہے ادب میں اس کی ذات آفاقی حیثیت کی حامل بن جاتی ہے۔ جن ترقی پسندشعراء نے اپنے تجربات و مشاہدات میں پوری عالمِ انسانیت کو شریک فرمایا اور عوام و خواص کے دلوں میں حیاتِ جاوداں پائی ان میں فیض احمد فیض ؔکا نام سرفہرست ہے۔
فیض احمد فیض ؔ(۱۹۱۱ئ۔۱۹۸۴ئ)عہد حاضر کے معتبر،ممتاز اور منفرد شاعر ہیں جن کے اثباتی نقطٔ نظر نے استحصالی قوتوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور اپنی تمام تر صلاحیتوں اور تخلیقی کاوشوں کو انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود کی خاطر وقف کر دیا۔ان کے زاویۂ فکر میں اعلیٰ انسانی اقدار کا رنگ نمایاں ہے۔انہیں انسانی اقدار کے کھو جانے کا نہ ضرف غم ہے بلکہ اس کی بازیافت کی خاطر ہر آلام و مصائب برداشت کرنے کے لئے بھی تیار ہیں ۔دنیا میں کہیں بھی ظلم و استبدادہوتا ہے فیض احمد فیض ؔکا درد مند دل بے چین ہو جاتا ہے۔ان کی شاعری میں اس درد وکرب کی کسک محسوس کی جا سکتی ہے:
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
(رقیب سے۔نقش فریادی)
راحت سعد فیض کی شخصیت کے اس پہلو کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:۔
’’فیضؔ کی ساری شعوری زندگی دکھی انسانیت کے لئے مرہمِ الفاظ مہیا کرنے،مظلوموں کے لئے
ظالموں سے پنجہ آزمائی کی جرأت دلانے،خوشگوار مستقبل کی نوید سنانے اور جیتی جاگتی محبتوں اور
الفتوں کی نغمہ خوانی میں گزری‘‘۔
فیض احمد فیض ؔکی شاعری میں انسانی زندگی کے تمام نشیب و فراز نظر آتے ہیں ۔انہوں نے ظلم کرنے والی قوتوں کی شناخت کی اور مظلوموں کے مسائل میں جھانکنے کا بھیڑا اُٹھایا۔فضؔ نے اپنی شاعری میں نہ صرف اپنے دل کی دنیا بسائی بلکہ سماج میں جینے والے ان لوگوں کے دکھ درد اور آنسوں کی سچی تصویریں پیش کیں جن کی طرف اب تک ہماری نگاہیں نہیں پہنچی تھیں اور انہوں نے نہ صرف ان کے دکھ درد کو محسوس کیا بلکہ ان کوجینے کا حوصلہ بھی بخشا۔بلا شبہ فیضؔ کی شاعری صرف حسن و عشق تک محدود نہیں ہے بلکہ کاروبارِ ذیست کی ترجمان بھی ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کو خوابوں کی دنیا تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ان تمام دبے کچلے اور حاشیے پر کھڑے لوگوں کی آواز بنا دی جن کی آواز اب تک صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھی۔فیضؔ کی شاعری میں جہاں ایک طرف جذبات کا سیلِ رواں ملتا ہے وہیں دوسری طرف انسان سے انسان کی اٹوٹ محبت اور اس اٹوٹ رشتے کا احساس بھی ہر لمحہ ہوتا ہے۔دراصل یہی احساس انسانیت کی اساس بھی ہے اور میراث بھی۔آزادی ٔ فکر،آزاد یٔ اظہار،احترام ِ آدمیت اور انسانی اقدار کی پاسداری،یہ وہ عناصرہیں جو فیض کی آواز کو ایک مخصوص نظریے ہی کی نہیں بلکہ ایک عہد کی توانا آواز بناتے ہیں ۔بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:۔
’’فیض جبر و استحصال کے دشمن تھے۔عدل و انصاف کے داعی تھے۔عوام کو انسانی قوتوں کا سر چشمہ
سمجھتے تھے۔وہ عوام جن سے قوموں کی کھیتیاں سرسبز و شاداب ہو جاتی ہیں ۔صنعت و حرفت پھلنے
پھولنے لگتی ہے اور زندگی کے چشمے ابلنے لگتے ہیں ۔ان کی شاعری عوام کی اسی قوت کی ترجمان ہے۔‘‘
(معاصر ادب۔ص۲۲۰)
جب فیص احمدفیض ؔ کی نظرزندگی کے تضادات پر پڑتی ہے جہاں ایک طرف گہرائی ہے تودوسر ی طرف بلندی،غم کے ساتھ خوشی کا احساس،زندگی کی تلخیاں ،اس کے گردونواح میں روتی بلکتی انسانیت،غموں سے نڈھال سسکتی ہوئی مخلوق،لاچار،مجبور،دو وقت کی روٹی کے لئے جسے مہینوں اور سالوں جانوروں کی سی محنت کرنی پڑتی ہے توان کا حساس دل اور ان کی انسان دوستی اقرار کرتی ہے کہ :
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
