سنیما کی تانیثی تھیوری اور ڈسکورس کا مطالعہ
نظر یاتی یا تھیوریٹیکل ڈسکورس میں فیمنسٹ تھیوری فیمنزم یا تانیثی تحریک کی تو سیع ہے جس کا مقصد صنفی عدم مساوات کو سمجھنا ہے۔یہ خواتین کے سماجی رول کے ساتھ تانیثیت کے مختلف جہات مثلا عمرانیات، سماجیات، معاشیات، لٹریچر، ایجو کیشن اور کمونیکیشن کا جائزہ لیتا ہے۔ زیادہ تر فیمنسٹ تھیوری خواتین کی خود مجازیت اورمساوی حقوق کی حصولیابی اور صنفی عدم مساوات پر تنقید کر نے پر مرکوز ہے۔فیمنسٹ محقق دو اہم اصولوں کو مد نظر رکھ کر کام کرتے ہیں ایک تو یہ کہ ان کی تحقیق کسی سوسائٹی میں خواتین کی پوزیشن پر ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ اس موضوع پر ہوتا ہے جس میں خواتین کوsubordinate یا ما تحتی کی صورت حال کا سامنا ہو۔ان کی تحقیق کا مفروضہ یہ ہو تا ہے کہ خواتین ماتحتی والی زندگی گذاررہی ہیں ۔ اور اس مفروضہ پر محقق کی تحقیق آگے بڑھتی ہے اور اس کے اسباب اور وجوہات کا پتہ لگانے اور اس کے سد باب کا حل پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بحیثیت ایک تحریک کے فیمنزم مختلف النوع روش رکھتی ہے۔یہ ایک سماجی اور سیاسی تحریک ہے جس نے ادب کے ساتھ ساتھ ادب عالیہ (فائن آرٹ) اور سنیما کی تحقیق پر بھی اثر ڈالا ہے۔فیمنسٹوں نے سنیما کو بحیثیت ایک تہذیبی عمل (کلچرل پروسس ) کے لیاہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سنیما مردانہ سماج کی نمائندگی کرتے ہوئے خواتین کے تعلق سے افسانوی تصورات پھیلاتے ہیں ۔یہ خواتین کی اسٹریو ٹائپ منفی شبیہ پیش کرتا ہے جبکہ مردو ں کیطاقت،دبدبہ اور اختیار کو مستحکم کرتا ہے۔سنیما فلم تھیورسٹ کے نزدیک سنیما میں خواتین کی پیش کش اور تماشا بیں ( آڈینس )مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سنیما کے ابتدا میں ہی مغربی فلمی نقاد نے اس میں خواتین کی جنسی پیش کش پر تنقید کی ہے۔لیکن اس کے باوجود فلم میں خواتین کی پیش کش اسی مردانہ ساخت پر چلتی رہی جو وہ چاہتے رہے۔ اس دوران فیمنسٹ فلم نقاد نے فلم کی پیشکش اور زبان کا سمیوٹک (semiotics) ساختیات اور پس ساختیات اور نفسایتی تجزیہ کرتے رہے اور اس کی پیش کش کو سمجھتے رہے۔اور اس کے بعد انہوں نے ایک نظریاتی ڈسکورس شروع کی جس کے تحت ہم کہہ سکتے ہیں کہ بالی ووڈ سنیما رہا ہو یا ہالی ووڈاس میں خواتین کی پیش کش ابتدا سے ہی متنازع رہی کبھی حد سے زیادہ بو سہ کی وجہ سے تو کبھی مردانہ سماج کی پشت پناہی کی وجہ سے۔ابتدائی فیمنسٹ نقاد وں نے پایا کہ فلموں میں خواتین کی ایک ہی قسم کی اسٹریو ٹائپ شبیہ تسلسل کے ساتھ پیش ہوتی ہے جو کہ قابل اعتراض ہے کیوں کہ یہ خاتون ناظرین پر منفی اثر ڈالتا ہے اور اس سے صنف کی تشکیل نشو نما پاتی ہے۔ فیمنسٹ تحریک کے ارتقا کے ساتھ یورپ میں ستّر کی دہائی میں اور ہندوستان میں اسّی کے دہائی سے فلم کا تانیثی زاویہ نگاہ سے جائزہ لیا جانے لگا۔اس دہائی میں نیو فارملزم، پوسٹ کلونیلزم اور اور ادراکی ( Cognative) ) تھیوری نے فلم اسٹڈیز کے عمومی اور فیمنسٹ کے خصوصی مطالعہ کی راہ ہموار کر دی اور اس میں مزید وسعت پیدا کی۔
