غالب اور ہندوستانی تہذیب

      ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے جب واقعات ایک دوسرے سے منسلک نظر آنے لگیں یعنی سبب اور نتیجہ کے اصول کے تابع ہو جائیں نیز وہ کسی خاص خطۂ زمین یا شخصیت کی نسبت سے اجاگر ہوں تو وقت کی رفتار کا احساس ہونے لگتا ہے جو تاریخ کا ایک بنیادی وصف ہے۔ گویا وقت کی گزران کا احساس تاریخی شعور کی اہم ترین شرط ہے۔ (۱)

غالب تاریخی شعور کے حامل فنکار ہیں ۔ اسی لیے وہ روایت پرستی کے دور میں اپنے لیے الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوئے بڑی شاعری کی پہچان یہ ہے کہ اس میں فلسفہ کی جھلک موجود ہو۔ حقائق کی تلاش و جستجو اگر تخیل کی بدولت شعر میں ڈھل جائے تو استقراء اور استدلال کا قائم مقام بن جاتی ہے۔ غالب جن حالات کا سامنا کر رہے تھے وہ تہذیبی سطح پر غیر معمولی تھے۔ سطحی فکر کے حاملین مغربی ایجادات کو سماجی و معاشی ترقی کا ذریعہ جان رہے تھے مگر ذی فہم آدمی اس کی زیریں لہروں کے تلاطم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مرزا غالب کی شاعری اس کی دلیل ہے کہ ان کا مشاہدہ درجۂ الہام کو چھو رہا تھا۔

احباب چارۂ سازی وحشت نہ کر سکے

 زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا

      انہوں نے حسن و عشق کو فقط گوشت پوست کے انسانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ زندگی کی متنوع جہات کو شاعری میں برتا ہے۔ وہ کائنات کی وسعتوں کو شعروں میں سمیٹ لینے کا فن جانتے ہیں ۔

      مرزا جب آگرہ سے دلی تشریف لاتے ہیں توانہیں ایک طرف حکیم احسن خان، شیفتہ، مومن، صدرالدین آزردہ، صہبائی، مولانا خیر آبادی، ذوق اور بہادر شاہ جیسی علمی و ادبی شخصیات سے سابقہ پڑا وہیں دلی کی عظمت رفتہ کو روبہ زوال بھی دیکھا۔ قدیم روایات اور جدت کے درمیا ن کشمکش میں غالب کو بربادی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔ بنگال، بہار، گجرات اور دوسرے ہندوستانی علاقوں میں دیہی معیشت جان کنی کے عالم میں تھی۔ ہاں مگر دارالحکومت میں سیاسی شتر مرغ پالیسی جاری تھی۔ اردو ادب کا تہذیبی و معاشرتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کم کیا گیا ہے۔(۲)ورنہ اس بات کا کھوج مل جاتا کہ غالب کا روایتی مشاعروں سے کنی کترانا اور روایت پرستوں میں غالب کی غیر مقبولیت کے پیچھے دراصل دوربینی اور کوتاہ نظری کا فرق بروئے کار تھا۔

      خود کو عرفی اور خاقانی بتانے والا محض شاعرانہ تعلّی کا مرتکب نہ ہو رہا تھا۔ انہیں یہ احساس تھا کہ تہذیب کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کے ناخدا چپو غیروں کے حوالے کر کے عرشے پر خواب خرگوش میں ہیں ۔ اہل سخن اور ادیب بھی وقت کی رفتار سے بے خبر تھے ایسے میں وہ خواہش کرتے ہیں ۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو

بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے

کوئ؎ ہم سایہ نہ ہو اور پاسبان کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور گر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