فیض احمدفیضؔ نے اپنی شاعری میں محبت اور انسانیت کی چاشنی گھول کر اس کو لوگوں کے جنون کی خاطر عوام میں بانٹ دیا ہے اورہر عام آدمی اس میں شامل نظر آتا ہے۔یہی انسانیت کی روح ہے۔دراصل فیضؔ اس انسانیت نواز روایت سے تعلق رکھتے ہیں جو ہزاروں سالوں سے برصغیر ہندوپاک کی سرِزمین کا خاصہ رہی ہے،جسے بابافرید،امیرخسرو اور دیگر صوفیوں اور سنتوں نے فیض بخشا ہے۔اسی روایت کا فیض ہے کہ فیضؔ کی تخلیقات میں استحصال شدہ انسانوں کے دردوالم کے ساتھ ان کا اپنا غم کچھ اس طرح تحلیل ہو جاتا ہے کہ اس میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔دورکا پرساد چارومتر اپنے مضمون میں فیض ؔکی اس خصوصیت کے متعلق لکھتے ہیں :۔
’’ فیضؔ نے (اردو کی)انسانیت نواز روایات کو اپنے ترقی پسندخیالات اور انقلابی جذبے کے ذریعہ
پروان چڑھایاہے۔انسانیت کے حمایتی فیضؔ ناانصافی و استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں ۔
یہ آواز شاعر کی آواز تو ہے ہی،شاعری کی بھی آواز ہے اور یہی آواز جب سفر پر نکلتی ہے تو عوام کی آواز
بن جاتی ہے‘‘۔
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔگلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فیضؔ پوری نوعِ انسانیت کی آزادی اور خوش حالی کے لئے بے قرار نظر آتے ہیں ۔وہ پوری انسانیت کو حقیقی بلندی پر پہنچا کران تمام بہیمانہ طلسمات سے نجات دلانا چاہتے ہیں جو انسانیت کے لئے نا صور بن چکے ہیں ۔انہوں نے انسانی اقدار کی بازیافت کو بڑے سلیقے سے اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔وہ وسیع تر انسانیت کے مفاد کی خاطر قومی و بین الاقوامی سطح کے ان تمام واقعات کو شاعری میں ڈھالتے رہے جن سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے نئے دروازے کھل سکیں ۔فیضؔ اپنے قلبی واردات کا اظہار جس والہانہ انداز میں کرتے ہیں اسی تیور میں وہ آزادی،مساوات،غربت،سماجی پستی اور استحصال کو بیان کرتے ہیں ۔ان کا دردوغم محدود نہیں بلکہ عالمگیر وسعت کا حامل ہے جس میں نویدِ صبح کا مژدہ بھی ہے اور مظلوموں کی حمایت بھی۔حق وصداقت کی طرف داری میں فیضؔ کے قدم کبھی نہیں لڑکھڑائے۔ انہوں نے انسان دشمن قوتوں کے ساتھ جنگ اس یقین کے ساتھ لڑی کہ بالآخر فتح سچ کی ہو گی اور انسان دشمن قوتیں ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو پہنچیں گی۔وہ تلخ سچائیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ان کی شاعری میں مزاحمتی رویہ مثبت اندازِفکر کا حامل ہے جو ہمیشہ نسلِ انسانی کو حرکت اور عمل پر آمادہ رکھے گا کیونکہ دکھی انسانیت کے لئے رجائیت سے بھرپور شاعری مرہم کا کام کرتی ہے:
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
(زنداں کی ایک شام۔دست صبا)
فیض احمد فیض کی انسانی ہمدردی کے متعلق احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں :۔
’’فیض کو سامراج سے نفرت ہے۔سرمایہ داری اور جاگیر داری سے نفرت ہے۔گنے چنے انسانوں
کے ہاتھوں کروڑوں انسانوں کے سفاکانہ استحصال سے نفرت ہے۔جبر اور ظلم سے نفرت ہے۔اتنی
بہت سی نفرتیں جب اظہار پاتی ہیں تو شاعری میں چیخوں اور فریادوں سے کان پڑی آوازیں سنائی
نہیں دیتیں ،مگر فیض کے ہاں شور کی کوئی کیفیت ہے ہی نہیں ۔دراصل ان سب نفرتوں پر فیض کی بنی
نوع انسان سے محبت آسمان کی طرح چھا گئی۔یہ ساری نفرتیں فیض کی ہمہ گیر انسان دوستی کی لپیٹ
میں آگئی ہیں اور یوں فیض کی مقصدی شاعری اس اعلیٰ معیار کی شاعری ہے جس کے علاوہ کوئی اور
معیار ابھی تک انسانی ذہن کو سوجھا نہیں ۔‘‘
(شبستان،فیض نمبر۔ص۸۹)