فیمنسٹ فلم نقادوں نے اس رجحا ن سے بھی باہر نکل کر فلم کو دیکھنا شروع کیا جو اس زمانے کی نقادوں کی روش بن چکی تھی اور نقاد SLAB (سوئسر، لاکاں ، التھیو سر اور روالاں بارتھ ) کے تنقیدی نظریہ کے ارد گرد ہی چکر کاٹتے تھے۔فیمنسٹ نقادوں نے ان کی برتری ( hegemony ) کو چیلنج کیا۔اور اب فلم تنقید queer تھیوری میں آچکی ہے جس میں ملٹی کلچرازم، پوسٹ ماڈرنزم اور ہسٹریکل ریسرچ شامل ہو چکا ہے۔ Molly Haskalاور Thornamکے مطابق فلم تنقید کے پہلی لہر میں خواتین کی جنسی رول اور اسٹریو ٹائپ پیش کش پر رہی۔ان کے مطابق1930-1940 کے زمانے کی خود ساختہ فیمنسٹ فلموں میں خواتین کا کردار، قربانی (Sacrifice )دینا، دکھ تکلیف سہنا، پسند اور affliction کی تھیم پر رہا۔ اس کے بعد فلم نقادوں نے فلم تنقید کے لیے فیمنسٹ فلم تھیوری کی ضرورت محسوس کی۔اور اس کے نتیجے میں لارا ملوی( Mulvey ) اور جانسٹن (Johnston) نے ہالی ووڈ فلموں (کی کہانی )میں خواتین کی غیر مو جودگی، صنفی امتیاز، ناظر کے مردانہ زاویہ نگاہ پر فلم تھیوری قائم کی۔
لارا ملوی ویژول پلیزر اینڈ نیریٹو سنیما:
لاراملوی نے فلم میں خواتین کی پیشکش کے انداز پر زبردست تنقید کی۔ اپنے مشاہدہ میں پا یا کہ فلم اسکرین پر خواتین کی پیش کش محض ہیرو کی ہیروازم کو تسکین پہنچانے اور ناظرین کو جنسی تلذذ کا چاٹ دینے کے لیے ہو تی ہے۔فلم کی کہانی اس کا پلاٹ کلائمکس ہیرو کے جذبہ انتقام، حب الوطنی اور جذبہ عشق کو دکھانے کے لیے ہو تا ہے۔اس نے پایا کہ خواتین فلموں میں مکمل طور سے سیکسول آبجکٹ یعنی جنسی شئے بن کے رہ جاتی ہے۔اس نے دیکھا کہ فلم ناظرین سنیما ہال میں voyeurism (اوروں کی نگاہ سے بچ کے جنسی تسکین کے لیے تاک جھانک ) کرتے ہیں اور ہیروئن کی جنسی پیش کش سےscopophilia ( جنسی تلذذ)حاصل کرتے ہیں ۔اس نے جان برجر کے پینٹنگ کے نظریہ Male gaze یا مردانہ بصری تلذذ کو فلم تنقید میں متعارف کرادیا۔ملوی کی اس بحث نے مستقبل میں کاجاسلور مین(SilvermanKaja)، de Lauretis, اورCreed نے اس سمت میں اچھی خاصی تحقیقی پیش رفت کی اور سنیما میں عورت کے جنسی پیشکش کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس سمت میں اب کافی پیش رفت ہو چکی ہے لیکن اس کا مرکزو محور لارا ملوی اور جان برجر کے نظریہ کی ہی تجدید ہوتی ہے۔