      ان کی ژرف نگاہی آنے والے زمانے کا ادراک رکھتی تھی کہ تہذیب مشرق پر وہ ابتلاء کی گھڑیاں آنے والی ہیں کہ جب اس کا نوحہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا۔خاقانی نے مدائن کے کھنڈرات پر کھڑے ہو کر ایرانی تہذیب کی بربادی کا مرثیہ لکھا مگر خاقانی ہند تہذیب کے کھنڈر میں تبدیل ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہا تھا۔ شیخ محمد اکرام نے غالب کی شاعری کی جو ادوار بندی کی ہے اس میں ابتدائی دور کے شعروں (جو کہ بیدل کے رنگ میں تھے) کو دوراز کار تشبیہات قرار دیا ہے۔ اور غزلوں کے مضامین کو عجیب و غریب اور عام مشاہدہ اور دنیائے شاعری سے دور بتایا ہے۔(۳)

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

      یہ مضمون دنیائے شاعری سے دور ہو یا یہ تشبیہ سمجھ میں نہ آئے اتنا تو طے ہے کہ غالب جیسا شاعر کسی انسان سے یہاں مخاطب نہیں ہے۔ یقینا یہ سرزمین ہند ہے جو فرید ہے جس کی مثال ناپید ہے۔ غزل میں عام طور پر زبان اور محاورہ پر توجہ زیادہ ہوتی ہے اور مضمون اور فکر کا درجہ ثانوی ہوتا ہے۔ اسی لیے مرزا کے ساتھ بھی یہ رویہ روا رکھا گیا۔ صریر خامۂ نوائے سرو ش جو ہستی ہو اس کے مضامین بھی اچھوتے ہوں گے جن میں پیش آنے والے ان واقعات کا ذکر ہو گا جن میں قوم کو تنبیہ ہوگی۔ یہ صفات الہامی کتب اور انبیاء کی ہوتی ہیں ۔ اردو شاعری میں اس مقام پر غالب اور اقبال بجا طور پر فائز نظر آتے ہیں ۔

      غالب کا کلام بقول میر مہدی مجروح، دُرعدن ہے نظم کی شیرینی، غزل کی وضاحت، قصیدہ کی متانت، ترکیب کی خوش اسلوبی، سطریں موتی کی لڑیاں اور باتیں مصری کی ڈلیاں یہ بھی بجا مگر ان کی شاعری معانی و مفاہیم کی متقاضی ہے۔ بیرونی اور خارجی عوامل کسی حد تک مقامی ماحول پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ مغربی صنعتی یلغار صرف روایت کو ملیامیٹ کرنے جارہی تھی یا طبقاتی تقسیم کو بڑھاوا بھی دے رہی تھی۔ جو ادب اپنے دور کی مرکزی کشمکش کا عکس پیش نہیں کرتا وہ نہ تو تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ادبی۔(۴)

      نوآبادیاتی طاقت جب ہندوستان کے اکثریتی طبقے کو (سراج الدولہ کے خلاف) اپنا ہمنوا بنا رہی تھی اور دوسری طرف ایک اقلیتی طبقے کو(سکھوں کے خلاف جہاد) اپنا اہل کتاب دوست ثابت کرنے پر تلی تھی اور حیرت انگیز طور پر دونوں طبقات اس سرکاری پالیسی پر آمنا و صدقنا کہہ رہے تھے۔ پھر غالب کے لیے کس طرح ممکن تھا کہ وہ خاموش رہتے:

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

      مابعد نوآبادیاتی مطالعہ جات (جن کے امام ایڈورڈ سعید اور علی شریعتی ہیں ) جو بات بیسویں صدی کے نصف آخر میں بتا رہے تھے وہ غالب سو سال قبل بتا گئے تھے۔ جگت سیٹھ خاندان، جہادی بھائی، نظام، مغل وغیرہ میں سے ہمارا لیڈر کون ہے کس کو امام مانیں ۔ اور پیچھے جائیں انگریز، عرب، افغانی، ترک، سکندر، آریہ وغیرہ میں ہندوستان کا معمار کون ہے؟ بھئی غالب کا مندرجہ ذیل شعر اپنی معنویت بھلے مندرجہ بالا سطور میں نہ ظاہر کرے مگر بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں تو ضرور کھولتا ہے۔ جب مسلم لیگ، کانگریس، جماعت الاحرار، علمائے ہند، یونینسٹ وغیرہ سب کہیں کہ ہم مہدی زمان ہیں تو عوام کیا کرے:

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

جانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

      علی سردار جعفری نے غالب کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ہندوستان کی اس شاعرانہ فکر کا نمائندہ ہے جس میں عجمی روایات کی قلم لگی ہے۔ درفش کاویانی میں مرزا نے خود اپنے بارے میں کہا ہے کہ مالک نے مجھے نظر کو روشنی بخشنے والے کمالات سے نوازا ہے۔اب یہ ناقدین کا کام ہے کہ ان کمالات سے آگہی لیں ۔

      اکبر الہ آبادی ہندوستانی تہذیب کے لیے بدیسی چالوں کو خوب سمجھ رہے تھے اس لیے ان کے ہاں مقامی اشیاء سے الفت کا درس ملتا ہے اور غیروں کی تقلید پر نفرین بھیجی گئی ہے۔ اقبال(اس معاملے میں ) اکبر کی توسیع ہیں وہ فرماتے ہیں :

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احسان

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

اسی مضمون کو غالب نے یوں ادا کیا ہے:

اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں ،غفلت ہی سہی

یقینا اس سے مراد علم کا حصول یا فنون کی تعلیم نہیں ہو سکتے بلکہ تہذیب سیکھنے اور سکھانے والوں کی طرف اشارہ ہے اور ہر اس تقلیدی روش پر طنز ہے جو مشرقی روایت کو روند کر بنائی جارہی تھی۔

ناول نگار جارج مور نے زندگی کو گلاب کے پھول سے تشبیہ دی تھی جو عقیدے کی مٹھی میں کملا جاتا ہے۔(۵)

ہندوستانی تہذیب پر ابتلا کی کئی وجوہات میں سے ایک مذہبی گروہ بندی اور تنگ نظری بھی ہے۔ مرزا غالب اس بات سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لیے انھوں نے کہا تھا کہ

’’میں تمام انسانوں کو اپنا رشتہ دار مانتا ہوں اور تمام آدمیوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو اور عیسائی ہوں ، اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ دوسرے کیا سوچتے ہیں ۔‘‘(۔۵)

یعنی غالب کے زمانے میں ایسے لوگ موجود تھے جو مذہبی شناخت پر زور دیتے تھے۔

      بہت سے نقادوں کی طرح شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی ۱۸۵۷ء کے سانحے کو ایک تاریخی موڑ قرار دیا ہے۔ اس کے رونما ہونے کے بعد کلاسیکی ادب، کلاسیکی اقدام حیات، کلاسیکی تصور کائنات پر سوالیہ نشان لگ گیا۔(۶) مگرغالب نے اس سانحہ کے رونما ہونے سے قبل ہی ہندوستان کے بارے میں گرینڈ نیریٹو (مہا بیانیہ) کا ادراک کر لیا تھا اور ستاون کا ایڈونچر اُس زمانے کا ۱۱/۹ اور پرل ہاربر تھا۔ گریٹ گیم میں غیروں کا ساتھ اپنے دے رہے تھے۔ یا کم از کم اس زیاں پر احساس زیاں سے تو عاری تھے ہی۔

کرتے کس منہ سے ہو غیروں کی شکایت غالب

تم کو بے مہریٔ یارانِ وطن یاد نہیں

غالب جس طرح قوافی، زمین،ردیف وغیرہ میں انفرادیت کے حامل تھے بعینہ خیال بَندی اور نکتہ آفرینی میں بھی یکتائے روزگار تھے۔ یہی وہ وصف ہے جس سے پڑھنے والے پر ادراک اور شعور کے دروا ہوتے ہیں ۔ زمانے کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا اور تہذیب پر جو بیتنے جارہا تھا اس کی پیش بینی کر رہے تھے کہ شاید کوئی پیش بندی ہو جائے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو معاشرے کے کتنے ہی دردمند اس پر ملول ہوں گے۔ مرزا ان سب خستہ حال دلوں کے محرم راز بن کر ان کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ یہی تاریخ اور ادب میں فرق ہے کہ اوّل الذکر خارجی اور سطحی حالات کو بیان کرتی ہے جبکہ مؤخر الذکر جذباتی اور دروں بینی کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی لیے غالب کے ہاں سماجی حقیقت نگاری کا پہلو موجود ہے۔

