اسمعیل میرٹھی بحیثیت موضوعاتی شاعر
انجمن پنجاب کے موضوعاتی مشاعروں سے پہلے اسمعیل میرٹھی اردونظم کی موضوعاتی توسیع میں انفرادی طور پر کامیاب تجربہ کرچکے تھے۔’’ریزہ جواہر‘‘ کے عنوان سے میڑٹھی کاکلام 1880 ئ میں شائع ہوا۔اسمعیل میرٹھی نے اپنی نظموں کے ذریعہ ذہنی تربیت وذہنی ادراک وشعورمہمیز کرنے کا کام سر انجام دیا۔اسمعیٰل میرٹھی نے غیر شعوری طور پر کسی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر اردو نظم کو اپنی مجتہدانہ صلاحیت سے وسعت دی اورتقاضائے وقت کے مطابق وہ موضوعات وخیالات کو شاعری کا حصہ بنایا جو معاشرتی اور سماجی تعمیر وترقی کا ذریعہ بنے،کوئی بھی شاعر خلامیں ادب تخلیق نہیں کرتا۔ماحول کا اثر یا ردعمل تخلیق میں بہر حال شامل رہتاہے اور اس کی شمولیت کا احساس کبھی کبھی خود تخلیق کار کو بھی نہیں ہوتا۔
اسمعیٰل میرٹھی نے اپنی نظموں میں جو موضوعات پیش کئے وہ ماحول کا براہ راست یا بیانیہ انداز پیش نہیں کرتے بلکہ بالواسطہ اور بین السطور اصلاح معاشرے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ اسمعٰیل میرٹھی نے ہندوستانی جانوروں ، پرندوں ،مظاہر فطرت، گھریلو اشیائ، مقامی وارضی ماحول،آب وہوا کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ ان کے تحت سوچ کے نئے راستے واضح کئے ہیں اور ادراکی صلاحیت کو بیدار کیا ہے جو اردگرد کی اشیاء مناظر سے اخلاق سبق ونصیحت وعبرت وذہنی قربتیں حاصل کی۔اسمعیٰل میرٹھی نے ادب کے افادی اور مقصدی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو نظم کے ذریعہ تعمیری واصلاحی موضوعات کو ادب کا حصہ بنایا۔
اسمعیٰل میرٹھی کی نظمیں معاشرے کے تعمیری پہلوئوں سے متعلق موضوعات پیش کرتی ہیں ۔معاشرتی وسماجی اقدار جن پر ایک تہذیب وتمدن کی اساس بنتی ہے۔معاشرتی رسم ورواج، رہن سہن،آپس کے تعلقات، لین دین، حقوق وفرائض، عقائد وروایات جس کی بنیاد اخلاقی اصولوں اور اقدار پر ہے کواپنے موضوعات میں پیش کیاتاکہ یہ موضوعات اصلاح معاشرہ کا ذریعہ بنے۔
اسمعیٰل میرٹھی نے اپنی نظموں میں تمثیلی اور حکایتی انداز سے اخلاقی تعمیر میں نمایاں سرانجام دیا۔’’مناقشہ ہوااورآفتاب‘‘اسی طرز پر مبنی نظم ہے جس میں ہوا اور آفتاب کے تجسیمی روپ کے ذریعے زندگی میں مسلسل حرکت ومحنت اور تحمل مجازی سے سبقت لے جانے کا درس ہے۔
تیزی وتندی کے گرویدہ ہیں سب
کامیابی کا مگر ہے اور ڈھب
اس کا گر ہے نرمی وآہستگی
سرکشی کی رگ اسی سے ہے رہی
(مناقشہ ہوا اور آفتاب)
اسمعیٰل میرٹھی نے اپنی شاعری میں جدت طبع کے تحت اصلاح معاشرہ کا جو راستہ اختیار کیا وہ بچوں کی نظموں پر مشتمل ہے۔اتفاق کی برکت اور اہمیت پر اسمعیل میرٹھی نے جو نظمیں لکھیں ان میں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہوجاتا ہے۔اور ’’بارش کا پہلا قطرہ‘‘جیسی نظمیں شامل ہیں ۔لکھتے ہیں :
اے صاحبو!قوم کی خبر لو
قطروں کا اتفاق کرلو
قطروں سے ہی ہوگی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمہای
(بارش کا پہلا قطرہ)