لارا ملوی Laura Mulvey نے اپنے مضمون “Visual Pleasure and narrative cinema 1975ء ” میں جو لندن کے مشہور جریدہ ’’اسکرین‘‘ میں شائع ہو ا تھا۔ اس میں تانیثیت (فیمنزم) کی دوسری لہر کے فلمی تا نیثی تصور Male Gaze یا مردانہ بصری تسکین کو بحیثیتعدم تشاکل ( Asymmetry)خصوصیت کے متعارف کرایا تھا۔ کو مردانہ بصری تلذذیا e Male-Gaz کے ابتدائی مطالعہ میں موجود تھا۔ لیکن ملوی نے اسے نسوانی مسئلہ کے تحت صف ِ اول میں لا کھڑا کردیا۔ Mulveyنے کہا کہ خواتین فلموں میں آبجکٹیفائڈہوتی ہیں کیوں کہ مخالف جنس کی جانب رجحان کا حامل (Hetrosexual) مرد فلم کی کہانی، ڈا ئلاگ اورنغمے لکھتا ہے، ڈا ئرکٹ کرتا ہے اور فلمی کیمرہ کو کنٹرول کرتا ہے۔جس کے سبب فلموں میں خواتین کی شرکت شہوت نظری(Voyeurism)اورشبق النظر(Scopophilia)کا ماڈل پیش کرتی ہیں ۔ Practice of looking:2001.p76) )۔ لارا ملوی کے اس تانیثی نظریہ نے فیمنسٹ فلمی نظریات اور میڈیا اسٹڈی پر بہت گہرا اثر ڈالاہے۔اس نظریہ کے مطابق میڈیا میں مردانہ بصری تلذذ اس وقت ہوتا ہے جب فلم کا کیمرہ مرد ناظرین کے مطابق خواتین اداکار اور ٹیلنٹ کے جسم پر فوکس ہوتاہے۔اور یہ ایک خاتون کے جسم کے نشیب و فراز یعنی منحنی ( Curves )خطوط پر دیر تک فوکس رہ سکتا ہے۔ لارا ملوی دعویٰ کرتی ہے کہ فلم میں زنانہ کردار کو شہوانی تلذذ پہنچانے والی شئے کے طور پراکثر دو مختلف سطحوں پر ظاہر کیاجاتا ہے۔ پہلے فلم میں کام کرنے والے مرد انہ کردار اور پروڈکشن ٹیم کے لیے اور پھر اسی طرح سے مرد ناظرین کے لیے جو فلم دیکھتے ہیں ۔ خواتین مرد کی جانب سے انفعالی (Passive)سے فعالی(Active ) گیز Gaze بنتی ہیں ۔ اس پدرسری یا مردانہ کنٹرول والی پیشکش کو اکثر داستانی اور افسانوی فلموں فلم میں دیکھا جاسکتاہے۔ (Mulvey1975,p.14 )۔ ملوی اس بات سے قطعی انکار نہیں کرتی ہے کہ فلموں میں یا انسانی سو سائٹی میں Female-Gaze یا زنانہ بصری تلذذ کا وجود نہیں ہے یقینا وہ ہے۔ لیکن ملوی کا دعوی ٰ ہے کہ مین اسٹریم سنیما میں یا مردانہ بصری تلذذ عام طورپرزنا نہ بصری تلذذ یا Female gaze پر مقدم ہے۔جو پدرسری نظام کے بے تناسبی ( asymmetry ) طاقت کی عکاسی کا مظہرہے۔تاہم ملوی اس بات کا بھی اقرار کرتی ہے کہ زنانہ بصری تلذذیا ( Female gaze)بھی مر دانہ بصری تلذذ ) Male gaze (کی طرح ہی ہے،کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین بھی خود کو مردکی نظر سے دیکھتی ہیں ۔ مردانہ نظر کو غیر مساوی طاقت کے مظہر کے طور پر دیکھنے جانے والے) Gazed ( اور دیکھنے والے) (Gazer کے درمیان لا شعوری یا ناخودآگہی عدم مساوات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت جو خاتون خود نمائی(آبجکٹیفائڈ)یا Gazeکااستقبال کرتی ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ نادانستہ طور پر آسانی سے مرد کو جنسی تلذپہنچارہی ہیں ۔ اس طرح کے استقبال کوکسی نما ئش یاExhibitionism کے طور پر دیکھاجاسکتاہے۔ جیسا کہ فلموں میں کبھی ہیرو کا تو کبھی ویلن کے جنسی جذبات بھڑکانے کے لیے ہیروئن کی پیشکش ہوتی ہے۔ فلم میں ہروئین کی پیشکش بھی ہیروازم کے مطابق ہوتی ہے کیوں کہ فلم کی کہانی کا مرکز و محور ہیروازم ہو تا ہے۔ اس لیے فلم میں ہیروئن کا ڈر، خوف،چاہت،راحت محبت نفرت سب اسی کے مطابق ہوتا ہے۔خوا ہ وہ ہیرو کی حوصلہ افزائی کرے یا اس کی کمزوری بن جائے کو ئی معنی نہیں رکھتا ہے کیوں یہ سب ہیرو کے مطابق ہوتا ہے وہ جس طرح سے چاہتا ہے اس طریقے سے ہیروئن کی پیشکش ہوتی ہے- خود ہیروئن کے ذاتی وجود کی فلم میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ہے،جیسا کہ فیمنسٹ نقادوں نے مشاہدہ کیا ہے:
Who count is what the heroine provokes and rather what she represents. She is the one or rather than love of fear she inspire in the hero or, else the concern He feels for her, who makes him act the way he does in herself the women has not the importance (Quoted by mulvey ,film& feminism , jasbir jain & Sudharaj p.52)
مردانہ بصری تسکین یا Male gazeکے نظریا تی تصورات کو John Berger کی تحقیق “Ways of Seeing میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔جان برجر نے سب سے پہلے مردانہ بصری تسکین کے نظر یہ کو اپنی مذکورہ تخلیق میں پیش کیا اور ’’دیکھنے‘‘یا Seeing کی تعریف کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس میں فرق ہو تا ہے کیوں کہ دیکھنے اور تسلیم کرنے کا معاملہ الفاظ سے قبل آتا ہے۔جیسے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا ایک مقام ہے جہاں ہم رہتے ہیں ، پھر اس کی وضاحت کے لیے ہم الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔لیکن بعض اوقات ہم جوکچھ دیکھ تے ہیں اور جو کچھ جانتے ہیں ان میں فرق ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورج زمین کے اطراف گردش کررہاہے لیکن اس کے برعکس ہم جانتے ہیں کہ زمین سورج کے اطراف چکر لگارہی ہے۔ برجر اس مثال سے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یورپی آئیل پنٹنگ میں خواتین کی جوتصاویر بنائی گئی ہیں اور جو کچھ پیش کیا گیاہے اس کے دیکھنے اور سمجھنے میں بہت فرق ہے۔ اس کے مطابق تصویر ایک نظر یا سائیٹ ہے جس کارشتہ اس کے بنانے والے سے ہے کہ وہ ا سے کس نقطہ نظر اور زاویہ سے دیکھتا ہے۔ہم جب کسی تصویر کو دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے دیکھنے اورسمجھنے نظریہ پر منحصر ہوتا ہے( Ways of Seeing, pg,9 (اگر ہم ماضی کے آئل پینٹنگ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں آرٹ میں ایسی تصاویر دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو مردانہ بصری تلذذ پر مبنی ہیں ۔ لیکن آرٹ کی شعبدہ بازی ہمیں تصویر کی اصلیت کو سمجھنے سے روکتی ہے۔ بر جر کے مطابق یورپی پینٹنگ کے ایک زمرے میں میں عورت مرکزی موضوع رہی ہے۔ Nude تصویروں سے پتا چلتاہے کہ خواتین کس طرح سے دیکھی جاتی ہیں ۔ یوروپ میں نشاۃ ثانیہ کے قبل عہد وسطیٰ میں بر ہنہ ہونایا Nakednessقابلِ شرم بن گیا تھا۔ لیکن نشاۃ ثانیہ کے بعد شرم آیئل پینٹنگ میں کھلنے لگی جو آہستہ آہستہ ڈسپلے یا نمائش کی ایک قسم بن گئی۔ یہاں تک کہ جب آئیل پینٹنگ میں سیکولر تھیم کو استعمال کیاجانے لگا تو نتیجہ میں خواتین کی برہنہ تصاویر بھی پینٹ ہو نے لگی۔ لیکن خواتین پینٹنگ میں اس لیےNaked نہیں پیش ہو رہی تھیں کہ یہ ان کا حق ہے بلکہ ایسا اس لیے ہو رہا تھا کہ یہ مرد کی چا ہت تھی (ways of seeing, p.49 (۔آیئل پینٹنگ میں آئینہ کا استعمال اکثر خواتین کی خود نمائی اور حسن مغروریت کو دکھانے کے لیے بطور علامت(symbol) کے استعمال کیاجاتاہے۔وہ کہتا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کی آئیل پینٹنگ میں ایسی پنٹنگ بھی ہے جس میں خواتین مادر زاد حالت میں آئینہ کے سامنے کھڑی ہیں ۔ایسی پینٹنگ کو حسن کی مغروریت یا painting vanity کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس پینٹنگ کا تھیم یہ ہو تا ہے کہ مادر زاد عورت آئینہ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے حسن پرمغرور ہو رہی ہے۔ لیکن اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے جان برجر کہتا ہے کہ حیقت میں ایسا نہیں ہے کیوں کہ وہ پینٹنگ عورت نے نہیں مرد نے بنائی ہے۔ اور مرد خود اپنے نظر کو جنسی تلذذ پہنچانے کے لیے ایسا کیا ہے لیکن الزام خود عورت پر ڈالنے کے لیے اسے آئینہ کے سامنے کھڑا کر دیاہے، جیسا کہ وہ کہتا ہے :
Hypocritically You painted a naked woman because you enjoyed looking at her. You put a mirror in her hand and you called the painting vanity. Thus morally condoning the woman whose nakedness you had depicted for your own pleasure (Ways of Seeing,pg 51)
کیو ں کہ وہ اس طرح سے برہنہ نہیں ہوتی ہے جیسا کہ وہ ہونا چاہتی ہے یا ہوتی ہے بلکہ نظارہ کرنے والے ناظرین کے مطابق اسے برہنہ پیش کیا جاتا ہے )۔(She is not naked as she is, She is naked as the spectator sees her, pg50۔
سنیما میں بھی یہی ہوتا ہے جو ناظرین کو دکھتا ہے واقعی ویسا نہیں ہے۔ ہیروئن کے کم کپڑے اور جنسی آوارگی اس کی خواہش نہیں ہو تی ہے بلکہ یہ فلم اسکرپٹ، ڈائرکٹر اور پرو ڈیوسر کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلم اسکرین لکھتے وقت یہ طے کیا جاتا ہے کہ ہیروئن کا کپڑاکس ڈئزائن کا ہوگا اور اس کی کس طرح سے انٹری ہو گی۔ لارا ملوی یہاں پر یہ نقطہ بھی ذہن نشیں کراتی ہے کہ فلم لکھنے والے ڈائرکٹ کرنے والے اور پروڈیوس کرنے والے بیشتر مرد ہی ہو تے ہیں اس لیے فلم میں ہیروئن کی پیشکش مردانہ زاویہ نگاہ سے ہو تی ہے۔ اور پھر جان برجر کی یہ بات صادق آتی ہے کہ فلم میں ۔ مرد ادکاری کرتا ہے ہیروئن کی نمائش ہو تی ہے۔ ہیرو ہیروئن کی طرف دیکھتا ہے اور ہیروئن خود اپنے آپ کو جیسے کہ وہ دیکھی جانے والی آبجکٹ یا شئے ہو اور یہی چیز اسے ایک آبجکٹ بنادیتی ہے۔