      غالب کی شاعری پہلودار ہے۔ اس واسطے حسن و عشق اور گل و بلبل والے اصحاب بھی اس سے برابر حظ اٹھاتے ہیں ۔ خود مگر غالب اپنی سخن وری کو مفید اور مؤثر دیکھنے کے متمنی تھے:

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد

کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں

اہل وطن سے وہ بیان کر رہے تھے کہ یاران وطن (جو یاران نکتہ داں بنے ہوئے تھے) کا کردار قابل تعریف نہیں ہے لہذا جو مستعار شعور کی روشنی میں نظریے اور نعرے(سیاسی و مذہبی) سامنے آرہے ہیں یہ وہ کیپسول ہیں ۔ جو شوگر کوٹڈ ہیں ۔زمین بوس کی گئی تو کچھ لوگوں کو اندازہ ہوا کہ یہ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ مرزا نے بتا دیا کہ یہ تو ابتدائے عشق ہے آگے دیکھیے کیا ہونے والا ہے:

رگ و پے میں جب اترے زہرغم پھر دیکھیے کیا ہو

ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے

تاریخ گواہ ہے پھر سیاسی جماعتوں کے قیام، تحریک خلافت کی انتشاری، گول میز کانفرنسوں کی ناکامی اور کیبنٹ مشن کی نامرادی، سمیت کئی مواقع پر یہ زہر غم رگ و پے میں سرایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

غالب نے کئی جگہ مجنوں سے اپنا تقابل کیا ہے۔ صحرا، بیابان، ویرانی، مشکل راہیں ، پرخار وادیاں اور مجنوں کا جنون لازم و ملزوم گنوائے ہیں ۔ جس تہذیبی گلستان کو صنعتی جنگل مین بدلا گیا اس میں کئی بلبل و قمریاں خرد کا دامن ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ ہندوستان کی عظیم تہذیب سے وابستگی کا یہی تقاضا تھا کہ اس کے ساتھ رشتے کو مجنوں اور صحرا سے تشبیہ دے کر معنویت میں گہرائی پیدا کی جاتی۔ اپنی روایات کے مٹنے پروہ غمزدہ تھے:

بے پردہ سوئے وادیٔ مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرے کے نقاب میں دل بیقرار ہے

قول محال(Paradox)ذہنی ریاضت کا متقاضی ہوتا ہے لیکن اگر تاریخ کے سیاسی فیصلوں کو مدنظر رکھ کر غالب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ان کی حکیمانہ شاعری نوآبادیاتی چالوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

      ہم پر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ استعماری جو یہاں کے لوگوں کو نیم وحشی قرار دے کر تہذیب سکھانے آئے تھے اور جن کے اس دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہندوستانی Eliteکلاس بیرسٹری، میم اور نائٹ کلب میں مخلوط رقص کو منتہائے زیست سمجھ بیٹھے تھے وہ سب دروغ گوئی تھی کیوں کہ ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام، جنگ پلاسی، لارڈ میکالے، سقوط دہلی، انجمن پنجاب، فورٹ ولیم کالج، دلی کالج سے پہلے بھی تہذیب یافتہ ملک تھا۔اس کی گواہی مغربی دانشور گستاؤلی بان سے مل جاتی ہے۔

’’پس ہمیں وید میں کسی ابتدائی اور نیم وحشی قوم کا تمدن نہیں ملتا ہے۔ بلکہ ایک ایسی قوم کا تمدن جو تمدن انسانی کی بہت سے مدارج طے کر چکی تھی۔‘‘(۷)

      ایسی علم ہنر میں یکتا سرزمین جس کی ہمسری فقط یونانی و مصری قدیم تہذیبیں ہی کرنے کے قابل ہوں اسی کا فرزند اسد اللہ جس کی نظر میں منصور و خضر بھی نہیں جچتے۔ جسے اپنے زور بازو پر ناز ہے:

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

جانا کہ اک بزرگ ہمیں سفر ملے

مگر غالب آزردہ ہیں کہ اس کی قوم کے سردار مسیح کے محتسبوں اور بے وفاؤں کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ۔مرزا کلیم کی ہمسری کے دعویٰ دار اور کوہ طور کی سپر کے متمنی ہیں اور اس کی قوم والے سامری کے پیروکار بن کر بچھڑوں کے سامنے سجدہ ریز ہیں :

دل میں یاد یار و ذوق وصل تک باقی نہیں

آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

درد دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

      ان اشعار میں تاسف کے ساتھ یاس انگیزی کی فضا نمایاں ہے۔ وہ تہذیب جس کے چھل بل کی زمانے میں دھوم تھی جس کا ڈنکا چار دام عالم بجتا تھا۔ وہ جل کر خاکستر ہو چکی اور کیفیت یہ ہے کہ جسم کے ساتھ روح بھی گھائل ہے۔ یہ کہانی لکھتے لکھتے تخلیقی جوہر ماند پڑ گیا۔ مگر اہل وطن پھر بھی نہ سنبھلے

      مرزا نے قلم سے قرطاس پر لفظوں سے مصوری کے اعلیٰ نمونے نقش کیے ہیں اور ایسی تصویریں بنائی ہیں کہ وہ قاری سے ہم کلام ہونے اور اپنے کئی پہلوؤں سے آشنائی کا ملکہ رکھتی ہیں ۔ عبدالرحمٰن بجنوری کی یہ بات قابل تائید ہے کہ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ۔ مقدس وید اور دیوان غالب۔ انہوں نے غالب کے اشعار کو مصوری سے برتر بتایا ہے:

’’شعر کو تصویر پر یہ ترجیح ہے کہ تصویر ساکن اور شعر متحرک ہے۔ تصویر اپنے قائم کردہ انداز کو نہیں بدل سکتی۔ شعر ایک کیفیت کی مختلف حرکات کو ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ تصویر رقبۂ حیات پر ایک نقطہ ہے۔شعر ایک دائرہ ہے۔‘‘(۸)

      انیسویں صدی کی ابتداء غالب کی جوانی کا دور ہے۔ اس صدی کا نصف اوّل سیاسی اور معاشی حوالوں سے ہنگامہ خیز ہے۔ ایک طرف کمپنی نے پورے ہندوستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا وہیں قدیم زرعی نظام روبہ زوال ہوا۔جس نے لامحالہ آئیڈیل جامد سماج میں ہلچل پیدا کر دی۔ دلی میں لارڈ لیک کی آمد سے انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے اور لارڈ میکالے سے لے کر گلکرسٹ تک کے ہر تقریر سے غالب اچھی طرح باخبر تھے۔ ان کے اشعار سے اس بیقراری کا اندازہ ہوتا ہے جو انہیں لاحق تھی۔ غالب اقبال کی طرح خوابوں کی دنیا کے مسافر نہیں ہیں بلکہ حقیقت پسند ہیں ۔ اگر غالب کا زمانہ اقبال کے بعد کا ہوتا تو مندرجہ ذیل شعر اقبال کے اس شعر کا جواب معلوم ہوتا۔

 کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

(بھلے یہ شعر جنگ احد کے واقعہ کی تلمیع ہے)

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

گرم مصالحے خریدنے اور کپڑا بنانے والوں سے کسی نے یہ پوچھنے کی جسارت نہ کی کہ توپیں کس خوشی میں ہندوستان لائی جارہی ہیں ۔ توپ خانہ کے مقابل چند سینکڑے باغی خنجر اور بھالے لے کر صف آراء ہوئے تو اس سادگی پر یقینا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ وہی خوابوں کی دنیا ہے جس کے سحر میں مبتلا فلسطینی غلیلوں سے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر یورش کیے ہوئے ہیں ۔ یہ خواص کی لمحوں کی خطائیں تھیں جن کے خمیازے عوام کو صدیوں بھگتنے پڑے اور پڑیں گے۔