اس طرح ہم فیضؔ کی شاعری میں انسانی اقدار کا نکھرا ہوا روپ دیکھتے ہیں ۔ان کے یہاں عالمی اخوت، جبرو استحصال سے نجات جیسے موضوعات میں عالمگیر اعلیٰ انسانی قدریں ہیں ۔ان کی شاعری میں مجبوروں اور مظلوموں کی آہیں اور کراہیں براہِ راست سنائی دیتی ہیں ۔فیضؔ نے محبت کے جذبات کو انقلابی جستجو کے ساتھ جوڑا اور اس نظام کے سماجی اور جذباتی رشتوں کا اصل روپ بھی اپنی شاعری میں پیش کیا۔انہوں نے سماج کی محرومی،بیگانگی اور سرمایہ دارانہ استحصال کو انتہائی شائستگی مگر مضبوط اور واضح انداز میں نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی لڑائی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔شروع سے آخر تک ان کی شاعری آج بھی استحصالی نظام کے خلاف برسرپیکار انقلابیوں کو نیا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے:
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھُوم کے اُٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو،بازو بھی بہت ہیں ، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈھیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اُٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
(ترانہ۔دست صبا)
فیضؔ نے اپنی شاعری سے انسانی برادری کو جو حوصلہ بخشا ہے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی جو طاقت بخشی ہے اس کی مثال شازونادر ہی دکھائی پڑتی ہے۔
فیض احمدفیضؔ نے حقِ آزادی،انسان دوستی،حب الوطنی،انسانی قدروں کی پامالی،سماج کی ریاکاری، سیاسی مفادپرستی اور پھیلتے سامراجی نظام وغیرہ کو نہ صرف اپنی شاعری کا موضوع بنایا بلکہ ان موضوعات کی پیش کش میں اپنے ہم عصروں سے سبقت بھی لے گئے۔ فیضؔ تمام عمر اُن طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے جو انسانی قدروں کو طرح طرح سے پامال کررہے تھے۔قوموں میں ہم آہنگی،امنِ عالم کی تلقین،اخلاقی قدروں کی بازیابی اور تحفظِ انسانیت ان کا مقصدِ حیات تھا۔بقولِ قمر رئیس:
’’فیضؔ نہ صرف برصغیر بلکہ ساری دنیا کے امن دوست محنت کش انسانوں کی زندگی اور ایک بہتر مستقبل
کے لئے ان کی جدوجہد سے ان کا رشتہ استواررہا۔ایشیا،افریقہ،لاطینی امریکہ کے کروڑوں انسان،
فلسطینی مجاہدین اورخود برصغیر کے عوام ظلم و تشدد اور استحصال کے شکنجوں سے آزادی کے لئے جو مقدس
جدوجہد کر رہے ہیں ،جو قربانیاں دے رہے ہیں ،ان کا رزمیہ آہنگ فیضؔ کی شاعری کے رجائی اور
غنائی لب ولہجہ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ایسالگتا ہے جیسے وہ خود اس موجِ خون سے گذر رہے ہیں ۔
دبے کچلے انسانوں سے انہوں نے اس وفور سے پیار کیا ہے جس والہانہ شیفتگی سے انہوں نے اپنی
محبوباؤں کو چاہا ہے۔ظلم وجبر کے خلاف احتجاجی نظمیں لکھنا یا دنیا کے غم کو اپنانے کا دعویٰ کرنا ایک بات
ہے لیکن محنت کش انسانوں کے دکھ درد کو اپنی روح کی گہرائیوں میں ،اپنے احساس و شعور میں رچا لینا
دوسری بات۔دنیا کے دکھی انسانوں سے یہ احساسِ یگانگت فیضؔ کی شاعری اور شخصیت کے منفرد اور
امتیازی اوصاف میں سے ایک ہے۔فکرونظر کی اس بلندی اور بانکپن ہی نے فیضؔ کی شاعری کو عوام و
خواص میں مقبول بنایا ہے‘‘۔
غرض فیضؔ جہاں ایک عاشق ہے وہیں محنت کش بھی ہے،جہاں ایک چاہنے والا ہے وہیں ایک باغی بھی ہے،جہاں ایک انقلابی ہے وہیں ایک عمارت ساز بھی ہے۔فیضؔ فن اور شخصیت کا حاصل ہے لہذا ان کی شاعری ہمیشہ نوعِ انسانیت کے لئے مداوائے الم کا کام کرتی رہے گی۔
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
(لوح و قلم۔دست صبا)
Firdous Ahmad Mir
Lecturer Urdu GDC Women Anantnag
R/O Mahind Bijbehara Anantnag Kashmir 192401
Leave a Reply
Be the First to Comment!