men act and women appear men look at women. Women watch themselves being looked at. This determines not only most relations between men and women but also the relation of women to themselves. The surveyor of woman in herself is male: the surveyed female. Thus she turns herself into an object – and most Particularly an object of vision: a sight.(Ways of Seeing, pg:47)
اس آبجکٹیفائڈ کو آپ دنیا کے کسی بھی ملک کی فلموں میں موجود عورت کے کردار میں دیکھ سکتے ہیں یہ ایک عالمی مظہر بن چکا ہے عالمی سنیما میں خاتون پرو ٹاگونسٹ (ہیروئن) کی پیش کش ایک تخیلاتی حسینہ کے طور پر ہوتا آیا ہے۔ماہر لسانیات اور ساختیات و پس ساختیات مفکر رولاں بارتھ نے سترہویں صدی کی سوئیڈن کی کوئن کرسٹنیا کی زندگی پر بننے والی فلم Queen Christina (1933) پر ایک آرٹیکل The face of great Garbo لکھا۔ اور اپنے اس تبصراتی آرٹیکل میں اس نے کوئن کا کردار اد کارنے والی سوئڈن کی ادا کارہ گریٹ گاربو کے رول اور اس کی تخیلاتی فلمی حسن کا جائزہ لیا۔ رولاں بارتھ اپنے فلمی تبصر ہ میں Garbo کو کسی حسین عورت کا جامع تخیل قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کا حسن فلم میں اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے کہ وہ انسانی مخلوق ہوہی نہیں بلکہ جنت سے آئی ہوئی اپسرا ہو۔ کوئن کرسٹینا کا یہ کردار ناظرین کی جنسی جبلت کو تسکین دینے والا ایک جامع تخیل ہے۔ کیوں کہ گاربو Grabo کا برفیلا چہرہ کسی انسان کا چہرہ نہیں لگتا۔ یہ سنیما کا کسی خاتون کے تخیلاتی حسن کا معیار ہے۔ بارتھ اسے اپنے اصطلاح میں lyricism of Woman. کہتا ہے اور یہی تخیلاتی حسن والی عورت فلموں میں ہیروئن کی پیش کش کا معیار بن گیا۔
مشہور فلم نقاد اور مبصر نکہت کاظمی رولاں بارتھ کے اس تبصرہ کو بالی ووڈ کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنے مضموں The feminsit mystique میں کہتی ہیں ،فلموں میں گاربو کا رول آج بھی موجود ہے اور بالی ووڈ سنیما اول دن سے اس روش پر چل رہا ہے۔ وہ اس کی مثال دو فلموں کی فیمیل پروٹاگو نیسٹ Protagonists سے دیتی ہیں پہلے وہ فلم پاکیزہ (1972 )میں ’’ ٹرین کے اس منظر اور ڈائلاگ کا ذکر کرتی ہیں جس میں ہیروئن مہندی رچے پائوں کے ساتھ سوئی ہوتی ہے اور ہیرو اس کے پائوں کو دیکھ کے کہتا ہے ’’آپ کے پائوں دیکھے بہت حسین ہیں ، انہیں زمین پر مت اتارئیے گا میلے ہو جا ئیں گے‘‘اور دوسری مثال فلم’’ راجا بابو‘‘ (1994 )کا گانا ’’ سرکائلو کھٹیا جاڑا لگے‘‘۔ ہندوستانی سنیما میں Male-Gaze کا تصور ابتدائی زمانے سے رہا ہے۔لیکن اس میں ۸۰ کی دہائی اور اس کے بعد کی فلموں میں زیادہ اضافہ ہو ا۔ جیسے فلموں میں مجرا اورنغموں میں اور پھر ۹۰ کے بعد کی فلموں میں ہیروئن انٹری کے سین میں اور اب آئٹم سانگ میں جس طرح سے فلمی کیمرہ مختلف زاویے اور تکنک سے ہیروئن کے زنانہ پن اور جسمانی خد و خال کو فوکس کرتا ہے، اس سے ہیروئن کا کردار فلم ناظرین اور بالخصوص مردوں کے لیے سراپا جنسی شئے یا سیکس آبجکٹ بن جاتا ہے جو انہیں جنسی تلذذ پہنچاتا ہے۔جیسے کہ آپ ’’چکنی چمیلی( اگنی پتھ)، مائی نیم ازشیلا(تیس مار خان)، کملی کملی ( دھوم۔3 )، رام چاہے لیلا( گلیوں کی راس لیلا)جیسے آئٹم سانگ میں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔اس حقیقت کو تانیثی فلمی نقادوں نے محسوس کیا ہے اور اس کا اظہار بھی کیا ہے :
The action of woman in the dance often times sexual movement with numerous shot of just body parts like that have navel, breast of pelvic thrust. All these add up in objectifying and sexualizing the body of the woman for the benefit to the (male) viewers.” (Male Gaze J. jain & Sudharaj film and feminism Pg-54)
کل ملا کر فیمنسٹ نقادوں کا یہ دعویٰ ہے کہ فلم اسکرین پر جو کہانی دکھائی جاتی ہے وہ مردوں کے نقطہ نظرسے ان کے انتقام انا، خواہش،جنون کے تھیم پر ہوتی ہے۔ ڈراما ہو، ٹریجڈی ہو، ایڈونچر ہو، رومانس ہو، سب میں ہیروازم مقدم ہوتا ہے۔ جب کہ خواتین کی پیشکش اس کے سپورٹنگ ایکٹر کے طور پر بحیثیت معشوقہ کے یا دیگر کردار جیسے ماں ، بہن، بھابھی کے طورپر ہوتی ہے۔ یہ تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جب کوئی فلم صرف اورصرف خواتین کے نقطہ نظر سے بنی ہو اور اس کے مسائل کے اردگرد گھومتی ہو۔اگرچہ اب اتنی زیادہ تنقیدوں اور تحریکوں کے بعد کچھ فلمیں آئی ہیں جو فیمنسٹ آئیڈیو لوجی کو سپورٹ کرتی ہیں ۔لیکن اب بھی زیادہ تر فلمیں اسی ہیروازم کے گرد طواف کرتی ہیں ۔
٭٭٭٭٭
ماخذ
Berger,John(1972),Ways of Seeing: Based on the BBC Television Series. London,
Mulvey,Laura (1975), Visual Pleasure and Narrative Cinema Originally Published – Screen 16.3 Autumn 1975 pp. 6-18 , http://www.jahsonic.com/VPNC.html
Karen Boyle (2005),Media and Violence age publication,London,New Delhi
Practice of looking:2001. and introduction of visual oxford University press.in
Heskel, 1974, loc.cit. Rosen, Marjorie. Popcorn Venus. New York: Coward,
Johnston, Claire, Feminist Politics and Film History, Screen, Vols. 16, 3, 1975, pp. 115-125.
Johnston, Claire (1999),Women’s Cinema as Counter-Cinema;Feminist Film Theory. Sue Thornham. New York : UP,
Datta, Sangeeta,Globalisation and Representations of Women in Indian Cinema.Social Scientist, Vol. 28. 3/4,2000, pp. 71-82.
Kuhn, Annete (1994) Women.s Pictures: Feminism and Cinema. London : Verso,
Butalia, Urvashi(1984) Women in Indian Cinema. Feminist Review 17, pp. 108–110
Leave a Reply
Be the First to Comment!