      جنت کی حقیقت کا علم ہونے پرغالب کو فلسفی ثابت کرنا گو غالب کی عظمت ثابت کرنے کے واسطے درست سہی مگر اس سے یہ مراد لینا بھی معیوب نہیں کہ سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے عوام الناس کو راضی برضا رہنے کا کہا جارہا تھا۔ یہ وہ طبقہ تھا جو خود آسائش کی زندگی گزار کر جنتا کو اس دنیا کی بے ثباتی اور ابدی زندگی کی کامرانیاں گنوا رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں جنت کے لالچ میں خودکشی کی ترغیب دینے والوں پر غالب طنزیہ کہہ رہے تھے کہ

      ؎               دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

بزم ہستی میں مرزا نے جو گل پاشی کی ہے اس میں تہذیب ہی پس منظر میں رہی۔ بجنوری صاحب نے کہا سعدی اور ورڈزورتھ (جنھوں نے بہار و خزاں ، باغ و راغ، کہسار و آبشار بکثرت نظم کیے) کے برعکس مرزا غالب نے دلی کی گلیوں کی رونق یا ویرانی خوش وقتی یا افسردگی، شورش یا خاموشی کو شعری قالب میں ڈھالا۔

      اس کو القا کے لیے سروچنار دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ کسی بنتی ہوئی عمارت پر نصب شدہ جرثقیل کا آہنی حلقہ بھی اسی میں آویزاں دیکھتے ہیں تو ان کو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سیمرغ اپنا چنگل آسمان سے تارے توڑنے کے لیے دراز کر رہا ہے۔ جب حالات کا جبر اپنے عروج پر تھا اور ضعیفی کے مجرم تختۂ دار پر لٹکائے جانے والے تھے تو اس سے ذرا پہلے لال قلعہ کے تاجدار کو سہانا سپنا دکھایا گیا کہ بس آزادی چند دن کی دوری پر ہے۔ مجبور و معذور اور محصور پنچھی جان چکا تھا کہ حصار سے نکلنا اب شاید ناممکن ہے۔ اسی واسطے اڑنے سے قبل ہی ان کا رنگ زرد تھا۔

      ؎               اڑنے سے پہلے ………

سید عبداللہ نے غالب کے مکاتیب کو مختصر افسانہ کہا ہے(۹)غالب ہرگز نثر نگار نہ تھے ان کی پہچان ان کی شاعری ہے۔ شعروں کی تہہ داری پر ہلکا سا غور وخوض کیا جائے تو معلوم ہتا ہے ان کے اشعار ناولوں کے قائم مقام ہیں ۔ بہادر شاہ کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی اس کی کم سنی میں مرزا نے کہا تھا:

خضر سلطان کو رکھے خالق اکبر سرسبز

شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے

      مگر جب میجر ہڈسن سا شہزادے پر بھی گولی چلا کر سرعام قتل کر دیتا ہے تو پھر غالب کے لیے شعر کہنا ممکن نہ رہا۔اور تو اور بوڑھے اور معذور شہزادوں (میرزا قیصر اور میرزا محمود شاہ) کی نعشیں تین روز تک کوتوالی کے چبوترے پر پڑی رہیں ۔(۱۰) مندجہ بالا شعر کو ذہن میں رکھ کر ہڈسن کے پستول کی گولی اور شہزادے کا تڑپنا پر سوچیں تو تہذیب اور وحشی پن کی کہانی اپنے نقوش واضح کرتی ہے۔ فکری سطح پر ان کی شاعری مجاز اور حقیقت کے باہمی تعلق کی ترجمان ہے۔ مگر ہندوستان کی سرزمین پر جو کھیل جاری تھا اس سے وہ لا تعلق نہ تھے۔ انہیں ادراک تھا کہ محفل اجڑنے والی ہے۔ وہ تہذیب جو مانند شمع ہزاروں سال اپنی روشنی سے عالم کو منور کیے رہی اب بجھنے والی ہے۔ تہذیب کا ہر فرزند اس کی پہچان ہوتا ہے۔غالب بھی اپنی مٹی کا بیٹاتھا۔ وہ اپنی تہذیبی لیلیٰ کا مجنون تھا۔ وہ لیلیٰ جو محمل سے علیحدہ کر دی گئی۔ جس کے سر سے ردا چھین لی گئی۔ برہنہ سر لیلیٰ کے مجنوں دار پر لٹکادیے گئے۔ لیلیٰ کے خیمے جلا دیے گئے۔