اسمعیٰل میرٹھی نے اپنی نظموں میں جانوروں اور پرندوں کے موضوعات پر بے شمار نظمیں لکھیں ان نظموں میں کہانی کے انداز میں زندگی کا شعور اورذہنی تربیت کا سامان ملتاہے۔ان نظموں میں ’’ایک گھوڑا اور سایہ‘‘، ’’ایک کتا اور اس کی پرچھائیں ‘‘، ’’کوا‘‘،’’چھوٹی چیونٹی‘‘،’’اسلم کی بلی‘‘،’’ہمارا کتا ٹیپو‘‘،’’کچھو ااورخرگوش‘‘،’’دومکھیاں ‘‘،’’ اونٹ‘‘،’’شیر‘‘، ’’عجیب چڑیا‘‘، ’’ہمارے گائے‘‘،’’ موراور کلنگ‘‘ میں دکھاوے اور ظاہری حسن کی خدمت کرتے ہوئے اصل حسن جو کہ کسی سے بظاہر نمائش یا خوبصورتی نہیں اصل خوبصورتی تو اس کی افادیت اوراس کا حسین عمل ہے۔’’عجیب چڑیا‘‘میں وقت کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔
اسمعیٰل میرٹھی نے نیچرل شاعری کے انداز پر مناظر فطرت کے خوبصورت مرقع بھی موضوع کیے۔ان نظموں میں شفق،رات، گرمی کا موسم، ہواچلی، برسات، کوہ ہمالیہ شامل ہیں ۔اسمعیٰل میرٹھی اسلامی روایات واقدار کے انتہائی عقیدت مند تھے لیکن ان علماء کے خلاف تھے جو ظاہر میں دین دار اورحقیقت میں مکروفریب سے بھرے ہوتے تھے۔میرٹھی نفس کی طہارت کو زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں ’’انسان کی خام خیالی‘‘ میں اس کا ذکر یوں کرتے ہیں :
ہو دل کو خوشی نہیں یہ ممکن
جب تک نہ ہو صفائے باطن
یا نفس کی تابع خرد ہو
حاصل تب راحت ابد ہو
(انسان کی خام خیالی)
زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے تحت اسمعیٰل میرٹھی جدید سائسنی ترقی اور نظریات کو اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں اورساتھ ہی ان لوگوں کو حرف ملامت بناتے ہیں جو ظاہر داری کے چکر میں اپنی تہذیب کو تباہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔انگریزی طرفداروں سے اس طرح مخاطب ہیں :
رہا وہ جرگہ جسے چرگہ ہے انگریزی
سو وان خدا کی ضرورت نہ انبیاء درکار
جو اردلی میں ہے کتا تو ہاتھ میں اک بید
بجائے جاتے ہیں سیٹی سلگ رہا ہے سگار
وہ اپنے آپ کو سمجھے ہوئے جنٹلمین
اور اپنی قوم کے لوگوں کو جانتے ہیں گنوار
(جریدہ عبرت)
اسمعیٰل میرٹھی کی نظمیں برصغیر کے موسموں ، مناظر، جانوروں ، پرندوں ، ضروریات اشیاء کی پیش کش میں ندرت اور خلاقانہ صلاحیت کو نمایاں کرتی ہیں ۔اخلاقی تربیت میں شامل انسانی جذبات واحساسات کی تہذیب میں اپنی مثال آپ ہیں ۔کامیابی، محنت اورعمل کا درس اسماعیل میرٹھی کی نظموں کا بنیادی موضوع ہے۔محنت کے لئے جائو اچھا زمانہ آنے والا ہے، سچ کی عظمت، ذہنی تربیت کا درس دیتے ہوئے انسانی زندگی کو حقائق کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں ۔
اسمعیٰل میرٹھی نے اپنی نظموں میں معاشرتی بگاڑ پرآہ وبکا کرنے کے بجائے ان روایات کے عقائد اور حقیقتوں کو پیش کیا ہے جن سے زندگی میں رونق اور کامیابی آتی ہے۔نظموں کے موضوعات عام اورماحول سے قریب ہوتے ہوئے بھی سبق آموزاورنصیحت آمیز ہیں اور ان موضوعات کو بغیر استعارات وتشبیہات کے بیانیہ انداز میں زندگی کے اصول پیش کرنے میں جو کمال میرٹھی رکھتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔اسلامی تہذیب وثقافت کے رواج اپنے اور کائنات میں بکھری ہوئی خدا کی مخلوق اورمناظر فطرت سے اسمعیٰل نے جو خیالات پیش کئے ہیں وہ مسلم قوم کی مشاہداتی اور حسیاتی وادراکی صلاحیتوں کو نکھارے کا یہ ایک عمد ہ طریقہ ہے۔
وسیم حسن راجا
Adress:
Redwani Bala
Tehsil-Kulgam(J&K)
District-kulgam
P/o-Quimoh
Pnin-192102
Leave a Reply
1 Comment on " اسمعیل میرٹھی بحیثیت موضوعاتی شاعر"
[…] 74. اسمعیل میرٹھی بحیثیت موضوعاتی شاعر […]