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے

شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

      اس نئی تہذیب کے لوگ وہ نہیں جو وہ تھے یہ تو سب بدل گئے۔ اسی واسطے تہذیب مشرق نوحہ کناں ہے وہ اپنے رہنے والوں کو ڈھونڈتی ہے۔ تہذیب سنگ و خشت کا نام نہیں وہ تو کبیر، نانک، فرید، غالب، مومن، اقبال، فراق، پریم چند، کرشن چندر، بیدی، منٹو اور انتظار حسین کا نام ہے۔

ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسد

مجنوں جو مر گیا تو جنگل اداس ہے

      غالب شعر بھی نہ کہہ سکتے تھے اور بلاواسطہ ذمہ داروں کو کچھ کہنے کے قابل بھی نہ تھے(اور شاید ذمہ دار کوئی ایک ہوتا تو کہتے) اسی لیے تہذیب کے لٹنے پر بالواسطہ اپنے دوست کو لکھتے ہیں ۔ مرزا تفتہ تم بڑے بے درد ہو، دلی کی تباہی پر تم کو رحم نہیں آتا۔(۱۱)

حوالہ جات

۱۔   وزیر آغا۔ تخلیقی عمل۔ مکتبۂ عالیہ۔ لاہور طبع سوم۔ ۱۹۸۳ء۔ ص ۹۳

۲۔  عبدالباری، سید،ڈاکٹر۔مقدمہ، لکھنؤ کا شعر و ادب۔ الفلاح پبلی کیشنز۔ دہلی۔ ۱۹۹۶ئ۔ص۷

۳۔  فیاض محمود، سید/اقبال حسین (مرتب) تنقید غالب کے سوسال۔ پنجاب یونیورسٹی، لاہور۔۱۹۶۹ئ،

      ص ۲۰۷

۴۔  سید فیاض محمود۔تنقید غالب کے سول سال۔ صفحہ ۳۲۵

۵۔  سائن سیمور سمتھ، ترجمہ یاسر جواد۔ دنیا کی سو عظیم کتابیں ۔ تخلیقات۔ لاہور۔ ۲۰۰۳ئ۔ ص ۲۷۲

۵a.۔               مہیثور دیال۔ عالم میں انتخاب دلی۔ اردو اکادمی، دلی۔۱۹۸۷ئ۔ص ۱۶۰

۶۔  شمس الرحمٰن فاروقی۔ تعبیر کی شرح۔ اکادمی بازیافت، کراچی۔ ۲۰۰۳ئ۔ ص ۴۰

۷۔  گستاؤلی بان،ڈاکٹر،مترجم:علی بلگرامی سید۔ تمدن ہند۔ مقبول اکیڈمی لاہور۔ سن ندارد۔ ص ۲۰۹

۸۔  فیاض محمود /اقبال حسین۔تنقید غالب کے سو سال۔ پنجاب یونیورسٹی، لاہور۔ص۱۳۱

۹۔   سید عبداللہ۔ وجہی سے عبدالحق تک۔ مکتبہ خیابان ادب۔ لاہور۔ ۱۹۷۷ء۔ص

۱۰۔ اکرم چغتائی۔۱۸۵۷ء تاریخی، علمی اور ادبی پہلو۔ سنگ میل، لاہور۲۰۰۲ئ، ص ۳۰

۱۱۔  سید عبداللہ۔ وجہی سے عبدالحق تک۔ ص ۵۲

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.